مسلہ رفع یدین ۔ حصہ ہشتم
محترم قارئینِ کرام : اکثر اوقات رفع الیدین کے قائل غیرمقلدین کہتے ہیں کہ ترکِ رفع الیدین پر کوئی صحیح روایت نہیں ہے ۔ اگرچہ یہ فروعی مسئلہ ہے جیسا کہ ہم پہلے حصوں میں عرض کر چکے ہیں ہیں ہیں ، اس سے عقیدے پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کسی کی نماز کا قبول ہونا رفع الیدین کرنے یا نہ کرنے پر مشروط نہیں ہے ۔ لیکن اس فروعی مسئلے کی بنیاد پر کسی دوسرے پر فتوی بازی کرنا غلط ضرور ہے ۔ ہمارا مقصد فقط اتنا ہے کہ احباب کو معلوم ہو جائے کہ ترکِ رفع الیدین پر صحیح روایات بھی موجود ہیں ۔ لہٰذا اگر کوئی رفع الیدین نہيں کر رہا تو وہ بھی صحیح حدیث پر ہی عمل کر رہا ہے :
(أبو حنيفة) (عن) حماد (عن) إبراهيم (عن) الأسود أن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه كان يرفع يديه في أول التكبير ثم لا يعود إلى شيء من ذلك ويأثر ذلك عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا امام ابو حنیفہ حماد سے ، وہ ابراہیم سے وہ اسود سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم صرف پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے پھر اس کو لوٹاتے نہیں تھے اور وہ (حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) اس عمل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عمل سے ثابت کرتے تھے ۔
اس روایت کی سند امام بخاری و مسلم علیہما الرّحمہ کے اصول پر صحیح ہے ۔ سند میں موجود تمام راوی بخاری و مسلم سمیت دیگر محدثین کے رواۃ میں شامل ہيں ، اگر ان کو ضعیف تسلیم کر لیا جائے تو پھر اس ضعف کا حکم اس راوی کی تمام روایات پر لاگو ہو گا ، نتیجہ نکلے گا کہ ان راویوں کی تمام احادیث ضعیف ہیں ۔ ایک اور اصول ، اور یہ متفقہ اصول ہے کہ جس راوی کی تعدیل بیان کی جائے تو اس پر بحث نہیں ہو گی کہ تعدیل کیوں ہے ، اگر جرح ہو ، راوی کو ضعیف کہا جائے تو پھر بحث ہو گی کہ ضعف کیا ہے اور جرح کی وجہ کیا ہے ۔ راوی کے صحیح ہونے کے لئےفقط اتنا کافی ہے کہ آئمہ اس کی تعدیل بیان کر دیں ۔ یہ متفقہ اصول ہے، کسی کے ہاں اختلاف نہیں ۔
امام ابو حنیفہ نے حماد رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ، حماد کون ہیں ، ملاحظہ فرمائيں : حَمَّادُ بنُ أَبِي سُلَيْمَانَ مُسْلِمٍ الكُوْفِيُّ العَلاَّمَةُ ، الإِمَامُ، فَقِيْهُ العِرَاقِ، أَبُو إِسْمَاعِيْلَ بنُ مُسْلِمٍ الكُوْفِيُّ، أَصْلُهُ مِنْ أَصْبَهَانَ ۔
رَوَى عَنْ : أَنَسِ بنِ مَالِكٍ ۔
وَحَدَّثَ أَيْضاً عَنْ : أَبِي وَائِلٍ، وَزَيْدِ بنِ وَهْبٍ، وَسَعِيْدِ بنِ المُسَيِّبِ، وَعَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، وَجَمَاعَةٍ.
وَأَكْبَرُ شَيْخٍ لَهُ: أَنَسُ بنُ مَالِكٍ
حماد بن ابو سلیمان مسلم الکوفی ۔
العلامہ، الامام، فقیہ العراق، ابو اسماعیل بن مسلم الکوفی، یہ اصل میں اصبہان سے تھے ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کرتے ہیں ۔ (یعنی تابعین میں سے ہیں اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں) ۔ اسی طرح ابو وائل ، زید بن وھب ، سعید بن المسیب، عامر الشعبی اور ایک بڑی جماعت (کبائر تابعین ) سے حدیث روایت کرتے ہیں ۔ ان کے سب سے بڑے شیخ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (الكتاب : سير أعلام النبلاء ، المؤلف : شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى : 748هـ)۔(المحقق : مجموعة من المحققين بإشراف الشيخ شعيب الأرناؤوط، الناشر : مؤسسة الرسالة، الطبعة : الثالثة ، 1405 هـ / 1985 م جلد: 5، صفحہ: 231)
یہ وہ امام ہیں جن سے امام سفیان ثوری جیسے محدثین نے حدیث روایت کی ہے ۔
سعودی عرب کے تیار کردہ اسماء الرجال کے انسائیکلوپیڈیا (رواۃ التھذبین) کے مطابق :
(البخاري في الأدب المفرد – مسلم – أبو داود – الترمذي – النسائي – ابن ماجه)
رتبته عند ابن حجر : فقيه صدوق
رتبته عند الذهبي : ثقة إمام مجتهد
ان سے امام بخاری نے ادب المفرد میں ، امام مسلم نے، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ علیہمالرّحمہ نے روایات لی ہیں ۔ (باقی آئمہ کی لسٹ آگے درج ہے)
امام ابن حجر عسقلانی نے ان کو فقیہ ، صدوق (سچا ترین) لکھا ۔ امام ذہبی نے ان کو ثقہ اور امام مجتھد لکھا ۔
خود امام بخاری نے اسماء الرجال لکھتے وقت اپنی کتاب التاریخ الکبیر میں تابعین میں 75 نمبر پر ان کو رکھا، اور ان کی تعدیل فرمائي۔ ملاحظہ فرمائيں : حَماد بن أَبي سُليمان، وهو حَماد بْن مُسْلِم.سَمِعَ أَنسًا، وإبراهيم، سَمِعَ منه الثَّوريّ، وشُعبة.قَالَ أَبو نُعَيم: مات سنة عشرين ومئة.هو مَولَى آل أَبِي مُوسَى.أَبُو إِسْمَاعِيل، كَنّاهُ مُوسَى بْن إِسْمَاعِيل.وقَالَ سُليمان بْن حَرب: حدَّثنا حَماد بْن زَيْد، عَنْ شُعَيب بْن الحبحاب، قال: سَمِعتُ إِبْرَاهِيم يَقُولُ: لقد سألني هذا، يَعني حَمادًا، مثل ما سألني جميعُ الناس.وقال عَمرو بْن مُحَمد: سَمعت عَمرو بْن عثمان يَقُولُ: سَمعت عُبَيد اللهِ بْن عَمرو: مات حَماد بن أَبي سُليمان سنة تسع عشرة ومئة.(التاریخ الکبیر، مصنف: امام بخاری، جلد 3، صفحہ 18)
امام ابن سعد نے الطبقات الکبری جلد 3، صفحہ 324 پر ان کی تعدیل فرمائي اور ان کو فقیہ، محدث لکھا، حلال و حرام کے علم کا ماہر لکھا ۔
امام ابن حبان جو بخاری و مسلم کے شیوخ میں سے ہیں، انہوں نے حماد بن ابی سلیمان کو مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار میں تعدیل کے ساتھ لکھا ۔
امام ذہبی نے لکھا کہ : حماد بن أبى سليمان الكوفي، أحد أئمة الفقهاء.سمع أنس بن مالك، وتفقه بإبراهيم النخعي.روى عنه سفيان، وشعبة، وأبو حنيفة، وخلق.
حماد بن ابی سلیمان الکوفی آئمہ فقہاء میں سے ہیں، انس بن مالک سے سماع کیا یعنی حدیث پڑھی اور ابراہیم نخعی سے فقہ پڑھی، سفیان ثوری، شعبہ اور ابو حنیفہ کے علاوہ بڑے طبقے نے ان سے روایت کیا۔ اور یہ شعبہ وہ ہیں جو امام بخاری و مسلم کے مشترکہ استاد ہیں، اور دونوں شعبہ سے روایت کرتے ہیں ۔ (ميزان الاعتدال في نقد الرجال، المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي المتوفى: 748هـ)(تحقيق : علي محمد البجاوي، الناشر: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت – لبنان الطبعة: الأولى، 1382 هـ – 1963 م، جلد: 1، صفحہ: 595)
آج کل غیرمقلدین کے نزدیک سب سے اہم حوالہ شیخ ناصر الدین البانی کا ہے ۔ امام بخاری کی الادب المفرد کی تخریج کرتے ہوئے شیخ البانی نے بھی حماد کی اسناد والی حدیث کو صحیح قرار دیا ۔ اگر ان میں کوئی ضعف ہوتا تو سند کو صحیح قرار نہيں دیا جا سکتا تھا ۔ (الادب المفردحدیث نمبر 1206، 1104)
لہٰذا یہ تو ثابت ہوا کہ حماد بن ابی سلیمان ثقہ، صادق، عادل، حافظ راوی ہیں، محدث ہیں، امام ہیں، فقیہ ہیں۔ دنیا کے کسی محدث نے ان پر جرح نہيں کی بلکہ آئمہ نے ان کے نام کے ساتھ لا یحتج لکھا یعنی ان پر کبھی احتجاج (یعنی جرح) نہیں ہوئی، سب آئمہ ان کی ثقاہت پر گواہ ہیں۔
رہی اس حدیث میں باقی سند (عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ) کی بات تو وہ سند بعینہ بخاری ومسلم میں موجود ہے۔ اگر باقی سند میں سے ایک پر بھی ضعیف تو دور ہلکا سا بھی شبہ ہوتا تو حسن درجے کی سند ہوتی۔ اور بخاری ومسلم کی اسناد پر علماء کا اجماع ہے۔ بخاری ومسلم کے رجال پر بھی پر اتفاق ہے۔ باقی سند بعینہ بخاری ومسلم میں 82 جگہ پر موجود ہے۔ 42 روایات امام بخاری کی ہیں اور 40 روایات امام مسلم کی ہیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ حماد عن ابراہیم عن الاسود یہ ایسی سند ہے جو بخاری و مسلم کی شرائط اور تمام آئمہ کرام کے اتفاق کے ساتھ صحیح ہے۔ اس سے اوپر عبد اللہ بن مسعود ہیں۔ اور وہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ ان پر جرح ممکن نہیں۔
لہٰذا ابو حنیفہ عن حماد عن ابراہیم عن الاسود (ان) عبد اللہ بن مسعود کی سند صحیح ترین سند ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عبد اللہ بن مسعود کی روایت امام ابوداؤد تک پہنچتے پہنچتے کسی اور راوی کی وجہ سے حسن درجے میں آگئی ۔
اب محدثین کے ہاں اصول ہے کہ جب کوئی حدیث کسی صحابی سے صحیح ثابت ہو جائے اور اسی صحابی سے آگے روایت کرنے والے کسی دوسرے محدث تک اس کی سند صحیح نہ ہو، حسن یا ضعیف ہو تو اس حسن یا ضعیف سند کی وجہ سے ترک نہیں کریں گے بلکہ پہلی ثابت شدہ صحیح حدیث کی بنیاد پر اسی کو صحیح تسلیم کیا جائے گا۔ اور اس پر بھی اصول حدیث کا اتفاق ہے۔ جہاں تک ایک سند صحیح ثابت ہو جائے تو اس کی بنیاد پر اسی متن کی دوسری اسناد کو صحیح تسلیم کیا جائے گا اگرچہ باقی راویوں کا ضعف موجود ہو۔ تو ممکن ہے کہ ایک روایت کسی کتاب میں ضعیف ہو، حسن ہو، لیکن وہ ہی روایت کسی دوسری سند سے صحیح ہو، یا کسی دوسرے محدث کے ہاں سند کے تھوڑے سے اختلاف سے اوپر جا کر صحیح ہو جائے۔
لہٰذا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تمام روایات محدثین کے اس اصول پر صحیح ثابت ہوں گی۔ اور خاص طور پر امام اعظم کے پاس تو جو سند ہے وہ تو مکمل طور پر صحیح ہے۔ اسی طرح امام مالک کی اسناد صحیح ہیں۔
رفع یدین کی باقی بحث : (شرح صحیح مسلم شریف۔ جلد : اول۔ صفحہ: 1104)(فتاوی رضویہ شریف۔ جلد: دوم۔ صفحہ: 153) میں دیکھیں ۔
دیگر روایات : قال البخاري، اخبرنا محمود بن غيلان المروزي قال: حدثنا وكيع قال: حدثنا سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن علقمة، عن عبد الله انه قال:” الا اصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى فلم يرفع يديه إلا مرة واحدة”.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟ چنانچہ انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، تو انہوں نے صرف ایک بار رفع یدین کیا۔قال الشيخ الألباني : صحيح (سنن نسائی، كتاب التطبيق، باب: الرُّخْصَةِ فِي تَرْكِ ذَلِكَ)
حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عاصم يعني ابن كليب، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن علقمة، قال عبد الله بن مسعود:” الا اصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: فصلى، فلم يرفع يديه إلا مرة”، قال ابو داود: هذا حديث مختصر من حديث طويل وليس هو بصحيح على هذا اللفظ.
علقمہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟ علقمہ کہتے ہیں: پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی، تو رفع یدین صرف ایک بار (نماز شروع کرتے وقت) کیا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ایک طویل حدیث سے ماخوذ ایک مختصر ٹکڑا ہے، اور یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ صحیح نہیں۔(سنن الترمذی/الصلاة 79 (257)، سنن النسائی/الافتتاح 87 (1027)، التطبیق 20 (1059)، (تحفة الأشراف: 9468)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/388، 441)، وقد أخرجہ البخاري في رفع الیدین).(قال الشيخ الألباني: صحيح.سنن ابی داؤد، أبواب تفريع استفتاح الصلاة، باب مَنْ لَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ)
اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله بن المبارك، عن سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن علقمة، عن عبد الله، قال:” الا اخبركم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فقام فرفع يديه اول مرة، ثم لم يعد”.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ بتاؤں؟ چنانچہ وہ کھڑے ہوئے اور پہلی بار اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، پھر انہوں نے دوبارہ ایسا نہیں کیا۔(سنن ابی داود/الصلاة 119 (748، 751)، سنن الترمذی/الصلاة 76 (257)، (تحفة الأشراف: 9468)، مسند احمد 1/388، 441، 442، ویأتی عند المؤلف برقم: 1059 (صحیح) . (قال الشيخ الألباني: صحيح سنن نسائی، باب سجود القرآن، بَابُ : تَرْكِ ذَلِكَ)
حدثنا عبد الله بن محمد الزهري، حدثنا سفيان، عن يزيد، نحو حديث شريك، لم يقل: ثم لا يعود، قال سفيان، قال لنا بالكوفة بعد: ثم لا يعود، قال ابو داود، وروى هذا الحديث هشيم، وخالد، وابن إدريس، عن يزيد لم يذكروا: ثم لا يعود.
اس طریق سے بھی سفیان سے یہی حدیث گذشتہ سند سے مروی ہے، اس میں ہے کہ ”آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلی دفعہ اٹھایا“، اور بعض لوگوں کی روایت میں ہے کہ ”ایک بار اٹھایا“۔(انظر حدیث رقم: (748)، (تحفة الأشراف: 9468) (صحیح)(قال الشيخ الألباني: صحيح سنن ابی داؤد، أبواب تفريع استفتاح الصلاة، باب: باب مَنْ لَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ)
حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَكٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، «أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرِ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا . (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصلوۃ، باب: من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لا یعود، حدیث نمبر: 2444)
امام ابن ابی شیبہ نے پورا باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے: مَنْ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ ثُمَّ لَا يَعُودُ، اور یہ وہ امام ابن ابی شیبہ ہیں جو امام بخاری کے استاد ہیں، امام بخاری نے صحیح بخاری ميں ان سے اخذ روایت کیا ہے۔
امام ابن ابی شیبہ رحمة اللہ علیہ نے اس باب میں 16 روایات لکھی ہیں ۔ مذکورہ بالا روایت میں تین راوی ہیں ، تینوں بخاری کے رجال میں سے ہیں ۔ (مزید حصّہ نہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment