Tuesday 1 February 2022

بیعتِ مرشد و شرائطِ مرشد اور جہلاء و کاروباری پیر حصّہ اوّل

0 comments

 بیعتِ مرشد و شرائطِ مرشد اور جہلاء و کاروباری پیر حصّہ اوّل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : کسی جامع شرائط مرشد کی بیعت بھی ایک مستحب اور بابرکت کام ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے مرشد کامل کی چار شرائط ارشاد فرمائی ہیں ان کے بغیر اس کا بیعت لینا جائز نہیں ۔ صحیح العقیدہ مسلمان ہو یعنی اہل سنت و جماعت سے وابستہ ہو ، بد عقیدہ اور بد مذہب نہ ہو ۔ عقائد کے دلائل اور تمام احکام شرعیہ کا عالم ہو حتی کہ ہر پیش آمدہ مسئلہ کا حل بیان کر سکتا ہو (یعنی مفتی ہو) ۔ علم کے مطابق عمل کرتا ہو ۔ فرائض ، واجبات ، سنن اور مستحبات پر دائمی عمل پیرا ہو اور تمام محرمات و مکروہات سے بچتا ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اس کی نسبت متصل ہو، یعنی اس کے مشائخ کا سلسلہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتا ہو۔ ہمارے زمانے میں بعض بے علم لوگ وعظ و تبلیغ کرتے ہیں اور جب کچھ حلقہ بن جاتا ہے تو لوگوں سے بیعت لینا بھی شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنی بے علمی کا عیب چھپانے کے لئے علماء کی تنقیص کرتے ہیں ، ان کو منافق اور بے عمل کہتے ہیں ۔ ساتھ ہی خود کو اہل اللہ کا محب کہتے ہوئے اولیاء اللہ کی صف میں شمار کروانے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ سادہ لوح عوام علماء کو چھوڑ کر ایسے بے علم واعظین اور بے عمل ’’مرشدین‘‘ کے حلقہ ارادت میں کثرت کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں ۔ ہم اس جہالت اور تعصب سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ۔ (فتاویٰ افریقہ صفحہ نمبر 147۔ 146 مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی،چشتی)


پوری ایک مُشت داڑھی رکھنا واجب ہے اور منڈانا یا ایک مٹھی سے کم کروانا دونوں حرام و گناہ ہیں اور ایسا کرنے والا فاسقِ مُعلِن ہے اور فاسقِ مُعلِن  کوامام بنانا یا اس کے پیچھے نماز پڑھنامکروہ تحریمی یعنی پڑھنا گناہ ہے اوراگرپڑھ لی ہوتواس کااعادہ واجب ہے ۔ غُنیۃمیں ہے : لَوْقَدَّمُوْافَاسِقاً یَأثِمُوْنَ بِنَاءً عَلٰی أَنَّ کَرَاھَۃَ تَقْدِیْمِہٖ کَرَاھَۃٌ تحریمٌ ۔ یعنی اگرکسی فاسق کو مقدم کیا تو وہ گناہ گار ہوں گےاس بناء پر کہ فاسق کو مقدم کرنا مکروہ تحریمی ہے ۔ (غنیۃالمستملی صفحہ نمبر 513)


فتاویٰ رضویہ میں ہے : داڑھی منڈانا اور کُتَروا کر حدِ شرع سے کم کرانا دونوں حرام و فسق ہیں اور اس کا فسق باِلاِعلان ہونا ظاہر کہ ایسوں کے منہ پر جلی قلم سے فاسق لکھا ہوتا ہے اور فاسقِ مُعلِن کی امامت   ممنوع و گناہ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ،ج 6،ص505)


مذکورہ شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے اگر موجودہ پاکستانی معاشرہ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ہر طرف ایسے کاروباری پیروں کی فوج ظفر موج نظر آئے گی جن میں مذکورہ شرائط کا دور دور تک پتہ نہیں ہو گا ۔ کسی کا عقیدہ خراب ہے تو کسی کا سلسلہ غیر متصل ۔۔۔ کوئی پابند سنت نہیں ہے تو کوئی اعلانیہ فاسق و فاجر ۔۔۔ علم کی شرط ملاحظہ کریں تو اس پر پورے ملک میں معدودے چند پیر صاحبان ہی بمشکل پورے اترتے نظر آئیں گے ۔ جعلی پیروں کا بہت بڑا لشکر نہ صرف یہ کہ قرآن و حدیث اور فقہ و کلام سے بے خبر ہے بلکہ وہ علم اور علماء کا سخت دشمن بھی ہے ۔ کیونکہ جس طرح سرمایہ دار، جاگیردار اور سیاستدان کی خیر اسی میں ہے کہ قوم جاہل مطلق رہے اسی طرح جھوٹے پیروں کی شان و شوکت کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے کہ قوم علم و عمل سے بے گانہ رہے ۔ کیونکہ ان پڑھ لوگ ان کو جس طرح چومتے چاٹتے ہیں اس طرح پڑھے لکھے لوگ نہیں کرتے۔ کسی بھی پیر کے ملاقاتیوں کو ملاحظہ کر لیجئے آپ کو ان پڑھ اور پڑھے لکھے لوگوں کے اندر ملاقات میں نمایاں فرق نظر آئے گا ۔

اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صورت مستفسرہ میں زید کے ہاتھ پر بیعت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا،داڑھی نہ رکھنا اور غیر محارم سے پاؤں دبوانا یہ سب گناہ کبیرہ ہیں اور ان  کو علانیہ کرنے والا فاسق معلن ہے اور فاسق کے ہاتھ پر بیعت کرنا جائز نہیں ہے اگر کر لی ہو تو فسخ کرنا لازم ۔

مزید فرماتے ہیں :  فاسق کے ہاتھ پر بیعت جائز نہیں ۔ اگر کرلی ہو فسخ کر کے کسی پیر متقی ، سنی ، صحیح العقیدہ ، عالم دین ، متصل السلسلہ کے ہاتھ پر بیعت کرے ۔

 مزید فرماتے ہیں : ایسے شخص سے بیعت کا حکم ہے جو کم از کم یہ چاروں شرطیں رکھتا ہو اول سنی صحیح العقیدہ ہو ۔ دوم علم دین رکھتاہو۔ سوم فاسق نہ ہو ۔ چہارم اس کا سلسلہ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم تك متصل ہو ، اگر ان میں سے ایك بات بھی کم ہے تو اس کے ہاتھ پر بیعت کی اجازت نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم جلد نمبر ٢١ صفحہ نمبر ٦٠٣،چشتی)


داڑھی چھوٹی کر ڈالنا کسی کے نزدیک حلال نہیں


اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فتاوٰی رضویہ  جلد 22 صَفْحَہ652 پر ’’دُرِّمختار‘‘، ’’فتح القدیر‘‘، ’’البحرالرّائق‘‘ وغیرہ معتبر کتبِ فِقہ کے حوالے سے نَقل فرماتے ہیں کہ : جب تک داڑھی ایک مُٹّھی سے کم ہے اس میں سے کچھ لینا جس طرح کہ بعض مغرِبی مُخَنَّث کرتے ہیں یہ کسی کے  نزدیک حلال نہیں ۔ اورسب لے لینا (یعنی بالکل ہی مُنڈوا دینا) آتَش پرستوں ، یہودیوں ، ہندوؤں اور بعض فرنگیوں (یعنی انگریزوں) کا فعل ہے ۔ (غنیۃ ذوی الاحکام الجز الاول ص۲۰۸ باب المدینہ کراچی، البحر الرائق ج۲ ص۴۹۰ م کوئٹہ، فتح القدیر ج۲ ص۲۷۰  کوئٹہ)


داڑھیاں کتروانے والے بد نصیب        


داڑھی کو چھوٹی کروا دینے والے بلکہ صاف کروا دینے والے لوگ  فُقَہائے کرام  رَحِمَہُمُ اللّٰہُ علیہم کے مذکورہ ارشاد سے عبرت حاصل کریں ۔ بلکہ عبرت بالائے عبرت تو یہ ہے ، جیسا کہ امام اَحمد رضا خان رحمة اللہ علیہ نے رسالہ، ’’ لَمعَۃُ الضُّحیٰ‘ ‘میں حضرت کعب اَحبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْ ہوغیرہ کا قول نقل کیا ہے  : آخِر زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے کہ داڑِھیاں کتریں گے ، وہ نِرے بے نصیب ہیں ۔ یعنی ان کے لئے دین میں حصّہ نہیں ، آخِرت میں بَہرہ (یعنی حصہ) نہیں  ۔ (فتاویٰ رضویہ ج۲۲ ص۶۵۱)


دیکھا آپ نے ؟ گویا داڑھی کو کتروا کر ایک مُٹّھی سے کم کر دینے والے دین و دنیا اور آخِرت میں بدنصیب ہیں ۔ 


انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس طرح کے تمام جعلی ، بناوٹی اور کاروباری پیر اپنے آپ کو مسلک حق اہل سنت و جماعت سے منسوب کرکے اس کی بدنامی اور رسوائی کا سبب بنتے ہیں ۔ نیز وہ علماء سے یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ وہ ان کی نام نہاد بزرگی پر مہر تصدیق ثبت کریں ۔ یہ ننگِ ملت ، ننگ دیں ، ننگ وطن لوگ ایسے زہریلے ہیں کہ انہوں نے اپنی شہوت کاریوں سے مسلک حق کو اَدھ موا کرکے رکھ دیا ہے ۔ ان میں سے کچھ لوگ نامور بزرگوں کی گدیوں سے منسوب ہیں ۔ عمل صالح اور شریعت کی پابندی تو کجا وہ کرپٹ لوگوں کی سرپرستی کرتے ہیں رسہ گیروں سے ان کی دوستیاں ہیں ۔ الیکشن میں مسلک کے نام کو استعمال کرتے ہوئے یہ لوگ ممبر اسمبلی بنتے ہیں اور پھر سیکولر جماعتوں کے ساتھ مل کر انہی کے ایجنڈے کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں ۔ اس تمام خرابی کی بنیاد درحقیقت ان کاروباری مولویوں نے فراہم کی ہے جو انہیں (معمولی خدمت کے عوض) لوگوں کے سامنے غوث زماں ، قطب عالم ، شہنشاہ ولایت وغیرہ بنا کر پیش کرتے ہیں ۔


ان حضرات کی سیرت و کردار کو قریب سے دیکھیں تو ان کے فرعونی لہجے ، شیطانی عادات و اطوار ، یزیدی رسوم و رواج ۔۔۔ غنڈوں اور بدمعاشوں کی سرپرستی ، چوروں اور ڈاکوؤں کی پشت پناہی ۔۔۔ باطل اعمال اور عقیدے ، اعراس کے نام پر اسلام کش میلے ٹھیلے ۔۔۔ کتوں اور ریچھوں کے مقابلے ، قبروں اور مزاروں کی تجارت ۔۔۔ صالحین کی تعلیمات پر عمل کی بجائے تعمیرات سے ولایت کی پیمائش ۔۔۔ علماء کے خلاف سینوں میں بھڑکتی آگ ، جہالت و رعونت میں اپنی مثال آپ ۔۔۔ دین و شریعت کی بات پر منہ سے نکلتے انگارے ۔۔۔ نماز روزے کا وقت آنے پر مرض اسہال ، زکوۃ و جہاد کا نام سنتے ہی پیٹ میں درد قولنج ۔ ۔ ۔ غیر محرم عورتوں کو بے پردہ مرید کرنا اور ان سے ٹانگیں دبوانا ۔۔۔ یہ ہیں وہ کالے کرتوت جو ان ’’پیروں‘‘ کے نامہ اعمال میں درج ہیں ۔


اگر آپ ان کے کفریہ و شرکیہ اور مبالغہ آمیز اشعار پر مصنوعی طور پر بدمست ہو کر جھومنے اور ناچنے والے جاہل مریدوں کو دیکھیں تو گویا انہیں ذبح کیا جا رہا ہے ۔۔۔ ان کے تعویذوں اور وظیفوں کو دیکھیں تو شیاطین سے استغاثہ پر مبنی جادو ٹونے کے پلندے معلوم ہوں ۔۔۔ ان کی ’’مقدس مسندوں‘‘ کو دیکھیں تو ان پر کسی نیک سے نیک آدمی کا بیٹھ جانا یا صرف پاؤں لگ جانا بھی اعلیٰ درجے کی گستاخی شمار ہو ۔


پھر پیران عظام کی ان گدیوں میں بھی مال و جائیداد کی طرح وراثت چل نکلی ہے (کیونکہ یہ بھی اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے) باپ کی گدی پر اولاد ہی بیٹھے گی خواہ وہ کیسی ہی کیوں نہ ہو ۔ کسی مرید کی کیا مجال کہ وہ پیر مغاں کی سجادگی کا حقدار ٹھہرے خواہ وہ کیسا ہی رازی و غزالی کیوں نہ ہو اور یہی نااہلی اور وراثت سب سے بڑا سبب ہیں خانقاہی نظام کی تباہی کا ۔


جہلاء پیر اور ان کے آستانے


فقیر کے استاذ بھاٸی استاذ العملاء شیخ الحدیث والتفسیر علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے راستے کی ایک بہت بڑی رُکاوٹ (دو نمبر،جاہل) پیروں کے آستانے ہیں ، خانقاہیں ہیں ، جن کے گلوں میں سادہ دل لوگ اپنی جیبیں خالی کر آتے ہیں ، زیب سجادہ فلاں و فلاں بزرگ ہیں جن میں سے بعض تقدس مآب مشائخ کی تو شکلیں بھی غیر شرعی ہیں ، جن کے دن مریدوں سے نذرانے وصول کرنے اور راتیں عیاشیوں میں گزرتی ہیں ، جو تعویذ گنڈوں کے کاروبار سے غربا کو لوٹتے ہیں ، جو علم سے قلاش اور عمل سے مفلس ہیں ، جن کی زبان میں فرشتوں کی پاکیزگی اور قلب میں ابلیس کی روسیاہی ہے ، جن کی گفتار رشکِ جبرائیل اور کردار ننگِ اِنسانیت ہے ، کوئی گھوڑے شاہ ہے جس کے مزار پر گھوڑوں کے بُت چڑھائے جاتے ہیں ، کوئی کتوں والی سرکار ہے جہاں کتوں کو تقدس حاصل ہے ، کوئی بلی والی سرکار ہے ، کوئی کیا ہے اور کوئی کیا ہے ، وہ جن کے مرید فاقہ کش ہیں اور پیر لاکھوں کے کتے خرید کر ہزاروں کی شرط پر لڑاتے ہیں ، کسی کو کتے خریدنے کا شوق ہے، کوئی باز خریدنے کا رسیا ہے، کوئی سور کے شکار کے شوقین ہیں ، کوئی کاروں کی خریداری میں بازی لے جانا چاہتا ہے اور یہ تمام شوق مریدین کے جیب خالی کرنے سے پورے ہوتے ہیں ۔ کیا یہ لوگ توحید کے تقاضے پورے کر رہے ہیں ؟ کیا اِن نمائشی اور نام نہاد پیروں کو دیکھ کر لوگ اصلی صلحا اور اولیاء اللہ سے بدگمانی کے خطرے میں مبتلا نہیں ہوں گے ۔ (معاشرے کے ناسور صفحہ نمبر 11 ، 12 مطبوعہ فرید بک سٹال اردو بازار  لاہور،چشتی)


پیری مریدی اور آج کل کے جعلی پیروں کی تربیت کے عجیب کرشمے


محترم قارئینِ کرام : بیعت کے معنی بیچنے کے ہیں ۔ درحقیقت مرید اپنی مرضی کومرشد صالح کے ہاتھ بیچ دیتاہے اسی وجہ سے اس عمل کو بیعت کہتے ہیں ۔


مقصد بیعت  : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے ہیں کہ دل ایک ایسے پر کی مثل ہے جسے ہوا الٹتی پلٹتی رہتی ہے ۔ (مشکوۃ کتاب الایمان بالقدر)


یعنی دل کو خواہشات کی ہوائیں یہاں سے وہاں پھیرتی رہتی ہیں تو ضروری ہے کہ کسی کا دست تو انا اس پر رکھ دیا جائے تا کہ وہ الٹنے پلٹنے سے محفوظ ہوجائے ۔


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حدیبیہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے درخت کے نیچے بیعت کی تو اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوااور ارشاد فرمایا : لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ ۔ (سورۃ الفتح ،آیت۱۸)

ترجمہ :  بے شک اللہ راضی ہوا مسلمانوں سے جب وہ تم سے بیعت کرتے ہیں درخت کے نیچے ۔


اور حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت کے وقت نہ تھے ۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کے قائم مقام کیا اور دوسرے ہاتھ کو دست قدرت کا نائب بنایا اور فرمایاـ’’یہ اللہ کا دست قدرت ہے اوریہ عثمان کا ہاتھ ہے ،تو آپ نے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور بیعت کی ۔ (صحیح بخاری،چشتی)


پس قرآن و حدیث سے جہاں بیعت کا ثبوت ہواوہاں ساتھ ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ بیعت کے لئے سامنے ہونا ضروری نہیں بلکہ غیر حاضری میں بھی بیعت کرنا جائز ہے ۔پیری مریدی کے اثبات میں یہ مستحکم اور قطعی اصل ہے اور وہ بنیاد ہے جسے مضبوط اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کہا جاسکتا ہے ۔اس میں کسی منکر کو انکار کی گنجائش نہیں اور آج تک کسی مجتہد نے اس سے انکار نہیں کیا اور جو بیعت سے انکار کرے وہ کم عقل اور گمراہ ہے ۔


اگر پیر نہ ہو تو ؟


شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس کا کوئی پیر نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے ۔ ( عوارف المعارف)


امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب رسالہ قشیری میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ : بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کا پیر کوئی نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے ۔ (رسالۂ قشیریہ)


میر سیّد عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سبع سنابل میں فرماتے ہیں کہ : اے جوان تو کب تک چاہے گا کہ بغیر پیر کے رہے اس لیے کہ مہلت دینے اور ٹالتے رہنے میں مصیبت ہی مصیبت ہے ۔ اگر تیرا کوئی پیر نہیں ہے توشیطان تیراپیر ہے جو دین کے راستوں میں دھوکہ اور چالوں سے ڈاکہ ڈالتا ہے ۔شیطان نے اگر چہ تیرے لیے جال لگا دیے ہیں لیکن تو اس کے دانہ اور پانی سے ذرہ برابر نہ لے اور بہت جلد کسی پیر کا ہاتھ پکڑلے ۔بغیر پیر کے مرجانامردار موت کے مانند ہے ۔اپنا وسیلہ آیہ وا بتغو ا کے ماتحت تلاش کر اور ماننے والوں سے پوچھ اور فسئلوا کو پڑھ ۔ ہمارا سرتاپا وجود گناہ ہے اور مرید ہوجانا ہر گناہ کےلیے پناہ گاہ ۔ مریدی دین و ایمان کی چار دیواری ہے اور ہر مسلمان کو اپنے دین کی فکر رہتی ہے ۔ (سبع سنابل)


جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں : مرید کو یقین کے ساتھ یہ جاننا چاہیے کہ شیخ کی روح کسی خاص مقیدومحدود نہیں پس مرید جہاں بھی ہو گا خواہ قریب ہو یا بعید تو گو شیخ کے جسم سے دور ہے لیکن اس کی روحانیت سے دور نہیں ۔ (امداد السلوک صفحہ نمبر ۶۷ ، ادارۂ اسلامیات،چشتی)


ذرا غور کریں ایسے ایسے جید عالموں اور خود دیوبندیوں کا امام کہتا ہے کہ پیر کے بغیر ہمارا ایمان نہیں بچ سکتا اور اس کی روح سے مرید کو فیض پہنچتا رہتا ہے ۔ تو پتہ چلا مرشد کا دست مرید کے سر پر ہونا ضروری ہے ۔


اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا مرتبہ بہت اعلی و افضل ہے ۔ غوث اپنے دور میں تمام اولیاء کاسردار ہوتا ہے ۔ لیکن حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ حضرت امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ کے بعد سے سیدنا امام مہدی رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری تک تمام عالم کے غوث اور سب غوثوں کے غوث ہیں اور سب اولیاء اللہ کے سردار ہیں اوران سب کی گردن پر ان کا قدم ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد نمبر ۲۶، صفحہ نمبر ۵۵۸،چشتی)


پیر یا شیطان ؟


یاد رکھئیے  پیر وہی ہے جو شریعت کا تابعدارہو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کبھی بھی بیعت کے وقت کسی اجنبی عورت کا ہاتھ اپنے دستِ اقدس میں نہ لیا ۔ آج کل پیروں کو دیکھیں :


(1) عورتوں کے ماتھوں کو ، ہاتھوں کو چھوتے رہتے ہیں ۔


(2) ہاتھوں میں ایک سے زائد انگوٹھیاں پہنتے ہیں ۔


(3) اپنے بالوں کو شانوں سے بھی لمبا کرتے ہیں ۔


(4)  نمازکی بالکل پرواہ نہیں کرتے ۔


ایسے پیر ہرگز ہرگز قابل بیعت نہیں نہ ان کی ارادت جائز اور نہ ہی ان سے فیض کا حصول ، جو اَیسوں کے پاس اپنی عورتوں کو بھیجے وہ حدیث کے مطابق دیُّوث (بے غیرت) ہے ۔ ہم نے آپ کے سامنے پیری مریدی کی شرعی حیثیت رکھ دی اور فیصلہ آپ کے ضمیر پر چھوڑ دیا ۔


جعلی پیروں کی تربیت کے عجیب کرشمے


ان پیروں کے ذریعے مریدوں کی جس طرح تربیت ہو رہی ہے وہ بھی انتہائی اذیت ناک ہے ، چند ایک تربیتی مناظر ملاحظہ ہوں :


پیر صاحب جونہی اپنے دولت خانہ کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہیں تو دروازے پر نظریں گاڑے مریدین پر گویا نزع کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ ہاؤ ہو کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، کوئی شوں شوں کی آواز نکالتا ہے کوئی تالیاں بجاتا ہے ، کوئی درود و سلام پڑھتا ہے ، کوئی نعرے لگاتا ہے کوئی جوتے اتارتا ہے ۔ کوئی کچھ کرتا ہے اور کوئی کچھ کرتا ہے ۔


اب ملاقات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ، پیر صاحب مریدوں کے جراثیم سے بچنے کے لئے ہاتھوں پہ دستانے چڑھا لیتے ہیں ، کوئی مرید قدموں میں گرا ہوا ہے ، کسی نے گھٹنے تھام رکھے ہیں ، کوئی کندھوں کو بوسے دے رہا ہے ، کوئی پشت سے چمٹا ہوا ہے ، کوئی ہاتھ چومنے کے چکر میں ہے ۔


غرضیکہ ایک ہنگامہ بپا ہے اور دھکم پیل ہو رہی ہے ۔ (حالانکہ ایک مسلمان کو نماز کے لئے بھی دھکم پیل اور بھاگ دوڑ کی اجازت نہیں ہے) جبکہ پیر صاحب نے بڑی شان بے نیازی سے ہاتھ آگے کیا ہوا ہے کسی کو ایک ہاتھ ملاتے ہیں تو کسی کے لئے سر ہلاتے ہیں ، کسی کو ایک انگلی تھماتے ہیں تو کسی کو دو انگلیاں ۔ پیر صاحب کی آمد و رفت پر بار بار کی اٹھک بیٹھک ہوتی ہے۔ ہاتھ جوڑ جوڑ کر بات کی جاتی ہے جان کی امان طلب کی جاتی ہے ۔ کوئی حالت قیام میں ہے تو کوئی حالت رکوع میں ، کوئی سجدہ کر رہا ہے تو کوئی التحیات میں بیٹھا ہوا ہے ۔


اگر خدانخواستہ آپ نے پیر صاحب کے ہاتھ چومنے میں ذرا سی کوتاہی کر لی تو بس ! پیر صاحب کا غیظ و غضب دیکھنے والا ہوتا ہے ، آنکھیں شعلہ بار ہو جاتی ہیں اور جسم تھر تھرانے لگتا ہے ۔ آپ ایک نظر کی جنبش میں مریدین سے مرتدین کی صف میں شامل کر لیے جاتے ہیں ۔ اسی طرح اگر آپ نے کسی مجبوری کے تحت نذرانہ کی ادائیگی میں کچھ پس و پیش کی ہے تو آپ ہمیشہ کے لئے پیر صاحب کی نظروں میں کھٹک جاتے ہیں ، توجہات و تصرفات سے محرومی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ، زمین و آسمان کی تمام آفات و بلیات آپ کے گھر کا مقدر ٹھہرتی ہیں ۔ ایسے مرید کے گھر میں قدم رکھنا گویا پیر صاحب کےلیے جہنم میں جانے کے برابر ہوتا ہے ۔


پیر صاحب کی اولاد کے لئے شاہانہ القاب اور مریدوں کے لئے انسانیت سے بھی گرے ہوئے القاب استعمال کئے جاتے ہیں ۔ کئی پیروں سے اتنا استغاثہ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بھی اتنا نہیں کیا جاتا ۔ کئی پیر بڑے تجسس پھیلانے والے (Suspense creative) ہوتے ہیں ۔ ہمیشہ نظریں جھکا کے رکھتے ہیں ۔ جاہل مرید اپنے پیر کی صرف ایک نظر کرم کے لئے تڑپتے پھڑکتے رہتے ہیں مگر پیر بھی ایسا پکا ہوتا ہے کہ لمحہ بھر کے لئے دیکھنا گوارا نہیں کرتا ۔ اگر کوئی مرید اپنے پیر کے بغیر کعبۃ اللہ کا طواف کر لے تو پیر صاحب اس بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے واقعہ پر قیاس کر کے اس پر ہمیشہ کےلیے ناراض ہو جاتے ہیں ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔