Tuesday 15 February 2022

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو مشکل کشاء کہنا حصّہ اوّل

0 comments

 حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو مشکل کشاء کہنا حصّہ اوّل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے متلعق مشکل کشا کا لفظ نہ معلوم کس وجہ سے لوگوں کو گراں ہوتا ہے ، زمانہ سابق میں یہ لفظ مبزلہ لقب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کےلیے مستعمل ہوتا تھا ، یہ لفظ عربی حلال المعاقد کا ترجمہ ہے حسب معنی لغوی خصوصیت ذاتِ خداوندی کے ساتھ نہیں رکھتا معانی شرعیہ کے اعتبار سے مشکل قسیم مجمل و متشابہ ہوتا ہے جس کا مصداق ہر فقیہ صاحب الرائے ہو سکتے ہے ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بوقت ارسال یمن جبکہ انہوں نے عرض کی کہ میں حدیث السن ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھ کو قاضی اور حاکم بنا کر بھیجتے ہیں ! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سینہ مرتضویہ پر دست مبارک مارا ۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ مشکلات کے حل کرنے میں زمانہ صحابہ رضی اللہ عنم میں بھی مشہور ہوگئے تھے تاکہ سخت فیصلہ میں یہ مثل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مشہور ہے ۔ ہر مسلمان کو مصیبت زدہ انسانوں کا مشکل کشا اور حاجت روا ہونا چاہیے بھوکے کو کھانا کھلانا ، پیاسے کو پانی پلانا، بیمار کو دوا دینا ، ننگے کو لباس دینا، بے گھر کو گھر مہیا کرنا، غریب کی ضرورت پوری کرنا، غریب، یتیم، مسکین، بچوں کی ضروریات پوری کرنا، ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا، ان کی خوراک، پوشاک، تعلیم کا بندوبست کرنا، زخمی کو ہسپتال پہنچانا، حادثات، سیلاب، وباؤں، زلزلوں اور طوفانوں کے متاثرین کی مدد کرنا حسب توفیق ہر ایک پر فرض ہے۔ جب ہر مسلمان کو مشکل کشا اور حسب توفیق حاجت روا ہونا لازم ہے تو مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو مشکل کشا کہنا کیونکر غلط ہوگیا؟ جب ہم کسی بھی دنیا دار سے کچھ طلب کرتے ہیں تو معترضین اسے غلط نہیں کہتے مگر جونہی کوئی شخص اللہ کے نیک اور صالح بندوں سے مجازی طور پر مدد طلب کرتا ہے استعانت کرتا ہے تو اسے شرک قرار دیا جاتا ہے۔ یہ سوچ جہالت پر مبنی ہے۔

قرآن پاک کی روشنی میں : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۔ (سورہ التوبة 9 : 74)

ترجمہ : اور کسی چیز کو ناپسند نہ کر سکے سوائے اس کے کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے فضل سے غنی کر دیا تھا ۔


ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ ۔ (سورہ التوبة 9 : 59)

ترجمہ :  اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے ۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا ۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے ، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے ۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا)


قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : تَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۔ (المائدة 5 : 2)

ترجمہ : نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو ۔


یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور برے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من قضی لأحد من أمتی حاجة يريد أن يسره بها فقد سرني ومن سرني فقد سر ﷲ ومن سر ﷲ أدخله ﷲ الجنة ۔ (ديلمی مسند الفردوس، 3 : 546، رقم : 5702،چشتی)

ترجمہ : جس کسی نے میرے کسی امتی کو خوش کرنے کے لیے اس کی حاجت پوری کی اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ کو خوش کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔


حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من أغاث ملهوفا کتب ﷲ له ثلاثا وسبعين مغفرة واحدة فيها صلاح أمره کله وثنتان وسبعون له درجات يوم القيمه ۔ (بيهقی، شعب الايمان، 6 : 120، رقم : 7670)

ترجمہ : جس نے کسی مظلوم و بے بس بیچارے کی فریادرسی کی اللہ تعالیٰ اس کےلیے 73 مغفرتیں لکھ دیتا ہے جن میں سے ایک کے عوض اس کے سارے معاملات درست ہوجائیں اور بہتر درجات اسے قیامت کے دن ملیں گے ۔


حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے : أنه إذا أتاه السائل أوصاحب الحاجة قال اشفعوا فلتؤجرو اوليقض ﷲ علی لسان رسوله ماشاء ۔ (بخاری، الصحيح 5 : 2243، رقم : 5681)

ترجمہ : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں جب کوئی منگتا یا حاجت مند آتا آپ فرماتے اس کی سفارش کرو اور ثواب حاصل کرو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی زبان پر جو چاہے فیصلہ کرے ۔


حضرت فراس بن غنم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : أسال يا رسول ﷲ ، فقال النبی لا وإن کنت لا بد فسئل الصالحين ۔ ( بيهقی، شعب الايمان، 3 : 270، رقم : 3512 )

ترجمہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ میں کسی سے سوال کرو ں ؟ فرمایا نہیں۔ اگر مانگے بغیر چارہ نہ ہو تو نیک لوگوں سے مانگ ۔


پس اسلام دوسروں کی مدد کا حکم دیتا ہے دوسروں کی حاجت روائی کرنا ہر مسلمان کا مشن بتاتا ہے اور اس پر اجر عظیم اور ثواب دارین کا وعدہ بھی کرتا ہے، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے صحابہ کو نیک اور صالح افراد سے مانگنے کی ترغیب دیتے ۔


’الفتاح‘ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے جیسے عالم، علیم، حلیم، روف، رحیم، سمیع، بصیر، شہید، حاکم، حکم، شکور، مالک، ملک، مولی، ولی، نور، ھادی، ذارع وغیرہ وغیرہ یہ تمام اسماء حسنی قرآن پاک میں ذات باری تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ اس حقیقت میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے ۔ اب ذرا دیکھیے یہی اسماء حسنی بندوں کےلیے بھی قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں مثلاً ۔ الْعَالِمُوْنَ ۔(العنکبوت، 29 : 43)’’علم والے بندے‘‘ ۔ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۔ (يوسف 12 : 22)’’ہم نے اسے حکمِ (نبوت) اور علم (تعبیر)عطا فرمایا‘‘ ۔ قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّـکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی ۔ (طه 20 : 68) ’’ہم نے (موسیٰ علیہ السلام سے) فرمایا : خوف مت کرو بے شک تم ہی غالب رہوگے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام قرآن کریم میں متعدد نام جہاں اپنے لیے استعمال فرمائے ہیں بعینہ وہی اسمائے وصفی اپنے بندوں کے لیے بھی استعمال فرمائے ہیں اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر شرک کا دشمن اور توحید کا حامی کون ہو سکتا ہے ؟ ایسا کرنا ہرگز ہرگز شرک نہیں شرک برائی ہے اور اللہ تعالیٰ برائی کا نہ مرتکب ہو سکتا ہے نہ اپنے بندوں کو اس کی تعلیم دے سکتا ہے۔ إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَo(النحل، 16 : 90)

’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھوo‘‘

اللہ تعالیٰ حاکم ہے حاکموں کا حاکم ہے مگر اس نے اپنے بندوں کو بھی حکومت دی ہے وہ بھی حاکم ہیں بس اتنا فرق ملحوظ رکھیں کہ اللہ اپنی شان کے مطابق حاکم ہے بالذات و بالاستقلال۔ بندے اس کی عطا سے اور اس کے بنانے سے حاکم ہیں بندوں کے تمام کمالات اس کی عطا اور خیرات ہے جبکہ اس کے تمام کمالات ذاتی ہیں کسی کی عطا سے نہیں ۔


مولا کا مطلب : اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا : فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (سورہ التحريم 66 : 4)

’’سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں۔‘‘

یہاں پر مولا مدد گار کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدد گار (مولا) کون کون ہیں : اللہ تعالیٰ ، جبریل علیہ السلام ، نیک مسلمان ، تمام فرشتے ۔

یہ کہنا جہالت ہے کہ اللہ ہی مولا ہے جب صالح مومنین نبی پاک کے مدد گار ہیں جبریل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدد گار ہیں تو یہ نیک مسلمان اور جبریل علیہ السلام اللہ تو نہیں اہل ایمان ہیں مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں : مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللّهِ. قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ ﷲِ ۔

اس نے کہا : اﷲ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں ؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم اﷲ (کے دین) کے مددگار ہیں،(آل عمران، 3 : 52)

اسی طرح النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں۔

رب (پرورش کرنیوالا) ، مالک۔ سردار ، انعام کرنیوالا ، آزاد کرنیوالا ، مدد گار ، محبت کرنیوالا ، تابع (پیروی کرنے والا ، پڑوسی ،ابن العم (چچا زاد ، حلیف (دوستی کا معاہدہ کرنیوالا ) ، عقید (معاہدہ کرنے والا ) ، صھر (داماد، سسر) ، غلام ، آزاد شدہ غلام ، جس پر انعام ہوا ۔

جو کسی چیز کا مختار ہو۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے۔

جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ ۔ (ابن اثير، النهايه، 5 : 228)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی نہیں ہر مسلمان کو مشکل کشا ہونا فرض ہے تاکہ بوقت ضرورت وہ مظلوم، مجبور، مسکین، مسافر، بیوہ، یتیم، فقیر کی حسب توفیق مشکل حل کرسکے کیا بھوکے پیاسے کو کھانا پانی نہ دو گے اور اسے بھوک و پیاس سے یہ کہہ کے مار و گے کہ کھلانے پلانے والا وہی رزاق ہے اسی سے مانگو۔ هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ ۔ (سورہ الشعراء، 26 : 79)’’جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے‘‘

کیا مریض کی عیادت نہ کرو گے۔ ہسپتال نہ پہنچاؤ گے دوا لے کر نہ دو گے یہ کہہ کر کہ :وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ۔ (الشعراء، 26 : 80)’’جب بیمار پڑتا ہوں وہی شفا دیتا ہے۔‘‘

مومن حاجت روا مشکل کشا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من قضی لأحد من أمتي حاجة يريد أن يسره بها فقد سرني ومن سرني فقد سر ﷲ ومن سر ﷲ أدخله ﷲ الجنه ۔ (ديلمی، مسند الفردوس بمأثور الخطاب، 3 : 546، رقم : 5702)

’’ جو میرے کسی امتی کو خوش کرنے کےلیے اس کی حاجت پوری کرے اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا ‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ’’من أغاث ملهوفا کتب ﷲ له ثلاثا و سبعين مغفرة واحدة فيها صلاح أمره کله وثنتان وسبعون له درجات يوم القيمة‘‘ ۔ (بيهقی، شعب الايمان، 6 : 120، رقم : 7670،چشتی)

’’جس نے کسی بیچارے مظلوم کی فریاد رسی کی اللہ پاک اس کے لیے تہتر بخششیں لکھتا ہے جن میں ایک کے سبب اس کے تمام معاملات سدھر جاتے ہیں اور بہتر درجے اس کو قیامت کے دن ملیں گے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ’’من نفس عن مؤمن کربة من کرب الدنيا نفس ﷲ عنه کربة من کرب يوم القيمة ومن يسر علی معسر يسر ﷲ عليه فی الدنيا والآخرة ومن ستر مسلما ستره ﷲ فی الدنيا والآخرة وﷲ فی عون العبد ما کان العبد في عون أخيه و من سلک طريقا يلتمس فيه علما سهل ﷲ له به طريقا إلی الجنة وما اجتمع قوم في بيت من بيوت ﷲ يتلون کتاب ﷲ ويتدا رسونه بينهم إلا نزلت عليهم السکينة وغشيتهم الرحمة وحفتهم الملآئکة و ذکر هم ﷲ فيمن عنده ومن بطأ به عمله لم يسرع به نسبه ۔ (مسلم، الصحيح، 4 : 2074، رقم : 2699)

’’جس نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیف دور کی اللہ تعالیٰ اس کی آخرت کی مشکل حل فرمائے گا اور جس نے تنگ دست پر آسانی کی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی ستر پوشی فرمائے گا اور اللہ پاک اس وقت تک بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرنے میں مصروف رہتا ہے اور جو علم حاصل کرنے کے رستے پر چل نکلتا ہے اللہ پاک اس کےلیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے اور جب بھی کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھنے پڑھانے کے لیے جمع ہوتی ہے ان پر سکینہ (سکون و راحت) نازل ہوتی ہے رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے فرشتے اس پر چھا جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے حضور حاضر فرشتوں کی مجلس میں ان بندوں کا فخریہ انداز میں ذکر فرماتا ہے اور جس کو عمل نے بلند تر مقام و مرتبہ پر پہنچنے میں ڈھیلا و موخر رکھا اسے نام و نسب جلد نہیں پہنچا سکتا ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ’’من ولا ه ﷲ شيأ من أمر المسلمين فاحتجب دون حاجتهم وخلتهم وفقرهم احتجب ﷲ دون حاجته و خلته و فقره فجعل معاوية رجلا علی حوائج الناس ۔ (ابوداؤد، السنن، 3 : 135، رقم : 2948،چشتی)

’’اللہ تعالیٰ نے جس آدمی کو مسلمانوں کے کسی عمل کا ولی (ذمہ دار، عہدیدار) بنایا اور اس نے ان کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے آگے پردے لٹکادیے (اور حاجت مندوں کو اپنے تک پہنچنے نہ دیا) اللہ پاک اس کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے آگے پردے لٹکادے گا (اس کی مدد نہیں فرمائے گا) امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی حاجت روائی کے لیے ایک شخص مقر ر فرمایا تھا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من ولي من امر الناس شيا ثم اغلق بابه دون المسکين اوالمظلوم أوذی الحاجة اغلق ﷲ دونه أبواب رحمته عند حاجته و فقره أفقر ما يکون إليها ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 3 : 441، رقم : 15689)

’’جو لوگوں کے کسی درجہ کے معاملات کا حاکم بنایا گیا پھر اپنا دروازہ مسلمانوں کے آگے یا مظلوم یا حاجت مند کے آگے بند رکھا اللہ تعالیٰ اس کے سامنے اس کی حاجت اور طویل محتاجی کے وقت (قیامت کو) اپنی رحمت کے دروازے بند کردے گا ۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ عامل بناتے وقت عامل (حاکم) پر شرط رکھتے کہ

1 : عمدہ ترکی نسل کے گھوڑے پر سواری نہیں کرے گا۔

2 : چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائے گا۔

3 : باریک کپڑا نہیں پہنے گا۔


(ولا تغلقوا أبوابکم دون حوائج الناس فإن فعلتم شيئا من ذلک فقد حلت بکم العقوبة ثم يشيعهم ۔ (بيهقی، شعب الايمان، 6 : 24، رقم : 7394،چشتی)

’’لوگوں کی حاجت برداری کے آگے اپنے دروازے بند نہ کرنا اگر تم نے ان میں سے کوئی کام کیا تو سزا پاؤ گے پھر ان کے ہمراہ چل کر انہیں رخصت فرماتے۔‘‘

خلاصہ کلام : اللہ تعالیٰ کے اکثر صفاتی نام در حقیقت اس کی صفات ہیں جو اس کی ذاتی مستقل اور دائمی ہیں کسی کی عطا کردہ نہیں۔ حادث نہیں۔ عارضی نہیں وقتی نہیں مگر وہ ذات با برکات کریم ہے جواد ہے، سخی ہے، عطا کرنے والی ہے اسی نے اپنے بندوں کو سننے دیکھنے، کرم، سخاوت، عطا، علم، قدرت اور حسن وغیرہ صفات عالیہ کا صدقہ عطا فرمایا ہے لہٰذا بندے صاحبان قدرت، صاحبان سمع و بصر، صاحبان کرم و سخاوت، عالم، حلیم، حکیم، علیم، رؤف، (شفیق) ہیں مگر سب کچھ اس کی عطا سے ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات مستقل اور ذاتی ہیں مخلوق کی صفات عارضی اور عطائی ہیں تمام صفات میں یہی اصول پیش رہے بادشاہی حکم (حاکم) گواہ وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ اللہ ہے نبی ولی اور دیگر مخلوق اپنی حیثیت رکھتی ہیں ایک کی جگہ دوسرے کو بٹھانا ظلم ہے ۔ بندہ کو بندہ کی حیثیت میں مانو اللہ تعالیٰ کو اس کی حیثیت و شان کے مطابق ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔