فضائل و مسائل عیدین مستند دلائل کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : نماز عیدین کا حکم ہجرتِ مدینہ کے پہلے سال دیا گیا ۔ الله تعالیٰ نے مسلمانوں کی خوشی اور فرحت کےلیے سال میں دو اہم دن مقرر کئے جن میں سے ایک عیدُالاضحی اور دوسرا عیدُالفطر کا دن ہے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو (دیکھا کہ) وہاں کے لوگ دو دن کھیل تماشے میں گزارتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ دن کیا ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہم ایام جاہلیت میں ان دو دنوں میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ اللهَ قَدْ اَبْدَلَکُمْ بِهِمَا خَيُرًا مِنْهُمَا ؛ يَوْمَ الْاَضْحٰی وَ يَوْمَ الْفِطْرِ ۔
ترجمہ : الله تعالیٰ نے ان ایام کے بدلے میں تمہیں ان سے بہتر دو ایام: یوم الاضحی اور یوم الفطر عطا فرمائے ہیں ۔ (سنن ابوداؤد کتاب الصلاة باب صلاة العيدين جلد 1 صفحہ 295 رقم : 1134)
عید کہتے ہیں خوشی کے دن کو ، عیدین سے دو عید یعنی عید الفطر اور عید الاضحی مراد ہیں ۔
عید الفطر اس عید کا نام ہے جو ماہ رمضان المبارک کے اختتام پر غرہ شوال کو ہوتی ہے جس میں نماز کے علاوہ صدقہ فطر بھی دیا جاتا ہے ۔
عید الاضحی وہ عید ہے جو ماہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو ہوتی ہے جس میں نماز کے علاوہ قربانی بھی دی جاتی ہے ۔
فضاٸل عیدین : ⏬
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرما : جس نے عیدین کی رات (یعنی شبِ عیدالفطر اور شب عِیدُ الْاَضْحٰی) طلبِ ثواب کےلیے قیام کیا ، اُس دن اُس کا دِل نہیں مرے گا ، جس دن (لوگوں کے) دِل مرجائیں گے ۔ (سنن ابنِ ماجہ جلد ۲ صفحہ ۳۶۵ حدیث نمبر ۱۷۸۲،چشتی)
حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں : جو پانچ راتوں میں شبِ بیداری کرے اُس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے ۔ ذُو الْحِجّہ شریف کی آٹھویں ، نویں اور دسویں رات (اِس طرح تین راتیں تو یہ ہوئیں) اور چوتھی عِیدُ الفِطْر کی رات ، پانچویں شَعْبانُ الْمُعظَّم کی پندرھویں رات (یعنی شبِ بَرَاء ت) ۔ (اَلتَّرْغِیْب وَ التَّرْھِیْب جلد ۲ صفحہ ۹۸ حدیث ۲)
حضرت عبدُ اللہ ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی ایک رِوایت میں یہ بھی ہے : جب عیدُ الْفِطْر کی مبارَک رات تشریف لاتی ہے تواِسے ’’لَیْلَۃُ الْجَائِزۃ‘‘ یعنی ’’اِنعام کی رات‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے ، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر سب گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اِس طرح ندا دیتے ہیں : اے اُمَّتِ مُحمّد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُس ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ کی طرف چلو!جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا گناہ معاف فرمانے والا ہے ۔ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے : اے میرے بندو!مانگو!کیا مانگتے ہو ؟ میری عزت وجلال کی قسم آج کے روزاِس (نمازِ عید کے) اِجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اُس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤں گا (یعنی اِس معاملے میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتر ی ہو) میری عزت کی قسم جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاؤں کی پردہ پوشی فرماتا رہوں گا ۔ میری عزت وجلال کی قسم میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں ) کے ساتھ رُسوا نہ کروں گا ۔ بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یا فتہ لوٹ جاؤ ۔ تم نے مجھے راضی کردیا اورمیں بھی تم سے راضی ہوگیا ۔ (اَلتَّرْغِیْب وَ التَّرھِیْب جلد ۲ صفحہ ۶۰ حدیث۲۳،چشتی)
حضرت وَہب بن مُنَبِّہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جب بھی عید آتی ہے، شیطان چلا چلا کر روتا ہے ۔ اِس کی بدحواسی دیکھ کر تمام شیاطین اُس کے گرد جمع ہوکر پوچھتے ہیں : اے آق آپ کیوں غضب ناک اور اُداس ہیں ؟ وہ کہتا ہے: ہائے افسوس ! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آج کے دِن اُمّتِ مُحمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بخش دیا ہے ، لہٰذا تم اِنہیں لذات اورنفسانی خواہشات میں مشغول کردو ۔ (مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب صفحہ ۳۰۸)
رمضان المُبارک کے اختتام پر آنے والی شب یعنی عید الفطر کی رات یہ ایک بابرکت رات ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے انعام ملنے والی رات ہے ، چنانچہ حدیث میں اس کو ”لیلۃ الجائزہ“ یعنی انعام ملنے والی رات کہا گیا ہے ، اِس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس رات میں بندوں کو پورے رمضان کی مشقتوں اور قربانیوں کا بہترین صلہ ملتا ہے ۔سُمِّيَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةُ لَيْلَةَ الْجَائِزَةِ ۔ (شعب الایمان : 3421)
عیدین کی شب میں عبادت کرنے والے کا دل قیامت کے دن مردہ نہیں ہوگا : حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا : جس عیدین (عید الفطر اور عید الاضحی) کی دونوں راتوں میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے عبادت میں قیام کیا اُس کا دل اُس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن سب کے دل مُردہ ہوجائیں گے ۔ مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ ۔ (سنن ابن ماجہ : 1782) ۔ مَنْ صَلَّى لَيْلَةَ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى، لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ ۔ (طبرانی اوسط : 159)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں : جو چار راتوں کو عبادت کے ذریعہ زندہ کرےاُس کے لئے جنّت واجب ہوجاتی ہے : لیلۃ الترویۃ یعنی آٹھ ذی الحجہ کی رات، عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کی رات ، لیلۃ النحر یعنی دس ذی الحجہ کی رات اور لیلۃ الفطر یعنی عید الفطر کی شب ۔ مَنْ أَحْيَا اللَّيَالِيَ الْأَرْبَعَ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ:لَيْلَةُ التَّرْوِيَةِ وَلَيْلَةُ عَرَفَةَ وَلَيْلَةُ النَّحْرِ وَلَيْلَةُ الْفِطْرِ ۔ (أخرجہ ابن عساکر فی تاریخہ جلد 43 صفحہ 93،چشتی)
الترغیب و الترھیب کی روایت میں پانچ راتیں ذکر کی گئی ہیں ، جن میں سے چار تو وہی ہیں اور پانچویں شعبان کی پندرہویں شب یعنی شبِ براءت ہے ۔ من أَحْيَا اللَّيَالِيَ الْخَمْسَ وَجَبت لَهُ الْجنَّة لَيْلَة التَّرويَة وَلَيْلَة عَرَفَة وَلَيْلَة النَّحْر وَلَيْلَة الْفطر وَلَيْلَة النّصْف من شعْبَان ۔ (الترغیب و الترھیب 1656)
عیدین کی شب میں کی جانے والی دعاء رد نہیں ہوتی : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعاء کو ردّ نہیں کیا جاتا : جمعہ کی شب ، رجب کی پہلی شب ، شعبان کی پندرہویں شب ، اور دونوں عیدوں (یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ)کی راتیں ۔ خَمْسُ لَيَالٍ لَا تُرَدُّ فِيهِنَّ الدُّعَاءَ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِط، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، وَلَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ ۔ (مصنف عبد الرزاق : 7927)
نمازِ عیدین احادیث مبارکہ کی روشنی میں : ⏬
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں جنگ بعاث کے دن کا شعر گا رہی تھیں اور ان لڑکیوں کا پیشہ گانے کا نہیں تھا ، تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ شطا نی باجہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گھر میں ؟ اور وہ عید کا دن تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج ہم لوگوں کی عید ہے ۔ (صحیح بخاری جلد 1 حدیث نمبر 903)
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تشریف لائے اور مر ے پاس دو لڑکیاں جنگ بعاث کے متعلق شعرگارہی تھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بستر پر لیٹ گئے اور اپنا منہ پھیرلیا، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو مجھے ڈانٹا اور کہا کہ یہ شیطانی باجہ، اور وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی موجودگی میں ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ چھوڑ دو، جب وہ (ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) دوسری طرف متوجہ ہوئے تو مں نے ان دونوں لونڈیوں کو اشارہ کیا (چلے جانے کا) تو وہ چلی گئیں ۔اور عید کے دن حبشی ڈھالوں اور برچھوں سے کھلیتے تھے ، تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے درخواست کی ، تونبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کیاتو تماشہ دیکھنا چاہتی ہے؟ تو میں نے کہا ہاں! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے اپنے پچھے کھڑا کردیا۔ میرارخسار نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دوش پر تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ اے بنی ارفدہ! تماشہ دکھاؤ، یہاں تک کہ جب مں اکتا گئی تو آپ صلی اللہ علہ وآلہ وسلم نے فرمایا “بس”؟ تو میں نے کہا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تو چلی جاؤ ۔ (صحیح بخاری جلد 1 حدیث نمبر 901،چشتی)
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہں کہ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عید الفطر کے دن جب تک چند چھوہارے نہ کھا لیتے ، عید گاہ کی طرف نہ جاتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم چھوہارے طاق عدد مںا کھاتے تھے ۔ (صحیح بخاری جلد 1 حدیث نمبر 904)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عیدالضحیٰ اور عیدالفطر میں نماز پڑھتے تھے پھر نماز کے بعد خطبہ کہتے تھے ۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 908)
سعد بن حارث جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ جب عید کا دن ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم واپسی مں راستہ بدل کرتے ۔ (صححج بخاری جلد 1 حدیث نمبر 933)
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عید الفطر کے دن نکلے اور دو رکعت نماز اس طرح پڑھی کہ نہ تو اس سے پہلے نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد پڑھی اور آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تعالیٰ تھے ۔ (صحیح بخاری جلد 1 حدیث نمبر 935)
نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صدقہ فطر یا صدقہ رمضان ، مرد ، عورت ، آزاد ، غلام، ہر ایک پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض کیا ۔ تو لوگوں نے نصف صاع گیہوں اس کے برابر سمجھ لیا ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کھجور دیتے تھے تو ایک بار اہل مدینہ پر کھجور کا قحط ہوا تو جو دئےاور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ چھوٹے اور بڑے کی طرف سے دیتے تھے ، یہاں تک کہ مرلے بٹوں کی طرف سے دے دیتے تھے ، اور ابن عمر رضی اللہ عنہ ان کو دیتے جو قبول کرتے اور عید الفطر کے ایک یا دو دن پہلے دیتے ۔ ابوعبد اللہ (امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا کہ بنی سے مراد بنی نافع ہے اور کہا کہ وہ لوگ جمع کرنے کےلیے دیتے تھے نہ فقراء کو دیتے تھے۔ (صحیح بخاری جلد 1 حدیث نمبر 1421)
قزعہ بیان کرتے ہں میں نے ابو سعید خدری سے سنا ہے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ بارہ غزوہ کئے تھے۔ انہوں نے بیاں کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے دنوں مںت روزہ نہ رکھے ۔ اور نہ فجر کے بعد نماز پڑھے ، جب تک کہ آفتاب غروب نہ ہو جائے اور تند مسجدوں کے سوا کسی اور مسجد کےلیے سامان سفر نہ باندھے (وہ تینوں مسجدیں یہ ہیں) مسجدِ حرام ، مسجدِ اقصیٰ ، مسجدِ نبوی ۔ (بخاری جلد 1 حدیث نمبر 1873،چشتی)
عطاء بن ابی رباح کہتے ہںی کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قسم کھا کر بیان کیاکہ (ایک مرتبہ) عید کے موقعہ پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مردوں کی صف سے گذر کر عورتوں کی صفوں تک پہنچے (اس وقت) آپ کے ہمراہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ گمان کیا کہ (شاید) عورتوں نے خطبہ نہیں سنا تو آپ نے انہیں نصیحت فرمائی اور انہیں صصدقہ (دینے) کا حکم دیا ، پس کوئی عورت بالی اور انگوٹھی ڈالنے لگی (کوئی کچھ) اور بلال اپنے کپڑے کے کنارے میں لینے لگے ۔ (صحیح بخاری جلد 1 حدیث نمبر 98)
عیدین کی تکبیریں تین ہیں : ⏬
وَرُوِی عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّہُ قَالَ فِی التَّکْبِیرِ فِی العِیدَیْنِ : ” تِسْعَ تَکْبِیرَاتٍ فِی الرَّکْعَۃِ الأُولَی: خَمْسًا قَبْلَ القِرَاء ۃِ، وَفِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ یَبْدَأُ بِالقِرَاء ۃِ ثُمَّ یُکَبِّرُ أَرْبَعًا مَعَ تَکْبِیرَۃِ الرُّکُوعِ ” وَقَدْ رُوِیَ عَنْ غَیْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوُ ہَذَا، وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الکُوفَۃِ، وَبِہِ یَقُولُ سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عیدین کی نو تکبیریں ہیں ۔ پہلی رکعت میں پانچ تکبیریں قرأت سے پہلے اور دوسری رکعت میں پہلے قرأت ہے پھر چار تکبیریں ہیں ۔ ان میں رکوع کی تکبیر شامل ہے ۔ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اسی طرح مروی ہے، اہل کوفہ (امام اعظم رضی اللہ عنہ ) اورامام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی قول ہے ۔ (جامع ترمذی جلد 1 ابو اب العیدین باب فِی التَّکْبِیرِ فِی العِیدَیْنِ صفحہ 318 حدیث نمبر 521،چشتی)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلی رکعت میں پہلے تکبیریں بعد میں قرأت ہے اور دوسری رکعت میں پہلے قرأت بعد میں تکبیریں ہیں ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاء، وَابْنُ أَبِی زِیَادٍ، الْمَعْنَی قَرِیبٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا زَیْدٌ یَعْنِی ابْنَ حُبَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ مَکْحُولٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبُو عَائِشَۃَ، جَلِیسٌ لِأَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ سَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ، سَأَلَ أَبَا مُوسَی الْأَشْعَرِیَّ، وَحُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ، کَیْفَ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکَبِّرُ فِی الْأَضْحَی وَالْفِطْرِ؟ فَقَالَ أَبُو مُوسَی: کَانَ یُکَبِّرُ أَرْبَعًا تَکْبِیرَہُ عَلَی الْجَنَائِزِ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ: صَدَقَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَی: کَذَلِکَ کُنْتُ أُکَبِّرُ فِی الْبَصْرَۃِ، حَیْثُ کُنْتُ عَلَیْہِمْ، وَقَالَ أَبُو عائِشَۃَ: وَأَنَا حَاضِرٌ سَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ ۔
ترجمہ : ابوعائشہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سعید بن عاص رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عید الاضحی اور عید الفطر میں تکبیر کس طرح کہتے تھے ؟ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم چار (4) تکبیریں کہتے تھے جیسے جنازے میں چار کہی جاتی ہے ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا بے شک تم نے سچ کہا ۔ پھر ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :میں بصرہ میں اسی طرح تکبیر کہتا رہا جب میں ان پر حاکم تھا ۔ حضرت ابو عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں (اس وقت) سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر تھا ۔ (سنن ابو داؤد جلد 1 کتاب الصلوٰۃ باب التَّکْبِیرِ فِی الْعِیدَیْنِ صفحہ 428-29 حدیث : 1140،چشتی)
حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ، عَنْ عُقَیْلٍ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُکَبِّرُ فِی الْفِطْرِ وَالْأَضْحَی، فِی الْأُولَی سَبْعَ تَکْبِیرَاتٍ، وَفِی الثَّانِیَۃِ خَمْسًا ۔
ترجمہ : امالمومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وسلّم عید الفطر اور عید الاضحی کی پہلی رکعت میں سات(7) اور دوسری رکعت میں پانچ (5) تکبیریں کہتے تھے ۔ (سنن ابو داؤد جلد 1 کتاب الصلوٰۃ باب التَّکْبِیرِ فِی الْعِیدَیْنِ صفحہ 428 حدیث نمبر 1136)
مذکورہ بالا تمام احادیثِ مبارکہ بظاہر ایک دوسرے سے مختلف نظر آتی ہیں لیکن جب ان پر غور کیا جائے تو ان احادیث میں کوئی تعارض باقی نہیں رہ جاتا ۔ ملاحظہ فرمائیں : جس روایت میں پہلی اور دوسری رکعتوں میں چار (4) تکبیروں کا ذکر ہے اس میں عیدین کی تین تکبیروں کے علاوہ رکوع کی تکبیر بھی شامل ہے ۔ جس حدیث میں پہلی رکعت میں پانچ (5) اور دوسری رکعت میں (4) تکبیروں کا ذکر ہے اس کی پہلی رکعت میں عیدین کی تین تکبیروں کے علاوہ تکبیر تحریمہ اور تکبیر رکوع بھی شامل ہے۔ جب کہ دوسری رکعت میں عیدین کی تین تکبیروں کے علاوہ تکبیر رکوع شامل ہے ۔ جس روایت میں پہلی رکعت میں سات (7) اور دوسری رکعت میں پانچ (5) تکبیروں کا ذکر ہے اس کی پہلی رکعت میں عیدین کی تین تکبیروں کے علاوہ تکبیر تحریمہ ، تکبیر رکوع ، سجدے کی تکبیر اور سجدے سے سر اٹھانے کی تکبیروں کا بھی ذکر ہے اور دوسری رکعت میں عیدین کی تین تکبیروں کے علاوہ تکبیر تحریمہ اور تکبیر رکوع بھی شامل ہیں ۔ اس تطبیق سے مسئلہ واضح ہو گیا کہ سب کے کہنے کا مطلب و مقصد ایک ہی ہے مگر انداز بیان الگ الگ ہے اور ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں۔لہٰذا تکبیرات عیدین ہر رکعت میں تین تین ہیں ۔
عورتیں عیدگاہ میں نہ جائیں : ⏬
ابتدائے اسلام میں عورتوں کو دین کے بنیادی احکامات ،مسائل اور آداب سے روشناس کرنے کے لیے مختلف اجتماعات مثلاً فرض نماز ،جمعہ ،عیدین وغیرہ میں شرکت کی اجازت تھی۔ جب یہ ضرورت پوری ہوئی اور عورتیں بنیادی مسائل واحکام سے واقف ہو گئیں تو انہیں ان اجتماعات سے روک دیا گیا۔ مندجہ ذیل روایات اس پر شاہد ہیں : ⏬
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ لَوْاَدْرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَااَحْدَثَ النِّسَائُ لَمَنَعَھُنَّ الْمَسْجِدَ کَمَا مُنِعَتْ نِسَائُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ ۔ (صحیح البخاری جلد 1 صفحہ 120 باب خروج النساء الی المساجد الخ)(صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 183 باب خروج النساء الی المساجدالخ،چشتی)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آج اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان باتوں کو دیکھ لیتے جو عورتوں نے اختیار کر رکھی ہیں تو انہیں کو مسجد جانے سے ضرور روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ کَانَ لَا یُخْرِجُ نِسَاءَ ہٗ فِی الْعِیْدَیْنِ ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 4 صفحہ 234 باب من کرہ خروج النساء الی العیدین)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنی بیویوں کو نماز عیدین کے لیے نہیں جانے دیتے تھے ۔
عَنْ ھِشَامِ بْنِ عُرْوَۃ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّہٗ کَانَ لَایَدَعُ اِمْرَأۃً مِّنْ اَھْلِہٖ تَخْرُجُ اِلٰی فِطْرٍ وَلَااَضْحٰی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 4 صفحہ 234 باب من کرہ خروج النساء الی العیدین)
ترجمہ : ہشام بن عروہ اپنے والد عروہ بن زبیر بن عوام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کی کسی عورت کو عیدالفطر اور عید الاضحی کی نماز پڑھنے کے لیے نہیں جانے دیتے تھے ۔
عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ القَاسِمِ قَالَ کَانَ الْقَاسِمُ اَشَدَّ شَیْئٍ عَلَی الْعَوَاتِقِ ، لَایَدَعُھُنَّ یَخْرُجْنَ فِی الْفِطْرِ وَالْاَضْحٰی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 4 صفحہ 234 باب من کرہ خروج النساء الی العیدین)
ترجمہ : حضرت عبدالرحمن بن قاسم کہتے ہیں کہ قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رحمہ اللہ نوجوان عورتوں کے بارے میں بہت سخت تھے کہ انہیں عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ میں نہیں جانے دیتے تھے ۔
عَنْ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ یُکْرَہُ خُرُوْجُ النِّسَائِ فِی الْعِیْدَیْنِ ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 4 صفحہ 234 باب من کرہ خروج النساء الی العیدین)
ترجمہ: جلیل القدر تابعی حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ عورتوں کو عیدین کی نمازوں کے لئے جانا مکروہ ہے ۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے : لا تجب الجمعۃ علی العبید والنسوان والمسافرین والمرضٰی کذا فی محیط السر خسی ۔ یعنی غلاموں ، عورتوں ، مسافروں اور مریضوں پر نمازِ جمعہ واجب نہیں اور پھر اسی کتاب کے صفحہ نمبر 77 پر ہے : تجب صلٰوۃ العید علٰی کل من تجب علیہ صلٰو ۃ الجمعۃ کذا فی الھدایہ یعنی جن لوگوں پر نماز جمعہ واجب ہے انہیں لوگوں پر نماز عید بھی واجب ہے ۔ مذکورہ بالا عبارتوں سے معلوم ہوا کہ عورتوں پر نماز عید واجب نہیں ۔ رہا جواز کا سوال تو عورتوں کےلیے عیدین کی نماز جائز بھی نہیں اس لیے کہ عید گاہ میں اختلاط مردوزن ہوگا اور عورتیں جماعت کریں تو یہ بھی ناجائز اس لیے کہ صرف عورتوں کی جماعت مکروہ تحریمی ہے اور فرداً فرداً پڑھیں تو بھی نماز جائز نہ ہوگی اس لیے کہ عیدین کی نماز کےلیے جماعت شرط ہے ۔ و اذا فا ت الشرط فات المشروط ۔ (فتاویٰ عالمگیری جلد اول صفحہ نمبر 74 ، 77،چشتی)
نماز عیدین کا حکم : دونوں عیدوں کی نمازیں واجب ہیں اور ان ہی لوگوں پر واجب ہیں جن پر جمعہ واجب ہے ۔
نماز عیدین کے شرائط : نماز عیدین کے وہی شرائط ہیں جو نماز جمعہ کے ہیں مگر اتنا فرق ہے کہ نماز جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور نماز عیدین میں سنت اور جمعہ کا خطبہ نماز سے پہلے پڑھنا چاہیے اور عیدین کا نماز کے بعد ۔
جمعہ میں اذان و اقامت دونوں ہیں بلکہ دو اذانیں ہیں اور عیدین میں نہ اذان ہے نہ اقامت ۔
نوٹ : ایسے گاؤں میں جہاں صحت عیدین کی شرطیں موجود نہ ہوں ، عیدین کی نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے ، البتہ یہاں کے باشندے قریب تر مقام میں جاکر عید کی نماز ادا کرسکتے ہیں ۔
عیدین کے آداب ۔ عیدین کے دن درج ذیل امور مسنون و مستحب ہیں : ⏬
(1) اپنی آرائش کرنا (عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے بعد) اصلاح بنوانا ، ناخن کتروانا ۔ (2) غسل کرنا ۔ (3) مسواک کرنا ۔ (4) عمدہ سے عمدہ لباس جو موجود ہو پہننا ۔ (5) خوشبو لگانا ۔ (6) عید کے دن فجر کی نماز محلہ کی مسجد میں پڑھنا - (7) عیدگاہ میں بہت سویرے جانا - (8) عید الفطر میں عیدگاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر دے دینا - (9) عید الفطر میں پہلے کھجور یا کوئی میٹھی چیز کھاکر نماز کو جانا (اگر کھجور ہوں تو طاق عدد میں کھائے) - (10) عید الاضحی میں بغیر کچھ کھائے نماز کو جانا (اور اگر قربانی واجب ہو تو نماز سے واپس آکر اپنی قربانی کا گوشت کھانا) ۔ (11)عید کی نماز خاص عیدگاہ میں جاکر ادا کرنا - (12) عیدگاہ کو ایک راستہ سے جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا - (13) عیدگاہ کو پیدل جانا (بشرطیکہ جا سکے) ۔ (14) راستہ میں تکبیر : اَللّٰهُ اَکْبَرْ اَللّٰهُ اَکْبَرْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَ اللّٰهُ اَکْبَرْ اَللّٰهُ اَکْبَرْ وَ لِلّٰهِ الْحَمْدِ - پڑھتے ہوئے جانا - (15) عید الفطر میں تکبیر آہستہ اور عید الاضحی میں بآواز بلند پڑھنا ، نیز خیرات کی زیادتی ، خوشی کا اظہار اور مبارکباد دینا مستحب ہے ۔
نماز عیدین کے اوقات : ⏬
(1) عیدین کی نماز کا وقت آفتاب کے ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور زوال آفتاب سے پہلے تک رہتا ہے ۔ (2) عیدین کی نماز کا (وقت شروع ہوجانے کے بعد) جلد پڑھ لینا مستحب ہے ۔ (3) افضل یہ ہے کہ عید الاضحی میں جلدی کرے اور عید الفطر میں تاخیر ۔
نماز عیدین کے رکعات و تکبیرات : ⏬
ہر عید کی نماز کی دو دو رکعتیں ہیں‘ فقہ حنفی میں عیدین کی نمازوں میں علاوہ معمولی تکبیروں کے ہر رکعت میں تین تین اس طرح ہر نماز میں چھ چھ تکبیرات عیدین واجب ہیں-فقہاء مالکیہ اور فقہاء حنابلہ کے پاس نماز عید کی زائد تکبیرات پہلی رکعت میں چھ (6) اور دوسری رکعت میں پانچ (5) ہیں ۔ فقہاء شافعیہ کے پاس پہلی رکعت میں سات (7) اور دوسری رکعت میں پانچ (5) ہیں ۔
نوٹ : حنفی شخص اگر شافعی‘ مالکی یا حنبلی امام کی اقتداء میں نماز عید ادا کرے تو امام کے مسلک کے مطابق تکبیرات کہے‘ لہٰذا حرمین شریفین میں نماز ادا کرنے والے حنفی حضرات تکبیرات عیدین کی تعداد میں امام کی متابعت کریں ۔ عیدین کے نماز کی دوسری رکعت میں رکوع کی تکبیر بھی واجب ہے ۔
نماز عیدین کا طریقہ : ⏬
نماز عیدین کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے نماز عید کی نیت کرے : نَوَيتُ اَنْ اُصَلِّیْ رَکَعْتَیْ صَلوٰةِ عِيدِ الفِطْرِ مَعَ سِتِّ تَکْبِيرَاتٍ لِلّٰهِ تَعَالٰی ۔
ترجمہ : دو رکعت نماز عید الفطر ادا کرتا ہوں چھ تکبیروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے واسطے ۔
امام امامت کی نیت کرے اور مقتدی اقتداء کی نیت کریں‘ پھر تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھ لیں اور ثناء پڑھیں پھر (امام و مقتدی ہر دو) اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑدیں‘ ہاتھ چھوڑ کر اتنی دیر توقف کریں کہ تین مرتبہ سبحان اللہ کہہ سکیں‘ پھر دوسری مرتبہ اسی طرح اللہ اکبر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور چھوڑدیں اور اسی قدر توقف کریں‘ پھر تیسری مرتبہ اللہ اکبر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اٹھاکر (اس دفعہ نہ چھوڑیں بلکہ) باندھ لیں‘ پھر امام (آہستہ) اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کر سورہ فاتحہ اور دوسری سورۃ جہر کے ساتھ پڑھے اور قاعدہ کے موافق رکوع و سجود وغیرہ کرکے دوسری رکعت شروع کرے‘ جب دوسری رکعت میں قرأت (سورہ فاتحہ اور دوسری سورۃ) ختم کرچکے تو (امام و مقتدی ہر دو) پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑدیں اور تین تسبیح کے موافق توقف کریں‘ اسی طرح دوسری اور تیسری تکبیر کہتے اور کانوں تک ہاتھ اٹھاکر چھوڑتے جائیں (یعنی تیسری تکبیر کے بعد بھی ہاتھ نہ باندھیں چھوڑے رہیں) پھر بغیر ہاتھ اٹھائے چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائیں اور حسب قاعدہ نماز پوری کرلیں‘ ختم نماز کے بعد امام منبر پر کھڑا ہوکر خطبہ پڑھے اور تمام لوگ خاموش بیٹھے خطبہ سنیں‘ عیدین میں بھی دو خطبے ہیں اور دونوں کے درمیان بیٹھنا مسنون ہے ۔
عید الاضحی میں بھی وہ سب چیزیں مسنون و مستحب ہیں جو عید الفطر میں ہیں ، فرق اس قدر ہے کہ عید الفطر میں عیدگاہ جانے سے قبل کوئی چیز کھانا مسنون ہے اور عید الاضحی میں عید گاہ سے واپس آنے کے بعد ، عیدالفطر میں راستہ چلتے وقت آہستہ تکبیر کہنا مسنون ہے اور عید الاضحی میں بلند آواز سے ۔
عید الفطر کی نماز دیر کرکے پڑھنا مسنون ہے اور عید الضحی کی سویرے ۔
اذان و اقامت نہ وہاں ہے نہ یہاں ۔
نماز عیدین کے احکام : ⏬
عید الاضحیٰ اور عید الفطر کے دن مندرجہ ذیل چند چیزیں مسنون اور مستحب ہیں اُن کا اہتمام کرنا چاہیئے : (1) عید کے دن جلدی جاگنا ،تاکہ جلدی تیاری کرکے عید گاہ پہنچا جاسکے ۔ (2)غسل کرنا ۔(3) مسواک کرنا ۔(4) اپنے کپڑوں میں سے عُمدہ اور اچھے کپڑے پہننا ، خواہ نئے ہوں یا دھلے ہوئے ، البتہ سفید کپڑے بہتر ہیں ۔(5) خوشبو لگانا ۔ (6) عید گاہ میں نمازِ عید اداء کرنا ۔ (8) عید گاہ جلدی جانا ۔ (9)صدقہ فطر نماز سے پہلے اداء کردینا ۔ (10) عید گاہ پیدل جانا ۔ (11) آنے جانے کا راستہ بدلنا ۔(12) عید گاہ جانے سے پہلے طاق عدد میں کھجوریں کھانا ، کھجور نہ ہوتو کوئی بھی میٹھی چیز کھائی جا سکتی ہے ۔ (13) عید الاضحیٰ میں عید گاہ جانے سے پہلے کچھ نہ کھانا ، بلکہ بہتر ہے کہ اگر ممکن ہو تو عید کی نماز کے بعد اپنے قربانی کے گوشت سے کھانے کی ابتداء کرنا ۔(14) وقار و اطمینان کے ساتھ جانا جن چیزوں کو دیکھنا جائز نہیں ان سے آنکھیں ہٹانا اور نیچی نگاہ رکھنا ۔ (15) عیدالفطر کے لئے جاتے ہوئے عید گاہ پہنچنے تک راستہ میں آہستہ اور عیدالاضحٰی کے لئے جاتے ہوئے بلند آواز سے تکبیر کہتے جانا ۔ ”اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد“۔ (16) عیدین کی نماز سے واپس آنے کے بعد گھر پر چار رکعت یا دو رکعت نفل پڑھنا ، چار رکعت افضل ہے ۔ (فتاویٰ عالمگیری جلد1 صفحہ 149 ، 150)(فتاویٰ شامی جلد 2 صفحہ 168،چشتی)
عید گاہ میں نماز اداء کرنا : ⏬
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن (نماز پڑھنے کیلئے)بعید گاہ جایا کرتےتھے ۔ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ آلہِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ يَوْمَ الفِطْرِ وَالأَضْحَى إِلَى المُصَلَّى ۔ (صحیح بخاری : 956)
آٸمہ ثلاثہ کے نزدیک نماز عید ، عید گاہ میں پڑھنا افضل ہے ۔ اور بغیر عذر کے مسجد میں پڑھنا مکروہ ہے ۔
امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے نزدیک عیدین کی نمازدوسری نمازوں کی طرح مسجد ہی میں پڑھنا افضل ہے ، ہاں اگر مسجد میں جگہ تنگ پڑتی ہو تو عید گاہ میں پڑھی جائے گی ۔ (الفقہ الاسلامی جلد 2 صفحہ 1394)
پھر ائمہ ثلاثہ جو یہ کہتے ہیں کہ عید گاہ میں پڑھنا افضل ہے اور مسجد میں مکروہ ہے ، اُن کے درمیان اِس بات میں اختلاف ہے کہ کیا مکہ مکرّمہ میں مسجدِ حرام اس سے مستثنیٰ ہے یا نہیں ، یعنی مسجدِ حرام کے مقابلے میں بھی عید گاہ میں پڑھنا افضل ہے یا نہیں :
مالکیہ و حنابلہ کے نزدیک مسجدِ حرام مستثنیٰ ہے ، لہٰذا عید گاہ کے بجائے مسجدِ حرام میں پڑھنا افضل ہے ۔
احناف کے نزدیک مسجدِ حرام مستثنیٰ نہیں ، لہٰذا دیگر مساجد کی طرح اس کے مقابلے میں بھی عید گاہ میں پڑھنا افضل ہے ۔ (الفقہ علی المذاہب الأربعۃ جلد1 صفحہ 319،چشتی)
عیدین کےلیے پیدل جانا : ⏬
عید گا ہ کی طرف سواری پر بیٹھ کر جانا بھی جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ پیدل جانے کا اہتمام کیا جائے ۔
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عیدگاہ کی طرف کیلئے پیدل جاتے اور پیدل ہی واپس آیا کرتے تھے ۔ كَانَ يَخْرُجُ إِلَى الْعِيدِ مَاشِيًا، وَيَرْجِعُ مَاشِيًا ۔ (سنن ابن ماجہ : 1294)
حضرت علی کرّم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ عید گاہ کی طرف پیدل جانا سنّت ہے ۔ عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ : إِنَّ مِنَ السُّنَّةِ أَنْ يَمْشِيَ إِلَى الْعِيدِ ۔ (سنن ابن ماجہ : 1296)
عیدین کی نماز میں (جمعہ کی طرح) پہلی رکعت میں سورہ جمعہ اور دوسری رکعت میں سورہ منافقون یا پہلی میں "سَبِّحْ اِسْمَ ربک الاعلی" اور دوسری میں" ھَلْ اَتٰکَ حدیث الغاشیۃ" پڑھنا مستحب ہے ۔
نماز عیدین کی تکبیر تحریمہ کا خاص بلفظ اللہ اکبر ادا ہونا واجب ہے‘ (اگر اللہ اکبر کے بجائے) اللہ اجل یا اللہ اعظم کہا جائے تو واجب ترک اور سجدہ سہو لازم ہوگا ۔
نماز عیدین میں تکبیرات عیدین یعنی ہر عید کی نماز میں چھ چھ تکبیرات واجب ہیں اور دوسری رکعت کے رکوع کی تکبیر بھی واجب ہے‘ اگر یہ سہواً ترک ہوں تو سجدہ سہو لازم ہے ۔
عیدین کی تکبیریں (امام کو) جہر کے ساتھ ادا کرنا چاہیے ۔
عیدین کی تکبیروں میں امام اور مقتدی دونوں کو ہاتھ اٹھانا چاہیے ‘ اگر امام ہاتھ نہ اٹھائے تو بھی مقتدی برابر ہاتھ اٹھائیں ۔ اگر عیدین کی تکبیریں امام سے سہواً رہ جائیں تو مقتدی بھی چھوڑدیں اور امام کی متابعت کریں۔ اگر امام تکبیرات عیدین میں زیادتی کرے تو مقتدی تیرہ تکبیروں تک متابعت کریں‘ تیرہ کے بعد متابعت نہ کریں ۔
اگر عیدین کی نماز میں امام حنفی اور مقتدی شافعی ہوں یا شافعی امام اور حنفی مقتدی ہوتو تکبیروں کی تعداد او رتقدیم و تاخیر میں مقتدی امام کی متابعت کریں ۔
اگر امام پہلی رکعت میں (عید کی) تکبیریں بھول جائے اور قرأت شروع کردے تو جبکہ صرف سورہ فاتحہ پڑھا ہو تو تکبیریں کہہ کر پھر سے قرأت شروع کرے اور اگر دوسری سورۃ پڑھ رہا ہو تو تکبیریں ختم قرأت کے بعد کہے‘ اگر قرأت کے بعد بھی یاد نہ آئے تو رکوع میں سر اٹھانے سے قبل کہے (لیکن حالت رکوع میں تکبیر کہتے وقت ہاتھ نہ اٹھائے) ۔ اگر دوسری رکعت میں امام تکبیر کہنا بھول جائے اور رکوع میں اس کو خیال آئے تو چاہئے کہ حالت رکوع ہی میں تکبیر کہے پھر قیام کی طرف نہ لوٹے ۔
اگر نماز عید میں سہو واقع ہو تو سجدہ سہو نہ کرے تاکہ لوگ فتنہ میں نہ پڑجائیں ۔
اگر کوئی شخص نماز عید میں ایسے وقت آئے جبکہ امام تکبیریں کہہ چکا ہو تو اس کو چاہئے کہ نیت باندھ کر فوراً تکبیریں کہہ لے (اگرچہ امام نے قرأت شروع کردی ہو) ۔
اگر کوئی شخص ایسے وقت آئے جبکہ امام رکوع میں ہو تو اگر تکبیریں کہنے کے بعد شریک رکوع ہوسکنے کا گمان غالب ہو تو نیت باندھ کر تکبیریں کہہ لے اور رکوع میں شامل ہوجائے اور اگر خوف ہو کہ تکبیریں کہنے تک امام رکوع سے سر اٹھالے گا تو نیت باندھ کر فوراً رکوع میں چلاجائے اور رکوع میں (تسبیح کے بجائے) تکبیریں کہہ لے (مگر ہاتھ نہ اٹھائے) پھر قبل اس کے کہ پوری تکبیریں کہہ لے اگر امام رکوع سے سر اٹھالے تو یہ بھی اتباعاً کھڑا ہوجائے‘ ایسی حالت میں جس قدر تکبیریں رہ جائیں وہ معاف ہیں ۔
اگر کوئی شخص دوسری رکعت میں آکر شریک ہو تو اس کو چاہئے کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد جب وہ اپنی گئی ہوئی رکعت ادا کرنے لگے تو پہلے قرأت ختم کرلے پھر قرأت کے بعد تکبیریں کہہ لے ۔
اگر کوئی شخص امام کو تشہد میں پائے تو اب نماز امام کی طرح ادا کرلے یعنی پہلی رکعت میں تین تکبیریں قرأت سے پہلے کہے اور پھر دوسری رکعت میں تین تکبیریں قرأت کے بعد ۔
اگر کسی کو عید کی نماز نہ ملے اور سب لوگ پڑھ چکے ہوں تو وہ تنہا نماز عید نہیں پڑھ سکتا (کیونکہ اس میں جماعت شرط ہے) البتہ کچھ اور لوگ بھی ہوں جن کو نماز نہ ملی ہو تو سب مل کر دوسری جگہ پڑھ لے سکتے ہیں یا ایسا شخص کہیں دوسری جگہ نماز مل جائے تو جاکر پڑھ لے ۔
اسی طرح اگر کوئی شخص نماز عید میں شریک رہا ہو لیکن کسی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہوگئی ہو تو وہ بھی اس کی قضا نہیں پڑھ سکتا ۔
بہتر ہے کہ ایسا شخص جس کو نماز عید نہ ملی ہو چار رکعت نماز چاشت پڑھ لے ۔
نماز عیدین کا ایک شہر کی متعدد مساجد میں پڑھنا جائز ہے ۔
اگر عیدین کی نماز کسی عذر سے عید کے دن نہ پڑھی جاسکے مثلاً (1) بارش ہورہی ہو ۔ (2) چاند نظر نہ آیا ہو اور زوال کے بعد اطلاع ملے یا زوال سے پہلے ایسے تنگ وقت اطلاع ملے کہ نماز کے لئے لوگوں کا جمع ہونا ممکن نہ ہو ۔ (3) ابر کے دن نماز پڑھی گئی اور ابر کھل جانے پر معلوم ہوا کہ بے وقت پڑھی گئی تو عید الفطر کی نماز دوسرے دن اور عید الاضحی کی نماز تیسرے دن یعنی بارہویں تاریخ تک پڑھی جا سکتی ہے ۔
عید الاضحی کی نماز میں بے عذر بھی تیسرے دن تک تاخیر جائز ہے مگر مکروہ ہے اور عید الفطر میں بلا عذر تاخیر (دوسرے دن تک) جائز نہیں ۔
دوسرے دن بھی نماز عید کا وہی وقت ہے جو پہلے دن تھا ۔
عید کی نماز سے قبل نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے‘ خواہ گھر میں پڑھیں یا عیدگاہ میں البتہ نماز عید کے بعد گھر میں آکر نفل پڑھنا مکروہ نہیں ہے بلکہ گھر میں آکر چار رکعت پڑھنا مستحب ہے ۔
نوٹ : نفل نہ پڑھنے کا یہ حکم خاص لوگوں کے لئے ہے اور عوام کو نفل پڑھنے سے کسی حال میں منع نہ کیا جائے خواہ گھر میں پڑھیں یا عیدگاہ میں‘ اگرچہ عیدگاہ میں نماز عید کے بعد پڑھیں ۔
اسی طرح عورتوں کو اور جن پر نماز عید واجب نہیں ان کو بھی نماز عید ہو جانے سے پہلے نفل وغیرہ پڑھنا مکروہ ہے ۔
اگر عید کی نماز کے وقت جنازہ بھی حاضر ہو تو نماز عید کو مقدم کریں‘ پھر عید کے خطبہ کے پر نماز جنازہ کو مقدم کیا جائے (یعنی پہلے نماز عید پڑھیں پھر جنازہ پھر خطبہ عید) ۔
اگر عید اور جمعہ ایک دن واقع ہوں تو دونوں نمازیں ادا کرنا واجب ہے ، (یعنی جمعہ کی ادائی بھی لازم ہے اور عید کی ادائی بھی کیونکہ نماز جمعہ فرض ہے اور نماز عید واجب ہے) ۔
خطبہ عیدین کے احکام : ⏬
عیدین کی نماز کے بعد دو خطبے پڑھنا مسنون ہے ، عیدین کے خطبوں کے بھی وہی احکام ہیں جو جمعہ کے خطبے کے ہیں البتہ یہ فرق ہے کہ :
(1) جمعہ کے خطبہ میں خطبہ اولیٰ سے پیشتر خطیب کا منبر پر بیٹھنا مسنون ہے اور عید کے خطبہ میں سنت یہ ہے کہ خطبہ اولیٰ سے پہلے خطیب منبر پر نہ بیٹھے ۔ (2) عید کے خطبے میں خطبہ اولیٰ و ثانیہ دونوں کی ابتداء تکبیر سے کرنا مسنون ہے ، یعنی خطبہ اولیٰ سے پہلے نو (9) مرتبہ اللہ اکبر کہے اور خطبہ ثانیہ سے پہلے سات (7) مرتبہ نیز (خطبہ ثانیہ ختم کرکے) منبر سے اترنے سے پہلے چودہ (14) مرتبہ اللہ اکبر کہنا سنت ہے ، بخلاف خطبہ جمعہ کے کہ اس میں تکبیر نہ ابتداء میں ہے نہ آخر میں ۔
عیدین کی نماز سے پہلے خطبہ پڑھنا مکروہ ہے‘ اگر احیاناً نماز سے پہلے پڑھ لیا جائے تو پھر نماز کے بعد اس کا اعادہ نہ کیا جائے‘ عید الفطر کے خطبہ میں صدقہ فطر کے احکام اور عید الاضحی کے خطبہ میں قربانی اور تکبیر تشریق کے احکام بیان کئے جائیں ۔
بہتر یہ ہے کہ عید سے پہلے جو جمعہ واقع ہو اس میں یہ احکام بتادئیے جائیں تاکہ پیشتر سے لوگ واقف ہوجائیں اور بروقت تعمیل کرسکیں ۔
عیدین کے خطبہ میں امام جب تکبیر کہے تو سامعین بھی آہستہ تکبیر کہیں ۔ عیدین میں نماز کے بعد لوگوں کا خطبہ سنے بغیر چلے جانا درست نہیں بلکہ (جمعہ کی طرح عید کا بھی) خطبہ سنیں اور خطبہ ختم ہو جانے تک ٹھہرے رہیں ، اگرچہ خطبہ کی آواز وہاں نہ آتی ہو ۔ (ماخوذ : صحاح ستہ ، کتب تفاسیر ، فتاویٰ عالمگیری، فتاویٰ قاضی خان ، فتاویٰ شامی ، فتاویٰ رضویہ ، فتاویٰ دارالعلوم نعیمیہ ، فتاویٰ نوریہ ، فتاویٰ فیض الرسول ، فتاویٰ اجملیہ ، بہار شریعت)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment