Wednesday, 5 May 2021

فضائلِ شبِ قدر ، قدر و منزلت والی رات

 فضائلِ شبِ قدر ، قدر و منزلت والی رات

محترم قارئینِ کرام : رمضان المبارک کا آخری عشرہ نہایت عظیم الشان اور اہم ہے ۔ شب قدر، قدر و منزلت والی رات ہے۔ اس رات کی بے شمار برکات ہیں۔ قرآن و حدیث میں اس رات کے بے شمار فضائل و برکات موجود ہیں۔ شب قدر کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس کے متعلق قرآن کریم میں مکمل سورت نازل ہوئی ہے ۔ رب تبارک و تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے : ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لیلۃ القدر کی فضیلت کے بیان میں پوری سورت نازل فرمائی ۔ ارشاد ہوتا ہے :  إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِِo وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِِo لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍٍo تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍٍo سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ ۔ (سورۃ القدر، 97 :  1. 5)

ترجمہ : بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہےo اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہےo اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیںo یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے ۔


لیلۃ القدر کی فضیلت میں کتبِ حدیث بہت سی روایات مذکور ہیں۔ ذیل میں چند ایک احادیث کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ يْمَانًا وَّاحْتِسَاباً غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ۔

ترجمہ : جو شخص لیلۃ القدر میں حالتِ ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرتا ہے ، اُس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل ليلة القدر، 2 :  709، رقم :  1910،چشتی)


مندرجہ بالا ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں جہاں لیلۃ القدر کی ساعتوں میں ذکر و فکر اور طاعت و عبادت کی تلقین کی گئی ہے وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو ، دکھاوا اور ریا کاری نہ ہو پھر یہ کہ آئندہ برائی نہ کرنے کا عہد کرے ۔ اس شان سے عبادت کرنے والے بندے کے لئے یہ رات مژدۂ مغفرت بن کر آتی ہے ۔ لیکن وہ شخص محروم رہ جاتا ہے جو اس رات کو پائے مگر عبادت نہ کرسکے ۔


حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کی آمد پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ ماہ جو تم پر آیا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویا وہ ساری خیر سے محروم رہا ۔ اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتاً محروم ہو ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل شهر رمضان، 2 :  309، رقم :  1644،چشتی)


ایسے شخص کی محرومی میں واقعتا کیا شک ہو سکتا ہے جو اتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوا دے۔ جب انسان معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کر گزار لیتا ہے تو اَسّی (80) سال کی عبادت سے افضل بابرکت رات کے لئے جاگنا کوئی زیادہ مشکل کام تو نہیں ۔


حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : شب قدر کو جبرائیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں ۔ وہ ہر اُس شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے بیٹھے (کسی حال میں) اللہ کو یاد کر رہا ہو ۔ (بيهقی، شعب الإيمان، 3 :  343، رقم :  3717،چشتی)


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان ایام میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّمکے معمولات کو یوں بیان کرتی ہیں : كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، إذا دخل العشرُ ، أحيا الليلَ وأيقظ أهلَه وجدَّ وشدَّ المِئزَرَ ۔ ( صحيح البخاري: 2024 صحيح مسلم: 1174)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب رمضان کے آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو عبادت وریاضت کے لیے اپنی کمر مضبوط کرلیتے ، شب بیداری کرتے اور اپنے گھروالوں کو کو بیدار کیا کرتے تھے ۔


آخر کیوں ؟ اس لیے کہ اسی عشرے کے طاق راتوں کی ایک رات شب قدر ہوتی ہے جس کی عبادت وریاضت ہزار مہینے یعنی 83 سال چار مہینے کی عبادت سے بہتر ہے۔ اسی رات میں قرآن کریم کا نزول ہوا، اس رات میں فرشتے اور روح الأمین نازل ہوتے ہیں۔ اور اس رات  میں پورے سال واقع ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

یہ رات فضائل کی ہے برکات کی شب ہے ، یہ رات فرشتوں کی ملاقات کی شب ہے ، یہ رات ریاضت کی مناجات کی شب ہے ، یہ رات فقط لطف و عنایات کی شب ہے ، اس رات کے لمحے میں تقدیس ہے شامل ، یہ رات اگر مل جائے تو ہے زیست کا حاصل ۔


اب سوال یہ ہے کہ اس رات کو شب قدر یا لیلتہ القدر کیوں کہتے ہیں ؟ تو اس کی بابت مفسرین کرام کے درمیان اختلاف ہے کیوں کہ عربی زبان میں قدر کے بہت سارے معانی ہوتے ہیں ۔


کچھ لوگوں نے کہا کہ قدر کا معانی تعظیم کے ہیں اس لیے اس رات کو شب قدر کہتے ہیں، ارشاد باری تعالی ہے : مَا قَدَرُوا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِهِ ۔ (سورہ الحج 74) ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے بعض لوگوں نے کہا: قدر کا معنی اندازہ وفیصلہ کرنے کے ہیں ،اور چوں کہ اس رات سال بھر کے واقعات کے فیصلے کیے جاتے ہیں ، اس لیے اس رات کو شب قدرکہتے ہیں ۔


اللہ تعالی کا ارشاد ہے : فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ (سورہ الدخان 4) یہ وہ رات ہے جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ ہوتا ہے ۔


کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قدر کے معنی تنگی کے ہیں اور چوں کہ اس رات اتنی کثرت سے زمین پر فرشتے اُترتے ہیں کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے،اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ ( سورہ طلاق 7) اور جس کا رزق تنگ کر دیا گیا ہو ۔


جبکہ دوسرے لوگوں کا کہنا ہےکہ قدر کے معنی قدرو منزلت کے ہیں، چونکہ اس رات میں جو عبدت کی جاتی ہے اللہ تعالی کے ہاں اس کی بڑی قدر ہے،اس پر بڑا ثواب ہے اس لیے اس کو شب قدر کہتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے  لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے ۔ 


 اللہ تعالی نے اس رات کی اہمیت پر مشتمل ایک پوری سورہ نازل کردی ہے جسے ہم سورۃ القدر کے نام سے جانتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالی ہے : إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴿١﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ﴿٢﴾ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ﴿٣﴾ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ ﴿٤﴾ سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ ﴿٥﴾

ترجمہ : ہم نے اِس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے (1) اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ (2) شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے(3) فرشتے اور روح اُس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں (4) وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک۔


اور دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے، إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ ﴿٣﴾ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ (سورہ الدخان 2-4) کہ ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے (3) یہ وہ رات ہے جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ ہوتا ہے ۔


اس رات کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یوں فرمایا : ومَن قامَ ليلةَ القدرِ إيمانًا واحتِسابًا  غُفِرَ لَهُ ما تقدَّمَ من ذنبِهِ (صحیح البخاری: 2014 صحیح مسلم: 760،چشتی)


یعنی جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور اللہ تعالی سے اجروثواب کی نیت سے عبادت میں مشغول رہا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو گئے ۔


بڑا بد قسمت ہے وہ شخص جو اس رات کے فیضان سے محروم رہا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا : إنَّ هذا الشَّهرَ قد حضركموفيه ليلةٌ خيرٌ من ألفِ شهرٍ من حُرِمها فقد حُرم الخيرَ كلَّه ولا يُحرمُ خيرَها إلَّا محرومٌ (صحيح ابن ماجه: 1341)

یعنی تمہارے اوپر ایک ایسا مہینہ آیا ہے جس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو شخص اس رات سے محروم ہوگیا وہ سارے خیر سے محروم ہوگیا اور اس کی بھلائی سے  وہی شخص محروم رہتا ہے جو واقعی محروم ہو ۔


اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاشیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے : أن رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال:تَحَرَّوْا ليلة القدرِ في الوِتْرِ، منالعشرِ الأواخرِ من رمضانَ )  صحيح البخاری: 2017،چشتی)

اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ :  شب قدر کو رمضان  کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔


گویا کہ شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کسی ایک رات میں ہوتی ہے ، البتہ اس رات کی تعین کے تعلق سے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اور قاضی شوکانی نے نیل الأوطار میں چالیس سے زائد اقوال نقل کیا ہے ، ویسے اس سلسلے میں ٹھوس بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی حکمت بالغہ اور رحمت کاملہ سے اس رات کو آخری عشرہ کی کسی طاق رات میں پوشیدہ رکھا ہے تاکہ امت مسلمہ کے افراد اس کی تلاش و جستجو میں لگے رہیں ۔


البتہ بعض احادیث میں مبارکہ میں شب قدر کی کچھ علامتیں بیان کی گئی ہیں جن کو دیکھ کر ہم شب قدر کی پہچان کر سکتے ہیں ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے جسے امام مسلم نے روایت کیا ہے : أن تطلعَ الشمسُ في صبيحةِ يومِها بيضاءَ لا شُعاعَ لها . (صحيح مسلم: 762)

یعنی شب قدر کے بعد کی صبح جب سورج طلوع ہوگا وہ سفید ہوگا اور اس میں روشنی نہیں ہوگی ۔


اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ليلةُ القدْرِ ليلةٌ سمِحَةٌ ، طَلِقَةٌ ، لا حارَّةٌ ولا بارِدَةٌ ، تُصبِحُ الشمسُ صبيحتَها ضَعيفةً حمْراءَ(صحيح الجامع: 5475)    

یعنی اس کی رات صاف پر سکون سردی وگرمی سے خالی ہوتی ہے ، اور اس کی صبح سورج دھیمی روشنی والا سرخ رنگ کا نکلتا ہے ۔


بہر کیف ان عظیم راتوں میں بکثرت نماز، تلاوت قرآن، ذکرو فکر اور توبہ واستغفار کا اہتمام کرنا چاہئے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بتائی ہوئی اس دعا کا کثرت سے ورد کرنا چاہئے، کیوں کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کہا تھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب ہم اس رات کو پائیں تو کیا پڑھیں ؟ تو آپ نے یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی تھی : اللَّهمَّ إنَّكَ عفوٌّ تحبُّ العفوَ فاعفُ عنِّي 

ترجمہ : اے میرے اللہ تو بڑا معاف کرنے والا ہے تو عفو درگزر کو پسند کرتا ہے اس لیے مجھے معاف فرمادے ۔ (سنن الترمذي: 3513،چشتی)


لیکن بائے افسوس : جب ہم اس تعلق سے مسلمان کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے، کہ اکثر لوگ اس رات کی اہمیت سے باکل بے خبر ہیں ، عام راتوں کی طرف ان راتوں کو بھی گزار دیتے ہیں، طرفہ تماشہ یہ کہ کچھ لوگ ان مبارک راتوں میں اللہ کی نافرمانی اور کفر وعصیان کے کاموں میں لگے رہتے ہیں ۔


کچھ لوگ ان راتوں میں جاگتے بھی ہیں تو ان کا جاگنا بطور فنکشن ہوتا ہے ، مساجد میں روشنی کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے لیکن دل کا چراغ بجھا ہوتا ہے ، لوگوں کا ہجوم، گرم گرم چائے ، مٹھائیوں کا دور ، لاؤڈ اسپیکر پر قرآن خوانی اور نعتیہ کلام کے پروگرام ضرور ہوتے ہیں لیکن دل لذت آشنائی سے خالی ہوتا ہے ۔ ضرورت ہے کہ ہم شب قدر کی عظمت ورفعت کو دل کی گہرائی سے جانیں ، اس رات کی عبادت ہزار مہینے یعنی  83 سال چارمہینے کی عبادت سے بہتر ہے ، اس اہم نکتے کو اپنے ذہن ودماغ میں بٹھائیں اور آج ہی سے کمرکس لیں کہ عشرہ اواخر اور بالخصوص اس کی طاق راتوں 21/23/25/27/29 میں سستی وکسلمندی کو بالکل قریب نہ ہونے دیں گے ، اس تعلق سے اللہ تعالی سے دعا کریں کہ وہ ہم سب اس کی توفیق بخشے ۔ ان ایام سے فائدہ اٹھانے اور اپنے اندر جمعیت باطنی پیدا کرنے کا سب سے آسان طریقہ اعتکاف ہے کیوں کہ اس میں انسان اپنی دنیاوی مشغولیات سے الگ ہوکر صرف اللہ تعالی کی رضا جوئی اور اس کے تقرب کے حصول میں لگ جاتا ہے، یہی وہ بنیادی مقصد تھا جس کی خاطر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عشرہ اواخر میں ہرسال دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے اور انتقال کے سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔ اس سے پہلے شب قدر ہمیں یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہم آپسی عداوت وچبقلش ، بغض و حسد ، جھگڑا لڑائی اور نزاع سے بالکل دوری اختیار کرلیں، کیوں کہ یہ چیزیں خیرو بھلائی کے روکنے کا باعث ہیں ۔


صحیح بخاری میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں : خرج النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم  يُخبرنا بليلةِ القدرِ، فتلاحَى رجلانِ من المسلمينَ، فقال : ( خرجت لأخبركم بليلةِ القدرِ، فتلاحَى فُلانٌ وفُلانٌ فرفعت (صحيح البخاری: 2023،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نکلے تاکہ ہمیں شب قدر کے بارے میں بتائیں اس بیچ دو آدمی باہم جھگڑنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میں نکلا تھا تاکہ تمہیں شب قدر کی بابت بتاؤں لیکن فلاں فلاں باہم جھگڑ نے لگے اس لیے اس کی تعیین اُٹھا لی گئی ۔


حضرت ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سیدعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جس نے لیلۃ القدر میں ایمان واحتساب کے ساتھ قیام فرمایا ، اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں ۔ (بخاری شریف)


قیام کے معنی


قیام کے معنی ایک تو قیام فی الصلوٰۃ کے ہیں یعنی لیلۃ القدر میں نماز پڑھنا یا قیام نیند کے قیام ہے ، یعنی لیلۃ القدر کو جاگ کر گزارنا ، خواہ نماز کے ساتھ یا اذکار کے ساتھ ۔ قیام سے مراد رات کا قیام ہے یا بعض کا ۔ اکثر شارحین نے اس سے بعض رات کے حصہ کا قیام مراد لیا ہے ۔


ایمان و احتساب کے معنی


احادیث میں احتساب کے لفظ کا استعمال کثرت سے ہوا ہے ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ہر عمل کا مدار ایمان پر ہے اور اعمال کا ثواب نیت پر موقوف ہے لیکن نیت مرتبہ علم کا ہے اور احتساب علم العلم کا مرتبہ ہے یعنی احتساب کی نیت سے بھی اوپر ایک درجہ ہے اور مراد اس سے نیت کا استحضار اور نیت کی زیادتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس لفظ کا استعمال شارع نے ذھول و مشقت کے مواقع پر کیا ہے ۔ مثلا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا جس کا بچہ مرجائے تو اس کو چاہئے کہ صبرکرے اور احتساب کرے۔ اب دیکھئے بچہ کا مرجانا آفت سماوی ہے ۔ اس میں انسان کے اختیار کو کچھ دخل نہیں ہے اور یہ کہ اس مصیبت کے وقت آدمی کو وہم بھی نہیں ہوتا کہ مجھے ثواب مل سکتا ہے تو یہ ذھول کی جگہ تھی ۔ اس لئے شارع نے فرمایا کہ اگرچہ یہ آفت سماوی ہے لیکن خلوص نیت کے ساتھ اگر کوئی اس مصیبت پر صبر کرے تو اس کا ثواب مل جائے گا ۔


شب قدر ملنے کی وجہ


امام مالک رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جب پہلی امتوں کے لوگوں کی عمروں پر توجہ فرمائی تو آپ کو اپنی اُمّت کے لوگوں کی عمریں کم معلوم ہوئیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ خیال فرمایا کہ جب گزشتہ لوگوں کے مقابلے میں ان کی عمریں کم ہیں تو ان کی نیکیاں بھی کم رہیں گی ۔ اس پر ﷲ تعالیٰ نے آپ کو شب قدر عطا فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ (موطا امام مالک صفحہ نمبر 260،چشتی)


حضرت مجاہد رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بنی اسرائیل کے ایک نیک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار ماہ تک راہ خدا کے لئے ہتھیار اٹھائے رکھے ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اس پر تعجب ہوا تو ﷲ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی اور ایک رات یعنی شب قدر کی عبادت کو اس مجاہد کی ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر قرار دیا ۔ (سنن الکبریٰ، بیہقی جلد 4، ص 306، تفسیر ابن جریر،چشتی)


حضرت انس بن مالک رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ۔ جب شب قدر ہوتی ہے ، جبرئیل امین علیہ السلام ملائکہ کی جماعت میں اترتے ہیں اور ہر قیام و قعود کرنے والے بندے پر جو خدا تعالیٰ کے ذکر و عبادت میں مشغول ہو (اس کے لئے) دعا کرتے ہیں ۔ (بیہقی)


جس شخص نے ایمان اور اخلاص کے ساتھ ثواب کے حصول کی غرض سے شب قدر میں قیام کیا (عبادت کی) تو اس کے سارے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ (بخاری شریف و مسلم شریف)


شب قدر کو کن راتوں میں تلاش کریں ؟


حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان ہے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔ (بخاری، مشکوٰۃ،چشتی)


حضرت عبادہ بن صامت رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ۔ شب قدر رمضان کے آخری عشرے کی طاقت راتوں یعنی 21، 23، 25، 27 اور 29 کی رات میں ہے۔ جو شخص ثواب کی نیت سے ان رات میں عبادت کرتا ہے ﷲ تعالیٰ اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیتا ہے ۔ اسی رات کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ یہ رات کھلی ہوئی اور چمکدار ہوتی ہے ۔ صاف و شفاف گویا انوار کی کثرت کے باعث چاند کھلا ہوا ہے۔ یہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی بلکہ معتدل اس رات میں صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارتے جاتے ۔ اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے بعد صبح کو سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے ۔ بالکل ہموار ٹکیہ کی طرح جیسا کہ چودھویں کا چاند کیونکہ شیطان کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ اس دن سورج کے ساتھ نکلے ۔ (مسند احمد، جلد 5ص 324، مجمع الزوائد،چشتی)


شب قدر کو پوشیدہ رکھنے میں حکمتیں


لوگ اکثر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ شب قدر کو پوشیدہ رکھنے میں کیا حکمتیں ہیں ؟


جواب یہ ہے کہ اصل حکمتیں تو ﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہی بہتر جانتے ہیں ۔ یہ وہ جواب ہے جو صحابہ کرام علیہم الرضوان بارگاہ نبوی میں اس وقت دیا کرتے جب انہیں کسی سوال کے جواب کا قطعی علم نہ ہوتا۔ وہ فرماتے ﷲ و رسولہ اعلم ۔ (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ، کتاب الایمان)


حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے روحانی فیوض و برکات سے اکتساب فیض کرتے ہوئے علمائے کرام نے شب قدر کے پوشیدہ ہونے کی بعض حکمتیں بیان فرمائی ہیں جو درج ذیل ہیں :


(1) اگر شب قدر کو ظاہر کردیا جاتا تو کوتاہ ہمت لوگ اسی رات کی عبادت پر اکتفا کرلیتے اور دیگر راتوں میں عبادات کا اہتمام نہ کرتے اب لوگ آخری عشرے کی پانچ راتوں میں عبادت کی سعادت حاصل کرلیتے ہیں ۔


(2) شب قدر ظاہر کردینے کی صورت میں اگر کسی سے یہ شب چھوٹ جاتی تو اسے بہت زیادہ حزن و ملال ہوتا اور دیگر راتوں میں وہ دلجمعی سے عبادت نہ کرپاتا ۔ اب رمضان کی پانچ طاق راتوں میں سے دو تین راتیں اکثر لوگوں کو نصیب ہو ہی جاتی ہیں ۔


(3) اگر شب قدر کو ظاہر کردیا جاتا تو جس طرح اس رات میں عبادت کا ثواب ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ ہے ، اسی طرح اس رات میں گناہ بھی ہزار درجہ زیادہ ہوتا ۔ لہذا ﷲ تعالیٰ نے اس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ اس شب میں عبادت کریں وہ ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ اجروثواب پائیں اور اپنی جہالت وہ کم نصیبی سے اس شب میں بھی گناہ سے باز نہ آئیں تو انہیں شب قدر کی توہین کرنے کا گناہ نہ ہو ۔


(4) جیسا کہ نزول ملائکہ کی حکمتوں میں ذکر کیا گیا ہے کہ ﷲ تعالیٰ فرشتوں کی عظمت بتانے کے لئے زمین پر نازل فرماتا ہے اور اپنے عبادت گزار بندوں پر فخر کرتا ہے ۔ شب قدر ظاہر نہ کرنے کی صورت میں فکر کرنے کا زیادہ موقع ہے کہ اے ملائکہ دیکھو! میرے بندے معلوم نہ ہونے کے باوجود محض احتمال کی بناء پر عبادت و اطاعت میں اتنی محنت و سعی کررہے ہیں ۔ اگر انہیں بتادیا جاتا کہ یہی شب قدر ہے تو ان کی عبادت و نیازمندی کا کیا حال ہوتا ۔


(5) شب قدر کا پوشیدہ رکھنا اسی طرح سمجھ لیجئے جیسے موت کا وقت نہ بتانا ۔ کیونکہ اگر موت کا وقت بتا دیا جاتا تو لوگ ساری عمر نفسانی خواہشات کی پیروی میں گناہ کرتے اور موت سے عین پہلے توبہ کرلیتے ۔ اس لئے موت کا وقت پوشیدہ رکھا گیا تاکہ انسان ہر لمحہ موت کا خوف کرے اور ہر وقت گناہوں سے دور اور نیکی میں مصروف رہے ۔ اسی طرح آخری عشرے کی ہر طاقت رات میں بندوں کو یہی سوچ کر عبادت کرنی چاہئے کہ شاید یہی شب قدر ہو ۔ اسی طرح شب قدر کی جستجو میں برکت والی پانچ راتیں عبادت الٰہی میں گزارنے کی سعادت نصیب ہوتی ہے ۔


ﷲ تعالیٰ نے بے شمار حکمتوں اور مصلحتوں کی باعث بہت سی اہم چیزوں کو پوشیدہ رکھا ہے ۔ امام رازی علیہ الرحمہ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں کہ :


(1) ﷲ تعالیٰ نے اپنی رضا کو عبادت و اطاعت میں پوشیدہ رکھا ہے تاکہ لوگ تمام امور میں ﷲ تعالیٰ کی اطاعت کریں ۔


(2) اس نے اپنے غصہ کو گناہوں میں مخفی (پوشیدہ) رکھا ہے تاکہ لوگ ہر قسم کے گناہوں سے بچیں ۔


(3) اپنے اولیاء کو مومنوں میں پوشیدہ رکھا ہے تاکہ لوگ سب ایمان والوں کی تعظیم کریں ۔


(4) دعا کی قبولیت کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ ﷲ تعالیٰ کے ہر نام مبارکہ کی تعظیم کریں ۔


(5) اسم اعظم کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ ﷲ تعالیٰ کے ہر نام مبارک کی تعظیم کریں ۔


(6) صلوٰۃ الوسطیٰ (درمیانی نماز) کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ سب نمازوں کی حفاظت کریں ۔


(7) موت کے وقت کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ ہر وقت اللہ عزّ و جل سے ڈرتے رہیں ۔


(8) توبہ کی قبولیت کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ جس طرح ممکن ہو ، توبہ کرتے رہیں ۔


(9) ایسے ہی شب قدر کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ رمضان کی تمام راتوں کی تعظیم کریں ۔

 

ﷲ تعالیٰ کا کروڑ ہا کروڑ احسان ہے کہ رب کریم جل جلالہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صدقے وطفیل ہمیں شب قدر جیسی نعمت سے نوازا ہے ۔ ہمیں اس رات کی قدر کرنی چاہئے اور اپنے رب کے حضور سچی توبہ کرنی چاہئے تاکہ ہمیں بھی مغفرت کا پروانہ نصیب ہو ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...