علم غیبِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے منکر منافقین رُسوا ہو کر نکلے
محترم قارئینِ کرام : منافقین مدینہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے علم غیب منکر تھے اور کہا کرتے محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ غیب کیا جانیں اللہ عزّ و جل کے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے انہیں کیسے رُسوا کر کے نکالا آیئے پڑھتے ہیں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ منافقین کے فتنہ و شر اور فساد سے سب اہلِ ایمان کو بچائے آمین ۔
منافقین علمِ غیب نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کا انکار کرتے ، علمِ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم پر تنقید کرتے تھے اُن منافقین کی رسوائی اس طرح ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ہر منافق کا نام لے کر اس کو مسجد سے نکال دیا ۔ آیئے پہلے ان منافقین کے انکار و طعن کے متعلق پڑھتے ہیں پھر اُن کی رسوائی کے متعلق :
ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّمَاکُنَّا نَخُوۡضُ وَنَلْعَبُ ؕ قُلْ اَبِاللہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوۡلِہٖ کُنۡتُمْ تَسْتَہۡزِءُوۡنَ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 65)
ترجمہ : اور اے محبوب (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) اگرآپ ان سے پوچھیں تو کہیں گے کہ ہم تو صرف ہنسی کھیل کررہے تھے ۔ تم فرماؤ : کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی مذاق کرتے ہو ۔
امام المفسرین امام مجاهد رحمۃ اللہ علیہ (وفات 104 هجری ) اس آیت : ولئن سألتهم ليقولن إنما كنا نخوض ونلعب ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 65) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک منافق نے کہا محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمیں یہ حدیث سناتے ہیں کہ فلاں شخص کی اونٹنی فلاں فلاں وادی میں ہے بهلا وہ (محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) غیب کی باتیں کیا جانیں ۔ (تفسير ابن أبی حاتم جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 1830)
اِنَّمَاکُنَّا نَخُوۡضُ وَنَلْعَبُ : ہم تو صرف ہنسی کھیل کررہے تھے ۔ اس آیت کا ایک شانِ نزول یہ ہے کہ غزوۂ تبوک میں جاتے ہوئے منافقین کے تین گروپوں میں سے دو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ ان کا خیال ہے کہ یہ روم پر غالب آجائیں گے ، کتنا بعید خیال ہے اور ایک گروپ بولتا تو نہ تھا مگر ان باتوں کو سن کر ہنستا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کو طلب فرما کر ارشاد فرمایا کہ تم ایسا ایسا کہہ رہے تھے ؟ انہوں نے کہا : ہم راستہ طے کرنے کے لئے ہنسی کھیل کے طور پر دل لگی کی باتیں کر رہے تھے اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ دوسرا شانِ نزول یہ ہے کہ کسی کی اونٹنی گم ہوگئی ، اس کی تلاش تھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا او نٹنی فلاں جنگل میں فلاں جگہ ہے اس پر ایک منافق بولا ’’محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) بتاتے ہیں کہ اونٹنی فلاں جگہ ہے ، محمد غیب کیا جانیں ؟ اس پراللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ آیتِ کریمہ اتاری ۔ (تفسیر مدارک، التوبۃ، : ۶۵، ص۴۴۳،چشتی)(تفسیر در منثور، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۵، ۴/۲۳۰)
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا
(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم دیا کہ جو تنہائی میں باتیں کی جائیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ان کی خبر ہے ۔
(2) کفر کی باتیں سن کر رضا کے طور پر خاموش رہنا یا ہنسنا بھی کفر ہے ۔ کیونکہ رضا بِالْکُفر کفر ہے ۔
(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تَوہین اللہ تعالیٰ کی توہین ہے کیونکہ ان منافقوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی توہین کی تھی مگر فرمایا ’’ اَبِاللہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوۡلِہٖ‘‘ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مذاق اڑانا اللہ تعالیٰ اور اس کی تمام آیتوں کا مذاق اڑانا ہے ۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعظیم اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے ۔
منافقین کا ایک گھناؤنا وطیرہ یہ تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم مبارک پر طعن کرتے اور یہ کہتے دیکھو یہ نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) آسمانی خبریں دیتا ہے مگر اونٹنی کے بارے میں نہیں جانتا ۔ غزوہ تبوک کے سفر کے دوران ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آرام فرمایا ۔ صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اونٹنی گم ہوگئی صحابہ رضی اللہ عنہم تلاش میں نکلے وہاں ایک شخص زید بن الصیت تھا جو پہلے یہودی تھا بظاہر اسلام لایا مگر منافق تھا اس نے یہ کہنا شروع کردیا : محمد یزعم انہ نبی و ھو یخبرکم عن خبرالسماء وھو لایدری این ناقتہ ؟
ترجمہ : محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دعویٰ ہے میں نبی ہوں اور وہ تمہیں آسمانی خبریں دیتا ہے حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ اسکی اونٹنی کہاں ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اللہ کی قسم میں وہی جانتا ہوں جو مجھے میرا اللہ بتاتا ہے ۔ یعنی میں ذاتی طور پر کچھ نہیں جانتا مجھے اللہ تعالیٰ ہی بتاتا ہے ۔ میرے رب نے مجھے اونٹنی کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے وہ فلاں جگہ ہے اور اس کی نکیل درخت کے ساتھ پھنس گئی ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھیجا اور وہاں سے اسے لے آئے ۔ (بحوالہ سبل الھدیٰ والرشاد، 5، 449،چشتی)
یہ واقعہ احادیث اور تاریخ کی متعدد کتب میں آیا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علوم و غیوب بعطائے الہٰی پر شک کرنا اور ان کا طعن و تمسخر اڑانا صرف منافقین کا شیوہ تھا اور ہے ۔ اور آج بھی اگر کوئی علم نبوت کا انکار کرتا ہے تو وہ انہیں منافقین کی پیروی کرتا ہے جن کا ذکر احادیث میں بیان ہوچکا ۔
علم نبوی پر طعن کے ساتھ ساتھ اس کا مذاق اڑاتے
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے (یا ایھا الذین امنوا لاتسئلوا عن اشیاء) کے تحت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا : کان قزم یسئالون رسول اللہ علیہ السلام استھزا فیقول الرجل من ابی و یقول الرجل تضل ناقتہ این ناقتی فانزل اللہ فیھم ھذہ الایۃ ۔
ترجمہ : کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بطور تمسخر و مذاق سوالات کرتے ہوئے پوچھتے بتائیں میرا والد کون ہے ؟ اونٹنی گمشدہ کے بارے میں پوچھتے میری اونٹنی کہاں ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر،چشتی)
جبکہ بعض اوقات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منبر پر تشریف فرما ہوکر اعلان فرماتے کسی نے جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لے ۔
فواللہ لا تسالونی عن شئی الا اخبرتکم بہ ما دمت فی مقامی ھذا ۔ یعنی ۔ اللہ کی قسم تم جو بھی مجھ سے پوچھو گے میں اسی مقام پر کھڑے کھڑے بتاؤں گا۔
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بار بار یہ اعلان فرماتے : سلونی سلونی ۔ مجھ سے پوچھو مجھ سے پوچھ لو ۔ (بحوالہ بخاری 2/183)
اسی طرح امام بدرالدین عینی الحنفی رحمۃ اللہ علیہ شارح بخاری شیخ مہلب کے حوالہ سے آپ کے خطبہ ، اعلان ، اور ناراضگی کا سبب ان الفاظ میں لکھتے ہیں : لانہ بلغہ ان قوماً من المنافقین یسالون منہ ویعجزونہ عن بعض مایسالونہ فتغیظ وقال لاتسالونی عن شئی الا اخبرتکم بہ ۔
ترجمہ : کچھ منافقین کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اطلاع ملی کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سوالات کیئے اور کہا یہ ہمارے سوالات کا جواب دینے سے عاجز ہیں ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ناراض ہوئے اور برسر منبر تشریف لاکر اعلان فرمایا مجھ سے پوچھو ، جو تم پوچھو گے میں اس کا جواب دوں گا ۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 5 /27،چشتی)
یعنی منافقین کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمارے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے اس طرح وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیع علم پر طنز کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم غیب کی بنا پر اعلان فرمایا کہ آؤ جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو ۔
ان کے نزدیک بھی شیطان کا علم (معاذاللہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم سے زیادہ ہے اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں (بحوالہ تفویۃ الایمان ، صراط مستقیم براھین قاطعہ وغیرہ) ۔ لہٰذا آپ خود فرق تلاش کریں کہ ماضی کے منکرین اور حال کے منکرین میں کیا فرق رہا ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا نام بنام منافقین کو مسجد سے نکالنا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ توبہ آیت نمبر 101 کی تفسیر میں کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جمعہ کے دن خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : اے فلاں ! تو نکل جا تو منافق ہے ۔ اے فلاں ! تو نکل جا تو منافق ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے منافقوں کا نام لے لے کر ان کو مسجد سے نکال دیا اور ان کو رسوا کر دیا ۔ اس دن کسی کام کی وجہ سے اس وقت تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں نہیں پہنچے تھے ۔ جس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تو وہ مسجد سے نکل رہے تھے ۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے چھپ رہے تھے ۔ ان کا گمان تھا کہ حضت عمر رضی اللہ عنہ کو حقیقتِ واقعہ کا پتا چل گیا ہے ۔ ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ کو خوشخبری ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے آج منافقین کو رسوا کردیا ۔ یہ ان پر عذاب اوّل تھا اور عذاب ثانی عذاب قبر ہے ۔ (المعجم الاوسط ج ١ ص ٤٤٢، رقم الحدیث : ٧٩٦،چشتی)،(مجمع الزوائد ج ٧ ص ٣٣) ، (الکافی الشاف فی تخریج احادیث الکشاف ج ٢ ص ٣٠٦)
کلبی اور سدی نے کہا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے جمعہ کے دن خطبے کے لئے قیام کرکے نام بنام فرمایا : نکل اے فلاں ! تو منافق ہے ، نکل ۔ اے فلاں ! تو منافق ہے ، تو مسجد سے چند لوگوں کو رسوا کرکے نکالا ۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اس کے بعد منافقین کے حال کا علم عطا فرمایا گیا ۔ (تفسیرخازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲/۲۷۶)
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منافقوں کو پہچانتے تھے ۔ مگر پردہ پوشی سے کام لیتے تھے عینی شرح بخاری جلد صفحہ 221 میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : خطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یوم الجمعۃ فقال اخرج یا فلان فانک منافق فاخرج منھم ناسا ففضحھ ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جمعہ کے دن خطبہ پڑھا ۔ پس فرمایا کہ اے فلاں نکل جا کیونکہ تو منافق ہے ان میں سے بہت سے آدمیوں کو رسوا کر کے نکال دیا ۔
شرح شفا ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ جلد اول صفحہ 241 میں فرماتے ہیں : عن ابن عباس کان امنفقون من الرجال ثلثۃ مائۃ ومن النساء مائۃ و سبعین ۔
ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ منافقین مرد تین سو تھے اور عورتیں ایک سو ستر ۔
دکتور الازھر ڈاکٹر محمد ابوشھبہ منکرین کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فلیس فی الایۃ اسمرار عدم العلم بحالھم بل فیھا مایشعر بان اللہ یفضحھم یکشف امرھم لنبیۃ علیہ السلام والمومنین المرۃ بعد المرۃ فالمراد بالمرتین التکثیر کقولہ سبحانہ ثم ارجع البصر کرتین والایۃ تشعر باطلاع اللہ سبحاہ نبیہ علیہ السلام علی احوالھم ولا سیما وقد ورد فی الروایۃ مایوید ذلک اخرج ابن ابی حاتم والطبرانی فی الاوسط وغیرھما عن ابن عباس رضی اللہ عنھما قال قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الجمعۃ خطببا فقال قم یا فلان فاخرج فانک منافق اخرج یا فلاں فانک منافق فاخرجھم باسمائھم ففضحھم ۔ (دفاع عن السنۃ ۳۳۲،چشتی)
ترجمہ : اس آیت مبارکہ میں کہیں نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا منافقین کو نہ جاننا دائمی ہے بلکہ اس میں یہ اطلاع ہے کہ اللہ تعالیٰ عنقریب انہیں ذلیل و رسوا فرمائے گا اور ان کے معاملہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اہل ایمان پر خوب منکشف کردے گا یہاں مرتین سے کثرت مراد ہے جیسا کہ اس ارشاد الٰہی (ثم ارجع البصر کرتین) میں ہے آیت تو واضح کررہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ان کے احوال پر مطلع فرمارہا ہے اور اس کی تائید یہ حدیث ہے جسے امام ابن ابی حاتم ، طبرانی نے اوسط اور دیگر محدثین نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جمعہ کے اجتماع میں خطبہ کے لیئے کھڑے ہوئے تو فرمایا فلاں تو اٹھ جا اور نکل جا تو منافق ہے ، فلاں تُو اٹھ اور نکل جا تُو منافق ہے تو ان کے نام لے لے کر آپ علیہ السلام نے انہیں نکال کر رسوا فرمایا ۔
تفسیر جمل میں اسی آیت کے ما تحت ہے : فان قلت کیف نفی عنہ علم بحال النافقین واثبتہ فی قولہ تعالٰٰی و لتعرفھم فی لحن القول فالجواب ان اٰیۃ النفی نزلت قبل اٰیۃ الاثبات ۔
اسی تفسیر جمل میں زیر آیت ۔ ولتعرفھم فی لحن القول“ ہے فکان بعد ذلک لا یتکلم منافق عند النبی علیہ السلام الا عرفیہ ویستدل علٰٰی فساباطنہ و نفاقہ ۔
ترجمہ : اگر تم کہو کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے منافقین کا حال جاننے کی نفی کیوں کی گئی حالانکہ آیت “ ولتعرفھم فی لحن القول“ میں اس کے جاننے کا ثبوت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفی کی آیت کا ثبوت کی آٰیت سے پہلے اتری ہے اس آیت کے بعد کوئی بھی منافق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حرفت میں کلام نہ کرتا تھا ۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان کو پہچان لیتے تھے اور اس کے فساد باطن اور نفاق پر دلیل پکڑتے تھے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا نام بنام منافقین کو مسجد سے نکالنا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ توبہ آیت نمبر 101 کی تفسیر میں کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جمعہ کے دن خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : اے فلاں ! تو نکل جا تو منافق ہے ۔ اے فلاں ! تو نکل جا تو منافق ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے منافقوں کا نام لے لے کر ان کو مسجد سے نکال دیا اور ان کو رسوا کر دیا ۔ اس دن کسی کام کی وجہ سے اس وقت تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں نہیں پہنچے تھے ۔ جس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تو وہ مسجد سے نکل رہے تھے ۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے چھپ رہے تھے ۔ ان کا گمان تھا کہ حضت عمر رضی اللہ عنہ کو حقیقتِ واقعہ کا پتا چل گیا ہے ۔ ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ کو خوشخبری ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے آج منافقین کو رسوا کردیا ۔ یہ ان پر عذاب اوّل تھا اور عذاب ثانی عذاب قبر ہے ۔ (المعجم الاوسط ج ١ ص ٤٤٢، رقم الحدیث : ٧٩٦،چشتی)،(مجمع الزوائد ج ٧ ص ٣٣)،(الکافی الشاف فی تخریج احادیث الکشاف ج ٢ ص ٣٠٦)
ان مفسرین کرام نے اس حدیث کا ذکر کیا ہے ۔ ان میں سے بعض نے اس کو اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے : (١) امام ابن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ (جامع البیان جز ١١ ص ١٥) ۔ (٢) امام ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ، (تفسیر القرآن ج ٦ ص ١٨٧٠) ۔ (٣) امام ابواللیث سمر قندی متوفی ٣٧٥ ھ، (تفسیر سمرقندی ج ٢ ص ٧١) ۔ (٤) علامہ ابوالحسن الواحدی المتوفی ٤٦٨ ھ، (الوسیط ج ٢ ص ٥٢١ ) ۔ (٥) امام حسین بن مسعود بغوی متوفی ٥٣٨ ھ، (معالم التنزیل ج ٢ ص ٢٧٢) ۔ (٦) علامہ محمود بن عمر زمحشری متوفی ٥٣٨ ھ، (الکشاف ج ٢ ص ٢٩١) ۔ (٧) قاضی ابن عطیہ اندلسی متوفی ٥٤٦ ھ، (المحرر الوجیز ج ٨ ص ٢٦٢ ) ۔ (٨) امام عبدالرحمن جوزی متوفی ٥٩٧ ھ، (زادالمسیر ج ٣ ص ٤٩٢) ۔ (٩) امام فخر الدین رازیمتوفی ٦٠٦ ھ، ( تفسیر کبیر ج ٦ ص ١٣١) ۔ (١٠) علامہ علاء الدین خازن متوفی ٧٢٥ ھ، (لباب التاویل ج ٢ ص ٢٩١) ۔ (١١) علامہ نظام الدین نیشاپوری متوفی ٧٢٨ ھ، (غرائب القرآن ج ٣ ص ٥٢٤ ) ۔ (١٢) علامہ ابوالحیان اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ، (البحر المحیط ج ٥ ص ٤٩٧) ۔ (١٣) حافظ ابن کثیر دمشقی متوفی ٧٧٤ ھ (تفسیر القرآن ج ٢ ص ٤٩٧) ۔ (١٤) علامہ ابو حجص عمر دمشقی متوفی ٨٨٠ ھ، (اللباب فی علوم الکتاب ج ١٠ ص ١٩٠) ۔ (١٥) حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ، (الدرالمنثور ج ٤ ص ٢٧٣) ۔ (١٦) قاضی ابوالسعود متوفی ٩٨٢ ھ، (تفسیر ابوالسعود ج ٣ ص ١٨٦) ۔ (١٧) قاضی محمد شوکانی متوفی ١٢٥٠ ھ، (فتح القدیر ج ٢ ص ٥٦٧ ) ۔ (١٨) علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ، (روح المعانی ج ١١ ص ١١) ۔ (١٩) نواب صدیق حسن خان بھوپالی متوفی ١٣٠٧ ھ، (فتح البیان ج ٥ ص ٢٨٦) ۔ (٢٠) صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی ١٣٦٧ ھ، (خزائن العرفان ص ٣٢٥ ) ۔ (٢١) (علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی متوفی ١٣٦٩ ھ ، تفسیرِ عثمانی برحاشیہ قرآن جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٣٦٩)
بعض علماء دیوبند اس حدیث کا انکار کرتے ہیں ۔ اس لیے ہم نے متعدد حوالہ جات ذکر کیے ہیں جنہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے ۔ حافظ ابن کثیر نے بھی منافقین کے علم کے متعلق دو حدیثیں ذکر کی ہیں : امام احمد کی سند کے ساتھ ذکر کرتے ہیں کہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہمیں مکہ کی عبادت کا کوئی اجر نہیں ملے گا ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم کو تمہاری عبادتوں کے اجور ملیں گے خواہ تم لومڑی کے سوراخ میں ہو ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب اپنا سر کرکے کان لگا کر سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے اصحاب میں منافقین بھی ہیں ۔ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بعض منافقین منکشف ہوگئے تھے اور وہ لوگ جو بے پر کی افواہیں اڑاتے تھے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو چودہ ، پندرہ معین منافقوں کا علم عطا فرمایا تھا اور یہ تخصیص اس کا تقاضا نہیں کرتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام منافقوں کے اسماء پر شخصی طور پر مطلع نہ ہوں ۔ اور امام ابن عساکر نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ ایک شخص جس کا نام حرملہ تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا : ایمان یہاں ہے اور اس نے اپنے ہاتھ سے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا ۔ اور نفاق یہاں ہے ۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا اور اس نے اللہ کا ذکر بہت کم کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لیے دعا کی : اے اللہ ! اس کی زبان کو ذکر کرنے والا بنا دے ۔ اور دل کو شکر کرنے والا بنا دے اور اس کو میری محبت عطا فرما اور جو مجھ سے محبت کرتے ہیں ان کی محبت عطا فرما ، اور اس کا معاملہ خیر کی طرف کر دے ۔ اس نے کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں منافقوں کا سردار تھا۔ کیا میں ان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو ہمارے پاس آئے گا ہم اس کے حق میں استغفار کریں گے اور جو اصرار کرے گا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ، اور تم کسی کا پردہ فاش نہ کرنا ۔ ( تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٤٣٠، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٩ ھ)
ثابت ہوا کہ دور جدید کے خوارج و منافقین جو ان آیات کو لے کر بنا سلف کے معنی و تفسیرات کے اپنی خود ساختہ تعلیمات نشر کرتےاور فساد پھیلاتے اور سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اپنے بڑوں منافقین مدینہ کی طرح رسوا ہوتے رہیں گے ان شاء اللہ ۔ غور کیجیئے کہ آج کے دور کےمنافقین و خوارج اور ان سب کے ماننے والوں کا بھی لاعلمی یا پھر منافقت سے ویسا ہی عقیدہ ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دور میں منافقین تھے جو کہ انکارِ علم نبوی کرتے تھے ۔ وہ اس دور میں کھلم کھلا انکار کرتے تھے ۔ اور انہوں نے مسلمانوں کا لباس پہنا ہوتا تھا نام رکھے ہوتے تھے اور آجکل یہ لوگ ہیں جنہوں نے دین میں بگاڑ ڈالا اور خوارج اسی لیئے کہلائے کہ امتِ مسلمہ سے ہٹ کر انہوں نے ایسی چیزوں کا انکار کیا اور توہینِ نبوی کے مرتکب ہوئے ۔
لا تعلمھم نحن نعلمھم علم نبوی کے منکرین کی ایک غلط دلیل کا جواب
منکرین سب سے بڑی دلیل اس ارشادِ الٰہی کو بناتے ہیں فرمایا : وَمِمَّنْ حَوْلَکُمۡ مِّنَ الۡاَعْرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ ؕۛ وَمِنْ اَہۡلِ الْمَدِیۡنَۃِ ۟ۛؔ مَرَدُوۡا عَلَی النِّفَاقِ ۟ لَا تَعْلَمُہُمْ ؕ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ ؕ ۔ ﴿سورہ توبہ آیت نمبر 101﴾
ترجمہ : اور تمہارے آس پاس کے کچھ گنوار منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے ان کی خو ہوگئی ہے نفاق تم انہیں نہیں جانتے ہم انہیں جانتے ہیں ۔
اور کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو علم غیب نہیں تھا لیکن ائمہ سلف الصالحین مفسرین علیہم الرّحمہ نے اس کی تفسیر میں کچھ یوں لکھا ہے مثلا امام ابواللیث سمرقندی رحمتہ اللہ علیہ (م ۳۸۶ھ) لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے : لانی عالم السروالعلانیۃ ونعلم نفاتھم نعرفک حالھم ۔
ترجمہ : میں ظاہر و مخفی جانتا ہوں اور ان کے نفاق کو بھی جانتا ہوں اور ہم ان کا حال تم پر آشکار کردیں گے ۔ (تفسیر السّمر قندی الجزء الثانی صفحہ نمبر 71)
دکتور الازھر ڈاکٹر محمد ابوشھبہ منکرین کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فلیس فی الایۃ اسمرار عدم العلم بحالھم بل فیھا مایشعر بان اللہ یفضحھم یکشف امرھم لنبیۃ علیہ السلام والمومنین المرۃ بعد المرۃ فالمراد بالمرتین التکثیر کقولہ سبحانہ ثم ارجع البصر کرتین والایۃ تشعر باطلاع اللہ سبحاہ نبیہ علیہ السلام علی احوالھم ولا سیما وقد ورد فی الروایۃ مایوید ذلک اخرج ابن ابی حاتم والطبرانی فی الاوسط وغیرھما عن ابن عباس رضی اللہ عنھما قال قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الجمعۃ خطببا فقال قم یا فلان فاخرج فانک منافق اخرج یا فلاں فانک منافق فاخرجھم باسمائھم ففضحھم ۔ (دفاع عن السنۃ ۳۳۲،چشتی)
ترجمہ : اس آیت مبارکہ میں کہیں نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا منافقین کو نہ جاننا دائمی ہے بلکہ اس میں یہ اطلاع ہے کہ اللہ تعالیٰ عنقریب انہیں ذلیل و رسوا فرمائے گا اور ان کے معاملہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اہل ایمان پر خوب منکشف کردے گا یہاں مرتین سے کثرت مراد ہے جیسا کہ اس ارشاد الٰہی (ثم ارجع البصر کرتین) میں ہے آیت تو واضح کررہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ان کے احوال پر مطلع فرمارہا ہے اور اس کی تائید یہ حدیث ہے جسے امام ابن ابی حاتم ، طبرانی نے اوسط اور دیگر محدثین نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جمعہ کے اجتماع میں خطبہ کے لیئے کھڑے ہوئے تو فرمایا فلاں تو اٹھ جا اور نکل جا تو منافق ہے ، فلاں تُو اٹھ اور نکل جا تُو منافق ہے تو ان کے نام لے لے کر آپ علیہ السلام نے انہیں نکال کر رسوا فرمایا ۔
یعنی ثابت ہوا کہ دور جدید کے خوارج جو ان آیات کو لے کر بنا سلف کے معنی و تفسیرات کے اپنی خودساختہ تعلیمات نشر کرتے ہیں اسی وجہ سے لوگوں کے اذھان دین میں گمراہ ہوتے ہیں اللہ سب کو ہدایت عطا فرمائے آمین ۔
اس آیت سے مخالفین دلیل پکڑتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دربار میں آنے والے منافقوں کو نہ پہچانتے تھے پھر علم غیب کیسا ؟ مگر مفسرین نے اس آیت کی توجہیہ کی ہے کہ اس آیت کے بعد یہ آیت نازل ہوئی “ ولتعرفھمفنھم فی لحن القول“ اور ضرور تم ان کو بات کے طریقے سے پہچان لوگے لہذا یہ آیت منسوخ ہے یا تو یہ توجہیہ ہے کہ بغیر ھمارے بتائے انکو نہیں پہچانتے ۔
تفسیر جمل میں اسی آیت کے ما تحت ہے : فان قلت کیف نفی عنہ علم بحال النافقین واثبتہ فی قولہ تعالٰٰی و لتعرفھم فی لحن القول فالجواب ان اٰیۃ النفی نزلت قبل اٰیۃ الاثبات ۔
اسی تفسیر جمل میں زیر آیت ۔ ولتعرفھم فی لحن القول“ ہے فکان بعد ذلک لا یتکلم منافق عند النبی علیہ السلام الا عرفیہ ویستدل علٰٰی فساباطنہ و نفاقہ ۔
ترجمہ : اگر تم کہو کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے منافقین کا حال جاننے کی نفی کیوں کی گئی حالانکہ آیت “ ولتعرفھم فی لحن القول“ میں اس کے جاننے کا ثبوت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفی کی آیت کا ثبوت کی آٰیت سے پہلے اتری ہے اس آیت کے بعد کوئی بھی منافق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حرفت میں کلام نہ کرتا تھا ۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان کو پہچان لیتے تھے اور اس کے فساد باطن اور نفاق پر دلیل پکڑتے تھے ۔
تفسیر بیضاوی یہ ہی آیت : خفی علیک حالھم مع کمال فطنتک وصدق فراستک ۔
ترجمہ : آپ پر ان کا حال باوجود آپ کی کمال سمجھ اور سچی پردم شناسی کے مخفی رہ گیا ۔
اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں اندازہ سے پتہ لگا لینے کی نفی ہے ۔ اگر اس آیت کی یہ توجہیں نہ کی جاویں تو ان احادیث کی مخالفت ہوگی جن سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منافقوں کو پہچانتے تھے ۔ مگر پردہ پوشی سے کام لیتے تھے عینی شرح بخاری جلد صفحہ 221 میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : خطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یوم الجمعۃ فقال اخرج یا فلان فانک منافق فاخرج منھم ناسا ففضحھ ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جمعہ کے دن خطبہ پڑھا۔ پس فرمایا کہ اے فلاں نکل جا کیونکہ تو منافق ہے ان میں سے بہت سے آدمیوں کو رسوا کر کے نکال دیا ۔
شرح شفا ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ جلد اول صفحہ 241 میں فرماتے ہیں : عن ابن عباس کان امنفقون من الرجال ثلثۃ مائۃ ومن النساء مائۃ و سبعین ۔
ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ منافقین مرد تین سو تھے اور عورتیں ایک سو ستر ۔
اس آیت مبارکہ کی مزید تفسیر : وَمِمَّنْ حَوْلَکُمۡ مِّنَ الۡاَعْرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ : اور اے مسلمانو تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں ۔ اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مدینے کے منا فقین کے حالات بیان فرمائے ، اس کے بعد دیہاتیوں میں جو منافقین تھے ان کا حال بیان فرمایا ، پھر بیان فرمایا کہ اکابر مؤمنین وہ ہیں جو مہاجرین اور انصار میں سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ مدینہ منورہ کی آس پاس کی بستیوں میں بھی منافقین کی ایک جماعت ہے اگرچہ تم ان کے نفاق کو نہیں جانتے ۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۶/۱۳۰)
اور یونہی خود مدینہ طیبہ میں بھی کچھ منافقین ہیں جیسے عبد اللہ بن اُبی اور اس کے ساتھی اور دیگر بہت سے لوگ جن کے بارے میں قرآن مجید کی متعدد آیات میں نشاندہی کی جاتی رہی ۔
صرف جگہ سے کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ صرف جگہ سے نہیں کیا جاسکتا جیسے مدینہ منورہ میں رہنے کے باوجود کچھ لوگ منافق اور لائقِ مذمت ہی رہے ، ہاں اگر عقیدہ صحیح ہے تو پھر جگہ کی فضیلت بھی کام دیتی ہے جیسے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے مدینہ طیبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری اُمت میں سے جو کوئی صبر کرے قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ۔۔۔ الخ، ص۷۱۵، الحدیث: ۴۸۳(۱۳۷۷،چشتی)
حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے اگر جانتے ، مدینہ کو جو شخص بطورِ اعراض چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے روزِ قیامت میں اس کا شفیع یا شہید (یعنی گواہ) ہوں گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ’’ جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے آگ میں اس طرح پگھلائے گا جیسے سیسہ یا اس طرح جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبیصلی اللہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص۷۰۹-۷۱۰، الحدیث: ۴۵۹-۴۶۰(۱۳۶۳)
حضرت سفیان بن ابی زہیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ’’ یمن فتح ہو گا ، اس وقت کچھ لوگ دوڑتے ہوئے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور ان کو جو اُن کی اطاعت میں ہیں لے جائیں گے حالانکہ مدینہ اُن کے لئے بہتر ہے اگر جانتے اور شام فتح ہوگا، کچھ لوگ دوڑتے آئیں گے ، اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے ، اور عراق فتح ہو گا ، کچھ لوگ جلدی کرتے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے ۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب من رغب عن المدینۃ، ۱/۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۵، مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی المدینۃ عند فتح الامصار، ص۷۱۹، الحدیث: ۴۹۷(۱۳۸۸)
حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا وہ ایسے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے ۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب اثم من کاد اہل المدینۃ، ۱/۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۷،چشتی)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشادفرمایا : جو اہلِ مدینہ کو ڈرائے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے خوف میں ڈالے گا ۔ (ابن حبان ، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ، ذکر البیان بانّ اللہ جلّ وعلا یخوف من اخاف اہل المدینۃ۔۔۔ الخ، ۴/۲۰، الحدیث: ۳۷۳۰، الجزء السادس)
حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’ یا اللہ !عَزَّوَجَلَّ ، جو اہلِ مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے تو اُسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے گا نہ نفل ۔ (معجم الاوسط، باب الراء، من اسمہ روح، ۲/۳۷۹، الحدیث: ۳۵۸۹،چشتی)
حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اہلِ مدینہ کو ایذا دے گا اللہ تعالیٰ اُسے ایذا دے گا اور اس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ اور فرشتوں اور تما م آدمیوں کی لعنت اور اللہ تعالیٰ اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔ (مجمع الزوائد، کتاب الحج، باب فیمن اخاف اہل المدینۃ وارادہم بسوئ، ۳/۶۵۹، الحدیث: ۵۸۲۶)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اُس کی شفاعت فرماؤں گا ۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، ۵/۴۸۳، الحدیث: ۳۹۴۳)
لَا تَعْلَمُہُمْ ؕ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ : تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں ۔ اس کے معنی یا تویہ ہیں کہ ایسا جاننا جس کا اثر انہیں معلوم ہو ، وہ ہمارا جاننا ہے کہ ہم انہیں عذاب کریں گے یا نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے منافقین کا حال جاننے کی نفی جو پہلے ہو چکا اس کے اعتبار سے ہے اور اس کا علم بعد میں عطا ہوا جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا وَ لَتَعْرِفَنَّہُمْ فِیۡ لَحْنِ الْقَوْلِ‘‘ ۔ (سورہ محمد:۳۰)
ترجمہ : اور ضرور تم انہیں گفتگو کے انداز میں پہچان لو گے ۔ (تفسیر جمل، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳/۳۰۴،چشتی)
کلبی اور سدی نے کہا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے جمعہ کے دن خطبے کے لئے قیام کرکے نام بنام فرمایا : نکل اے فلاں ! تو منافق ہے ، نکل ۔ اے فلاں ! تو منافق ہے ، تو مسجد سے چند لوگوں کو رسوا کرکے نکالا۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اس کے بعد منافقین کے حال کا علم عطا فرمایا گیا ۔ (تفسیرخازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲/۲۷۶)
ہم اثبات علم غیب میں ایک حدیث پیش کر چکے ہیں جس میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ہم پر ہماری امت پیش کی گئی لہٰذا ہم نے منافقوں اور کفار اور مومنین کو پہچان لیا ۔ اس پر منافقین نے اعتراض کیا اور قرآن کی آیت ان کے جواب کے لئے آئی ۔ ان سب دلائل میں مطابقت کرنے کے لئے یہ توجہیہ کرنا ضروری ہے ۔ نیز یہ کلام اظہارِ غضب کے لئے ہوتا ہے اگر باپ بچہ کو مارنے لگے اور کوئی باپ سے بچائے تو وہ کہتا ہے کہ اس کو تم نہیں جانتے میں جانتا ہوں اس سے علم کی نفی نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment