Tuesday, 18 May 2021

مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک حصّہ اوّل

مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک حصّہ اوّل

محترم قارئینِ کرام ارشادِ بارعی تعالیٰ ہے : سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الۡاَقْصَا الَّذِیۡ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الْبَصِیۡرُ ۔ (سورۃ الاسراء آیت نمبر 1)
ترجمہ : پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک جس کے گردا گرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے ۔

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مسجدِ اقصیٰ تک سیر کرانے میں ایک حکمت یہ ہے کہ تمام اَنبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا شرف اور فضیلت ظاہر ہو جائے کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی جگہ میں انہیں امام بن کر نماز پڑھائی اور جسے گھر والوں پر مُقَدّم کیا جائے اس کی شان یہ ہوتی ہے کہ و ہ سلطان ہوتا ہے کیونکہ سلطان کو اپنے علاوہ لوگوں پر مُطْلَقاً تَقَدُّم حاصل ہے ۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ حشر کے دن مخلوق اسی سرزمین میں جمع ہو گی اس لئے یہ جگہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قدموں کی برکات سے نہال ہو جائے تا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پر محشر میں وُقوف آسان ہو ۔ (تفسیر صاوی ، الاسراء : ۱، ۳/۱۱۰۶)

امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ پہلی حکمت کے حوالے سے کیا خوب فرماتے ہیں :

نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سرعیاں ہوں معنی ٔاول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے

اَلَّذِیۡ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ : جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں ۔ آیت کے اس حصے میں اللّٰہ تعالیٰ نے مسجد ِاقصیٰ کی شان بیان فرمائی کہ اس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں دینی بھی اور دنیوی بھی ۔ دینی برکتیں یہ کہ وہ سرزمینِ پاک وحی کے اترنے کی جگہ اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی عبادت گاہ اور ان کی قیام گاہ بنی اور ان کی عبادت کا قبلہ تھی۔ دنیوی برکتیں یہ کہ وہاں قرب و جوار میں نہروں اور درختوں کی کثرت تھی جس سے وہ زمین سرسبز و شاداب ہے اور میووں اور پھلوں کی کثرت سے بہترین عیش و راحت کا مقام ہے ۔ (تفسیر مدارک، الاسراء : ۱، ص۶۱۵،چشتی)(تفسیر خازن، الاسراء : ۱، ۳/۱۵۴)(تفسیر خزائن العرفان، بنی اسرائیل : ۱، ص۵۲۵)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث معراج بیان کرتے ہوئے کہا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا پھر میں براق پر سوار ہوا حتی کہ میں بیت المقدس پہنچا پھر میں نے براق کو اس حلقہ میں باندھ دیا جہاں انبیاء (علیہم السلام) کی سواریاں باندھی جاتی ہیں، پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور میں نے وہاں دو رکعت نماز پڑھی، پھر میں مسجد سے باہر آگیا پھر میرے پاس جبریل (علیہ السلام) ایک برتن میں شراب اور ایک برتن میں دودھ لے کر آگئے، میں نے دودھ لے لیا تو جبریل نے کہا آپ نے فطرت کو اختیار کرلیا پھر ہمیں آسمان کی طرف معراج کرائی گئی ۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث : 162)

اس جگہ یہ سوال ہوتا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو براہ راست آسمانوں کی طرف کیوں نہیں لے جایا گیا درمیان میں مسجد اقصی کیوں لے جایا گیا اس کی حسب ذیل حکمتیں ہیں :

1 ۔ اگر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صرف آسمانوں پر جانے کا ذکر فرماتے تو مشرکین کےلیے اطمینان اور تصدیق کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا کیونکہ آسمانوں کے طبقات اور درجات، سدرہ اور سدرہ سے اوپر کے حقائق میں سے کوئی چیز ان کی دیکھی ہوئی تھی نہ انہیں اس کے متعلق کوئی علم تھا، لیکن مسجد اقصی ان کی دیکھی ہوئی تھی تو جب آپ نے یہ فرمایا کہ میں رات کے ایک لمحے میں مسجد اقصی گیا اور واپس آگیا، اور ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ آپ اس سے پہلے مسجد اقصی نہیں گئے ہیں تو انہوں نے آپ سے مسجد اقصی کی نشانیاں پوچھنی شروع کریں اور جب آپ نے سب نشانیاں بتادیں تو واضح ہوگیا کہ آپ کا دعوی اتنا حصہ تو بہرحال سچا ہے کہ آپ مسجد اقصی جاکر واپس آئے ہیں جبکہ بظاہر یہ یہ بھی بہت مشکل اور مستعد اور محال تھا، تو پھر آپ کے دعوی کے باقی حصہ کا بھی صدق ثابت ہوگیا کیونکہ جب آپ رات کے ایک لمحہ میں مسجد اقصی تک جاکر واپس آسکتے ہیں تو پھر آسمانوں تک جاکر بھی واپس آسکتے ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مسجد اقصی کی نشانیوں کے متعلق سوالات اور آپ کے جوابات دینے کا ذکر اس حدیث میں ہے : حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جب قریش نے مجھے جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہوگیا اللہ نے میرے لیے بیت المقدس منکشف کردیا تو میں بیت المقدس کی طرف دیکھ دیکھ کر ان کو اس کی نشانیاں بتارہا تھا ۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : 4710)(صحیح مسلم، رقم الحدیث : 170)(سنن الترمذی رقم الحدیث : 3133)(مسند احمد، رقم الحدیث : 15099،چشتی)(مسند عبدالرزاق، رقم الحدیث : 9719)(صحیح ابن حبا، رقم الحدیث : 55)

2 ۔ دوسری وجہ ی ہے ہ کہ عالم میثاق میں تمام انبیاء اور مرسلین نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ جب ہمارے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مبعوث ہوں تو تمام انبیاء (علیہم السلام) ان پر ایمان لے آئیں اور ان کی نصرت کریں ، قرآن مجید میں ہے : واذ اخذ اللہ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتب و حکمۃ ثم جائکم رسول مصدق لما معکم لتومنن بہ ولتنصرنہ قالء اقرررتم واخذتم علی ذلکم اصری، قالوا اقررنا، قال فاشھدوا وانا معکم من الشاھدین، فمن تولی بعد ذلک فاولئک ھم الفاسقون ۔ (آل عمران : 81، 82) ، اور ( اے رسول) یاد کیجیے جب اللہ نے تمام نبیوں سے پختہ عہد لیا کہ میں تم کو جو کتاب اور حکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ عظیم رسول آجائیں جو اس چیز کی تصدیق کرنے والے ہوں جو تمہارے پاس ہے تو تم ان چیزوں پر ضرور بہ ضرور ایمان لانا اور ضرور بہ ضرور ان کی مدد کرنا، فرمایا کیا تم نے اقرار کرلیا اور میرے اس بھاری عہد کو قبول کرلیا ؟ انہوں نے کہا، ہم نے اقرار کرلیا، فرمایا پس گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ پھر اس کے بعد جو عہد سے پھرا سو وہی لوگ نافرمان ہیں۔
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
ابو ایوب بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا : اللہ عزوجل نے حضرت آدم کے بعد جس نبی کو بھیجا اس سے (سیدنا) محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے متعلق عہد لیا کہ اگر آپ کو اس نبی کی حیات میں مبعوث کیا گیا تو وہ ضرور آپ پر ایمان لائے اور آپ کی مدد کرے اور اپنی امت سے بھی آپ کی اطاعت کا عہد لے ۔ (تفسیر جامع البیان، رقم الحدیث : 5790،چشتی)(تفسیر الدر المنثور، ج 2، ص 252، 253)(تفسیر فتح القدیر ج 1، ص 587)

سدی بیان کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد جس نبی کو بھی بھیجا اس سے یہ عہد لیا کہ وہ (سیدنا) محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ضرور ایمان لائے اگا اور آپ کی ضرور مدد کرے گا اگر آپ اس کی حیات میں مبعوث ہوئے ورنہ وہ اپنی امت سے یہ عہد لے گا کہ اگر آپ مبعوث ہوئے اور وہ امت زندہ ہوئی تو وہ ضرور آپ پر ایمان لائے گا اور ضرور آپ کی مدد کرے گی ۔ (جامع البیان رقم الحدیث : 5792)(تفسیر امام بن ابی حاتم، رقم الحدیث : 3761)(تفسیر الدر المنثور، ج 2، ص 253)

امام الحسین بن مسعود الفرا البغوی المتوفی 516 ھ لکھتے ہیں : اللہ عزوجل نے یہ ارادہ کیا کہ تمام نبیوں اور ان کی امتوں سے سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے متعلق عہد لے اور صرف انبیاء کے ذکر پر اکتفا کرلیا ، جیسا کہ حضرت ابن عباس اور حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد جس نبی کو بھی بھیجا اس سے سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معاملہ میں عہد لیا اور ان سے ان کی امتوں کے متعلق بھی عہد لیا کہ اگر ان کی زندگی میں آپ کو مبعوث کیا گیا تو وہ ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور آپ کی نصرت کریں گے ، جب حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا گیا ان میں انبیاء (علیہم السلام) بھی چراغوں کی طرح تھے اس وقت اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے متعلق عہد لیا ۔ (تفسیر معالم التنزیل، ج 1 ص 250، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت، 1414 ھ،چشتی)

حافظ عمر بن اسماعیل بن کثیر دمشقی متوفی 774 ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت ابن عباس نے کہا اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی بھیجا اس سے یہ عہد لیا کہ اگر اس کی حیات میں اللہ تعالیٰ نے (سیدنا) محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھیج دیا تو وہ ان کی ضرور اطاعت کرے گا اور ضرور ان کی نصرت کرے گا اور اس کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنی امت سے بھی یہ عہد لے کہ اگر ان کی زندگی میں سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعوث کیا گیا تو وہ سب ان پر ایمان لائیں گے اور ان کی نصرت کریں گے اور طاؤس، حسن بصری اور قتادہ نے کہا کہ اللہ نے نبیوں سے یہ عہد لیا کہ بعض نبی دوسرے بعض نبیوں کی تصدیق کریں گے، اور یہ عہد سابق کے منافی نہیں ہے اسی لیے امام عبدالرازق نے حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم کے قول کو روایت کیا ہے ۔

امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت عمر نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے بنو قریظہ کے ایک یہودی سے کہا ہے تو اس نے میرے لیے تورات کی آیات لکھ کردی ہیں کیا میں وہ آیات آپ کو دکھاؤں ۔ یہ سن کر رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہرہ متغیر ہوگیا ، عبداللہ بن ثابت کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کیا آپ نہیں دیکھتے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہر کس قدر متغیر ہوگیا ہے ، پھر حضرت عمر نے کہا میں اللہ کو رب مان کر راضی ہوں ، اور اسلام کو دین مان کر اور سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رسول مان کر ، پھر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرے سے غصہ کی کیفیت دور ہوگئی ، اور آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے پاس ہوں اور پھر تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرو تو تم گمراہ ہوجاؤ گے ۔ (مسند احمد ج 3، ص 338،چشتی)

امام ابو یعلی اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اہل کتاب سے کسی چیز کا سوال نہ کرو وہ ہرگز تمہیں ہدایت نہیں دیں گے ، وہ خود گمراہ ہوچکے ہیں تم ان سے کوئی بات سن کر یا کسی باطل کی تصدیق کرو گے یا کسی حق بات کی تکذیب کرو گے ، بیشک اللہ عزوجل کی قسم اگر تمہارے دور میں حضرت موسیٰ زندہ ہوتے تو میری پیروی کرنے کے سوا ان کے لیے اور کوئی چیز جائز نہ ہوتی ۔ (مسند ابو یعلی، رقم الحدیث : 2135)

بعض احادیث میں ہے کہ اگر حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ زندہ ہوتے تو میری پیروی کرنے کے سوا ان کے لیے اور کوئی کام جائز نہ ہوتا ، پس قیامت تک کے دائمی رسول سیدنا محمد خاتم الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہ ہیں اور آپ جس زمانہ میں بھی ہوتے تو آپ ہی امام اعظم ہوتے اور آپ ہی واجب الاطاعت ہوتے اور تمام انبیاء پر مقدم ہوتے، اسی وجہ سے جب تمام انبیاء (علیہم السلام) معراج کی شب بیت المقدس میں جمع ہوئے تو آپ ہی تمام نبیوں کے امام ہوئے اور میدان حشر میں بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی اللہ تعالیٰ کے حضور سب کی شفاعت فرمائیں گے اور یہی وہ مقام محمود ہے جو آپ کے سوا اور کسی کے لائق نہیں ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر ج 1، ص 426، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1419 ھ)

اس تفصیل سے معلوم ہو گیا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا شب معراج ، مسجد اقسی سے ہوتے ہوئے آسمانوں پر جانا اس لیے تھا کہ اپنے اپنے زمانوں میں انبیاء سابقین (علیہم السلام) نے آپ پر ایمان لانے اور آپ کی نصرت کرنے کا جو عہد کیا تھا وہ عہد پورا ہوجائے ۔

3 ۔ مسجد اقصی سے ہو کر آسمانوں کی طرف جانے کی تیسری حکمت یہ ہے کہ آپ کا مسجد اقصی جانا اور نبیوں کی امامت فرمانا معراج کی تصدیق کا اور خصوصا بیداری میں اور جسم کے ساتھ معراج کی تصدیق کا ذریعہ بن گیا ۔

حافظ ابن کثیر دمشقی لکھتے ہیں : محمد بن کعب القرظی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت دحیہ بن خلیفہ کو قیصر روم کے پاس بھیجا پھر ان کے وہاں جانے اور قریصر روم کے سوالات کے جوابات دینے کا ذکر کیا، پھر بیان کیا کہ شام کے تاجروں کو بلایا گیا تو ابو سفیان بن صخر بن حرب اور اس کے ساتھیوں کے آنے کا ذکر کیا پھر ہرقل نے ابو سفیان سے سوالات کیے اور ابو سفیان نے جوابا دیئے، جن کا تفصیلی ذکر صحیح بخاری اور مسلم میں ہے ۔ ابو سفیان نے پوری کوشش کی کہ قیصر روم کی نگاہوں میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مرتبہ کم کردے، ان ہی باتوں کے دوران اس کو واقعہ معراج یاد آیا ، اس نے قیصر روم سے کہا اے بادشاہ ! کیا میں تم کو ایسی بات نہ سناؤں جس سے اس شخص کا جھوٹ تم پر واضح ہوجائے ، اس نے پوچھا وہ کیا بات ہے ؟ اس نے کہا وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک رات ہماری زمین ارض حرم سے نکل کر تمہاری اس مسجد، بیت المقدس میں پہنچے اور اسی رات کو صبح سے پہلے ہمارے پاس حرم میں واپس پہنچ گئے، بیت المقدس کا بڑا عابد جو بادشاہ کے سرہانے کھڑا ہوا تھا وہ کہنے لگا مجھے اس رات کا علم ہے ، قیصر نے اس کی طرف مڑ کر دیکھا اور پوچھا تمہیں اس رات کا کیسے علم ہے ؟ اس نے کہا میں ہر رات کو سونے سے پہلے مسجد کے تمام دروازے بند کردیا کرتا تھا، اس رات کو میں نے ایک دروازہ کے علاوہ سارے دروازے بند کردیئے ، وہ دروازہ بند نہیں ہوا ، اس وقت وہاں جتنے کارندے دستیاب تھے سب نے پوری کوشش کی مگر وہ دروازہ بند نہیں ہوا، ہم اس دروازہ کو اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں سکے، یوں لگتا تھا جیسے ہم کسی پہاڑ کے ساتھ زور آزمائی کر رہے ہوں ، ہم نے کہا صبح کو بڑھیوں کو بلا کردکھائیں گے کہ اس میں کیا نقص ہوگیا ہے، اور اس رات کو دروازہ یونہی کھلا چھوڑ دیا، صبح کو ہم نے دیکھا کہ مسجد کے ایک گوشہ میں جو پتھر تھا، اس میں سوارخ تھا اور پتھر میں سواریوں کے باندھنے کے نشانات تھے، میں نے اپنے اصحاب سے کہا گزشتہ رات کو وہ دروازہ اس لیے بند نہیں ہوسکا تھا کہ اس دروازہ سے ایک نبی کو آنا تھا، اور اس رات ہماری اس مسجد میں نبیوں نے نماز پڑھی ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر ج 3، ص 28، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1419 ھ)

اس روایت سے بھی یہ معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجد اقصی سے گزر کر جو آسمانوں کی طرف گئے اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ آپ کا وہاں جانا واقعہ معراج کی تصدیق کا ذریعہ بن جائے ۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جس کے اردگرد ہم نے برکتیں دی ہیں ، تاکہ ہم اس (عبد مکرم) کو اپنی بعض نشانیاں دکھائیں مسجد اقصی کے اردگرد جو برکتیں ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں کہ مسجد اقصی تمام انبیاء سابقین کی عبادت گاہ ہے اور ان کا قبلہ ہے، اس میں بکثرت دریا اور درخت ہیں، اور یہ ان تین مساجد میں سے ہے جن کی طرف قصدا رخت سفر باندھا جاتا ہے، اور یہ ان چار مقامات میں سے ہے جہاں دجال کا داخلہ ممنوع ہے، امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ دجال تمام روئے زمین میں گھومے گا، سوا چار مساجد کے، مسجد مکہ، مسجد مدینہ، مسجد اقصی اور مسجد طور، اور اسمیں ایک نماز پڑھنے کا اجر پچاس ہزار نماوں کے برابر ہے۔ (سنن ابن ماجہ) اور امام ابو داؤد اور امام ابن ماجہ نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی باندی حضرت میمونہ سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا یا نبی اللہ ! ہمیں بیت المقدس کے بارے میں بتائیں، آپ نے فرمایا اس جگہ حشر نشر ہوگا ، اس جگہ آکر نماز پڑھو کیونکہ اس جگہ ایک نماز پڑھنے کا اجر ایک ہزار نمازوں برابر ہے، نیز امام احمد نے نبی صلی الہ علیہ وسلم کی بعض ازواج سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہم میں سے کوئی بیت المقدس حاضر ہونے کی طاقت نہیں رکھتا، آپ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی وہاں حاضر ہوسکے تو وہاں زیتون کا تیل بھیج دے جس سے وہاں چراغ چلایا جائے ، اس مسجد میں چراغ جلانے کا اجر بھی وہاں نماز پڑھنے کے برابر ہے ، اور امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے کہ مسجد اقصی وہ دوسری مسجد ہے جس کو روئے زمین پر بنایا گیا ہے حضرت ابو ذر روایت کرتے ہیں میں نے پوچھا یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ زمین میں سب سے پہلی کون سی مسجد بنائی گئی ؟ آپ نے فرمایا مسجد الحرام، میں نے کہا پھر کون سی ؟ آپ نے فرمایا مسجد الاقصی ، میں نے پوچھا ان کے درمیان کتنی مدت ہے ؟ آپ نے فرمایا چالیس سال ، پھر تمہیں جہاں بھی موقع ملے تم نماز پڑھ لو، حضرت ابراہیم کے کعبہ کو تعمیر کرنے کے بعد حضرت یعقوب نے مسجد اقسی کو تعمیر کیا اور پھر حضرت سلیمان نے اس کی تجدید کی ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا تاکہ ہم ان کو اپنی بعض نشانیاں دکھائیں ، یعنی تاکہ ہم آپ کو آسمانوں کی طرف لے جائیں تاکہ ہم اس میں بہت عجیب و غریب امور دکھائیں ، حدیث صحیح میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیت المقدس کے پتھر سے آسمانوں کی طرف چڑھ کر گئے اور ہر آسمان میں آپ کی ایک نبی سے ملاقات ہوئی اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنت اور دوزخ کے احوال سے مطلع ہوئے اور آپ نے فرشتوں کو دیکھا جن کی تعداد کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بیت المقدس میں انبیاء (علیہم السلام) کو دو رکعت نماز پڑھائی پہلی رکعت میں قل یا ایھا الکافرون اور دوسری میں سورة اخلاص پڑھی ، انبیاء (علیہم السلام) کی سات صفیں تھیں اور تین صفیں مرسلین کی تھیں اور فرشتوں نے بھی ان کے ساتھ نماز پڑھی ، اور یہ آپ کی خصوصیت ہے اور اس میں یہ حکمت تھی کہ ظاہر کیا جائے کہ آپ سب کے امام ہیں، اس میں اختلاف ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) نے اپنی روحوں کے ساتھ نماز پڑھی یا جسموں کے ساتھ، اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ نماز آسمانوں کی طرف جاتے ہوئے پڑھی یا واپسی میں۔ حافظ ابن کثیر نے کہا واپسی میں پڑھی اور قاضی عیاض نے کہا پہلے پڑھی، ایک روایت میں یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہر آسمان میں دو رکعت نماز پڑھی اور وہاں کے فرشتوں کی امامت فرمائی، آپ کا رات کو جانا اور آسمانوں کی طرف عروج رات کے ایک حصہ میں ہوا، وہ ایک حصہ کتنی دیر پر مشتمل تھا اس کی مقدار معلوم نہیں ہے ۔
بعض روایات میں ہے کہ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ واپس آئے تو بستر اسی طرح گرم تھا ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عمامہ کے ٹکرانے سے جو درخت کی شاخیں ہلیں تھیں وہ اسی طرح ہل رہی تھیں ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہلے بیت المقدس لے جایا گیا اور پھر آسمانوں کی طرف عروج کرایا گیا ، تاکہ بتدریج بلند مقامات کی طرف عروف ہو اور عجیب و غریب امور دیکھنے کے لیے آپ مرحلہ وار مانوس ہوں اور آپ کے آنے اور جانے سے محشر کی زمین مشرف ہوجائے ، کعب احبار نے بیان کیا ہے کہ آسمان دنیا سے بیت المقدس کی طرف ایک دروازہ کھلا ہوا ہے اور اس دروازے سے ہر روز ستر ہزار فرشتے نازل ہوتے ہیں اور جو شخص بیت المقدس میں آئے اور نماز پڑھے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں اس لیے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہلے بیت المقدس لے جایا گیا پھر آسمانوں کی طرف عروف کرایا گیا، ایک قول یہ ہے کہ بیت القمدس کا ہر ستون یہ دعا کرتا تھا کہ اے ہمارے رب ہمیں ہر نبی کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے ، اب ہم سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت کے مشتاق ہیں ، ہمیں آپ کی زیارت کا شرف عطا فرما تو پہلے آپ کو بیت المقدس لے جایا گیا تاکہ ان کی دعا قبول ہو پھر آپ کو آسمانوں کی طرف عروج کرایا گیا اور اس ناکارہ کا گمان یہ ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بیت المقدس میں نماز پڑھی تاکہ آپ کی امت کے لیے بیت المقدس میں نماز پڑھنے کا نمونہ قائم ہو اور آپ کی سنت ہوجائے جیز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بیت المقدس میں نماز پڑھنے کا ثواب جو پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہوا ہے اس کی وجہ یہی ہو کہ آپ نے وہاں نماز پڑھی ہے، ورنہ یہ مسجد تو بہت پہلے سے بنی ہوئی تھی ، لیکن اس میں نماز پڑھنے کا اجر وثواب پہلے اتنا نہ تھے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے من تبعیضیہ داخل کر کے اس پر متنبہ کیا ہے کہ آپ کو بعض نشانیاں دکھائی گئی ہیں تمام نشانیاں نہیں دکھائی گئیں کیونکہ تمام نشانیاں تو غیر متناہی ہیں اور جسم متناہی غیر متناہی نشانیوں کو نہیں دیکھ سکتا ۔ (تفسیر روح المعانی ج 15، ص 17، 18، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1417 ھ)۔(مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...