بیعتِ مرشد و شرائطِ مرشد اور جہلاء و کاروباری پیر حصّہ ششم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : جامِع شرائط پیر صاحب کے ہاتھ پر بیعت ہو جانے کے بعد کسی دوسرے پیر صاحب سے بیعت نہیں ہونا چاہیے ، البتہ حصولِ برکت کےلیے بوقتِ ضرورت ”طالِب“ ہو جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، لیکن طالِب ہونے کے بعد ، جو بھی برکات حاصل ہوں ، انہیں اپنے پیر صاحب کا ہی فیضان سمجھے ۔
بَیْعَت کی دو قسمیں ہیں
(۱) بَیْعَتِ بَرَکت
(۲) بَیْعَتِ اِرادَت
بیعت برکت : یعنی صرف تبرک کیلئے بَیْعَت ہو جانا، آج کل عام بَیْعَتیں یہی ہیں ۔ وہ بھی نیک نیتوں کی ، ورنہ بہت سے لوگوں کی بَیْعَت دنیاوی اَغراضِ فاسدہ کیلئے ہوتی ہے ۔
بیعت ارادت : اعلیٰ حضرت ، امام اَہلسنّت الشاہ امام اَحمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، بَیْعَتِ اِرادَت یہ ہے کہ مرید اپنے ارادہ و اختیار ختْم کر کے خود کو شَیخ و مرشِد ہادی برحق کے بالکل سِپُرد کر دے ، اسے مُطْلَقاً اپنا حاکم و مُتَصَّرِف جانے ، اس کے چلانے پر راہِ سُلوک چلے ، کوئی قدم بِغیر اُس کی مَرَضی کے نہ رکھے ۔ اس کےلیے مرشِد کے بعض اَحکام ، یا اپنی ذات میں خود اسکے کچھ کام ، اگر اس کے نزدیک صحیح نہ بھی معلوم ہوں تو انہیں افعالِ خِضَر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مَثْل سمجھے اپنی عقْل کا قُصور جانے ، اس کی کسی بات پر دل میں اعتراض نہ لائے ، اپنی ہر مشکل اس پر پیش کرے ۔
حضرت خِضَر علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر کے دوران جو باتیں صادِر ہوتی تھیں بظاہر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جن پر اعتراض تھا پھر جب حضرتِ خِضَر علیہ السلام اس کی وجہ بتاتے تھے تو ظاہر ہوجاتا تھا کہ حق یہی تھا جو انہوں نے کیا) غرض اسکے ہاتھ میں مردہ بَدَستِ زندہ ہو کر رہے ۔
یہ بَیْعَتِ سالکین ہے ۔ یہی اللہ عَزَّوَجَلَّ تک پہنچاتی ہے ۔ یہی نبی کیم صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے لی ہے ۔ (فتاوی افریقہ صفحہ نمبر ۱۴۰،چشتی)
ایک پیر کے مُرید ہوتے ہوئے کسی دوسرے پیر سے مُرید نہیں ہو سکتے چنانچہ حضرتِ علی بن وفار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس طرح جہان کے دو معبود نہیں ، ایک شخص کے دو دِل نہیں ، عورت کے بیک وقت دو شوہر نہیں اسی طرح مُرید کے دو شیخ نہیں ۔ (سنن کبری الباب الثامن صفحہ ۳۴۶)
البتہ دوسرے جامع شرائط پیر سے بیعتِ برکت کرتے ہوئے طالِب ہونے میں حرج نہیں ہے ۔ اِسی طرح کے ایک سُوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت اِمامِ اَہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جوشخص کسی شیخ جامع شرائط کے ہاتھ پر بیعت ہو چکا ہو تو دوسرے کے ہاتھ پر بیعت نہ چاہیے ۔ اکابرِ طریقت فرماتے ہیں : لَا یُفْلِحُ مُرِیدٌ بَیْنَ شَیْخَیْنِ جو مُرید دو پیروں کے دَرمیان مشترک ہو وہ کامیاب نہیں ہوتا ۔ خصوصاً جبکہ اس سے کشُودِ کار (یعنی مطلب کا حصول) بھی ہو چکا ہو ، حدیث میں اِرشاد ہوا : مَنْ رُزِقَ فِيْ شَيْءٍ فَلْيَلْزَمْهُ جسے اللہ تعالیٰ کسی شے میں رزق دے وہ اس کو لازم پکڑے ۔ (شعب الایمان جلد دوم باب التوکل والتسلیم)
دوسرے جامع شرائط سے طلبِ فیض میں حرج نہیں اگرچہ وہ کسی سلسلۂ صریحہ کا ہو مگر اپنی اِرادت شیخِ اوّل ہی سے رکھے اور اس سے جو فیض حاصل ہو اسے بھی اپنے شیخ ہی کا فیض جانے ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر ۲۶ صفحہ نمبر ۵۷۹،چشتی)
ایک پیر کے مُرید ہوتے ہوئے کسی دوسرے پیر صاحب سے مرید ہونے کے متعلق امام عبدالوہاب شعرانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات : 973ھ/1565ء) اپنی کتاب”المِنَن الکبریٰ“ میں لکھتے ہیں : كان سيدي علي بن وفاء رضي اللہ تعالى عنه يقول : كما لم يكن للعالم إلهان ، ولا للرجل قلبان ، ولا للمرأة زوجان ، كذلك لا يكون للمريد شيخان ۔
ترجمہ : میرے سردار حضرت علی بن وفا رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح کائنات کے دو خدا نہیں ، کسی شخص کے دو دِل نہیں اور عورت کے بیک وقت دو شوہر نہیں ہوسکتے ، اسی طرح ایک مُرید کے دو شیخ (پِیر) بھی نہیں ہو سکتے ۔ (المنن الکبریٰ الباب الثامن صفحہ 395 مطبوعہ دارالتقویٰ دِمِشق،چشتی)
امامِ اہلسنَّت ، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات 1340 ھ/1921ء) لکھتے ہیں : جو شخص کسی شیخ جامع شرائط کے ہاتھ پربیعت ہو چکا ہو تو دوسرے کے ہاتھ پربیعت نہ چاہیے ۔اکابرِ طریقت فرماتے ہیں : لایفلح مرید بین شیخین ۔
ترجمہ : جو مرید دو پیروں کے درمیان مشترک ہو ، وہ کامیاب نہیں ہوتا ۔ خصوصاً جبکہ اُس سے کُشُوْد کَار (منازلِ سُلوک کا دروازہ کھلنا) بھی ہو چکا ہو ۔ حدیث میں ارشاد ہوا : من رزق فی شئی فلیلزمہ ۔
ترجمہ : جسے اللہ تعالیٰ کسی شے میں رزق دے ، وہ اُسے لازم پکڑ لے ۔ (البتہ)دوسرے جامع شرائط (پیر صاحب) سے طلبِ فیض میں حرج نہیں ، اگرچہ وہ کسی سلسلہ صریحہ کا ہو اور اُس سے جو فیض حاصل ہو ، اُسے بھی اپنے شیخ کا ہی فیض جانے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 26 صفحہ نمبر 579 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور،چشتی)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات : 1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں : مرید تو ایک کا ہو چکا ، ایک مرید کے دو پیر نہیں ہوتے ، ہاں دوسرے سے طالب ہو سکتا ہے اور اس کے بتانے پر ریاضت و مجاہدہ کرے اور سلوک کی راہیں طے کرے اور جو کچھ فیوض حاصل ہوں ، اُن کو پیر ہی سے ملنا تصور کرے اور اُس کو واسطہ جانے ۔ (فتاویٰ امجدیہ جلد 4 صفحہ 352 مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)
مُرشِد عربی کے لفظ ’اَرشَدَ‘ سے مشتق ہے جس کے لغوی معنیٰ سیدھا راستہ دکھانے کے ہیں ۔ اصطلاحاً مُرشِد اس شخصیت کو کہا جاتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکام اور شریعت کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق نہ صرف خود زندگی گزار رہا ہو بلکہ دوسروں کو بھی راہِ ہدایت کی طرف بلاتا ہو ۔ اگر کوئی شخص خود احکامِ الٰہیہ کا تارک ہو تو وہ بھلا دوسروں کو راہِ ہدایت کیسے دکھا سکتا ہے ؟ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا ۔
ترجمہ : جسے ﷲ ہدایت فرما دے سو وہی ہدایت یافتہ ہے ، اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ اس کےلیے کوئی ولی مرشد (یعنی راہ دکھانے والا مددگار) نہیں پائیں گے ۔ (الْكَهْف، 18: 17)
درج بالا آیت میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اوامر و نواہی ، حلال و حرام اور حدوداللہ کی تمیز نہ کرے وہ نہ مرشِد ہو سکتا ہے اور نہ مرشَد (مرید) ہونے کا اہل ہے ۔
لہٰذا جو شخص صوم و صلاۃ کا تارک اور جاہل ہو اسے مرشد بنانا جائز نہیں ۔ احکامِ الٰہیہ کا تارک شخص ہوا میں اڑ کے دکھائے یا پانی کی سطح چلنے کا دعویٰ کرے اس سے ہدایت کی امید رکھنا بے سود ہے ۔ دین کے فروغ کےلیے کوشاں افراد کی ہی مالی مدد کی جانی چاہیے ۔
امام احمدرضا قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ذات بیسویں صدی عیسو ی کی ایک عظیم علمی ، تحقیقی شخصیت گزری ہے ، آپ اپنے دور کے تقریبا تمام متداولہ علوم و فنون سے خاطر خواہ حصہ رکھتے تھے ، آپ نے مختلف علوم وفنون پر سیکڑوں تصنیفات چھوڑی ، فقہ و فتاوی میں آپ اپنے ہم عصر علما پر فوقیت رکھتے تھے ، آپ کے فتاوی کا مجموعہ ’’العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ‘‘ کے نام سے مشہور ہے ، جس کے مطالعہ سے فقہ وفتاوی میں آپ کی گرفت اور تبحر علمی کا صحیح اندازہ ہوتا ہے ، آپ نے اپنے فتاوی میں ہر طرح کے مسائل کا احاطہ کیا ہے ’’نقاء السلافۃ فی احکام البیعۃ والخلافۃ‘‘ نامی رسالہ جو آپ کے فتاوی کے مجموعہ میں موجود ہے ، اس میں بیعت وخلافت کے مسائل پر ، جس عمدگی کے ساتھ آپ نے گفتگو فرمائی ہے ، وہ آپ ہی کا حصہ معلوم ہوتا ہے ، جس کے مطالعے کے بعد آپ کے بارے میں یہ رائے قائم کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ آپ عارف باللہ ہونے کے ساتھ ، گروہ صوفیہ کے ترجمان اور صف شکن مجاہد تھے ـ اسی مذکورہ رسالے کی روشنی میں ، افادۂِ عام کے پیش نظر ، بیعت وارادت اور خلافت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تحریر قارئین کی خدمت میں پیش ہے ـ سب سے پہلے شریعت و طریقت اور حقیقت و معرفت کے تعلق سے امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کا کیا خیال ہے ملاحظہ فرمائیں : شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت میں باہم اصلا کوئی تخالف نہیں ، اس کا مدعی اگر بے سمجھے کہے تونرا جاہل ہے اور سمجھ کر کہے تو گمراہ ، بددین ، شریعت حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کے اقوال ہیں ، اور طریقت حضور کے افعال ، اور حقیقت حضور کے احوال ، اور معرفت حضور کے علوم بے مثال ۔ (فتاوی رضویہ،ج:۲۱،ص:۴۶۰)
اے عزیز من شریعت قال ہے
اور طریقت فعل ، حقیقت حال ہے
معرفت اس حال کا انجام ہے
جو خدا کا فضل اور احسان ہے
(نغمات الاسرار فی مقامات الابرار صفحہ ۶۶ مطبوعہ شاہ صفی اکیڈمی الہ آباد،چشتی)
بیعت کی اہمیت وضرورت
کسی نے یہ سوال کیا کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ قیامت کے دن ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گروہ میں اٹھیں گے ، تو پھر بیعت کرنے اور کسی سلسلے میں داخل ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟
اس سوال کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا : قرآن وحدیث میں شریعت ، طریقت ، حقیقت سب کچھ ہے ، ان میں سے سب سے زیادہ ظاہر وآسان مسائل شریعت ہیں ، ان کی تو یہ حالت ہے کہ اگر ائمہ مجتہدین ان کی شرح نہ فرماتے ، تو علما کچھ نہ سمجھتے ، اور علمائے کرام ، اقوال ائمہ مجتہدین کی تشریح و توضیح نہ کرتے ، تو ہم لوگ ارشادات ائمہ کے سمجھنے سے بھی عاجز رہتے اور اب اگر اہل علم ، عوام کے سامنے مطالب کتب کی تفصیل اور صورت خاصہ پر حکم کی تطبیق نہ کریں ، تو عام لوگ ہرگز ہرگز کتابوں سے احکام نکال لینے پر قادر نہیں ، ہزار جگہ غلطی کریں گے اور کچھ کا کچھ سمجھیں گے ، اس لیے یہ سلسلہ مقرر ہے کہ عوام ، آج کل کے اہل علم و دین کا دامن تھا میں ، اور وہ تصانیف علمائے ماہرین کا ، اور وہ مشائخ فتاویٰ کا اور وہ ائمہ ہدیٰ کا ، اور وہ قرآن و حدیث کا ، جس شخص نے اس سلسلے کو توڑا ، وہ اندھا ہے ، جس نے دامن ہادی ہاتھ سے چھوڑا ، عنقریب کسی عمیق کنویں میں گرا چاہتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ۶۲ ۔ ۴۶۱،چشتی)
اس کے بعد مزید گفتگو کرتے ہوئے صاحب فتاوی نے احکامِ شریعت کے توارث اور ائمہ مجتہدین کی ضرورت کو ثابت کیا اور پھر آگے یوں تحریر فرمایا جب احکام شریعت میں یہ حال ہے ، تو صاف روشن ، کہ دقائق سلوک اور حقائق معرفت ، بے مرشد کامل ، خود بخود قرآن و حدیث سے نکال لینا کس قدر محال ہے ۔ یہ راہ سخت باریک اور بے شمع مرشد نہایت تاریک ہے ، بڑے بڑوں کو شیطان لعین نے اس راہ میں ایسا مارا ، کہ تحت الثرٰی تک پہنچادیا ، تیری کیا حقیقت کہ بے رہبر کامل ، اس راہ میں چلے اور سلامت نکل جانے کا ادعا کرے ، ائمہ کرام فرماتے ہیں : آدمی اگر چہ کتنا ہی بڑا عالم ، زاہد ، کامل ہو اس پر واجب ہے کہ (وہ کسی ) ولی عارف کو اپنا مرشد بنائے ، بغیر اس کے ہرگز چارہ نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ۴۶۳،چشتی)
مزید اپنے موقف کی تائید میں امام شعرانی قدس سرہ کی تصنیف میزان الشریعہ ۔۔۔ کا مندرجہ ذیل اقتباس پیش کیا ہے : فعلم من جمیع ماقررناہ وجوب اتخاذ الشیخ لکل عالم طلب الوصول الی شہود عین الشریعۃ الکبرٰی ولواجمع جمیع اقرانہ علی علمہ وعملہ وزہدہ و ورعہ ولقبوہ بالقطبیۃ الکبرٰی فان لطریق القوم شروطا لایعرفہا الا المحققون منہم ….الخ ۔
ترجمہ : معلوم ہواان تمام بحثوں سے جس کو ہم نے ثابت کیا ہے ، کہ شیخ کا پکڑنا واجب ہے ، ہر اس عالم کےلیےجس کو عین شریعت کبریٰ کے مشاہدہ تک پہنچنا مطلوب ہے ، اگر چہ اس کے تمام ہم عصر ، اس کے علم و عمل او رزہد و ورع پر جمع ہو جائیں اور اس کو قطبیت کبریٰ کا لقب دیں ، اس لیے کہ اس قوم (یعنی صوفیہ) کے طریق کی کچھ شرطیں ہیں ، جن کو سوائے محققین صوفیہ کےکوئی نہیں پہچان سکتا ۔ (المیزان الکبریٰ فصل: ان القائل کیف الوصول الخ مصطفی البابی مصر ۱/ ۲۲، بحوالہ فتاوی رضویہ ،ج:۲۱ ،ص: ۶۴، ۴۶۳)
لیکن کوئی پست ہمت ہو ، جو معرفت اور مشاہدہ ربانی کے جام سے سیرابی کا حوصلہ نہ رکھتا ہو،تو اس کے تعلق سے آپ تحریر کرتے ہیں : یہ اس کے لیے ہے جو اس راہ کا چلنا چاہے اور ہمت پست ، کوتاہ دست لوگ ،اگر سلوک نہ بھی چاہیں ، تو اُنہیں توسل کےلیے شیخ کی حاجت ہے ، یوں اللہ عزوجل اپنے بندوں کو بس تھا ۔ قال اللہ تعالی : الیس ﷲ بکاف عبدہ ۔ کیاخدا اپنے بندوں کو کافی نہیں ۔ مگر قرآن عظیم نے حکم فرمایا : وابتغوا الیہ الوسیلۃ ۔ اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو ۔ اللہ کی طرف وسیلہ ، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کی طرف وسیلہ ، مشائخ کرام ، سلسلہ بہ سلسلہ، جس طرح اللہ عزوجل تک بے وسیلہ (رسول) رسائی محال قطعی ہے ، یوں ہی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم تک رسائی بے وسیلہ (مرشد ) دشوار عادی ہے ۔ (فتاوی رضویہ ج:۲۱،ص:۴۶۴)
پھر متعدد احادیث اوراقوال ائمہ سے اپنے مذکورہ موقف کی تائید کرتے ہوئے، بیعت کی اہمیت وضرورت اورشیخ کی دستگیری، سلاسل واسانید اولیاے کرام کے فیوض و برکات پر نہایت مدلل گفتگو فرمائی ہے، جس کا مطالعہ اہل علم کےلیے نہایت مفید ہے۔
خلافت و جانشینی کابیان
خلافت وجانشینی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے خلافت کی تقسیم کرتے ہوئے جواباً تحریر فرمایا:خلافت حضرات اولیائے کرام نفعناﷲ ببرکاتہم فی الدنیا والاخرۃ ۔ ( اللہ تعالیٰ دنیاوآخرت میں ہم کو ان کی برکات سےنفع پہنچائے) دو طرح ہے: عامہ اور خاصہ ۔ (فتاوی رضویہ ج:۲۱،ص:۴۶۷)
خلافت عامہ کا بیان : عامہ یہ کہ مرشد، مربی اپنے مریدین، اقارب او ر اجانب سے جس جس کو صالح ارشاد ولائق تربیت سمجھے اپنا خلیفہ ونائب کرے اور اسے اخذ بیعت وتلقین اذکار و اشغال، اوراد واعمال ، اور تربیت طالبین ، وہدایت مسترشدین کےلیے مثال خلافت کرامت فرمائے ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر ۲۱ صفحہ نمبر ۴۶۷) ۔ (مزید حصّہ ہفتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment