غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ چہارم
محترم قارئینِ کرام : امید ہے آپ نے پہلے تین حصّے پڑھ لیئے ہونگے آٸیے اب حصّہ چہارم پڑھتے ہیں :
حضور غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ خود بھی ولی کامل ہیں اور آپ کو اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ سے خصوصی عقیدت تھی ۔
حضور غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت داتا گنج بخش سیّدعلی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ سے خصوصی عقیدت تھی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض و برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ”خدا کى قسم ! مىں نے حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو لپ بھر بھر کے فىض دىتے ہوئے دىکھا ہے “ آپ رحمۃ اللہ علیہ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے عرس مبارک مىں پابندی و اہتمام سے شرکت فرماتے تھے ایک مرتبہ عرس کے موقع پر داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزارِاَقدس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کى قسم ! مجھے جو کچھ ملا ہے یہاں سے ملا ہے ۔ (حیات غزالئ زماں ،ص۱۶۲،چشتی)
غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ کثرت سے اولیائے کرام کے مزارات پر حاضری دیتے اور خوب فیضانِ اولیاء سے مستفیض ہوتے تھے یہاں تک کہ اپنی حیات مُستَعار کے آخرى رمضا ن المبارک میں یہ معمول ہوگیا تھا کہ ہر روز بعد نماز عصر اولیائے ملتان کے مزارات کى زىارت کےلیے تشرىف لے جاتے یہاں تک کہ لوگ حضرت حافظ جمال اللہ ملتانى رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر اس انتظار میں رہتے تھے کہ جب غزالى زماں رازى دوراں رحمۃ اللہ علیہ تشرىف لائىں گے تو ہم بھى ان کے ساتھ مزار پر حاضرى دیں گے اور دعا کروائیں گے ۔ (حیات غزالئ زماں ،ص۱۶۴)
دعوت اسلامی کے بانی : دو ستمبر 2 ستمبر 1981ء سے ایک تاریخی اور سنہرا باب وابسطہ ہے وہ بایں طور کہ اس مبارک تاریخ کو دنیائے سنیت کی عظیم الشان عالم گیر تحریک دعوت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی اور تا حین حال یہ تنظیم اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں ہے ۔ اس تحریک کو بنانے میں ہمارے اکابر کا اہم کردار ہے جس میں سرفہرست جس عظیم المرتبت شخصیت کا نام شامل ہے وہ ہے غزالیِ زماں ، رازی دوراں ، مترجم قرآں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ ، ملت اسلامیہ کو جب بھی کوئی مشکل مرحلہ پیش آیا ۔ غزالیِ زماں ، رازی دوراں ، مترجم قرآں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیشہ قائدانہ کردار ادا کیا ۔ 1946ء میں “آل انڈیا کانفرنس“میں علما و مشائخ کے وفد کے ساتھ شریک ہوئے اور مطالبہ پاکستان پر پرزور حمایت کی علما و مشائخ اہل سنت کی حمایت پر پاکستان معرض وجود میں آیا قائد اعظم محمد علی جناح سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا ۔ آپ نے تحریک پاکستان ، تحریک آزادی ،تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں حصہ لیا ۔تمام عمر مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفط اور نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نفاذ کےلیے کوشاں رہے ۔
قیام پاکستان کے بعد غزالیِ زماں ، رازی دوراں ، حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ نے نئے حالات کا مطالعہ کیا اور دیکھا کہ وہ لوگ جو کل تک پاکستان کی مخالفت کر رہے تھے پاکستان بننے کے بعد انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی اور دیکھتے دیکھتے وہ حکومت کی نظر میں سرمٔہ چشم بن کر سما گئے ۔ اس وقت آپ نے اہلسنت کے اتحاد اور تنظیم کی ضرورت محسوس کی تاکہ اہلسنت کو سیاسی استحکام اور قوت حاصل ہو ۔ اس مقصد کیلئے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا ابو الحسنات رحمۃ اللہ علیہ سے مراسلت کی اور ان پر تشکیل جمیعت کیلئے زور ڈالتے رہے نیز آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پاکستان کے تمام علماء کے نام خطوط لکھے کہ تاآنکہ مارچ1948ء میں تمام علماء ملتان میں جمع ہوئے جن میں حضرت مولانا ناصر جلالی رحمۃ اللہ علیہ(کراچی) علامہ عبدالغفور ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ (وزیر آباد) مولانا ابو النور محمد بشی ررحمۃ اللہ علیہ (سیالکوٹ) مولانا ابو الحسنات رحمۃ اللہ علیہ (لاہور) اور مولانا غلام جہانیاں رحمۃ اللہ علیہ (ڈیرہ غازی خان) کے اسماء خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ملتان کے اجلاس میں اہل سنت کی تنظیم کا نام جمیعت العلماء پاکستان تجویز کیا گیا اور حضرت علامہ ابو الحسنات رحمۃ اللہ علیہ کو جمیعت کا صدر اور حضرت کاظمی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو جمیعت کا ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا ۔ حضرت علامہ غزالئی زماں رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی نظامت کے دوران جمیعت کو بے حد فروغ دیا اور جمیعت کے ذریعے ملک و ملت کی بیش از بیش خدمات انجام دیں ۔ جہاد کشمیر‘ دستور سازی‘ تحریک تحفظ ختم نبوت‘ تبلیغ و اشاعت‘ سیلاب زدگان کی مددغرض ہر خدمت اور ضرورت کے موقع پر آپ نے جمیعت کے پرچم کو سربلند رکھا ۔
حضرت علاّمہ مولانا غلام فریدہزاروى رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہىں کہ ایک مرتبہ ایک دُشمنِ اسلام کی طرف سے ایسے سوالات سامنے آئے کہ میرا ذہن ماؤف ہو کر رہ گیا ۔ کچھ علما سے رابطہ بھی کیا ، خود بھی بہت کوشش کی مگر خاطر خواہ جواب نہ پا سکا ۔ چنانچہ میرے ایمان کى ناؤ ڈگمگانے لگى لیکن غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ کى نسبت یوں رنگ لائى کہ رات خواب مىں آپ رحمۃ اللہ علیہ کا دیدار نصیب ہوا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمارہے تھے مولانا ! وہ کون سے سوالات ہیں جو تمہیں مسلکِ حق سے بغاوت پر اُکسا رہے ہىں ؟ میں نے خواب کى حالت میں تمام سوالات گوش گزار کردىئے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے تسلى بخش جواب ارشاد فرمائے ، میں صبح اٹھا تو تمام سوالوں کے جوابات یاد تھے ، یوں میں ظلمت کے اندھىروں میں گرنے سے بال بال بچ گیا ۔ (حیات غزالئ زماں ،ص۱۸۱)
ایک صاحب کا بیان ہے کہ میرے دوست کی بیٹی نے منہ میں سوئى رکھ لی بد قسمتى سے وہ سوئی گلے سے ہوتی ہوئی معدے میں اتر گئی ۔ بچى کے پىٹ میں شدید درد شروع ہوگیا ، اسے فوراً ہسپتال لے جایا گیا ۔ ڈاکٹروں نے کم و بیش سولہ ایکسرے لیے مگر ہر بار ایکسرے میں سوئى اپنى جگہ سے دائیں بائیں ہو جاتی ۔ بالآخر ڈاکٹروں نے جواب دے دیا کہ اس کا کس کس جگہ سے آپرىشن کریں سوئى کسى ایک جگہ تو ٹھہرتى ہى نہیں ۔ میرا دوست بہت پرىشان تھا مجھے کہنے لگا : اب تو صرف ایک ہی راستہ ہے کہ کسى اللہ والے سے دعا کرائى جائے ۔ میں انہىں اپنے ساتھ لے کر فوراً حضرت غزالى زماں رحمۃ اللہ علیہ کى خدمت مىں حاضر ہوگیا ، معاملہ بتا کر دُعا کی درخواست کی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دعا کےلیے ہاتھ اٹھا ئے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ کى آنکھوں میں آنسو تھے اور آپ بار بار آسمان کى طرف دیکھتے تھے ، دعا سے فارغ ہو کر ارشاد فرمایا : میں نے اپنا کام کردیا ہے ، اب وہ یعنى اللہ تعالیٰ اپنا کام کرے گا ۔ ہم اجازت لے کر گھر واپس آئے تو دیکھا بچی بالکل پُرسکون ہے اور گہری نیند سورہى ہے ۔ ڈاکٹروں کو اس بات کا عِلْم ہوا تو وہ بہت حیران ہوئے بار بار ایکسرے لیے لیکن سوئى کا کہیں نام و نشان نہ ملا ۔ (حیات غزالئ زماں، ص۱۸۴)
حضرت غزالىٔ زماں رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید محمد سلطان وارن سخت بیمار ہوگئے ۔ ڈاکٹروں نے کہا : انہیں قو لنج ہے اس لیے آپریشن کرنا پڑے گا اور بچنا مشکل ہے ۔ سلطان وارن نے آپریشن کروانے سے انکار کردیا ۔ ان کا بیان ہے میں نے اپنے مرشِدِ کرىم قبلہ غزالیٔ زماں رحمۃ اللہ علیہ کو پکارا کہ حُضور میرا آخرى وقت ہے اگر آپ آج میرى مدد نہ فرمائیں گے تو پھر کب مدد کریں گے اسى طرح استغاثہ کرتے ہوئے مجھے نیند آگئی ۔ سر کی آنکھیں کیا بند ہوئی مقدر جاگ اٹھا کیا دیکھتا ہوں کہ ایک قبرستان میں کھڑا ہوں اور پیر و مرشِد قبلہ غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ بھی تشریف فرما ہیں ، قریب ہی سبز عمامہ شریف سجائے نورانى چہرے والے بزرگ تشریف فرما ہیں میں نے ان کى زیارت کى تو غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ نے فرماىا : سلطان! تم نے حضرت کو پہچانا ؟ میں نے عرض کى نہیں ، تو فرمایا : یہ امامِ اہل سنّت ، اعلیٰحضرت علامہ مولانا شاہ اَحْمَد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ ہىں ۔ پھر میں نے عرض کى حُضور شدید تکلیف میں ہوں کرم فرمائیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرماىا : ارے تمہىں کچھ نہیں ہے اور مجھ پر بھى اپنے مبارک ہاتھوں سے پانى پھینکا تو میں فورا بیدار ہوگیا پھر نہ درد تھا ، نہ بیمارى ۔ (یات غزالئ زماں، ص۱۸۵)
ترجمۂ قرآنِ مجید
حضرت غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں دیگر ڈھیروں موضوعات پر قلم اٹھایا وہیں آپ رحمۃ اللہ علیہ کو قرآن مجید کا ترجمہ کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے امام اہلسنت ، اعلیٰحضرت امام اَحْمَد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی طرح دامن ادب و محبت تھام کر ترجمہ قرآن کیا بلکہ اگر بغور دیکھا جائے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمۂ قرآن ’’البیان‘‘ کو اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ کنزالایمان کی تلخیص کہا جا سکتا ہے ۔
تصانیفِ مبارکہ
غزالئ زماں حضرت علامہ سَیّد اَحمَد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں درس و تدرىس اور تقریر کے میدان میں اہم کردار ادا کیا وہیں تحریر و تصنیف کے ذریعے بھی دینِ اسلام کی خدمت میں حصہ ڈالا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن و حدىث فقہ و تفسیر ، سیر و مناقب اور سلوک و تصوف کے موضوع پر گراں مایہ عِلْمی جواہر لٹائے ۔ جن میں سے چند کے نام یہ ہیں : (1) الحق المبىن (2) نفى الظّل والفى (3) حىات النبى (4)مىلادالنبى (5) معراج النبى (6) علمِ غىب نبى (7) تسکین الخواطر فى مسئلۃ الحاظر والناظر (8) توحىد وشرک (9) ختمِ نبوت (10) حجىت حدىث (11) تسبیح الرحمن عن الکذب والنقصان (12) مزیلۃ النزاع الموسومہ اثبات السّماع (13) ذنب کا معنیٰ اور مسئلہ درود و سلام (14) اسلام میں عورت کی دیت (15) حدیثِ حوض پع وہابی دیوبندی کے اعتراضات کے جوابات (16) مقامِ نبوت (17) گستاخِ رسول کی سزا قتل (18) اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم پر مستقلاََ سلام کا جواز ۔ (فقیر چشتی)
ایک بار مفسر شہیر حکیم الامت حضرت علامہ مفتى اَحمَد یار خان نعىمى رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علامہ سَیّد اَحْمَد سعید کاظمی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ایک خط لکھا جس میں کچھ یوں عرض کیا : حضرت علامہ کاظمى رحمۃ اللہ علیہ میں کسى مسئلے میں الجھا ہوا تھا تو حُضور غوث الاعظم شىخ عبدالقادر جیلانى رحمۃ اللہ علیہ کى زیارت نصیب ہوئى تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اگر کسى مسئلے پر الجھاؤ پىدا ہو جائے تو ملتان میں میرے بیٹے کاظمى کى طرف رجوع کرلیا کر کہ وه ضيغمِ اسلام (اسلام كا شىر) ہیں ، پھر فرمایا کہ وہ ( کاظمى صاحب) جو کتاب لکھ رہے ہیں مجھے پسند ہے ۔ (مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حُضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی پسند کردہ کتاب کے بارے میں پوچھتے ہوئے لکھا) حضرت ! وہ کون سى کتاب ہے جس کى تعرىف حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ نے کى ؟ غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ اس وقت تسکین الخواطر فى مسئلۃ الحاظر والناظر تحریر فرما رہے تھے جس کی ابتداء میں تحریر فرمایا تھا کہ ناچىز اس تالیف کو سىدنا غوث الاعظم حُضور سید محى الدىن شىخ عبدالقادر جىلانى الحسنى وا لحسىنى رحمۃ اللہ علیہ کى بارگاہِ عظمت میں پیش کرنے کا شرف حاصل کرتا ہے ، جن کى روحانى امداد و اعانت سے مجھ جیسے ہیچمداں کو اس کى ترتیب و تدوین کى توفیق حاصل ہوئى ۔ (حیات غزالئ زماں، ص۱۶۳،چشتی)
غزالیِ زماں ، رازی دوراں ، حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت بروز جمعرات 4؍ ربیع الثانی 1331ھ ، مطابق 13؍مارچ 1913ء ، بوقت صبح چار بجے ، محلہ کٹکوئی شہر امروہہ ، ضلع مرادآباد (انڈیا) میں ہوئی ۔ (اب امروہہ ایک مستقل ضلع بن چکا ہے ۔ (انسائیکلوپیڈیا)
غزالیِ زماں ، رازی دوراں ، حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ عارضہ قلب میں مبتلا تھے ۔ 4 جون بروز بدھ 1986ء بمطابق ۲۵ رمضان المبارک ۱۴۰۶ھ کو روزہ افطار فرمایا اور صاحبزادہ مظہر سعید کاظمى دامت برکاتہم العالیہ سے فرمایا : مظہر میاں ! میرا وضو تو ہے لیکن ذرا تازہ وضو کرلیں پھر نمازِ مغرب ادا کریں گے ۔ صاحبزادہ صاحب نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو سہارا دے کر اٹھانا چاہا لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ کا جسمِ نازنین پىچھے کى طرف تشریف لے آیا ، صاحبزادہ صاحب نے سنبھالنا چاہا اور دوسرے بھائىوں کو بلایا ۔ مگر اس وقت تک آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے ۔ (علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات ،ص۶۵)
پانچ 5 جون بروز جمعرات 26 رمضان المبارک مغرب کے وقت شاہی عید گاہ ملتان شریف میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کى تدفىن عمل مىں آئى ۔ اور وہیں پر آج بھی آپ کا مزارِ مبارک مرجع خلائق ہے ۔ (فقیر چشتی) ۔ (حیات غزالئ زماں ،ص۴۰۸) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو درِ غزالئ زماں رحمۃ اللہ علیہ کی ادنیٰ بھکاری فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment