Monday 17 May 2021

جہاد فرضِ عین کی تعریف و احکام حصّہ اوّل

0 comments

 جہاد فرضِ عین کی تعریف و احکام حصّہ اوّل

محترم قارئینِ کرام : اسلامی تعلیمات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جہاد اسلام کا ایک اہم رکن ہے، یہ محض قتال ، جنگ یا دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کا نام نہیں۔ یہ اس وقت ہر مومن پر فرض ہے جب کفار مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ پر اتر آئیں، اور ان پر ناحق ظلم و ستم کا بازار گرم کریں۔ قرآنی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ جب ہجرت کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اور مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ کا فیصلہ کیا تو اس موقع پر اذنِ دفاع نازل ہوا ۔

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌO الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ۔
ترجمہ : پروانگی عطا ہوئی انہیں جن سے کافر لڑتے ہیں اس بنا پر کہ ان پر ظلم ہوا اور بیشک اللّٰہ اُن کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے ۔ وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اتنی بات پر کہ انہوں نے کہا ہمارا رب اللّٰہ ہے اور اللّٰہ اگر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو ضرور ڈھادی جاتیں خانقاہیں اور گرجا اور کلیسا اور مسجدیں جن میں اللّٰہ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے اور بیشک اللّٰہ ضرور مدد ۔ (سورۃ الحج، 22 : 39 - 40)

اس آیت کریمہ کے مطابق مسلمانوں کے لیے لڑنا اس لیے حلال کیا گیا کہ ان پر ظلم و ستم کیا گیا ، انہیں بے گھر اور بے وطن کیا گیا جبکہ ان کا کوئی قصور نہ تھا۔ اب ان پر جنگ مسلط ہو رہی تھی اور انہیں اپنا دفاع کرنا تھا ۔ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ میں حملہ آور ہو کر تلوار اٹھانے کا اذن نہیں بلکہ دفاع کی جدوجہد کا اذن ہے تاکہ عبادت گاہیں محفوظ رہیں اور ہر کوئی پر امن ماحول میں اپنے اپنے دین پر عمل جاری رکھ سکے ۔

کفارِ مکّہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو ہاتھ اور زبان سے شدید اِیذائیں دیتے اور تکلیفیں پہنچاتے رہتے تھے اورصحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس اس حال میں پہنچتے تھے کہ کسی کا سر پھٹا ہے ، کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہے اورکسی کا پاؤں بندھا ہوا ہے۔ روزانہ اس قسم کی شکایتیں بارگاہِ اقدس میں پہنچتی تھیں اورصحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں کفار کے ظلم و ستم کی فریادیں کیا کرتے اور آپ یہ فرما دیا کرتے کہ’’ صبر کرو، مجھے ابھی جہاد کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی ،تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ وہ پہلی آیت ہے جس میں کفار کے ساتھ جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین کی طرف سے جن مسلمانوں سے لڑائی کی جاتی ہے انہیں مشرکین کے ساتھ جہاد کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور بیشک اللّٰہ تعالیٰ اِن مسلمانوں کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے ۔ (تفسیر روح البیان، الحج ، : ۳۹، ۶/۳۸،چشتی)

ان لوگوں کو جہاد کی اجازت دے دی گئی جنہیں ان کے گھروں سے صرف اتنی بات پرناحق نکال دیا گیا اور بے وطن کیا گیا کہ انہوں نے کہا ’’ہمارا رب صرف اللّٰہ ہے‘‘ حالانکہ یہ کلام حق ہے اور حق پر گھروں سے نکالنا اور بے وطن کرنا قطعی طور پر ناحق ہے ۔ (تفسیر جلالین، الحج : ۴۰، ص۲۸۳،چشتی)(تفسیر روح البیان، الحج : ۴۰، ۶/۳۹)

اگر اللّٰہ تعالیٰ جہاد کی اجازت دے کر اور حدود قائم فرما کر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو نتیجہ یہ ہوتا کہ مشرکین غالب آجاتے اور کوئی دین و ملت والا ان کی سر کشی سے نہ بچ پاتا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں یہودیوں کے کلیساؤں ، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں راہبوں کی عبادت گاہوں، عیسائیوں کے گرجوں اور حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں مسلمانوں کی ان مسجدوں کو گرا دیا جاتا جن میں اللّٰہ تعالیٰ کاکثرت سے ذکر کیا جاتا ہے ۔ (تفسیر مدارک، الحج : ۴۰، ص۷۴۱)(خازن، الحج : ۴۰، ۳/۳۱۰-۳۱۱)

اس آیت سے معلوم ہو اکہ اگر گزشتہ زمانہ میں جہاد نہ ہوئے ہوتے تو نہ یہودیوں کے عبادت خانے محفوظ رہتے اور نہ عیسائیوں کے گرجے۔ ہرزمانے میں جہاد کی ایک برکت یہ ہوئی کہ لوگوں کی عبادت گاہیں محفوظ ہوگئیں، لیکن یہاں یہ یاد رہے کہ اب ہمارے زمانے میں گرجوں وغیرہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کا اس اعتبار سے کوئی احترام نہیں کہ وہ کوئی مقدس جگہیں ہیں ، صرف یہ ہے کہ اسلامی ملک میں غیرمسلموں کو اپنی عبادت گاہیں بنانے کی اجازت ہے اور ہم انہیں اس معاملے میں چھیڑیں گے نہیں اور نہ ہی مسلمانوں کو حق ہوگا کہ بلاوجہ دوسروں کے عبادت خانے گرائیں۔ہمیں ہماری شریعت کا حکم یہ ہے کہ ہم کافروں کو اور ان کے دین کو ان کے حال پر چھوڑ دیں اور اسلام کا پیغام ان کی عبادت گاہیں گرا کر نہیں بلکہ دعوت و تبلیغ کے ذریعے دیں ۔

ارشاد فرمایاکہ جو اللّٰہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرے گا اللّٰہ تعالیٰ اس کی ضرور مدد فرمائے گا ، چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا اور مہاجرین و اَنصار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو عرب کے سرکش کافر سرداروں پر غلبہ عطا فرمایا ، پھر ایران کے کسریٰ اور روم کے قیصر پر غلبہ عنایت کیا اور ان کی سر زمین اور شہروں کا مسلمانوں کو وارث بنا دیا ۔ (تفسیر روح البیان، الحج : ۴۰، ۶/۴۰،چشتی)

مسلمان آخر تک اپنی بقاء کی جنگ لڑتے رہے ان کی تلوار ہمیشہ مظلوم کے دفاع میں اٹھتی جب انہیں غلبہ حاصل ہو جاتا تو پھر معاشرہ میں امن ہو جاتا، نماز قائم کی جاتی، زکوٰۃ دی جاتی، نیکی کا حکم دیا جاتا، برائی سے روکا جاتا اور ظلم کے خلاف لڑا جاتا ۔

ضابطۂ جنگ بیان کرتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے : وَ قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا.
ترجمہ : اور اللہ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو ۔ (سورۃ البقره، 2 : 190)

اللہ اور اس کے رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احکامات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عمل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ چاہے جنگ کا میدان ہی کیوں نہ ہو پہلے صلح سے معاملہ حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے لیکن اگر دشمن صلح پر راضی نہ ہوں اور معاشرے کا مظلوم طبقہ ظلم و ستم کی چکی میں پس رہا ہو تو اس ظلم کو روکنے اور معاشرے میں امن و امان کی صورتِ حال پیدا کرنے کے لئے لازمی ہو جاتا ہے کہ ظلم کے خلاف تادیبی و انسدادی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ ۔
ترجمہ : اور ان سے جنگ کرتے رہو حتی کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین (یعنی زندگی اور بندگی کا نظام عملاً) اللہ ہی کے تابع ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو سوائے ظالموں کے کسی پر زیادتی روا نہیں ۔ (سورۃ البقره، 2 : 193)

خدا را اے مسلمانو کیا اب بھی نہیں جاگو گے ذرا دیکھو مسلمانوں پر کیسے کیسے ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے گئے ہیں یہ کٹی پھٹی لاشیں یہ میرے بچوں اور بچیوں ، بہنوں اور بیٹیوں کے بے گور و کفن لاشے برما میں میانمار میں کشمیر ، فلسطین ، عراق و افغانستان میں تڑپتے سسکتے مسلمان اے بے ضمیر و بے حمیت مسلم حکمرانو اور مسلمانو کب جاگو گے خواب غفلت سے ، کب اٹھو گے ؟

اے اللہ میں تیرا عاجز و کمزور بندہ اس کے علاوہ کیا کر سکتا ہوں میرے مولا میرے اختیار میں کچھ نہیں جو توفیق توں نے عطاء فرمائی تیری ہی توفیق سے اس بے ضمیر مردہ ضمیر قوم کو جنجھوڑنا پیغام جہاں تک ممکن ھو سکا پہنچا دیا میرے کریم مالک تیرا عاجز گناہ گار بندہ فقیر حقیر پر تقصیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی تیری بارگاہ لم یزل میں التجا کرتا ہے میرے مالک ہمیں غیرت مند مسلم حکمران عطاء فرمادے صدقہ پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا آمین ۔

کافر ہمارے کسی شہر [یا علاقے] میں داخل ہوجائیں یا اس پر چڑھائی کردیں یا شہر کے دروازے کے باہر آکر حملے کی نیت سے پڑاؤ ڈال دیں اور ان کی تعداد اس علاقے کے مسلمانوں سے دگنی یا اس سے کم ہو تو جہاد اس وقت فرض عین ہوجاتا ہے ۔ ایسے وقت میں غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکلے گا اور عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر نکلے گی ۔ بشرطیکہ اس میں دفاع کی طاقت ہو ۔ یہی قول زیادہ صحیح ہے اور ہر شخص اپنے والدین کی اجازت کے بغیر اور مقروض قرض خواہ کی اجازت کے بغیر نکلے گا ۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مسلک ہے اور اگر کافر مسلمانوں پر اچانک حملہ کردیں اور مسلمانوں کو لڑائی کیلئے تیار ہونے اور اکٹھے ہونے کا موقع نہ ملے تو ہر اس شخص پر تنہا لڑنا اور اپنا دفاع کرنا فرض ہے ۔ جسے معلوم ہو کہ اگر اس نے ہتھیار ڈال دئیے تو وہ مارا جائے گا یہ مسئلہ ہر مسلمان کیلئے ہے خواہ وہ آزاد ہو یا غلام ، عورت ہو یا اندھا، لنگڑا ہو یا بیمار ، اور اگر امکان ہو کہ ہتھیار ڈالنے کے بعد قتل بھی ہو سکتے ہیں اور [بچ کر] گرفتار بھی تو ایسے وقت میں لڑنا افضل ہے اور ہتھیار ڈالنا جائز ۔ اور اگر عورت کو علم ہو کہ اگر میں نے ہتھیار ڈال دئیے تو [غلیظ] ہاتھ میری طرف بڑھیں گے تو اس پر اپنے دفاع میں لڑنا فرض ہے اگرچہ اس میں اس کی جان بھی چلی جائے کیونکہ جان بچانے کیلئے عزت کو داؤ پر لگانا جائز نہیں ہے ۔

علامہ اذرعی رحمۃ اللہ علیہ [ المتوفی ۷۸۳ ] اپنی کتاب غنیتہ المحتاج میں فرماتے ہیں کہ خوبصورت بے ریش لڑکے کو اگر علم ہو کہ اس کے ساتھ کافر ابھی یا آئندہ بے حیائی کا ارتکاب کرسکتے ہیں تو اس کا حکم بھی عورت کی طرح ہے بلکہ عورت سے بھی بڑھ کر [ اسے اپنے دفاع کی کوشش کرنی چاہئے اور عصمت کی حفاظت کیلئے جان کی قربانی دینی چاہئے ] اور اگر جس علاقے پر کافروں نے حملہ کیا ہے وہاں مسلمانوں کی کثرت ہو اور اتنے لوگ کافروں کے مقابلے پر نکل چکے ہوں جو مقابلے کیلئے کافی ہوں تب بھی باقی مسلمانوں پر زیادہ صحیح قول کے مطابق ان مجاہدین کی مدد کرنا فرض ہے۔ اور جو شخص ایسی جگہ پر ہو جہاں سے حملہ آور دشمن مسافت سفر [ یعنی اڑتالیس میل کی مسافت ] پر ہوں تو اس شخص پر اسی طرح جہاد فرض عین ہو جائے گا جیسا کہ اس علاقے والوں پر فرض ہے جہاں دشمن نے حملہ کیا ہے۔ علامہ ماوردی فرماتے ہیں کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ کافروں کے حملے کے بعد اب یہ جہاد دفاعی ہوچکا ہے۔ اقدامی نہیں رہا اس وجہ سے یہ ہر اس شخص پر فرض ہوگا جو اس کی طاقت رکھتا ہو [ تاکہ مسلمانوں کے علاقے اور ان کی جان و مال کا دفاع کیا جا سکے جوکہ فرض عین ہے۔ ] اور جو شخص اس شہر سے جس پر کافروں کا حملہ ہو اہے مسافت سفر [ اڑتالیس میل ] کی دوری پر ہو تو اس پر فرض ہے کہ وہ فوراً اس شہر کی طرف جہاد کیلئے روانہ ہو اگرچہ وہ خود اس شہر یا اس کے آس پاس کا رہنے والا نہ ہو اور اگر اتنے لوگ وہاں جاچکے ہوں جو دشمن کیلئے کافی ہوں تو پھر باقی لوگوں سے فرضیت تو ساقط ہو جائے گی لیکن وہ نہ جانے کی صورت میں اجر عظیم اور بے انتہا ثواب سے محروم ہوجائیں گے ۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ مسافت سفر کے اندر والوں پر سے فرضیت ساقط نہیں ہوگی اگرچہ کافی مقدار میں لوگ دشمن کے مقابلے پر جاچکے ہوں بلکہ ان پر مجاہدین کی مدد کرنا ور خود میدان جنگ کی طرف سبقت کرنا فرض ہوگا ۔

وہ مسلمان جو اس شہر سے جس پر کافروں نے حملہ کیا ہے مسافت سفر [اڑتالیس میل] سے زیادہ دور رہتے ہوں تو ان کا کیا حکم ہے؟ زیادہ صحیح قول تو یہ ہے کہ اگر مسافت سفر کے اندر کے لوگ دشمنوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کافی ہورہے ہوں تو پھر ان لوگوں پر جہاد فرض عین نہیں ہوتا ۔
دوسرا قول یہ ہے کہ جہاد الاقرب فالاقرب کی ترتیب سے فرض ہوتا چلا جاتا ہے اس میں کسی مسافت وغیرہ کی قید نہیں ہے بلکہ قریب والوں پر پھر ان کے بعد والوں پر پھر ان کے بعد والوںپر جہاد فرض ہوتا چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ یہ خبر آجائے کہ کافروں کو شکست ہوگئی اور وہ مسلمانوں کا علاقہ چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں ۔

جو شخص لڑائی والے شہر سے مسافت سفر کے اندر ہوگا اس پر جہاد کی فرضیت کیلئے سواری کی کوئی شرط نہیں ہے البتہ اگر مسافت سفر سے دور ہوتو بعض حضرات سواری کو شرط قرار دیتے ہیں جبکہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ایسے سخت حالات میں سواری کی کوئی شرط نہیں ہے البتہ توشے کا ہونا جہاد کی فرضیت کیلئے شرط ہے کوئی قریب ہو یا دور ۔

اگر کافر مسلمانوں کے ملک میں ان کے شہروں اور آبادیوں سے دور ویرانوں میں یا پہاڑوں میں داخل ہوجائیں تو ان کا کیا حکم ہے ؟ امام الحرمین نقل فرماتے ہیں کہ دارالاسلام کے کسی بھی حصے میں داخل ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی شہر میں داخل ہونا [اس لئے ان کو نکالنے کیلئے جہاد فرض عین ہوگا] لیکن خود امام الحرمین کا رجحان اس طرف ہے کہ جن علاقوں میں کوئی آباد ہی نہیں ہے ان کیلئے لڑائی کرنا اور خود کو تکلیف میں ڈالنا مناسب نہیں ہے ۔ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام الحرمین کا یہ رجحان قطعاً درست نہیں ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان دفاع کی قوت رکھتے ہوئے بھی کافروں کو دارالاسلام کے کسی حصے پر قبضہ کرنے کی اجازت دے دیں ۔ (روضۃ الطالبین ص ۲۱۶ ج۔۱۰،چشتی)

علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اگر کافر دارالاسلام میں داخل نہ ہوئے ہوں مگر اس کے قریب آچکے ہوں تب بھی مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ کافروں کے مقابلے کیلئے باہر نکلیں اور [ اور لڑتے رہیں ] یہاں تک کہ اللہ کا دین غالب ہو اور مرکز اسلام محفوظ، سرحدیں بے خطر اور دشمن ذلیل وخوار ہوجائے ۔ (تفسیر الجامع لاحکام القرآن ص ۱۵۱ج۔۸،چشتی)

اور یہی مطلب ہے علامہ بغوی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کا کہ اگر کافر دارالاسلام میں داخل ہو جائیں تو قریبی لوگوں پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے اور دور والوں پر فرض کفایہ رہتا ہے [بشرطیکہ قریب والے مقابلہ کررہے ہوں اور کافی ہو رہے ہوں ۔ (شرح السنہ ص ۳۷۴ج۔ ۱۰ )

اس باب کی مناسبت سے یہ چند مسائل میں نے یہاں ذکر کردئیے ہیں ان مسائل کی تفصیلات کی اصل جگہ فقہ کی کتابیں ہیں ۔

آپ نے جہاد کے فرض عین اور فرض کفایہ ہونے کی بحث پڑھ لی ہے یہی وہ بحث ہے جسے آڑ بنا کر آج بہت سارے مسلمان خود بھی جہاد چھوڑ بیٹھے ہیں اور دوسروں کو بھی اس بحث میں الجھا کر جہاد سے دور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں حالانکہ آپ نے خود پڑھ لیا کہ جہاد اس وقت فرض کفایہ ہوتا ہے جب مسلمان کافروں کی طرف سے امن میں ہوں ۔

ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا آج مسلمان امن میں ہیں ؟ یقینا آپ کو ہر طرف مسلمانوں کی چیخ وپکار اور ان کی برہنہ لاشیں اور عقوبت خانوں میں سسکتی جوانیاں خصواصاََ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں چیخ چیخ کر بتائیں گی کہ مسلمان ہر گز امن میں نہیں ہیں بلکہ ان پر تو وہ ظلم ڈھائے جارہے ہیں جو سفاک درندے بھی کمزور جانوروں پر نہیں ڈھاتے ۔ جہاد تو اس وقت فرض کفایہ ہوتا ہے جب کافر اپنے ملکوں میں ہوں اور ان کی فوجیں ان کی سرحدوں کے اندر ہوں۔ مگر آج ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ امریکی فوجیں ہوں یا ہندوستانی ، برطانوی لشکر ہوں یا فرانسیسی ، سربیائی درندے ہوں یا اسرائیلی ، ایتھوپیا کے کالے کافر ہوں یا اقوام متحدہ کی وردی پہنے گورے کافر ، یہ سب کے سب ہماری سرحدوں کے اندر گھس کر ہمارے علاقوں پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں ۔ اور انہوں نے پوری دنیا میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے تو کیا اب بھی جہاد فرض کفایہ ہے ۔ امریکی راکٹ اسلامی امارت پر گر رہے ہیں برطانوی جہازوں کی گھن گرج حدود حرم میں سنائی دے رہی ہے اور ترکی کی خلافت کا خون آلود چہرہ ہماری نظروں کے سامنے بار بار آتا ہے اور ہمیں برے انجام سے ڈراتا ہے ۔ کیا ان حالات میں بھی جہاد فرض کفایہ ہی رہے گا اگر جہاد اب بھی فرض کفایہ ہے تو پھر فرض عین کب ہوگا ؟ کیا اس وقت جب امت کے مردہ جسم تک کو بیچ دیا جائے گا کیا اس وقت جب اسرائیل کے یہودی خیبر کے بعد نعوذ باللہ مدینہ منورہ میں جشن منا رہے ہوں گے کیا اس وقت جب ہمارا گوشت ریسٹورنٹوں میں پکا کر کھایا جائے گا ۔ شاید اب تک یہی کچھ نہیں ہوا ، ورنہ تو سب کچھ ہوچکا ہے ہماری زندہ مسلمان بہنوں کے ساتھ ساتھ شہید ہونے والیوں تک کو نہیں بخشا گیا۔ ہمارے بچوں کے سروں سے فٹ بال تک کھیلی جاچکی ہے ۔ شعائر اسلام کو دنیا میں ذلیل و رسوا کیا جارہاہے ۔ چلئے تھوڑی دیر کیلئے آنکھیں بند کرکے اور دل تھام کر یہ مان لیتے ہیں کہ جہاد فرض کفایہ ہے تو ذرا بتائیے کہ یہ کفایہ آج کون ادا کررہاہے فرض کفایہ جہاد کا مطلب تو یہ ہے کہ مسلمان خود جا کر کافروں کے ملک پر حملہ کریں یہ حملہ آج دنیا میں کہاں ہو رہا ہے فرض کفایہ میں تو مسلمانوں کے لشکر حملہ کرتے ہیں مگر آج خود ہم پر حملے کئے جارہے ہیں ۔ فرض کفایہ جہاد میں تو مسلمانوں کے مسلح لشکر کافروں کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں مگر آج تو ہمارے ملکوں میں ہماری نسلوں کو مرتد کیا جارہا ہے فرض کفایہ جہاد میں تو مسلمان کافروں سے جا کر کہتے ہیں کہ اگر اسلام قبول نہیں کرتے ہو تو پھر ہمارے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرو اور ہمیں جزیہ دے کر امن سے رہو ۔ مگر آج تو ہم خود کافروں کو جزیہ دیتے ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی شکل میں ان کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اور پھر بھی ہمیں امن کی بھیک نہیں ملتی ۔ معلوم ہوا کہ فرض کفایہ بھی ادا نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے آج پوری امت ذلت و پستی کا شکار ہے اور کافر قومیں اسے نوچ نوچ کر کھا رہی ہیں ۔ اے مسلمانو! اب اس بحث کا وقت نہیں رہا کہ جہاد فرض عین ہے یا فرض کفایہ بلکہ اب تو جہاد ہر فرض سے بڑا فرض ہے اور ایسا فرض ہے جس پر ہماری زندگی ، ہمارا ایمان اور ہماری نسلوں کا ایمان موقوف ہے ۔ تم اسے فرض عین سمجھو یا فرض کفایہ تمہارے دشمنوں نے تمہیں مٹانا اپنے اوپر فرص کر رکھا ہے وہ اپنی فوجیں لے کر میدان میں اتر آئے ہیں ۔ اے محمد عربی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سپاہیو ! آج اسلام کی عزت کا مسئلہ ہے تمہاری غیرت کس طرح سے یہ بات گوارا کرتی ہے کہ جن علاقوں کو تمہارے پاک نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے پاک خون اور پسینے بہا کر آزاد کرایا تھا اب وہ پھر یہودیوں کی دسترس میں ہیں فضول لفظی بحثیں چھوڑو زمین پر دیکھو کفر تمہیں چیلنج کررہاہے اور آسمان کی طرف دیکھو رب کے فرشتے تمہارے ساتھ اتر کر لڑنے کے منتظر ہیں ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔