Wednesday 16 February 2022

حضرت مولا علی اور خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے باہمی تعلقات حصّہ اوّل

0 comments

 حضرت مولا علی اور خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے باہمی تعلقات حصّہ اوّل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ابتدا میں اس مغالطہ کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ نامعلوم کیسے یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ جنہوں نے آغوشِ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں پرورش پائی ہو ان کے حب و بغض کا معیار اقتدار اور فرمانروائی ہو ، اور جدال و جہاد کا محور حصولِ خلافت ہے ’’لا حول ولا قوۃ الا باللہ ‘‘ ۔ تاریخ و سیرت اور حدیث کی کتابوں سے ادنیٰ ملابست رکھنے ولا شخص بھی جانتا ہے کہ ابو الحسنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ اقتدار و فرمانروائی جیسی سطحی چیزوں سے قطع نظر بالغ نظری سے تمام عمر اسلام و اسلامیان کےلیے سوچتے رہے اور محبت و نفرت کا مدار بھی صرف اسلام کو بنائے رکھا ۔ ذیل میں خلفائے ثلاثہ سے آپ کے تعلقات کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے ۔


حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ


حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ آپ کےلیے انتہائی والہانہ جذبات رکھتے تھے ۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مرتدین کی سرکوبی کےلیے جب ذی القصہ کی جانب بنفس نفیس عازم سفر ہونے لگے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کی سواری کی لگام تھام کے فرمایا کہ’’ میں آپ سے آج وہی بات کہتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غزوہ احد کے موقع پر فرمائی تھی: ’’اپنی تلوار میان میں ڈالیں اور (اپنی ذات کے بارے) میں ہمیں غم میں نہ ڈالیں مدینہ واپس تشر یف لے جائیں ۔ اگر آپ کو کچھ ہو گیا ۔ تو نظام اسلام ہی ختم ہو جائے گا ۔ (البدایۃ والنہایۃ، ص۳۱۴-۳۱۵، ج ۶)


حضرت مولا علی کے صاحبزادے محمد بن الحنفیہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد محترم سے استفسار کیا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد افضل ترین ہستی کون سی ہے تو انہوں نے فرمایا ابو بکر رضی اللہ عنہ ۔ میں نے عرض کیا اُن کے بعد کون ہیں ، تو انہوں نے فرمایا عمررضی اللہ عنہ ۔ اس پر مجھے اندازہ ہو گیا کہ اگر عمر رضی اللہ عنہ کے بعد کا سوال کروں گا تو یقیناً حضرت علی رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کا نام لیں گے تو میں نے اپنے سوال کا انداز بدلا اور پوچھا کہ ان کے بعد تو آپ ہی ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا میں تو عام مسلمانوں میں سے ایک فرد ہوں ۔ (صحیح البخاری حدیث ۳۶۷۱)


اسے کسرِ نفسی کا نام دیا جائے یا کچھ اور لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ کسرِ نفسی کرتے ہوئے اپنے سے افضل تو کسی کو اسی وقت قرار دیا جا سکتا ہے کہ جب اس کی عقیدت و محبت دل میں ہو۔

نیز اس بات کو خود شیعہ علماء بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا اگر میرے پاس کوئی ایسا بندہ لایا گیا جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دے تو میں اسے بہتان کی سزا دوں گا ۔ (العیون و المحاسن ص ۱۲۲، ج ۲)


اسی طرح الا حتجاج للطبرسی میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز کےلیے تیار ہوئے پھر مسجد آئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ۔ (الاحتجاج، ص ۹۴، ج ۱)


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آپ اور آپ کے خانوادے کا بہت احترام کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ نماز عصر پڑھ کر باہر نکلے حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ہمراہ تھے دیکھا کہ راستے میں سیدنا حسن بن علی کھیل رہے تھے آپ نے انہیں کندھے پر اٹھا لیا اور فرمایا : بابی شبیہ بالنبی، لیس شبیھا لعلی ۔ میرے والد ان پر قربان ہوں یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شکل مبار ک کے مشابہ ہیں اور علی کے مشابہ نہیں ہیں حضرت علی یہ سن کر ہنستے رہے ۔ (مسند احمد، ص ۱۷۰، ج ۱)


محبت کے یہ جذبات کبھی دشمنوں کے بچوں کے بارے میں نہیں ہوتے ۔


حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ابن الخطاب اور حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ


حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے آپ کا مصاہرت کا رشتہ بھی ہے ۔ حضرت عمر جناب علی رضی اللہ عنہما کو مشیر خاص کی حیثیت دیتے تھے ۔ حضرت عمر بہترین منتظم شخصیت تھے ۔ ریاستی امور کو منظم کرنے کےلیے تاریخ کی ضرورت محسوس ہوئی تو صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ تاریخ کی ابتداء کہاں سے کی جائے ؟ جناب علی کا مشورہ تھا کہ ہجرت نبوی سے اس کا اجراء کیا جائے آپ نے اس رائے کو پسند فرمایا اور سن ہجری جاری فرما دیا ۔ (التاریخ الکبیر، ج۱، ص۹)


حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کئی مرتبہ اپنا قائم مقام خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بنایا عمرو ابن العاص کے خط پر جب فلسطین تشریف لے گئے تو قائم مقامی کا قرعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام نکلا اسی طرح جب آپ نے اپنی زندگی کا آخری حج کیا ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہمراہ تھیں ۔ دار الخلافۃ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہی سپرد کر آئے ۔ (المنتظم بحوالہ سید نا علی رضی اللہ عنہ از ڈاکٹر علی محمد الصلابی)


آپ محبت کا اندازہ اس بات سے کریں کہ ابو السفر روایت کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں اکثر ایک ہی چادر زیب تن فرمائے رکھتے کسی نے کہا ! امیر المومنین اکثر آپ اسی چادر کو ہی کیوں پہنتے ہیں حضرت علی اس سوال پر رو پڑے اور فرمایا یہ چادر مجھے میرے مخلص دوست عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہم نے پہنائی تھی ۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ حدیث نمبر ۱۲۰۴۷،چشتی)


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی در خواست پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی سیدہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما آپ کے عقد میں دے دی اس رشتے کا اکابر شیعہ مؤرخین نے ذکر کیا ہے ۔ معروف شیعہ مؤرخ احمد بن ابی یعقوب نے لکھا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت علی سے ان کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ مانگا ام کلثوم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں ، تو حضرت علی نے فرمایا : وہ ابھی چھوٹی ہے۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا جس طرف آپ کا دھیان گیا میرا وہ مقصد نہیں (یعنی میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خانوادے سے نسبت قائم کرنا چاہتا ہوں) تو حضرت علی نے ام کلثوم کا نکاح ان سے کر دیا حضرت عمر نے دس ہزار دینا بطور مہر ادا کیے ۔ (تاریخ الیعقوبی، ج ۲، ص ۱۴۹-۱۵۰،چشتی)


رومیوں کے خلاف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بذات خود میدان کارزار میں اترنے کا فیصلہ کیا تو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سامنے آگئے اور فرمایا کہ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو اہل اسلام کو کوئی پناہ گاہ نہیں ملے گی ۔ (نہج البلاغۃ، ۱۹۶)

خود شیعہ عالم "بحار الانوار” میں رقمطراز ہے : حضرت عمر جب شہید کر دیے گئے اور آپ کی میت غسل و تکفین کے بعد لا کر رکھی گئی تو حضرت علی فرمانے لگے کہ میرے نزدیک اس چادر میں لپٹے شخص سے زیادہ محبوب کوئی نہیں ۔ (بحار الانوار، ج ۲۸، ص ۱۱۷،چشی)


حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی سیدنا امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے محبت کا ایک حوالہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر نے حضرت حسین سے فرمایا کہ کبھی ہمارے پاس بھی تشریف لایا کرو چنانچہ آپ ملاقات کے لیے تشریف لے گئے وہاں جا کر دیکھا کہ خلیفۃ المسلمین سید نا معاویہ سے محو گفتگو ہیں دروازے پر عبد اللہ ابن عمر کو بھی اجازت نہ ملنے پر روک دیا گیا تھا یہ دیکھ کر آپ بھی واپس گئے بعدازاں جب حضرت عمر سے ملاقات ہوئی اور انھوں نے نہ آنے کا سبب استفسار فرمایا تو حضرت امام حسین نے فرمایا میں آیا تھا جب دیکھا کہ خود آپ کے صاحبزادے واپس لوٹ گئے ہیں تو میں بھی پلٹ آیا تو حضرت عمر نے فرمایا بیٹے : تم اجازت ملنے میں عبد اللہ سے زیادہ حقدار ہو ۔ (الا صابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج۱، ص ۱۳۳)


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خاندان علی سے محبت ہی تھی جس کے باعث فارس کے غنائم سے شاہِ فارس یزدگرد کی بیٹی شہزادہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مرحمت فرمائی اور حضرت حسین کے صاحبزادے سیدنا زین العابدین رضی اللہ عنہ ان ہی کے بطن سے پیدا ہوئے ۔


حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ


حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تاریخ اسلام کی وہ معروف شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے مال کے ذریعہ اسلام کی سب سے زیادہ خدمت کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے آپ کی محبت کا منہ بولتا ثبوت حضرت علی کے نکاح کے اخراجات ادا کرنا ہے ۔ معروف شیعہ عالم علامہ اردبلی اس واقعہ کا ذکر اس طرح کرتا ہے کہ’’حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں حضرت عثمان کے پاس گیا اور وہ درع ۴۰۰ درہم میں انھیں فروخت کر دی جب میں نے رقم وصول کرلی اور انھوں نے درع لے لی تو فرمانے لگے کہ اے علی! کیا میں درع کا آپ سے زیادہ حقدار نہیں ؟ اور کیا آپ ان دراہم کے مجھ سے زیادہ حقدار نہیں ؟ میں نے کہا : بالکل ایسا ہی ہے تو اس پر حضرت عثمان نے فرمایا یہ درع میری طرف سے آپ کے لیے ہدیہ ہے۔ چنانچہ میں درع اور دراہم دونوں ہاتھ میں لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عثمان کے اس حسن سلوک کے بارے میں بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے حق میں خیر و بھلائی کی دعا کی ۔ (کشف الغمۃ، ج ۱، ص ۳۱۴، فی تزویج سیدۃ نساء،چشتی)


محترم قارئینِ کرام : اس بات کا انکار کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی حاکم و فرما نروا سخت مصیبت و آزمائش کے وقت صرف خاص ترین احباب سے ہی مشورہ کرتاہے ۔ جب حضرت عثمان کے خلاف باغی مکمل طاقت سے جمع ہو کر آئے اور مقام ذی المروہ پر پڑاؤ ڈالا تو ان باغیوں سے مذاکرات کےلیے حضرت عثمان نے حضرت علی رضی اللہ عنہما کو ہی بھیجا آپ نے ان سے ملاقات میں فرمایا اللہ کی کتاب کو سامنے رکھو ۔ حضرت علی نے خلیفۃ المسلمین کے نمائندہ کی حیثیت سے ان سے مصالحتی معاہدہ فرمایا ۔ (سیدنا علی از ڈاکٹر علی محمد الصلابی)


غور طلب بات یہ ہے کہ کیا کوئی دشمنوں سے مذاکرات کرنے کے لیے دشمن کو بھیجتا ہے ؟ یہ مصالحتی معاہدہ ایک جھوٹے خط کو بنیاد بنا کر توڑ دیا گیا اور باغیوں نے واپس آکر سید نا عثمان  کے گھر کا محاصرہ کر لیا علامہ ابن عساکر نے نقل کیا ہے کہ دوران محاصرہ حضرت علی نے حضرت عثمان کو پیغام بھیجا کہ میرے پاس ۵۰۰ زرہ پوش جوان ہیں آپ اجازت دیں تا کہ میں ان باغیوں کے مقابلے میں آپ کا دفاع کروں ! حضرت عثمان نے جواباََ فرمایا اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کا خون بہے ۔ (تاریخ دمشق ۳۰۴)


حضرت مولا علی نے اپنے صاحبزاد گان رضی اللہ عنہم کی ڈیوٹی لگا ئی کہ وہ حضرت عثمان کے دروازے پر پہرہ دیں بلکہ حضرت حسن تو مزاحمت کرتے ہوئے زخمی بھی ہوئے ۔ (الطبقات لابن سعد، ج ۸، ص ۱۲۸،چشتی)


مشہور شیعہ مؤرخ مسعودی لکھتا ہے کہ حضرت علی حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے گھر میں شدید غمگین حالت میں داخل ہوئے اور اپنے بیٹوں سے فرمایا امیر المومنین کو کیسے قتل کر دیا گیا جبکہ تم دونوں دروازے پر موجود تھے حضرتامام حسن کو تھپڑ مارا حضرت امام حسین کو مکا مارا محمد بن طلحہ کو برا بھلا کہا اور عبد اللہ بن زبیر کو لعن طعن کیا ۔


محترم قارئینِ کرام : ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم تاریخ کی ان چیزوں کو دیکھتے ہیں جن سے فرقہ واریت کو ہوا ملے افرا تفری بڑھے، نفرتوں کی خلیج پیدا ہو ۔ یہ روش نہ ہمارے ایمان کےلیے بہتر ہے اور نہ ہی موجودہ حالات کے تناظر میں اس کی گنجائش ہے ۔ تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاثیر ہی ایسی تھی کہ اوس و خزرج جیسے صدیوں سے ایک دوسرے کے جانی دشمن بھی شیرو شکر ہو گئے تو باقی صحابہ کرام کے بارے کیا کہا جا سکتا ہے ۔


قرآن و حدیث تو ان کی عدالت ، امانت ، دیانت ، آپس کی محبت پر شاہد ہیں ، اگر تاریخ پر بھی تحقیقی نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں تاریخ سے بھی کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال اور اُن رضی اللہ عنہم کی صحیح روایات میں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے یہ معلوم ہو کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم سے ناخوش تھے یا وہ ان سے ناراض تھے جیسا کہ بعض حضرات ان کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے ہیں ۔ بلکہ اس کے برعکس تمام مورخین اس خوشگوار حققیت پر متفق ہیں کہ :


حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی لخت جگر سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا ، امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ) سے بیاہ دی تھی ۔ (الکافی ، ج:5 ، ص:346)


حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی یوں محمد بن ابوبکر صدیق ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ربیب تھے ۔


امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ناموں پر رکھے ۔ (معرفة الصحابة ، ج:1 ، ص:309،چشتی)


حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے کا نام ابوبکر رکھا اور حضرت علی بن حسین نے اپنے بیٹے کا نام عمر رکھا ۔ حضرت موسیٰ بن جعفر الصادق ہاشمی نے اپنے بیٹے کا نام عمر اور بیٹی کا نام عائشہ رکھا رضی اللہ عنہم ۔ (سیر اعلام النبلاء ، ج:3 ، ص:279)


حضرت امام جعفر صادق بن محمد ہاشمی رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ مجھے ابوبکر صدیق نے دو مرتبہ جنا ہے ۔ (کیونکہ ان کی ماں ام فروہ ، قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق کی بیٹی تھیں اور ان کی نانی حضرت اسماء ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق کی دختر تھیں) (سیر اعلام النبلاء ، ج:6 ، ص:255)


اس طرح تاریخ سے کئی ایسی روایات پیش کی جا سکتی ہیں جو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں قرآن کی آیت ‘رحماء بینھم ‘ کی مصداق ہیں ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کے یہ اعمال ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پیشرو صحابہ کرام سے یگانگت اور محبت کا ثبوت دیا ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ امارت میں منصب قضا کو قبول فرمایا تھا اور شیخین کریمین اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدح فرمائی تھی ، ان کے خلاف بغاوت نہیں کی ، اپنے دور میں ان کے کسی قانون کو منسوخ نہیں کیا ، ان کے خاندان کے ساتھ رشتہ داریاں بڑھائیں ۔


تاریخ کا مطالعہ کریں تو شروع سے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت اور دشمنی ایک گروہ کا خاصہ بنی ۔ اس کے ساتھ ایک اور گروہ بھی وجودمیں آیا جو اس کے الٹ تھا یہ آل بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عداوت رکھتا تھا اور ہے ۔ اس گروہ کے لوگ حضرت علی اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم سے بغض و دشمنی روا رکھتے ہیں ۔ پہلا گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب انہیں نہیں دینا چاہتا ، یہ گروہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب کا منکر ہے ۔ ان دونوں انتہاؤں کی درمیانی راہ ہی حق و صواب کی راہ ہے ۔ یعنی وہ راہ جو ہمیں سکھائے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے یکساں محبت رکھی جائے ، ان کی نیکیوں اور عظمتوں کا دل سے احترام کیا جائے اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق ان کی خطاؤں پر سب و شتم سے باز رہا جائے ۔ اور اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت رکھی جائے اور بغیر کسی غلو کے ، انہیں ان کے اسی مقام و مرتبے پر رکھا جائے جو اللہ نے ان کو عطا کیا ہے ۔ اہل بیت خود بھی صحابہ کرام کے عمومی گروہ میں شامل ہیں اور صحابہ کرام کا یہ گروہ ایسا مقدس گروہ ہے جس کا ہم مسلمانوں پر تاقیامت احسان ہے۔ اس گروہ کا معاملہ دوسرے گروہوں جیسا نہیں کیونکہ ان کا علم اور عمل اس قدر وسیع اور خالص تھا کہ اولین و آخرین میں سے کوئی امتی ان سے آگے نہ بڑھ سکا اور نہ ہی ان کے برابر ہو سکے گا ۔ کیونکہ یہی تو وہ ہستیاں تھیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ دین کو عزت بخشی اور اسے تمام ادیان و مذاہب پر غلبہ عطا فرمایا ۔


اگر تاریخ کے کسی نازک موڑ پر ان نفوس قدسیہ کے درمیان کوئی غلط فہمی پیدا ہو بھی گئی ہو تو ہمارے لیے جناب ابراہیم نخعی رحمة اللہ علیہ کا قول مشعل راہ ہے۔ مشاجرات صحابہ رضوان اللہ علیہم کی بابت ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا ’’ تلک دما ء طہر اللہ ایدینا فلنطھر السنتنا ۔ (مسند احمد حدیث نمبر ۳۷۵۰)

یہ ایسے خون تھے کہ اللہ نے ہمارے ہاتھوں کو ان سے پاک رکھا ہے کیا ہم اپنی زبانیں اس سے آلود کر دیں ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔