Thursday, 3 February 2022

رجب کے کونڈے ایصالِ ثواب ہیں حصّہ چہارم

 رجب کے کونڈے ایصالِ ثواب ہیں حصّہ چہارم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : جائز اعمال کو بدعت کہنا دیابنہ اور وہابیہ کی بدعتِ عظیم ہے اور اسی طرح ان کے اعمال سیاہ ہوتے ہیں ، وَطَبَعَ اللّٰهُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ۔


سُنّی : کیا سورۃ الفاتحہ, پڑھنا ناجائز ہے ؟

دیوبندی وہابی : نہیں تو ، سورۃ الفاتحہ کبھی بھی پڑھو جائز ہے ۔


سُنّی : کیا دوسری سورتیں پڑھنا جائز ہے ؟

دیوبندی وہابی : جی بالکل جائز ہے ۔


سُنّی : کیا میں سورتیں پڑھ کر اس کا ثواب ایصال کر سکتا ہوں ؟

دیوبندی وہابی : جی بالکل ایصال ثواب حق ہے ۔


سُنّی : کیا کھانا تقسیم کرنا جائز ہے ؟

دیوبندی وہابی : جی بالکل جائز ہے ۔


سُنّی : کیا کھانے کے سامنے تلاوت کرتے ہیں تو کھانے میں برکت ہوتی ہے ؟

دیوبندی وہابی : ہاں برکت ہوتی ہے ، صرف بسم الله پڑھنے سے بھی برکت ہوتی ہے ۔


سُنّی : اگر میں کھانے کے سامنے اس میں برکت کےلیے تلاوت کروں اور اسے تقسیم کر دوں تو ؟

دیوبندی وہابی : اچھا کام ہے ثواب ملے گا ۔


سُنّی : اور نیاز کرنا کسے کہتے ہیں اسی طرح تو نیاز کی جاتی ہے ۔


دیوبندی وہابی : لیکن تم لوگ دن متعین کرکے دین میں اضافہ کرتے ہو ؟

سنی : ارے جاہل دن متعین کرنے کو دین کون سمجھتا ہے ؟ نہ ہم اسے فرض سمجھتے ہیں نا واجب دین میں اضافے کی بات کہاں سے آگئی ؟


دیوبندی وہابی : لیکن یہ الله کے رسول اور صحابہ نے کب کیا ؟

سنی : منع کب کیا ہے ؟

یہ نجدی اصول جو ایجاد کیا گیا ہے کہ جو امر قرآن و حدیث میں نہیں وہ حرام ، ناجائز وغیرہ وغیرہ یہ کوئی شرعی اصول نہیں ۔ کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ، اس مضمون میں ان کے اسی اصول کا جنازہ نکالا گیا ہے ۔ اصح اصول یہ ہے کہ جو شخص جس فعل کو ناجائز وحرام یا مکروہ کہے اس پر واجب کہ اپنے دعوے پر دلیل قائم کرے اور جائز و مباح کہنے والوں کو ہرگز دلیل کی حاجت نہیں کہ ممانعت پر کوئی دلیل شرعی نہ ہونا یہی جواز کی دلیل کافی ہے ۔


قد فصلا لکم ما حرم علیکم ۔ (قرآن 119/6)

ترجمہ : وہ (الله) تم سے مفصل بیان کرچکا جو کچھ تم پر حرام ہوا ۔


اب جب الله نے تمام حرام چیزوں کو واضح پہلے ہی کر دیا تو یہ نجدی چینخ چینخ کر میلاد کو کس دلیل سے حرام کہتے ہیں؟

حدیث شریف میں ہے


الحلال مااحل الله فی کتابہ والحرام ماحرّم ﷲ فی کتابه وماسکت عنه فھو مما عفاعنه

الله تعالی نے جواپنی کتاب میں حلال کردیا وہ حلال ہے اور جوحرام فرمادیا وہ حرام ہے اور جس سے سکوت اختیار کیا وہ معاف ہے ۔ (جامع الترمذی ابواب اللباس باب ماجاء فی لبس ۱/ ۲۰۶)


جس چیز پر کتاب میں خاموشی اختیار کی گئی وہ معاف ہے ، دیوبندیوں اور وہابیوں سے سوال ہے کہ میلاد ، ایصالِ ثواب کا حرام ہونا قرآن و حدیث سے ثابت کر دیں ورنہ چور بن کر کوتوال کو نہ ڈانٹیں ۔


من سن سنة حسنة فله اجرھا واجر من عمل بھا ۔

ترجمہ : جس نے اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اپنے ایجاد کرنے کا ثواب بھی ملے گا اور جو اس طریقے پرعمل کریں گے ان کا اجر بھی اسے ملے گا ۔ (صحیح مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنة حسنة ۲/ ۳۴۱،چشتی)


روی ابن مسعود رضی الله تعالی عنہ مرفوعاً وموقوفاً ماراٰہ المسلمون حسنًا فھو عند الله حسن ۔

ترجمہ : حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی الله تعالى عنه نے نبی صلی الله تعالی عليه وآله وسلم کے ارشاد اورخود ان کے قول سے مروی ہوئی کہ : اہل اسلام جس چیز کو نیک جانیں وہ خدا کے نزدیک بھی نیک ہے ۔ (المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ ۳/ ۷۸)


امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : الفعل یدل علی الجواز و عدم الفعل لایدل علی المنع ۔

ترجمہ : فعل تو جواز کے لئے دلیل ہوتا ہے اور نہ کرنے سے منع نہیں سمجھا جاتا ۔ (فتح الباری جلد 10 صفحہ 155،چشتی)


ولیس الاحتیاط فی الافتراء علی الله تعالی باثبات الحرمة والکراھة الذین لابدلھما من دلیل بل فی الاباحة التی ھی الاصل ۔

ترجمہ : حرام اور مکروہ قرار دینے میں الله تعالی پر افتراء باندھنے میں احتیاط نہیں ہے ان دونوں حکموں کےلیے دلیل چاہیے بلکہ احتیاط اباحت میں ہے جو اصل حکم ہے ۔ (الصلح بین الاخوان)


علامہ علی مکی رسالہ اقتدا بالمخالف میں فرماتے ہیں : من المعلوم ان الاصل فی کل مسئلة ھو الصحۃ واما القول بالفساد والکراہة فیحتاج الی حجة ۔

ترجمہ : مسلمہ بات ہے کہ ہر مسئلہ میں اصل صرف اباحت ہے فساد اور کراہت کے حکم کے لیے دلیل کی ضرورت ہے ۔ (الاقتداء بالمخالف)


کل ما عدم فیہ المدرک الشرعی للحرج فی فعلہ وترکہ فذلک مدرک شرعی لحکم الشارع بالتخییر ۔

ترجمہ : کسی کام کے کرنے میں اور نہ کرنے میں حرج کے مسئلہ میں کوئی شرعی دلیل نہ ہو تو یہ خود شرعی دلیل ہے کہ شرعا اختیار ہے ۔ (مسلم الثبوت المقالة الثانیه الباب الثانی ص۲۴،چشتی)


امام ابن ہمام عیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ثم الثابت بعد ھذا نفی المندوبیة اما ثبوت الکراھة فلا الا ان يدل دليل آخر ۔ (فتح القدیر 466/1)

ترجمہ : (نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے) نہ کرنے سے اس قدر ثابت ہوا کہ مندوب نہیں ، رہا کراہت کا ثبوت تو جب تک دلیل نہ دی متحقق نہیں ہوتا ۔


لایلزم منہ ان یکون مکروھا الابنھی خاص لان الکراھة حکم شرعی فلابدله من دلیل ۔

ترجمہ : اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ مکروہ ہوگا مگر کسی نہی خاص کے ساتھ کیونکہ کراہت حکم شرعی ہے اس کے لئے دلیل کا ہونا ضروری ہے ۔ (ردالمحتار مطلب بیان السنۃ والمستحب الخ، ۱/۴۸۳)


امام ملا علی قاری علیہ الرحمہ رسالہ اقتداء بالمخالف میں فرماتے ہیں : من المعلوم ان الاصل فی کل مسئلة ھوالصحة واما القول بالفساد اوالکراھة فیحتاج الٰی حجة من الکتاب والسّنّة او اجماع الامة ۔

ترجمہ : یقینی بات ہے کہ اصل ہر مسئلہ میں صحت ہے اور فساد یا کراہت ماننا یہ محتاج اس کا ہے کہ قرآن یا حدیث یا اجماع امت سے اس پر دلیل قائم کی جائے ۔ (رسالہ الاقتداء بالمخالف )


وایں دلیل ست برآنکہ اصل در اشیاء اباحت است ۔

ترجمہ : یہ دلیل ہے اس بات پر ہےکہ اشیاء میں اصل اباحت (جائز ہونا) اباحت ہے ۔ (اشعۃ اللمعات تحت حدیث ۴۲۲۸ ۳/ ۵۰۶)


لایلزم من ترک المستحب ثبوت الکراھۃ اذلابدلھا من دلیل خاص ۔

ترجمہ : ترکِ مستحب سے کراہت کا ثبوت نہیں ہوتا کیونکہ اس کےلیے خاص دلیل کی ضرورت ہے ۔ (البحر الرائق باب العیدین ۲/۱۶۳،چشتی)


شاہ عبد العزیز دہلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : نہ کردن چیزے دیگر است و منع فرمودن چیزے دیگر ۔

ترجمہ : نہ کرنا اور چیز ہے اور منع کرنا اور چیز ۔ (تحفہ اثنا عشریہ، باب دہم درمطا عن الخ، ص۲۶۹)


پھر کیسی جہالت ہے کہ نہ کرنے کو منع کرنا ٹھہرا رکھاہے ۔


او مدہوش بے عقل ، اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جائز نہ کہنا اور بات ہے اور ناجائز کہنا اور بات ، یہ بتاؤ کہ تم جو ناجائز کہتے ہو خدا اور رسول نے ناجائز کہاں کہا ہے ۔ (فتاوی نذیریہ نذیر حسین دہلوی شیخ الکل غیرمقلدین)


الأصل في الأشياء الإباحة ۔ اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے دینی و دنیوی لحاظ سے زندگی کا کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق اسلام نے رہنمائی نہ کی ہو اشیاء کی تحلیل و تحریم (حلال و حرام قرار دینا) کے حوالے سے اسلام نے جو اصول تشریع مقرر کیے ہیں ان میں پہلا اصول یہ مقرر کیا ہے کہ اللہ تعالی کی پیدا کردہ تمام چیزیں مباح ہیں۔ حرام اور واجب صرف وہ چیزیں ہیں جن کی حرمت یا وجوب کے بارے میں صحیح اور صریح نص وارد ہو چکی ہو، اگر کسی شئے کی حرمت و وجوب کے حوالے سے صحیح اور صریح نص نہ پائی جاتی ہو تو وہ چیز مباح تصور کی جائے گی۔ یہ اصول صرف اسلام کے نظام قانون کا ہی اصول نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام نظام قانون کا ایک بنیادی اصول ہے کہ اشیاء و افعال اپنی اصل کے اعتبار سے مباح اور جائز ہیں، پھر ان اشیاء میں سے جو لازمی طورپر مطلوب یا ممنوع ہوتی ہیںخود ان کویا ان کی علت کو نصوص میں بیان کر دیا جاتا ہے ان کے علاوہ باقی اشیاء کو مباح کے طورپر مطلق چھوڑدیا جاتا ہے ۔ایسی مباح اشیاء کے کرنے یا نہ کرنے بارے میں لوگوں کو آزادی اوراختیار ہوتا ہے،اور ان کے کرنے یا نہ کرنے پر قانونی لحاظ سے کوئی مواخذہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ قوانین کی تشکیل میںکہیں بھی مباح امور کا احاطہ نہیں کیا جاتا بلکہ صرف لازمی وحرام امور کا احاطہ کیاجاتا ہے ۔


اسلام آسان دین ہے، قدم قدم پربنی نوع انسان کو آسانیاں اور سہولتیں عطا کرتا ہے اس کے قانون سازی کے اصولوں میں قلت تکلیف ایک بنیادی اصول ہے یہی وجہ ہے اس میں محرمات و واجبات کا دائرہ مباح اور جائز امور کے مقابلے میں تنگ اور محدود ہے، کیونکہ محرمات اور واجبات وہ امور ہوتے ہیں جن کا انسان لازمی طور پر پابند ہوتا ہے ۔فطری طور پر انسان چونکہ آزاد منش پیدا ہوا ہے ،زیادہ پابندیوں سے کتراتا ہے اور آسانیوں کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے، اس لیے اسلام نے واجبات و ممنوعات کے احکام کا غیر ضروری بوجھ انسان پر نہیں ڈالا بلکہ چند محدود اشیاء و امور جن کا کرنا یا نہ کرنا انسان کی دینی و دنیوی فلاح کے لئے نہایت ضروری تھا کا پابند ٹھہرایا اور باقی اشیاء کو انسانی اختیار پر چھوڑتے ہوئے مباح قرار دے دیا ہے ۔ یعنی اسلام کے مطابق زمین و آسمان کی تمام اشیاء بنی نوع انسان کے انتفاع کے لئے تخلیق کی گئی ہیں جس کا تقاضہ ہے کہ زمین و آسمان کی تمام اشیاء مباح الاصل ہوں سوائے ان اشیاء کے جن کے کرنے یا نہ کرنے کا انسان کو پابند ٹھہرایا گیا ہے۔ اس تصور کو نظریہ اباحت اصلیہ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔


جامع ترمذی کتاب الباس : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ هَارُونَ الْبُرْجُمِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّمْنِ وَالْجُبْنِ وَالْفِرَاءِ، فَقَالَ: " الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ الْمُغِيرَةِ، وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَرَوَى سُفْيَانُ، وَغَيْرُهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ قَوْلَهُ، وَكَأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ الْمَوْقُوفَ أَصَحُّ، وَسَأَلْتُ الْبُخَارِيَّ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: مَا أُرَاهُ مَحْفُوظًا رَوَى سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، مَوْقُوفًا، قَالَ الْبُخَارِيُّ: وَسَيْفُ بْنُ هَارُونَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، وَسَيْفُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَاصِمٍ ذَاهِبُ الْحَدِيثِ۔

ترجمہ : سلمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی، پنیر اور پوستین (چمڑے کا لباس) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا، اور حرام وہ ہے، جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کر دیا اور جس چیز کے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کر دیا ہے ۔


 یعنی اس کا استعمال جائز اور مباح ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے یہ اصول اپنایا کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے حلال و مباح ہیں، اس کی تائید اس آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے ۔ هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی حرمت سے متعلق کوئی دلیل نہ ہو، کیونکہ حرمت کی دلیل آ جانے کے بعد وہ حرام ہو جائیں گی ۔ حدیث پاک میں وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ شارع نے جن کا ذکر نہیں کیا وہ مباح اور جائز ہیں لہٰذا محض ترک ذکر سے کسی چیز پر حرمت کا فتوٰی نہیں لگایا جاسکتا ۔


مباح بدعت کی قبولیت اور قرآن


ہماری اس بات کی تائید خود قرآن پاک کی اس آیت سےہوتی ہے ارشاد باری ہے : ثم قفینا علی اثارھم برسلنا وقفینا بعیسی بن مریم واتینہ الانجیل وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھبانیۃ ن ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم الابتغا رضوان اللہ فما رعوھا حق رعیا یتھا فاتینا الذین اٰمنو منھم اجرھم وکثیر منھم فاسقون ۔ (سورہ الحدید)

ترجمہ : پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجے اور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے ان کےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انہوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاں مگر انہوں نے یہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اس کے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھے ہم نےانہیں ان کا اجر عطا کیا مگر ان میں سے اکثر نافرمان تھے ۔


اس آیت کے الفاظ اور معنٰی پر غور کرنے سے ہماری بات کی تائید ہوتی ہے کہ کوئی ایسا کام کہ جس کے کرنےکا نہ تو اللہ پاک نے حکم دیا ہو اور نہ اس کے رسول نے اور لوگ محض حصول ِرضائے الہٰی کےلیے اس عمل کو اختیار کرلیں تو انہیں اس عمل پر ثواب بھی ملتا ہے دیکھیے آیت کے الفاظ میں ابتدعوھا بدعت سے مشتق ہی ۔ یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ : شریعت عیسوی میں اصلاً رہبانیت مشروع نہ تھی بلکہ امت عیسوی نے خود بطور بدعت اس کو اختیار کر لیا تھا ۔ دیکھیے ماکتبنٰھا کے الفاظ کیسے واشگاف انداز میں یہ اعلان کر رہےہیں کہ اس بدعت یعنی رہبانیت کا کوئی حکم اللہ پاک نہیں دیا تھا اور نہ ہی اس کے رسول نے کوئی ایسا کام کرنے کا کہا تھا ۔ اس لیے اللہ پاک نے امت عیسوی سے رہبانیت کی فرضیت کی نفی تو اس آیت میں کی ہے لیکن اس کی مشروعیت کی نفی نہیں کی یعنی اس کو حرام و ناجائز نہیں ٹھرایا ۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اس کے رسول نے نہیں دیا تھا ہاں مگر امت عیسوی نے اسے بطور خود رضائے الہٰی کےحصول کی خاطر اپنا لیا تھا ۔ جس پر اللہ پاک نےاُن کے اس عمل کو سند قبولیت سے نوازا اور یوں رہبانیت مشروع ہو کر شریعت عیسوی کا حصہ بنی ۔ ہماری اس بات کی تائید ایک حدیث مبارکہ پر غور کرنے سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں نبی کریم نے فرمایا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ۔ یہ اس لیے فرمایا کہ پہلی شریعت میں رہبانیت تھی اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر پہلی شریعت میں رہبانیت تھی تو کہاں سے آئی کیا اللہ پاک نےحکم دیا تھا مگر اللہ پاک تو فرما رہا ہے کہ ماکتبنھا علیھم یعنی کہ ہم نے ان پر فرض نہ کی ۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہےکہ ہر وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کے رسول نے کسی ایسے عمل سے روکا بھی نہ ہو اسے اگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کر لیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہے بلکہ اس پر اجر و ثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے ۔


جیسا کہ رھبانیت امت عیسوی میں ۔ اگر آپ الابتغاءرضوان اللہ کے الفاظ پر غور کریں تو یہی بات سمجھ میں آئے گی کہ عیٰسی علیہ السلام کےپیرو کاروں نے وہ عمل یعنی رھبانیت حصول رضائےالہٰی کےلیے ہی ایجاد کی تھی اسی لیے اللہ پاک نےاس امر کو مستحسن قرار دے کر کر قبول کر لیا پس ثابت ہوا کہ کوئی عمل فی نفسہ اگر بدعت بھی ہو تو وہ تب بھی رضائے الٰہی کےحصول کا زریعہ بن سکتا ہے ۔ اب اگر آپ اسی آیت کے اگلےالفاظ پر غور کریں جوکہ یہ ہیں کہ ۔ فما رعوھا حق رعایتھا یعنی انہوں نےاس عمل یعنی رھبانیت کا اس طرح حق ادا نہیں کیا جیسا کے اس کا تقاضہ تھا ۔


تو آپ کو یہ بات بھی بڑی واضح طور پر سمجھ میں آجائے گی کہ اگر امت کسی مستحسن عمل کو اپنا لیتی ہے مگر پھر اس کو ادا کرنے کوتاہی سے کام لیتی ہے تو پھر اللہ پاک ناراض بھی ہوتے ہیں اس اس آیت کے ان الفاظ نے رھبانیت کی بدعت کی فی نفسہ مذمت نہیں کی بلکہ اس بدعت کو ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنے کی مذمت کی ۔ اس سے آگے کے الفاظ واشگاف اعلان کر رہے ہیں کہ جن لوگوں نے اس یعنی بدعت رھبانیت کے تقاضے کو پورا کیا اللہ پاک نے نہ صرف انہیں شرف قبولیت بخشا بلکہ اجر بھی عطا فرمایا دیکھیے ۔ فاتینا الذین امنو منھم اجرھم میں منھم کےالفاظ بتا رہے ہیں کہ انہیں میں سےجن لوگوں نے اس بدعت رھبانیت کے جملہ تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک نبھایا اللہ پاک نے انہیں اجر بھی عطا کیا ۔


مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں تصور بدعت کےمتعلق دو امور بڑے نمایاں ہوکر سامنے آتےہیں ۔ ایک یہ کہ اگر رضائے الہٰی کی خاطر کوئی نیا کام جسے عرف عام میں بدعت کہا جائے اور جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہے بلکہ امر مستحسن کے طور پر اس پر اجر و ثواب کا بھی عندیہ دیتا ہے اور ایسے امور شریعت میں مشروع ہوتے ہیں اور انہیں مطلقاً ناجائز اور حرام و بدعت سیہ قرار دینا زیادتی کے مترادف ہے ۔ دوسری بات جو اس آیت کی روشنی میں ہمیں سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ جس مقصد کےلیے وہ بدعت حسنہ وضع کی گئی ہو اس سے وہ مقصد بجا طور پر پورا ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ بدعت حسنہ کا سہارا لے کر کسی کام کو روا تو رکھ لیا جائے مگر اسکی اصل روح مقصدیت اور افادیت کو نظر انداز کردیا جائےاور اسے محض رسمیت کے طور پر روا رکھا جائے جیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائے گا ۔


ان دونوں آیات سے ہمارے بیان کردہ قرآنی اصول کی بڑی وضاحت کے ساتھ تصریح ہوتی ہے کہ جس چیز کو قرآن نےحرام کیا اس کی فہرست یعنی تفصیل کر دی اور اس کے سوا چونکہ باقی چیزوں کی فہرست نہیں اس لیے وہ سب مباح یعنی جائز قرار پائیں گی ، پس ثابت ہوا کہ ترکِ ذکر حرمت کی نہیں بلکہ اباحت کی دلیل ہے ۔ اور اسی اصول کی وجہ سے کسی بھی چیز کو حرام ٹھرانے والے کےلیے ضروری ہے کہ وہ اس کی دلیل لائے اور اسی لیے فقہا نے لکھا کہ دلیل ہمیشہ حرمت کی طلب کی جائےگی کیونکہ اصل تمام اشیاء میں اباحت ہے ۔


نظریہ اباحت اصلیہ کو اصول فقہ اور قواعدفقہ کی کتابوں میں درج ذیل الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے : الأصل في الأشياء الإباحة ۔ ترجمہ : اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے ۔ (ابن عبد البر التمهيد 4: 67، 143 مغرب مراکش وزات عموم الاوقاف والشوون الإسلامية)(سيوطي الأشباه و النظائر صفحہ 60 بيروت لبنان دار الکتب العلمية)(ابن عابدين شامی رد المحتار جلد 1 صفحہ 105 بيروت دار الفکر)


ان الاصل في الاشياء الإباحة وان الحرمة بالنهي عنها شرعا ۔

ترجمۃ : اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے اور حرمت (ممانعت) صرف شرعی دلیل سے ہوگی ۔ (سرخسی المبسوط، 24: 77 بيروت دار المعرفة،چشتی)


الأشياء علی الإباحة حتی يرد الشرع بالمنع ۔

ترجمہ : چیزیں اس وقت تک جائز ہیں جب تک شرعی ممانعت نہ ہو ۔

(ابن عبدالبر، التمهيد، 17: 95)(عسقلاني، فتح الباري، 13: 263، لاهور، پاکستان،دار نشر الکتب الاسلامية،چشتی)(ابن حزم المحلی 1: 177، بيروت، لبنان: دار الآفاق الجديده)


الأصل في الأشياء الحل ۔ ’’اشیاء میں اصل جواز ہے ۔‘‘ (زرکشی، المنثور فی القواعد، 1: 306، کويت: وزارة الاوقاف والشون الاسلاميه)(مبارک پوری غیرمقلد ، تحفة الاحوذی في شرح جامع الترمذي، 4: 331، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية)


الأصل في الأعيان الحل . ’’اشیاء میں اصل جواز ہے ۔‘‘ (زرکشي، البحر المحيط في اصول الفقه، 4: 325، بيروت لبنان دار الکتب العلمية)


الحل هو الأصل في الأشياء ۔ ’’اشیاء میں جواز ہی اصل ہے ۔‘‘ (ابن همام، شرح فتح القدير، 7: 3، بيروت، لبنان: دار الفکر)(ابن عابدين، ردالمحتار، 4: 167)


 أصل الأفعال الإباحة ۔ ’’اصلی اصول ہر کام میں جواز ہے ۔‘‘ (إبن قيم امام الویابیہ ، اعلام الموقعين عن رب العالمين، 2: 387، بيروت، لبنان: دار الجيل)


الأمور أصلها الإباحة حتی يثبت الحظر ۔ ’’جب تک ممانعت شرعی ثابت نہ ہو، تمام امور میں جواز ہی اصل ہے ۔‘‘ (ابن عبدالبر، التمهيد، 9: 205)


الأصل في المنافع الإذن و في المضار المنع ۔ ’’مفید چیزوں میں اصل اجازت ہے اور نقصان دہ چیزوں میں اصل ممانعت ہے ۔ (رازي، المحصول في علم الأصول، 6: 131، رياض، سعودی عرب: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية)


نظریہ اباحت کی مذکورہ بالا تمام تعبیرات کے الفاظ اور ان کی ترتیب میں اگرچہ تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے ، مگر سب کا مقصود ایک ہی ہے کہ جب تک کسی شے کی حرمت کسی دلیل شرعی سے ثابت نہ ہو تو وہ حلال متصور ہوگی ۔ اگر ہم روز مرہ زندگی میں بھی دیکھیں تو یہی قاعدہ قابل عمل ہے ورنہ تو انسان کےلیے زندگی کا ہر ہر قدم مشکل بن کر رہ جائے ۔ مثلاً ہم گھر سے نکلیں تو گلیوں ، بازاروں اور سڑکوں پر یہ لکھا ہوا تلاش کرنا شروع کر دیں کہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ ہم یہاں سے گزر سکتے ہیں یا نہیں ؟ ایسا ممکن ہی نہیں ہے  ۔ ہاں کہیں کہیں یہ لکھا ہوا ضرور مل جائے گا کہ یہ راستہ فلاں مقام کی طرف جا رہا ہے یا پھریہ الفاظ اور علامات ملیں گی کہ یہ شارع عام نہیں ہے ، No entry ، یہاں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند ہے ، بغیر اجازت اندر آنا منع ہے وغیرہ وغیرہ یا پھر گیٹ یا کسی بھی رکاوٹ سے راستہ بند کر دیا جاتا ہے ۔ یعنی ہر اس راستے سے گزرنے کی اجازت ہوتی ہے جہاں ممانعت کا کوئی نشان نہ پایا جائے ۔ لہٰذا شریعت میں بھی کسی کام کے نہ کرنے کےلیے ممانعت کی دلیل ہونا ضروری ہے ۔


شریعت اسلام اور تصور حلال و حرام 


کسی عمل کو محض بدعت کہہ دینےسے وہ حرام نہیں ہو جاتا کیونکہ لغوی اعتبار سے کسی عمل کا بدعت ہونا فقط اتنا ثابت کرے گا کہ اس پر قرآن و حدیث اور عمل صحابہ رضی اللہ عنہم سے کوئی سند نہیں ہے لہٰذا ایسا ہر عمل اباحت کے دائرے میں آجائے گا پس ثابت ہوا کہ کسی عمل کا محض نیا ہونا حرمت کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ کسی بھی نئے عمل کی حلت و حرمت کو جاننے کےلیے اسےدلیل شرعی کی طرف لوٹایا جائے گا اگر وہ عمل موافق شرع ہو تو بدعت حسنہ اور اگر خلاف شرع ہو تو بدعت سئیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا کسی کام کو نہ کرنا اس کی حرمت کی دلیل نہیں ہوتا ۔


مشہور غیر مقلد عالم وحید الزمان بدعت کی اقسام کے بارے میں لکھتا ہے ’’اما البدعۃ اللغویہ فھی تنقسم الی مباحۃ ومکروھۃ وحسنۃ وسئیۃ ‘‘ بہر حال باعتبار لغت کے بدعت کی حسب ذیل اقسام ہیں بدعت مباح ، بدعت مکروہ ، بدعت حسنہ او ربدعت سیۂ ۔ (ہدیتہ المہدی صفحہ نمبر 117 مطبوعہ میور پریس دہلی)


اور نواب صدیق حسن خان بھوپالوی جو غیرمقلد ین کے بہت بڑے عالم تھے انہوں نے کہا کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہوجائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔(ھدیتہ المھدی )


مشھور نجدی عالم قاضی شوکانی فتح الباری سے نقل کر کے اقسام بدعت کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ لغت میں بدعت اس کا م کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاح شرح میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتاہے اس لئے یہ مذموم ہے او رتحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تویہ بدعت سیۂ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے او ربلاشبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں ۔ ( نیل الاوطار325/3مکتبۃ الکلیات الازہریۃ،چشتی)


اسی طرح شیخ عثمانی دیوبندی نے بھی علامہ نووی کے حوالہ سے بدعت کہ یہ پانچ اقسام ذکر کیں ہیں ۔ ( فتح الملھم 406/2 مطبوعہ مکتبۃ المجار کراچی)


مخالفین کی ان عبارتوں سے معلوم ہے کہ ان کے نزدیک بھی ہر بدعت گمراہی نہیں ہے جیسا کہ علامہ ابن منظور افریقی نے علامہ ابن اثیر کے حوالہ سے یہ لکھاہے کہ حدیث مبارکہ میں جو ہے کہ ہر نیا کام بدعت ہے اس نئے کام سے مراد وہ کام ہے جو خلاف شریعت ہو لکھتے ہیں : ’’ و علی ھذالتاویل یحمل الحدیث الاٰخر کل محدثۃ بدعۃ انما یرید ما خالف اصول الشریعہ ولم یوافق السنۃ‘‘ ۔ (مجمع بحارالانوار 80/1 مطبوعہ نو لکشورہند،چشتی) ۔ یعنی ان دلائل کی بنا پر حدیث ’’ ہر نیا کام بدعت ہے ‘‘ کی تاویل کی جائے گی او راس نئے کام سے مراد وہ کام ہیں جو اصول شریعت کے مخالف ہوں اور سنت کے موافق نہ ہوں ۔


اگر آج کل کے وہابی دیوبندی ہر بدعت کو گمراہی کہیں تو وہ خود بھی نہیں بچ سکیة گے کیونکہ اسلام کی کوئی عبادت بدعت حسنہ سے خالی نہیں ۔ مثلا مسلمان کا بچہ بچہ ایمان مجمل اور مفصل یاد کرتا ہے ہر ایمان کی دو قسمیں اور ان کا نام دونوں بدعت ہیں قرون ثلاثہ میں اس کا پتہ نہیں اسی طرح چھے کلمہ اور ان کی ترتیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا ہے اور ان کے یہ نام ہیں سب بدعت ہیں جن کا پہلے کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے اسی طرح قرآن شریف کے تیس پارہ بنانا ۔ ان میں رکوع قائم کرنا ، اس پر اعراب لگانا سب بدعت ۔ احادیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا ، اس کی قسمیں بنانا کہ یہ صحیح ہے حسن ہے یا ٖضعیف ہے یہ سب بدعت ہے اسی طرح نماز میں زبان سے نیت کرنا بدعت ہر رمضان میں بیس رکعت تراویح پر ہمیشگی کرنا بدعت یہاں تک کہ خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا نعمت البدعۃ ھذہ یہ بڑی اچھی بدعت ہے ۔بسوں ، گاڑیوں اور کاروں میں عرفات شریف جانا بدعت جبکہ اس زمانہ پاک میں یہ سواریاں نہ تھی نہ ان کے ذریعے ہوتا تھا ۔پھر یہ کہنا کہ ہر دینی کا بدعت ہے دنیاوی نہیں یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کیونکہ دینی کام کرنے پر ثواب ملتا ہے اور دنیا کا جائز کام بھی نیت خیر سے کیا جائے تو اس پر بھی ثواب ملتا ہے جیسا کہ مشکوہ فضل الصدقہ میں صفحہ 167 پر حدیث پاک میں آتاہے کہ ’’مسلمان سے خندہ پیشانی سے ملنا صدقہ کا ثواب رکھتا ہے اپنے بچوں کو پالنا نیت خیر سے ثواب ہے یہاں تک کہ جو لقمہ اپنی زوجہ کے منہ میں دے وہ بھی ثواب ۔ لہٰذا مسلمان کا ہر دنیاوی کا م دینی ہے ۔ پھر دینی کام کی قید لگانے سے وہابی دیوبندی خود بھی بدعت کے مرتکب ہوئے کیونکہ وہابیوں اور دیوبندیوں کے مدارس وہاں کے نصاب دورہ حدیث تنخواہ لے کر پڑھانا مصیبت کے وقت ختم بخاری کرنا ان سب کےلیے چندہ اکٹھا کرنا سب ہی دینی کام ہیں اور بدعت ہیں کیونکہ حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں ان سے کوئی کام نہ ہوا تھا ۔ پس معلوم ہوا کہ ہربدعت گمراہی نہیں ہے اللہ تعالی سمجھ عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...