حدیث مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ کا صحیح معنیٰ و مفہوم
محترم قارئینِ کرام : ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ۔ جمیع صحابہ عشرہ مبشرہ ، شہدا بدر احد رضی اللہ عنہم و تمام مومنین کے مولا ہیں ۔ مولا کا معنی دوست پیارا اور محبوب وغیرہ ہیں ۔ اس میں شک کرنے والا ناصبی اور خارجی ہی ہو سکتا ہے ۔ لیکن اس حدیث سے تفضیلیوں اور رافضیوں کا یہ کہنا کہ اس کا معنی آقا ہے اور اس سے پتا چلا کہ آپ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بھی آقا ہیں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے افضل ہیں یہی رافضیوں کا عقیدہ ہے اور یہ کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ سارے نبیوں کے آقا ہیں باطل اور غلط ہے ۔
آئیے اس حدیثِ مبارکہ کا صحیح معنیٰ و مفہوم سمجھتے ہیں
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (سورہ تحريم 66 : 4)
ترجمہ : سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے ، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں ۔
فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے
عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْ سَرِيْحَةَ . . . أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَةُ). . . عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ . وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. (قَالَ : ) وَ قَدْ رَوَی شُعْبَةُ هَذَا الحديث عَنْ مَيْمُوْنٍ أبِيْ عَبْدِ اﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ . . . یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما ۔ . . سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں ، اُس کا علی مولا ہے ۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہاکہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے ، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 5 / 633، الحديث رقم : 3713، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096.وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593، ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359، وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946، وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451،،چشتی، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108.وَ قَد رُوِيَ هَذَا الحديث أيضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1355، وابن ابی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072 ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ.أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354،چشتی،والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348.وَقَدَرُوِيِّ هَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.أخرجه عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن ابی عاصم فی السنه : 601، الحديث رقم : 1353، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457، وحسام الدين هندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.
أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106)
مفسّرِین کے نزدیک ’’مولیٰ ‘‘ کے معنیٰ
وہ تفاسیر جن میں مولا کے معنیٰ مددگار لکھے ہیں : اِس آیتِ مبارکہ میں وارِد لفظ’’ مولیٰ ‘‘کے معنیٰ وَلی اور ناصِر ( یعنی مدد گار) لکھے ہیں ۔ (1) تفسیرطَبَری جلد 12صفحہ154 ۔ (2) تفسیرقُرطُبی جلد 18 صفحہ 143 ۔ (3) تفسیرِکبیرجلد 10صفحہ570 ۔ (4) تفسیرِبَغْوی جلد 4صفحہ337 ۔ (5) تفسیرِ خازِن جلد 4صفحہ286 (6) تفسیرِ نَسفی صفحہ1257 ۔
اُن چار کتابوں کے نام بھی حاضِر ہیں جن میں آیتِ مبارَکہ کے لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے معنیٰ ’’ناصر‘‘(یعنی مددگار) کئے گئے ہیں : (1) تفسیرِجلالینصفحہ465 ۔ (2) تفسیرِ رُوحُ الْمَعانی جلد 28 صفحہ481 ۔ (3) تفسیرِبیضاوی جلد 5صفحہ 356 ۔ (4) تفسیرابی سُعُود جلد 5 صفحہ 738 ۔
النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں ۔ (1) رب (پرورش کرنیوالا (2) مالک ۔ سردار(3) انعام کرنیوالا (4) آزاد کرنیوالا (5) مدد گار (6) محبت کرنیوالا (7)تابع (پیروی کرنے والا) (8)پڑوسی (9) ابن العم (چچا زاد) (10) حلیف (دوستی کا معاہدہ کرنیوالا ) (11) عقید (معاہدہ کرنے والا ) (12) صھر (داماد، سسر ) (13)غلام (14) آزاد شدہ غلام (15) جس پر انعام ہوا (16) جو کسی چیز کا مختار ہو ۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو ۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے ۔ (17) جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ ۔ (ابن اثير، النهايه، 5 : 228)
حکیم الامت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے الفاظ ’’جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اُس کے مولیٰ ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : مولیٰ کے بَہُت (سے)معنٰی ہیں : دوست، مددگار، آزاد شُدہ غلام،(غلام کو) آزاد کرنے والا مولیٰ۔اِس (حدیثِ پاک میں مولیٰ) کے معنٰی خلیفہ یا بادشاہ نہیں یہاں (مولیٰ) بمعنی دوست(اور) محبوب ہے یا بمعنی مددگار اورواقِعی حضرتِ سیِّدُناعلیُّ الْمُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مسلمانوں کے دوست بھی ہیں ، مددگار بھی، اِس لئے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ’’مولیٰ علی‘‘ کہتے ہیں۔(مراٰۃ المناجیح ج۸ص۴۲۵)
مولىٰ کا صحیح مطلب
علم اللغة والنحو والأدب والانساب کے امام محمد بن زیاد ابن الاعرابی ابو عبدالله الہاشمی رح (١٥٠-٢٣١ ہجری) فرماتے ہیں :"چچازاد، آزاد کرنے والے، آزاد ہونے والے، کاروباری ساجھی، معاہدہ کرنے والے، محبت کرنے والے، با اثر اور دوست سب کو ((مولىٰ)) کہتے ہیں. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان ہے : من كنت مولاه فعلي مولاه ۔
ترجمہ : جس کا میں دوست ہوں اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی دوست ہے" . یعنی جو مجھ سے محبت رکھتا ہے، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے، ثعلب کہتے ہیں : رافضیوں (شیعہ) کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پوری مخلوق کے مولا یعنی مالک ہیں ، اس معاملہ میں رافضی لوگ کفر کے مرتکب ہوۓ ہیں ، یہ بات تو عقلی اعتبار سے بھی غلط ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خرید و فروخت کرتے تھے ، جب تمام چیزیں ان کی ملکیت تھیں تو خرید و فروخت کیسی ؟؟؟ مذکورہ حدیث میں لفظ مولا، محبت اور دوستی کے باب سے ہیں . (تاریخ دمشق، لامام ابن عساکر : ٤٢/٢٣٨، وسندہ صحیح،چشتی)
یمن میں قیام کے دوران حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو متعدد واقعات پیش آئے تھے۔ علماء سیرت نے اس میں متعدد روایات ذکر کی ہیں ان میں سے ایک بطور خلاصہ ذکر کی جاتی ہے ۔
سیرت کی روایات میں ہے کہ یمن کے علاقہ سے مال غنیمت میں کچھ لونڈیاں آئیں ۔ ان اموال غنائم سے بطور خمس حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک خادمہ حاصل کی اس پر دیگر ساتھیوں کو کچھ اعتراض ہوا۔ گو موقعہ پر کوئی خاص کشیسگی نہیں ہوئی ۔ پھر جب یہ حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حج سے واپسی پر مدینہ منورہ کے راستہ میں حضرت بریدہ بن خصیب اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں یہ اعتراض پیش کیا۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم غدیر خم میں پہنچے تو اس مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کچھ دیر آرام فرمایا ۔ اس دوران بعض صحابہ کی طرف سے وہ شکایات پیش کی گئیں جو سفرِ یمن میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق پیش آئی تھیں۔ غدیر خم کے مقام پر ١٨ ذوالحجہ ١٠ھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّمنے ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےجن ضروری امور کو ذکر فرمایا تھا ان میں سے ایک چیز رفع شبہات کے درجہ میں تھی ۔
وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق تھی جو اعتراضات سفرِ یمن میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہم سفر احباب کو ان کے خلاف پیدا ہوئے تھے ان کی مدافعت کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت بیان فرمائی۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی امانت و دیانت کا واضح طور پر ذکر فرمایا ان کلمات میں ایک کلمہ سب سے زیادہ مشہور ہے ۔
من کنت مولاہ فعلی مولاہ
ان کلمات میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے اعتراضات کا ازالہ مقصؤد تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت اور ان کے حسن کردار کا بیان کرنا پیش نظر تھا ۔ یہ ایک وقتی مسئلہ تھا اس فرمانِ نبوت کے ذریعہ حسن اسلوبی کے ساتھ اختتام پزیر ہو گیا ۔ مقام غدیرخم میں کوئی جنگ وغیرہ نہیں ہوئی ۔
رافضیوں کے عقیدے کا رد
غدیر خم کے واقعہ کو بعض لوگوں نے بڑی اہمیت دی ہے اور اس سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل ثابت کرنے کے لئے نا کام کوشش کی ہے یہ لوگ اس واقعہ کومسئلہ خلافت کے لئے انتہائی درجہ کی قوی دلیل قرار دیتے ہیں یہاں پر چند اشیاء غور طلب ہیں ۔ ان پر توجہ فرمانے سے یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ دلیل مسئلہ خلافت ہر گز ثابت نہیں کرتی ۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق شکایات کا ازالہ جن الفاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا ان میں یہ جملہ مزکور ہے کہ : من کنت مولا ہ فعلی مولاہ ، یعنی جس شخص کے لئے میں محبوب اور دوست ہوں پس علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ اس کے محبوب اور دوست ہیں ۔ یہاں پر مسئلہ خلافت و نیابت کا ذکر تک نہیں ہے ۔ اور نہ کسی جماعت کی طرف سے آپ کے سامنے خلافت کے مضمون کو زیر بحث لایا گیا ۔ اور نہ ہی کسی شخص نے اس کے متعلق کوئی سوال کیا جس کے جواب میں آپ نے یہ آپ نے یہ کلام فرمایا ہو ۔ پھر اس روایت کے اگلے الفاظ بھی غور طلب ہیں ان میں موالات اور معادات کو ایک دوسرے کے بالمقابل ذکر کیا ہے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں مولٰی کے لفظ میں ولایت بمقابلہ عداوت ہے بمعنی خلافت نہیں ۔ روایت کے وہ الفاظ یہ ہیں : اللھم وال من ولاہ وعاد من عاداہ ۔ اللہ ! اسے دوست رکھ جو علی رضی اللہ تعالی عنہ سے دوستی رکھے اور اس سے عداوت رکھ جو علی رضی اللہ تعالی عنہ سے عداوت رکھے ۔
شیعہ اور تفضیلی حضرات کے نزدیک روایت ھٰذا (من کنت مولاہ فعلی مولاہ) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کے لئے نہایت اہم حجت اورقوی تر دلیل ہے ۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ رویت ھٰزا میں مولا کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے ، (یعنی جس کا مولا میں ہوں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس کے مولا ہیں) اور مولا کے معنی خلیفہ اور حاکم کے ہیں ۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تمام امت کے مولا ہیں فلہٰذا اس فرمان کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی تمام امت کے مولا ہیں اور یہ روایت مسلم بین الفریقین ہے ۔ اور متوارات میں اس کو شمار کیا جاتا ہے لہٰذا اس پر عقیدے کی بنیاد ہو سکتی ہے ۔ نیز اس نوع کی روایت کسی دوسرے صحابی کے حق میں وارد نہیں ہوئی۔ فلہٰذا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کے لئے یہ نص صریح ہے اور آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے بعد تمام امت کے لئے خلیفہ اور حاکم ہیں ۔
روایت ھٰذا کے متعلق فریق مقابل کا یہ دعوٰی کہ یہ روایت بین الفریقین متواتر روایات میں سے ہے قابل غور ہے۔ یہ دعوٰی علی الالطلاق صحیح نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ بعض اکابر محدثین نے اس روایت پر کلام کیا ہے ۔ اس وجہ سے اس روایت کو متواترات میں سے شمار کرنا صحیح نہیں ۔ یہ روایت اخبار آحاد میں سے ہے ۔ تاہم بعض علماء اس روایت کی صحت کے قائل ہیں اور روایت کو اپنے مفہوم کے اعتبار سے قبول کرتے ہیں ۔ بحر حال ہم بھی اس روایت کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد روایت ہٰزا کے معنی ومفہوم میں کلام جاری ہے اس پر توجہ فرمائیں ۔
یہ الفاظ کسی دوسرے صحابی کے لئے استعمال نہیں ہوئے یہ درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد شدہ غلام صحابی رسول حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا تھا : قال لزید انت اخونا ومولانا ، آپ ہمارے بھائی ہیں اور ہمارے مولٰے ہیں ۔ (مشکوۃ شریف صفحہ نمبر ۲۹۳ بحوالہ بخاری ومسلم باب بلوغ صغیرالفصل الاول)
روایت ھٰذا میں لفظ مولا وارد ہے
مولا کے معنی کتاب وسنت اورلغت عرب میں متعدد پائے جاتے ہیں
النہایہ لابن اثیرالجزری ۔ (جو لغت حدیث میں مشہور تصنیف ہے) میں مولا کہ سولہ عدد معانی ذکر کئے ہیں لیکن ان میں خلیفہ بلا فصل اور حاکم والا معنی کہیں نہیں ملتا یکسر مفقود ہے۔ یعنی لغت حدیث والوں نے مولا کا یہ معنی کہیں نہیں بیان کیا۔ باقی معانی انہوں نے لکھے ہیں ۔ (النہایہ فی غریب الحدیث ج۴ ص۲۳۱،چشتی)
اسی طرح ؛ المنجد ؛ میں مولا کے اکیس معنی ذکر کئے گے ہیں وہاں بھی مولا کا معنی خلیفہ یا حاکم نہیں پایا گیا۔ یہ تو کسی مسلمان کی تالیف نہیں ایک عسائی کی علمی کاوش ہے۔ سو یہ بات پختہ ہے کہ اس روایت میں مولا کا لفظ خلیفہ اور حاکم کے معنی میں ہر گز وارد نہیں۔ اس طرح کتاب اللہ اور دیگر احادیث صحیحہ میں مولا کا لفظ خلیفہ یا حاکم کے معنی میں کہیں مستعمل نہیں دیگر معانی میں وارد ہے ۔
اہل علم کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے خلافت بلا فصل ثابت کرنے کے لئے نص صریح درکار ہے ۔ لفظ ؛ مولا ؛ جیسے مجمل الفاظ جو متعدد معانی کے حامل ہوں اور مشترک طور پر مستعمل ہوتے ہیں سے یہ مدٰعی ہر گز ثابت نہیں ہو سکتا ۔
مختصر یہ کہ خلافت بلا فصل کا دعوٰی خاص ہے اور اس کے اثبات کے لئے جو دلیل پیش کی گئی ہے ۔ اس میں لفظ مولا اگر بمعنی حاکم ہو تو بھی یہ لفظ عام ہے دلیل عام مدعٰی خاص کو ثابت نہیں کرتی ۔ اگر بالفرض تسلیم کر بھی لیا جائے کہ خلافت بلا فصل کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے غدیر خم کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں ارشاد فرمایا تھا اور جناب علی رضی اللہ تعالی عنہ بلا فصل خلیفہ نامزد تھے تو درج ذیل چیزوں پر غور فرمائیں اصل مسئلہ کی حقیقت واضح ہو جائے گی ۔
(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے وصآل مبارک سے کچھ قبل حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو ارشاد فرمایا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا وصال ہو جائے اس بنا پر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق عرض کریں ۔ اگر یہ امارت ہم میں ہو گی تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے اور اگر امارت وخلافت ہمارے سوا دوسروں میں ہو گی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہمارے متعلق لوگوں کو وصیت فرمادیں گے ۔ اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اگر ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے مسئلہ خلافت و امارت کے متعلق سوال کیا اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ہمیں اس سے منع فرما دیا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے بعد لوگ کبھی ہمیں خلافت کا موقع نہیں دیں گے ، اللہ کی قسم ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے میں اس بات کا ہر گز سوال نہیں کروں گا ۔ چناچہ حافظ ابن کثیر نے بحوالہ بخاری شریف ذکر کیا ہے : فقال علی انا واللہ لئن سئالنا ھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فمنعنا ھا لا یعطینا ھاالناس بعدہ وانی واللہ لا اسالہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ۔ (البدائیہ لابن کثیر ج۵ ص۲۲ تحت حالات مرض نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بحوالہ بخاری شریف،چشتی)
اس واقعہ نے واضح کر دیا ہے کہ خم غدیر کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں کوئی فیصلہ خلافت نہیں ہوا تھا ، ورنہ طے شدہ امر کے لئے اولا تو حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ گفتگو ہی نہ فرماتے۔ ثانیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے کہ اس مسئلہ کا میرے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم غدیر خم میں فیصلہ فرما چکے ہیں ۔ لہٰذا اس سوال کی کوئی حاجت نہیں ہے ۔
(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے وصال کے بعد سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے حق میں اس نص صریح کو کیوں پیش نہیں فرمایا ؟
(3) تمام مہاجرین وانصار صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم جو غدیر خم کے موقعہ پر اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو براہ راست سننے والے تھے انہوں نے اس نص صریح کو یکسر کیسے فراموش کردیا ؟ اگر کوئی صاحب یہ کہنے کی جرائت کریں کہ ان حضرات کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے نص صریح معلوم تھی مگر انہوں نے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم بعض دیگر مصالح کی بنا پر پس پشت ڈال دیا اور اس سے اعراض کرتے ہوئے اس پر عمل درٓمد نہیں کیا۔ تو یہ کہنا حقیقت کے بر خلاف ہے۔ نہ شریعت کا مزاج اسے تسلیم کرتا ہے ۔ نہ عقل اسے ممکن مانتی ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ فرمان نبوت کی اطاعت صحابہ کرام کے لئے ایک اہم ترین مقصد حیات تھی۔ لہٰزا یہ تمام حضرات نبوت کیخلاف کیسے مجتمع ہو سکتے تھے لا تجتمع امتی علی الضلال ۔
(4) اس طرح دور صدیقی کے اختمام پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اکابر صحابہ کی اور اکابر بنی ہاشم کی موجودگی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ منتخب فرمایا ، اس وقت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں خلافت کے متعلق کسی نے یہ نص صریح پیش نہیں کی۔ حالانکہ یہ اثبات خلافت علوی کے لئے ایک اہم موقعہ تھا ۔
(5) اسی طرح حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اپنی شہادت کے موقعہ پر خلیفہ کے انتخاب کے لئے ایک کیٹی مقرر کی تھی ۔ جس طرح کہ اہل سیرت و تاریخ کو معلوم ہے پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے وصال کے بعد ان حضرات کا باہمی مشوہ ہوا اور انتخاب کا مکمل اختیار حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کو دیا تھا ، پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ منتخب فرمایا ۔ تو اس موقعہ پر کسی ہا شمی ! غیر ہاشمی غدیر خم والی نص صریح کو پیش نہیں کیا ۔
(6) حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد جب لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بیعت لینے سے نکار کردیا۔ اور بنی عمرو بن مبدول کے باغ میں جا کر الگ بیٹھ گئے اور دروازہ بند کر لیا۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے البدایہ میں ذکر کیا ہے کہ : وقد امتنع علی رضی اللہ عنہ من احابتہم الی قبول الامارۃ حتی تکرر قولہم لہ وفرمنہم الی حائط بنی عمر بن مبدول واغلق بابہ َ ۔ (البدایہ ج۷ ص ۲۲۵ ۔ قبل ذکر بیعت علی بالخلافۃ)
اور شیعہ علماء نے اس سلسلہ میں خود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا کلام نہج البلاغہ میں ذکر کیا ہے کہ جب لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ : دعونی والتمسوا غیری ۔ ۔ ۔ وان ترکتمونی فانا کاحدکم ولعلی اسمعکم واطوعکم لمن ولیتموہامرکم وانالکم وزیرا خیرلکم منی امیرا ۔ ترجمہ : (بیعت کے معاملہ میں ) مجھے تم چھوڑ دو اور میرے سوا کسی اور کو تلاش کر لو ۔۔۔۔ اور اگر مجھے تم چھوڑ دو گئے تو میں تم میں سے ایک فرد ہونگا ۔ اور جس شخص کو تم اپنے امر کا والی بناو گئے امید ہے کہ میں اس کا تم سب سے زیادہ تابعدار اور زیدہ مطیع ہوں گا اور میرا تمہارے لئے وزیر رہنا امیر بننے سے زیادہ بہتر ہے ۔ (نہج الباغۃ للسیدالشریف ارضی ص۱۸۱۔ طبع مصر ۔ تحت ومن خطبۃ لہ علیہ السلام لما ارید علی البیت بعد قتل عثمان،چشتی)
مندرجات بالا کی روشنی میں واضح ہو کہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اولا انکار فرمایا ۔ اگرچہ بعد میں دیگر اکابر صحابہ کرام عیہم الرضوان کے اصرار پر بیعت لینا منظور فرمالیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غدیر خم یا کسی دیگر مقام میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کے لئے کوئی نص صریح موجود نہیں ورنہ آپ انالکم وزیرا خیرلکم منی امیرا جیسا کلام نہ فرماتے ۔
(7) امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے حضرت حسن مثنٰی رضی اللہ عنہ کے سامنے ان کے ایک عقیدت مند نے کہا کہ ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ : من کنت مولا ہ فعلی مولا ہ : جس کا میں مولا اس کے علی مولا ہیں ۔ اس کے جواب میں حضرت حسن مثنٰی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : اما واللہ لویعنی بذالک الامرۃ والسلطٰن لا فصح لہم بذالک کما افصح لہم بالصلوۃوالزکوۃ وصیام رمضان وحج البیت ویقال لھم ایہاالناس ھذا ولیکم من بعدی فان افصح الناس کان للناس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
ترجمہ : اگر اس جملہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی مراد امارت اور سلطنت ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ، زکوۃ، روزہ رمضان ، اورحج بیت اللہ کی طرح واضح طور پر اس کا حکم صادر فرماتے اور فرمادیتے کہ اے لوگو ! علی میرے بعد تمہارے حاکم ہیں ۔ کیونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تمام لوگوں سے زیادہ فصیح ( اور افصح الناس ) تھے ۔ (طبقات ابن سعد ج۵ تحت تذکرہ حسن بن حسن رضی اللہ عنہم)
اس حدیث پر تین طرح سے کلام کیا گیا ہے
(1) اس کی سند کے بارے میں : علماء میں کثیر اختلاف موجود ہے کہ یہ روایت صحیح ہے یا نہیں حتی کہ امام بخاری و مسلم نے اپنی صحیحین میں اس کو نقل نہیں کیا ۔ بلکہ اس کی بجائے حضرت زید کے بارے میں یہ الفا ظ بخاری میں موجود ہیں ۔ انت اخوناو مولانا ۔۔ زید توں ہمارا بھائی اور مولا ہے ۔۔ یہ تفضیلی بیان کرنے سے پہلے ہی مر جائے گے ۔ لیکن ہمیں اس کی سند پر کلام ضرر نہیں دیتا کہ فضائل میں ہمارے نزدیک ضعیف تو کیا شدید ضعیف بھی قبول ہے ۔ ہاں جب اس حدیث سے اجماعی عقیدے کو رد کیا جانے لگے تو پھر علماء اس کی سند اور معنی پر کلام کرتے ہیں ۔
(2) اس حدیث کے شان ورود کے بارے میں : نبی کریم کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جب بھی کسی جلیل القدر صحابی پرکوئی دوسرے صحابی اعتراض یا طعن کرتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنے صحابی کا بڑے اہتمام سے دفاع کرتے تھے ۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی مخالفت ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے منبر پر تشریف لے جا کر خطبہ دیا اور فرمایا عباس مجھ سے ہے میں عباس سے ہوں ۔ (مسند احمد2734،چشتی)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی امارت کی مخالفت ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کھڑے ہوگئے اور دفاع کیا اور فرمایا اس کا باپ اور یہ (زید) امارت کے حق دار ہیں اور مجھے سب لوگوں سے زیادہ پیارے ہیں ۔ (صحیح بخاری 4250)
حضرت عمر اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہما کا اختلاف ہو گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جلال میں آگئے اور بار بار فرمایا کیا تم میرے لیے میرے ساتھی کو چھوڑتے ہو ؟ میں نے کہا تھا اےلوگوں ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں تم سب نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو ۔ ابوبکر نے کہا آپ نے سچ کہا ۔ (صحیح بخاری4640)
اسی طرح جب یمن کے کچھ لوگوں نے بار بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی بارگاہ میں آکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جلال میں آگئے اور حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : من کنت ولیہ فعلی ولیہ ۔۔ جس کا میں ولی ہوں علی بھی اس کا ولی ہے ۔ (ترمذی3713)
چاروں واقعات کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صرف مولا علی نہیں بلکہ کسی بھی جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہم کی ناموس کا مسئلہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اہتمام کے ساتھ دفاع کرتے تھے ۔ یہاں سے تفضیلیوں اور رافضیوں کی خیانت بھی پاش پاش ہوجاتی کہ خم غدیر میں یوں اہتمام حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خاصہ نہیں بلکہ کئی اصحاب کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے محبت کا اظہار فرمایا اور دفاع کیا ۔ لیکن کیا کیا جائے یہودیوں کے پیدا کردہ رافضیوں کی شاخ تفضیلیت میں افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض کااثر تو موجود ہونا ہی تھا ۔ ایک کا ذکر کرتے اور دوسرا ؟
(3) اس حدیث کے معنی کے اعتبار سے ۔ رافضی اور تفضیلی کہتے ہیں مولا کا یہاں معنی آقا ہے جبکہ حدیث کا تقاضا ہے کہ یہاں معنی دوست پیارا اور محبوب ہونا چاہیے کہ دوسری روایت میں فرمایا ۔ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ ، اے اللہ جو علی کو دوست رکھے تو ںبھی اسے دوست رکھ اور جو علی کو دشمن سمجھے توں بھی اسے دشمن رکھ ۔ اب تفضیلی اور رافضی حضرات ذرا اس حدیث میں آقا کا معنی کر کے دیکھائیں ؟ دشمن کے مقابلے میں دوست آتا ہے آقا نہیں ۔ اب چلیے اقوال علماء کی طرف ۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حدیث مولاہ اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے (گویا کہ آپ کے نزدیک صحیح نہیں) تو بھی اس میں یہ دلیل نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے بعد ہے (پھر شان ورودبیان کیا جو اوپر ذکر ہوا اور فرمایا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نےارادہ فرمایا : کہ آپ کی خصوصیت اور آپ سے محبت بیان کی جائے اور ابھارہ جائے لوگوں کو کہ آپ سے محبت رکھی جائے اور دشمنی چھوڑ دی جائے ۔ اس حدیث میں ولا سے مراد اسلامی بھائی چارہ اور محبت ہے ۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کریں ۔ ایک دوسرے سے دشمنی نہ رکھیں ۔ (الاعتقاد صفحہ 497)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس حدیث کا معنی معتمد علماء کی معتمد تحقیق کے مطابق ہے : جس کا میں مولا ، ناصر ، تعلق والا ،پیارااور دلی دوست ہوں تو علی رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اس حدیث سے اسلامی محبت و بھائی چارہ مراد لیا ہے ۔ (فتاوی نوویہ 252،چشتی)
امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس کا معنی ہے جس کو میں ولی بناؤں علی رضی اللہ عنہ بھی اس کو ولی بنائے گا ۔ ولی دشمن کی ضد ہے (دشمن کی ضد دوست ہوتی ہے آقا نہیں) ۔ یعنی جس کو میں پیار کرتا ہوں علی بھی اس سے پیار کرتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے اس کا معنی ہے ۔ جو مجھے دوست رکھے گا علی رضی اللہ عنہ بھی اس کو دوست رکھے گا ۔ (مرقاہ جلد11 صفحہ 247)
شیخ محقق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ولی کا معنی دوست ، محب اور مددگار ہے ۔ (اشعہ للمعات شرح مشکوہ ص 454 جلد7)
چند صفحات بعد حدیث مولاہ پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ابن حجر فرماتے ہیں کہ ہم تسلیم نہیں کرتے کہ مولا کا معنی حاکم اور والی ہے بلکہ اس کا معنی محبوب اور مددگار ہے کیونکہ لفظ مولیٰ کئی معنی میں مشترک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعض معانی کو دلیل کے بغیر معین کرنا ناقابل اعتبار ہے (جیسا کہ تفضیلی کرتے ہیں) ۔ (اشعہ للمعات شرح مشکوہ جلد 7 صفحہ 462،چشتی)
حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ اس کا معنی بیان کرتے ہیں جس کا میں مولا اور محبوب ہوں علی بھی اس کا مولا اور دوست ہے (اور کے عطف سے مولی کا معنی بیان کر دیا) ۔ (مقابیس المجالس صفحہ 918)
خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی جس کا میں دوست ہوں علی بھی ان کا دوست ہے ظاہر ہے کہ قرآن میں مولی بمعنی دوست ہے دیکھوآیت کریمہ قال ان اللہ ھو مولاہ وجبریل و صالح المومنین ۔ اب مولا کا معنی حاکم یا امام یا امیر کرنا صراحتہً قرآن کریم کی مخالفت ہے اور تفسیر بالرائے ہے اور کون مسلمان یہ نہیں مانتا کہ حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے دوستوں کے دوست ہیں ۔ (مذہب شیعہ از خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ)
جناب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں : مولی اسمائے مشترکہ میں سے ہے کبھی اس سے مراد ولی ہوتا ہے اور کبھی اس سے مراد مددگار ہوتا ہے یہی اس لفظ کے معانی میں سے سب سے زیادہ واضح ہے۔اور کبھی اس سے آزاد کرنے والا مراد لیا جاتا ہے۔حدیث کا معنی یہ ہے کہ جس کامیں ولی ہو ں علی اس کا ولی ہے اور جس کا میں حبیب ہوں علی اس کا حبیب ہے او ر جس کا میں مددگار ہوں علی اس کا مدد گار ہے ۔ (عظمت صحابیت اور حقیقت خلافت صفحہ نمبر 316)
کسی ایک نے بھی مولیٰ کا معنی آقا حاکم ، خلیفہ باطن بلا فصل نہیں کیا قرآن و حدیث سے من مانا عقیدہ تفضلیوں کا ثابت نہ ہو سکا ۔ اس سے واضح ہو گیا کہ ۔ من کنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ کا جملہ اکابر ہاشمی حضرات کے نزدیک بھی خلافت بلا فصل کے لئے نص صریح نہیں ۔ مندرجہ عنوان کے تحت جن چیزوں کو ذکر کیا گیا ہے ان تمام پر غور کر لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ غدیر خم کے موقعہ پر جو فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم صادر ہوا اس کا حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کے ساتھ کچھ تعلق نہیں ہے اور نہ ہی مسئلہ خلافت وہاں مطلوب و مقصود تھا ۔ بلکہ وقتی تقاضوں کے مطابق اس میں دیگر مقاصد پیش نظر تھے جن کو وہاں پورا کردیا گیا اللہ کریم ہمیں سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ (طالبِ و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment