فضائل و مناقب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : صحابی ابنِ صحابی حضرت سیّدُنا امیر معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مل جاتا ہے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ 6 ہجری میں صلحِ حُدیبیہ کے بعد دولتِ ایمان سے مالامال ہوئے مگر اپنا اسلام ظاہر نہ کیا۔ پھر فتحِ مکّہ کے عظمت والے دن والدِ ماجد حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوکر اس کا اظہار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مرحبا فرمایا ۔(طبقاتِ ابن سعد،ج 7،ص285)
حلیہ مبارکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ گورے رنگ اور لمبے قد والے تھے ، چہرہ نہایت وجیہ اور رعب و دبدبے والا تھا ۔ زرد خِضاب استعمال فرمانے کی وجہ سے یوں معلوم ہوتا کہ داڑھی مبارک سونے کی ہے ۔ (تاریخ الاسلام للذھبی جلد 4 صفحہ 308)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاارشاد ہے کہ (اول جیش من أمتي یغزون البحر قد أو جبوا) میری امت کا پہلا لشکر جو سمندر میں جہاد کرے گا، ان (مجاہدین) کےلیے (جنت) واجب ہے ۔ (صحیح البخاری: ۲۹۲۴)
یہ جہاد سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کی خلافت) کے زمانے میں ہوا تھا ۔ (صحیح بخاری: ۶۲۸۲، ۶۲۸۳)
اور اس جہاد میں سیدنا معاویہ ضی اللہ عنہ شامل تھے ۔ (صحیح بخاری: ۲۷۹۹، ۲۸۰۰)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے ۔ میں یہ سمجھا کہ آپ میرے لیے تشریف لائے ہیں لہٰذا میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میری کمر پر تھپکی دے کر فرمایا : (اذھب فادع لي معاویۃ) وکان یکتب الوحي ۔ إلخجاؤاور معاویہ کو بُلا لاؤ، وہ (معاویہ رضی اللہ عنہ) وحی لکھتے تھے ۔ إلخ ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ۲۴۳/۲ و سندہ حسن)
حافظ ابن عساکر علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : خال المؤمنین و کاتب وحي رب العالمین ، أسلم یوم الفتح“ ۔ مومنوں کے ماموں اور رب العالمین کی وحی لکھنے والے ، آپ فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے ۔ (تاریخ دمشق ۳۸/۶۲)
جلیل القدر تابعی عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ المکی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے عشاء کے بعد ایک رکعت وتر پڑھا ، پھر ابن عباس(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا : “أصاب إنہ فقیہ” انہوں نے صحیح کیا ہے ، وہ فقیہ ہیں ۔ (صحیح بخاری: ۳۷۶۵)
صحابی عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معاویہ (رضی اللہ عنہ) کےلیے فرما یا : (اللھم اجعلہ ھادیاً مھدیاً واھد بہ) اے اللہ ! اسے ہادی مہدی بنا دے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے ۔ (سنن الترمذی : ۳۸۴۲ وقال : ھٰذا حدیث حسن غریب” التاریخ الکبیر للبخاری: ۲۴۰/۵ ، طبقات ابن سعد ۴۸۷/۷ ، الآحادو المثانی لابن ابی عاصم ۳۵۸/۲ ح ۱۱۲۹، مسند احمد ۲۱۶/۴ ح ۱۷۸۹۵، وھو حدیث صحیح)
اُم علقمہ سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) مدینہ تشریف لائے تو (سیدہ) عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چادر اور بال مانگا ۔ پھر انہوں نے چادر اوڑھ لی اور بال پانی میں ڈبو کر وہ پانی پیا اور اپنے جسم پر بھی ڈالا ۔ (تاریخ دمشق ۱۰۶/۶۲ و سندہ حسن، مرجانہ و ثقھا العجلی وابن حبان)
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک وفد کے ساتھ معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کے پاس گئے تو انہوں (معاویہ) نے ان (مسور) کی ضرورت پوری کی پھر تخلیے میں بلا کر کہا : تمہارا حکمرانوں پر طعن کرنا کیا ہوا ؟ مسور رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ چھوڑیں اور سلوک کریں جو ہم پہلے بھیج چکے ہیں ۔ معاویہ نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم ! تمہیں اپنے بارے میں بتانا پڑے گا اور تم مجھ پر جو تنقید کرتے ہو ۔ مسور نے کہا : میں نے ان کی تمام قابلِ عیب باتیں (غلطیاں) انہیں بتا دیں ۔ معاویہ نے کہا : کوئی بھی گناہ سے بری نہیں ہے ۔ اے مسور ! کیا تمہیں پتا ہے کہ میں نے عوام کی اصلاح کی کتنی کوشش کی ہے ، ایک نیکی کا اجر دس نیکیوں کے برابر ملے گا ۔ یا تم گناہ ہی گنتے رہتے ہو اور نیکیاں چھوڑ دیتے ہو ؟ مسور نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم ! ہم تو انہی گناہوں کا ذکر کرتے ہیں جو ہم دیکھتےہیں ۔ معاویہ نےکہا : ہم اپنے ہر گناہ کو اللہ کے سامنے تسلیم کرتے ہیں ۔ اے مسور ! کیا تمہارے ایسے گناہ ہیں جن کے بارے میں تمہیں یہ خوف ہے کہ اگر بخشے نہ گئے تو تم ہلاک ہو جاؤ گے ؟ مسور نےکہا : جی ہاں ! ۔ معاویہ نے کہا : کس بات نے تمہیں اپنے بارے میں بخشش کا مستحق بنا دیا ہے اور میرے بارے میں تم یہ امید نہیں رکھتے ؟ اللہ کی قسم ! میں تم سے زیادہ اصلاح کی کوشش کر رہا ہوں لیکن اللہ کی قسم ! دو باتوں میں صرف ایک ہی بات کو اختیار کرتا ہوں ۔ اللہ اور غیر اللہ کے درمیان صرف اللہ کو ہی چنتا ہوں ۔ میں اس دین پر ہوں جس میں اللہ عمل قبول فرماتا ہے ، وہ نیکیوں اور گناہوں کا بدلہ دیتا ہے سوائے اس کے کہ وہ جسے معاف کر دے۔ میں ہر نیکی کے بدلے یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ مجھے کئی گنا اجر عطا فرمائے گا ۔ میں ان عظیم امور کا سامنا کر رہا ہوں جنہیں میں اور تم دونوں گن نہیں سکتے ۔ میں نے اقامتِ صلوٰۃ کا نظام ،جہاد فی سبیل اللہ اور اللہ کے نازل کردہ احکامات کا نظام قائم کر رکھا ہے اور ایسے بھی کام ہیں اگر میں انہیں تمہیں بتادوں تو تم انہیں شمار نہیں کر سکتے ، اس بارے میں فکر کرو ۔ مسور فرماتے ہیں کہ میں جا ن گیا کہ معاویہ مجھ پر اس گفتگو میں غالب ہو گئے ۔ عروہ بن الزبیر فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی نہیں سنا گیا کہ مسور (رضی اللہ عنہ) نے معاویہ (رضی اللہ عنہ) کی کبھی مذمت کی ہو۔ وہ تو ان کے لیے دعائے مغفرت ہی کیا کرتے تھے ۔ (تاریخ بغداد ج ۱ص ۲۰۸، ۲۰۹ ت ۴۹ و سندہ صحیح،چشتی)
امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ نے “قاسم بن محمد قال قال معاویۃ بن أبي سفیان رضی اللہ عنہم” کی سند سے ایک حدیث بیان کی ہے جس میں آیا ہے کہ قاسم بن محمد (بن ابی بکر) نے فرمایا : “فتعجب الناس من صدق معاویۃ“ ۔ پس لوگوں کو معاویہ (رضی اللہ عنہ) کی سچائی پر بڑا تعجب ہوا ۔ (تاریخ دمشق ۱۱۵/۶۲ و سندہ حسن)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ لوگوں کے نزدیک سچے تھے ۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : “ما رأیت رجلاً کان أخلق یعني للملک من معاویۃ” ۔ میں نے معاویہ سے زیادہ حکومت کےلیے مناسب (خلفائے راشدین کے بعد) کوئی نہیں دیکھا ۔ (تاریخ دمشق ۱۲۱/۶۲ و سندہ صحیح،چشتی)(مصنف عبدالرزاق ۴۵۳/۱۱ ح ۲۰۹۸۵)
عرباض بن ساریہ السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اللھم علّم معاویۃ الکتاب و الحساب ، وقہ العذاب ۔ اےمیرے اللہ ! معاویہ کو کتاب و حساب سکھا اور اسے عذاب سے بچا ۔(مسند احمد ۱۲۷/۴ ح ۱۷۱۵۲، و سندہ حسن ، صحیح ابن خزیمہ : ۱۹۳۸)
(حارث بن زیاد و یونس بن سیف صدوقان لا ینزل حدیثہما عن درجۃ الحسن و الجرح فیہما مردود)
امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ نے فرمایا : جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو برا کہتا ہے تو اس کے اسلام پر تہمت لگاؤ ۔ (مناقب احمد لابن الجوزی صفحہ ۱۶۰ و سندہ صحیح، تاریخ دمشق ۱۴۴/۶۲)
امام معافی بن عمران الموصلی علیہ الرحمہ (متوفی ۱۸۵ھ) سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کے ساتھ کسی کو بھی برابر قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ معاویہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی ، ام المؤمنین ام حبیبہؓ کے بھائی ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتب اور اللہ کی وحی (لکھنے) کے امین ہیں ۔ (تاریخ بغداد ۲۰۹/۱ و سندہ صحیح ، الحدیث: ۱۹ ص ۵۷،چشتی)(تاریخ دمشق: ۱۴۳/۶۲)
امام احمد بن حنبل علیہ ارحمہ نے فرمایا :“من تنقص أحداً من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فلا ینطوی إلا علیٰ بلیۃ، ولہ خبیئۃ سوء إذا قصد إلیٰ خیر الناس وھم أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم” ۔ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی ایک کی تنقیص کرے تو وہ اپنے اندر مصیبت چھپائے ہوئے ہے ۔ اس کے دل میں برائی ہے جس کی وجہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ پر حملہ کرتا ہے حالانکہ وہ (انبیاء کرام علیہ السلام کے بعد) لوگوں میں سب سے بہترین تھے ۔ (السنۃ للخلال ۴۷۷/۲ ح ۷۵۸ وقال المحقق: إسنادہ صحیح،چشتی)
ابراہیم بن میسرہ الطائفی علیہ الرحمہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے کسی انسان کو نہیں مارا سوائے ایک انسان کے جس نے معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو گالیاں دی تھیں ، انہوں نے اسے کئی کوڑے مارے ۔ (تاریخ دمشق ۱۴۵/۶۲ و سندہ صحیح،چشتی)
مسند بقی بن مخلد میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک سو تریسٹھ (۱۶۳) حدیثیں موجود ہیں ۔ (سیر اعلام النبلاء ۱۶۲/۳)
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جریر بن عبداللہ البجلی ، السائب بن یزید الکندی ، عبداللہ بن عباس، معاویہ بن حدیج اور ابوسعید الخدری وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعینابو الشعثاء جابر بن زید، حسن بصری، سعید بن المسیب ، سعید المقبری، عطاء بن ابی رباح، محمد بن سیرین، محمد بن علی بن ابی طالب المعروف بابن الحنفیہ، ہمام بن منبہ اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف وغیرہ تابعین رحمہم اللہ نے روایت بیان کی ہے ۔ (تہذیب الکمال ۲۰۲،۲۰۱/۱۸)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اوصاف و کارنامے اور فضائل و مناقب کتبِ احادیث و سِیَر اور تواریخِ اسلام کے روشن اوراق پر نور کی کِرنیں بکھیر رہے ہیں ۔ آپ کو کتابتِ وحی کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خُطوط تحریر کرنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی ۔ (معجم کبیر جلد 5 صفحہ 108 حدیث نمبر 4748)
دعائے مصطفے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کئی بار نبی کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعاؤں سے نوازا کبھی علم و حِلم کی یوں دعا دی : اے اللہ معاویہ کو علم اور حلم (بردباری) سے بھر دے ۔ (تاریخ کبیر جلد 8 صفحہ 68 حدیث نمبر 2624)
کبھی ہدایت کا روشن ستارہ یوں بنایا : یااللہ معاویہ کو ہدایت دینے والا ، ہدایت پر قائم رہنے والا اور لوگوں کےلیے ذریعۂ ہدایت بنا ۔ (ترمذی جلد 5 صفحہ 455 حدیث نمبر 3868)
کبھی نوازشوں کی بارش کو یوں برسایا : اے اللہ! معاویہ کو حساب و کتاب کا عِلم عطا فرما اور اس سے عذاب کو دور فرما ۔ (مسند احمد جلد 6 صفحہ 85 حدیث نمبر 17152)
کبھی خاص مجلس میں ان کی عظمت پر یوں مہر لگائی : معاویہ کو بلاؤ اور یہ معاملہ ان کے سامنے رکھو ، وہ قَوی اور امین ہیں ۔ (مسند بزار جلد 8 صفحہ 433 حدیث نمبر 3507)
کبھی سفر میں خدمت کا شرف بخشا اور وضو کرتے ہوئے نصیحت فرمائی : معاویہ اگر تم کو حکمران بنایا جائے تو اللہ پاک سے ڈرنا اور عدل و انصاف کا دامن تھام کر رکھنا ۔ (مسند احمد جلد 6 صفحہ 32 حدیث: 16931)
اوصافِ مبارکہ حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اخلاص اور عہد و وفا، علم و فضل اور فقہ و اجتہاد، حسن ِسلوک، سخاوت، تقریر و خطابت، مہمان نوازی، تحمل و بُردباری، غریب پروری، خدمتِ خَلق، اطاعتِ الٰہی، اتّباعِ سنّت، تقویٰ اور پرہیز گاری جیسے عمدہ اوصاف سے مُتَّصِف تھے۔ بُردباری ایک مرتبہ ایک آدمی نے آپ رضیَ اللہُ عنہسے سخت کلامی کی مگر آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، یہ دیکھ کر کسی نے کہا: اگر آپ چاہیں تو اسے عبرت ناک سزا دے سکتے ہیں، فرمایا:مجھے اس بات سے حیا آتی ہے کہ میری رِعایا میں سے کسی کی غلطی کی وجہ سے میرا حِلم (یعنی قوت برداشت) کم ہو ۔ (حلم معاویہ لابن ابی الدنیا، صفحہ 22)
اصلاحِ نفس کا جذبہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے کام کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کا جذبہ بھی رکھتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صِدّیقہ رضیَ اللہُ عنہا کو مکتوب روانہ کیا کہ مجھے وہ باتیں لکھ دیں جن میں میرے لیے نصیحت ہو ۔ (ترمذی،ج4،ص186، حدیث: 2422)
حضرت امیرُ المؤمنین حضرت مولا علیُّ رضی اللہ عنہ نے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا : معاویہ کی حکومت کو ناپسند نہ کرو کہ اگر وہ تم میں نہ رہے تو تم سَروں کو کندھوں سے ایسے ڈھلکتے ہوئے دیکھو گے جیسےاندرائن (پھل) ۔ (یعنی تم اپنے دشمن کے سامنے نہیں ٹھہر سکو گے)۔(مصنف ابن ابی شیبہ،ج 8،ص724، رقم: 18)
شیرِ خدا سے مَحبّت حضرت سیّدُنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر سُن کر آپ نے حضرت ضرار رضی اللہ عنہ سے فرمایا : میرے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ الْکریم کے اوصاف بیان کریں ۔ جب حضرت ضرار رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اوصاف بیان کیے تو آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بھر آئیں اور داڑھی مبارک آنسوؤں سے تَر ہو گئی ، حاضرین بھی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور رونے لگے ۔ (حلیۃ الاولیاء جلد 1 صفحہ 126)
اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی خدمت حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کو بیش قیمت نذرانے پیش کرنے کے باوجود آپ ان سے مَعْذِرَت کرتے اور کہتے : فی الحال آپ کی صحیح خدمت نہیں کرسکا آئندہ مزید نذرانہ پیش کروں گا ۔ (کشف المحجوب صفحہ 77)
کعبہ میں نماز جب آپ رضی اللہ عنہ مکۂ مُکرّمہ میں داخل ہوئے تو حضرت عبدُاللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلَّم نے کعبہ میں کس جگہ نماز پڑھی تھی ؟ انہوں نے کہا : دیوار سے دو یا تین ہاتھ کا فاصلہ رکھ کر نماز پڑھ لیجیے ۔ (اخبارِ مکۃ للازرقی جلد 1 صفحہ 378،چشتی)
موئے مبارک کا دھووَن پیا ایک بار آپ رضی اللہ عنہ مدینۂ مُنوّرہ تشریف لائے تو حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمتِ عالیہ میں آدمی بھیجا کہ آپ کے پاس نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رِدا (یعنی چادر) مُقدّسہ اور موئے مبارک ہیں ، میں ان کی زیارت کرناچاہتا ہوں ، حضرت عائشہ صِدّیقہ رضیَ اللہُ عنہا نے وہ دونوں مُتبرّک چیزیں بھجوادیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حصولِ بَرَکت کےلیے چادر مبارک کو اوڑھ لیا پھر ایک برتن میں موئے مبارک کو غسل دیا اور اس غَسالَہ کو پینے کے بعد باقی پانی اپنے جسم پر مَل لیا ۔ (تاریخ ابنِ عساکر،ج 59،ص153)
وصالِ مبارک آپ رضی اللہ عنہ کے پاس نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تَبرّکات میں سے اِزار (تہبند) شریف ، ردائے اقدس ، قمیصِ اطہر ، موئے مبارک اور ناخنِ بابرکت کے مقدّس تراشے تھے ، تَبرّکات سے برکات حاصل کرنے اور اہلِ بیت و صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کی خدمت کا سلسلہ جاری و ساری تھا کہ وقت نے سفرِِ زندگی کے اختتام پذیر ہونے کا اعلان کردیا چنانچہ بَوقتِ انتقال وصیّت کی کہ مجھے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اِزار شریف و ردائے اقدس و قمیصِ اطہر میں کفن دینا ، ناک اور منہ پر موئے مبارک اور ناخنِ بابرکت کے تراشے رکھ دینا اور پھر مجھے اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن کے رحم پر چھوڑ دینا ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 59،ص229تا231)
کاتبِ وحی ، جلیلُ القدر صحابیِ رسول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے 22رجب المرجب 60ھ میں 78سال کی عمر میں داعیِ اَجل کو لبیک کہا ۔ (معجم کبیر جلد 19 صفحہ 305 رقم: 679)(استیعاب جلد 3 صفحہ472)
حضرت ضَحّاک بن قَیس رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھانے کا شرف حاصل کیا جبکہ دِمَشْق کے بابُ الصغیر کو آخری آرام گاہ ہونے کا اعزاز بخشا گیا ۔ (الثقات لابن حبان،ج1،ص436)
بدگوئی سے توبہ شمسُ الائمہ امام سَرْخَسی رحمۃُ اللہِ علیہ (سالِ وفات:483ھ) نے مبسوط میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ پہلے پہل امامِ جلیل محمد بن فضل الکماری رحمۃُ اللہِ علیہ (سالِ وفات : 381ھ) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف بدگوئی اور عیب جوئی میں مبتلا ہوگئے تھے پھر ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ ان کے منہ سے لمبے لمبے بال نکل کر پاؤں تک لٹک گئے ہیں اور وہ ان بالوں کو اپنے پاؤں میں روندتے چلے جارہے ہیں جبکہ زبان سے خون جاری ہے جس سے ان کو سخت تکلیف اور اذیت ہورہی ہے، بیدار ہونے کے بعد انہوں نے تعبیر بتانے والے سے اس کی تعبیر پوچھی تو اس نے کہا : آپ کِبار صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی صحابی کی بدگوئی اور ان پر طعن کرتے ہیں ، اس فعل سے بچئے اور اجتناب کیجئے۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ اس سے فوراً تائب ہو گئے ۔ (المبسوط،جز:24 جلد 12 صفحہ 57،چشتی)
اہل سنت و جماعت کے نزدیک تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عادل (روایت میں سچے) ہیں ۔ (اختصار علوم الحدیث لابن کثیر ۴۹۸/۲)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان جو اجتہادی اختلافات اور جنگیں ہوئی ہیں ، ان میں وہ معذور و ماجور ہیں اور ہمیں اس بارے میں مکمل سکوت کرنا چاہیے ۔ یا اللہ ہمار ے دلوں کو تمام صحابہ و اہلبییت رضی اللہ عنہم کی محبت سے بھر دے اور ان کی توہین و تنقیص سے بچا ۔ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment