Tuesday, 11 May 2021

امت مسلمہ شرک سے دور رہے گی اور گمراہی پر متفق نہیں ہوگی

 امت مسلمہ شرک سے دور رہے گی اور گمراہی پر متفق نہیں ہوگی


محترم قارئینِ کرام : دورحاضرمیں خارجی نئے ناموں اور نئے لباس میں سامنے آ چکے ہیں ، شرک و بدعت کا نام لے کر ، اپنے گمراہ کن عقائد باطلہ کو ہمارے بھولے بھالے مسلمانوں میں پھیلا کر ان کے قلوب سے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زوال کے لئے مصروف عمل ہیں حالانکہ ان کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کریمہ بھی ہوتی ہے،کہ امت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی شرک کرہی نہیں سکتی جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں : صَلَّی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی قَتْلَی أُحُدٍ بَعْدَ ثَمَانِی سِنِینَ کَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْیَاءِ وَالْأَمْوَاتِ ثُمَّ طَلَعَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ إِنِّی بَیْنَ أَیْدِیکُمْ فَرَطٌ وَأَنَا عَلَیْکُمْ شَہِیدٌ وَإِنَّ مَوْعِدَکُمْ الْحَوْضُ وَإِنِّی لَأَنْظُرُ إِلَیْہِ مِنْ مَقَامِی ہَذَا وَإِنِّی لَسْتُ أَخْشَی عَلَیْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوا وَلَکِنِّی أَخْشَی عَلَیْکُمْ الدُّنْیَا أَنْ تَنَافَسُوہَا ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آٹھ برس کے بعد احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی ،جیسے کوئی زندوں اور مردوں کو رخصت کرتا ہے پھر واپس آکر منبر پر تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا کہ : میں تمہارا پیش خیمہ ہوں تمہارے اعمال کا گواہ ہوں اور میری اور تمہاری ملاقات حوض کوثر پر ہوگی اور میں تو اسی جگہ سے حوض کو ثر کو دیکھ رہا ہوں مجھے اس کا ڈر بالکل نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر رشک و حسد نہ کرنے لگو ۔ (بخاری شریف۔ رقم الحدیث3736۔ جلد 12 صفحہ 436۔مکتبۃالشاملۃ)۔(صحیح بخاری صفحہ 993 دار ابن کثیر بیروت،چشتی)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہداءِ اُحد پر (دوبارہ) آٹھ سال بعد اس طرح نماز پڑھی گویا زندوں اور مُردوں کو الوداع کہہ رہے ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا : میں تمہارا پیش رو ہوں، میں تمہارے اُوپر گواہ ہوں، ہماری ملاقات کی جگہ حوضِ کوثر ہے اور میں اس جگہ سے حوضِ کوثر کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے تمہارے متعلق اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ تم (میرے بعد) شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے بلکہ تمہارے متعلق مجھے دنیاداری کی محبت میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہے ۔ حضرت عقبہ فرماتے ہیں کہ یہ میرا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری دیدار تھا ۔ (بخاری شریف،کتاب المغازی، 4 / 1486، الرقم : 3816)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے تمہارے متعلق اس بات کا تو ڈر ہی نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ مجھے ڈر ہے کہ تم دنیا کی محبت میں گرفتار ہو جاؤ گے اور آپس میں لڑو گے اور ہلاک ہو گے جیسا کہ تم سے پہلے لوگ ہوئے۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آخری بار تھی جب میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر جلوہ افروز دیکھا ۔ (مسلم شریف،کتاب الفضائل، 4 / 1796، الرقم : 2296،چشتی)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں۔ بیشک خدا کی قسم! میں اپنے حوض (کوثر) کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کر دی گئی ہیں اور خدا کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تم دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جاؤ گے۔:: بخاری شریف،کتاب المناقب،3 / 1317، الرقم : 3401
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقیناً بنی اسرائیل اکتہّر (71) فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور میری امت یقیناً بہتّر (72) فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ وہ سب کے سب دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہے ۔ (سنن ابن ماجه،کتاب الفتن، 2 / 1322، الرقم : 3991،چشتی)

حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جابیہ کے مقام پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطاب فرمایا کہ میں تمہارے درمیان اس جگہ پر کھڑا ہوں جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے درمیان قیام فرماتے پھر فرمایا : جماعت کو لازم پکڑو اور علیحدگی سے بچو کیونکہ شیطان ایک کے ساتھ ہوتا ہے اور دو آدمیوں سے دور رہتا ہے جو شخص جنت کا وسط چاہتا ہے اس کے لیے جماعت سے وابستگی لازمی ہے جس شخص کو اس کی نیکی خوش کرے اور برائی پریشان کرے پس وہی مومن ہے۔ :: سنن ابن ماجه،کتاب الفتن،4 / 465، الرقم : 2165
حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا (یا فرمایا : امتِ محمدیہ کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا) اور جماعت پر اللہ تعالیٰ (کی حفاظت) کا ہاتھ ہے اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ کی طرف جدا ہوا ۔ (سنن ابن ماجه،کتاب الفتن،4 / 466، الرقم : 2167)

حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس امت کو کبھی بھی گمراہی پر اکٹھا نہیں فرمائے گا اور فرمایا : اللہ تعالیٰ کا دستِ قدرت جماعت پر ہوتا ہے۔ پس سب سے بڑی جماعت کی اتباع کرو اور جو اس جماعت سے الگ ہوتا ہے وہ آگ میں ڈال دیا گیا ۔ (مستدرک، 1 / 199.201، الرقم : 391. 397،حاکم،چشتی)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہداءِ اُحد پر (دوبارہ) آٹھ سال بعد اس طرح نماز پڑھی گویا زندوں اور مُردوں کو الوداع کہہ رہے ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا : میں تمہارا پیش رو ہوں، میں تمہارے اُوپر گواہ ہوں، ہماری ملاقات کی جگہ حوضِ کوثر ہے اور میں اس جگہ سے حوضِ کوثر کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے تمہارے متعلق اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ تم (میرے بعد) شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے بلکہ تمہارے متعلق مجھے دنیاداری کی محبت میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ حضرت عقبہ فرماتے ہیں کہ یہ میرا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری دیدار تھا (یعنی اس کے بعد جلد ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا) ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة أحد، 4 / 1486، الرقم : 3816)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں۔ بیشک خدا کی قسم! میں اپنے حوض (کوثر) کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں (یا فرمایا : زمین کی کنجیاں) عطا کر دی گئی ہیں اور خدا کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تم دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جاؤ گے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النَّبُوَّةِ فِي الإِسلام، 3 / 1317، الرقم : 3401)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے تمہارے متعلق اس بات کا تو ڈر ہی نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ مجھے ڈر ہے کہ تم دنیا کی محبت میں گرفتار ہو جاؤ گے اور آپس میں لڑو گے اور ہلاک ہو گے جیسا کہ تم سے پہلے لوگ ہوئے۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آخری بار تھی جب میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر جلوہ افروز دیکھا (یعنی اس کے بعد جلد ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا) ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : اثبات حوض نبينا صلي الله عليه وآله وسلم وصفاته، 4 / 1796، الرقم : 2296،چشتی)

فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطاء کی گئیں ، مجھے اس بات کا خوف نہیں میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر رشک و حسد نہ کرنے لگو گے ۔ (صحیح بخاری صفحہ 885 دار ابن کثیر بیروت)

فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : مجھے اس بات کا خوف نہیں میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر رشک و حسد نہ کرنے لگو گے ۔(صحیح مسلم صفحہ 1149 دارالفکر بیروت)

ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر اعلان فرمادیا ،کہ میری امت سے مجھ کو شرک کا خوف نہیں ہے ۔ پھر آج گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ٹولہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اقدس کے خلاف جا کر آپ (علیہ السلام) کی امت پر شرک کے الزامات کیوں لگاتا ہے ؟ آخرکچھ تو ہے کہ جس کی پردہ داری ہے چنانچہ اس سلسلے میں یہ حدیث کریمہ بھی ملاحظہ فرمائیں حضرت حذیفۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : قَالَ رَسُولُ ﷲِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : اِنَّ مَا اَتَخَوَّفُ عَلَیْکُمْ رَجُلٌ قَرَۃَ الْقُرْآنَ حَتَّی اِذَا رُءِیَتْ بَھْجَتُہُ عَلَیْہِ وَ کَانَ رِدْءًا لِلْاِسْلَامِ غَیْرَہُ اِلَی مَاشَاءَ ﷲُ فَانْسَلَخَ مِنْہُ وَ نَبَذَہُ وَرَاءَ ظُھْرِہِ وَ سَعَی عَلَی جَارِہِ بِالسَّیْفِ وَرَمَاہُ بِالشِّرْکِ قَالَ : قُلْتُ : یَا نَبِیَّ ﷲِ، اَیُھُمَا اَوْلَی بِالشِّرْکِ الْمَرْمِیُّ اَمِ الرَّامِی قَالَ : بَلِ الرَّامِی۔
ترجمہ : رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک ﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اوراس پر شرک کا الزام لگایا راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ،کہ اے ﷲ کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا ؟ شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ،کہ شرک کا الزام لگانے والا ۔ ( صحیح ابن حبان ۔رقم الحدیث81۔جزء 1۔صفحہ157۔مکتبۃالشاملۃ،چشتی)

مذکورہ بالا دو احادیث کریمہ آپ بغورمطالعہ فرمائیں ، تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی ، کہ جو لوگ شرک و بدعت کے نعرے لگا کراس کی آڑ میں لوگوں کوگمراہی پر مائل کرتے ہیں درحقیقتا یہی لوگ ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے موجب ہیں ، یعنی یہی لوگ مرتکب شرک ہوتے ہیں ۔ نہ صرف مرتکب شرک ، بلکہ یہی لوگ ، جناب رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم کے سلسلے میں بھی منکر ہوتے ہیں ، چہ جائیکہ وہ کتنی ہی نمازیں کیوں نہ پڑھ لیں ، کتنی ہی عبادات کیوں نہ کرلے ، مگر دل میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع روشن نہ ہونے کی بنا پردخول فی الاسلام سے قاصر ہوتے ہیں کیونکہ یاد رہے کہ ایمان و اسلام کا تعلق عشق ومحبت پرمبنی ہے یعنی اسلام و ایمان تب ہی معتبر ہے جب دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہو ورنہ اگرفقط عبادات کو معیار بنایا جائے اور دل محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہو ، تو واضح رہے کہ روئے زمین پر سب سے زیادہ عبادات ، اگرکسی نے کی ہے ، تو وہ شیطان ہے ، جس کا اتنا مرتبہ تھا کہ وہ معلم الملائکۃ کہلایا جاتا تھا ، یعنی ملائکہ کو علم سکھاتا تھا ، لیکن بارگاہ الٰہی سے اگر مردودوملعون ہوابھی ، توفقط اسی وجہ سے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کے نبی علیہ السلام کی تعظیم نہ کی ۔

یہاں ایک جزئیہ سمجھنے والا ہے بعض احباب یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرک کے خوف کا نہ ہونا یہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف اشارہ ہے کہ وہ شرک سے مستثنیٰ اور مبراء تھے اور ہمیں مبراء نہیں کیا کہ امت شرک میں مبتلا نہ ہوگی ۔ ایک لمحہ کے لئے اس سوال کو اگر قبول کر لیا جائے تو اب اس کا جواب یہ ہے ۔ ’’ولکن‘‘ (لیکن) کے آنے کی وجہ سے جملے کے دونوں اجزاء ایک ہی جملہ ہوں گے مجھے اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ یہ خوف ہے کہ تم دنیا پرستی کرو گے۔ اس جملے کو صرف صحابہ کے دور تک محدود کرنے والے غور کریں کہ اگر صحابہ کے ساتھ شرک کے خوف کا نہ ہونا خاص کرنا ہے تو صرف شرک کے خوف کا نہ ہونا ہی صحابہ کے ساتھ خاص نہ ہوگا بلکہ پھر دنیا پرستی کا الزام بھی ان کے ساتھ خاص ہوگا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو باتیں کہیں عدم شرک دنیا پرستی اب یہاں دو امکان ہیں کہ یہ بات یا تو جمیع امت کے لئے فرمائی ہے یا صرف صحابہ کرام کے لئے ہے۔ اگر جمیع امت کے لئے ہے تب بھی دونوں جزء ہیں، کامل جملہ منسوب کیا جائے گا۔ اور اگر صرف صحابہ کے لئے ہے تب بھی دونوں جزء، کامل جملہ منسوب کیا جائے گا کیونکہ ’’ولکن‘‘ ’’لیکن‘‘ کے بغیر جملہ مکمل نہیں ہوگا۔ پس حدیث مبارکہ میں موجود شرک کے خوف کا نہ ہونا صرف صحابہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جمیع امت کے لئے ہے ۔ پس معنی یہ ہوگا اے میری امت مجھے تمہارے بارے شرک کا خوف تو نہیں مگر یہ خوف ہے کہ دنیا کی اغراض میں پھنس جاؤ گے میں نے شرک کو جڑوں سے کاٹ کر اتنا ختم کردیا ہے کہ قیامت کے دن تک میری امت من حیث المجموع اب مشرک کبھی نہیں بنے گی اور اگر خطرہ ہے تو صرف یہ کہ امت دنیا پرستی میں مبتلا ہوگی۔ آج ہم دنیا پرستی میں مبتلا ہیں تو
پھر جزء اول بھی حق ہوا اور جزء ثانی بھی حق ہوا۔ جب جزء ثانی امت کے بارے میں حق ہے کہ واقعتاً امت دنیا پرستی میں مبتلا ہے تو جزء اول بھی حق ہے کہ امت شرک میں مبتلا نہ ہوگی ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک جزء لے لیا جائے اور ایک جزء چھوڑ دیا جائے ۔

آج امت دنیا پرستی کا شکار ہے اور اسی کے باعث ذلت و رسوائی کا عذاب بھگت رہی ہے مگر بطور مجموعی امت مشرک نہیں ہوگی اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضمانت دے دی لہٰذا اب امت کے سواد اعظم کو مشرک کہنا یا ان کے عقیدہ کو شرک تصور کرنا یہ سواد اعظم پر اعتراض نہیں بلکہ پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کو معاذ اللہ رد کرنا ہے ۔ آپ لوگوں کو مبارک ہوکہ شرک کی تہمت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ سب سے دفع فرمادیا ۔ لہٰذا امت کو مشرک قرار دینے سے احتیاط کرنی چاہئے اور جو حضور نبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے فرامینِ اقدس کو جھوٹا کہے یا اپنے دلائل دے کر جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کرے اس پر اللہ عزوجل ، اس کے فرشتے لعنت بھیجتے ہیں ۔ خارجیوں سے ہوشیار رہیں اور قطعی طور پر ان سے کوئی حدیث قبول نہ کریں کیونکہ حدیث کی آڑ میں یہ لوگ فتنہ خارجیت کا غلط انجکشن آپکو لگا کر آپکا ایمان برباد کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ۔

مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا

محترم قارئینِ کرام : جیسا کہ آپ جانتے ہیں آج کل خارجی فتہ کی طرف سے ہر وقت مسلمانان اہلسنت پر شرک اور مشرک کے فتوے بلا سوچے سمجھےجڑ دیئے جاتے ہیں فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے اس موضوع پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا ہے فی الوقت یہ مختصر سا مضمون حاضر خدمت ہے شاید جہالت کی وجہ سے مسلمانوں کو مشرک کہنے والوں میں سے کسی کو ہدایت نصیب ہوجائے آیئے حدیث پاک پڑھتے ہیں یاد رہے اس حدیث پاک کی اسناد کو آئمہ حدیث نے حسن اور جیّد قرار دیا ہے حوالے موجود ہیں اللہ تعالیٰ خارجی فتنہ کے شر و فساد سے مسلمانوں کو بچائے آمین :

سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان ممااخاف علیکم رجل قرأالقراٰن حتی اذا روئیت بہجتہٗ علیہ وکان ردائہ الاسلام اعتراہ الی ماشآء اللہ انسلخ منہ ونبذہ وراء ظھرہ وسعٰی علی جارہ بالسیف ورماہ بالشرک قال قلت یانبی اللہ ایھما اولیٰ بالشرک المرمی اوالرامی ؟ قال بل الرامی ۔
ترجمہ : یعنی مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی،اور اس کی چادر (ظاہری روپ) اسلام ہوگا ۔ یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا ،پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا ، اور اپنے (مسلمان) ہمسائے پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کا فتویٰ جڑے گا،راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یانبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ! دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا ؟ جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا ، آپ نے فرمایا:فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا) ۔

یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہوا تھا واپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا ، اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا ۔

اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے پارہ نمبر۹، سورۃ الاعراف ،آیت نمبر ۱۷۵یعنی واتل علیہم نبأالذی اٰتینا ہ آیاتنا فانسلخ منھا …آلایۃ۔کی تفسیر میںنقل کیا اور لکھا ہے:ھذا اسناد جید یعنی اس روایت کی سند جید،عمدہ اور کھری ہے ۔ (تفسیرابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵، امجد اکیڈمی لاہور۔) ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵ دارالفکر، بیروت) ، علاوہ ازیں یہ حدیث اں کتابوں میں بھی موجود ہے : (مختصر تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۶۶۔ ۳…مسند ابو یعلی موصلی۔( تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵) (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان جلد۱صفحہ۱۴۹ برقم ۱۸۔ )(صحیح ابن حبان،للبلبان جلد اول صفحہ۲۴۸ برقم ۸۱، بیروت۔)(المعجم الکبیر للطبرانی،جلد۲۰صفحہ۸۸ برقم ۱۶۹ ،بیروت ۔)(شرح مشکل الآثار للطحاوی، جلد۲ صفحہ۳۲۴ برقم ۸۶۵، بیروت۔)(مسند الشامیین للطبرانی،جلد۲صفحہ۲۵۴برقم ۱۲۹۱، بیروت،چشتی)(کشف الاستارعن زوائد البزار للہیثمی جلد۱صفحہ۹۹ برقم ۱۷۵، بیروت۔)(جامع المسانید والسنن ،لابن کثیر جلد۳صفحہ۳۵۳،۳۵۴ برقم ۱۸۴۲، بیروت۔)(جامع الاحادیث الکبیر،للسیوطی جلد۳صفحہ۱۲۱ برقم ۸۱۳۲،بیروت ۔)(کنزالعمال،للمتقی ہندی جلد۳صفحہ۸۷۲ برقم ۸۹۸۵۔)(ناصر الدین البانی غیر مقلد سلفی وہابی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔ دیکھیئے!سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم الحدیث ۳۲۰۱۔ ۱۴…کتاب المعرفۃ والتاریخ للفسوی جلد۲صفحہ۳۵۸۔)

ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں کو مشرک کہنے والا بذات خود مشرک ہے ۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ کسی مسلمان کی طرف کفر،شرک اور بے ایمانی کی نسبت کرنے سے قائل خود ان چیزوں کا حقدار ہوجاتا ہے ۔ مثلاً : ارشاد نبوی ہے : من کفر مسلما فقد کفر ۔ ترجمہ : جس نے کسی مسلمان کو کافر قرار دیا وہ خود کافر ہوگیا ۔ (مسند احمد جلد۲صفحہ۲۳)

مزید فرمایا : من دعا رجلا بالکفر اوقال عد وا للہ ولیس کذلک الا حار علیہ ۔
ترجمہ : جس نے کسی (مسلمان) شخص کو کافر یا اللہ تعالیٰ کا دشمن کہا اور وہ ایسا نہیں تھا تو یہ (باتیں) خود اس کی طرف لوٹ جائیں گی۔ یعنی وہ خود کافر اور بے ایمان ہوجائے گا ۔ ( مسلم جلد۱صفحہ۵۷،مشکوٰۃ صفحہ۴۱۱،چشتی)

مزید ارشاد فرمایا : اذا قال الرجل لاخیہ یا کافر فقد باء بہٖ احدھما ۔
ترجمہ : جس نے اپنے (مسلمان) بھائی کو کہا : اے کافر !… تو یہ کلمہ دونوں میں سے کوئی ایک لے کر اٹھے گا ۔ (بخاری جلد۲صفحہ۹۰۱واللفظ لہٗ مسلم جلد۱صفحہ۵۷)

یعنی اگر کہنے والا سچا ہے تو دوسرا کافر ہوگا ورنہ کہنے والا خود کافر ہوجائے گا ۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے : من اکفر اخاہ بغیر تاویل فھو کما قال ۔
ترجمہ : جس نے بغیر تاویل کے اپنے (اسلامی) بھائی کو کافر قرار دیا تو وہ خود کافر ہوجائے گا ۔ (بخاری جلد۲صفحہ۹۰۱)

ان دلائل اور مستند حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ کافر ومشرک قرار دینا خود کافر اور مشرک ان دلائل سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ کافر ومشرک قرار دینا خود کافر اور مشرک بننا ہے ۔ العیاذباللہ تعالیٰ ۔ اے بات بات پر مسلمانان اہلسنت کو اپنی جہالت کی وجہ سے کافر و مشرک کہنے والو اپنے ایمان کی فکر کرو کہیں تم خود کافر و مشرک تو نہیں ہو چکے ہو ، بغیر کفر و شرک ثابت کیئے کسی مسلمان کو کافر کہنے والو سوچو ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)




No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...