Tuesday, 4 May 2021

درسِ قرآن موضوع : فضیلتِ شبِ قدر ۔ حصّہ اوّل

 درسِ قرآن موضوع : فضیلتِ شبِ قدر ۔ حصّہ اوّل

محترم قارئینِ کرام : رمضان المبارک کا آخری عشرہ نہایت عظیم الشان اور اہم ہے ۔ شب قدر ، قدر و منزلت والی رات ہے ۔ اس رات کی بے شمار برکات ہیں۔ قرآن و حدیث میں اس رات کے بے شمار فضائل و برکات موجود ہیں ۔ شب قدر کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس کے متعلق قرآن کریم میں مکمل سورت نازل ہوئی ہے ۔  رب تبارک و تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے : اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ ، وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ ، لَیْلَةُ الْقَدْرِ١ۙ۬ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ ، تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ١ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙۛ ، سَلٰمٌ١ۛ۫ هِیَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ۠  ۔

ترجمہ : بے شک ہم نے اسے (قرآن کو) شب قدر میں اتارا اور تم نے کیا جانا کیا ہے شب قدر ، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر (ہے) اس میں فرشتے اور جبرئیل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لئے ۔  وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک ۔ (سورۂ قدر، پارہ 30)


اس رات کو لیلتہ القدر اس لئے فرمایا ہے کہ ” قدر “ کا معنی تقدیر ہے :” خلق کل شیء فقدرہ تقدیراً ۔ (سورہ الفرقان : 2)


اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کا مناسب اندازہ کیا اس رات میں اللہ تعالیٰ آئندہ سال کے لئے جو امور چاہتا ہے وہ مقدر فرما دیتا کہ اس سال میں کتنے لوگوں پر موت آئے گی، کتنے لوگ پیدا ہوں گے اور لوگوں کو کتنا رزق دیا جائے گا، پھر یہ امور اس جہان کی تدبیر کرنے والے فرشتوں کو سونپ دیئے جاتے ہیں اور وہ چار فرشتے ہیں : اسرافیل، میکائیل، عزرائیل اور جبریل (علیہم السلام) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : لوح محفوظ سے لکھ دیا جاتا ہے کہ اس سال کتنا رزق دیا جائے گا اور کتنی بارشیں ہوں گی، کتنے لوگزندہ رہیں گے اور کتنے مرجائیں گے، عکرمہ نے کہا : لیلتہ القدر میں بیت اللہ کا حج کرنے والوں کے نام اور ان کے آباء کے نام لکھ دیئے جاتے ہیں ، ان میں سے کسی نام کی کمی کی جاتی ہے اور نہ کسی نام کا اضافہ کیا جاتا ہے ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی شب میں مستقبل میں ہونے والے امور کے متعلق فیصلے فرماتا ہے اور ان فیصلوں کو ان فرشتوں کے حوالے کردیتا ہے جو ان کو نافذ کرتے ہیں ۔


اس رات کو لیلتہ القدر فرمانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ’ دقدر “ کا معنی عظمت اور شرف ہے ” وما قدرواللہ حق قدرہ (الانعام : 91) انہوں نے اللہ کی ایسی قدر نہیں کی جیسی قدر کرنی چاہیے تھی ، جیسے کہتے ہیں کہ فلاں آدمی کی بہت قدر و منزلت ہے ، زہری نے کہا : اس رات میں عبادت کرنے کی بہت قدر و منزلت ہے اور اس کا بہت زیادہ اجر وثواب ہے ، ابو وراق نے کہا : جس شخص کی کوئی قدر و منزلت نہ ہو ، جب وہ اس رات کو عبادت کرتا ہے تو وہ بہت قدر اور عظمت والا ہوجاتا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس رات کو لیلتہ القدر اس لئے فرمایا ہے کہ اس رات میں بہت قدر و منزلت والی کتاب ، بہت عظیم الشان رسول پر ، بہت عظمت والی امت کے لئے نازل کی گئی ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس رات کو لیلتہ القدر اس لئے فرمایا ہے کہ اس رات میں بہت قدر و منزلت والے فرشتے نازل ہوتے ہیں او ایک قول یہ ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ بہت خیر اور برکت اور مغفرت نازل فرماتا ہے ، سہل نے کہا : اس رات کو لیلتہ القدر فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ نے مئومنین کے لئے رحمت کو مقدر کردیا ہے ۔


خلیل نے کہا، ” قدر “ کا معنی تنگی بھی ہے، جیسا قرآن مجید کی اس آیت میں ہے :

ومن قدر علیہ رزقہ (سورہ الطلاق : 7) جس شخص پر اس کا رزق تنگ کردیا گیا ۔ اس رات میں اتنی کثرت سے فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ زمین ان سے تنگ ہوجاتی ہے ۔ (الجامع لا حکام القرآن جز 20 ص 116 دارالفکر، بیروت، 1415 ھ،چشتی)


شبِ قدر شرف و برکت والی رات ہے، اس کو شبِ قدر اس لئے کہتے ہیں  کہ اس شب میں  سال بھر کے اَحکام نافذ کئے جاتے ہیں  اور فرشتوں  کو سال بھر کے کاموں اورخدمات پر مامور کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس رات کی دیگر راتوں  پر شرافت و قدر کے باعث اس کو شبِ قدر کہتے ہیں  اور یہ بھی منقول ہے کہ چونکہ اس شب میں  نیک اعمال مقبول ہوتے ہیں  اور بارگاہِ الٰہی میں  ان کی قدر کی جاتی ہے اس لئے اس کو شبِ قدر کہتے ہیں ۔ (تفسیر خازن ، القدر، تحت الآیۃ: ۱، ۴/۳۹۵)


حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسول ُاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا جس نے اس رات میں  ایمان اور اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرکے عبادت کی تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے سابقہ (صغیرہ) گناہ بخش دیتا ہے ۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب قیام لیلۃ القدر من الایمان، ۱/۲۵، الحدیث: ۳۵)


حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رمضان کا مہینہ آیا تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک تمہارے پاس یہ مہینہ آیا ہے اور اس میں  ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں  سے بہتر ہے ، جوشخص اس رات سے محروم رہ گیا وہ تمام نیکیوں سے محروم رہا اور محروم وہی رہے گا جس کی قسمت میں  محرومی ہے ۔ (ابن ماجہ، کتاب الصیام، باب ما جاء فی فضل شہر رمضان، ۲/۲۹۸، الحدیث: ۱۶۴۴)


لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ یہ رات عبادت میں  گزارے اور اس رات میں  کثرت سے اِستغفار کرے ، جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا فرماتی ہیں :،میں  نے عرض کی : یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ،  اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ : لیلۃ القدر کون سی رات ہے تو ا س رات میں  مَیں  کیا کہوں ؟ ارشاد فرمایا : تم کہو ’’اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ‘‘اے اللّٰہ !، بے شک تو معاف فرمانے والا ، کرم کرنے والا ہے،تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے تو میرے گناہوں  کو بھی معاف فرما دے ۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، ۸۴-باب، ۵/۳۰۶، الحدیث: ۳۵۲۴)

نیزآپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا فرماتی ہیں : ’’اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ کونسی رات لیلۃ القدر ہے تو میں  اس رات میں  یہ دعا بکثرت مانگوں گی’’ اے اللّٰہ میں  تجھ سے مغفرت اور عافیت کا سوال کرتی ہوں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعائ، الدعاء با العافیۃ، ۷/۲۷، الحدیث: ۸)


شبِ قدر سال میں  ایک مرتبہ آتی ہے


یاد رہے کہ سال بھر میں  شبِ قدر ایک مرتبہ آتی ہے اور کثیر روایات سے ثابت ہے کہ وہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں  ہوتی ہے اور اکثر اس کی بھی طاق راتوں  میں  سے کسی ایک رات میں  ہوتی ہے۔ بعض علماء کے نزدیک  رمضان المبارک کی ستائیسویں  رات شبِ قدر ہوتی ہے اور یہی حضرتِ امام اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ۔ (تفسیر مدارک، القدر، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۳۶۴،چشتی)


شبِ قدر کو پوشیدہ رکھے جانے کی وجوہات


امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے شب ِقدر کو چند وجوہ کی بناء پر پوشیدہ رکھا ہے :


(1) جس طرح دیگر اَشیاء کو پوشیدہ رکھا،مثلاً اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی رضا کو اطاعتوں  میں  پوشیدہ فرمایا تاکہ بندے ہر اطاعت میں  رغبت حاصل کریں ۔ اپنے غضب کو گناہوں  میں  پوشیدہ فرمایا تاکہ ہر گناہ سے بچتے رہیں ۔ اپنے ولی کو لوگوں  میں  پوشیدہ رکھا تا کہ لوگ سب کی تعظیم کریں ۔ دعاء کی قبولیت کو دعاؤں  میں  پوشیدہ رکھاتا کہ وہ سب دعاؤں  میں  مبالغہ کریں۔ اسمِ اعظم کو اَسماء میں  پوشیدہ رکھا تاکہ وہ سب اَسماء کی تعظیم کریں ۔ اورنمازِ وُسطیٰ کو نمازوں  میں  پوشیدہ رکھا تاکہ تمام نمازوں  کی پابندی کریں  ۔تو بہ کی قبولیت کوپوشیدہ رکھاتاکہ بندہ توبہ کی تمام اَقسام پر ہمیشگی اختیار کرے اور موت کا وقت پوشیدہ رکھا تاکہ بندہ خوف کھاتا رہے ، اسی طرح شب ِقدر کوبھی پوشیدہ رکھاتا کہ لوگ رمضان کی تمام راتوں کی تعظیم کریں ۔


(2) گویا کہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ،’’اگر میں  شبِ قدر کو مُعَیَّن کردیتا اور یہ کہ میں  گناہ پر تیری جرأت کو بھی جانتا ہوں  تواگرکبھی شہوت تجھے اس رات میں  گناہ کے کنارے لا چھوڑتی اور تو گناہ میں مبتلا ہوجاتا تو تیرا اس رات کو جاننے کے باوجود گناہ کرنا لاعلمی کے ساتھ گناہ کرنے سے زیادہ سخت ہوتا۔ پس اِس وجہ سے میں  نے اسے پوشیدہ رکھا ۔


(3) گویا کہ ارشاد فرمایا میں  نے اس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ شرعی احکام کا پابند بندہ اس رات کی طلب میں  محنت کرے اور اس محنت کا ثواب کمائے ۔


(4) جب بندے کو شبِ قدر کا یقین حاصل نہ ہوگا تووہ رمضان کی ہر رات میں  اس امید پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں  کوشش کرے گا کہ ہوسکتا ہے کہ یہی رات شب ِقدر ہو ۔ ( تفسیر کبیر، القدر، تحت الآیۃ: ۱، ۱۱/۲۲۹-۲۳۰)


وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ (۲) لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ (۳)

ترجمہ : اور تم نے کیا جانا کیا شبِ قدر ۔ شبِ قدر ہزار مہینوں  سے بہتر ۔


یہاں سے شبِ قدر کے عظیم فضائل بیان کئے جا رہے ہیں ، چنانچہ شبِ قدر کی ایک فضیلت یہ ہے کہ شب ِ قدر ان ہزار مہینوں  سے بہتر ہے جو شبِ قدر سے خالی ہوں  اور اس ایک رات میں  نیک عمل کرنا ہزار راتوں  کے عمل سے بہتر ہے ۔ (تفسیر خازن، القدر، تحت الآیۃ:۳، ۴/۳۹۷، مدارک، القدر، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۳۶۴)


ہزار مہینوں  سے بہترایک رات


حضرت مجاہد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار مہینے راہِ خدا  عَزَّوَجَلَّ میں  جہاد کیا ،مسلمانوں  کو اس سے تعجب ہوا تو اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ۖ(۱) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ(۲) لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ‘‘ ۔

ترجمہ : بیشک ہم نے اس قرآن کو شبِ قدر میں  نازل کیا ۔ اور تجھے کیا معلوم کہ شبِ قدرکیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں  سے بہتر ہے ۔ ( سنن الکبری للبیہقی، کتاب الصیام، باب فضل لیلۃ القدر، ۴/۵۰۵، الحدیث: ۸۵۲۲)


حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللّٰہ تعالیٰ نے میری امت کو شبِ قدر کا تحفہ عطا فرمایا اور ان سے پہلے اور کسی کو یہ رات عطا نہیں  فرمائی ۔ (مسند فردوس، باب الالف، ۱/۱۷۳، الحدیث: ۶۴۷)


صدر الافاضل حضرت علاّمہ سیّد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’یہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنے حبیب (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ) پر کرم ہے کہ آپ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ) کے اُمتی شبِ قدر کی ایک رات عبادت کریں  تو ان کا ثواب پچھلی اُمت کے ہزار ماہ عبادت کرنے والوں  سے زیادہ ہو ۔ (خزائن العرفان، القدر، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۱۱۳)


حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت سے دو فائدے حاصل ہوئے ، ایک یہ کہ بزرگ چیزوں سے نسبت بڑی ہی مفید ہے کہ شبِ قدر کی یہ فضیلت قرآن کی نسبت سے ہے، اصحابِ کہف کے کتے کو ان بزرگوں  سے منسوب ہو کر دائمی زندگی ، عزت نصیب ہوئی ، دوسرا یہ کہ تمام آسمانی کتابوں سے قرآن شریف افضل ہے کیونکہ تورات و انجیل کی تاریخِ نزول کو یہ عظمت نہ ملی ۔ (تفسیر نور العرفان، القدر، تحت الآیۃ: ۳، ص۹۹۰،چشتی)


تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْۚ-مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙۛ (۴) سَلٰمٌ ﱡ هِیَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ۠ (۵)

ترجمہ : اس میں  فرشتے اور جبریل اترتے ہیں  اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے ۔ وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک ۔


شبِ قدر  کی دوسری فضیلت یہ ہے کہ اس رات میں  فرشتے اور حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے ہر اس کام کے لیے جو اللّٰہ تعالیٰ نے اِس سال کے لئے مقرر فرمایا ہے آسمان سے زمین کی طرف اترتے ہیں  اور جو بندہ کھڑا یا بیٹھا اللّٰہ تعالیٰ کی یاد میں  مشغول ہوتا ہے اسے سلام کرتے ہیں  اور اس کے حق میں  دعا و اِستغفار کرتے ہیں ۔ (تفسیر خازن، القدر، تحت الآیۃ: ۴، ۴/۳۹۷-۳۹۸)


حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا ’’جب شبِ قدر ہوتی ہے تو حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام فرشتوں  کی جماعت میں  اترتے ہیں  اور ہر اس کھڑے بیٹھے بندے کو دعائیں  دیتے ہیں  جو اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کررہا ہو ۔ ( شعب الایمان، الباب الثالث والعشرون من شعب الایمان... الخ، فی لیلۃ العید و یومہا، ۳/۳۴۳، الحدیث: ۳۷۱۷)


شبِ قدر  کی تیسری فضیلت یہ ہے کہ یہ رات صبح طلوع ہونے تک سراسر بلاؤں  اور آفتوں  سے سلامتی والی ہے ۔ (تفسیر خازن، القدر، تحت الآیۃ: ۵، ۴/۳۹۸، مدارک، القدر، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۳۶۴)


حضرت مالک بن اَنَس رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ساری مخلوق کی عمریں دکھائی گئیں ، نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی اُمت کی عمر سب سے چھوٹی  پائیں تو غمگین ہوئے کہ میرے اُمتی اپنی کم عمری کی وجہ سے  پہلے کی اُمتوں کے جتنے نیک اعمال نہیں کرسکیں گےچنانچہ اللہ پاک نے نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شبِِ قدر عطا فرمائی جو دیگر اُمّتوں کے  ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ (تفسیر کبیر،جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 231 ، تحت الآیۃ :3)


شبِ قدر  میں عبادت کرنے کی فضیلت


نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : جوشخص شبِ قدر میں ایمان و اخلاص کے ساتھ عبادت کرے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ (صحیح بخاری ، جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 626 ، حدیث نمبر 1901)


 حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیثِ پاک کی وضاحت میں لکھتے ہیں : رمضان میں روزوں کی برکت سے گناہ ِصغیرہ معاف ہوجاتے ہیں اور تراویح کی برکت سے گناہِ کبیرہ ہلکے پڑ جاتے ہیں اور شبِ قدر کی عبادت کی برکت سے درجے بڑھ جاتے ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح ، جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 134)


علامہ عبد الرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیث کی وضاحت میں نقل کرتے ہیں کہ رمضان کے روزوں اور قیام کےذریعے  ہونے والی  مغفرت  تو ماہِ رمضان کے آخر میں ہوتی ہے جبکہ شب قدر میں قیام کے سبب  ہونے والی بخشش کومہینے کے اِختتام تک مؤخر نہیں کیا جاتا ۔ (فیض القدیر ، جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 248، تحت الحدیث:8902،چشتی)


 شبِ قدر کب ہوتی ہے ؟


محترم قارئین کرام : اللہ کریم  نے اپنی مَشِیَّت (مرضی) کے تَحت شَبِ قَدر کو پوشیدہ رکھا ہے ۔ لہٰذا ہمیں یقین کے ساتھ نہیں معلوم کہ شَبِ قَدر کون سی رات ہوتی ہے ۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : ”شَبِِ قَدْر کو رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عَشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔“ (بخاری،ج1ص661 ، حدیث : 2017)


اگرچہ بُزُرگانِ دین اور مُفَسِّرین و مُحدِّثین رَحِمَھُمُ اللہُ تعالٰی اجمعین کا شبِ قَدْر کے تَعَیُّن میں اِختِلاف ہے ، تاہَم بھاری اکثریَّت کی رائے یہی ہے کہ ہر سال ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ستّائیسویں شَب ہی شَبِِ قَدْرہے ۔ سیّدالْقُرَّاء حضرتِ سَیِّدُنا اُبَیِّ بْنِ کَعْب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک ستّائیسویں شبِ رَمَضان ہی ”شَبِِ قَدْر“ ہے ۔ (صحیح مسلم ، صفحہ نمبر 383 ، حدیث نمبر 762)


شبِ قدر کے نوافل


فقیہ ابواللّیث ثمر قندی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : شبِ قد ر کی کم سے کم دو ، زیادہ سے زیادہ ہزار اور درمیانی تعداد 100رکعتیں ہیں ، جن میں قراءت کی درميانی مقدار یہ ہے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد ایک مرتبہ سورهٔ قدر پھر تین بار سورۂ اخلاص  پڑھےاورہر دو رکعت پر سلام پھیر کر نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر دورد ِ پاک پڑھے ۔ (روح البیان، جلد نمبر 10 صفحہ نمبر 483)


شبِ قدر کی دعا


اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ ۔

ترجمہ : اے اللہ بے شک تو معاف فرمانے والا ، کرم کرنے والا ہے،تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے تو میرے گناہوں کو بھی معاف فرما دے ۔ (جامع ترمذی ، جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 306 ، حدیث نمبر 3524)۔(مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)


اللہ پاک ہمیں شبِ قدر کی برکتیں عطا فرمائے آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...