Tuesday 15 February 2022

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ علمی و انقلابی شخصیت

0 comments

 حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ علمی و انقلابی شخصیت

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : خلیفۂ چہارُم امیرُالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک قول کے مطابق 10سال کی عُمْر میں اسلام قبول کرکے بچّوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف پایا ۔ (سیرتِ ابن اسحاق ، ص137 ، مقدمۃ ابن الصلاح ، ص300)


بچپن سے لے کر رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ظاہری وِصال فرمانے تک سفر و حَضر اور اہلِ بیت ہونے کی وجہ سے بسا اوقات گھر میں بھی حُضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ساتھ ہوتے اور نبی کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سنّتوں کو دل و جان سے اپناتے ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  لوگوں میں سنّت کو زیادہ جاننے والے ہیں ۔ (تاریخ ابن عساکر ، 42 / 408)


عَہد ساز اور اِنقلاب آفریں شخصیات  نے ہر دور میں انسانی سوچ کے دھارے بدلے ، مزاج و کردار کو نئی  سمت پر گامزن اور گفتار و نگاہ کو نئے زاویوں سے روشناس کیا ۔ کئی انقلابی شخصیات ایسی بھی  ہوتی ہیں جن کے کارنامے نہ صرف اپنے زمانے بلکہ آنے  والی صدیوں کو بھی متاثر کرتے ہیں اور لوگ نسل در نسل اُن کی انمول اور انقلاب آفریں تعلیمات کی روشنی میں اپنے  حال اور مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ ایسی ہی ایک انقلابی شخصیت جو اَخلاقِ کریمانہ و اقوالِ حکیمانہ ، جُہْدِ مسلسل ، ہمت و شجاعت ، علم و تقویٰ ، کردار و عمل ، تَدَبُّر و اسلامی سیاست ، ایثار و تَواضُع ، اِسْتِغْنَا و توکُّل اور قناعت و سادگی جیسے عمده اَوصاف سے مزیَّن ہے ۔ دنیا جنہیں حیدر و صفدر ، فاتحِ خیبر ، شیرِ خدا ، سیّدُالاَولیاِء ، امام الاَتْقِیاء ، مَخْزَنِ سخاوت ، تاجدار شجاعت ، اِمَامُ الْمَشَارِق و الْمَغَارِب ، خلیفۂ چہارم امیر المؤمنین حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے ۔


بابُ مدینۃِ العلم آپ رضی اللہ عنہ کو بارگاہِ رسالت سے ”بابُ العلم (علم کا دروازہ)“ کالقب عطا ہوا ۔ آپ خود فرماتے ہیں : مجھے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلیہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے علم کے ہزار باب عطا کیے اور ہر باب سے آگے ہزار باب کھلتے ہیں ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 42 صفحہ 385،چشتی)


ایک موقع پر یوں فرمایا : مجھ سے پوچھو ! اللہ  تعالیٰ کی قسم !قیامت تک ہونے والی جو بات تم مجھ سے پوچھو گے، میں تمہیں ضرور بتاؤں گا ۔ (کنز العمال، جز 2 ج 1 ص 239، حدیث: 4737)


آپ رضی اللہ عنہ کی قراٰن فہمی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار فرمایا: اگر میں چاہوں تو سورۂ فاتحہ کی تفسیر سے 70 اونٹ بھر دوں ۔ (الاتقان،ج2، ص1223)


شجاعت و بہادری ہجرت کی رات جبکہ چاروں طرف کفار تلواریں لیے کھڑے تھے آپ رضی اللہ عنہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلیہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے بستر پر سوئے ۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 192،چشتی)


غزوۂ تبوک کے علاوہ ہر  غزوہ میں شرکت فرمائی اور خیبرکے قلعہ کو فتح کر کے ”فاتحِ خیبر“ کے نام سے شہرت پائی ۔ (بخاری ج 3 ص 84 حدیث: 4209)


روشن فیصلے جب سینہ دستِ نبوی سے فیض یاب ہو اور  فیصلوں کو تصدیقاتِ نبوی حاصل ہوں تو ایسے فیصلے زمانے میں انقلاب برپا کر دیتے ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے فیصلوں کو خود نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلیہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے پسند فرمایا ۔ (فضائل الصحابہ، ص812، حدیث:1113)


مقدمہ کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہوتا آپ رضی اللہ عنہ چند لمحوں میں اُس کا بہترین فیصلہ فرما دیا کرتے ، الغرض آپ رضی اللہ عنہ کے فیصلے اسلامی  عدالت کےلیے انقلابی حیثیت رکھتے ہیں ۔


صائب الرائے (درست رائے والے) آپ رضی اللہ عنہ ایسی درست رائے کے حامل تھے کہ  نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلیہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے آپ سے  مشورہ فرمایا ۔ (بخاری ج 4 ص 528)


خلیفۂ اوَّل حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ اور خلیفۂ دُوُم حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسےدور  اندیش اور تجربہ کار اپنے دورِ خلافت میں آپ رضی اللہ عنہ سے مشورہ  فرماتے ۔ (الکامل فی التاریخ،ج3، ص205)


عربی زبان کے قواعد آپ رضی اللہ عنہ نے جب لوگوں  کو عربی بول چال میں غلطیاں کرتے پایا تو اصلاح کےلیے بنیادی قواعد و ضوابط مرتب کیے اور حضرت ابو الاسود دُؤلی رضی اللہ عنہ کو  کلمہ کی تینوں قسموں” اسم ، فعل ، حرف “ کی تعریفیں لکھ کر دیں اور اِس میں اضافہ کرنے کا فرمایا پھر اُن کے اضافہ جات کی اصلاح بھی فرمائی ۔ (تاریخ الخلفاء، ص143،چشتی)


فقہ و فتاویٰ بابُ مدینۃ العلم رضی اللہ عنہ نے اس میدان میں بھی تاریخ رقم فرمائی ، پیش آنے والے نئے مسائل کو پَل بھر میں حل فرما دیتے ، کثیرصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فقہی مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے ۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ حضرت عمر فاروقِ اعظم  و حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے لوگوں نے مسئلے پوچھے تو فرمایا : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جاکر پوچھو ۔ (مسلم ص 130، حدیث: 639، مصنف ابن ابی شیبہ،ج 4، ص223، حدیث:5)


خارجیوں کا قلع قمع اسلام دُشمن  خارجیوں کا سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ ہی نے قلع قمع فرما کر مسلمانوں کو ان کے فتنے سے محفوظ و مامون کیا ۔ (الاستیعاب ج 3 ص 217)


ہجری سن کا آغاز عہدِ فاروقی میں آپ رضی اللہ عنہ ہی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اسلامی سن کا آغاز ہجرتِ مدینہ سے کیا گیا ۔ (البدایۃ والنہایۃ جلد 5 صفحہ 146،چشتی)


اُمور رفاہِ  عامہ (عوامی بھلائی کے کام) آپ رضی اللہ عنہ  نے اپنے دورِ خلافت میں مسلمانوں کی خیر خواہی کےلیے حقوقِ عامہ  کی حفاظت کا بھی اہتمام فرمایا جیسا کہ شاہراہِ عام کو  گندگی  سے بچانے کےلیے بیت الخلاء اور نالیوں کو شارع عام سے دور بنانے  کا  حکم فرمایا ۔ (مصنف عبد الرزاق جلد 9 صفحہ 405 حدیث نمبر 18722،چشتی)


انسانی جانوں کے تحفظ  کےلیے قانون بنایا کہ اگر کسی کے کنواں کھودنے یا بانس وغیرہ گاڑنے کی صورت میں انسانی جان  تلف ہوئی تو ضمان ادا کرنا ہو گا ۔(مصنف عبدالرزاق،ج 9، ص405، حدیث: 18723)


حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ علم و حکمت کا دروازہ : مولا علی مشکل کُشا ، شیرِ خدا  رضی اللہ عنہ علمی اعتبار سے صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم میں ایک خاص مقام رکھتے تھے اور کیوں نہ رکھتے ہوں کہ خود نبی کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے آپ رضی اللہ عنہ کی علمی شان بیان کرتے ہوئے آپ کو علم و حکمت کا دروازہ فرمایا ہے : ⬇


اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہیں ۔ (مستدرک للحاکم ، 4 / 96 ، حدیث : 3744،چشتی)


اَنَا دَارُ الْحِکْمَۃِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا یعنی میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں ۔ (ترمذی ، 5 / 402 ، حدیث : 3744)


حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر یوں دعا کی : اَللّٰهُمَّ اِمْلَأْ قَلْبَهٗ عِلْماً وَفَهْماً وَحِكَماً وَنُوراً ۔ اے اللہ ! علی کے سینے کو علم ، عقل و دانائی ، حکمت اور نور سے بھر دے ۔ (تاریخ ابن عساکر ، 42 / 386)


حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور علم کے ہزار باب : بابِ علم و حکمت ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مجھے علم کے ایک ہزار باب سکھائے اور میں نے ان میں سے ہر باب سے مزید ایک ہزار باب نکالے ۔ (تفسیرِ کبیر ، 3 / 200،چشتی)


جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو : آپ  رضی اللہ عنہ کی علمی لیاقت بیان کرتے ہوئے صحابیِ رسول حضرت ابوطُفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ، آپ نے خطبے کے دوران ارشاد فرمایا : مجھ سے سوال کرو ، اللہ پاک کی قسم ! تم مجھ سے قیامت تک ہونے والے جس معاملے کے متعلق بھی پوچھو گے میں تمہیں اس کا جواب ضرور دوں گا ۔ (جامع بیان العلم و فضلہ صفحہ نمبر 157 ، رقم : 508،چشتی)


نشہور تابعی حضرت سعید بن مسیّب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سوائے حضرت علی  رضی اللہُ عنہ کے کوئی یہ کہنے والا نہیں تھا کہ مجھ سے پوچھ لو ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ، 13 / 457 ، رقم : 26948)


حضرت علی رضی اللہ عنہ اور قرآنی آیات کی معلومات : آپ  رضی اللہُ عنہ  قرآنِ کریم کی آیات کے بارے میں جانتے تھے کہ کون سی آیت کب اور کہاں نازِل ہوئی ہے ۔ چنانچہ منبعِ علم و حکمت ، مولائے کائنات حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھ سے قراٰنِ کریم کے بارے میں پوچھو ، بے شک میں قرآنِ پاک کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ رات میں نازِل ہوئی ہے یا دن میں ، ہموار زمین پر نازِل ہوئی یا پہاڑ پر ۔ ایک مقام پر مولا علی مشکل کُشا رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ پاک کی قسم ! میں قرآنِ کریم کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کب اور کہاں نازِل ہوئی ہے اور کس کے بارے میں نازِل ہوئی ہے ۔ (طبقاتِ ابن سعد ، 2 / 257،چشتی)


قرآنِ کریم کے ظاہر و باطن کے عالم : فقیہِ اُمّت کا لقب پانے والے صحابی حضرت عبدُاللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ آپ  رضی اللہ عنہ  کی قرآن فہمی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : امیرُالمؤمنین حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ایسے عالِم ہیں کہ جن کے پاس قرآنِ کریم کے ظاہر و باطن دونوں کا علم ہے ۔ (تاریخ ابن عساکر ، 42 / 400)


قرآنِ کریم کی آیت کے ظاہر اور باطن کی وضاحت کرتے ہوئے حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : ظاہری مراد اِس کا لفظی ترجمہ ہے باطِنی مراد اِس کا منشاء اور مقصد یا ظاہر شریعت ہے اور باطن طریقت یا ظاہر اَحکام ہیں اور باطن اَسرار یا ظاہر وہ ہے جس پر علماء مطَّلَع ہیں اور باطن وہ ہے جس سے صوفیائے کرام خبردار ہیں یا ظاہر وہ جو نقْل سے معلوم ہو باطن وہ جو کشْف سے معلوم ہو ۔ (مراۃ المناجیح جلد 1 صفحہ 210،چشتی)


صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اگر کسی معاملے میں حضرت علی  رضی اللہ عنہ کے فتوے کا علم ہو جاتا تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے فتوے پر عمل کیا کرتے تھے ، چنانچہ حضرت عبدُاللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب کوئی معتبر شخص ہمیں حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کا فتویٰ بتاتا تو ہم اُس سے تجاوز نہ کرتے ۔ (طبقات ابن سعد جلد 2 صفحہ 258،چشتی)


صحابۂ کرام بلکہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہم بھی مسائل کے حل کےلیے حضرت علی  رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کرتی تھیں ۔ جیسا کہ تابعی حضرت شُریح بن ہانی رضی اللہ عنہما نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے موزوں پر مسح کے بارے میں سوال کیا تو آپ  رضی اللہ عنہا نے فرمایا : حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کیونکہ وہ اس مسئلے کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ۔ (مسلم ، ص130 ، 131 ، حدیث : 639 ، 641،چشتی)


حضرت عبدُاللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اہلِ مدینہ میں علمِ میراث سب سے زیادہ جانتے تھے ۔ (الاستیعاب ، 3 / 207)


حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے 586 احادیثِ مبارکہ مروی ہیں جو کتبِ احادیث میں اپنی خوشبوئیں بکھیر رہی ہیں ۔


شہادت : سِن 40 ہجری میں 17 یا 19 رَمَضانُ المبارَک کو فجر کی نماز کےلیے جاتے ہوئے راستے میں آپ رضی اللہُ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں آپ شدید زخمی ہوگئے اور 21 رَمَضانُ المبارَک کی رات کو جامِ شہادت نوش فرمایا ۔ (طبقات ابن سعد ، 3 / 27)


امیر المومنین حضرت مولا علی مرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے اقوال و ارشادات بلاشبہہ دریاے علم و عرفان کے ایسے بے نظیر موتی ہیں جن سے آدمی اپنے اخلاق و کردار کو آراستہ و پیراستہ کر سکتا ہے ۔ اور ان کی زبانِ فیض ترجمان سے نکلے ہوئے کلمات آسمان رشد و ہدایت کے وہ تابندہ ستارے ہیں جن کی روشنی میں چلنے والا انسان کبھی اپنی منزل سے بھٹک نہیں سکتا ۔ دلیلِ مدعا کے طور پر بعض اقوال و ارشادات پیش خدمت ہیں : ⬇


بے وقوف کی دوستی سے بچو ؛کیوں کہ وہ تجھے نفع پہنچانا چاہے گا ، لیکن نادانی کی وجہ سے نقصان پہنچاے گا ، اور کذاب (جھوٹے) کی دوستی سے بچو ؛کیوں کہ وہ تجھ پر دور کو قریب ظاہر کرے گا اور قریب کو دور بتائے گا ، اور بخیل کی دوستی سے بچو ؛ کیوں کہ جب تجھے اس کی مدد کی ضرورت ہوگی تو وہ تجھ سے دور بھاگ جائے گا ، اور بدکار کی دوستی سے بچو ؛ کیوں کہ وہ معمولی چیز کے بدلے تجھے فروخت کردے گا ۔ (تاریخ الخلفاء علی بن ابی طالب اخبارہ و قضا یاہ و کلماتہ صفحہ ۱۴۵،چشتی)


یقینا جس قوم نے جنت کی لالچ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کی ، اس کی عبادت تاجروں کی طرح ہوئی ۔ اور جس قوم نے عذاب کے ڈر سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کی ، اس کی عبادت غلاموں کی طرح ہوئی ۔ اور جس قوم نے شکریہ ادا کرنے کےلیے اللہ جلّ شانہ کی عبادت کی ، اس کی عبادت آزاد شریف لوگوں کی طرح ہے ۔ (نہج البلاغۃ ،مجموعہ کلام امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب،ج۴، ص۵۳)


تم میں کا ہر شخص صرف اپنے گناہوں سے ڈرے اور اپنے پروردگار ہی سے امیدیں لگائے ، جو شخص نہیں جانتا ہے وہ علم حاصل کرنے میں شرم نہ کرے ، اور کم علم آدمی سے جب ایسا مسئلہ پوچھا جو اسے معلوم نہیں ہے تو یہ کہنے میں کہ اللہ جل شانہ بہتر جانتا ہے اپنی بے عزتی نہ سمجھے ۔ صبر ایمان کےلیے ایسا ہی ہے جیسا کہ سر جسم کےلیے ، جب صبر کا دامن چھوٹ جائے گا تو ایمان رخصت ہو جائے گا اور جب سر نہیں رہے گا تو جسم بے کار ہو جائے گا ۔ (تاریخ الخلفاء علی بن ابی طالب اخبارہ و قضا یاہ و کلماتہ صفحہ ۱۴۷،چشتی)


سب سے بڑا عاجز وہ ہے جو اچھے دوست نہ بناسکے ،اور اس سے بھی بڑا عاجز وہ ہے جو اچھا دوست پاکر اسے ضائع کردے ۔(نہج البلاغۃ جلد ۴ صفحہ ۴)


بے وقوف کادل اس کے منہ میں ہوتا ہے ، اور عقل مند کی زبان اس کے دل میں ہوتی ہے ۔ (نہج البلاغۃ جلد ۴ صفحہ ۱۲)


تیرے دوست تین طرح کے ہیں : تیرا اپنا دوست ،تیرے دوست کا دوست اور تیرے دشمن کا دشمن ۔اور تیرے دشمن بھی تین طرح کے ہیں : تیرا اپنا دشمن ، تیرے دوست کا دشمن اور تیرے دشمن کا دوست ۔ (نہج البلاغۃ جلد ۴ صفحہ ۷۱)


سب سے بڑی دولت عقل ہے ، سب سے بڑی محتاجی وتنگ دستی حماقت و بے عقلی ہے ،سب سے خطر ناک دیوانگی تکبر و غرور ہے اور سب سے بڑی بزرگی حسن اخلاق ہے ۔ (تاریخ الخلفاء علی بن ابی طالب اخبارہ و قضایاہ و کلماتہ صفحہ ۱۴۵)


سب سے بڑی دولت عقل ہے ، سب سے بڑی محتاجی و تنگ دستی حماقت وبے عقلی ہے ،سب سے خطر ناک دیوانگی تکبر و غرور ہے اور سب سے بڑی بزرگی حسن اخلاق ہے ۔ (تاریخ الخلفاء ،علی بن ابی طالب ،اخبارہ و قضایاہ و کلماتہ صفحہ ۱۴۵) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔