مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اہلسنت و جماعت کا مؤقف حصّہ دوم
مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ائمہ حضرات کی آراء
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (م150ھ) کا موقف : حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی من جملہ تصانیف میں ایک کتاب ”الفقہ الاکبر“بھی ہے ۔ اس کتاب میں آپ فرماتے ہیں : تولاہم جمیعا . ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ایک نسخہ میں آخری الفاظ یوں ہیں : ولا نذکر احدا من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم الابخیر . ہم سب صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی صحابی کا ذکر بھلائی کے بغیر نہیں کرتے ۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کے شرح میں رقم طراز ہیں : یعنی وان صدر علی بعضہم بعض ماہو فی الصورۃ شر فانہ اما کان عن اجتہاد ولم یکن علی وجہ فساد من احرار و عناد بل کان رجوعہم عنہ الی خیر میعاد بناء علی حسن ظن بہم.
(شرح الفقہ الاکبر ص153 اردو مکتبہ رحمانیہ لاہور)
یعنی گو بعض صحابہ کرام سے صورۃً شر صادر ہوا ہے مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اجتہاد کی بناء پر ایسا ہوا اور ان کا شر سے رجوع بہتر انجام کی طرف تھا ان سے حسن ظن کا بھی یہی تقاضا ہے ۔
الفقہ الاکبر کے ایک اور شارح علامہ ابو المنتہی احمد بن محمد المگنیساوی لکھتے ہیں:
اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ والثناء علیہم کما اثنی اللہ ورسولہ علیہم وما جری بین علی و معاویۃ کان مبنیا علی الاجتہاد . (شرح الفقہ الاکبر مطبوعہ مجموعۃ الرسائل السبعہ حیدر آباد دکن 1948،چشتی)
اہل سنت و جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ان کی اسی طرح تعریف کی جائے جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کی ہے اور جو حضرت علی اور حضرت معاویہ کے درمیان لڑائی ہوئی وہ اجتہاد کی بناء پر تھی ۔
امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ (م181ھ) کا فرمان : مشہور محدث، فقیہ،مجاہد اور زاہد امام عبداللہ بن مبارک اس سلسلے میں کس قدر محتاط تھے، اس کا اندازہ ان کے حسب ذیل قول سے لگایا جاسکتا ہے ، فرماتے ہیں : السیف الذی وقع بین الصحابۃ فتنۃ ولا اقول لاحد منہم مفتون . (السیر ج8ص405)
ترجمہ : صحابہ کے مابین چلنے والی تلوار فتنہ تھی مگر میں ان میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہوگئے تھے ۔
امام اہلسنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:(اس پاک فرقہ اہل سنّت و جماعت نے اپنا عقیدہ اور ) اتنا یقین کرلیا کہ سب ( صحابہ کرام) اچھے اور عدل و ثقہ، تقی، نقی ابرار (خاصانِ پروردگار ) ہیں۔ اوران ( مشاجرات ونزاعات کی) تفاصیل پر نظر گمراہ کرنے والی ہے، نظیر اس کی عصمتِ انبیاء علیہم الصلوۃ والثناء ہے کہ اہلِ حق ( اہلِ اسلام ، اہلسنت وجماعت) شاہراہِ عقیدت پر چل کر ( منزل) مقصود کو پہنچے ۔ اور ارباب ( غوایت واہل) باطل تفصیلوں میں خوض ( و ناحق غور) کرکے مغاک ( ضلالت اور) بددینی ( کی گمراہیوں) میں جا پڑے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 29 ص58،چشتی)
مزید فرماتے ہیں : مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت مرتضوی امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جنہوں نے مشاجرات و منازعات کیئے ۔ اور اس حق مآب صائب الرائے کی رائے سے مختلف ہوئے ، اور ان اختلافات کے باعث ان میں جو واقعات رُونما ہوئے کہ ایک دوسرے کے مدِ مقابل آئے مثلاً جنگ جمل میں حضرت طلحہ وزبیر و صدیقہ عائشہ اور جنگِ صفین میں حضرت امیر معاویہ بمقابلہ مولٰی علی مرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہم)ہم اہلسنت ان میں حق ، جانب جناب مولٰی علی (مانتے) اور ان سب کو مورد لغزش) بر غلط و خطا اور حضرت اسد اللہّی کو بدرجہا ان سے اکمل واعلٰی جانتے ہیں مگر بایں ہمہ بلحاظ احادیث مذکورہ ( کہ ان حضرات کے مناقب و فضائل میں مروی ہیں) زبان طعن وتشنیع ان دوسروں کے حق میں نہیں کھولتے اور انہیں ان کے مراتب پر جوان کے لیے شرع میں ثابت ہوئے رکھتے ہیں، کسی کو کسی پر اپنی ہوائے نفس سے فضیلت نہیں دیتے۔ اور ان کے مشاجرات میں دخل اندازی کو حرام جانتے ہیں، اور ان کے اختلافات کو ابوحنیفہ و شافعی جیسا اختلاف سمجھتے ہیں۔ تو ہم اہلسنت کے نزدیک ان میں سے کسی ادنٰی صحابی پر بھی طعن جائز نہیں چہ جائیکہ اُمّ المومنین صدیقہ ( عائشہ طیبہ طاہرہ) رضی اللہ تعالٰی عنہا کی جناب رفیع اوربارگاہِ وقیع) میں طعن کریں، حاش ! یہ اللہ و رسول کی جناب میں گستاخی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 29 ص61)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جو باہمی نزاعات اور مشاجرات ہوئے ہیں ان پر لب کشائی ہم مناسب نہیں سمجھتے۔ تمام صحابہ کرام اسلام کے لیے مخلص، اور حق گوئی و حق طلبی کے لیے کوشاں تھے۔ مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں بحث و تکرار سے گریز کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس کا نتیجہ سوائے خود کو شیطان کے حوالے کرنے کے اور کچھ نہیں ہے، علمائے امت نے بتکرار اس سے خبردار کیا ہے۔ ہم صحبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مشّرف اور قابلِ صد احترام ہستیوں کو حق اور ناحق کے پلڑوں میں رکھنے کی جرات نہیں کرسکتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشادِ گرامی ہے کہ میرے تمام صحابہ عادل ہیں ۔ عدالتِ صحابہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان سے بشری غلطیاں بالکل سرزد نہیں ہوئیں یا ان سے خطاؤں کا قطعاً وقوع نہیں ہوا ، یہ خاصہ ومنصب تو انبیا علیہم السلام کا ہے ، صحابہ کرام کا نہیں ۔ بلکہ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ ان سے بشری غلطیوں کا صدور ہوا ہے ، مگر جب ان کومتنبہ کیا گیا تو فوراً وہ اس سے تائب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کی ضمانت لی ہے ۔ جہاں تک اجتہادی خطاؤں کے صدور کا سوال ہے تو اس کے وقوع سے بھی کسی کو انکار نہیں ۔ امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی (المتوفی 676ھ) شرح صحیح مسلم میں رقم طراز ہیں : و مذهب أهل السنة و الحق إحسان الظن بهم و الإمساک عما شجر بينهم و تاويل قتالهم، و إنهم مجتهدون متأولون لم يقصد و امعصية ولا محض الدنيا، بل اعتقد و اکل فريق أنه المحق و مخلافه باغ فوجب قتاله لير جع الی أمر الله، وکان بعضهم مصيباً و بعضهم مخطئاً معذوراً في الخطأ لأنه بإجتهاد و لمجتهد إذاأ خطألا إثم عليه وکان علی رضی الله عنه هو المحق المصيب في ذلک الحروب هذا مذهب أهل السنة و کانت القضايا مشتبة حتی أن جماعة من الصحابة تحيرو ا فيها فاعتزلو االطائفتين ولم يقاتلو اولو تيقنو االصواب لم يتأ خرواعن مساعدته ۔
ترجمہ : اہلِ سنت اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے ۔ ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے ۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحب رائے تھے معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی ، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے ، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا پر تھے ، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطا پر بھی گنہگار نہیں ہوتا ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہلِ سنت کا یہی موقف ہے ، یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جامعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا ، اگر انہیں صحیح بات کا یقین ہو جاتا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معاونت سے پیچھے نہ رہتے ۔ (شرح صحيح مسلم، 2: 390، کتاب الفتن ،چشتی)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جو باہمی نزاعات اور مشاجرات ہوئے ہیں ان پر لب کشائی ہم مناسب نہیں سمجھتے ۔ تمام صحابہ کرام اسلام کےلیے مخلص ، اور حق گوئی و حق طلبی کے لیے کوشاں تھے۔ مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں بحث و تکرار سے گریز کرنا ضروری ہے ، کیونکہ اس کا نتیجہ سوائے خود کو شیطان کے حوالے کرنے کے اور کچھ نہیں ہے ، علمائے امت نے بتکرار اس سے خبردار کیا ہے ۔ ہم صحبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مشّرف اور قابلِ صد احترام ہستیوں کو حق اور ناحق کے پلڑوں میں رکھنے کی جرات نہیں کرسکتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشادِ گرامی ہے کہ میرے تمام صحابہ عادل ہیں ۔ عدالتِ صحابہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان سے بشری غلطیاں بالکل سرزد نہیں ہوئیں یا ان سے خطاؤں کا قطعاً وقوع نہیں ہوا ، یہ خاصہ ومنصب تو انبیا علیہم السلام کا ہے ، صحابہ کرام کا نہیں ۔ بلکہ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ ان سے بشری غلطیوں کا صدور ہوا ہے ، مگر جب ان کومتنبہ کیا گیا تو فوراً وہ اس سے تائب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کی ضمانت لی ہے ۔ جہاں تک اجتہادی خطاؤں کے صدور کا سوال ہے تو اس کے وقوع سے بھی کسی کو انکار نہیں ۔
حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اور ان لڑائی جھگڑوں کو جو ان کے درمیان واقع ہوئے ہیں ، نیک محمل پر محمول کرنا چاہیے اور ہوا وتعصب سے دور سمجھنا چاہیے ۔ کیونکہ وہ مخالفتیں تاویل واجتہاد پر مبنی تھیں ، نہ کہ ہوا و ہوس پر ۔ یہی اہل سنت کا مذہب ہے ۔ (مکتوباتِ امام ربانی، مکتوب: 251، دفترِ اول) ۔ مزید فرماتے ہیں : یہ اکابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت کی تاثیر سے ہوا و ہوس ، کینہ و حرص سے پاک صاف ہوگئے تھے ۔ ان حضرات کے اختلافات کو دوسروں کی مصالحت سے بہتر سمجھنا چاہیے ۔ (مکتوب: 67 دفتر دوم)
اس کے برخلاف بدگوئی وفضول گوئی پھوٹ پیدا کرتی ہے ، جو شیطان کا کام ہے ، وہ اس کے ذریعہ سے لوگوں میں غصہ، نفرت، عداوت، کینہ، حسد، نفاق کے بیج بوتا ہے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک ایسی مقدس و محترم جماعت کا نام ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ کی پوری امت کے درمیان اللہ رب العزت کا مقرر کیا ہوا واسطہ ہیں ۔ اس کے بغیر نہ قرآن کریم ہاتھ میں آسکتا ہے اور نہ ہی قرآن کا بیان جسے ہم سنت و حدیث سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اللہ رب العزت نے انہیں خیر امت اور امت وسط کے لقب سے نوازا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بھی ان کو یہ ڈیوٹی اور ذمہ داری سونپ دی۔ فرمایا : بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً ۔ ترجمہ : میری طرف سے (امت کو) پہنچاؤ اگر چہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو ۔ (صحیح البخاری: رقم الحدیث3461 عن عبد اللہ بن عمرو،چشتی) ۔ بلکہ حجۃ الوداع کے عظیم اجتماع میں اس جماعت کو مخاطب ہو کر فرمایا : فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ . ترجمہ : حاضرین میری باتیں غائبین تک پہنچادیں ۔ (صحیح البخاری: رقم الحدیث1741 عن ابی بکرۃ)
اس کا نتیجہ تھا کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کی تمام تر تعلیمات کو پوری دنیا میں پھیلایا جو ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کے ذمہ لگائی تھی اس کا پورا پورا حق ادا کردیا ۔
امام عبداللہ بن مبارک سے پوچھا گیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز میں سے کون افضل ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : واللہ ان الغبار الذی دخل فی انف فرس معاویۃ مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم افضل من عمر بالف مرۃ صلّٰی معاویۃ خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سمع اللہ لمن حمدہ فقال معاویہ رضی اللہ عنہ ربنا لک الحمد فما بعد ھذا الشرف الاعظم ۔
ترجمہ : اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی معیت میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک کی غبار عمر بن عبدالعزیز سے ہزار بار افضل ہے ، حضرت معاویہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے نمازیں پڑھیں آپ نے ”سمع اللہ لمن حمدہ“ فرمایا تو حضرت معاویہ نے ”ربنا لک الحمد“ کہا اس کے بعد اور بڑا فضل و شرف کیا ہوگا ؟ ۔ (مکتوبات امام ربانی مکتوب نمبر58 ص32ج1)
امام ابو جعفر طحاوی رحمۃ اللہ علیہ (م321ھ) کی وضاحت : اما م ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدہ وعمل کے ترجمان ہیں ، موصوف اپنی مشہور کتاب ”العقیدۃ الطحاویۃ“ میں لکھتے ہیں : نحب اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ولا نفرط فی حب احد منہم ولا نتبرا من احد منہم و نبغض من یبغضہم وبغیر الخیر یذکرہم ولا نذکر ہم الا بخیر وحبہم دین وایمان و احسان وبغضہم کفر و نفاق وطغیان۔
ترجمہ : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے نہ کسی ایک کی محبت میں افراط کرتے ہیں اور نہ ہی کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں اور جو ان سے بغض رکھتا ہے اور بغیر خیر کے ان کا ذکر کرتا ہےہم اس سے بغض رکھتے ہیں اور ہم ان کا ذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں ، ان سے محبت دین و ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض کفر ونفاق ہے اور سرکشی ہے ۔ (شرح العقیدہ الطحاویہ ص704 ج2 بیروت،چشتی)
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ مزید اس سلسلے میں فرماتے ہیں : ومن احسن القول فی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وازواجہ الطاہرات من کل دنس وذریاتہ المقدسین من کل رجس فقد برئ من النفاق . ترجمہ : جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ کے بارے میں اچھی بات کرتا ہے ، ازواج مطہرات کو ہر قسم کے عیب سے پاک سمجھتا ہے اور آپ کی مقدس آل و اولاد کو ہر قسم کی آلودگی سے مبرا سمجھتا ہے وہ نفاق سے بری ہے ۔ (شرح العقیدہ الطحاویہ ص490)
یعنی اہل سنت و جماعت ناصبیوں اور رافضیوں کے افراط و تفریط سے بچ کر سب سے محبت کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ہمیشہ اچھی بات کہتے ہیں ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل نہ تھے
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ امام برحق تھے اور مظلوم شہید ہوئے ۔ اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بالفعل ان کے قتل کرنے سے محفوظ رکھا ، ان کو شہید کرنے والا متعنت شیطان تھا، کسی صحابی نے آپ کے قتل پر رضا مندی کا اظہار ثابت نہیں بلکہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس بارے میں انکار ثابت ہے ۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مسئلہ اجتہادی تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ قصاص ضرور لیں گے لیکن تاخیر سے لیں گے اسی میں مصلحت ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے یہ تھی کہ قصاص جلدی لینے میں مصلحت ہے ۔ ہر ایک نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا اور ان شاء اللہ ان میں سے ہر ایک اجر کا مستحق ہوگا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد امام بر حق حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء تاویل کرتے تھے اور ان میں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے جو معاملہ مشتبہ ہونے کی وجہ سے فریقین سے علیحدہ رہے اور کسی ایک فریق کے ساتھ ملنے سے رک گئے ۔ ہر ایک نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا ۔ وہ تمام حضرات عادل تھے اور دین کو نقل کرنے والے تھے ۔ نیز وہ دین پر عمل کرے والے تھے ۔ انہی کی تلوار سے دین غالب ہوا اور انہی کی زبانوں سے دین پھیلا ۔ اگر ہم ان آیات کی تلاوت کریں اور ان احادیث کو بیان کریں جو ان کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں تو بات لمبی ہوجائے گی ۔ یہ چند کلمات ایسے ہیں کہ جو ان کے خلاف عقیدہ رکھے گا وہ گمراہی اور بدعت میں مبتلا ہوگا دیندار آدمی کو چاہیئے کہ وہ اپنے دل و دماغ میں اس بات کو پختہ کرے ، جو واقعات (مشاجرات) صحابہ کرام رضی اللہ کے درمیان رونما ہوئے ہیں ان سے اپنی زبان کو روکے رکھے ، یہ وہ خون ہے کہ اس سے اللہ جل شانہ نے ہمارے ہاتھوں کو پاک و صاف رکھا ہے تو ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی زبانوں کو اس سے آلودہ نہ کریں ۔ (تحریر الاصول مع شرح تقدیر الاصول ج2ص2260،چشتی)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اہل سنت و جماعت کے جس عقیدے کی نشاندہی علامہ سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے اس کی وضاحت اوپر ائمہ کرام کے حوالے سے گزر چکی ہے البتہ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح جو انہوں نے فرمایا کہ ان معاملات میں ایک تیسرا فریق بھی تھا جو معاملہ مشتبہ ہونے کی وجہ سے علیحدہ رہا محل نظر ہے ۔ یہی فریق اکثریت میں تھا اور ان کی علیحدگی فتنہ سے بچنے کے لیئے تھی جیسا کہ باحوالہ گزر چکا ہے ۔
امام محی الدین ابو زکریا یحیی بن شرف النووی رحمۃ اللہ علیہ المتوفیٰ 676ھ شرح مسلم میں رقم طراز ہیں : ومذهب أهل السنة والحق إحسان الظن بهم والامساك عما شجر بينهم وتأويل قتالهم وأنهم مجتهدون متأولون لم يقصدوا معصية ولامحض الدنيا بل اعتقد كل فريق أنه المحق ومخالفة باغ فوجب عليه قتاله ليرجع إلى أمر الله وكان بعضهم مصيبا وبعضهم مخطئا معذورا فى الخطأ لأنه لاجتهاد والمجتهد إذا أخطأ لا إثم عليه وكان على رضى الله عنه هو المحق المصيب فى تلك الحروب هذا مذهب أهل السنة ۔
ترجمہ : اہل سنت اور اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے ، ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے، وہ بلا شبہ مجتہد اور صاحب رائے تھے ، معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ قتال ضروری ہے تاکہ وہ امر الہی کی طرف لوٹ آئے۔ اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطاء پر تھے اور خطاء کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطاء پر بھی گنہگار نہیں ہوتا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہل سنت کا یہی موقف ہے ۔ (شرح صحیح مسلم ص390 ج2 کتاب الفتن باب اذا التقی المسلمان بسیفہما)
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ بیان فرمایا ہے تھوڑی سی تفصیل سے اہل سنت کا یہی موقف انہوں نے کتاب فضائل الصحابہ کے اوائل میں بیان کیا جس کا خلاصہ یہ ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بالاجماع صحیح ہے ، اپنے وقت میں وہ خلیفہ تھے ان کے علاوہ کسی کی خلافت نہیں تھی ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عادل فضلاء اور نجباء صحابہ میں سے تھے ۔ ان کے درمیان جو لڑائیاں ہوئیں اس کی وجہ یہ شبہ تھا کہ ان میں سے ہر ایک گروہ اپنی حقانیت کا اعتقاد رکھتا تھا ۔ یہ سبھی عادل ہیں، جنگوں اور دیگر اس قسم کے معاملات میں متاول ہیں ان میں سے کوئی چیز ان میں سے کسی کو عدالت سے خارج نہیں کرتی اس لیے کہ وہ سب مجتہد تھے ۔
(شرح مسلم ص272 ج2،چشتی)
اکثر صحابہ قتال سے علیحدہ کیوں رہے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ : اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قتال سے علیحدہ اس لیئے رہے کہ ان حروب میں حصہ نہ لینے کا سبب فتنہ سے بچاؤ کرنا تھا کیونکہ بہت سی نصوص میں باہمی خانہ جنگی کو فتنہ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسی بناء پر اس سے کنارہ کش رہے ۔ امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ سے بسند صحیح منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا : فتنہ رونما ہوا تو صحابہ کرام دس ہزار کی تعداد میں تھے ، ان میں سے ایک سو بلکہ تیس کے قریب شریک ہوئے ۔ ان کا یہی قول علامہ ابن تیمیہ نے بھی ذکر کیا ہے جس کی سند کے بارے میں وہ لکھتے ہیں : ھذا الاسناد اصح اسناد علی وجہ الارض . یہ سند روئے زمین پر سب سے زیادہ صحیح ہے۔( منہاج السنہ ص147 جز6 قطربہ الشاملہ)
حافظ ابو الفضل امام احمد بن علی بن محمد ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ المتوفیٰ 852ھ فرماتے ہیں : والظن بالصحابۃ فی تلک الحروب انہم کانوا فیہا متاولین وللمجتہد المخطی اجر واذا ثبت ھذا فی حق احادی الناس فثبوتہ للصحابۃ بالطریق الاولیٰ ۔
ترجمہ : ان لڑائیوں میں صحابہ کرام کے بارے میں گمان یہی ہے کہ وہ ان میں تاویل کرنے والے تھے۔ مجتہد اگر اجتہاد میں خطاء کرجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔ جب یہ حکم کسی ایک مجتہد کے لیے ثابت ہےتو صحابہ کرام کے حق میں یہ حکم بطریقِ اولیٰ ثابت ہوا۔ ا س لیے اگر کسی صحابی سے اجتہادی خطاء ہوئی تو وہ پھر بھی مستحق اجر ہے نہ کہ مستوجب مواخذہ۔(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ :ج7ص312الشاملہ)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اسی بحث کے ضمن میں ایک مقام پر رقم طراز ہیں : واتفق أهل السنة على وجوب منع الطعن على أحد من الصحابة بسبب ما وقع لهم من ذلك ولو عرف المحق منهم لأنهم لم يقاتلوا في تلك الحروب الا عن اجتهاد وقد عفا الله تعالى عن المخطئ في الاجتهاد بل ثبت أنه يؤجر أجرا واحدا وان المصيب يؤجر أجرين ۔
ترجمہ : اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کے مابین واقع ہونے والے حوادث کی بناء پر ان میں کسی ایک صحابی پر طعن و تشنیع سے اجتناب واجب ہے اگر چہ یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں صحابی کا موقف موقف حق تھا کیونکہ انہوں نے ان لڑائیوں میں صرف اپنے اجتہاد کی بناء پر حصہ لیا اور اللہ نے مجتہد مخطی کو معاف فرمادیا ہے بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ مجتہد کے اجتہاد میں خطا ہوجائے تب بھی اسے ایک گنا اجر ملے گا اور جس کا اجتہاد درست ہوگا اسے دو گنا اجر ملے گا ۔ (فتح الباری ج13ص43 کتاب الفتن باب ا اذا التقیٰ المسلمان،چشتی)
علامہ کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ المتوفیٰ 861 شرح مسامرہ میں فرماتے ہیں : واعتقاد اہل السنۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ رضی اللہ عنہم وجوبا باثبات اللہ انہ لکل منہم والکف عن الطعن فیہم والثناء علیہم کما اثنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ واثنی علیہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وما جری بین معاویۃ وعلی من الحروب کان مبنیا علی الاجتہاد لا منازعۃ فی الامامۃ ۔
ترجمہ : اہل سنت کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ تمام صحابہ کرام کو لازمی طور پر پاک صاف مانتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کا تزکیہ فرمایا ہے اور اہل سنت ان کے بارے میں طعن و تشنیع نہیں کرتے اور ان سب کی مدح و ثناء بیان کرتے ہیں جیسا کہ اللہ نے ان کی تعریف کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بھی تعریف کی ہے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان جو جنگیں ہوئیں وہ اجتہاد پر مبنی تھیں، یہ جنگیں امامت و خلافت کے جھگڑا کی بناء نہ تھیں ۔ (المسامرہ بشرح المسایرہ ص259 باب الرکن الرابع الاصل الثامن،چشتی)
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ (م1176ھ) کا فیصلہ : حضرت شاہ ولی اللہ صاحب مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے حوالہ سے اپنے انداز میں لکھتے ہیں : واما آن کہ حضرت عائشہ و طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہم مجتہد مخطی معذور بودند ازاں قبیل کہ من اجتہد فقد اخطا فلہ اجر واحد پس ازاں جہت کہ متمسک بودند بشبہ ہر چند دلیل دیگر ارجح ازوی بعد و موجب آن شبہ دو چیز است الخ ۔
ترجمہ : رہا یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہم خطا کرنے والے معذور تھے اس اصول پر کہ جس نے اجتہاد کیا اور خطا کھائی تو وہ ایک اجر کا مستحق ہے تو وہ اس اعتبار سے معذور ہیں کہ انہوں نے شبہ سے استدلال کیا اگر چہ اس سے زیادہ راجح دوسری دلیل بھی موجود تھی، اس شبہ کا موجب دو چیزیں تھیں ۔ (ازالۃ الخفاء مترجم ج4ص521،چشتی)
اس کے بعد انہوں نے ان دو شبہات کو بیان کیا ہے اور دونوں کے قرائن و دلائل بھی بیان کیے ہیں ۔ اس تفصیل کے بعد شاہ صاحب مزید فرماتے ہیں : انہی شبہات کی بناء پر ہی حضرت معاویہ اور حضرت علی کے مابین جنگ صفین ہوئی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ یہ ہیں : واما آنکہ معاویہ مجتہد مخطی معذور بود پس ازاں جہت کہ متمسک بود بشبہ ہر چند دلیل دیگر در میزان شرح راجح تر ازاں بر آمد مانند آنچہ در قصر اہل جمل تقریر گردم باز یادات اشکال ۔
ترجمہ : اور رہا یہ کہ حضرت معاویہ مجتہد مخطی اور معذور تھے تو اس کی صورت یہ ہے کہ وہ شبہ کے ساتھ دلیل پکڑے ہوئے تھے اگرچہ دوسری دلیل بھی موجود تھی جو میزان شریعت میں اس سے زیادہ وزن رکھتی تھی ، اسی طرح جس کی تقریر ہم اہل جمل کے قصہ میں بیان کرچکے ہیں بعض اشکال کے اضافہ کے ساتھ ۔
گویا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے اہل جمل سے بھی زیادہ اشکالات تھے جن کی بناء پر وہ حضرت علی کی بیعت نہ کرسکے اور بالآخر اس کا نتیجہ جنگ صفین کی شکل میں سامنے آیا ۔ ان اشکالات کی وجہ سے حضرت معاویہ بھی معذور تھے گو حضرت علی کا موقف ان سے راجح اور دلائل کے اعتبار سے زیادہ صحیح تھا ۔ وہ مزید اشکالات کیا تھے اس کی تفصیل شائقین حضرات ازالۃ الخفاء میں ملاحظہ فرمائیں ۔ (بقیہ حصّہ سوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment