Tuesday 15 February 2022

صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کی آپس میں محبت و رشتہ داریاں حصہ دوم

0 comments

 صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کی آپس میں محبت و رشتہ داریاں حصہ دوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : ابتدائے اسلام ہی سے اسلام دشمن قوتوں یہودی ابنِ سبا کی نسل سباٸیوں اور خارجیوں و ناصبیوں نے مسلمانوں کے ذہنوں کو خراب کرنے کےلیے صحابہ کرام اور اہلبیت رضی اللہ عنہم کے مابین اختلاف ابھارا تاکہ بعد میں آنے والے مسلمانوں کو انتشار کا شکار کر دیا جائے ۔ ان کی یہ کوشش ہوتی کہ جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی کوئی ایسی بات پکڑی جائے جسے اہلبیت رضی اللہ عنہم کے خلاف ابھارا جا سکے اور اس طرح اہلبیت رضی اللہ عنہم کی محبت ظاہر کر کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کی جا سکے ۔ آج بھی یہود و نصارٰی کے آلہ کار ابنِ سبا یہودی کی نسلیں اس ناپاک سازش میں مصروف ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی شان میں گستاخی کر کے اپنے بغض و حسد کی آگ کو ٹھنڈا کر رہے ہیں ۔ حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور اہلبیت رضوان اللہ علیھم اجمعین میں کسی نوعیت کا کوئی ذاتی اختلاف نہ تھا ۔ وہ تو ایک دوسرے سے رشتے داریاں کرتے ، گویا قدرت نے انہیں ایک لڑی میں پرو دیا تھا ۔ اللہ پاک ہمیں سب صحابہ کرام اور تمام اہلبیت رضی اللہ عنہم سے سچی اور حقیقی محبت نصیب فرمائے آمین ۔


امام عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت کی محبت سے بڑا حصّہ اور نُمایاں فخر نہ پایا ہو ۔ (فیض القدیر،ج 1،ص256)


امام یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب اُمّت کے ان پیشواؤں کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مؤمن کو لائق نہیں کہ ان سے پیچھے رہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد، صفحہ نمبر 94،چشتی)


حضرت صدر الافاضل سد محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمة علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ و آلہ وسلَّم کی محبّت اور آپ کے اَقارِب کی مَحبّت دِین کے فرائض میں سے ہے ۔ (تفسیر خزائنُ العرفان، پ25،الشوریٰ، تحت الآیۃ:23، ص894)


صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم جو خود بھی بڑی عظمت و شان کے مالِک تھے ، وہ عظیمُ الشّان اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم سے محبت رکھتے تھے اور اپنے قول و عمل سے اس کا کس طرح اِظْہار کیا فرمایا کرتے تھے :


صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے ، آپ کے لئے کھڑے ہوجاتے ، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مُشاوَرت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے۔(تہذیب الاسماء،ج 1،ص244، تاریخ ابنِ عساکر،ج 26،ص372)


حضرت عباس رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں تشریف لاتے تو حضرت ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ بطورِ اِحترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے ۔ (معجمِ کبیر،ج 10، صفحہ 285 ، حدیث:10675)


حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہیں پیدل جا رہے ہوتے اور حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان ذُوالنُّورَین رضی اللہ عنہما حالتِ سواری میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے اُتر جاتے یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے گزر جاتے ۔ (الاستیعاب،ج 2،ص360)


حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذِکر ہوا تو آپ نے فرمایا : اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدْرت میں میری جان ہے ! رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قَرابَت داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنا مجھے اپنے  قَرابَت  داروں سے صِلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے ۔ (صحیح بخاری ، جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 438 حدیث نمبر 3712)


ایک بار حضرت صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو ۔ (صحیح بخاری جلد 2 حدیث 3713،چشتی)


حضرت عُقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صِدّیق  رضی اللہ عنہ نے ہمیں عَصْر کی نَماز پڑھائی ، پھر آپ اور حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوکر چل دئیے ، راستے میں حضرت حَسن کو بچّوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضرت سیّدُنا صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے کندھے پر اُٹھا لیا اور فرمایا : میرے ماں باپ قربان! حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہم شکل ہو، حضرت علی کے نہیں۔ اس وقت حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ مُسکرا رہے تھے ۔ (سنن الکبریٰ للنسائی،ج 5،ص48، حدیث نمبر 8161،چشتی)


ایک بار حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ حضرت سیّدَتُنا فاطمۃُ الزَّہراء رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو فرمایا : اے فاطمہ ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم ! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں ۔ (مستدرک،ج 4،ص139، حدیث:4789)


ایک موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضراتِ صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بیٹوں کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت امام حسن اور امام حُسین رضی اللہ عنہما کی شان  کے لائق ہو تو آپ نے ان کےلیے یمن سے خُصوصی لباس منگوا کر پہنائے ، پھر فرمایا : اب میرا دل خوش ہوا ہے ۔ (ریاض النضرۃ،ج1،ص341)


یوں ہی جب حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین رضی اللہ عنہما کےلیے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قَرابَت داری کی وجہ سے اُن کے والد حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے برابر حصّہ مقرر کیا، دونوں کے لئے پانچ پانچ ہزار دِرہم وظیفہ رکھا ۔(سیر اعلام النبلاء ج3،ص259،چشتی)


حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے چند نُقُوش بھی آلِ ابوسفیان (یعنی ہم لوگوں) سے بہتر ہیں ۔ (الناھیۃ صفحہ نبر 59)


حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے زبردست فضائل بیان فرمائے ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 42،ص415)


حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو نافِذ بھی کیا اور علمی مسئلے میں آپ سے رُجوع بھی کیا ۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی،ج10،ص205، مؤطا امام مالک،ج2،ص259)


ایک موقع پر حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ضَرّار صَدائی رضی اللہ عنہ سے تقاضا کرکے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے فضائل سنے اور روتے ہوئے دُعا کی : اللہ پاک ابوالحسن پر رحم فرمائے ۔ (الاستیعاب جلد 3،صفحہ 209،چشتی)


یوں ہی ایک بار حضرت امیر مُعاویہ نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہم کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : یہ آبا و اَجْداد ، چچا و پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں ۔ (العقد الفرید،ج 5،ص344)


حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ ہم شکلِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ہونے کی وجہ سے حضرت امام حَسَن کا احترام کرتے  تھے۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص461)


ایک بار حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے امام عالی مقام حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کی علمی مجلس کی تعریف کی اور اُس میں شرکت کی ترغیب دلائی ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج14،ص179)


حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظائف کے علاوہ مختلف مواقع پر حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین رضی اللہ عنہما کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کئے ، یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے ، آپ نے کبھی پانچ ہزار دینار ، کبھی تین لاکھ دِرہم تو کبھی چار لاکھ درہم حتی کہ ایک بار 40 کروڑ روپے تک کا نذرانہ پیش کیا ۔ (سیراعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 309)(طبقات ابن سعد جلد 6 صفحہ 409)(معجم الصحابہ،ج 4،ص370)(کشف المحجوب صفحہ 77)(مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص460)


حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آلِ رسول رضی اللہ عنہم کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد، ص92) ۔ نیز آپ فرمایا کرتے تھے : اہلِ مدینہ میں فیصلوں اور وِراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہے ۔ (تاریخ الخلفاء،ص135)


حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں جب بھی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فَرطِ مَحبّت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں ۔ (مسند امام احمد،ج 3،ص632)


ابومہزم رحمۃ اللہ  علیہ بیان کرتے ہیں : ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے ۔ (سیراعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 407)


عیزار بن حریث رحمۃ اللہ  علیہ کا بیان ہے کہ حضرت عَمْرو بن عاص رضی اللہ عنہ خانۂ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے ، اتنے میں آپ کی نظر حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمایا : اس وقت آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب شخص یہی ہیں ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد نمبر 14 صفحہ نمبر 179،چشتی)


محترم قارٸینِ کرام : آپ نے بیان کردہ روایات میں پڑھا کہ حضراتِ صَحابَۂ کرام رضی  اللہ عنہم کس کس انداز سے اہلِ بیتِ اَطہار رضی اللہ عنہم سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ، انہیں اپنی آل سے زیادہ محبوب رکھتے ، ان کی ضَروریات کا خیال رکھتے ، ان کی بارگاہوں میں عمدہ و اعلیٰ لباس پیش کرتے ، بیش بہا نذرانے اُن کی خدمت میں حاضر کرتے ، اُن کو دیکھ کر یا اُن کا ذِکر پاک سُن کر بے اختیار رو پڑتے ، ان کی تعریف و توصیف کرتے اور جاننے والوں سے اُن کی شان و عظمت کا بیان سنتے ۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ساداتِ کرام اور آلِ رسول کا بے حَدادب و احترام کریں ، ان کی ضَروریات کا خیال رکھیں ، ان کا ذِکرِخیر کرتے رہا کریں اور اپنی اولاد کو اہلِ بیت و صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت و احترام سکھائیں ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔