حضرت مولا علی رضی اللہ کی تاریخ ولادت و مولودِ کعبہ کون ؟ حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : الحَمْدُ ِلله اہلسنت و جماعت ازواجِ مطہرات ، صحابہ کرام ، اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم اور صالحین علیہم الرّحمہ کی ہر خوبی و شان کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں پھر چاہے اس خوبی و شان کا تعلق فضائل سے ہو یا خصائص سے لیکن تسلیم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی ہستی کے متعلق شہرت پا جانے والی غلط فہمی کو اس کی فضیلت یا خصوصیت مان لیا جائے اور اس کے انکار پر لعن طعن کیا جائے اللہ تعالیٰ ہمیں جہالت اور جہالت کی اندھی و متعصبانہ عقیدت پر مبنی پیروی سے بچاۓ آمین ۔
مولا علی رضی ﷲ عنہ کعبة اللہ میں پیدا ہوۓ امام حاکم نیشاپوری کا قول ہے : فقد تواتر الاخبار ان فاطمتہ بنت اسد ولدت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب کرم اللہ وجھہہ فی جوف الکعبہ ۔ (المستدرک علی الصحیحین - الجزء الثالث کتاب معرفتہ الصحابہ - الرقم٦٠٤٤ صفحہ٥٥٠ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)
ترجمہ : پس تحقیق اخبار متواترہ سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد (رضیﷲعنہا) نے امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو کعبہ میں جنم دیا ۔
اس قول کو بطور دلیل پیش کرنا کم فہمی ہے کیونکہ امام حاکم یہاں تو تواتر کا دعویٰ کر رہے ہیں اور فضائل علی رضی اللہ عنہ کے باب میں ایک بھی صحیح بلکہ صحیح تو دور ایک ضعیف روایت بھی پیش کرنے کی جرأت نہ کرسکے جس میں حاکم کے دعوے کی دلیل ہو تو فقط حاکم کے کہنے پر متواتر کون مانے ؟ ۔ جب کہ حاکم کی تاریخ وفات 405 ھجری ہے اب ایک واقعہ جو کہ حاکم کی پیدائش سے بھی کئی سو سال پہلے کا ہے اس واقعہ کو حاکم کے کہنے پر تسلیم کرنا اور نہ صرف تسلیم بلکہ متواتر کہنا نا انصافی ہوگا ۔ دوسری بات یہ کہ اس کے تواتر کے دعوے میں حاکم منفرد ہیں ان کے سوا محدثین میں سے کسی نے اس واقعہ کے تواتر کا دعویٰ نہیں کیا تیسری اور اہم بات یہ کہ اہل علم جانتے ہیں کہ امام حاکم کا جھکاٶ رافضیت کی طرف تھا اور ان کا تواتر کا دعویٰ اسی سلسلے کی ایک کڑی بھی ہوسکتا ہے ۔
حضرتِ حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ کی خانۂ کعبہ میں ولادت تمام اہل سنت کے نزدیک متفق علیہ ہے ۔ امام مسلم رحمة اللہ علیہ (وفات 261ھ) نے صحیح مسلم شریف میں لکھا ہے : ولد حكيم بن حزام في جوف الكعبة وعاش مئة وعشرين سنة ۔ (صحیح مسلم، كتاب البيوع، باب الصدق في البيع،چشتی)
احوال قریش کے ماہر اور امام, مصعب بن عبد اللہ الزبیری (متوفی 236ھ) نے صاف کہا ہے کہ صرف حکیم بن حزام خانۂ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ نہ ان سے پہلے کوئی پیدا ہوا اور نہ بعد میں ۔ مصعب بن عبد اللہ الزبیری, یہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہیں ۔ انساب و احوالِ قریش کے امام ہیں. 236ھ میں وفات ہوئی ۔ ان کا ہی قول سند کے ساتھ امام حاکم نے نقل کیا ہے کہ "حضرت حکیم بن حزام خانۂ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ نہ ان سے پہلے کوئی پیدا ہوا نہ ان کے بعد" ۔ پھر اسی پر امام حاکم نے نقد کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ حضرتِ علی کرم اللہ تعالی وجہہ کی ولادت متواتر ہے ۔ مگر اصولی طور پر امام حاکم کا یہ نقد درست نہیں ۔ اگر امام حاکم کے کلام میں تواتر کو اصطلاحی معنوں پر محمول کیا جائے تو تواتر کےلیے ہر زمانے میں اتنے افراد کا بیان ضروری ہے جن کا جھوٹ پر متفق ہونا عادۃً محال ہو ۔
اگر مولاے کائنات رضی اللہ عنہ کی ولادت متواتر ہوتی تو دو چیزیں ضرور ہوتیں :
(1) مصعب زبیری کے زمانے میں بھی کعبے میں ولادت تواتراً منقول ہوئی ہوتی ۔ کیوں کہ ان کا زمانہ پہلے ہے ۔
(2) کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حدیث کی کتاب میں یہ قول ضرور مذکور ہوتا ۔
مگر ایک طرف مصعب زبیری صاف نفی کر رہے ہیں کہ حکیم بن حزام کے سوا کسی کی ولادت خانۂ کعبہ میں نہیں ہوئی ۔ اور دوسری طرف حاکم کے زمانے (چوتھی صدی کے اختتام) سے پہلے کسی محدث کے یہاں یا کسی حدیث کی کتاب میں کہیں یہ قول نہیں ملتا ۔ نہ سند کے ساتھ اور نہ بلا سند ۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ کوئی تواتر نہیں تھا ۔ کیوں کہ متواتر کے انکار کی گنجائش ہی نہیں ہوتی ۔ اور متواتر چیز ایک جم غفیر کے ذریعے منقول و مروی بھی ہوتی ہے ۔ اسی لیے امامِ حاکم نے حضرتِ ام ہانی کے تذکرے میں جو یہ لکھ دیا تھا : قد تواترت الأخبار بأن اسمہا فاختۃ ۔ اس پر امام ذہبی نے سوال قائم کر دیا : قلت : وأین التواتر ؟ ، یعنی اگر یہ متواتر ہے تو وہ تواتر کہاں ہے ؟ کہیں تو اسے منقول ہونا چاہیے ؟
اسی طرح یہ سوال اِس دعواۓ تواتر پر بھی قائم ہوگا کہ اگر مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خانۂ کعبہ میں ولادت متواتر ہے , تو وہ تواتر کہاں ہے؟ کہیں کسی روایت میں کوئی نام و نشان تو ہونا چاہیے تھا ؟ (چشتی)
جو حضرات امام حاکم کے اس دعوے میں لفظ تواتر کو معروف اصطلاحی معنوں میں لیتے ہیں ان کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اس دعوے کا ثبوت بھی فراہم فرمائیں , ورنہ دعوی بلا دلیل کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔
اور اگر امام حاکم کے اس لفظِ تواتر کو تواتر کے اصطلاحی اور معروف معنوں میں نہیں بلکہ صرف ،،ما اشتہر علی الألسنۃ،، یعنی ،،زبان زد،، کے معنے میں لیا جائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ حضرتِ علی کرم اللہ وجہہ کی خانۂ کعبہ میں ولادت کی بات امام حاکم کے دور میں بس لوگوں کے درمیان مشہور ہو گئی تھی ۔ ظاہر ہے چار سو سال بعد بلا دلیل بلکہ خلافِ دلیل زبان زد ہوجانے والی چیز حجت نہیں بن سکتی ۔
دوسری اصولی بات یہ کہ امام حاکم نے (حکیم بن حزام کی ولادت کی نفی نہیں کی ہے , بلکہ ان کے ماسوا کی نفی کو وہم قرار دیتے ہوئے) مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں بھی دعوی کیا ہے ۔ مگر دلیل کچھ بھی نہیں دی ۔ اب یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ امام حاکم انساب و احوالِ قریش کے فن میں مصعب زبیری کے ہم پلہ نہیں ہیں ۔ اور ان کا زمانہ بھی بعد کا ہے ۔ حاکم کی وفات 405ھ میں ہوئی ہے ۔ مصعب زبیری جو زمانے کے اعتبار سے متقدم اور اس میدان کے ماہر بلکہ امام ہیں اور امام حاکم پر فائق ہیں وہ صرف حکیم بن حزام کی ولادت مانتے ہیں ۔
اب اگر بالفرض دونوں کی بات بےدلیل مان لی جائے تو بھی مصعب کی بات دو وجہوں سے صحیح اور راجح قرار پائے گی ۔
پہلی یہ کہ دیگر اقوال و روایات سے ان کے قول کی تائید ہوتی ہے ۔ اور دوسری یہ کہ جس فن کا یہ مسئلہ ہے اس میں ان کا پایہ امام حاکم سے بہت بلند ہے , بلکہ وہ خود اتھارٹی ہیں ۔ اس لیے حاکم کا دعوی بلادلیل مصعب کے قول کی تردید و تغلیط نہیں کر سکتا ۔
واضح رہے کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی خانۂ کعبہ میں ولادت پر اہل سنت کے یہاں کوئی روایت نہیں ہے ۔ امام حاکم نے تواتر کا دعوی کر دیا ہے ۔ مگر کوئی دلیل نہیں دی ۔ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ان کی عبارت لفظ بلفظ نقل کر دی ہے ۔ خود تحقیق نہیں فرمائی ہے ۔ امام ذہبی علیہ الرحمہ نے خود کہیں یہ نہیں کہا کہ حضرتِ مولا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبے میں ہوئی ہے ۔ تلخیص المستدرک میں مستدرک کے اسی مقام پر موجود حدیث پر سکوت کو کچھ لوگ حافظ ذہبی کی طرف سے تائید مانتے ہیں , جب کہ سکوتِ محض کو حجت اور تائید مانا ہی نہیں جا سکتا جب تک کہ امام ذہبی خود اس کی صراحت نہ کر دیں ۔ امام ذہبی نے ایسی کوئی صراحت کہیں نہیں کی ہے کہ جہاں مَیں خاموش رہوں وہاں میری تائید اور حمایت سمجھی جائے ۔ سنن ابو داؤد میں جن حدیثوں پر امام ابوداؤد سکوت فرماتے ہیں ان حدیثوں کو امام ابوداؤد کے نزدیک صالح اور قوی مانا جاتا ہے , اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے "رسالۃ ابی داؤد الی أھل مکۃ" میں اس کی صراحت کر دی ہے کہ جس حدیث پر مَیں سکوت کروں وہ حدیث میری نظر میں صالح /قوی ہوتی ہے ۔ جبکہ امام ذہبی نے تلخیص المستدرک میں ایسی کوئی تصریح نہیں کی ہے تو تلخیص المستدرک میں ان کے سکوت کو تائید اور موافقت سمجھنا کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ ۔ یہ ایک عام اصول ہے جو تلخیص المستدرک میں حافظ ذہبی کے سکوت کے بارے میں یاد رکھنے کے لائق ہے ۔ (چشتی)
یہاں ایک چیز یہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ بعض علما کے نزدیک ان کے سکوت کو جو موافقت سمجھا جاتا ہے وہ فقط احادیث پر محدثانہ حکم اور ان کی اسنادی حیثیت کے بارے میں سمجھا جاتا ہے ۔ ان کے سکوت کو امام حاکم کے غیر متعلق دعؤوں یا ان کے ہر ہر لفظ کے بارے میں موافقت کوئی نہیں مانتا ۔ اور یہ مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت والی بات امام حاکم نیشاپوری کا صرف ایک دعوی ہے , اس پر کوئی حدیث انھوں نے مستدرک میں پیش نہیں کی ہے ۔ اس لیے یہاں سکوت کو موافقت ماننے کا کوئی جواز کسی کے نردیک نہیں ۔ لہٰذا امام ذہبی کا سکوت اس ولادت والے امام حاکم کے اپنے دعوے پر منطبق کرنا لاعلمی یا فریب کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ ہاں , اگر اس دعوے پر امام حاکم نے کوئی ایک حدیث بھی پیش فرمائی ہوتی اور امام ذہبی اُس حدیث پر سکوت فرماتے تو بعض اہل علم کی اس راے کے مطابق اسے موافقت پر محمول کیا جا سکتا تھا , لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہے ۔ یہی امام ذہبی سیر أعلام النبلاء میں حضرت حکیم بن حزام کے تعارف میں لکھتے ہیں : قال ابن منده : ولد حكيم في جوف الكعبة ، وعاش مائة وعشرين سنة . مات سنة أربع وخمسين ۔ روى الزبير ، عن مصعب بن عثمان قال : دخلت أم حكيم في نسوة الكعبة ، فضربها المخاض ، فأتيت بنطع حين أعجلتها الولادة، فولدت في الكعبة ۔ امام ابن مندہ نے کہا : حکیم بن حزام کعبے کے اندر پیدا ہوئے. 120 سال عمر ہوئی ۔ 54ھ میں وفات ہوئی ۔ (چشتی)
نہج البلاغہ کے شارح علامہ بن ابی الحدید اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جائے پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے ، تاہم محدثین کرام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مولود کعبہ کو تسلیم نہیں کیا ہے اور اس روایت کو محض جھوٹ و اختراع قرار دیا ہے ، ان کا خیال ہے کہ کعبہ میں جن کی ولادت ہوئی وہ حکیم بن حزام بن خولد ہیں ۔ (شرح نہج البلاغہ لابن الحدید 14/1 لابی الحسن الندوی ص 49،چشتی)
نزہتہ المجالس کے مصنف امام عبد الرحمان بن عبدالسلام صفوری شافعی علیہ الرحمہ ہیں جو کہ اپنے وقت کے مشہور خطباء میں سے ہیں اور آپ کی تاریخ وفات 900 ھجری ہے آپ نے مولائے کائنات کے مولود کعبہ والا واقعہ "الفصول المہمہ" نامی کتاب سے بغیر سند کے نقل کیا لہٰذا امام صفوری کا اس واقعہ کو بغیر سند کے نقل کرنا دلیل نہیں بن سکتا ۔ دوسری بات یہ کہ اس بے سند واقعہ میں کعبہ میں پیدا ہونے کو مولا علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت بتایا جا رہا ہے اور صاف الفاظ ہیں کہ یہ فضیلت کسی اور کو نہیں ملی حالانکہ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ صحابی حکیم بن حزام رضیﷲعنہ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ تو صحیح روایات کی موجودگی میں ایسے بے سند واقعات سے کعبہ میں ولادت کو مولا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص کرنا ایسے ہی ہے جیسے دن کے وقت آنکھیں بند کرکے سورج کی نفی کرنا اور رات ہونے پر ضد کرنا ۔ (فافھم)
مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ ثابت کرنے کیلئے شیعہ اور نیم شیعہ سنی ایک "الفصول المہمہ" نامی غیر معروف کتاب کا سہارا بھی لیتے ہیں باوجود اس کے کہ قائلین امام حاکم کے کہنے پر مولائے کائنات کی کعبہ میں ولادت کو اخبار متواترہ سے ثابت مانتے ہیں , مگر افسوس اس بات پر کہ جب دلائل کی باری آتی ہے تو "الفصول المہمہ" جیسی غیر معروف کتاب اٹھا کر سامنے کردی جاتی ہے ۔ اس کتاب کے مصنف "علی بن محمد بن احمد المالکی المکی" ہیں جو "ابن الصباغ" کے نام سے مشہور ہیں اور موصوف کی تاریخ وفات "855 ھ" ہے ۔
دعوٰی تواتر کا اور دلائل ؟ امام حاکم کا قول ، نزہتہ المجالس کا قصہ اور الفصول المہمہ جیسی کتاب جس کو اکثر و بیشتر علماء شاید جانتے ہی نہ ہوں بہر کیف ۔ الفصول المہمہ میں بھی نرا دعوٰی ہی دعوٰی ہے دلیل کا نام و نشان نہیں اور اگر کوئی روایت پیش کی گئی ہے تو اس کی سند مفقود ہے اور بغیر سند کے کوئی روایت حجت نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی قدر و اہمیت ہے , الفصول المہمہ کے مصنف 855 ھ میں فوت ہوئے جبکہ مولا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کا واقعہ ہجرت سے کئی برس پہلے کا ہے لہٰذا ایسا واقعہ جو صاحب فصول المہمہ کی پیدائش سے بھی کئی سو سال پہلے کا ہے فقط ان کے کہنے پر کیسے مان لیا حائے ؟
مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ ثابت کرنے کیلئے شیعہ اور نیم شیعہ سنی حضرات " ڈوبتے کو تنکے کا سہارا" پر عمل کرتے ہوئے "سبط ابن جوزی" کی کتاب "تذکرہ الخواص" پیش کرکے بگلیں بجاتے ہیں , حالانکہ یہاں بھی سند کے اعتبار سے وہی معاملہ ہے جو "المستدرک" "الفصول" اور "نزھتہ المجالس" میں رہا ہے کہ ایک تو دعویٰ بلا دلیل اور اگر کوئی روایت نقل کر ہی دی تو شاید اس کی سند شیعوں کے بارہویں امام غار وغیرہ میں چھپا کر بیٹھے ہیں , "تذکرہ الخواص" میں بھی فقط دعویٰ ہی دعویٰ ہے نہ کوئی دلیل اور نہ ہی کوئی سند ۔ تو بغیر سند کے کسی واقعہ کا اعتبار کیونکر کیا جا سکتا ہے ؟ ۔ اور واقعہ بھی ایسا جس سے مذہب شیعہ کو تقویت ملتی ہو (فافھم) دوسری اور اہم بات کہ سبط ابن جوزی اور "امام ابن جوزی" دو الگ شخصیات ہیں لہٰذا دھوکہ کھانے کی ضرورت نہیں اور یہ بھی واضح رہے کہ "سبط ابن جوزی" تقیہ باز رافضی تھا تقریباً 654 ھجری میں وفات پائی ۔ اب ایک واقعہ جو سبط ابن جوزی سے کئی سو سال پہلے کا ہے صرف اس کے بیان کرنے سے کیوں تسلیم کیا جائے ؟ اور بالخصوص اس وقت کہ جب سبط ابن جوزی کی اپنی پوزیشن یہ ہو کہ اس کے اپنے قلم سے رافضیت ٹپک رہی ہو تو اس وقت سبط ابن جوزی کی اطاعت میں مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ ماننا نری حماقت نہیں تو کیا ہے ؟
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ ماننے والے شیعہ اور نیم شیعہ سنی اپنے اس مفروضہ کی گرتی ہوئی دیوار کو بچانے کی خاطر "نور الابصار" نامی کتاب کو دین و ایمان سمجھتے ہوئے پیش کرتے ہیں ! اور حسب معمول یہاں بھی نرا دعویٰ ہی دعویٰ ۔ لطیفہ یہ ہے کہ نور الابصار کے مصنف الشیخ شبلنجی حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ میں لکھ کر حوالہ "ابن الصباغ" کا دیتے ہیں اور یہ ابن الصباغ وہی ہے جو "الفصول المھمہ" نامی غیر معروف کتاب کا مصنف ہے جس کا رد ہم اوپر پیش کر آئے ہیں ۔ اور ظاہری بات ہے جب اصل کا رد ہو گیا تو فرع خود بخود ختم یعنی جب ابن الصباغ کا رد ہو گیا تو اب جو کوئی بھی ابن الصباغ کا حوالہ دے گا اس کا رد خودبخود ہو جائے گا ۔ لہٰذا "نور الابصار" کا حوالہ پیش کرنا قائلین کو کسی طرح مفید نہیں کیونکہ یہاں بھی نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی سند بلکہ جو واقعہ ولادت لکھا ہے وہ بھی ابن الصباغ کی الفصول سے لیا گیا ہے جب کہ الفصول میں بھی اس کی کوئی سند نہیں ۔ لہٰذا ایسی موضوع (من گھڑت) روایات سے مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ ثابت کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوا سفید ہے کی رٹ لگائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنا جس سے کچھ حاصل نہیں ۔ اور صاحب نور الابصار الشیخ الشبلنجی 13 تیرھویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں اور ایسا واقعہ جو ان کی پیدائش سے سینکڑوں سال پہلے کا ہے اس کے بارے ان کی ذاتی رائے یا دعویٰ کچھ حیثیت نہیں رکھتا ۔
مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ ماننے والے لوگ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرّحمہ کی مایۂ ناز تصنیف "ازالتہ الخفاء" کا حوالہ بھی پیش کرتے ہیں حالانکہ حاکم نیشاپوری کے رد کے بعد شاہ صاحب کا حوالہ پیش کرنا سراسر کج فہمی کی دلیل ہے کیونکہ شاہ صاحب علیہ الرّحمہ اپنی تحقیق کی بناء پر ایسا نہیں فرما رہے بلکہ حاکم ہی کے قول کو نقل کر رہے ہیں حالانکہ ہم پہلی دلیل کے رد میں یہ واضح کر آئے ہیں کہ حاکم کا قول دراصل حاکم کا وہم ہے یا پھر نیم شیعہ ہونے کی ایک کڑی ۔ (فافھم) ۔ اور ایسا دعویٰ جس کی دلیل ہے ہی نہیں اور دعویٰ بلا دلیل مردود ہوتا ہے لہٰذا ایسے مردود قول یا دعوے کو چاہے ایک ہزار بندہ نقل کرتا چلا آئے دلیل نہیں بن سکتا ۔ اسی لئے قائلین کو شاہ صاحب علیہ الرّحمہ کا حوالہ کچھ فائدہ نہیں دے گا کیونکہ شاہ صاحب علیہ الرّحمہ بھی حاکم ہی کا قول نقل کر رہے ہیں ۔ (مزید حصہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment