Thursday 3 February 2022

رجب کے کونڈے ایصالِ ثواب ہیں حصّہ سوم

0 comments

 رجب کے کونڈے ایصالِ ثواب ہیں حصّہ سوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : نذر و نیاز ایک مستحب عمل ہے ۔ کریں تو ثواب ، نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں ۔ لہٰذا یہ فرض وواجب نہیں ہے ۔ ﷲ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو بے شمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا ، ان نعمتوں میں سے ایک نعمت حلال اور طیب رزق ہے ، جسے رب کریم اپنے بندوں کو محنت کر کے حلال ذرائع سے حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ بندے حرام سے بچ کر حلال طیب رزق حاصل کرکے اپنی زندگی گزاریں ۔ انہی حلال و طیب رزق میں سے ایک بابرکت چیز نذر و نیاز ہے جوکہ رب کریم کی بارگاہ میں پیش کر کے اس کا ثواب نیک و صالح مسلمانوں کو ایصال کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ اس مضمون میں نذر و نیاز کی حقیقت اور اسے حرام کہنے والوں کی اصلاح کی جائے گی ان شاء اللہ ۔

نذر و نیاز کو حرام کہنے والے یہ آیت پیش کرتے ہیں : انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اہل بہ لغیر ﷲ ۔ (سورۂ بقرہ، رکوع 5 پارہ 2 آیت 173)
ترجمہ : درحقیقت (ہم نے) تم پر حرام کیا مردار اور خون سور کا گوشت اور جس پر ﷲ کے سوا (کسی اور کا نام) پکارا گیا ہو ۔
حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر ومااہل لغیر ﷲ بہ ۔ (سورۂ مائدہ رکوع 5 پارہ 6 آیت 3)
ترجمہ : حرام کردیا گیا تم پر مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر ﷲ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو ۔

ان آیات میں ’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘
سے کیا مراد ہے : ⬇
1۔ تفسیر وسیط علامہ واحدی میں ہے کہ ’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ کا مطلب ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
2۔ شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ترجمان القرآن میں ’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ سے مراد لکھا ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
3۔ تفسیر روح البیان میں علامہ اسمٰعیل حقی علیہ الرحمہ نے ’’ما اہل بہ لغیر ﷲ‘‘ سے مراد یہی لیا ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
4۔ تفسیر بیضاوی پارہ 2 رکوع نمبر 5 میں ہے کہ ’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ جانور کے ذبح کے وقت بجائے خدا کے بت کا نام لیا جائے۔
5۔ تفسیر جلالین میں ’’ما اہل بہ لغیر ﷲ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جانور جو غیر ﷲکے نام پر ذبح کیا گیا ہو، بلند آواز سے بتوں کا نام لے کر وہ حرام کیا گیا۔

ان تمام معتبر تفاسیر کی روشنی میں واضح ہوگیا کہ یہ تمام آیات بتوں کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں ، لہذا اسے مسلمانوں پر چسپا کرنا کھلی گمراہی ہے ۔

مسلمانوں کا نذرونیاز کرنا

مسلمان ﷲ تعالیٰ کو اپنا خالق و مالک جانتے ہیں اور جانور ذبح کرنے سے پہلے ’’بسم ﷲ ﷲ اکبر‘‘ پڑھ کر ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں پھر کھانا پکوا کر ﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے لہٰذا اس میں کوئی شک والی بات نہیں بلکہ اچھا اور جائز عمل ہے ۔

ایصال ثواب کےلیے بزرگوں کی طرف منسوب کرنا

حضرت سعد بن عبادہ رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت اقدس میں عرض کیا یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میری والدہ فوت ہوگئی ہے ۔ کیا میں ان کی طرف سے کچھ خیرات اور صدقہ کروں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ! ہاں کیجیے ، حضرت سعد بن عبادہ رضی ﷲ عنہ نے دریافت فرمایا ۔ ثواب کے لحاظ سے کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ’’پانی پلانا‘‘ تو ابھی تک مدینہ منورہ میں حضرت سعد رضی ﷲ عنہ ہی کی سبیل ہے (سنن نسائی جلد دوم، رقم الحدیث3698 صفحہ 577 مطبوعہ فرید بک لاہور،چشتی)

صاحب تفسیر خازن و مدارک فرماتے ہیں : اگر فوت شدہ کا نام پانی پر آنا اس پانی کے حرام ہونے کا سبب بنتا تو حضرت سعد رضی ﷲ عنہ اس کنویں پر اُم سعد کا نام نہ آنے دیتے ، ’’مااہل بہ لغیر ﷲ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ بوقت ذبح جانور پر غیر ﷲ کا نام نہ آئے ، جان کا نکالنا خالق ہی کے نام پر ہو ۔ (تفسیر خازن و مدارک جلد اول صفحہ 103)

حضرت عروہ بن زبیر رضی ﷲ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سینگوں والے مینڈھے کےلیے حکم فرمایا جس کے سینگ سیاہ آنکھیں سیاہ اور جسمانی اعضا سیاہ ہوں ۔ پس وہ لایا گیا تو اس کی قربانی دینے لگے ۔ فرمایا کہ اے عائشہ ! چھری تو لاٶ ، پھر فرمایا کہ اسے پتھر پر تیز کر لینا ۔ پس میں نے ایسا ہی کیا تو مجھ سے لے لی اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور ذبح کرنے لگے تو کہا ۔ ﷲ کے نام سے شروع کرتا ہوں ۔ اے ﷲ تعالیٰ ! اسے قبول فرما محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف سے آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف سے اور امتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف سے پھر اس کی قربانی پیش کردی (سنن ابوداٶد جلد دوم کتاب الاضحایا، رقم الحدیث 1019 صفحہ نمبر 392 مطبوعہ فرید بکسٹال لاہور،چشتی)

حنش کا بیان ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو عرض گزار ہوا ، یہ کیا بات ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے وصیت فرمائی تھی ، اپنی طرف سے قربانی کرنے کی ۔ چنانچہ (ارشاد عالی کے تحت) ایک قربانی میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف سے پیش کررہا ہوں ۔ (سنن ابو داٶد جلد دوم، کتاب الاضحایا رقم الحدیث 1017 صفحہ نمبر 391، مطبوعہ فرید بکسٹال لاہور)

حضرت علامہ مولانا مُلّا جیون علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ذبح سے پہلے یا ذبح کے بعد بغرض ملکیت یا بغرض ایصال ثواب وغیرہ کسی جانور وغیرہ پر آنا یہ سبب حرمت نہیں، مثلا یوں کہا جاتا ہے۔ مولوی صاحب کی گائے، خان صاحب کا دنبہ، ملک صاحب کی بکری، عقیقہ کا جانور، قربانی کا جانور، ولیمہ کی بھینس، ان جانور پر جو غیر ﷲ کا نام پکارا گیا تو کیا یہ حرام اور منت ہو گئے ؟ ہرگز نہیں! یہی حکم ہے گیارہویں کے دودھ، حضور غوث الثقلین رضی اﷲ عنہ کی طرف منسوب بکری اور منت والے جانوروں کا ۔ (تفسیرات احمدیہ)

حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : واگر مالیدہ و شیر برنج بنا برفاتحہ بزرگ بقصد ایصال ثواب بروح ایشاں پختہ بخورند مضائقہ نیست جائز است‘‘
یعنی اگر مالیدہ اور شیرینی کسی بزرگ کی فاتحہ کے لئے ایصال ثواب کی نیت سے پکاکر کھلا دے تو جائز ہے، کوئی مضائقہ نہیں ۔ (تفسیر عزیزی، جلد اول صفحہ نمبر 39،چشتی)
آگے فرماتے ہیں ’’طعامیکہ ثواب آں نیاز حضرت امامین نمایندو وبرآں فاتحہ و قل ودرود خواندن تبرک میشود خوردن بسیار خوب است‘‘
یعنی جس کھانے پر حضرات امامین حسنین کی نیاز کریں اس پر قُل اور فاتحہ اور درود پڑھنا باعث برکت ہے اور اس کا کھانا بہت اچھا ہے ۔ (فتاویٰ عزیزی جلد اول صفحہ 71)

مسلکِ اہلسنت ، دیوبندی مکتبہ فکر اور اہلحدیث مکتبہ فکر کی مسلمہ شخصیت شاہ ولی ﷲ علیہ الرحمہ کی کتابوں سے نذر و نیاز کا ثبوت :⬇

اقوال امام الطائفہ کے بزرگان و عمائد اور اساتذہ و مشائخ کے نقل کرتے ہیں تاکہ ان بے باکوں کو پتہ چلے کہ شریعت سے ممانعت کے بغیر فاتحہ کو حرام بتانے پر زبان کھولنا اور فاتحہ کے کھانے، بزرگوں کی نیاز کی شیرینی کو حرام و مردار کہنا کیسی سخت سزائیں چکھاتا ہے اور کیسے برے دن دکھاتا ہے ۔ (انفاس العارفین (اردو) ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نیاز کی اشیاء کی مقبولیت، صفحہ نمبر 106، مطبوعہ المعارف گنج بخش روڈ لاہور) (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9 صفحہ نمبر 574، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور،چشتی)

الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین میں شاہ ولی ﷲ علیہ الرحمہ اپنے والد شاہ عبدالرحیم علیہ الرحمہ کی بات کو نقل کرتے ہیں ’’بائیسویں حدیث : مجھے سیدی والد ماجد نے بتایا کہ : حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نیاز کےلیے کچھ کھانا تیار کراتا تھا ۔ ایک سال کچھ کشائش نہ ہوئی تو کھانا پکوائوں، صرف بھنے ہوئے چنے میسر آئے ۔ وہی میں نے لوگوں میں تقسیم کیے ۔ میں نے سید عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو خوبا میں دیکھا کہ ان کے سامنے یہ چنے موجود ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسرور و شادماں ہیں ۔ (الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین، صفحہ نمبر 40 کتب خانہ علویہ رضویہ فیصل آباد)

شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب انتباہ فی سلاسل الاولیاء میں لکھتے ہیں : تھوڑی شیرینی پر عموماً خواجگان چشت کے نام فاتحہ پڑھیں اور خدائے تعالیٰ سے حاجت طلب کریں ۔ اسی طرح روز پڑھتے رہیں ۔ (الانتباہ فی سلاسل الاولیائ، ذکر طریقہ ختم خواجگان چشم صفحہ 100 مطبوعہ برقی پریس دہلی)(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9، صفحہ نمبر 575 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)

شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ ’’ہمعات‘‘ میں فرماتے ہیں : یہیں سے ثابت ہے اعراس مشائخ کی نگہداشت اور ان کے مزارات کی زیارت پر مداومت اور ان کے لئے فاتحہ پڑھنے اور صدقہ دینے کا التزام ۔ (ہمعات، ہمعہ 11، 1 کا دیمیۃ الشاہ ولی ﷲ حیدرآباد سندھ صفحہ 58،چشتی)(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9، صفحہ نمبر 575، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)

شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ’’زبدۃ النصائح‘‘ میں مندرج فتویٰ میں لکھتے ہیں : اگر کسی بزرگ کی فاتحہ کےلیے ان کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے قصد سے ملیدہ اور کھیر پکائیں اور کھلائیں تو مضائقہ نہیں ، جائز ہونگے اور خدا کی نذر کا کھانا اغنیاء کے لئے حلال نہیں۔ لیکن اگر کسی بزرگ کے نام کی فاتحہ دی جائے تو اس میں اغنیاء کو کھانا بھی جائز ہے ۔ (زبدۃ النصائح)(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9 صفحہ نمبر 575 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے جو کہ بخاری شریف کی سب سے پہلی حدیث ہے ۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ شیعہ حضرات کی جو بھی نیت ہو، وہ اپنی نیت کے ذمہ دار ہیں ۔ ہم اہلسنت و جماعت کی نیت صرف اور صرف امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ کے ایصال ثواب کی ہے جسے ہم اہلسنت عرصہ دراز سے کرتے چلے آرہے ہیں ۔

عقلی دلیل : 18 ذی الحجہ کو تمام مسلمان یوم شہادت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ مناتے ہیں جبکہ پوری دنیا کے شیعہ اس دن عید غدیر مناتے ہیں ۔ نئے کپڑے پہنتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں تو کیا ہم اس بناء پر کہ اس دن شیعہ عید مناتے ہیں ، ہم حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کا یوم شہات منانا چھوڑ دیں ؟ نہیں ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اس لئے کہ ہماری نیت یوم شہادت منانے کی ہے ۔

عقلی دلیل : شیعہ حضرات دس محرم الحرام کو شہدائے کربلا کا سوگ مناتے ہیں اور ماتم کرتے ہیں جبکہ پوری دنیا کے مسلمان دس محرم الحرام کو شہدائے کربلا کی یاد مناتے ہیں ۔ ان کےلیے ایصال ثواب کا اہتمام کرتے ہیں تو کیا ہم اس بناء پر کہ وہ سوگ و ماتم کرتے ہیں ۔ ہم یوم شہادت منانا چھوڑ دیں ؟ ان کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرنا چھوڑدیں ؟ نہیں ، ہرگز نہیں چھوڑیں گے ۔ اس لیے کہ ہماری نیت شہدائے کربلا کے ایصال ثواب کی ہے ۔

سوال : حضرت امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ کے وصال کی تاریخ مورخین کے نزدیک 15 رجب المرجب ہے اور حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے وصال کی تاریخ 22 رجب المرجب ہے ؟
جواب : جس طرح حضرت امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ کی وصال کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی وصال کی تاریخ میں مختلف اقوال ہیں جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں ۔ کسی کے نزدیک 22 رجب ، کسی کے نزدیک 24 رجب اور کسی کے نزدیک 26 رجب ہے ۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ 22 رجب المرجب ہی حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کا یوم وصال ہے پھر تو ہمارے لیے اور بھی فیوض و برکات حاصل کرنے کا موقع مل گیا ۔ وہ اس طرح کہ جب ہم 22 رجب المرجب کو نذر و نیاز پر فاتحہ پڑھیں گے تو اس کا ثواب امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ کے ساتھ ساتھ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو بھی ایصال کردیں گے ۔

نذر و نیاز کے بارے میں درست اور صحیح عقیدہ یہ ہے کہ یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور صرف اسی کےلیے جائز ہے ۔ عرف عام میں اولیاء اللہ کےلیے نذر کا لفظ استعمال کیے جانے پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ ناجائز ہے ۔ اس حوالے سے یہ ذہن نشین کر لیا جائے کہ اس سے مراد ان کے نام پر ہدیہ اور تحفہ پیش کرناہے جو کہ عبادت نہیں ۔ بعض لوگ نذور اور ایصالِ ثواب کو آپس میں خلط ملط کرتے ہیں اور پھر ایصالِ ثواب کے جائز طریقوں کو بھی شرک اور ناجائز کہنے لگتے ہیں یہ تصور درست نہیں ۔ ایصال ثواب ثابت شدہ شرعی طریقہ ہے کوئی چیز محض کسی بزرگ کی طرف منسوب کرنے سے حرام نہیں ہوتی جسے بعض لوگ غلط فہمی کی بنا پر ’’مَا اُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ ﷲِ‘‘ سے تعبیر کر کے اس کا غلط اطلاق دوسری چیزوں پر کرتے ہیں ۔ اِھلال کا معنی ’’منسوب کرنا‘‘ کسی طرح بھی ثابت نہیں ۔ شرعی نذر ﷲ تعالیٰ کےلیے خاص ہے اور یہ شاملِ عبادت ہوتی ہے جبکہ اس کی نسبت اہل ﷲ کی طرف کر دی جاتی ہے آپ منت مان کر کھانا پکائیں یا کچھ اور کریں وہ ﷲ تعالیٰ ہی کی نذر ہو گی جبکہ اس کا ایصالِ ثواب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ یا کسی اور بزرگ کی طرف منسوب کرنا امرِ جائز ہے ۔ یہ عمل شرک تب ہو گا جب کسی غیر کی خوشنودی کےلیے نذر مانی جائے ۔

نذر اللہ تعاليٰ کی رضا و خوشنودی کےلیے مانی جاتی ہے ۔

نذر صدقہ کے معنی میں استعمال ہوتی ہے اس میں عبادت ، نیاز مندی ، جھکنے اور غایتِ تعظیم کے معانی پائے جاتے ہیں ۔ نذر کے بارے میں درست عقیدہ یہی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور صرف اسی کےلیے ماننا جائز ہے ۔ اس لیے نذر شرعی نہ تو کسی رسول اور نبی کےلیے جائز ہے اور نہ ہی اولیاء و صلحاء کےلیے ۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ انبیاء و اولیاء کےلیے جو نذر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ مجازی معنی میں ہوتا ہے حقیقی معنی میں نہیں ۔ ان کےلیے جب نذر کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نذر عرفی بمعنی ہدیہ ، نذرانہ اور ایصالِ ثواب ہے جو انبیاء ، اولیاء اور عام مسلمانوں کےلیے ہے اور یہ بہترین ہدیہ ہے ۔ جس طرح قربانی ، عبادت اور دعا ، خالصۃً اللہ تعالیٰ کےلیے ہوتی ہے اسی طرح ہم نذر اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی کےلیے مانتے ہیں جب کہ اس کا فائدہ اطعام الطعام اور صدقہ و خیرات کی صورت میں غریب ، مسکین ، محتاج ، مفلس ، یتیم اور بے سہارا افراد کو پہنچاتے ہیں ۔ قربانی کی حقیقت کے بارے قرآن میں ارشاد فرمایا گیا : لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ ۔
ترجمہ : ہرگز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقويٰ پہنچتا ہے ۔ (سورہ الحج 22 : 37)

قربانی کے اندر تقویٰ اور اخلاص کی نیت مضمر ہوتی ہے اور وہی اس کی روح ہے جبکہ گوشت سے ناداروں اور غریبوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے ۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ نذر خالصتاً اللہ تعالیٰ کےلیے ہے مگر اس کے ذریعے ثواب انبیاء علیہم السلام اور اولیائے کرام کو پہنچایا جاتا ہے ۔

یہاں یہ بات ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ اہلِ علم جب نذر کا لفظ استعمال کریں تو بہتر ہے کہ وہ اسے حقیقی معنی میں استعمال کریں ۔ اگر وہ اس کو مجازی یا عرفی معنی میں استعمال کرنا چاہیں تو پھر درست عقیدے کی وضاحت بھی کر دیں تاکہ عوام میں کسی قسم کا مغالطہ اور عقیدے کا بگاڑ بوجہِ جہالت پیدا نہ ہونے پائے ۔

خیرات و صدقات اور عملِ صالح کی نذر ماننا شرک نہیں

کوئی عملِ صالح بطورِ نذر مانا جا سکتا ہے ۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ جب ایک مرتبہ حسنین کریمین رضی ﷲ عنہما علیل ہوئے تو ان کےلیے بطورِ نذر روزے رکھے گئے اور حقداروں کو کھانا کھلایا گیا۔

یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ ہر عملِ صالح دوگونہ تعلق کا حامل ہے ۔ (رازی، التفسير الکبير، 30 : 244)

ایک تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس میں اس عمل کی نیت اور اس کے متعلق عقیدے کا ﷲتعالیٰ کے لیے خاص ہونا ہے ۔

اس عمل کا دوسرا تعلق مخلوق کے ساتھ ہے مثلاً مزاراتِ اولیاء پر اظہارِ تعظیم کے لئے چادر چڑھانا جو شعائر اللہ ہونے کے باعث تعظیماً جائز عمل ہے ۔ صاحبِ مزار کے ساتھ یہ تعلق اس امر کا مظہر ہے کہ اس عمل سے اللہ تعاليٰ کی رضا و خوشنودی کا حصول مقصود ہے کہ ﷲ والوں کے مزارات کی تعظیم شعائر ﷲ سمجھ کر حکمِ الٰہی کی تعمیل میں کی جاتی ہے ۔

لہٰذا اگر کوئی گیارہویں شریف کی نذر مانتا ہے کہ میرا فلاں کام ہو گیا تو سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی گیارہویں دوں گا تو جان لیجیے کہ یہ صدقہ و خیرات ہی کی ایک صورت ہے ۔ اس میں نیت کے ساتھ دعا ہو گی کہ مولٰ کریم تیری رضا کے لئے یہ کھانا پکانا ، قرآن پڑھنا پڑھانا تیرے حضور پیش کیا جاتا ہے اسے اپنی بارگاہ میں قبول فرما اور اس عمل سے جو ثواب ملے اسے میں جملہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام بشمول شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی ارواح کو بالخصوص تحفۃً پیش کرتا ہوں ۔ پس اس دعا کے ساتھ ایصالِ ثواب کرنا شرک نہیں ۔

صدقات و خیرات ذرائع ایصالِ ثواب ہیں وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ ﷲِ بِه میں شامل نہیں ۔

صدقات اور خیرات پر اللہ کے محبوب و مقرب بندوں کا نام لینے سے وہ حرام نہیں ہوتے کیوں کہ نام لینے سے صرف ایصالِ ثواب مقصود ہوتا ہے لہٰذا خیرات و صدقات کا ایصالِ ثواب کے لئے دینا ’’وَمَا اُهِلَّ لِغَيْرِﷲِ بِه‘‘ میں شامل ہی نہیں ۔ شرعاً یہ امر جائز ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی نیک عمل اور صدقہ و خیرات کو کسی دوسرے کے نام منسوب کر دے ۔ اس کی شرعی حیثیت واضح کرنے کےلیے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاداتِ مبارکہ میں سے چند ایک ذیل میں دیئے جا رہے ہیں تاکہ کسی کے لئے ایصالِ ثواب کرنے کا مستند و معتبر جواز ثابت ہو جائے : ⬇

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا سے روایت ہے : أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ ۔
ترمہ : ایک آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : میری والدہ اچانک فوت ہوگئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقتِ نزع) گفتگو کر سکتی تو صدقہ کرتی ۔ اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا اسے ثواب پہنچے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب موتِ الفَجْأَةِ البَغْتَةِ، 1 : 467، رقم : 1322)(مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب وصول ثواب الصدقة عن الميت إليه، 2 : 696، رقم : 1004، چشتی)(ابوداود، السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء فيمن مات وصية يتصدق عنه، 3 : 118، رقم : 2881)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم : إِنَّ أَبِي مَاتَ وَتَرَکَ مَالًا وَلَمْ يُوْصِ. فَهَلْ يُکَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ؟ قَالَ : نَعَمْ ۔
ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے اور اس نے مال چھوڑا ہے مگر اس بارے میں کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ (صدقہ کرنا) اس (کے گناہوں) کا کفارہ بن جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلي الميت، 3 : 1254، رقم : 1630)(نسائي، السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 : 251، رقم : 3652،چشتی)(ابن ماجة، السنن، کتاب الوصايا، باب من مات و لم يوص هل يتصدق عنه، 2 : 206، رقم : 2716)(احمد بن حنبل، المسند، 2 : 371، رقم : 8828)(ابن خزيمة، الصحيح، 4 : 123، رقم : 2498)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : يَا رَسُوْلَ ﷲِ إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ أَفَيَنْفَعُهَا إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : فَإِنَّ مَخْرَفًا فَأُشْهِدُکَ أَنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا ۔ وَ قَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ، وَ بِهِ : يَقُوْلُ أَهْلُ الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ : لَيْسَ شَيئٌ يَصِلُ إِلَی الْمَيّتِ إِلَّا الصَّدَقَةُ وَ الدُّعَاءُ ۔
ترجمہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری والدہ فوت ہوچکی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا وہ اسے کوئی نفع دے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں! اس نے عرض کیا : میرے پاس ایک باغ ہے آپ گواہ رہیں کہ میں نے یہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کر دیا ۔ امام ترمذی فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے اور علماء کا یہی قول ہے، وہ فرماتے ہیں : میت کو صرف صدقہ اور دعا پہنچتی ہے ۔ (ترمذي، السنن، کتاب الزکاة عن رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 : 56، رقم : 669)(ابوداود، السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء فيمن مات وصية يتصدق عنه، 3 : 118، رقم : 2882،چشتی)(نسائي، السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 : 252، رقم : 3655)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ : إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَهُ ۔
ترجمہ : جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (ان کا اجر اسے برابر ملتا رہتا ہے) : ایک وہ صدقہ جس کا نفع جاری رہے، دوسرا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، تیسری وہ نیک اولاد جو اس کےلیے دعا کرے ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، 3 : 1255، رقم : 1631)(ابوداود، السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 : 117، رقم : 2880)(ابن ماجة، السنن، المقدمة، باب ثواب معلم الناس الخير، 1 : 88، رقم : 239)(بخاري، الأدب المفرد، 1 : 28، رقم : 38)

امام سفیان ثوری بیان کرتے ہیں کہ حضرت طاووس نے فرمایا : إِنَّ الْمَوتَی يُفْتَنُونَ فِي قُبُورِهِمْ سَبْعًا، فَکَانُوا يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُطْعُمَ عَنْهُمْ تِلْکَ الأَيّامِ . وَ قَالَ السُّيُوطِيُّ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ ۔
ترجمہ : بے شک سات دن تک مردوں کو ان کی قبروں میں آزمایا جاتا ہے اس لیے لوگ ان دنوں میں ان کی طرف سے کھانا کھلانے کو مستحب سمجھتے تھے ۔ امام سیوطی نے کہا ہے کہ اس روایت کی اسناد صحیح ہیں ۔ (أبو نعيم، حلية الأولياء، 4 : 11)(سيوطي، الديباج علي صحيح مسلم، 2 : 491، رقم : 905)(سيوطي، شرح علي سنن النسائي، 4 : 104)

درج بالا روایات سے ثابت ہوا کہ ایصالِ ثواب اور صدقات و خیرات کےلیے کسی کے نام کی طرف نسبت شرعاً جائز بلکہ سنت ہے ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔