سچ اور جھوٹ بولنا اسلام کی نظر میں
محترم قارئین کرام : اللہ تبارک و تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتاہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 119)
ترجمہ : اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو ۔
ان لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ جو ایمان میں سچے ہیں ، مخلص ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِخلاص کے ساتھ تصدیق کرتے ہیں ۔ حضرت سعید بن جبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ صادقین سے حضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا مراد ہیں ۔ ابنِ جریج کہتے ہیں کہ اس سے مہاجرین مراد ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی نیتیں سچی رہیں ، ان کے دل اور اَعمال سیدھے رہے اور وہ اخلاص کے ساتھ غزوہ تبوک میں حاضر ہوئے ۔ (تفسیر خازن التوبۃ : ۱۱۹، ۲ / ۲۹۳)
وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ ۔ (پ۲۴، سور الزمر: ۳۳)
ترجمہ : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں ۔ اس آیت مبارکہ میں سچ لے کر تشریف لانے والے سے مراد نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہیں اور تصدیق کرنے والے سے مراد امیر المؤمنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ یا تمام مؤمنین ہیں ۔ (تفیسر خزائن العرفان، پ۲۴، الزمر : ۳۳)
ایک اور مقام پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے : مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِۚ ۔ (پ۲۱، الاحزاب: ۲۳)
ترجمہ : مسلمانوں میں کچھ وہ مرد ہیں جنہوں نے سچا کر دیا جو عہد اللہ سے کیا تھا ۔
سچائی ایک ایسی بہترین خصلت ہے جس سے ایمان اور اسلام کی تکمیل ہوتی ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے اور اس سے متصف ہونے والوں کی تعریف فرمائی ہے ۔ یہ ایک ایسی خصلت ہے کہ جو اس سے متصف ہوتا ہے اس کےلیے نجات کا باعث ہوتی ہے اور اس کے لیے وہ زینت ، تاج اور وقار ہوتی ہے ۔ اس کے برعکس کذب ایک بڑی خیانت کا عنوان ہے اور نفاق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔ یہ بندے کو اللہ سے دور کرتی ہے ۔ بندہ برابر سچ بولتا ہے یہاں تک اللہ کے نزدیک صدیق لکھا جاتا ہے اور وہ برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے پاس کذاب لکھ دیا جاتا ہے ۔
حضرت علامہ سید شریف جرجانی رحمة اللہ علیہ صدق یعنی سچ کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : صدق کا لغوی معنی واقع کے مطابق خبر دینا ہے ۔ (التعریفات للجرجانی باب الصاد صفحہ نمبر ۹۵)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : صدق کو لازم رکھو، کیونکہ صدق نیکی کی ہدایت دیتا ہے اور نیکی جنت کی ہدایت دیتی ہے ، ایک انسان ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچ کا قصد کرتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے اور تم جھوٹ سے بچو اور جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ کی طرف لے جاتے ہیں ، ایک بندہ ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا ہے ، حتیٰ کہ وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 6094، صحیح مسلم رقم الحدیث : 2607، سنن ابودائود رقم الحدیث : 4989، سنن الترمذی رقم الحدیث : 1971، مصنف ابن ابی شیبہ ج 8 ص 550، مسند احمد ج 3 ص 344، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : 2040، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 3379، المعجم الاوسط رقم الحدیث : 9011، المعجم الصغیر رقم الحدیث : 673، المستدرک ج 2 ص 50)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جب کوئی بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو کی وجہ سے فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 1972، المعجم الاوسط رقم الحدیث : 7394، حلیتہ الاولیاء ج 8 ص 197، الکامل لا بن عدی ج 1 ص 25،چشتی)
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میں نے خواب دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور انہوں نے کہا آپ نے جس شخص کو دیکھا تھا کہ اس کا جبڑا چیرا جارہا تھا یہ وہ شخص تھا جو جھوٹ بولتا تھا ، پھر وہ جھوٹ اس سے نقل ہو کر دنیا میں پھیل جاتا تھا، اس کے ساتھ قیامت تک یہی کیا جاتا رہے گا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 6096، مطبوعہ دار ارقم بیروت)
حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : کیا وجہ ہے کہ میں تم کو جھوٹ پر اس طرح گرتے ہوئے دیکھتا ہوں جس طرح پروانے آگ پر کرتے ہیں ۔ ہر جھوٹ لامحالہ لکھا جاتا ہے سوا اس کے کہ کوئی شخص جنگ میں جھوٹ بولے، کیونکہ جنگ ایک دھوکا ہے، یا کوئی شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوت بولے ، یا کوئی شخص اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولے ۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : 4798، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : سنجیدگی سے جھوٹ بولنا جائز ہے نہ مذاق ہے ۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : 4790)
علامہ شامی نے امام غزالی علیہما الرّحمہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر کسی مسلمان کی جان یا اس کی امانت کو بچانا جھوٹ بولنے پر موقوف ہو تو جھوٹ بولنا واجب ہے ، نیز اگر اس نے تنہائی میں کوئی بےحیائی کا کام ہو تو اس کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے کیونکہ بےحیائی کا اظہار کرنا بھی بےحیائی ہے اور مبالغہ میں جھوٹ جائز ہے جیسے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا تھا رہا ابوجہم وہ تو اپنے کندھے سے لاٹھی اتارتا ہی نہیں اور توریہ کرنے میں جھوٹ سے بچنے کی وسیع گنجائش ہے ۔ (رد المحتار ج 5 ص 274، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت 1407 ھ،چشتی)
ایک شخص نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں آپ پر ایمان لانا چاہتا ہوں مگر میں شراب نوشی ، زنا کرنے، چوری کرنے اور جھوٹ بولنے سے محبت رکھتا ہوں اور لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ ان چیزوں کو حرام کہتے ہیں اور مجھ میں ان تمام چیزوں کے ترک کرنے کی طاقت نہیں ہے ، اگر آپ اس قناعت کرلیں کہ میں ان میں سے کسی ایک چیز کو ترک کر دوں تو میں آپ پر ایمان لے آتا ہوں ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تم جھوٹ بولنا چھوڑ دو ، اس نے اس کو قبول کرلیا اور مسلمان ہوگیا ۔ جب وہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس سے گیا تو اس کو شراب پیش کی گئی ، اس نے سوچا اگر میں نے شراب پی اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے شراب پینے کے متعلق سوال کیا اور میں نے جھوٹ بولا تو عہد شکنی ہوگی اور اگر میں نے سچ بولا تو آپ مجھ پر حد قائم کردیں گے پھر اس نے شراب کو ترک کردیا پھر اس کو زنا کرنے کی پیشکش ہوئی اس کے دل میں پھر یہی خیال آیا ، اس نے پھر اس کو بھی ترک کردیا اسی طرح چوری کا معاملہ ہوا پھر وہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا آپ نے بہت اچھا کیا کہ مجھے جھوٹ بولنے سے روک دیا اور اس نے مجھ پر تمام گناہوں کے دروازے بند کردیئے اور پھر وہ تمام گناہوں سے تائب ہوگیا ۔ (تفسیر کبیر ج 6 ص 168، اللباب ج 10 ص 235)
صدق کی عقلی فضیلت شیطان کا یہ قول قرآنِ پاک میں ہے : فبعزنک لا غوینھم اجمعین۔ الا عبادک منھم المخلصین ۔ (سورہ ص : 83۔ 82) ، تیری عزت کی قسم میں ضرور ان سب کو بہکا دوں گا ماسوا تیرے ان بندوں کے جو برگزیدہ ہیں ۔
اگر شیطان صرف اتنا کہتا کہ میں تیرے سب بندوں کو گمراہ کر دوں گا تو یہ جھوٹ ہوتا ، اس نے جھوٹ سے بچنے کے لیے کہا ماسوا تیرے ان بندوں کے جو برگزیدہ ہیں تو غور کرنا چاہیے کہ جھوٹ اتنی بری چیز ہے کہ شیطان بھی اس سے احتراز کرتا ہے تو مسلمانوں کو اس سے کتنا زیادہ بچنا چاہیے ۔ صدق کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ ایمان قول صادق ہے اور ایمان سب سے بڑی عبادت ہے اور جھوٹ کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ کفر (یعنی خدا کے شریک ہیں) قول کاذب ہے اور کفر اور شرک سب سے بڑا گناہ ہے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک سچائی بھلائی کی طرف ہدایت دیتی ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق ہو جاتا ہے اور جھوٹ بدکاریوں کی طرف لے کر جاتا ہے اور بدکاریاں جہنم میں پہنچاتی ہیں اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے ۔ (بخاری کتاب الادب باب قول اللہ تعالی : یا ایّہا الذین آمنوا اتقوا اللہ ۔ ۴ / ۱۲۵، الحدیث: ۶۰۹۴)
حضرت سمرہ بن جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں نے دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آ کر کہنے لگے کہ جس شخص کو آپ نے (شبِ معراج) دیکھا کہ ا س کے جبڑے چیرے جا رہے ہیں وہ بہت جھوٹا آدمی ہے ، ایسی بے پر کی اڑاتا تھا کہ اس کا جھوٹ اطراف ِعالَم میں پھیل جاتا تھا ، پس قیامت تک ا س کے ساتھ یہی کیا جاتا رہے گا ۔ (بخاری کتاب الادب باب قول اللہ تعالی : یا ایّہا الذین آمنوا اتقوا اللہ، ۴ / ۱۲۶، الحدیث ۶۰۹۶)
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : بے شک صدق (سچ) نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور بے شک آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں صدیق (بہت بڑا سچا) لکھ دیا جاتا ہے اور بے شک کذب (جھوٹ) گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے اور بے شک آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں کذاب (بہت بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے ۔ (مسلم، کتاب البروالصلۃ والآداب، باب قبح الکذب ۔۔۔الخ، ص۱۴۰۵، حدیث: ۲۶۰۷)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : آدمی سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی کو تلاش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے پاس صدیق لکھ دیا جاتا ہے ، اور ایک آدمی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کو تلاش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے پاس جھوٹا لکھا جاتا ہے ۔ (بخاري كتاب الأدب باب قول الله تعالىٰ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ ۔ رقم: 6094)۔(مسلم، كتاب البر و الصلة والآداب، باب قبح الكذب ...، رقم : 2607،چشتی)
ہرمسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے دِینی و دُنیوی تمام معاملات میں سچ بولے کہ سچ بولنا نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا کام ہے ۔
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : سچائی کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ یہ نیکی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں جنت میں (لے جانے والے) ہیں اور جھوٹ سے بچتے رہو کیونکہ یہ گناہ کے ساتھ ہے اور یہ دونوں جہنم میں (لے جانے والے) ہیں ۔ (ابن حبان، کتاب البر، باب الکذب،۷ / ۴۹۴، حدیث: ۵۷۰۴)
جب بندہ سچ بولتا ہے تو نیکی کرتا ہے اور جب نیکی کرتا ہے محفوظ ہوجاتا ہے اور جب محفوظ ہوجاتا ہے تو جنت میں داخل ہو جاتا ہے ۔ (مسندامام احمد، مسند عبداللہ ابن عمرو بن العاص ، ۲ / ۵۸۹، حدیث: ۶۶۵۲)
تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں : (1) جب بولو تو سچ بولو (2) جب وعدہ کرو تو اسے پورا کرو (3) جب امانت لو تو اسے ادا کرو (4) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو (5) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کرو اور (6) اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو ۔ (ابن حبان کتاب البروالاحسان باب الصدق ،۱ / ۲۴۵، حدیث: ۲۷۱)
حضرت سیدنا عبدُاللہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : چار باتیں ایسی ہیں کہ جس میں ہوں گی وہ نفع پائے گا : (1) صدق(یعنی سچ) (2) حیا (3)حسن اخلاق اور (4) شکر ۔حضرت سیدنا ابوسلیمان دارانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : صدق (یعنی سچ) کو اپنی سواری ، حق کو اپنی تلوار اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کو اپنا مطلوب ومقصود بنالو ۔ حضرت سیدنا محمد بن علی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : ہم نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دِین کو تین اَرکان پر مبنی پایا : (1) حق (2) صدق (یعنی سچ) اور (3) عدل ۔ پس حق اَعضاء پر ، عدل دِلوں پر اور صدق عقلوں پر ہوتا ہے ۔ (احیاء العلوم،۵ / ۲۸۹)
سچ بولنے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حکم پر عمل کرتا ہے ۔
سچ بولنے والے کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا حاصل ہوتی ہے ۔
سچ بولنے والے کی روزی میں برکت ہوتی ہے ۔سچ بولنے والے کو مؤمن قرار دیا گیا ہے ۔
سچ بولنے والا نفاق سے دُور ہوجاتا ہے ۔
سچ بولنے والے کا دِل روشن ہو جاتاہے ۔
سچ بولنے والے کا ضمیر مطمئن ہوتاہے ۔
سچ بولنے والے کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
سچ بولنے والے کا رحمت الٰہی سے خاتمہ بالخیر ہوگا ۔ ان شاء اللہ ۔
سچ بولنے والے کو رحمت الٰہی سے قبر و حشر کی تکلیفوں سے امان ملے گی ۔ ان شاء اللہ ۔
سچ بولنے والے کو جنت میں داخلہ نصیب ہوگا ۔ ان شاء اللہ ۔
نبی کریم مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد رمایا : جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو گناہ کرتاہے اورجب گناہ کرتا ہے تو نا شکری کرتا ہے اور جب ناشکری کرتا ہے تو جہنم میں داخل ہوجاتاہے ۔ (مسندامام احمد، مسند عبداللہ ابن عمرو بن العاص ،۲ / ۵۸۹، حدیث: ۶۶۵۲)
منافق کی تین علامتیں ہیں : (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے اور (3) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے ۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب خصال المنافق، ص۵۰، حدیث: ۱۰۷)
کتنی بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے کوئی بات کہو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو ۔ (ابوداود، کتاب الادب، باب فی المعاریض،۴ / ۳۸۱، حدیث: ۴۹۷۱)
جھوٹ بولنے والا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نا فرمان ہے ۔ جھوٹ بولنے والے پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی لعنت ہے ۔ جھوٹ بولنا منافق کی نشانی قرار دیا گیا ہے ۔ جھوٹ بولنے والے کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ۔ جھوٹ بولنے والا مسلمانوں کو دھوکا دینے والا ہے ۔ جھوٹ بولنے والے کا ضمیر مطمئن نہیں ہوتا ۔ جھوٹ بولنے والے کی روزی سے برکت اٹھالی جاتی ہے۔ جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ ہوجاتا ہے ۔ جھوٹ بولنے والے کو قبر و حشر کی سختیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا فرمان ہے : اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ۔ (سورہ النحل آیت نمبر 105)
ترجمہ : جھوٹا بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اور وہی جھوٹے ہیں ۔
کافروں کی طرف سے قرآنِ پاک سے متعلق نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر جو اپنی طرف سے قرآن بنالینے کا بہتان لگایا گیا تھا اس آیت میں اس کا رد کیا گیا ہے ۔ آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جھوٹ بولنا اور بہتان باندھنابے ایمانوں ہی کا کام ہے۔(تفسیر خازن، النحل : ۱۰۵، ۳ / ۱۴۴،چشتی)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں بدترین گناہ ہے ۔ قرآنِ مجید میں اس کے علاوہ بہت سی جگہوں پر جھوٹ کی مذمت فرمائی گئی اور جھوٹ بولنے والوں پر اللّٰہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ۔ بکثرت اَحادیث میں بھی جھوٹ کی برائی بیان کی گئی ہے ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : صدق کو لازم کرلو ، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے ۔ آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو ، کیونکہ جھوٹ فُجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے ، یہاں تک کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے ۔ (بخاری، کتاب الادب، باب قول اللّٰہ تعالی: یا ایّہا الذین آمنوا اتقوا اللّٰہ وکونوا مع الصادقین، ۴ / ۱۲۵، الحدیث: ۶۰۹۴)(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ، ص۱۴۰۵، الحدیث: ۱۰۵(۲۶۰۷))
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور جھوٹ باطل ہی ہے (یعنی جھوٹ چھوڑنے کی چیز ہی ہے) اس کے لیے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے جھگڑا کرنا چھوڑا حالانکہ وہ حق پر ہو یعنی حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہیں کرتا ، اس کے لیے جنت کے وسط میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے اپنے اَخلاق اچھے کیے ، اس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجے میں مکان بنایا جائے گا ۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی المراء، ۳ / ۴۰۰، الحدیث: ۲۰۰۰)
حضرت سفیان بن اَسِید حَضْرَمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بڑی خیانت کی یہ بات ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں سچا جان رہا ہے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے ۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی المعاریض، ۴ / ۳۸۱، الحدیث: ۴۹۷۱)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : بندہ بات کرتا ہے اور محض اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیان کے فاصلہ سے زیادہ ہے اور زبان کی وجہ سے جتنی لغزش ہوتی ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی قدم سے لغز ش ہوتی ہے ۔ ( شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۱۳، الحدیث: ۴۸۳۲)
خوفِ خدا تمام گناہوں سے بچنے کی اصل ہے ، جب بندے کے دل میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف پیدا ہوجاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو تمام گناہوں سے بچانے کی کوشش کرتا ۔
کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں سے کاروباری معاملات میں جھوٹ اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں ، اس کی ایک وجہ اِحترامِ مسلم کا نہ ہونا بھی ہے ، جب بندے کے دل میں اپنے مسلمان بھائیوں کا احترام پیدا ہوجاتا ہے توہ ان سے جھوٹ بولنے ، دھوکہ دہی سے کام لینے اور خیانت کرنے میں عار محسوس کرتا اور سچ بولتا ہے ، لہٰذا دل میں احترام مسلم پیدا کیجئے کہ اس کی برکت سے جھوٹ سے بچنے اور سچ بولنے میں مدد ملے گی ان شاء اللہ ۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بندہ اپنی عزت بچانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے کہ اگر سچ بولے گا تو لوگ ملامت کریں گے، برا بھلا کہیں گے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ دُنیوی ذلت کے مقابلے میں جہنم کی اُخروی ذلت اور عذابات کو پیش نظر رکھے کہ دُنیوی ذلت تو چند لمحوں کی ہے اور عنقریب ختم ہوجائے گی لیکن اُخروی ذلت تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے ، لہٰذا کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کیجئے ، ہمیشہ سچ بولیے ۔
بسا اوقات بظاہر تھوڑے سے دُنیوی فائدے کے پیش نظر بھی بندہ جھوٹ بول لیتا ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جھوٹ بولنا فقط پہلی بار آسان ہوتا ہے اس کے بعد اس میں مشکل ہی مشکل ہوتی ہے ، نقصان ہی نقصان ہوتا ہے، جبکہ سچ بولنا فقط پہلی بار مشکل ہوتا ہے بعد میں اس میں آسانیاں ہی آسانیاں ہوتی ہیں ، جھوٹ بولنے میں بعض وقتی دُنیوی فوائد مگر آخرت کے بہت نقصانات ہیں ، جبکہ سچ بولنے میں کبھی ہوسکتا ہے کہ تھوڑا سا دُنیوی نقصان ہو مگر اس میں اُخروی طور پر فائدے ہی فائدے ہیں ، لہٰذا ہمیشہ سچ بولیے ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے فضل وکرم اور اپنی رحمت سے سچ بولنے کی برکت سے بظاہر تھوڑے سے دُنیوی نقصان کو بھی نفع میں تبدیل فرمادے گا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment