فضائل و مناقب حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جب دعوت اسلام دی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جن کی عمر دس سال کے لگ بھگ تھی اور آپ نے فوراً اسلام قبول کرلیا تھا ۔ ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے ۔ (جامع الترمذی، رقم: 3735)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حجفہ میں غدیر خم کے مقام پر تھے، جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم باہر تشریف لائے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر فوراً فرمایا : من کنت مولاه فعلی مولاه ۔
ترجمہ : جس کامیں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے ۔ (ابن ابی شيبه، المصنف، رقم: 12121)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا میں شہرِ علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ پس جو کوئی علم کا ارادہ کرے وہ دروازے کے پاس آئے ۔ (المعجم الطبرانی، 11: 55)
اسی طرح ایک اور روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا: میں حکمت کا گھر ہوں اور علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہیں ۔ (جامع الترمذی، کتاب المناقب، 5: 637)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّمنے فرمایا: علی قرآن کے ساتھ اور قرآن علی کے ساتھ ہے ۔ یہ دونوں (اس طرح جڑے رہیں گے اور) جدا نہیں ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر مل کر میرے پاس آئیں گے ۔ (المستدرک للحاکم، 3: 121،چشتی)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنت کے جوانوں کے دو سردار ہیں اور ان کے باپ (علی رضی اللہ عنہ) ان دونوں سے بہتر ہیں ۔ (ابن ماجه، 1: 44)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے 11586 احادیث مروی ہیں ۔ فقہ اور اجتہاد میں آپ رضی اللہ عنہ کو خاص مقام حاصل تھا ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ چار سال نو ماہ تک منصب خلافت پر فائز رہے ۔ 19 رمضان المبارک 40 ہجری 660 عیسوی کو جب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فجر کی نماز کوفہ کی مسجد میں پڑھارہے تھے تو ایک خارجی عبدالرحمن ابن ملجم ملعون آپ پر زہر آلود خنجر سے حملہ آور ہوا ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو کئی زخم آئے جس کے نتیجے میں 21 رمضان المبارک کو جام شہادت نوش فرمایا ۔
خلیفہ چہارم جانشین رسول وزوج بتول حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ”ابوالحسن”اور”ابو تراب”ہے۔ آپ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے چچا ابو طالب کے فرزند ارجمند ہیں ۔ عام الفیل کے تیس برس بعد جبکہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی عمر شریف تیس برس کی تھی ۔ جمعہ کے دن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے ۔ آپ کی والد ہ ماجدہ کا نام حضرت فاطمہ بنت اسد ہے (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) آپ نے اپنے بچپن ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا اورحضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے زیرتربیت ہر وقت آ پ کی امدادونصرت میں لگے رہتے تھے ۔ آپ مہاجرین اولین اورعشر ہ مبشرہ میں اپنے بعض خصوصی درجات کے لحاظ سے بہت زیادہ ممتاز ہیں۔ جنگ بدر، جنگ اُحد، جنگ خندق وغیرہ تمام اسلامی لڑائیوں میں اپنی بے پناہ شجاعت کے ساتھ جنگ فرماتے رہے اورکفار عرب کے بڑے بڑے نامور بہادر اور سورما آپ کی مقدس تلوارِ ذُوالفقار کی مار سے مقتول ہوئے ۔ امیرالمؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد انصار و مہاجرین نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کر کے آپ کو امیرالمؤمنین منتخب کیا اور چار برس آٹھ ماہ نو دن تک آپ مسندِ خلافت کو سرفراز فرماتے رہے ۔ ۱۷ رمضان ۴۰ھ کو عبدالرحمن بن ملجم مرادی خارجی مردود نے نماز فجر کو جاتے ہوئے آ پ کی مقدس پیشانی اورنورانی چہرے پر ایسی تلوار ماری جس سے آپ شدیدطور پر زخمی ہوگئے اور دودن زندہ رہ کر جام شہادت سے سیراب ہوگئے اوربعض کتابوں میں لکھا ہے کہ ۱۹ رمضان جمعہ کی رات میں آپ زخمی ہوئے اور ۲۱ رمضان شب یکشنبہ آپ کی شہادت ہوئی ۔ آپ کے بڑے فرزند ارجمند حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو دفن فرمایا ۔ (تاریخ الخلفاء، وازالۃ الخفاء،چشتی)
قبروالوں سے سوال و جواب
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں گئے تو آپ نے قبروں کے سامنے کھڑے ہوکر باآواز بلند فرمایا کہ اے قبروالو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ ! کیا تم لوگ اپنی خبریں ہمیں سناؤ گے یا ہم تم لوگوں کو تمہاری خبریں سنائیں؟ اس کے جواب میں قبروں کے اندر سے آواز آئی: ”وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ” اے امیر المؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ہی ہمیں یہ سنائيے کہ ہماری موت کے بعد ہمارے گھروں میں کیا کیا معاملات ہوئے ؟ حضرت امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے قبر والو! تمہارے بعد تمہارے گھروں کی خبر یہ ہے کہ تمہاری بیویوں نے دوسرے لوگوں سے نکاح کرلیا اور تمہارے مال ودولت کو تمہارے وارثوں نے آپس میں تقسیم کرلیا اور تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوکر دربدر پھر رہے ہیں اورتمہارے مضبوط اور اونچے اونچے محلوں میں تمہارے دشمن آرام اورچین کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں ۔ اس کے جواب میں قبروں میں سے ایک مردہ کی یہ دردناک آواز آئی کہ اے امیرالمؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہماری خبریہ ہے کہ ہمارے کفن پرانے ہوکر پھٹ چکے ہیں اورجو کچھ ہم نے دنیا میں خرچ کیا تھا اس کو ہم نے یہاں پالیا ہے اورجو کچھ ہم دنیا میں چھوڑآئے تھے اس میں ہمیں گھاٹا ہی گھاٹااٹھانا پڑا ہے ۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۳،چشتی)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو یہ طاقت وقدرت عطافرماتاہے کہ قبر والے ان کے سوالوں کا باآواز بلنداس طرح جواب دیتے ہیں کہ دوسرے حاضرین بھی سن لیتے ہیں ۔ یہ قدرت وطاقت عام انسانوں کو حاصل نہیں ہے۔ لوگ اپنی آوازیں تو مردوں کو سنا سکتے ہیں اورمردے ان کی آوازوں کو سن بھی لیتے ہیں مگر قبر کے اندر سے مردوں کی آوازوں کو سن لینا یہ عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے ،بلکہ یہ خاصا ن خدا کا خاص حصہ اور خاصہ ہے جس کوان کی کرامت کے سواکچھ بھی نہیں کہاجاسکتااوراس روایت سے یہ بھی پتاچلا کہ قبروالوں کا یہ اقبالی بیان ہے کہ مرنے والے دنیا میں جو مال ودولت چھوڑ کر مرجاتے ہیں اس میں مرنے والوں کے لیے سر اسر گھاٹا ہی گھاٹا ہے اورجس مال ودولت کو وہ مرنے سے پہلے خدا عزوجل کی راہ میں خرچ کرتے ہیں وہی ان کے کام آنے والاہے ۔
فالج زدہ اچھا ہوگیا
علامہ تاج الدین سبکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب”طبقات” میں ذکر فرمایا ہے کہ ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دونوں شاہزادگان حضرت امام حسن وامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے ساتھ حرم کعبہ میں حاضر تھے کہ درمیانی رات میں ناگہاں یہ سنا کہ ایک شخص بہت ہی گڑگڑا کر اپنی حاجت کے لیے دعا مانگ رہا ہے اور زار زار رو رہا ہے ۔ آپ نے حکم دیا کہ اس شخص کو میرے پاس لاؤ ۔ وہ شخص اس حال میں حاضر خدمت ہوا کہ اس کے بدن کی ایک کروٹ فالج زدہ تھی اوروہ زمین پر گھسٹتا ہوا آپ کے سامنے آیا۔آپ نے اس کا قصہ دریافت فرمایا تو اس نے عرض کیا کہ اے امیرالمؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بہت ہی بے باکی کے ساتھ قسم قسم کے گناہوں میں دن رات منہمک رہتا تھا اورمیرا باپ جو بہت ہی صالح اورپابند شریعت مسلما ن تھا، باربار مجھ کو ٹوکتا اور گناہوں سے منع کرتارہتا تھا میں نے ایک دن اپنے باپ کی نصیحت سے ناراض ہوکر اس کو ماردیا اورمیر ی مار کھا کر میرا باپ رنج وغم میں ڈوباہوا حرم کعبہ آیااور میرے لئے بد دعا کرنے لگا۔ ابھی اس کی دعا ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ بالکل ہی اچانک میری ایک کروٹ پر فالج کا اثر ہوگیااورمیں زمین پر گھسٹ کر چلنے لگا۔ اس غیبی سزاسے مجھے بڑی عبرت حاصل ہوئی اورمیں نے روروکر اپنے باپ سے اپنے جرم کی معافی طلب کی اور میرے با پ نے اپنی شفقت پدری سے مجبور ہوکر مجھ پر رحم کھایا اور مجھے معاف کردیا اور کہا کہ بیٹا چل!جہاں میں نے تیرے ليے بد دعا کی تھی اسی جگہ اب میں تیرے لئے صحت وسلامتی کی دعا مانگوں گا۔ چنانچہ میں اپنے باپ کو اونٹنی پر سوا رکر کے مکہ معظمہ لارہا تھا کہ راستے میں بالکل ناگہاں اونٹنی ایک مقام پر بدک کر بھاگنے لگی اور میرا باپ اس کی پیٹھ پر سے گر کر دو چٹانوں کے درمیان ہلاک ہوگیا اوراب میں اکیلا ہی حرم کعبہ میں آکر دن رات رو رو کر خداتعالیٰ سے اپنی تندرستی کے لیے دعائیں مانگتا رہتا ہوں ۔ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساری سرگزشت سن کر فرمایا کہ اے شخص !اگر واقعی تیرا باپ تجھ سے خوش ہوگیا تھا تو اطمینان رکھ کہ خدا کریم بھی تجھ سے خوش ہوگیا ہے ۔ اس نے کہا کہ اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بحلف شرعی قسم کھا کر کہتاہوں کہ میرا باپ مجھ سے خوش ہوگیا تھا۔ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کی حالت زار پر رحم کھاکر اس کو تسلی دی اورچند رکعت نماز پڑھ کر اس کی تندرستی کے لئے دعا مانگی۔ پھرفرمایا کہ اے شخص! اٹھ کھڑا ہوجا!یہ سنتے ہی وہ بلا تکلف اٹھ کر کھڑا ہو گیا اورچلنے لگا۔ آپ نے فرمایا کہ اے شخص !اگر تو نے قسم کھاکر یہ نہ کہا ہوتا کہ تیرا باپ تجھ سے خوش ہوگیا تھا تو میں ہرگز تیرے لئے دعا نہ کرتا ۔ (حجۃ اللہ علی العالمین جلد ۲ صفحہ ۸۶۳،چشتی)
گرتی ہوئی دیوار تھم گئی
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دیوار کے سائے میں ایک مقدمہ کا فیصلہ فرمانے کے لیے بیٹھ گئے ۔ درمیان مقدمہ میں لوگوں نے شور مچایا کہ اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں سے اٹھ جائيے یہ دیوار گررہی ہے ۔ آپ نے نہایت سکون واطمینان کے ساتھ فرمایا کہ مقدمہ کی کارروائی جاری رکھو۔اللہ تعالیٰ بہترین حافظ وناصرونگہبان ہے۔ چنانچہ اطمینان کے ساتھ آپ اس مقدمہ کا فیصلہ فرما کر جب وہاں سے چل دیئے تو فوراً ہی وہ دیوار گر گئی ۔ (ازالۃ الخفاء، مقصد ۲،ص۲۷۳) ۔ یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ خداوند قدوس اپنے اولیاء کرام کو ایسی ایسی روحانی طاقتیں عطافرماتاہے کہ ان کے اشاروں سے گرتی ہوئی دیواریں تو کیا چیز ہیں؟ بہتے ہوئے دریاؤں کی روانی بھی ٹھہر جاتی ہے ۔
آپ کو جھوٹا کہنے والا اندھا ہوگیا
علی بن زاذان کا بیان ہے کہ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ کوئی بات ارشاد فرمائی تو ایک بد نصیب نے نہایت ہی بیباکی کے ساتھ یہ کہہ دیا کہ اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ جھوٹے ہیں ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے شخص ! اگر میں سچاہوں تو ضرور تو قہر الٰہی میں گرفتار ہو جائے گا ۔ اس گستاخ نے کہہ دیا کہ آپ میرے لیے بد دعا کردیجئے، مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے ۔ ا س کے منہ سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ بالکل ہی اچانک وہ شخص دونوں آنکھوں سے اندھا ہوگیا اور ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارنے لگا ۔ (ازالۃ الخفاء مقصد ۲ صفحہ نمبر ۲۷۳،چشتی)
کون کہاں مرے گا ؟ کہاں دفن ہوگا
حضرت اصبغ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک مرتبہ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ سفر میں میدان کربلا کے اندر ٹھیک اس جگہ پہنچے جہاں آج حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر انور بنی ہوئی ہے، توآپ نے فرمایا کہ اس جگہ آئندہ زمانے میں ایک آل رسول (رضی اللہ تعالیٰ عنہم)کا قافلہ ٹھہرے گا اوراس جگہ ان کے اونٹ بندھے ہوئے ہوں گے اوراسی میدان میں جوانان اہل بیت کی شہادت ہوگی اور اسی جگہ ان شہیدوں کا مدفن بنے گا اوران لوگوں پر آسمان وزمین روئیں گے ۔ (ازالۃ الخفاء مقصد ۲ صفحہ ۲۷۳ بحوالہ الریاض النضرۃ)
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اولیاء اللہ کو بذریعہ کشف برسوں بعد ہونے والے واقعات اورلوگوں کے حالات یہاں تک کہ لوگوں کی موت اورمدفن کی کیفیات کا علم حاصل ہوجاتاہے اوریہ درحقیقت علم غیب ہے جو اللہ تعالیٰ کے عطا فرمانے سے اولیاء کرام کو حاصل ہواکرتاہے اوریہ اولیاء کرام کی کرامت ہواکرتی ہے ۔
فرشتوں نے چکی چلائی
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مجھے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلانے کے لیے ان کے مکان پر بھیجا تو میں نے وہاں یہ دیکھا کہ ان کے گھر میں چکی بغیر کسی چلانے والے کے خود بخود چل رہی ہے۔ جب میں نے بارگاہ رسالت میں اس عجیب کرامت کا تذکرہ کیا تو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے ابو ذررضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے بھی ہیں جو زمین میں سیر کرتے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کی یہ بھی ڈیوٹی فرما دی ہے کہ وہ میری آل کی امدادواعانت کرتے رہیں ۔ (ازالۃ الخفاء ، مقصد۲، صفحہ نمبر۲۷۳،چشتی)
اس روایت سے یہ سبق ملتاہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی آل پاک کو بارگاہ خداوندی میں اس قدر قرب اورمقبولیت حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ فرشتوں کو ان کی امدادونصرت اورحاجت برآری کے لئے خاص طورپر مقررفرمادیا ہے۔ یہ شرف حضرات اہل بیت کو حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی نسبت خاصہ کی و جہ سے حاصل ہوا ہے۔ سبحان اللہ! سلطان مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی عزت و عظمت اوران کے وقارواقتدارکا کیا کہنا ؟کہ آپ کے گھر والوں کی چکی فرشتے چلا یا کرتے تھے ۔
میں کب وفات پاؤں گا ؟
حضرت فضالہ بن ابی فضالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقام ”ینبع” میں بہت سخت بیمار ہوگئے تومیں اپنے والد کے ہمراہ ان کی عیادت کے لیے گیا ۔ دوران گفتگو میرے والد نے عرض کیا : اے امیرالمؤمنین!رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ اس وقت ایسی جگہ علالت کی حالت میں مقیم ہیں اگراس جگہ آپ کی وفات ہوگئی توقبیلہ ”جہینہ”کے گنواروں کے سوا اورکون آپ کی تجہیز و تکفین کریگا؟اس لیے میری گزارش ہے کہ آپ مدینہ منورہ تشریف لے چلیں کیونکہ وہاں اگر یہ حادثہ رونما ہوا تو وہاں آپ کے جاں نثار مہاجرین وانصاراور دوسرے مقدس صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کی نمازجنازہ پڑھیں گے اوریہ مقدس ہستیاں آپ کے کفن ودفن کا انتظام کریں گی۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ اے ابوفضالہ! تم اطمینان رکھو کہ میں اپنی بیماری میں ہرگز ہرگز وفات نہیں پاؤں گا۔ سن لو اس وقت تک ہر گز ہرگز میری موت نہیں آسکتی جب تک کہ مجھے تلوار مار کرمیری پیشانی اورداڑھی کو خون سے رنگین نہ کردیا جائے ۔ (ازالۃ الخفاء، مقصد۲، ص۲۷۳،چشتی)
چنانچہ ایسا ہی ہواکہ بدبخت عبدالرحمن بن ملجم مرادی خارجی نے آپ کی مقدس پیشانی پر تلوار چلادی، جو آپ کی پیشانی کو کاٹتی ہوئی جبڑے تک پیوست ہوگئی۔ اس وقت آپکی زبان مبارک سے یہ جملہ ادا ہوا: فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَۃِ (یعنی کعبہ کے رب کی قسم! کہ میں کامیاب ہو گیا) اس زخم میں آپ شہادت کے شرف سے سرفراز ہوگئے اور آپ نے حضرت ابوفضالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مقام ینبع میں جو فرمایا تھا وہ حرف بحرف صحیح ہوکررہا ۔
درِخیبرکا وزن
جنگ خیبر میں جب گھمسان کی جنگ ہونے لگی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ڈھال کٹ کر گرپڑی تو آپ نے جوش جہاد میں آگے بڑھ کر قلعہ خیبر کا پھاٹک اکھاڑ ڈالا اوراس کے ایک کواڑکو ڈھال بنا کراس پر دشمنوں کی تلواروں کو روکتے تھے ۔ یہ کواڑ اتنا بھاری اوروزنی تھا کہ جنگ کے خاتمہ کے بعد چالیس آدمی ملکر بھی اس کو نہ اٹھا سکے ۔ (زرقانی ج۲،ص۲۳۰)
کیا فاتح خیبرکے اس کارنامہ کو انسانی طاقت کی کارگزاری کہا جاسکتاہے؟ ہرگزہرگز نہیں ۔ یہ انسانی طاقت کا کارنامہ نہیں ہے بلکہ یہ روحانی طاقت کا ایک شاہکار ہے جو فقط اللہ والوں ہی کا حصہ ہے جس کو عرف عام میں کرامت کہا جاتاہے ۔
کٹاہوا ہاتھ جوڑدیا
روایت ہے کہ ایک حبشی غلام جو امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتہائی مخلص محب تھا، شامت اعمال سے اس نے ایک مرتبہ چوری کرلی، لوگوں نے اس کو پکڑ کر دربارخلافت میں پیش کردیا اورغلام نے اپنے جرم کا اقرار بھی کرلیا۔ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ جب وہ اپنے گھر کو روانہ ہوا تو راستہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورابن الکرا سے اس کی ملاقات ہوگئی ۔ ابن الکرا نے پوچھاکہ تمہارا ہاتھ کس نے کاٹا ؟ تو غلام نے کہا : امیرالمؤمنین ، داماد رسول وزوج بتول نے ۔ ابن الکرا نے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمہارا ہاتھ کاٹ ڈالا پھر بھی تم اس قدر اعزاز و اکرام اور مدح و ثناء کے ساتھ ان کا نام لیتے ہو ؟ غلام نے کہا کہ کیا ہوا؟انہوں نے حق پر میرا ہاتھ کاٹا اورمجھے عذاب جہنم سے بچالیا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دونوں کی گفتگو سنی اور امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کا تذکر ہ کیاتو امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس غلام کو بلوا کر اس کا کٹا ہوا ہاتھ اس کی کلائی پر رکھ کر رومال سے چھپا دیاپھر کچھ پڑھنا شروع کردیا۔ اتنے میں ایک غیبی آواز آئی کہ رومال ہٹا ؤ جب لوگوں نے رومال ہٹا یاتو غلام کا کٹا ہوا ہاتھ اس طرح کلائی سے جڑ گیا تھا کہ کہیں کٹنے کا نشان بھی نہیں تھا ۔ (تفسیر کبیر جلد ۵ صحہ ۴۷۹،چشتی)
شوہر ، عورت کا بیٹا نکلا
امیرالمؤ منین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاشانہ خلافت سے کچھ دور ایک مسجد کے پہلو میں دومیاں بیوی رات بھر جھگڑا کرتے رہے ، صبح کوامیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دونوں کو بلا کر جھگڑے کا سبب دریافت فرمایا، شوہر نے عرض کیا :اے امیر المؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں کیا کروں ؟نکاح کے بعد مجھے اس عورت سے بے انتہا نفرت ہوگئی ، یہ دیکھ کر بیوی مجھ سے جھگڑا کرنے لگی، پھر بات بڑھ گئی اوررات بھر لڑائی ہوتی رہی ۔آپ نے تمام حاضرین دربارکوباہر نکال دیا اور عورت سے فرمایا کہ دیکھ میں تجھ سے جو سوال کروں اس کا سچ سچ جواب دینا۔ پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے عورت! تیرا نام یہ ہے ؟ تیرے باپ کا نام یہ ہے؟ عورت نے کہا کہ بالکل ٹھیک ٹھیک آپ نے بتایا۔ پھرآپ نے فرمایا کہ اے عورت تو یاد کر کہ تو زناکاری سے حاملہ ہوگئی تھی اورایک مدت تک تو اورتیری ماں اس حمل کو چھپاتی رہی۔ جب دردزہ شروع ہوا تو تیری ماں تجھے اس گھر سے باہر لے گئی اور جب بچہ پیدا ہوا تو اس کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر تو نے میدان میں ڈال دیا۔ اتفاق سے ایک کتااس بچے کے پاس آیا۔ تیری ماں نے اس کتے کو پتھر مارا لیکن وہ پتھر بچے کو لگا اوراس کا سرپھٹ گیا تیری ماں کو بچے پر رحم آگیا اوراس نے بچے کے زخم پر پٹی باندھ دی۔ پھر تم دونوں وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئیں۔ اس کے بعد اس بچے کی تم دونوں کو کچھ بھی خبر نہیں ملی۔ کیا یہ واقعہ سچ ہے؟ عورت نے کہا کہ ہاں! اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ پورا واقعہ حرف بحرف صحیح ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اے مرد!تو اپنا سرکھول کر اس کو دکھا دے ۔ مرد نے سرکھولا تو اس زخم کا نشان موجود تھا۔ اس کے بعد امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے عورت ! یہ مرد تیراشوہرنہیں ہے بلکہ تیرابیٹا ہے ، تم دونوں اللہ تعالیٰ کا شکر اداکروکہ اس نے تم دونوں کو حرام کاری سے بچالیا، اب تو اپنے اس بیٹے کو لے کراپنے گھر چلی جا ۔ (شواہدالنبوۃ،ص۱۶۱)
ان دونوں مستند کرامتوں کو بغور پڑھیے اور ایمان رکھيے کہ اللہ عز و جل کے اولیاء کرام علیہم الرّحمہ عام انسانوں کی طرح نہیں ہوا کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے ان محبوب بندوں کو ایسی ایسی روحانی طاقتوں کا بادشاہ بلکہ شہنشاہ بنا دیتا ہے کہ ان بزرگوں کے تصرفات اور ان کی روحانی طاقتوں اورقدرتوں کی منزل بلند تک کسی بڑے سے بڑے فلسفی کی عقل وفہم کی بھی رسائی نہیں ہو سکتی ۔
اللہ کی قسم میں حیران ہوں کہ کتنے بڑے جاہل یا متجاہل ہیں وہ لوگ جو اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کو بالکل اپنے ہی جیسا سمجھ کران کے ساتھ برابری کادعوی کرتے ہیں اور اولیاء کرام کے تصرفات کا چلا چلا کر انکار کرتے پھرتے ہیں تعجب ہے کہ ایسے ایسے واقعات جو نور ہدایت کے چاند تارے ہیں ان منکروں کی نگاہ سے آج تک اوجھل ہی ہیں مگر اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ، جو دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو بند کرلے اس کو چاند ستارے تو کیا سورج کی روشنی بھی نظر نہیں آسکتی ۔درحقیقت اولیاء کرام کے منکرین کا یہی حال ہے ۔
ذرا دیر میں قرآن کریم ختم کرلیتے
یہ کرامت روایات صحیحہ سے ثابت کہ آپ گھوڑے پر سوا رہوتے وقت ایک پاؤں رکاب میں رکھتے اور قرآن مجید شروع کرتے اوردوسراپاؤں رکاب میں رکھ کر گھوڑے کی زین پر بیٹھنے تک اتنی دیر میں ایک قرآن مجید ختم کرلیا کرتے تھے ۔ (شواہد النبوۃ صفحہ ۱۶۰،چشتی)
اشارہ سے دریا کی طغیانی ختم
ایک مرتبہ نہر فرات میں ایسی خوفناک طغیانی آگئی کہ سیلاب میں تمام کھیتیاں غرقاب ہوگئیں لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دربار گوہر بار میں فریاد کی ۔ آپ فوراً ہی اٹھ کھڑے ہوئے اوررسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا جبہ مبارکہ وعمامہ مقدسہ وچادر مبارکہ زیب تن فرما کر گھوڑے پر سوار ہوئے اورآدمیوں کی ایک جماعت جس میں حضرت امام حسن وامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی تھے ، آپ کے ساتھ چل پڑے ۔ آپ نے پل پر پہنچ کر اپنے عصاء سے نہر فرات کی طرف اشارہ کیا تو نہر کا پانی ایک گز کم ہوگیا ۔ پھر دوسری مرتبہ اشارہ فرمایا تو مزید ایک گز کم ہوگیا جب تیسری بار اشارہ کیا تو تین گز پانی اتر گیا اور سیلاب ختم ہوگیا۔ لوگوں نے شور مچایا کہ امیر المؤمنین!رضی اللہ تعالیٰ عنہ بس کیجئے یہی کافی ہے ۔ (شواہدالنبوۃ صفحہ ۱۶۲،چشتی)
جاسوس اندھا ہوگیا
ایک شخص آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہ کر جاسوسی کیا کرتا تھا اورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خفیہ خبریں آپ کے مخالفین کو پہنچایا کرتا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اس سے دریافت فرمایا تو وہ شخص قسمیں کھانے لگا اوراپنی برأت ظاہر کرنے لگا۔ آپ نے جلال میں آکر فرمایا کہ اگر تو جھوٹا ہے تواللہ تعالیٰ تیری آنکھوں کی روشنی چھین لے۔ ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ یہ شخص اندھا ہوگیا اورلوگ اس کولاٹھی پکڑاکر چلانے لگے ۔ (شواہد النبوۃ صفحہ ۱۶۷)
تمہاری موت کس طرح ہوگی ؟
ایک شخص آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپ نے اس کو اس کے حالات بتا کر یہ بتایا کہ تم کو فلاں کھجور کے درخت پر پھانسی دی جائے گی۔ چنانچہ اس شخص کے بارے میں جو کچھ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھاوہ حرف بحرف درست نکلا اورآپ کی پیش گوئی پوری ہوکر رہی ۔ (شواہد النبوۃ صفحہ ۱۶۲،چشتی)
پتھر اٹھایا تو چشمہ اُبل پڑا
مقام صفین کو جاتے ہوئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لشکر ایک ایسے میدان سے گزرا جہاں پانی نایاب تھا،پورا لشکر پیاس کی شدت سے بے تاب ہوگیا۔وہاں کے گرجا گھر میں ایک راہب رہتا تھا ۔ اس نے بتایا کہ یہاں سے دو کوس کے فاصلے پر پانی مل سکے گا۔ کچھ لوگوں نے اجازت طلب کی تاکہ وہاں سے جاکر پانی پئیں ،یہ سنکر آپ اپنے خچر پر سوار ہوگئے اورایک جگہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ اس جگہ تم لوگ زمین کو کھودو۔ چنانچہ لوگوں نے زمین کی کھدائی شروع کردی تو ایک پتھر ظاہر ہوا ۔ لوگوں نے اس پتھر کو نکالنے کی انتہائی کوشش کی لیکن تمام آلات بے کار ہوگئے اوروہ پتھر نہ نکل سکا۔ یہ دیکھ کر آپ کو جلال آگیا اور آپ نے اپنی سواری سے اتر کر آستین چڑھائی اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو اس پتھرکی دراز میں ڈال کر زور لگایاتو وہ پتھر نکل پڑا اور اس کے نیچے سے ایک نہایت ہی صاف شفاف اورشیریں پانی کا چشمہ ظاہر ہوگیا اورتمام لشکر اس پانی سے سیراب ہوگیا۔ لوگوں نے اپنے جانوروں کو بھی پلایا اور لشکر کی تمام مشکوں کو بھی بھر لیا، پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پتھر کو اس کی جگہ پررکھ دیا ۔ گرجا گھر کا عیسائی راہب آپ کی یہ کرامت دیکھ کر سامنے آیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا آ پ فرشتہ ہیں ؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: نہیں ۔اس نے پوچھا: کیا آپ نبی ہیں ؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمای ا: نہیں ۔ اس نے کہا: پھر آپ کون ہیں ؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : میں پیغمبرِ مرسل حضرت محمدبن عبد اللہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا صحابی ہوں اور مجھ کو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے چند باتوں کی وصیت بھی فرمائی ہے۔ یہ سن کر وہ عیسائی راہب کلمہ شریف پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگیا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : تم نے اتنی مدت تک اسلام کیوں قبول نہیں کیا تھا ؟ راہب نے کہا کہ ہماری کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اس گرجا گھر کے قریب جو ایک چشمہ پوشیدہ ہے اوراس چشمہ کو وہی شخص ظاہر کریگا جو یاتو نبی ہوگا یا نبی کا صحابی ہوگا ۔ چنانچہ میں اور مجھ سے پہلے بہت سے راہب اس گرجا گھر میں اسی انتظار میں مقیم رہے ۔ اب آج آپ نے یہ چشمہ ظاہر کردیا تو میری مراد برآئی ۔ اس لئے میں نے آپ کے دین کو قبول کرلیا ۔راہب کی تقریرسن کر آپ روپڑے اور اس قدر روئے کہ آپ کی ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی اورپھر آپ نے ارشاد فرمایا:الحمد للہ! عزوجل کہ ان لوگوں کی کتابوں میں بھی میرا ذکر ہے۔ یہ راہب مسلمان ہوکر آپ کے خادموں میں شامل ہوگیااورآپ کے لشکر میں داخل ہوکر شامیوں سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوگیا اور آپ نے اس کو اپنے دست مبارک سے دفن کیا اور اس کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی ۔ (شواہد النبوۃ صفحہ نمبر ۱۶۴)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment