حضرت مولا علی اور خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے باہمی تعلقات حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : یہ اچھی طرح جاننا ضروری ہے کہ حضرت علی اور خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم اجمعین تھے کون ، کیونکہ جب تک ان عظیم ہستیوں کو ان کی عظمت اور باریک بینی سے نہجانا جائے تو بعض اقوال اور کلمات کی مختلف تشریح ہوسکتی ہے اور ان کی وجہ سے غلط نتائج بھی نکل سکتے ہیں ۔ اس لیے ہم کوشش کریں گے کہ عمومی طور پر خلفائے راشدین کی عظیم زندگی کے کچھ خدوخال پیش کریں تاکہ ہم ان کو قریب سے جان سکیں ۔ سنہری سلسلے کے تاج کا موتی حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تربیت میں سب سے زیادہ وقت گزارا خواہ وہ بعثت سے قبل ہو یا بعد میں ۔ آپ کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما سے شادی ہوئی جن کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : فاطمہ میرا ایک ٹکڑاہے ، جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ۔ (فضائل الصحابہ صفحہ 12)
اس شادی کے بعد آپ کے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم درمیان ایک اور رشتہ بھی قائم ہو گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بار بار حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے جاتے تھے اور رات کو بھی چلے جاتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے درمیان ان کے بستر پر تشریف فرما ہوئے ، اپنے نواسوں کو سینے سے لگایا اور ان سے ہنسی مذاق کیا ۔ اس سب کا مطلب یہ نکلا کہ حضرت علی کو ہمیشہ یہ موقع ملتا رہا کہ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جذبات اور احساسات کے درمیان سانس لیں ۔ علاوہ ازیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسوں کی ولادت اس خوش قسمت گھر میں ہو ئی اور انہی دونوں سے نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نسل آگے چلی اور حضرت حسین اشراف اور سادات کے دادا بنے ۔ اس لیے بہت سے بڑے بڑے اقطاب جیسے ابوالحسن شاذلی ، شیخ عبدالقادر جیلانی اور محمد بہاؤالدین نقشبندی علیہم الرحمہ جیسے اقطاب کا دادا ہونے کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک منفرد مقام ہے ۔ ’’اگر ابوبکر نہ ہوتے تو اسلام مٹ جاتا‘‘ اس کے باوجود دیگر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں ۔ مثلاً حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی جانب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حفاظت اور بعض معین مقامات پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دفاع ایک نہایت ضروری امر ہے ۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانا ، ہجرت کے دوران سخت اور مشکل راستے پر خطرات سے دوچار ہونے کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رفاقت ، کئی بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حملے کے وقت لوگوں سے فرعون کی قوم کے مومن کی طرح یہ کہنا : أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ ۔ (سورہ المومن:28) ۔ کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ھے کہ میرا پروردگار اللہ ہے ۔ (یہ سب حادثات اور واقعات نہایت اہم ہیں جبکہ مثال ہے کہ ’’ قدر زرگر زرگر بداند یا کہ داند جوہری ۔‘‘ اس لیے حضرت علی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہما کی قدر پہچاننے میں سب سے آگے تھے کیونکہ آپ کا قول ہے : ’’ اگر ابو بکر نہ ہوتے تو اسلام مٹ جاتا‘‘ ۔ (الدیلمی، الفردوس بماثورالخطاب:358/3)
اسی طرح ایک اور موقع پر ان کی عظمت کا اظہار ان الفاظ سے فرمایا : ’’ اس امت کے نبی کے بعد سب سے بہترین لوگ ابو بکر اور عمر ہیں ۔ (احمد بن حنبل، فضائل الصحابہ:76/1)
فاروق : حق و باطل کو جدا کرنے والی سیسہ پلائی دیوار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایسی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے آ پ کو دیگر حضرات پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ آپ نفاق اور اختلاف کی ان تمامتحریکوں کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار تھے جن سے آپ کی خلافت کے دوران اسلامی وحدت کو خطرہ تھا، علاوہ ازیں آپ ہی نے اس زمانے کی دو بین الااقوامی قوتوں روم اور فارس کو خاک میں ملایا اور یہ بات بہت سے لوگوں کا ا سلام لانے کا سبب بنی ۔ جب ایران معرکہ قادسہ’ میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد جھک گیا تو اس کے دل میں حضرت عمر کے خلاف بغض اور کینہ پیدا ہوگیا ۔ حضرت بدیع الزمان سعید نورسی نے ان کے مسلک کے ارادے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے : ’’ حضرت علی کی محبت کی وجہ سے نہیں بلکہ حضرت عمر کے بغض کی وجہ سے ۔‘‘ چونکہ حضرت علی ان دونوں عظیم خلفاء رضی الل عنہم کے فضائل جانتے تھے اس لیے ان کی خلافت کے دوران وہ اہم ذمہ داری سنبھالی جس کو بعد میں ’’شیخ الاسلام‘‘ کا نام دیا گیا ۔ یعنی یہ دونوں خلفا ضرورت کے وقت فقہی مسائل میں آپسے بہت زیادہ مشورے کیا کرتے تھے اور خاص طور پر بہت سے مسائل ایسے ہیں جو حضرت عمر نے آپ سے پوچھ کر ان کا حکم معلوم کیا ۔ احادیث کی کتابوں میں مذکور وہ واقعہ قابل ذکر ہے کیونکہ یہ حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان تعلقات کو واضح کرتا ہے کہ جب حضرت عمر نے حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے یہ فرمایا کہ : ’’ میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے ، تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے اور اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے نہ چومتا ۔ (الاخنری،الحج:50، مسلم، الحج :250،چشتی) تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہایت سادگی سے فرمایا : ’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا : قیامت کے دن حجر اسود میں اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کی تیز زبان ہو گی اور وہ اس شخص کی توحید کی گواہی دے گا جس نےاس کا استلام کیا ہوگا‘‘ اس لیے اے امیر المومنین وہ نفع اور نقصان دیتا ہے‘‘۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا : ’’ ابو الحسن میں ایسے لوگوں میں زندہ رہنے سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں جن میں آپ موجود نہ ہوں ۔ (الحاکم، المستدرک:628/1،چشتی)
یہ ایسے لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان میں سےہر ایک دوسرے کی خوب قدر کرتا ہے جیسے کہ اس واقعے سے ظاہر ہے ۔’’اگر میرے پاس تیسری بیٹی بھی ہوتی تو میں اس کا نکاح اس سے کردیتا‘‘ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ایک اور منفرد رخ اور نرمی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ایک دختر نیک اختر کا آپ سے نکاح کرایا۔ جب ان کا انتقال ہوگیاتو دوسری بیٹی بیاہ دی اور ارشاد فرمایا : ’’اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کا نکاح بھی اس سے کردیتا جبکہ میں نے اس کا نکاحاللہ کی وحی کے سبب کیا ہے ۔‘‘ (الطبرانی، العجم الکبیر:184/17)
اسی طرح حضرت عثمان کا امن و امان کے ساتھ حکمرانی کرنا ا ور امور مملکت کو چلانا بھی آپ کی عظمت کو سمجھنے کے لئے بہت اہم ہے اور خصوصاً اس وقت جب عالم اسلام میں خارجی نظرئے نے جنم لیا۔ منفرد رخ ، منفرد فضائل ہم کہہ سکتے ہیں کہ : ان میں سے ہر ایک کے ایسے رخ ہیں جن کی وجہ سے دوسروں پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ جیسے کہ سب جانتے ہیں بعض اوقات کچھ چیزوں میں مرجوح ، راجح پر فضیلت حاصل کرلیتا ہے ۔ اس لیے صحیح بات یہ ہے کہ ان حضرات میں سے ہر ایک کو اپنی شخصیت اور ذاتی اہمیت اور اللہ کے ہاں مرتبے کے لحاظ سے دیکھای چاہیے اور یہ عقیدہ ہوکہ ان میں سے ہر ایک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف خصوصیات کا حامل ہے ۔ اسی وجہ سے حضرت ابو بکر کو صدیق ، حضرت عمر کو فاروق ، حضرت عثمان کو ’’ذوالنورین‘‘ اور حضرت علی کو ’’ الاسد الغالب‘‘ باب مدینۃ العلم اور سلطان الاولیاء جیسے کئی القاب دئے گئے رضی اللہ عنہم ۔ ان حضرات میں سے ہر ایک منفرد حیثیت کا مالک ہے اور اس کی مخصوص خصوصیات کی وجہ سے اس کے مرتبے تک پہنچنا ناممکن ہے ۔ اگر چہ ’’متاال‘‘ بلند کے لفظ کا انسانوں پر اطلاق درست نہیں ، مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ان رخوں سے جن کو حاصل کیا جا سکتا ہے نہ ان سے سبقت لی جا سکتی ہے ، مختلف صلاحیتوں کے مالک ہیں ۔ مثلاً یہ حضرات اپنی خلافت راشدہ میں منفرد ہیں ۔ کوئی دوسرا ان کا ہم پلہ نہیں ، ان میں سے ہرایک اپنی قیمت میں پورے عالم کے برابر ہے جبکہ ان کی یہ قدر و قیمت ان کی ان بے شمار خصوصیات کی وجہ سے ہے جن کا ہم یہاں ذکر نہیں کر سکے ۔ ہمارے لیے بس یہی کافی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان چاروں کو عشرہ مبشرہ میں سرِ فہرست ذکر فرمایا ہے ۔ متضاد دعوے اور بے سروپا جھوٹ جب ہم ان تمام امور کو کلی اور شمولی نظر سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی کو خصوصاً حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم کے ایک مخالف کے طور پر پیش کرنا اور یہ دعویٰ کرنا کہ آپ حق اور دیگر باطل کے نمائندے تھے ۔ دراصل کسی اور سے قبل خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کی توہین ہے کیونکہ حضرت علی جیسا بطلِ شجاعت و جرأت جو کسی خطرے کو کام میں نہیں لاتا ، وہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے کسی ایسے معاملے میں نہیں جھک سکتا جسے وہ حق نہ سمجھتا ہو کیونکہ آپ ایسے مہم جو ہیں جو کھلے دل اور اطمینانِ قلب کے ساتھ موت کی جانب بڑھتے ہیں جیسے کہ واقعہ خیبر میں ہوا ۔ یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب منسوب کی جاتی ہے کہ جبریل نے آگر آپ سے فرمایا :’’ ذوالفقار جیسی کوئی تلوار اور علی جیسا کوئی جوان نہیں ‘‘ ۔ (ابن عسا کر، تاریخدمشق: 201/39, 71/42)
اس لیے ایسے شخص کے بارے میں یہ دعوی کرنا کہ اس نے حضرت ابوبکر و عمر سے مجاملہ اور مدارات سے کام لیا ، خود حضرت علی رضی اللہ عنہم کی روح کی توہین اور تحقیر ہے ۔ اس لیے ان دعوؤں کے تضاد کو واضح کرنا چاہیے ۔
دوسری جانب اس مسئلے کو اس رخ سے دیکھا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابوبکر ، عمر ، اور عثمان رضی اللہ عنہم کو شرفِ قربت بخشا ، توان حضرات کے بارے میں منفی آراء خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ہیں کیونکہ اس دعوے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی بھی ان حضرات کو نہیں آزمایا اور کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان سازشوں کا علم ہی نہیں ہوا جو (نعوذ باللہ) ان حضرات نے کیں اور یہ بات آپ علیہ السلام کی ڈہانت اور فطانت کی توہین ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنے ساتھیوں کو خوب اچھی طرح پہچاننا اور اسی بنیاد پر آپ ان کو مختلف جگہوں پر لگانا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظیم فطانت کا ایک نہایت اہم رخ ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب کسی انسان کے چہرے پر ایک نظر ڈالتے تھے تو اپنی انتہائی ذہانت سے معلوم کرلیتے تھے کہ یہ شخص کس مقام پر کس کام کے لائق ہے اور اس کے مطابق اس کی ذمہ داری لگاتے تھے ۔ جی ہاں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس وحی آنے کے باوجود یہ دعویٰ کرنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آغاز سے لے کر اس دنیا سے کوچ کرنے تک ان لوگوں کو پہچان ہی نہ پائے جن کے ساتھ رہے اور ان کے حالات اور برتاؤ سے صحیح مطلب کا استنباط ہی نہ کر سکے ، یقینا یہ ایک نہایت زبردست منطقی غلطی کا نتیجہ ہے جبکہ عقل و منطق اور درست سوچ اور فکر کا تقاضایہ ہے کہ جن لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پسند فرمایا ان کو قبول کیا جائے اور ان کا احترام کیا جائے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ حدیث کی کتابوں میں اس بارے میں خصوصی ابواب ہیں ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس مرتبے کی جانب یوں اشارہ فرمایا ہے جس کو کسی بھی طرح حاصل نہیں کیا جاسکتا : میرے صحابہ آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں ۔ اس لیے تم جس کے پیچھے بھی چلو گے رستہ پالو گے ۔ (البہقی ، المدخل: 162/1 ، الدیلمی ، الفردوس بما ثور الخطاب:160/4)
خصوصی طور پر ان دو حضرات کے بارے میں منفی رائے رکھنا جن کے ہاتھ پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ ہمیں قیامت میں اس طرح اٹھایا جائے گا ۔‘‘ (الترمذی، النا قب:38) اور ایک اور موقع پر فرمایا : ’’ کوئی بھی نبی ایسا نہیں جس کے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو زمین والوں میں سے نہ ہوں ۔ اس لیے آسمان والوں میں سے میرے وزیر جبرائیل اور میکائیل ہیں اور زمین والوں میں سے ابو بکر اور عمر ہیں ۔ (الترمذی، المناقب:47)
یہ بات معترضین کی ان حضرات سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ناواقفی کا نتیجہ ہے ۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان حضرات کو جنت کی بشارت دی ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو بکر اور عمر کی بیٹی کو اپنے عقد میں لیا اور اپنی دو بیٹیاں حضرت عثمان اور ایک بیٹی حضرت علی رضی اللہ عنہم کے نکاح میں دی ۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اور ان حضرات کے درمیان ایک اور منفرد رشتہ بھی قائم فرمایا ۔ اگر اس مسئلے کو محی الدین ابن عربی کی کتاب ’’ فصوص الحکم‘‘ کے رخ سے دیکھا جائے تو حدیث کی تاودیل کے رخ سے شادی کرنے اور نکاح میں دینے کا ایک اور مطلب بھی ہے ، مگر فقیر یہاں ان معاملات میں نہیں پڑنا چاہتا ، فقیر کی کوشش ہوگی کہ میں سادگی سے اس مسئلے کو بیان کردوں کیونکہ ہم معمولی لوگ ہیں اس لیے روحانیت کو زیادہ نہیں سمجھتے ۔ دائرے کے مرکز میں معمولی انحراف کا دائرے کے محیط پر اثر اس سب کے باوجود ایک خاص زمانے میں بعض لوگ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی قدر جاننے میں جادۂ حق سے بھٹک گئے ۔ چونکہ دائرے کے مرکز میں ایسے امور کا زیادہ پتہ نہیں چلتا اس لیے آغاز میں اس کا اندازہ نہیں ہوا لیکن مرکز کا یہ معمولی انحراف خطِ محیط میں بہت زیادہ ہوگیا یہاں تک کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک مرحلہ ایسا بھی آگیا جب بعض لوگوں نے حضرت علی رضی ا للہ عنہ کی مخالفت کی اور نعوذ باللہ ان پر کفر کی تہمت لگا دی جبکہ بعض دیگر لوگوں نے حضرت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعوی کرتے ہوئے اپنی زندگیاں حضرت ابوبکر و عمر رضی ا للہ عنہما کی دشمنی میں کھپا دیں اور اپنی دشمنی کو ایک بنیاد فراہم کرنے کےلیے حضرت علی کا نام استعمال کیا ، بلکہ اس بارے میں حد سے گزر گئے اور آپ کو ایسی ایسی صفات سے متصف قرار دیا جن کو آپ کبھی قبول نہ کرتے ۔ اس کے نتیجے میں بہت سے باطنی مذاہب وجود میں آئے جنہوں نے اس مسئلے کو حلول اور اتحاد تک پہنچا دیا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس قسم کے باطل اور خود ساختہ دعوے ’’ مہدیت‘‘ کے ان دعوؤں کی بنیاد بنے جو دنیا کے مختلف مقامات پر ظاہر ہوئے ا ور یہ بات شروع سے حسن بن صباح ، قرامطہ ، اسماعیلیہ اور نصیریوں جیسے باطل مذاہب کے وجود میں آنے کا باعث بنی ۔ اس موضوع سے متعلق ایک حدیث شریف بھی ہے ۔ اگرچہ احادیث کے معیار کے مطابق اس پر کلام ہے (جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بتا رہے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں دو فرقے ہلاک ہو جائیں گے ایک (نعوذ باللہ) ان کو خدا کے درجے تک پہنچا دے گا اور دوسرا (نعوذ باللہ) ایک معمولی سے مسئلے کی وجہ سے کافر قرار دے کر ان سے دشمنی کرے گا اور ان کو قتل کرنے کی کوشش کرے گا اور وہ دن آگیا جب فارسیوں نے اسلام میں فتنہ برپا کرنے کےلیے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی توہین کی ، بلکہ عداوت میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ دونوں کو ’’جبت اور طاغوت‘‘ بت اور شیطان قراردیا اور مومنوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پربھی بہتان تراشی کی ۔حسد اور بعض کو ہوا دینے والی علمی قیادت دورِ حاضر میں اس انحراف کے شکار لوگ ان باتوں کے بارے میں ہر جگہ اور سب کے سامنے تذکرہ نہیں کرتے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ موجودہ حالات اور ملکوں کے درمیان تعلقات بلکہ ہو سکتا ہے کہ اسلامی دنیا کی عمومی حالت کے رخ سے اس مسئلے کے قریب ہو رہے ہیں ، لیکن اس کے باوجود جب ان کے ان بغض و عداوت والے الفاظ کو دیکھا جائے جن کو وہ نہیں چھپا سکے اور بعض واقعات کی وجہ سے وہ ان کی زبانوں پر آگئے ، تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ لوگ اپنے دلوں سے ان گندگیوں کو دور نہیں کر سکے اور جس ثقافتی ماحول میں وہ پلے بڑھے ہیں اور جن مصادر سے انہوں نے علم حاصل کیا ہے ان کی وجہ سے ان کےلیے ایسا کرنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کچھ طریقے وضع کیے اور اس موضوع پر کتابیں لکھیں جن کی وجہ سے ان کے عقائد اور عمومی سوچ نے یہی رخ اختیار کرلیا ۔ اگر ان کی کتابوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے امامت کو ایمان کے پانچ ارکان میں سے ایک قرار دیا ہے ۔ پھر اس بنیاد پر امام حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہونا چاہیے اور کوئی دوسرا شخص امام بن ہی نہیں سکتا ۔ چنانچہ انہوں نے اس قسم کے فروعی مسائل کو ارکان ایمان سے جوڑ دیا جس کی وجہ سے نہایت خوفناک اختلافات نے جنم لیا ۔ اگر علویوں کی حقیقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت اور اہل بیت سے تعلق ہے تو پھر ہم سب علوی ہیں اور تصوف کی کتابیں اور ہمارا بین الاقوامی ادب اس کا گواہ کیونکہ جب اس کو پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اول سے آخر تک اہل بیت رضی اللہ عنہم کی محبت سے بھرا ہے ۔ یہ بات قطعاً درست نہیں کہ اصول سے متعلق مسائل سے اغماض برتا جائے اور ان کو فروعی رخ سے پیش کیا جائے ۔ میں نے کئی بار یہ تذکرہ کیا ہے کہ فقیر کے خاندانی ماحول کے لحاظ سے فقیر کی پرورش ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پر ہوئی ہے ۔ اس لیے جب بھی ’’بہادر‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے تو فقیر کے ذہن میں آپ رضی اللہ عنہ ایک ایسے بہادر کی شکل میں مجسم ہو کر آجاتے ہیں جو میدان جنگ میں تلوار بے نیام کرنے کے بعد ایک ہی بار پچاس پچاس سروں کی فصل کاٹتا تھا ۔ اگر یہی بات میرے جذبات پر حکمرانی کرے تو پھر یہ بات بالکل فطری ہے کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت میں دیوانہ ہوجاؤں کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت میری روح اور عقل کے خلیوں میں اس درجے تک سرایت کر گئی ہے کہ مجھے اس بات کی کوشش کرنا پڑی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوبھی خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی صف میں شامل کر کے اس بارے میں توازن پیدا کروں ۔ محبت کی کنجیاں زنگ آلود تالوں کو بھی کھول دیتی ہیں ماضی میں جو کچھ ہوا ، اس سب کے باوجود آج ہم پر جو بات لازم ہے وہ یہ کہ ہم علوی ، نسطوری اور سریانی میں فرق کیے بغیر سب کی جانب ہاتھ بڑھائیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں ۔ اس طرح ہم ان منفی امور کی تاثیر کو ختم کر سکتے ہیں جن سے اندرونی اور بیرونی سازشی عناصر فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ مشرقی ترکی کے مسئلے کے بارے فقیر نے ماضی میں لکھا تھا کہ : وہ وسائل مہیا کرنا لازمی ہیں جن کے ذریعے ہماری قوم کی روح اور فطرت میں پوشیدہ مروت دوبارہ ظاہر ہوجائے اور یہ سرگرمیاں ہمیشہ ایک تبدیلی کے ساتھ روبہ عمل لائی جائیں ۔ مثلا مبارک راتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان علاقوں میں پروگرام کیے جا سکتے ہیں ۔ اس لیے اگر تم کسی ایک جامع مسجد میں ایک رات جاگ کر ان کی رات اور ظلمت کو روشن کرتے ہو ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم دلوں کو کھولنے کے لیے ایک مشترک نقطے کی تلاش میں بڑا اہم کام کر رہے ہو اور اگر اس علاقے میں بصیرت والے انتظامی افسران ، پولیس افسر ، ڈاکٹر ، داعی اور علماء تعینات کیے جائیں اور وہ معاشرے کے زخموں پر پھاہے رکھنے کی کوشش کریں تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ساری سازشیں ختم ہو جائیں گی کیونکہ مشکلات کو محبت کی کنجیوں سے حل کرنے کی ضرورت ہے جن سے ہر دروازہ کھل جاتا ہے ۔ اس کام کے لئے مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ کا اسلوب ، یونس امرہ کی ترتیب اور عالمی ضمیر کی کشادگی سے کام لینا چاہیے ۔ جی ہاں ، اگر کوئی چیز ان مشکلات کو جڑ سے اکھاڑ سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ سب کو ساتھ ملایا جائے اور اپنے دل ان کےلیے کھول دیں ۔ اس طرح ہم سارے دلوں کو کھول سکتے ہیں ۔ اگر آپ مشکلات کو طاقت کے بل پر حل کرنا چاہیں تو ان کو کچھ وقت کےلیے دبا دیں گے لیکن ایسا کوئی انسانی مسئلہ نہیں جس کو طاقت کے زور سے مکمل طور پر حل کر لیا گیا ہو ۔ اس لیے یہ ہو سکتا ہے کہ آپ طاقت کے ذریعے مسئلے کو دبا دیں مگر وہ کسی اور جگہ ایک نئی شکل میں سر اٹھائے گا ۔ سو یہ کہا جاسکتا ہے کہ فتنوں کے اندر ایک طرح کا ’’ تناسخ‘‘ پایا جاتا ہے ۔ اس لئے انسانیت نت نئی شکلوں میں ان سے دوچار ہوتی رہے گی یہاں تک کہ ان کو مکمل طور پر حل کرلیا جائے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ طاقت ایک رخ سے عقل اور منطق کو مکمل طور پر کام میں لانے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جب آپ دوسروں پر ظلم و جبر کر کے ان کو دبا کر کسی مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ اپنی عقل اور منطق کو مکمل طور پر استعمال نہیں کر سکتے ۔ جی ہاں ، طاقت کے وجود کی ایک حکمت ہے مگر یہ ضروری ہے کہ طاقت ہمیشہ عقل ، منطق ، حکمت اور فراست کی رہنمائی میں کام کرے اور ضمیر اور انصاف کے آگے سر تسلیم خم کرے ۔ فقیر سمجھتا ہے کہ تمہاری طرف آنے والی کسی مشکل کو حل کرنے کےلیے اس سوچ اور فہم کے ساتھ آگے بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس مسئلے کےحل کے ایک ایسے رستے پر چل پڑے ہیں جس پرامید کے چراغ روشن ہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : ’’ تم حضرت عیسی ابن مریم کے مثل ہو کہ یہودیوں نے ان سے بغض کیا یہاں تک کہ ان کی ماں پر بہتان تراشی کی اور نصرانیوں نے ان سے محبت کی تو اس درجے تک پہنچا دیا جس پر وہ فائز نہ تھے ۔‘‘ حضرت علی نے فرمایا : میرے بارے میں دو شخص ہلاک ہو جائیں گے ، ایک وہ اندھی محبت کرنے والا جو محبت میں آ کر مجھ میں ایسی صفات بیان کرے جومجھ میں نہیں اور ایک وہ مجھ سے بغض رکھنے والا جھوٹا آدمی جس کو میرا بغض مجھ پر بہتان تراشی تک لے آئے ۔ (مسند ابی یعلی:406/1)
اللہ عزوجل ہم سب کو جملہ صحابہ کرام ، ازواجِ مطہرات اور اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم اجمعین کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment