Wednesday, 2 February 2022

بیعتِ مرشد و شرائطِ مرشد اور جہلاء و کاروباری پیر حصّہ ہفتم

 بیعتِ مرشد و شرائطِ مرشد اور جہلاء و کاروباری پیر حصّہ ہفتم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : خلافت کی دوسری قسم ، خلافت خاصہ کو بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں : اور خاصہ یہ ہے کہ اس مرشد مربی کے بعد وصال ، یہ شخص اس کی مسند خاص پر ، جس پر اس کی زندگی میں سوا اس کے دوسرانہ بیٹھ سکتا ، جلوس کرے اور تمام نظم و نسق ، ورتق وفتق ، و جمع و تقسیم ، و عزل و نصب خدام ، و تقدیم و تاخیر مصالح ، و تولیت اوقاف درگاہی ، و قوامت مصارف خانقاہی میں اس کی جگہ قائم ہو ، یہ معنی بھی ہر چند باطن ان کا دین ہے، مگر روئے بظاہر بسوئے دنیا رکھتے ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ۲۱ صفحہ نمبر ۴۶۷)


جانشینی اور تولیت میں فرق


امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ جانشینی اور تولیت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں : شخص مذکور (جس کو جانشیں بنایا جائے) اس مرشد مربی (جس کا جانشیں بنایا جائے) سے خلافت عامہ بطور مقبول رکھتا ہو ، ورنہ بسبب تعامل ، یا ہمارے بلاد میں ، بوجہ عدم قضاۃ ، اتفاق ناس سے تولیت اوقاف اگر چہ صحیح ہو جائے ، مگر سجادہ نشینی ہر گز درست نہ ہوگی ، کہ وہ خلافت خاصہ ہے ، اور کوئی خاص بے عام کے متحقق نہیں ہو سکتا ، اورخلافت عامہ بے اجازت صحیحہ زنہار حاصل نہیں ہوتی ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ۴۶۹،چشتی)

 معلوم ہوا کہ اولیائے کرام کی روحانی نعمتوں کا وارث وہی ہوگا، جس کو ان نفوس قدسیہ نے ان نعمتوں کے لیے منتخب فرمایا ہو، ورنہ مال ودولت،زمین و جائداد کی وراثت تو مل سکتی ہے، باطنی وروحانی نعمتوں سے کوئی حصہ نہ ملےہوگا ،کیونکہ جانشین ہونے کے لئے اجازت یافتہ ہونا،اور دین میں کامل ہونا ضروری ہے، ورنہ ان صوفیہ صافیہ کی جگہ بیٹھنے والا ناظر،مشرف اور نگراں تو کہا جاسکتا ہے، جانشین ہرگز نہیں کہا جائے گا،بلکہ جانشین اگر کہا بھی جائے توبھی حقیقت میں جانشین نہیں ہے۔

تعدد بیعت

تعدد بیعت کے سلسلے میں جب آپ سے سوال ہوا ،تو آپ جواب دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

’’ارباب وفا، آقایان دنیا کا دروازہ چھوڑ کر، دوسرے در پر جانا، کورنمکی جانتے ہیں۔

سراینجا، سجدہ اینجا، بندگی اینجا، قرار اینجا

پھر احسانات دنیا کو احسانات حضرت شیخ سے کیا نسبت، عجب اس سے کہ محبت واخلاص پیر کا دعوٰی کرے اور اس کے ہوتے، این وآن کا دم بھرے:؎

چو دل بادلبری آرام گیرد

ز وصل دیگرے کَے کام گیرد

نہی صد دستہ ریحاں پیش بلبل

نخواہد خاطرش جز نکہت گل ۔

(فتاوی رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ۷۶،۴۷۵)

اسی بحث کے تحت پیر کی عظمت بیان کرتے ہوئےیوں تحریر کرتے ہیں:’’باپ پدر گل ہے اور پیر پدر دل، مولی معتق مشت خاک ہے او رپیر معتق جان پاک۔(فتاوی رضویہ جلد ۲۱،ص:۴۷۶)

پیر اپنے مرید کےلیےجائے شرب ہے

مرید کو یک در گیر محکم گیر ہونا چاہیے، اس ضمن میں امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ نے، ایک بزرگ کا مندرجہ ذیل واقعہ نقل کیا ہے:حضور پر نور سید الاولیاء الکرام امام العرفاء العظام حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سیدی علی بن ہیتی قد س سرہ الملکوتی کے یہاں رونق افروز ہوئے، حضرت علی بن ہیتی نے اپنے مرید خاص، ولی بااختصاص، سیدی ابوالحسن علی جوسقی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو حکم دیا کہ خدمت حضرت غوثیت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملازمت اختیار کریں، اور یہ پہلے فرماچکے تھے کہ میں حضور پر نور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلاموں سے ہوں، سیدی ابوالحسن قدس سرہٗ ،پیر سے یہ کچھ سن کر اس پر رونے لگے اور آستانہ پیر چھوڑ نا کسی طرح نہ چاہا، حضرت غوث الاولیاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں روتاد یکھ کر فرمایا: مایحب الا الثدی الذی رضع منہ۔جس پستان سے دودھ پیا ہے اس کے غیر کو نہیں چاہتا ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۱، ص:۴۷۷)

پیر اپنے مرید کےلیے جائے شرب ہے، جہاں اللہ کی نعمتوں سے وہ فیضیاب اور شہود کے جام سے سیراب ہوتاہے، اور جو اپنے پیر کا مقبول ہوتا ہے وہ تمام مشائخ کامقبول اور جو اپنے پیر کا مردود، تمام مشائخ کا مردود ہوتا ہے ۔مقبول یکے، مقبول ہمہ، مردود یکے، مردود ہمہ۔

احترام سب کا کرنا چاہیے مگر جبین نیاز صرف اپنے پیر کے آستانے پرہی خم کرنا، کار دانش منداں ہے۔

اس سلسلے میں صاحب فتاوی رضویہ مرید صادق کی ارادت اور آداب شیخ کو ثابت کرتے ہوئے’’ المدخل لابن الحاج‘‘ سے مندرجہ ذیل عبارات نقل کرتے ہیں:

’’المرید یعظم شیخہ ویؤثرہ علی غیرہ ممن ہو فی وقتہ لان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یقول من رزق فی شیئ فلیزمہ (الی اٰخر ما افاد واجاد ہذا مختصراًیعنی مرید اپنے پیر کی تعظیم کرے اور اسے تمام اولیائے زمانہ پرمرجح رکھے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں، جو کسی شئ میں رزق دیا جائے، چاہیے کہ اسے لازم پکڑے ۔ (المدخل لابن الحاج، حقیقۃ اخذ العہد، دارالکتب العربی، بیروت ،ص: ۲۲۳ و ۲۲۴)

اسی میں ہے:ان المرید لہ اتساع فی حسن الظن بہم وفی ارتباطہ علی شخص واحد یعول علیہ فی امورہ ویحذر من تقضٰی اوقاتہ لغیرہ فائدۃ۔ترجمہ:مرید کے لیے وسعت اس میں ہے کہ اپنے زمانہ کے تمام مشائخ کے ساتھ گمان نیک رکھے اور ایک شیخ کے دامن سے وابستہ رہے اور اپنے تمام کاموں میں اسی پر اعتماد کرے اور بے فائدہ تضیع اوقات سے بچے۔(المدخل لابن الحاج فصل فی دخول المرید الخلوۃ،دارالکتب العربی بیروت۳/ ۱۶۰،بحوالہ:فتاویٰ رضویہ،ج:۲۱،ص:۴۷۸،چشتی)

یہ تمام بحثیں اس پیر کے بارے میں ہے جو صاحب ایصال ہو ، یا کم از کم صاحب اتصال ہو مگر مریدین کی تربیت کرنا جانتا ہو اور اپنی صحبت میں ناقصوں کو اس لیے رکھتا ہو کہ وہ کامل ہو جائیں یا کاملین کی صحبت کے لائق ہوجائیں اور پھر اپنے سے زیادہ کامل و مکمل شیخ کی صحبت میں بھیج دے۔ اوراگرشیخ ایساہوکہ خودہی کامل نہ ہو اور نہ ہی تربیت مریدین سے واقف ہو۔یا تربیت مریدین سے واقف توہو،مگر تربیت کرنے اور اپنی صحبت میں رکھنے کی گنجائش نہ پاتاہو،دینی ذمہ داریوں کی وجہ سے طالبین کی تربیت نہ کرپاتاہو،توایسے شیخ کو چاہیے کہ اپنے مریدین کو کسی کامل ومکمل شیخ ومربی کی صحبت میں ڈال دے، اوراگر شیخ ایسانہ کرے تو طالبین مولیٰ کو چاہیے کہ اس پیرسے بدظن ہوئے بغیر کسی کامل ومکمل کی صحبت اختیارکرے اور اس کامل ومکمل کی صحبت کو پہلے شیخ کے فیضان سے جانے۔کیوں کہ بیعت وارادت کامقصد تزکیہ نفس اورتصفیہ قلب ہے ،اور وہ بغیر صحبت شیخ ومربی کے ممکن نہیں۔


پیر و مرشد کے بغیر فلاح


امام احمد رضا قادری سے سوال کیا گیا کہ زید کا پیر ومرشد نہ ہوتو کیا زید فلاح نہ پائے گا؟ اس سوال کے جواب میں سب سے پہلے آپ نے متقدمین مشائخ و صوفیہ کی کتابوں، مثلا عوارف المعارف، رسالہ قشیریہ،اور سبع سنابل شریف سے پیرومرشدکی اہمیت وضرورت پر ایک ایک اقتباس نقل کیا اور پھر فلاح کی مختلف قسموں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا،فلاح کی تقسیمات کا بغورجائزہ لیاجائے تو مندرجہ ذیل قسمیں نکلتی ہیں:

۱۔فلاح مطلق ،جس کو فلاح ایمان بھی کہاجاتاہے۔

۲۔ فلاح ظاہر،جس کو فلاح تقویٰ کا نام دیا جاتاہے۔

۳۔ فلاح باطنی،جس کو فلاح احسان کےنام سے یاد کیا جاتاہے۔

امام احمد رضا قادری کی تحریروں کی روشنی میں سب سے پہلے ہم فلاح ایمان اور اس کی مختلف صورتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

فلاح مطلق یعنی فلاح ایمان کی پہلی صورت

’’اول انجام کا ررستگاری (نجات) اگر چہ معاذاللہ سبقت عذاب کے بعد ہو، یہ عقیدہ اہل سنت میں ہر مسلمان کے لئے لازم اور کسی بیعت ومریدی پر موقوف نہیں، اس کے واسطے صرف نبی کو مرشد جاننا بس ہے۔ بلکہ ابتدائے اسلام میں کسی دور دراز پہاڑ یا گمنام ٹاپو کے رہنے والے غافل جن کو نبوت کی خبر ہی نہ پہنچی اوردنیا سے صرف توحید پر گئے، بالآخر ان کے لیےبھی یہ فلاح ثابت۔(فتاوی رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ۹۸۔۴۹۷)

اتنا فرمانے کے بعد موحد کی نجات کی بحث کی اور حدیثی دلائل سے اپنی باتوں کو مدلل فرماتے ہوئے، مسئلہ شفاعت پر نہایت کافی وشافی بحث کرتے ہوئے، متعدد احادیث بھی پیش کی اور پھر فلاح ایمان کی دوسری صورت کو یوں تحریر کیا:

فلاح ایمان کی دوسری صورت

’’دوم کامل رستگاری کہ بے سبقت عذاب دخول جنت ہو۔(فتاوی رضویہ جلد ۲۱ص:۴۹۹،چشتی)

فلاح ایمان کی پہلی صورت میں سبقت عذاب کے بعد نجات کے حصول کا ذکر کیا اور دوسری صورت میں بلا سبقت عذاب نجات کا حاصل ہونا بتایا گیا اور پھر دوسری صورت کی بھی دوقسمیں کی جس کو ہم فلاح ایمان کی تیسری اورچوتھی صورت کے طور پر شمار کرتے ہیں۔

فلاح ایمان کی تیسری صورت

’’(۱)اول وقوع یہ مذہب اہلسنت میں محض مشیت الٰہی پر ہے ،جسے چاہے ایسی فلاح عطا فرمائے، اگر چہ لاکھوں کبائر کا مرتکب ہو،اور چاہے تو ایک گناہ صغیرہ پر گرفت کرلے ،اگر چہ لاکھوں حسنات رکھتاہو۔یہ عدل ہے اور وہ فضل :یغفرلمن یشاء ویعذب من یشاء ۔(فتاوی رضویہ جلد ۲۱، صفحہ ۵۰۰)

امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ نے اتنا ذکر کرنے کےبعد مختلف دلائل سے اپنے موقف کو مدلل کیا ، چند آیتیں پیش کی اور کچھ آحادیث کا ذکر کیا اور پھر فلاح مطلق یعنی فلاح ایمان کی دوسری صورت کے دوسرے پہلو کو یوں بیان کیا۔جس کو ہم فلاح ایمان کی چوتھی صورت کے طورپر تحریر کرتے ہیں۔

فلاح ایمان کی چوتھی صورت

’’(۲) دوم امیدیعنی انسان کے اعمال، افعال، اقوال اوراحوال ایسے ہونا،کہ اگر انہی پر خاتمہ ہو، تو کرم الٰہی سے امید واثق ہو،کہ بلا عذاب، داخل جنت کیا جائے۔ یہی وہ فلاح ہے جس کی تلاش کاحکم ہے کہ سابقوا لی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضہا کعرض السماء والارض۔ ترجمہ:جلدی کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس کی جنت کی طرف، جس کی چوڑائی آسمان وزمین کے پھیلاؤ کی مانندہے ۔(فتاوی رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ۵۰۲)

فلاح مطلق کی ان مذکورہ صورتوں کو فلاح ایمان سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان مذکورہ صورتوں میں نجات تک رسائی کے لیےایمان ہی مدارہے۔

فلاح مطلق کی چوتھی صورت کی صاحب فتاویٰ رضویہ نے پھر دوقسمیں کی ہیں،جو مندرجہ ذیل ہیں:(۱) قسم اول جس کو فلاح ظاہر کا نام دیاہے۔ (۲) دوسری قسم جس کو فلاح باطنی سے یاد فرمایا ہے۔ فلاح ظاہر کو فلاح تقوی اور فلاح باطنی کو فلاح احسان بھی کہا جا تاہے ، امام احمد رضا قادری نےفلاح ظاہر کو یوں بیان کیا ہے:فلاح ظاہر یعنی فلاح تقوی کا بیان ۔ فلاح ظاہر جو فلاح ایمان کے مقابلے میں دوسری قسم ہے اور فلاح ایمان کی چوتھی صورت کی طرف نظرکرتے ہوئےجو اس کامقسم ہے ، پہلی قسم ہے،اس کو فلاح ظاہر کہے جانے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ ورسول نے جن کاموں کا حکم دیاہے اورجن کاموں سے روکاہے،جن میں قلبی اورباطنی امراض بھی شامل ہیں،مثلاًبغض وحسد،عجب وریا وغیرہ۔ان تمام احکام وامراض کا شرع نے واضح طورپر ذکر کردیاہے۔ ان کے سارے احکام ظاہرہیں،جن پر عمل کرکے انسان فلاح ظاہر یعنی فلاح تقوی تک پہنچ سکتاہے۔

(۱)’’ اول فلاح ظاہر، حاشا اس سے وہ مراد نہیں کہ نرے ظاہر داروں کو مطلوب، جن کی نظر صرف اعمال جوارح پر مقصور، ظاہر احکام شرع سے آراستہ اور معاصی سے منزہ کرلیا اور متقی ومفلح بن گئے، اگر چہ باطن ریاوعجب، وحسد وکینہ، وحب مدح وحب جاہ، ومحبت دنیا، وطلب شہرت ،وتعظیم امراء، وتحقیر مساکین، واتباع شہوات، ومداہنت وکفران نعم، وحرص وبخل وطول امل، وسوئے ظن، وعناد حق اوراصرار باطل، و مکر وغدر وخیانت وغفلت، وقسوت، وطمع وتملق، واعتماد خلق، ونسیان خالق، ونسیان موت، وجرأت علی اللہ ونفاق، واتباع شیطان، وبندگی نفس، ورغبت بطالت وکراہت عمل، وقلت خشیت وجزع ، و عدم خشوع، وغضب للنفس، وتساہل فی اللہ وغیرہا مہلکات ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۱، صفحہ ۵۰۲)

’’حاشا معاملہ پڑنے دیجئے، کون سی ناگفتنی ہے کہ نہ کہیں گے، کون سی ناکردنی ہے کہ اٹھا رکھیں گے، اورپھر بدستور صالح عوام کی کیا گنتی، آج کل بہت علمائے ظاہر اگر متقی ہیں بھی تو اسی قسم کے،الا من شاء اﷲوقلیل ماھم میں اسے زیادہ مشرح کرتا،مگر کیا فائدہ کہ حق تلخ ہوتاہے، اس سے نفع پانا اور اپنی اصلاح کی طرف آنا درکنار، بتانے والے کے الٹے دشمن ہوجاتے ہیں۔(فتاوی رضویہ جلد نمبر ۲۱ صفحہ نمبر ۵۰۳،چشتی)

یہاں عوام کے ساتھ علمائے ظاہر دارجنہوں نےافعال جوارح کوہی سب کچھ سمجھ رکھا ہے اور قلبی امراض سے غافل ہوچکے ہیں، پر اپنے غم وغصہ کا اظہارکرنے کے بعد مزید تحریر کرتے ہیں:’’بالجملہ اس صورت کو فلاح سے علاقہ نہیں ،صاف ہلاکت ہے، بلکہ فلاح ظاہر یہ کہ دل وبدن دونوں پر جتنے احکام الٰہیہ ہیں، سب بجالا ئے، نہ کسی کبیرہ کاارتکاب کرے، نہ کسی صغیرہ پر مصر رہے ،نفس کے خصائل ذمیمہ اگر دفع نہ ہوں تو معطل رہیں ، ان پر کاربند نہ ہو، مثلا دل میں بخل ہے تونفس پر جبر کرکے ہاتھ کشادہ رکھے، حسدہے تو محسود کی برائی نہ چاہے ۔ علی ھذا القیاس کہ یہ جہاد اکبر ہے اور اس کے بعد مواخذہ نہیں،بلکہ اجر عظیم ہے۔

حدیث میں ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

’’ثلاث لم تسلم منہا ھذا ا لامۃ الحسد و الظن والطیرۃ الاانبئکم بالمخرج منہا اذا ظننت فلا تحقق واذا حسدت فلاتبغ واذا تطیرت فامض، رواہ رستہ فی کتاب الایمان عن الامام الحسن البصری مرسلا ووصلہ ابن عدی عن ابی ہریرۃ رضی ﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم بلفظ اذاحسدتم فلاتبغوا واذا ظنتم فلا تحققوا واذا تطیرتم فامضوا وعلی اﷲ فتوکلوا۔‘‘(کنز العمال ،بحوالہ فتاوی رضویہ ،ج:۲۱،ص:۴۔۵۰۳)

ترجمہ:تین خصلتیں اس امت سے نہ چھوٹیں گی، حسد، بدگمانی اور بدشگونی، کیا میں تمھیں ان کا علاج نہ بتادوں، بد گمانی آئے تو اس پر کار بند نہ رہو اور حسد آئے تو محسود پر زیادتی نہ کرو اور بد شگونی کے باعث اپنے کام سے باز نہ آؤ اور اللہ ہی  پر بھروسہ رکھو۔

’’یہ فلاح تقویٰ ہے،اس سے آدمی سچا متقی ہوجاتاہے، ہم نے اسے فلاح ظاہر بایں معنی کہا کہ اس میں جو کچھ کرنا، نہ کرنا ہے، اس کے احکام ظاہر وواضح ہوچکے ہیں۔ قد تبین الرشد من الغی ۔ (فتاوی رضویہ جلد۲۱،ص:۵۰۴)

فلاح احسان کابیان

علمائےظاہر کو اپنی ظاہر داری ،بدخوئی اور عیب بینی کی عادتوں سے نکل کر، صلاح وتقوی کے میدان میں کمر بستہ ہونے کی دعوت دینے کے بعد امام احمد رضا قادری نے فلاح باطنی، جس کو فلاح احسان بھی کہا جاتا ہے، کوبیان کیا،فلاح احسان ،فلاح ایمان کی طرف نسبت کرتے ہوئے فلاح کی تیسری قسم بنتی ہے، جب کہ فلاح ایمان کی چوتھی صورت کی طرف نظرکرتےہوئے دوسری قسم ہے۔

فلاح باطنی ،فلاح کی تیسری اورآخری قسم ہے ،وہ یہ ہے کہ قلب وقالب رذائل سے بالکل خالی اورفضائل سے اس قدر روشن ومنور ہوجائے کہ لامقصود الا اللہ  اور لا مشہودالاللہ تک رسائی حاصل ہو،اس فلاح کے ذریعے سالک اس مقام پر فائز ہوتاہے،جہاں مشاہدۂ ربانی کی نعمت سے سرفراز کیاجاتاہے۔

فلاح تقویٰ میں سالک کو دخول جنت اور جہنم سے نجات حاصل ہوتی ہے ۔ جب کہ فلاح احسان میں بلندیٔ درجات و مقامات قرب و مشاہدات ربانی کے انعام سے سرفراز کیا جاتا ہے، اس سلسلے میں صاحب فتاویٰ رضویہ تحریرکرتے ہیں:’’دوم فلاح باطنی کہ قلب وقالب رذائل سے متخلی اور فضائل سے متجلی کرکے بقایات شرک خفی دل سے دورکیےجائیں، یہاں تک کہ لامقصود الا ﷲ ، پھرلامشہود الا اللہ  پھر لاموجود الا اللہ،متجلی ہو ،یعنی اولاً، ارادۂ غیر سے خالی ہو، پھر غیر نظر سے معدوم ہو، پھر حق حقیقت جلوہ فرمائے کہ وجود اسی کے لیے ہے (یعنی موجود بالذات صرف وہی ہے۔علیمی ) باقی سب ظلال وپرتو(یعنی ارداۂ الٰہی کا ظہور ہیں۔علیمی ) یہ منتہائے فلاح و فلاح احسان ہے۔ فلاح تقویٰ میں تو عذاب سے دوری اور جنت کا چین تھا کہ : فمن زحزح عن النار وادخل الجنۃفقد فاز ۔جو جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ ضرورفلاح کو پہنچا۔ اور فلاح احسان اس سے اعظم ہے کہ عذاب کا کیا ذکر،کسی قسم کا اندیشہ وغم بھی ان کے پاس نہیں آتا،الا ان اولیاء اﷲ لاخوف علیہم ولاھم یحزنون ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۱، صفحہ ۵۔۵۰۴،چشتی)

’’جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے‘‘ کی تحقیق اور مرشد کی تقسیم

سائل نے یہ بھی دریافت کیا تھا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ جس کاکوئی پیر نہیں، اس کا پیر شیطان ہے، اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟اس کا جواب دیتے ہوئے سب سے پہلےمرشد کی اوربیعت کی قسمیں بیان کرتے ہیں، اس کے بعد بتائیں گے کہ کس فلاح کا حصول بغیر مرشد کے ممکن ہے اور کس فلاح کا حصول مشکل ، قریب بہ ناممکن ہے۔ اور یہ قول جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے، کا انطباق کب اور کن لوگوں پر ہوگا ،ان ساری بحثوں سے پہلے اقسام فلاح کی طرح، مرشداوربیعت کی قسموں سے بھی آگاہ ہوناضروری ہے۔بغیر اس کے یہ تمیز مشکل ہوگا کہ سلوک کا کون سا موڑ ہے جہاں یہ کہاجائے گاکہ جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے،اس ضمن میں امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ نےمرشد کی دو قسمیں کی ہے:

۱۔مرشد عام ۲۔مرشد خاص

مرشد عام یعنی مرشد مطلق کا بیان

مرشد مطلق جو ہر خاص و عام کے لیے مرشد و ہادی ہے، و ہ کتاب اللہ اور مرشد اعظم نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور ان کی سنت اور اجماع صحابہ و ائمہ صالحین اور علمائے راسخین فی العلم کا قیاس ہے ۔ عوام کا مرشد اقوال علماے راسخین اور علما کا مرشد اقوال ائمہ مرشدین اور ائمہ کا مرشد اقوال صحابہ اور صحابہ کا مرشد رسول اور سنت رسول ہے اور رسول کا مرشداللہ اور اس کا کلام ہے ۔

مرشد مطلق کے بغیر کسی کو چارہ نہیں مرشد خاص بھی اس کا محتاج ہے، اسی لیے مرشد خاص کو مرشدمقید بھی کہا جاتا ہے؛ کیوں کہ مشائخ عظام اور مرشدین کرام حضرات بھی کتاب اللہ، سنت رسول اور اجماع صحابہ و ائمۂ ہدیٰ کے محتاج اور اس کے پابند ہیں ۔ مرشد مطلق کےتعلق سے امام احمد رضا قادری تحریر فرماتے ہیں :

’’مرشد عام کہ کلام اللہ وکلام الرسول و کلام ائمہ شریعت وطریقت وکلام علمائے دین اہل رشد و ہدایت ہے، اسی سلسلہ صحیحہ پر کہ عوام کا ہادی کلام علماء، علماء کا رہنماکلام ائمہ، ائمہ کا مرشد، کلام رسول ، رسول کا پیشوا کلام اللہ جل وعلا وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ، فلاح ظاہر ہو یا فلاح باطن، اسے اس مرشد کے بغیر چارہ نہیں، جو اس سےجدا ہے بلا شبہ کافر ہے یا گمراہ اور اس کی عبادت بربادو تباہ۔‘‘(فتاویٰ رضویہ،ج:۲۱،ص:۵۰۵)

مرشد خاص یعنی مرشد مقید کا بیان

دوسری قسم مرشدخاص کہ راہ سلوک میں قدم رکھنے والوں اورقرب خدا کے طالبوں اور مشاہدۂ ربانی کے خواستگاروں کے لیے، مرشدعام کے ساتھ مرشد خاص کی بھی ضرورت ہے۔ مرشد خاص جو مرشداعظم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نائبین میں سے ہوں گے۔جن کو شیخ اورپیربھی کہاجاتاہے،اس کی دوقسمیں ہیں:

۱۔شیخ اتصال  ۲۔شیخ ایصال

شیخ اتصال کابیان

شیخ اتصال ،ہر وہ مسلمان مردہوسکتاہے ،جو مندرجہ ذیل شرائط کا جامع ہو:

۱۔سنی صحیح العقیدہ؛ اشعر ی یا ماتریدی میں سے کوئی ہو مگر راسخ العقیدہ ضرور ہواور اس آیت کریمہ کا مظہر ہو:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ۔(الحجرات: 15)

ایمان والے توصرف وہ لوگ ہیںجو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے ، پھر شک میں نہ پڑے اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے رہے، یہی وہ لوگ ہیں جو (دعویٔ ایمان میں) سچے ہیں۔

۲۔اوامرکا عالم اور عامل ہویعنی فرائض و واجبات کو جانتا اور اس پر عمل پیرا ہو ۔ خواہ مذہباً حنفی،شافعی،مالکی،حنبلی میں سے کسی بھی مذہب پر ہو ۔

۳۔نواہی کاعالم و عامل ہو یعنی حرام قطعی و ظنی اور کبیرہ کی معرفت رکھتا ہو اور اس سے بچتا بھی ہو اور صغیرہ پر مصر نہ ہو ۔

۴۔اس کے بیعت وصحبت(ایسی صحبت جو ارادت کے ساتھ ہو، یا جو صحبت ارادت سے بدل گئی ہو۔)اوراجازت کا سلسلہ مرشداعظم نبی کریم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہو۔

شیخ ایصال کابیان

شیخ ایصال وہی شخص ہوسکتاہے جو مذکورہ شرائط اربعہ کاجامع ہونےکے ساتھ، نفس کے مفاسد اورشیطان کے مکراور اس کی باریک چالوں سے اچھی طرح واقف، اورجادۂ علم وعقل کے ساتھ جادۂ عشق وعرفان کا حامل بھی ہو،شریعت وطریقت کے رموز کے ساتھ، حقیقت ومعرفت کے اسرارسے واقف بھی ہو اور اپنے متعلقین پر شفقت تامہ بھی رکھتاہو،کہ ان کو عیوب پر مطلع کرے اور شفقت کے ساتھ ان کا علاج بھی اور راہ سلوک میں جو بھی پریشانیاں آئیں ان کو حل کرے۔جذب وسلوک کی راہ سے خودبھی گزرا،اوراس کی تمام باریکیوں کوجانتا ہو،نہ محض مجذوب ہو اور نہ فقط سالک،کیوں کہ وہ اگر صرف مجذوب ہوگاتو سالکین کی تربیت نہ کرسکے گا،کہ وہ طریقۂ تربیت سے خود ہی واقف نہیں ہے۔اوراگر فقط سالک ہوگا تو وہ ابھی خودہی راہ میں ہے،جب وہ خود ہی کامل نہیں تو مکمل کیسے ہوسکتاہے۔

ان مذکورہ مفاہیم کو امام احمد رضااپنے الفاظ میں یوں تحریر فرماتےہیں:’’دوم شیخ ایصال کہ شرائط مذکورہ کے ساتھ مفاسدنفس ،انفس کے فسادات و مکائد شیطان و مصائد ہوا سے آگاہ ہو ، دوسرے کی تربیت جانتا اور اپنے متوسل پر شفقت تامہ رکھتا ہو کہ اس کے عیوب پر اسے مطلع کرے،ان کا علاج بتائے،جو مشکلات اس راہ میں پیش آئیں ،حل فرمائے،نہ محض سالک ہو ،نہ نرا مجذوب ۔عوارف شریف میں فرمایا،یہ دونوں قابل پیری نہیں،اقول: اس لیے کہ اول خود ہنوزراہ میں ہے ،اوردوسرا طریق تربیت سے غافل،بلکہ مجذوب سالک ہویاسالک مجذوب،اوراول اولیٰ ہے۔(فتاوی رضویہ جلد ۲۱، صفحہ ۵۰۷،چشتی)

مذکورہ مفاہیم کو مرشدی حضورداعی اسلام ،عارف باللہ شیخ ابوسعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی ادام اللہ ظلہ علینا یوں فرماتے ہیں:جو نہ ہو مستغرق باری تمام اس سے بیعت اور نسبت ہے حرام ۔ اسوۂ حسنہ کا جو حامل نہیں ۔ شیخ درویشی میں وہ کامل نہیں ۔ صاحب علم وعمل ہو شیخ دیں ۔ پیکر صدق وصفا صاحب یقیں ۔ اہل سنت والجماعت سے ہو شیخ ۔ شیخ کامل کی اجازت سے ہو شیخ

علم و عقل وعشق کی دولت بھی ہو ۔ صاحب دل صاحب ثروت بھی ہو ۔ (نغمات الاسرارفی مقامات الابرار،ص:۷۰مطبوعہ:شاہ صفی اکیڈمی،الہ آ باد)

بیعت کا بیان

شیخ مرشد کی دوقسمیں ہیں(۱)مرشدعام ،مرشدخاص،پھر خاص کی بھی دوقسمیں بیان کی (۱)مرشد اتصال(۲)مرشدایصال ۔اس کے بعدیہ جانناکہ کس فلاح کے لیے کس مرشد کی ضرورت ہے،اس سے قبل بیعت کی قسموں اور سالک کے حوالے سے چند باتوں کا ذہن نشیں ہوناضروری ہے۔ہم ذیل میں بیعت وارادت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں:

بیعت کی دوقسمیں ہیں:   ۱۔ بیعت تبرک  ۲۔بیعت ارادت

بیعت تبرک کا بیان

بیعت تبرک وہ بیعت ہے جس کے ذریعے صرف برکت کے حصول کی نیت کی جائے، اس کے لیے بھی صالح نیت ہوناضروری ہے۔اس بیعت کے لیے شیخ خاص ،صاحب اتصال جو شرائط شیخی یعنی شرائط اربعہ کا جامع ہو کافی ہے۔اس ضمن میں آپ تحریرفرماتے ہیں:’’اول بیعت برکت کہ صرف تبرک کے لیے داخل سلسلہ ہو جانا ، آج کل عام بیعتیں یہی ہیں، وہ بھی نیک نیتوں کی،ورنہ بہتوں کی بیعت دنیاوی اغراض فاسدہ کے لیے ہوتی ہے، وہ خارج از بحث ہے،اس بیعت کے لیے شیخ اتصال کہ شرائط اربعہ کا جامع ہو، بس ہے۔(فتاویٰ رضویہ، ج:۲۱، ص:۵۰۷)

آپ فرماتے ہیں کہ آج کل عام بیعتیں تبرکاً ہی ہیں وہ بھی نیک نیتوں کی، یہ آج سے تقریباً ایک سو سولہ سال پہلے کی بات ہے ،آج کیا حال ہوگا؟واللہ اعلم بالصواب۔

اس کے بعدآپ نے اپنے مذکورہ باتوں کی تاکید میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی قدس سرہٗ کی معروف کتاب ’’عوارف المعارف‘‘سےمندرجہ ذیل اقتباس نقل کیا:’’سیدناشیخ الشیوخ شہاب الحق والدین سہرودی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عوارف المعارف شریف میں فرماتے ہیں :واعلم ان الخرقۃ خرقتان خرقۃ الارادۃ وخرقۃ التبرک والاصل الذی قصدہ المشایخ للمریدین خرقۃ الارادۃ وخرقۃ التبرک تشبہ بخرقۃ الارادۃ فخرقۃ الارادۃ للمرید الحقیقی وخرقۃ التبرک للمتشبہ ومن تشبہ بقوم فھومنہم ۔ترجمہ:واضح ہو کہ خرقے دو ہیں : خرقہ ارادات و خرقہ تبرک، مشائخ کا مریدوں سے اصل مطالبہ خرقہ ارادت ہے اور خرقہ تبرک کو اس سے مشابہت ہے تو حقیقی مرید کے لئے خرقہ ارادت ہے اور مشابہت چاہنے والوں کے لیے خرقہ تبرک اور جو کسی قوم سے مشابہت چاہے وہ انہی میں ہے(عوارف المعارف ،الباب الثانی عشر،مطبعۃ المشہدالحسینی القاہرہ، ص: ۷۹بحوالہ فتاوی رضویہ جلد ۲۱، ص : ۵۰۸)

بیعت ارادت کا بیان

’’دوم بیعت ارادت کہ اپنے ارادہ واختیار سے یکسر باہر ہوکر، اپنے آپ کو شیخ مرشد، ہادی برحق ،واصل حق کے ہاتھ میں بالکل سپرد کردے، اسے مطلقاً اپنا حاکم ومالک اور متصرف جانے، اس کے چلانے پر راہ سلوک چلے، کوئی قدم بے اس کی مرضی کے نہ رکھے، اس کے لیے بعض احکام یا اپنی ذات میں خود اس کے کچھ کام، اگر صحیح نہ معلوم ہوں، انھیں افعال خضرعلیہ الصلٰوۃ والسلام کے مثل سمجھے، اپنے عقل کا قصور جانے، اس کی کسی بات پر دل میں بھی اعتراض نہ لائے، اپنی ہر مشکل اس پر پیش کرے، غرض اس کے ہاتھ میں مردہ بدست زندہ ہوکر رہے۔ یہ بیعت سالکین ہے اور یہی مقصود مشائخ مرشیدین ہے۔ یہی اللہ عزوجل تک پہنچاتی ہے، یہی حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ وسلم سے لی ہے، جسے سیدنا عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ :بایعنا رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم علی السمع والطاعۃ فی العسر والیسر والمنشط والمکرہ وان لاننازع الامر اھلہ ۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اس پر بیعت کی، کہ ہر آسانی و دشواری، ہر خوشی وناگواری میں حکم سنیں گے اور اطاعت کریں گے اور صاحب حکم کے کسی حکم میں چوں وچرانہ کریں گے۔(صحیح البخاری، کتاب الفتن،باب قول النبی ﷺ سترون بعدی اموراً قدیمی کتب خانہ کراچی،۲/۱۰۴۵ بحوالہ فتاوی رضویہ جلد۲۱ ، ص:۵۰۹)

شیخ ہادی کا حکم، رسول کا حکم ہے اور رسول کاحکم، اللہ کاحکم اور اللہ کے حکم میں مجال دم زدن نہیں۔ اللہ عزوجل فرماتاہے :وماکان لمؤمن ولامؤمنہ اذا اقضی ﷲ ورسولہ امرا ان یکون لہم الخیرۃ من امرھم ومن یعص ﷲ ورسولہ فقد ضل ضلا لامبینا۔ (القرآن،۳۳/۳۶)کسی مسلمان مرد وعورت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب اللہ ورسول ،کسی معاملہ میں کچھ فرمادیں ،تو پھر انھیں کام کا کوئی اختیار رہے اور جو اللہ ورسول کی نافرمانی کرے وہ کھلا گمرا ہ ہوا۔عوارف شریف میں ارشاد فرمایا :دخولہ فی حکم الشیخ دخولہ فی حکم ﷲ ورسولہ واحیاء سنۃ المبایعۃ۔شیخ کے زیر حکم ہونا،اللہ ورسول کے زیر حکم ہونا ہے اور اس بیعت کی سنت کازندہ کرنا۔ نیز فرمایا : ولایکون ھذا  الالمرید حصر نفسہ مع الشیخ وانسلخ من ارادۃ نفسہ وفنی فی الشیخ بترک اختیار نفسہ۔یہ نہیں ہومگر اس مرید کے لیے جس نے اپنی جان کو شیخ کی قید میں کردیا اور اپنے ارادے سے بالکل باہرنکل گیااور اپنا اختیار چھوڑ کر شیخ میں فنا ہوگیا۔

(عوارف المعارف،الباب الثانی عشر،مطبعہ المشہد الحسینی قاہرہ،ص:۷۸،بحوالہ فتاوی رضویہ جلد ۲۱، ص:۵۰۹۔۵۱۰)

پیروں پر اعتراض

پیروں پر اعتراض کے سلسلے میں صاحب فتاویٰ رضویہ نے ’’عوارف شریف‘‘سے مندرجہ ذیل اقتباس کونقل کیاہےجو اہل محبت وادب کے لیے کافی ہے۔’’فرمایا :ویحذر الاعتراض علی الشیوخ فانہ السم القاتل للمرید ین، وقل ان یکون مرید یعترض علی الشیخ بباطنہ فیفلح، ویذکر المرید فی کل ما اشکل علیہ من تصاریف الشیخ قصۃ الخضر علیہ السلام کیف کان یصدر من الخضر قصاریف ینکرھا موسٰی، ثم لما کشف لہ عن معنا ھا بان لموسی وجہ الصواب فی ذٰلک فھکذا ینبغی للمرید ان یعلم ان کل تصرف اشکل علیہ صحتہ من الشیخ عند الشیخ فیہ بیان وبرھان للصحۃ۔ پیروں پر اعتراض سے بچے، کہ یہ مریدوں کے لئے زہر قاتل ہے۔ کم کوئی مرید ہوگا، جو اپنے دل میں شیخ پر کوئی اعتراض کرے، پھر فلاح پائے، شیخ کے تصرفات سے جو کچھ اسے صحیح نہ معلوم ہوتے ہوں ،ان میں خضر علیہ الصلاۃ والسلام کے واقعات یاد کرلے، کیونکہ ان سے وہ باتیں صادر ہوتی تھیں بظاہر جن پر سخت اعتراض تھا (جیسے مسکینوں کی کشتی میں سوراخ کردینا، بے گناہ بچے کو قتل کردینا) پھر جب وہ اس کی وجہ بتاتے تھےتو ظاہر ہوجاتا تھاکہ حق یہی تھا، جو انھوں نے کیا، یوں ہی مریدکو یقین رکھنا چاہیے کہ شیخ کا جو فعل مجھے صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ شیخ کے پاس اس کی صحت پر دلیل قطعی ہے۔‘‘(عوارف المعارف، الباب الثانی عشر مطبعہ المشہد الحسینی،قاہرہ،ص:۷۹، بحوالہ،فتاوی رضویہ،ج:۲۱،ص۵۱۰)


خلاصہ : شیخ ومرشد اور بیعت کی قسموں کو بیان کرنے کے بعد خلاصے کے طور پر امام احمد رضاقادری تحریر فرماتے ہیں:

“جب یہ اقسام معلوم ہولیے تو اب حکم مسئلہ کی طرف چلئے،مطلق فلاح کےلیے مرشد عا م کی قطعاً ضرورت ہے،فلاح تقویٰ ہو یا فلاح احسان اس مرشدسے جداہوکرہرگز نہیں مل سکتی، اگرچہ مرشدخاص رکھتا،بلکہ خود مرشدخاص بنتاہو۔”(فتاویٰ رضویہ، ج : ۲۱، ص : ۵۱۱)

مرشد عام یعنی مرشداعظم صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام عالم کے لیے ہادی بنا کر بھیجے گئےان  پر ایمان لانا اور ان کو اپنا مرشد وہادی جانناہر اس شخص پر ضروری ہے جو فلاح کے کسی درجے پر فائز ہونا چاہتاہو،خواہ فلاح ایمان ہو ،یا فلاح احسان ،مرشدعام کے بغیر کسی بھی فلاح کا حصول محال ہے۔

فلاح کی تین قسمیں کی گئیں ہیں:

۱۔ فلاح ایمان  ۲۔فلاح تقویٰ ۳۔ فلاح احسان

آپ فلاح تقویٰ اوریہ قول’’جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیرشیطان ہے ‘‘کے سلسلے میں تحریر کرتے ہیں:

’’اس کے لیے (یعنی فلاح تقوی کے حصول کے لیے )مرشدخاص کی ضرورت بایں معنی نہیں کہ بے اس کے یہ فلاح مل ہی نہ سکے،یہ جیساکہ اوپر گزرا،فلاح ظاہر ہے ،اس کے احکام واضح ہیں،آدمی اپنے علم سے، یا علما سے پوچھ پوچھ کرمتقی بن سکتاہے،اعمال قلب میں اگر چہ بعض دقائق ہیں مگر محدود، اور کتب ائمہ مثلاًامام ابوطالب مکی وامام حجۃ الاسلام غزالی وغیرہما میں مشروح،تو بے بیعت بھی اس کی راہ کشادہ اور اس کا دروازہ مفتوح ،یہ جب کہ اسی قدر پر اقتصار کرے، تو ہم اوپربیان کرآئے کہ غیر متقی سنی بھی بے پیرا نہیں۔متقی کیوں کر بے پیرا، یامعاذ اللہ! مریدشیطان ہوسکتاہے،اگر چہ کسی خاص کے ہاتھ پر بیعت نہ کی ہو،کہ یہ جس راہ میں ہے اس میں مرشدعام کے سوا، مرشدخاص کی ضرورت ہی نہیں،تو جتناپیراُسے درکارہے، حاصل ہے،تو اولیاکا قول دوم کہ جس کے لیے شیخ نہیں اس کا شیخ شیطان ہے ،اس سے متعلق نہیں ہوسکتا۔اورقول اول کہ بے پیرافلاح نہیں پاتا،یہ تو بداہتاً اس پر صادق نہیں،فلاح تقویٰ بلاشبہ فلاح ہے ،اگرچہ فلاح احسان اس سے اعظم واجل ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ،ج:۲۱،ص:۱۳۔۵۱۴)

جس طرح فلاح ایمان تک رسائی کے لیے مرشدخاص کی ضرورت نہیں ،مرشد عام ہی کافی ہے ،اسی طرح فلاح تقویٰ کے حصول کے لیے بھی مرشد عام کافی ہے ، اس راہ میں مرشدخاص بناناضروری نہیں،کیوں کہ اس راہ کی تما م باریکیوں اور قوانین کو شرع مطہرہ اور صوفیہ کرام نے ظاہر ومشرح کردیاہےاورتقویٰ یعنی احکام الٰہی کو بجالاناخواہ اس کا تعلق جسمانی وبدنی افعال واعمال سے ہو،یاقلبی امراض سے ،بندۂ مومن شریعت کے قوانین اور تشریحات کی روشنی میں عمل پیہم اور جہد مسلسل کے ذریعے اس تقویٰ کو حاصل کرسکتا ہے،مرشدخاص کا محتاج نہیں،اگرچہ مرشد خاص کے بغیر قلبی امراض سے اپنے آپ کو پاک ومنزہ کرنا مشکل ضرور ہے ،لیکن محال نہیں،جس کے بغیر فلاح تقویٰ کے حصول کا تصورہی نہیں کیاجاسکتا،کیوں کہ فلاح تقویٰ نام ہے بدنی اور قلبی صالحیت کے مجموعے کا، فلاح تقویٰ کا حصول مومن کی کامیابی ہے مگر فلاح احسان اس کامیابی سے زیادہ بلنداورعظیم ہے۔اخیر میں فلاح احسان کے بارے میں امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’فلاح احسان کے لیے بے شک مرشد خاص کی حاجت ہے، اور وہ بھی شیخ ایصال کی، شیخ اتصال اس کے لیے کافی نہیں، اور اس کے ہاتھ پر بھی بیعت ارادت ہو، بیعت برکت یہاں بس نہیں، اس راہ میں وہ شدید باریکیاں اور سخت تاریکیاں ہیں، کہ جب تک کامل، مکمل اس راہ کے جملہ نشیب وفراز سے آگاہ وماہر حل نہ کرے، حل نہ ہوں گی ، نہ کتب سلوک کا مطالعہ کام دے گا، کہ یہ دقائق تقوٰی کی طرح محدود نہیں، جن کا ضبط کتاب کر سکے،الطر ق الی اﷲ بعددانفاس الخلائق، اللہ تک پہنچنے کے اتنےراستے ہیں، جتنی کہ تمام مخلوقات کی سانسیں ۔ (عوارف المعارف،باب:۱۲،مطبعہ المشہد الحسینی، قاہرہ، ص: ۷۹،بحوالہ فتاوی رضویہ جلد ۲۱،ص:۵۱۶،چشتی)

یہ وہ راہ ہے جس راہ کے چلنے والے کےلیے مرشدعام کے ساتھ مرشدخاص بھی رکھنا ضروری ہے،بغیر اس کے چارہ نہیں ،وہ مرشدخاص جو صاحب ایصال یعنی مجذوب سالک یاسالک مجذوب ہو،جذب وسلوک کی راہ خود چلاہو،اور اس کی باریکیوں سے اچھی طرح واقف بھی ہو۔

اس راہ کے طالبوں کو یہ بات بھی یاد رہے کہ فلاح احسان تک پہنچنے کے لیے شیخ ومرشدکا کامل ومکمل ہوناہی کافی نہیں ،بلکہ طالب وسالک کا مرید حقیقی ہونا بھی لازم ہے۔طالب صادق کی ارادت اگرمضبوط ہوتو ایسا بھی ہوسکتاہے کہ اس فلاح تک رسائی کے لیے شیخ اتصال ہی کافی ہوجائے ،من طلب وجد۔طلب کا صدق اور ارادت کی پختگی ازحدضروری ہے ،اس راہ میں مریدصادق ہی کامیاب ہوتاہے۔فلاح احسان کی راہ میں کچھ وہ باریکیاں ہیں جن کی تشریحات شرع مطہرہ اور کتب سلوک میں بھی موجود نہیں،اورمرشدعام اس فلاح کے حصول میں کافی نہیں ، یہ مرشدعام کاعجز نہیں ہے،بلکہ اس راہ کی باریکیوں کے سمجھنے میں سالک کا عجز ہے،ورنہ مرشدعام میں سب کچھ موجودہے،مگر ان تک رسائی مرشدخاص کے بغیر عادتاً محال ہے۔جو سالک اس راہ میں قدم رکھے اور مرشدخاص نہ بنائے ،تو یہی امیدہے کہ شیطان اس کو اچک لے جائے گا، اور بہت ممکن ہے کہ فلاح احسان تودور ایمان بھی جاتارہے گا،یہی وہ راہ ہے جہاں صوفیہ کا وہ قول جس میں کہاگیاہے کہ’’ جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیرشیطان ہے‘‘ کا صدق وانطباق سمجھ میں آتاہے، اس سلسلے میں امام احمدرضاقادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’اور ہر راہ کی دشواریاں، باریکیاں، گھاٹیاں جداہیں، جن کو نہ یہ خودسمجھ سکے گا ،نہ کتاب بتائے گی،اور وہ پرانادشمن مکارپرفن ابلیس لعین ہر وقت ساتھ ہے،اگر بتانے والا ، آنکھیں کھولنے والا،ہاتھ پکڑنے والا،مددفرمانے والا،ساتھ نہ ہوتوخداجانے کس کھوہ  میں گرائے،کس گھاٹی میں ہلاک کرے،ممکن ہے کہ سلوک درکنار معاذاللہ ایمان تک ہاتھ سے جائے ،جیساکہ بارہا واقع ہوچکاہے۔(فتاویٰ رضویہ،ج:۲۱،ص:۵۱۶)

سراج الائمہ امام اعظم ابو حنیفہ قدس سرہٗ کے حوالے سے یہ بات بہت مشہور ہے جس کو شاہ عبد العزیز محدث دہلوی جیسے محققین علمانے بھی اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: لولا السنتان لھلک النعمان ۔اگر میری زندگی کے وہ دو سال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا۔شارحین کے بقول امام اعظم کی زندگی کے وہ خاص دوسال کا زمانہ وہ مبارک زمانہ ہے جو حضرت امام جعفر صادق قدس سرہ کی صحبت فیض میں گزرا۔ گویاامام اعظم جیسے لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ فرماتے ہیں کہ اگر دو سال حضرت امام جعفر صادق قدس سرہٗ کی صحبت میں نہ رہا ہوتا تو ہلاک ہوجاتا ۔ افسوس! کہ ہم حنفی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور صادقین کی صحبت سے بھاگتے ہیں ۔ایک حنفی حقیقت میں کامل حنفی اور نعمانی اسی وقت ہو سکتا ہے جب کسی صادق کی صحبت کو لازم پکڑے ، صادق کی پہچان یہ ہے کہ اس کی صحبت میں دل کو سکون اور روح کو تازگی حاصل ہو، آخرت کا تصور مستحکم ہو اوردنیا کی بے ثباتی واضح ہو، اللہ یاد آئے اور ہمارے اس دل کو روشنی ملے جو گناہوں کی زنگ سے سیاہ پڑچکا ہے ۔ مردہ دل جس کی صحبت میں زندہ ہو جائے اور اس کے اندر اپنے مالک حقیقی کی لقا کا اشتیاق پیدا ہو جائے ، وہی صادق ہے ۔ اس کی صحبت ہم کو ہلاکت سے بچا سکتی ہے اور اللہ رب العزۃ کے قرب خاص تک لے جا سکتی ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...