Friday 25 February 2022

نمازِ عشاء کی رکعتوں کی تعداد

0 comments
نمازِ عشاء کی رکعتوں کی تعداد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : نمازِ عشاء کی رکعتوں کی کل تعداد سترہ (17) ہے جس کی ترتیب اس طرح ہے : چار (4) سنت غیرمؤکدہ ۔ چار (4) فرض ۔ دو (2) سنت مؤکدہ ۔ دو (2) نفل ۔ تین (3) وتر ( واجب) ۔ دو (2) نفل ۔

عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ رضی اللہ عنہما کَانُوْا یَسْتَحِبُّوْنَ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ قَبْلَ الْعِشَائِ الْاٰخِرَۃِ۔(مختصر قیام اللیل للمروزی ص85 یصلی بین المغرب والعشاء اربع رکعات)
ترجمہ : حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ عشاء کی نماز سے پہلے چار رکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے ۔

عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ اَوْفٰی رضی اللہ عنہما اَنَّ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا سُئِلَتْ عَنْ صَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ فَقَالَتْ کَانَ یُصَلِّیْ صَلٰوۃَ الْعِشَائِ فِیْ جَمَاعَۃٍ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلٰی اَھْلِہٖ فَیَرْکَعُ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ ثُمَّ یَأوِیْ اِلٰی فِرَاشِہٖ۔(سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 197 باب فی صلوۃ اللیل،چشتی)
ترجمہ : حضرت زرارہ بن اوفی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی درمیانِ رات والی نماز کے متعلق پوچھا گیا ، تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ کر گھر تشریف لاتے تو چار رکعتیں پڑھتے پھر اپنے بستر پر آرام فرماتے ۔

عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہااَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کَانَ یُؤْتِرُبِثَلَاثٍ یَقْرَئُ فِیْ اَوَّلِ رَکْعَۃٍ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی وَفِی الثَّانِیَۃِ قُلْ یَااَیُّھَاالْکَافِرُوْنَ وَفِی الثَّالِثَۃِ قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ وَالْمُعَوَّذَتَیْنِ ۔ (شرح معانی الآثار جلد 1 صفحہ 200 باب الوتر،چشتی)(صحیح ابن حبان صفحہ 718 ذکر الاباحۃ للمرء ان یضم قراء ۃ المعوذتین الخ رقم الحدیث 2448)(مصنف عبد الرزاق ج 2ص404 باب ما یقرء فی الوتر الخ، رقم الحدیث 1257)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وتر تین رکعت پڑھتے تھے پہلی رکعت میں’’سبح اسم ربک الاعلیٰ‘‘ پڑھتے، دوسری رکعت میں’’قل یا ایھا الکافرون‘‘ اور تیسری رکعت میں’’ قل ھو اللہ احد‘‘ اور معوذتین پڑھتے تھے ۔

عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ رضی اللہ عنہما قَالَ سَاَلْتُ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا عَنْ صَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فَقَالَتْ کَانَ یُصَلِّیْ ثَلَاثَ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً یُصَلِّیْ ثَمَانَ رَکْعَاتٍ ثُمَّ یُوْتِرُ ثُمَّ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ وَھُوَ جَالِسٌ ۔ (صحیح مسلم جلد 1 صفخحہ 254 باب صلوۃ اللیل و عدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی اللیل)(صحیح البخاری جلد 1 صفحہ 155 باب المداومۃ علی رکعتی الفجر،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نماز کے متعلق سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ۔ پہلے آٹھ رکعت (تہجد) پڑھتے ، پھر وتر پڑھتے ، پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے ۔

عَنْ اُمِّ سَلْمَۃَ رضی اللہ عنہا اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یُصَلِّیْ بَعْدَ الْوِتْرِ رَکْعَتَیْنِ ۔ (جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 108 باب ماجاء لا وتران فی لیلۃ)(سنن ابن ماجۃ جلد 1 صفحہ 83 باب ما جاء فی الرکعتین بعد الوتر جالساً)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے ۔

نمازِ عشاء کی نذکورہ رکعات پڑھنے کا صحابہ کرام ضی اللہ عنہم کے یہاں معمول تھا ، اور ظاہر سی بات ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہوگا ، چناں جہ ”قیام اللیل للامام المروزی“ میں حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے : عن سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کانوا یستحبون أربع رکعات قبل العشاء الآخرة ۔ (قیام اللیل لمحمد نصر المروزي: ۱/۸۸، ط: فیصل آباد، پاکستان)

نیز ”الاختیار لتعللہ المختار“ جو فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہے ، اس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت نقل کی گئی ہے، جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ معمول بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عشاء سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے اورعشاء کے بعد بھی چار رکعتیں پڑھتے تھے ، پھر آرام فرماتے ۔ عن عائشة أنہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کان یصلي قبل العشاء أربعا ثم یصلي بعدہا أربعًا ثم یضطجع ۔ (۱/۶۶ الاختیار لتعلیل المختار، ط: بیروت،چشتی)

بخاری 1180،  مسلم 1699 اور بخاری 697 میں دو سنت موکدہ اور دو نفل یعنی چار رکعت عشاء کے بعد ادا کرنے کا ثبوت ملتا ہے ۔ 

حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، فرماتے ہیں : صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ العِشَاءَ ، ثُمَّ جَاءَ ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی پھر گھر آئے تو چار رکعتیں ادا کیں , پھر سو گئے ۔ (صحیح البخاری : 697،چشتی)

حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مَنْ صَلَّى أَرْبَعًا بَعْدَ الْعِشَاءِ كُنَّ كَقَدْرِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ۔
ترجمہ : جس نے عشاء کے بعد چار رکعتیں ادا کیں , تو وہ لیلۃ القدر میں ان ہی جیسی رکعتوں کے برابر ہو جائیں گی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ : 7273)

ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : أَرْبَعٌ بَعْدَ الْعِشَاءِ يَعْدِلْنَ بِمِثْلِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ۔
ترجمہ : عشاء کے بعد چار رکعتیں لیلۃ القدر میں ان ہی جیسی رکعتوں کے برابر ہیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ : 7274،چشتی)

حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مَنْ صَلَّى أَرْبَعًا بَعْدَ الْعِشَاءِ لَا يَفْصِلُ بَيْنَهُنَّ بِتَسْلِيمٍ، عَدَلْنَ بِمِثْلِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ۔
ترجمہ : جس نے عشاء کے بعد ایک سلام سے چار رکعتیں ادا کیں , تو وہ لیلۃ القدر میں ان ہی جیسی رکعتوں کے برابر ہو جائیں گی ۔ ( مصنف ابن ابی شیبۃ :7275) 

غیر مقلد وہابی نام نہاد اہلحدیث حضرات کہتے ہیں عشاء کی پہلی چار سنت غیرمٶکدہ حدیث کی کس کتاب سے ثابت نہیں اور نہ ہی فقہ حنفی کےعلاوہ کسی اور فقہ میں یہ چار رکعت ہے ۔ سوچنے کی بات ہے نہ تو دنیا کی کسی حدیث سے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پڑھی ہوں ۔ اور نہ ہی کسی صحابی سے ثابت ۔ تو یہ سنت کیسے بن گئیں دنیا کا کوئی حنفی عالم ان چار رکعت کو سنت ثابت نہیں کر سکتا ۔ غیر مقلد وہابی نام نہاد اہلحدیث حضرات کہتے ہیں کہ فقہ حنفی قرآن و حدیث سے نہیں بلکہ مرضی سے گھڑی گئی فقہ ہے جس میں نماز کی رکعتیں بھی گھر سے گھڑ لی جاتی ہیں ۔

جواب : پہلے فقہ حنفی سے اصل مسلہ سمجھیے : يُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ الْعِشَاءِ أَرْبَعًا وَقِيلَ رَكْعَتَيْنِ ۔ عشاء سے پہلے چار رکعت اور کہا گیا ہے کہ دو رکعت مستحب ہیں یعنی سنت غیر موکدہ ہیں ۔ (رد المحتار ,2/13)

وَالْأَرْبَعُ قَبْلَ الْعِشَاء وَقِيلَ أَرْبَعًا عِنْدَهُ وَرَكْعَتَيْنِ عِنْدَهُمَا كَمَا فِي النِّهَايَة ۔ عشاء سے پہلے چار رکعت مستحب ہیں سنت غیر موکدہ ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ امام اعظم کے نزدیک چار سنت غیر مؤکدہ ہیں اور صاحبین کے نزدیک دو رکعت سنت غیر موکدہ ہیں جیسے کہ نھایہ میں ہے ۔ (مجمع الأنهر,1/131بحذف یسییر،چشتی)

غیر مقلد وہابی نام نہاد اہلحدیث حضرات جو کہتے ہیں کہ کسی اور فقہ میں نہیں ہیں تو یہ صاف جھوٹ ، عدمِ توجہ یا کم علمی ہے : قَالَ فِي الْمَجْمُوعِ وَرَكْعَتَانِ قَبْلَ الْعِشَاءِ) أَيْ فَأَكْثَرُ؛ إذْ عِبَارَتُهُ ۔
(فَرْعٌ) يُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ الْعِشَاءِ الْأَخِيرَةِ رَكْعَتَيْنِ فَصَاعِدًا انْتَهَتْ اهـ حَلَبِيٌّ..وَعِبَارَةُ الشَّوْبَرِيِّ قَالَ الشَّيْخُ وَفِي شَرْحِ الْمُهَذَّبِ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ الْعِشَاءِ الْأَخِيرَةِ رَكْعَتَيْنِ فَصَاعِدًا ثُمَّ اسْتَدَلَّ بِحَدِيثِ الصَّحِيحَيْنِ ۔
فقہ شافعی کی کتاب المجموع میں ہے کہ عشاء سے پہلے دو رکعت یا دو رکعت سے زیادہ سنت غیر موکدہ ہیں، المجموع کی عبارت یوں ہے کہ مستحب ہے یعنی سنت غیر موکدہ ہے کہ عشاء سے پہلے دو رکعتیں اور دو سے زیادہ رکعتیں پڑھے …الشوبری کی عبارت یوں ہے کہ شیخ نے فرمایا کہ (فقہ شافعی کی کتاب) شَرْحِ الْمُهَذَّبِ میں ہے کہ مستحب ہے سنت غیر موکدہ ہے کہ عشاء سے پہلے دو رکعت یا دو رکعت سے زیادہ پڑھے اس مسئلے پر صحیحین کی حدیث سے دلیل پکڑی (صحیحین کی حدیث نیچے آ رہی ہے)(حاشية الجمل على شرح المنهج فتوحات الوهاب بتوضيح شرح منهج الطلاب1/481،چشتی)

بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ ، بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ»، ثُمَّ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ : لِمَنْ شَاء ۔ نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اذان و اقامت کے درمیان نماز پڑھنا ہے ۔۔۔ اذان و اقامت کے درمیان نماز پڑھنا ہے پھر تیسری مرتبہ فرمایا جو چاہے پڑھے ۔ (صحيح البخاري جلد 1 صفحہ 128 حدیث نمبر 627)

اس حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے کہ ہر اذان اور اقامت کے درمیان سنت نماز ہے ۔۔۔ لہٰذا عشاء کی اذان کے بعد اور اقامت سے پہلے نماز پڑھنا بھی سنت سے ثابت ہوگیا اور اس بات میں کوئی تخصیص نہیں ہے کہ دو رکعت ہو یا چار رکعت یا اس سے زیادہ لھٰذا چار بھی ثابت ہوگئ ۔

فَلَمْ يَزَلْ يُصَلِّي حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز(سنت غیرموکدہ) پڑھتے رہے عشاء کے فرض تک ۔ (أحمد بن حنبل ,مسند أحمد ط الرسالة ,38/430،چشتی)

مسند احمد کےحاشیہ میں اس حدیث پاک کا حکم و تخریج یوں ہے کہ : إسناده صحيح. إسرائيل: هو ابن يونس السبيعي، والمنهال: هو ابن عمرو الأسدي مولاهم. وأخرجه ابن أبي شيبة 12/96، والنسائي في “الكبرى” (380) و (381) و (8365) ، وابن خزيمة (1194،چشتی) ، وابن حبان (6960) ، والحاكم 1/312-313، والبيهقي في “دلائل النبوة” 7/78 من طريق زيد بن الحباب، بهذا الإسناد. وبعضهم يرويه مطولاً بنحو الرواية السالفة برقم (23329)

اس حدیث مبارکہ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عشاء کی نماز سے پہلے بہت سارے سنت غیر موکدہ پڑھے ۔ لھٰذا عشاء سے پہلے دو رکعت سنتیں غیر موکدہ بھی ثابت ہو گئیں عشاء سے پہلے چار رکعت سنت غیر مؤکدہ بھی ثابت ہوگئیں اور عشاء سے پہلے چار سے زیادہ بھی سنت غیر موکدہ ثابت ہوگئیں ۔

فَفِي سنَن سعيد بن مَنْصُور من حَدِيث الْبَراء رَفعه من صَلَّى قبل الْعشَاء أَرْبعا كَانَ كَأَنَّمَا تهجد من ليلته ۔
سنَن سعيد بن مَنْصُور میں حدیث مبارکہ ہے کہ جس نے عشاء سے پہلے چار رکعت پڑھے گویا کہ اس نے اس رات کی تہجد نماز پڑھ لی ۔ (ابن حجر الدراية في تخريج أحاديث الهداية1/198،چشتی)

ندب أربع قبل “العشاء” لما روي عن عائشة رضي الله عنها أنه عليه السلام كان يصلي قبل العشاء أربعا ۔
ترمہ : عشاء سے پہلے چار رکعت سنت غیر موکدہ ہیں کیونکہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عشاء سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے ۔ (مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح صفحہ 146)

نماز وتر جس کا ثبوت ابو داٶد 1419 اور 1416میں موجود ہے ، اس لیے بخاری 541 کے مطابق وتر عشاء کی نماز کے ساتھ ، سونے سے پہلے ، سونے کے بعد ، فجر کی اذان سے پہلے ادا کرنے کا ثبوت ملتا ہے ۔ وتر کی نماز واجب ہے اگر نمازِ وتر چھوٹ جائے تو قضا کی جائے گی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔