قادیانیوں سے تعلق اور میل جول رکھنا کیسا ؟
محترم قارئینِ کرام : قادیانی باِجماع امت کافر اور زندیق ہیں ان سے تعلقات اور میل جول رکھنا جائز نہیں ، اسی طرح ان سے خندہ پیشانی سے پیش آنا ، مصافحہ کرنا ، ملنا جلنا ، اور ان کے ساتھ کھانا پینا ناجائز اور ممنوع ہے ، قال اللہ تعالی: وَلَا تَرْکَنُوْا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ الآیة، وفي الجلالین : ولا ترکنوا تمیلوا إلی الذین ظلموا بموادة أو مداہنة أو رضي بأعمالہم فتمسّکم تصبکم النار ۔ (تفسیر جلالین : ۱/ ۱۸۹)(تفسیر الکشّاف: والنہي تناول للانحطاط في ہواہم والانقطاع إلیہم ومصاحبتہم ومجالستہم وزیارتہم ومداہنتہم والرضی بأعمالہم والتشبہ لہم والتزي بزیہم ومدّ العین إلی زہرتہم وذکرہم بما فیہ تعظیم لہم (کشاف: ۲/۹۵)
قادیانی چونکہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بسا اوقات ان کے کفریہ عقائد مخفی رہ جاتے ہیں اور ساتھ رہنے والا ان کو حق پر سمجھنے لگتا ہے جس سے اس کے عقائد کے خراب ہوجانے کا قوی اندیشہ رہتا ہے ، اس لیے ان سے زندگی کے ہرمعاملات میں تعلق قائم کرنے سے احتراز ضروری ہے۔ (گو غیرمسلموں سے دنیاوی معاملات کرنے میں کوئی حرج نہیں) مگر ان کا معاملہ غیرمسلموں سے بھی سخت ہے ۔
یاد رکھیے کہ یوں تو "کفر" کی بہت سی قسمیں ہیں مگر کفر کی یہ قسمیں بالکل ظاہر ہیں ۔
مطلق کافر
وہ کافر ہے جو ظاہر و باطن سے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا منکر ہو یا اعلانیہ کفر کا مرتکب ہو۔ اس قسم کے کافر کو مُطلق (کھلا) کافر کہتے ہیں ۔ اس میں یہودی ، عیسائی ، ہندو وغیرہ سب داخل ہیں ۔ مشرکین مکہ بھی داخل تھے اور واضح کافر تھے ۔
مرتد
وہ کافر ہوتا ہے جو اسلام کو ترک کر کے کوئی اور مذہب اختیار کر لے ۔
منافق
وہ کافر ہے جو زبان سے ''لا الہ الا اللہ'' کہتا ہے مگر دل کے اندر کفر چھپاتا ہے ۔
زندیق
ان منافقوں سے بڑھ کر اس قسم والوں کا "کفر" ہے کہ یہ کافر تو ہیں مگر اپنے " کفر" کو "اسلام" کہتے ہیں ۔ اور اسلام کو "کفر"۔
یہ قادیانی ہیں جو نہ صرف اپنے "خالص کفر کو اسلام کے نام سے" پیش کرتے ہیں بلکہ قرآن کریم کی آیات ، احادیث طیبہ، صحابہ کے ارشادات اور بزرگانِ دین کے اقوال سے توڑ موڑ کر "اپنے کفر کو اسلام ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں"۔ ایسے لوگوں کو شریعت کی اصطلاح میں ''زندیق'' کہا جاتا ہے ۔
تو تمام قادیانی "زندیق" ہیں ۔ قادیانیوں کی سو نسلیں بھی بدل جائیں تو ان کا حکم زندیق اور مرتد کا رہے گا ۔ مطلق کافر کا حکم نہیں ہوگا کیوں ؟ اس لیے کہ ان کا جرم
" اپنے "کفریہ مذہب کو اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اسلام کو کفر کہنا" ان کی آئندہ نسلوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ الغرض قادیانی جتنے بھی ہیں خواہ وہ اسلام چھوڑ کر مرتد ہوئے ہوں ، یا وہ ان کے بقول ''پیدائشی قادیانی'' ہوں قادیانیوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہوں , یا "کفر" ان کو ورثے میں ملا ہو ، ان سب کا ایک ہی حکم ہے یعنی پہلے والے مرتد اور دوسرے والے زندیق ۔
اس مسئلہ کو خوب سمجھ لیجئے ۔ بہت سے لوگوں کو تشویش ہوتی ہے کہ قادیانیوں کو دیگر کفار کی طرح کیوں نہیں سمجھا جاتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے تمام کافر اپنے "کفر" کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے آپ کو غیر مسلم کہتے اور مسلمانوں سے الگ قرار دیتے ہیں ، جبکہ قادیانی اپنے کفریہ عقائد پر ملمع سازی کرکے اس کو "اسلام" کہتے ہیں ۔ اور اسلام کو کفر کہتے ہیں. یوں مسلمانوں بلکہ ساری دنیا کو دھوکا دیتے ہیں ۔ لہٰذا یہ زندیق ہیں ۔ اس کی چند امثال مرزا کی کتب سے ملاحظہ کیجیے ۔
مرزا غلام احمد قادیانی اپنے متعلق لکھتا ہے : جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے ۔ (تذکرہ صفحہ نمبر 280،چشتی)
کُل مسلمانوں نے مجھے قبول کر لیا اور میری دعوت کی تصدیق کر لی مگر کنجریوں اور بدکاروں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا ۔ (آئینہ کمالات: ص ٥٤٧)
جو دشمن میرا مخالف ہے. وہ عیسائی ، یہودی ، مشرک اور جہنمی ہے ۔ (نزول المسیح ص ٤، تذکرہ ٢٢٧)
میرے مخالف جنگلوں کے سؤر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں ۔ (نجم الہدیٰ ص ٥٣ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)
جو ہماری فتح کا قائل نہ ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں ۔ (انوارالاسلام ص ٣٠مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)
جو شخص مجھ پر ایمان نہیں رکھتا وہ کافر ہے ۔ (حقیقت الوحی نمبر ١٦٣، از مرزا غلام احمد قادیانی )
اسی طرح مرزا بشیر احمد (مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا).غلام احمد قادیانی کے نہ ماننے والوں کے بارے میں لکھتا ہے : کُل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے ۔ خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کا نام بھی نہیں سنا ۔ وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ (آئینہ صداقت صفحہ نمبر ۳۵،چشتی)
مرزا بشیر احمد ایک اور کتاب میں لکھتا ہے : ہرایک ایسا شخص جو موسیٰ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ کونہیں مانت, یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا, اور یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کومانتا ہے پر مسیح موعود (مرزاقادیانی) کو نہیں مانتا. وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ (کلمہ الفصل صفحہ: 110)
ملاحظہ کیجیے کہ مرزائی "اپنے دین کا نام اسلام اورہمارے دین کا نام کفر رکھتے ہیں ۔ اور مرزا پر ایمان نہ لانے والی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ساری امت کو "کافر" قرار دیتے ہیں ۔ یہ ہے "زندقہ" کہ اپنے خالص کفر کو اسلام کا نام دینا ، مرزا قادیانی کے دو بڑے جرم ہوئے ۔ ایک یہ کہ نبوت کا دعویٰ کر کے ایک نیا دین ایجاد کیا اور اس کا نام اسلام رکھا ۔ دوسرا جرم یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لائے ہوئے دین کو کُفر کہا ۔ آپ بتائیے کہ کیا کسی یہودی ، عیسائی ، ہندو ، سکھ ، پارسی یا مجوسی نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے ؟ ۔ کیا انہوں نے اپنے مذہب کو اسلام کہا ہے ؟ ۔ اب تو آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ مرزاقادیانی اورمرزائیوں کا کفر اس قدر بدترین کیوں ہے ۔ اور یہ دنیا بھر کے کافروں سے بدتر کافر و زندیق کیوں ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ مرزائی قادیانی بد ترین گستاخان رسول بھی ہیں ۔ کیونکہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالا ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد ایک اور نبی گھڑ لیا ہے ۔ اس کے علاوہ مرزا نے اپنی کتب میں جابجا اللہ کے مقرب نبی مسیح (عیسیٰ بن مریم) علیہ السلام کو گندی ننگی گالیاں دی ہیں ۔ چند نمونے ملاحظہ کیجیے :
مرزا قادیانی بکتا ہے کہ : ایک دفعہ مجھے ایک دوست نے صلاح دی کہ ذیابیطس کے لئے افیون مفید ہوتی ہے پس علاج کی غرض سے مضائقہ نہیں کہ افیون شروع کر دی جائے ، میں نے جواب دیا کہ آپ نے مہربانی کی کہ ہمدردی فرمائی لیکن اگر میں ذیابیطس کے لئے افیون کھانے کی عادت کر لوں تو میں ڈرتا ہوں کہ لوگ ٹھٹھا کرکے یہ نہ کہیں کہ پہلا مسیح (عیسیٰ علیہ السلام) تو شرابی تھا اور دوسرا (مرزا قادیانی) افیونی ہوا ۔ (خزائن جلد 19 صفحات 434 تا 435،چشتی)
مزید بکتا ہے کہ : ایک دفعہ حضرت عیسیٰ زمین پر آئے تھے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ کئی کروڑ لوگ دنیا میں مشرک ہوگئے ۔ دوبارہ آکر کیا بنائیں گے کہ لوگ ان کے آنے کی خواہشمند ہیں ۔ (اخبار بدر ۔ قادیان ، مورخہ 9 مئی 1907ء جلد 6 نمبر 19 صفحہ 5)
قادیانی اور عام کافر میں فرق
محترم قارئینِ کرام : قادیانی اور دوسرے غیر مسلموں میں فرق ہے اسی فرق کی بنا پر دوسرے غیر مسلموں کے ساتھ میل ملاپ اورضروری تعلقات کی اجازت ہے اور قادیانیوں کے ساتھ ایسے کسی تعلق کی اجازت نہیں ہے ۔
قادیانی مرتد اور زندیق ہیں ، مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام کو ترک کر کے کوئی اور مذہب اختیار کر لے اور زندیق وہ ہوتا ہے جو اپنے کفریہ عقائد کو اسلام کا نام دے ، لہذا یہ لوگ اسلام کے باغی ہیں ، اور جس طرح کسی ملک کاباغی کسی رو رعایت کا مستحق نہیں ہوتا بلکہ جو لوگ ان لوگوں کے ساتھ میل جول رکھیں وہ بھی قابل گرفت ہوتے ہیں ، ٹھیک اسی طرح چونکہ قادیانی بھی زندیق اور مرتد ہیں تو اسلامی تعلیمات کے رو سے کسی رو رعایت اور میل ملاپ کے مستحق نہیں ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہود و نصاریٰ کے ساتھ تعلق رکھا اور معا ہد ہ بھی کیا، مگر مدعیان نبوت (اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب) کے ساتھ نہ صرف تعلقات کو ناجائز قرار دیا، بلکہ حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ اسود عنسی کا کام تمام کرایا اور مسیلمہ کذاب کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ٹھکانے لگایا ۔
اس لئے کہ دوسرے کافر اپنے کفر کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے آپ کو غیر مسلم اور مسلمانوں سے الگ قرار دیتے ہیں، جبکہ قادیانی عقائد پر ملمع سازی کرکے مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں اور ان ہر دوکو ایک مثال سے پیش کرتا ہوں۔سب کومسئلہ معلوم ہے کہ شریعت میں شراب ممنوع ہے ۔ (چشتی)
شراب کا پینا ، اس کا بنانا ، اس کا بیچنا تینوں حرام ہیں اور یہ بھی معلوم ہیں کہ شریعت میں خنزیر حرام اور نجس العین ہے ۔ اس کا گوشت فروخت کرنا، لینا دینا، کھانا پیناقطعی حرام ہے۔ اب ایک آدمی وہ ہے جو شراب فروخت کرتا ہے یہ بھی مجرم ہے، اور ایک دوسرا آدمی ہے جو شراب فروخت کرتا ہے اور مزید ستم یہ کرتا ہے کہ شراب پر زمزم کا لیبل چپکاتا ہے یعنی شراب بیچتا ہے اس کو زم زم کہہ کر، مجرم دونوں ہیں لیکن ان دونوں مجرموں کے درمیان کیا فرق ہے؟ وہ آپ خوب سمجھتے ہیں ۔
اسی طرح آدمی خنزیر فروخت کرتا ہے مگر اس کو خنزیر کہہ کر فروخت کرتا ہے ۔ وہ صاف صاف کہتا ہے کہ یہ خنزیر کا گوشت ہے جس کو لینا ہے لے جائے اور جو نہیں لینا چاہتا وہ نہ لے ۔ یہ شخص بھی خنزیر بیچنے کا مجرم ہے لیکن اس کے مقابلے میں ایک اور شخص ہے جو خنزیر اور کتے کا گوشت فروخت کرتا ہے بکری کا گوشت کہہ کر۔ مجرم وہ بھی ہے اور مجرم یہ بھی ۔ دونوں مجرم ہیں لیکن ان دونوں کے جرم کی نوعیت میں زمین و آسمان کافرق ہے۔ ایک حرام کو بیچتا ہے۔ اس حرام کے نام سے ، جس کے نام سے بھی مسلمان کو گھن آتی ہے اور دوسرا اسی حرام کو بیچتا ہے ۔ حلال کے نام سے، جس سے ہر شخص کو دھوکہ ہوسکتا ہے اور وہ اس کے ہاتھ سے خنزیر کا گوشت خرید کر اوراسے حلال اور پاک سمجھ کر کھاسکتا ہے۔ پس جو فرق خنزیر کو خنزیر کہہ کر بیچنے والے کے درمیان اور خنزیر کو بکری یا دنبہ کہہ کر بیچنے والے کے درمیان ہے۔ ٹھیک وہی فرق یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں، سکھوں کے درمیان اور قادیانیوں کے درمیان ہے۔ کفر ہر حال میں کفر ہے۔ اسلام کی ضد ہے لیکن دنیا کے دوسرے کافر اپنے کفرپر اسلام کا لیبل نہیں چپکاتے اور لوگوں کے سامنے اپنے کفر کو اسلام کے نام سے پیش نہیں کرتے مگر قادیانی اپنے کفر پر اسلام کا لیبل چپکاتے ہیں اور مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں کہ یہ اسلام ہے ۔
مِرزائیوں (قادیانیوں) کے کفر پر مُطَّلع ہوکر انہیں کافِر نہ سمجھنے والا خود کافِرمرتد ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد نمبر ۱۴صفحہ نمبر ۳۲۱،چشتی) ۔ اس میں قادیانیوں کے تمام گُروہ شامِل ہیں ۔ وہ قادِیانی بھی جو مرزا غلام احمد کو نبی مانیں اور وہ بھی جو مرزا کو مُجدِّد یا مسیح مانیں اور وہ بھی جو ان میں سے تو کچھ نہ مانیں مگر اس کو محض مسلمان مانیں بلکہ وہ بھی کافِر و مُرتَد ہیں جو اس کے عقائد کو جاننے کے باوُجُود اس کے کافِر ہونے پر شک کریں ۔
برصغیر پاک و ہند میں امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادے نے منکرین ختم نبوت اور قادیانیت کا رد کیا ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا قادیانی کو صرف کافر ہی نہیں قرار دیا بلکہ اس کو مزید منافق بھی کہا ہے اور اپنے فتوؤں میں اس کو اس کے اصلی نام کے غلام قادیانی کے نام سے تعبیر کیا ہے ۔ مرتد و منافق وہ شخص ہے جو کلمہ اسلام پڑھتا ہے ۔ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ۔ اس کے باوجود ﷲ تعالیٰ یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یا کسی نبی یا رسول کی توہین کرتا ہے‘ یا ضروریات دین سے کسی شے کا منکر ہے ۔ اس کے احکام کافر سے بھی سخت تر ہیں ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا غلام قادیانی اور منکرین ختم نبوت کو رد ابطال میںمتعدد فتویٰ کے علاوہ جو مستقل رسائل تصنیف کئے ہیں‘ ان کے نام یہ ہیں ۔
(1) جزاء ﷲ عدو بآباہ ختم النبوۃ: یہ رسالہ 1317ھ میں تصنیف ہوا ۔ اس میں عقیدہ ختم نبوت پر 120 حدیثیں اور منکرین کی تکفیر پر جلیل القدر ائمہ کرام کی تیس تصریحات پیش کی گئی ہیں ۔
(2) السوء والعقاب علی المسیح الکذاب : یہ رسالہ 1320ھ میں اس سوال کے جواب میں تحریر ہوا کہ اگر ایک مسلمان مرزائی ہوجائے تو کیا اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل جائے گی ؟ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے دس وجوہات سے مرزا غلام قادیانی کا کفر ثابت کرکے احادیث کے نصوص اور دلائل شرعیہ سے ثابت کیا کہ سنی مسلمہ عورت کا نکاح باطل ہوگیا ۔ وہ اپنے کافر مرتد شوہر سے فورا علیحدہ ہوجائے ۔
(3) قہرالدیان علی فرقہ بقادیان : یہ رسالہ 1323ھ میں تصنیف ہوا ۔ اس میں جھوٹے مسیح قادیان کے شیطانی الہاموں‘ اس کی کتابوں کے کفریہ اقوال سیدنا عیسٰی علیہ الصلواۃ والسلام اور ان کی والدہ ماجدہ سیدہ مریم رضی اﷲ عنہا کی پاک و طہارت اور ان کی عظمت کو اجاگر کیا گیا ہے ۔
(4) المبین ختم النبین : یہ رسالہ 1326ھ میں اس سوال کے جواب میں تصنیف ہوا کہ ’’خاتم النبین میں لفظ النبین پر جو الف لام ہے‘ وہ مستغرق کا ہے ۔ یہ عہد خارجی کا ہے ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل کثیرہ واضح سے ثابت کیا ہے کہ اس پر الف لام استغراق کا ہے اور اس کا منکر کافر ہے ۔
(5) الجزار الدیان علی المرتد القادیان : یہ رسالہ 3محرم الحرام 1340ھ کو ایک استثنیٰ کے جواب میں لکھا گیا اور اس سال 25 صفر المظفر 1340ھ کو آپ کا وصال ہوا ۔
(6) المعتقد : امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے مستند افتاء سے ہندوستان میں جو سب سے پہلا رسالہ قادیانیت کی رد میں شامل ہوا‘ وہ ان کے صاحبزادے مولانا مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے 1315ئ/1896ء الصارم الربانی علی اسراف القادیانی کی نام سے تحریر کیا تھا جس میں مسئلہ حیات عیسٰی علیہ السلام کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور غلام قادیانی کذاب کی مثیل مسیح ہونے کا زبردست رد کیا گیا ہے ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے خود اس رسالے کو سراہا ہے ۔ مذکورہ بالا سطور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ منکرین نبوت اور قادیانیوں کی رد میں امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کس قدر سرگرم‘ مستعد متحرک اور فعال تھے ۔ وہ اس فتنے کے ظہور ہوتے ہی اس کی سرکوبی کے درپے تھے ۔ اس فتنے کی رد میں امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی مساعی جمیلہ اس قدر قابل ستائش اور قابل توجہ ہے کہ ہر موافق و مخالف نے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ (روزنامہ جنگ ہفتہ 28جمادی الثانی 1423ھ ‘ 7دسمبر 2002) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment