حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اعتراضات کے جوابات
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرّحمہ لکھتے ہیں : جو سیدنا معاويہ رضی ﷲ عنہ پر طعن کرے ، وہ جہنمی کتوں میں سے ايک کتا ہے ، ايسے شخص کے پيچھے نماز حرام ہے ۔ (احکام شریعت جلد 1 صفحہ 69,91)
خلیفہ اعلیٰ حضرت مولانا امجدی علی علیہ الرّحمہ لکھتے ہیں : سیدنا معاويہ رضی ﷲ عنہ اور ان کے والد ماجد حضرت ابو سفیان اور والدہ ماجدہ حضرت ہندہ رضی ﷲ عنہا کی شان میں گستاخی تبرا ہے ، اس کا قائل رافضی ہے ۔ (بہار شریعت جلد 1 صفحہ 70)
اعتراض : ایک دفعہ امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ اپنے کندھوں پر یزید کو لے جا رہے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جہنمی پر جہنمی سوار ہے )معاذ ﷲ (معلوم ہوا کہ یزید بھی دوزخی اور امیر معاویہ بھی دوزخی (نعوذ باﷲ) ؟
جواب : ماشاء ﷲ یہ ہے دشمن صحابہ کی تاریخ پر نظر اور یہ ہے ان کی نادانی کا حال ۔ دلیل : یزید کی پیدائش حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کے دور حکومت میں ہوئی ۔ دیکھو کتاب جامع ابن اثیر اور کتاب الناہیہ وغیرہ ۔ آپ نے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یزید کو پیدا کردیا ‘ کیا یزید عالم ارواح سے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے کندھے پر کود کر آگیا۔ لاحول ولاقوۃ ۔
اعتراض : حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بددعا دی ‘ چنانچہ مسلم شریف کی حدیث لاتے ہیں کہ حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بار مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو بلاؤ میں بلانے گیا تو وہ کھانا کھا رہے تھے۔ میں نے عرض کیا یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم وہ کھا رہے ہیں تو فرمایا ان کا پیٹ نہ بھرے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا بھی قبول ہے اور خلاف دعا بھی چنانچہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے خلاف دعا کی ۔
جواب : اعتراض کرنے والے نے اس حدیث کو سمجھنے میں غلطی کی ‘ کم از کم اتنی ہی بات سمجھ لی ہوتی کہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گالیاں دینے والوں کو معاف کردیتے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف کیوں دعا کرتے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہما نے حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ سے یہ کہا بھی نہیں کہ آپ کو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلا رہے ہیں ۔ صرف دیکھ کر خاموش واپس آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے واقعہ عرض کیا ۔ تیسری بات یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کا نہ کوئی قصور تھا نہ کوئی خطا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے خلاف دعا کریں ‘ یہ ناممکن ہے۔ اب اعتراضات کے جوابات پڑھیئے کہ عرب میں محاورۃ اس قسم کے الفاظ پیار و محبت کے موقع پر بھی بولے جاتے ہیں ان سے بددعا مقصود نہیں ہوتی۔ مثلا: تیرا پیٹ نہ بھرے‘ تجھے تیری ماں روئے‘ وغیرہ کلمات غضب کے لئے نہیں بلکہ کرم کے لئے ارشاد ہوئے ہیں اور اگر مان بھی لیا جائے کہ سرکار علیہ السلام نے حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کے خلاف بددعا کی تو بھی یہ بددعا حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے حق میں رحمت بنی‘ ﷲ تعالیٰ نے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو اتنا بھرا اور اتنا مال دیا کہ انہوں نے سینکڑوں کا پیٹ بھر دیا ۔ ایک ایک شخص کو بات بات پر لاکھوں لاکھوں انعام دیتے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب عزوجل سے عہد لیا تھا کہ اے ﷲ تعالیٰ اگر میں کسی مسلمان کو بلاوجہ لعنت یا اس کے خلاف دعا کروں تو اسے رحمت اجر اور پاکی کا ذریعہ بنا دینا۔ حدیث : حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا ‘ حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے کتاب الدعوات میں حدیث ہے کہ فرمایا‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ اے ﷲ تعالیٰ جس کسی کو برا کہہ دوں تو قیامت میں اس کے لئے اس بد دعا کو قرب کاذریعہ بنا ۔ (بحوالہ مسلم شریف) ۔ اب سمجھ میں آگیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ پر لگائے گئے سارے الزامات بے بنیاد ہیں اور حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کاتب وحی‘ عاشق رسو ل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جیّد صحابی ہیں ۔
اعتراض : حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ دشمنِ اہل بیت رضی اللہ عنہم تھے دلیل واقعہ کربلا ۔
جواب : اس سوال کا جواب مسلک اہل سنت کی سینکڑوں کتابوں میں موجود ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ اہل بیت سے سچی محبت کرتے تھے لیکن اس کا جواب ہم شیعہ حضرات کی معتبر کتابوں سے دیتے ہیں ۔ شیعہ مولوی ملا باقر مجلسی کتاب جلاء العیون میں لکھتا ہے : حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ وصال کے وقت یزید کو یہ وصیت فرماگئے کہ امام حسین رضی ﷲ عنہ پس ان کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے ۔ تجھے معلوم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدن کے ٹکڑے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گوشت و خون سے انہوں نے پرورش پائی ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ عراق والے ان کو اپنی طرف بلائیں گے اور ان کی مدد نہ کریں گے۔ تنہا چھوڑ دیں گے اگر ان پر قابو پالے تو ان کے حقوق کو پہچاننا ‘ ان کا مرتبہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے اس کو یاد رکھنا ‘ خبردار ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ دینا ۔ (جلاء العیون جلد دوم ص 421,422،چشتی)
صاحب ناسخ التواریخ شیعہ مٶرخ لکھتا ہے : حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ نے یزید کو یہ وصیت فرمائی ۔ ’’کہ اے بیٹا ! ہوس نہ کرنا اور خبردار جب ﷲ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو تو تیری گردن میں حسین بن علی رضی ﷲ عنہما کا خون نہ ہو ۔ ورنہ کبھی آسائش نہ دیکھے گا اور ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہے گا ۔
غور کیجئے ! حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ‘ یزید کو یہ وصیت کر رہے ہیں کہ ان کی تعظیم کرنا بوقت مصیبت ان کی مدد کرنا ۔ اب اگر یزید پلید اپنے والد کی وصیت پر عمل نہ کرے تو اس میں حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کا کیا قصور ؟ حضرت امام مالک علیہ الرحمہ نے یزید پلید کو کافر لکھا ہے اور اہل سنت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ یزید پلید‘ شرابی‘ ظالم اور امام حسین رضی ﷲ عنہ کے خون کا ذمہ دار ہے‘ لیکن اس کے بدلے میں حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو بدنام کرنا یہ کون سی دیانت ہے ؟ الحَمْدُ ِلله ! ان تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ شان حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کتنی بلند ہے۔ ان دلائل سے ان لوگوں کو عقل کے ناخن لینے چاہیے جو علم نہ ہونے کی وجہ سے بکواس کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے بارے میں اپنی زبان کو بند رکھیں ‘ خصوصا واعظین اور خطباء جو جوشِ خطابت میں حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو باغی کہہ دیتے ہیں اور ذرا بھی ادب و لحاظ نہیں کرتے ۔ ایسے لوگ احتیاط کریں ۔ اگر کوئی حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے مابین جنگ سے متعلق سوال بھی کرے تو حکمت عملی سے یہ کہہ کر عوام اہلسنت کو مطمئن کردیں کہ ہمارے لیے دونوں ہستیاں لائق احترام و تعظیم ہیں لہٰذا ہمیں اپنی زبانوں کو بند رکھنا چاہیے ۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ ہمارا ایک جاہلانہ بول بروز قیامت ہمیں مہنگا نہ پڑ جائے ۔ حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ کا فرمان ہمارے لیے کافی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کا ذکر کرو تو خیر سے کرو سادات کرام بھی حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے متعلق احتیاط سے کام لیں اور اپنی نسبت کا لحاظ رکھتے ہوئے امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی شان میں گستاخی سے بچیں ۔
شیادت حضرت امامِ حسن اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے متعلق ایک اعتراض کا جواب : سنن ابی داؤد کی درج ذیل روایت میں چند سوالات ہیں : اس روایت اور اس جیسی روایات کیا درجہ صحت کو پہنچتی ہیں ؟
حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ کی وفات پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ سوال کرنا کہ ’’ أَتَرَاهَا مُصِيبَةً ؟ ‘‘ کیا آپ ان کی وفات کو مصیبت سمجھتے ہیں اور حضرت مقدام کا سخت جواب دینا اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت معاویہ وفاتِ حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ کو ہلکا لے رہےتھے اور حضرت معاویہ کے دل میں حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ کا کوئی خاص مقام نہیں تھا ۔
حضرت مقدام رضی اللہ عنہ کے بقول حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں سونا ، ریشم اور درندوں کی کھالیں استعمال میں لائی جاتی تھیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے استعمال سے منع فرمایا ہے ۔
حضرت معاویہ کی موجودگی میں ان کے ساتھی اسدی نے حضرت حسن کے بارے میں یہ کہا کہ ’’انگارہ تھا جو بجھ گیا‘‘ اور حضرت مقدام اس پر غصہ ہوئے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ حضرت معاویہ کے ہوتے ہوئے حضرت حسن رضی اللہ عنہم کی بارے میں اس طرح کی بات کی جائے ۔
سنن ابی داود کی روایت یہ ہے : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ، وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ مِنْ أَهْلِ قِنَّسْرِينَ إِلَی مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ: أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ؟ فَرَجَّعَ الْمِقْدَامُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: أَتَرَاهَا مُصِيبَةً؟ قَالَ لَهُ: وَلِمَ لَا أَرَاهَا مُصِيبَةً، وَقَدْ وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجْرِهِ فَقَالَ: «هَذَا مِنِّي» وَحُسَيْنٌ مِنْ عَلِيٍّ؟، فَقَالَ الْأَسَدِيُّ: جَمْرَةٌ أَطْفَأَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ: فَقَالَ الْمِقْدَامُ: أَمَّا أَنَا فَلَا أَبْرَحُ الْيَوْمَ حَتَّی أُغَيِّظَكَ، وَأُسْمِعَكَ مَا تَكْرَهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُعَاوِيَةُ إِنْ أَنَا صَدَقْتُ فَصَدِّقْنِي، وَإِنْ أَنَا كَذَبْتُ فَكَذِّبْنِي، قَالَ: أَفْعَلُ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَی عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَهَی عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَی عَنْ لُبْسِ جُلُودِ السِّبَاعِ وَالرُّكُوبِ عَلَيْهَا؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَاللَّهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ هَذَا كُلَّهُ فِي بَيْتِكَ يَا مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: قَدْ عَلِمْتُ أَنِّي لَنْ أَنْجُوَ مِنْكَ يَا مِقْدَامُ، قَالَ خَالِدٌ: فَأَمَرَ لَهُ مُعَاوِيَةُ بِمَا لَمْ يَأْمُرْ لِصَاحِبَيْهِ وَفَرَضَ لِابْنِهِ فِي الْمِائَتَيْنِ، فَفَرَّقَهَا الْمِقْدَامُ فِي أَصْحَابِهِ، قَالَ: وَلَمْ يُعْطِ الْأَسَدِيُّ أَحَدًا شَيْئًا مِمَّا أَخَذَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ: أَمَّا الْمِقْدَامُ فَرَجُلٌ كَرِيمٌ بَسَطَ يَدَهُ، وَأَمَّا الْأَسَدِيُّ فَرَجُلٌ حَسَنُ الْإِمْسَاكِ لِشَيْئِهِ۔ (سنن ابی داود، کتاب اللباس، باب في جلود النمور والسباع)
جواب : یہ روایت ابو داؤد شریف میں موجود ہے ۔ صاحبِ ابو داود نے یہ روایت نقل کر کے اس پر کوئی کلام نہیں فرمایا جو ان کے نزدیک صحیح ہونے کی علامت ہے ۔ حدیث میں یہ قول حضرت امیر معاویہ کی طرف منسوب نہیں ہے بلکہ اہل مجلس میں سے کسی کا ہے ۔ چناں چہ روایت میں ’’فقال له رجل‘‘ کا لفظ ہے ، لہذا حضرت امیر معاویہ کا حضرت امامِ حسن کی وفات کو ہلکا سمجھنا ثابت نہیں ہوا ، اسی لیے حضرت امیر معاویہ پر یہ اعتراض بھی غلط ہےکہ ان کے دل میں حضرت امامِ حسن کا کوئی مقام نہیں تھا ۔ بلکہ دیگر روایات سے ثابت ہے کہ حضرت امیر معاویہ ، حضرت امامِ حسن کا بہت احترام فرماتے تھے ۔ اہل سنت والجماعت کی یہی رائے ہے کہ حضرت امامِ حسن بہت محترم ومکرم صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ دیگر حضرات کی طرح حضرت امیر معاویہ کا ان سے عزت واحترام کا برتاؤ تھا رضی اللہ عنہم ۔
روایت میں ان چیزوں کے گھر میں ہونے کا تو ذکر ہے لیکن خود حضرت امیر معاویہ کے استعمال فرمانے کا ذکر نہیں ہے ، اس لیے اس روایت کی بنیاد پر ان پر حدیث کی مخالفت کا الزام درست نہیں ۔
’’انگارہ‘‘ کہنے پر حضرت معاویہ کی خاموشی کسی حکمت پر مبنی ہو سکتی ہے ، لہٰذا محض خاموشی کی وجہ سے ان پر عدمِ احترام کا الزام درست نہیں معلوم ہوتا ۔ لیکن اس کے برعکس ایسی اور بہت سی روایات ایسی موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے درمیان تعلقات انتہائی عمدہ اور خلوص سے پر تھے، مثلاً : ⬇
جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہو گئی تو حضرت امامِ حسین ، اپنے بھائی حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہما کے ساتھ حضرت معاویہ کے پاس جایا کرتے تھے ۔ وہ ان دونوں کی بہت زیادہ تکریم کرتے ، انہیں خوش آمدید کہتے اور عطیات دیتے ۔ ایک ہی دن میں حضرت معاویہ نے انہیں بیس لاکھ درہم دیے ۔ (تاريخ دمشق لابن عساکر، حرف الميم، معاوية بن صخر أبي سفيان،چشتی)
حضرت امامِ حسن بن علی ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا : میں آپ کو ایسا عطیہ دوں گا جو مجھ سے پہلے کسی نے نہ دیا ہو گا ۔ چنانچہ انہوں نے حضرت امامِ حسن کو چالیس لاکھ درہم دیے ۔ ایک مرتبہ امامِ حسن و امامِ حسین رضی اللہ عنہما دونوں ان کے پاس آئے تو انہیں بیس بیس لاکھ درہم دیے ۔ (تاريخ دمشق لابن عساکر، حرف الميم، معاوية بن صخر أبي سفيان)
جب حضرت امامِ حسن کا انتقال ہوا تو حضرت امامِ حسین برابر ہر سال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے پاس جاتے رہے ۔ وہ انہیں عطیہ دیتے اور ان کی بھر پور عزت کرتے ۔ (البداية والنهاية، سنة ستين من الهجرة، قصة الحسين بن علي،چشتی)
حضرت معاویہ کا حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کو تحفے بھیجنا اتنی معروف بات ہے کہ ابو مخنف شیعہ کو بھی اس سے انکار نہیں ہے موصوف لکھتے ہیں : معاویہ ہر سال امامِ حسین رضی اللہ عنہما کو ہر قسم کے تحفوں کےعلاوہ دس لاکھ دینار بھیجا کرتے تھے ۔ (مقتل الحسین علیہ السلام لابی مخنف قم مطبعہ امیر)
ﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے پیاروں کی شان میں گستاخی سے محفوظ فرمائے آمین ثم آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment