حضرت مولا علی رضی اللہ کی تاریخ ولادت و مولودِ کعبہ کون ؟ حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی کعبہ میں ولادت کے سلسلے میں سب سے مشہور روایت جو نقل کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ : حلمیہ بنت ابی ذوہیب عبداللہ بن الحارث سعدیہ ایک مرتبہ حجاج بن یوسف کے دور خلافت میں ان سے ملنے کےلیے گئیں ـ حجاج نے کہا : اے حلمیہ ! اللہ تجھے میرے پاس لایا ، میں چاہتا ہوں کہ تجھے بلاؤں اور تم سے انتقام لوں ، حلمیہ نے کہا : اس سورش و غصہ کا کیا سبب ہے ؟ حجاج نے جواب دیا : میں نے سنا ہے کہ تم علی کو ابوبکر اور عمر رضی عنہم پر فضیلت دیتی ہو ، حلمیہ نے کہا : حجاج ! خدا کی قسم میں اپنے امام کو اکیلی حضرت عمر و ابوبکر پر فضلیت نہیں دیتی ہوں ، ابوبکر و عمر میں کیا لیاقت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہم سے ان کا موازنہ کیا جائے ، میں تو اپنے امام کو آدم ، نوح ، ابراہیم ، سلمیان ، موسی اور عیسی پر بھی فضیلت دیتی ہو ، حجاج نے برآشفتہ ہو کر کہا میں تجھ سے دل برداشتہ ہوں ، میرے بدن میں آگ لگ گئی ہے ، اگر تو نے اس دعوٰی کو ثابت کردیا تو ٹھیک ورنہ میں تجھے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا ، تاکہ تم دوسروں کے لئے عبرت حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے ، پھر حلمیہ نے ایک ایک کر کے دلائل کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کی برتری ثابت کردی ـ یہاں تک کہ جب حجاج نے کہا تو کس دلیل سے علیؓ کو عیسی علیہ السلام پر ترجیح دیتی ہے ؟ حلمیہ نے کہا : اے حجاج سنو ! جب مریم بن عمران بچہ جننے کے قریب ہوئی جب کہ وہ بیت المقدس میں ٹھہری تھی ، حکم الہی آیا کہ بیت المقدس سے باہر نکل جاؤ اور جنگل کی طرف رخ کرو تاکہ بت المقدس تیرے نفاس سے ناپاک نہ ہوجائے ، اور جب حضرت علی کی ماں فاطمہ بن اسد رضی اللہ عنہما وضع حمل کے قریب ہوئیں تو وحی آئی کہ کعبہ میں داخل ہو جاؤ اور میرے گھر کو اس مولود کی پیدائش سے مشرف کر، پھر حلمیہ کہنے لگی اے حجاج اب تم ہی انصاف کروکہ دونوں بچوں میں کون شریف ہو گا ؟ حجاج یہ سن کر راضی ہو گیا اور حلمیہ کا وظیفہ مقرر کر دیا ۔ (آئینہ مذاہب امامیہ ترجمہ اردو تحفہ اثنا عشریہ از شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ صفحہ 111-113)
اس روایت میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ سر تا پا جھوٹ و کذب او بہتان سے لبریز ہے ، اس میں بہت ساری باتیں جھوٹی اور من گھڑت ہیں ، جنکی تفصیل درج ذیل ہے ، کیونکہ : تراجم کی کتب میں کہیں یہ مذکور نہیں کہ حلمیہ بنت ابی ذویب السعدیہ حجاج بن یوسف کے عہد تک زندہ تھیں اور نہ ہی کہیں کسی نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے ـ (سیرت ابن ہشام 1/160)۔(اسد العابہ 76/8،چشتی)
آئینہ مذاہب امامیہ کے مصنف حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : حلیمہ بن ابی ذویب مورخین کے اتفاق رائے سے حجاج بن یوسف کے زمانے تک زندہ نہیں رہی ـ (آئینہ مذاہب امامیہ ترجمہ اردو تحفہ اثنا عشریہ از شاہ عبدالعزیز صاحب محد دہلوی ص 111-113)
اس روایت کو صحیح ماننے سے اہل سنت و جماعت کے اصولوں کی مخالفت لازم آئے گی کیونکہ اس روایت میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو عمرین یعنی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فوقیت دینے کی کوشش کی گئی ، جبکہ اہل سنت و جماعت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ افضل ابوبکر پھر عمر پھر عثمان پھر علی اور ان کے بعد عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ۔
حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے متعلق جو بات اس روایت میں کہی گئی ہے وہ محض بکواس ہے اور تاریخ کے خلاف ہے کسی مؤرخ نے اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے ، اس کے برخلاف نص قرآن اس بات پر واضح دلالت کرتی کہ حضرت مریم علیہا السلام درد زہ سے پریشان ہو کر اس بات پر آمادہ ہوئیں کہ وہ کسی چیز پر تکیہ کریں اور جب اس حالت میں جنگل میں جانا اور کسی کی مدد کے بغیر وضع حمل ہونا دشوار محسوس کیا تو انہوں نےاختیارِ موت کی خواہش کی، جس کی وضاحت قرآن میں اس طرح سے آئی ہے : فَاَجَآءَهَا الۡمَخَاضُ اِلٰى جِذۡعِ النَّخۡلَةِۚ قَالَتۡ يٰلَيۡتَنِىۡ مِتُّ قَبۡلَ هٰذَا وَكُنۡتُ نَسۡيًا مَّنۡسِيًّا ۔ (سورۃ نمبر 19 مريم_آیت نمبر 23)
ترجمہ : پھر درد زہ اسے کھجور کے تنے کی طرف لے آیا، کہنے لگی اے کاش ! میں اس سے پہلے مرجاتی اور بھولی بھلائی ہوتی ۔
جَاءَ یَجِيْءُ مَجِیْا “ کا معنی ہے آنا اور ” أَجَاءَ یُجِيُ “ (افعال) کا معنی ہے لانا ، مگر اس کے مفہوم میں مجبور کرکے لانا پایا جاتا ہے ۔ (تفسیر زمحشری) ” الْمَخَاضُ “ عورت کو بچے کی پیدائش کے وقت ہونے والا درد ، یعنی درد زِہ۔ ” مَخِضَتِ الْمَرْأَۃُ “ (ع) جب عورت کے ہاں پیدائش کا وقت قریب ہو ۔ یہ ” مَخْضٌ“ سے ماخوذ ہے ، جس کا معنی شدید حرکت ہے اور یہ نام رکھنے کی وجہ ولادت کے قریب ماں کے پیٹ میں بچے کا شدت سے حرکت کرنا ہے ۔ یعنی درد زِہ کی شدت سے مجبور ہو کر وہ کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں اور آنے والے وقت کا تصور کر کے، جب ہر طرف سے برائی کی تہمت لگے گی ، طعنے ملیں گے ، گزشتہ زندگی کی ساری نیکی ، پاک بازی اور شرافت کا خاکہ اڑایا جائے گا ، کہنے لگیں کہ اے کاش ! میں اس سے پہلے مرگئی ہوتی اور کسی کو یاد ہی نہ ہوتا کہ کوئی مریم علیہا السلام بھی تھی ۔ اور یہ جو بیان کیا گیا ہے کہ حضرت فاطمہ بن اسد رضی اللہ عنہا کو بھی وحی ہوئی کہ خانہ کعبہ میں جاکر وضع حمل کرے ، یہ بلکل جھوٹ ہے ، کیونکہ اسلامی اور غیر اسلامی فرقوں میں سے کوئی بھی فاطمہ بن اسد کی نبوت کا قائل نہیں ہے ، جبکہ یہاں وحی جو لفظ ہے وہ انبیاٰء کےلیے خاص ہے ۔
ایک روایت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی طرف یوں منسوب کی جاتی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ام عمارہ بن عباد الساعدیہ کی طرف سے زہد بنت عجلان الساعدیہ نے مجھے خبردی ، کہا کہ میں ایک دن عرب کی چند عورتوں میں بیٹھی ہوئی تھی کہ اچانک ابوطالب غمگین ہو کر آیا ، میں نے کہا : کیا حال ہے ؟ تو ابوطالب نے کہا : فاطمہ بنت اسد دردزہ میں مبتلا ہے اور وقت ہو جانے کے باوجود بچہ پیدا نہیں ہو رہا ، پھر ابوطالب اپنی بیوی فاطمہ کو خانہء کعبہ کے اندر لے آیاـ اور کہا کہ اللہ کے نام پر بیٹھ جاؤ ، بیٹھ گئی اور پھر دردزہ شروع ہو گیا ، اور ایک پاکیزہ بچہ پیدا ہوا جس کا نام ابوطالب نے علی رکھا ـ (آئینہ مذاہب امامیہ ترجمہ اردو تحفہ اثنا عشریہ از شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی صفحہ 111-113،چشتی)
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت پر جرح کرتے ہوئے حضرت شاہ عبد العزیز دہلوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ صحیح اسلام تاریخ کے خلاف یہ محض بکواس ہے ۔ (آئینہ مذاہب امامیہ ترجمہ اردو تحفہ اثنا عشریہ از شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی صفحہ 111-113)
ایک روایت امِ عارہ بنت ِعبادہ سے منسوب ہے کہ : ایک دن میں عرب عورتوں کے پاس تھی کہ ابو طالب مغموم و پریشان تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا : ابوطالب! کیا ہوا ؟ وہ کہنے لگے : فاطمہ بنت ِاسد اس وقت سخت دردِ زِہ میں مبتلا ہیں ۔ یہ کہہ کر انہوں نے دونوں ہاتھ منہ پر رکھ لیے ۔ اسی اثنا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : چچاجی کیامسئلہ ہے ؟ انہوں نے بتایا : فاطمہ بنت ِاسد دردِ زِہ سے دوچار ہیں ۔ ان کو کعبہ میں لا کر بٹھا دیا گیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا نام لے کر بیٹھ جائیے ۔ انہوں نے ایک خوش،صاف ستھرا اور حسین ترین بچہ جنم دیا ۔ ابو طالب نے اس کا نام علی رکھ دیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کو اٹھا کر گھر لائے ۔ (مناقب عليّ بن أبي طالب لابن المغازلي، الرقم : 3)
امِ عارہ بنت ِعبادہ سے منسوب ہے کہ : ایک دن میں عرب عورتوں کے پاس تھی کہ ابو طالب مغموم و پریشان تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا : ابوطالب! کیا ہوا؟وہ کہنے لگے : فاطمہ بنت ِاسد اس وقت سخت ۔۔۔۔۔انتہی!
(مناقب عليّ بن أبي طالب لابن المغازلي، الرقم : 3)
یہ جھوٹی روایت ہے ، کیونکہ : اس کا راوی ابو طاہر یحییٰ بن حسن علوی کون ہے ، کوئی پتہ نہیں ۔ محمد بن سعید دارمی کی توثیق درکار ہے ۔ زیدہ بنت قریبہ کے حالاتِ زندگی نہیں مل سکے ۔ ان کی ماں ام العارہ بنت ِعبادہ کون ہے ، معلوم نہیں ۔ پے در پے ’’مجہول‘‘راویوں کی بیان کردہ روایت کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے ؟
حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ : خانہ کعبہ میں سب سے پہلے سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ۔ اور بنو ہاشم میں سب سے پہلے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ۔ (أخبار مکّۃ للفاکھي : 198/3، الرقم : 2018،چشتی)
اس قول کی سند بھی ’’ضعیف‘‘ ہے ، کیونکہ امام فاکہی کے استاذ ابراہیم بن ابو یوسف کے حالاتِ زندگی نہیں مل سکے ۔ شریعت نے ہمیں ثقہ اور معتبر راویوں کی روایات کا مکلف ٹھہرایا ہے ، نہ کہ مجہول اور غیر معتبر راویوں کے بیان کردہ قصے کہانیوں کا ۔
فقیر کہتا ہے کہ رافضیت کے پیروکار جس قدر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے دلائل اتنے ہی بے وقعت اور کمزور ہیں اور سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے لئے ایک اختراع ہیں ۔ کیونکہ خانہ کعبہ جیسے معزر گھر میں کسی کی بھی ولادت ہو وہ ایک عظیم شہرت کی بات ہے ، مؤرخین اس کا تذکرہ ہرگز ترک نہیں کر سکتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ :
امام سیوطی علیہ الرّحمہ نے اپنی کتاب ” تاریخ الخلفاء ” میں تقریبا 22 صفحات پر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کو بیان کیا ہے اس میں مولود کعبہ ہونے کا ذکرنہیں ۔ (تاریخ الخلفاء للسیوطی 185/207،چشتی)
امام ذہبی علیہ الرّحمہ نے اپنی کتاب ” تاریخ اسلام و وفیات الاعلان ”میں تقریبا 32 صفحات پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت سے لیکر وفات تک زندگی کے مختلف گوشوں پر بحث کی ہے اور بے شمار خصوصیات کا ذکر کیا ہے لیکن اس میں مولود کعبہ ہونے کا ذکرنہیں ہے ـ (تاریخ الاسلام للذھبی : 641/ 652)
استعیاب ابن عبدالبر علیہ الرّحمہ نے 40 سے زائد صفحات پر خصائص علی رضی اللہ عنہ کا اور دیگر کامفصل تذکرہ کیا ہے ، لیکن مولود کعبہ ہونے کی بات نہیں لکھی ہے ـ (استعیاب 11٫4- 1089 /3)
ان کے علاوہ قابل ذکر و معتبر مؤرخین و محدثین علیہم الرّحمہ میں سے ابن الاثیر نے اپنی کتاب اسد الغابہ 134-100/4 ۔
ابونعیم اصفہانی نے معرفتہ الصحابہ 1970-1986
امام مزی نے تہذیب الکمال 472/20
امام مسلم نے ” باب ” من فضائل علی ابن ابی طالب ” میں ۔
امام المحدثین محمد بن عبداللہ بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ نے ” باب مناقب علی بن ابی طالب ”میں ۔ حضرت علی کے بے شمار فضائل ذکر کیا ہے ، لیکن کہیں بھی کسی نے مولود کعبہ ہونے کی بات نہیں لکھی ۔
اس کے برخلاف حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے بارے میں جس نے بھی قلم اٹھایا تقریبا سبھی لوگوں نے ان کو مولود کعبہ کی بات کی ہے ۔
حكيم بن حزام ولد في جوف الكعبۃ، ولا يعرف ذلك لغيره. وأما ما روي أن عليا ولد فيها فضعيف عند العلماء ۔
ترجمہ : حکیم بن حزام کعبے کے اندر پیدا ہوئے اور یہ بات کسی دوسرے کے متعلق سننے میں نہیں آئی اور اس قول کے متعلق کہ حضرت علی کی ولادت کعبہ میں ہوئی علما کے نزدیک یہ قول ضعیف ہے ۔ (السيرة الحلبية۔إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون، أبو الفرج، نور الدين ابن برهان الدين حلبی،چشتی)
وذكر أبو الفرج بن الجوزي في كتابہ «مثير العزم الساكن إلى أشرف الأماكن»: وقول من قال: إن علي بن أبي طالب ولد في جوف الكعبۃليس بصحيح، لم يولد فيها غير حكيم ۔
ترجمہ امام ابن جوزی نے اپنی کتاب مثیر العزم الساکن الی اشرف الاماکن میں اس قول کے بارے کہاکہ حضرت علی بن طالب رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبے میں ہوئی یہ صحیح نہیں حکیم بن حزام کے علاوہ کوئی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا ۔ (إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال، أبو عبد الله، علاء الدين)
ولد حكيم فى جوف الكعبۃ، ولا يُعرف أحد ولد فيها غيره ۔
ترجمہ : حکیم بن حزام کعبے کے اندر پیدا ہوئے اور یہ بات کسی دوسرے کے متعلق سننے میں نہیں آئی ۔ (تهذيب الأسماء واللغات: أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي)
أنہ ولد في جوف الكعبہ، قال العلماء : ولا يعرف أحد شاركہ في هذا ۔
ترجمہ : حکیم بن حزام کعبے کے اندر پیدا ہوئے اور یہ بات کسی دوسرے کے متعلق سننے میں نہیں آئی ۔ (فوائد مختارة من النووي جمع واختيار: سليمان بن محمد الحميد)
ولم يولد في جوف الكعبۃ سوى حكيم بن حزام ۔
ترجمہ : اور کوئی حکیم بن حزام کے علاوہ کعبے میں پیدا نہیں ہوا ۔ (شرح صحيح الإمام البخاري، شمس الدين محمد بن عمر بن أحمد السفيري الشافعي،چشتی)
أنہ ولد في جوف الكعبۃ، ولا يُعرف هذا لغيره وولد فِي جوف الكعبۃ، ولم يُسمع هَذَا لغيره ۔
ترجمہ : حکیم بن حزام کعبے کے اندر پیدا ہوئے اور یہ بات کسی دوسرے کے متعلق سننے میں نہیں آئی اور نہ کسی کی پہچان ہے ۔ (شرح سنن النسائي المسمى «ذخيرة العقبى في شرح المجتبى،محمد بن علي بن آدم بن موسى الإثيوبي الوَلَّوِي)
اور یہی بات ان محدثین و علماۓ کرام نے بھی لکھی ہے : ⬇
وولد حكيم في جوف الكعبة كما سلف، ولا نعرف من ولد بها غيره وأما ما روي أن علياً ولد في جوفها فلا يصح ۔ (الإعلام بفوائد عمدة الأحكام: ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري)
بوَكَانَ وُلِدَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَۃوَلَمْ يَصِحَّ أَنَّ غَيْرَهُ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ ۔ (المجموع شرح المهذب : أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي)
حكيم بن حزام المولود في جوف الكعبۃ، ولا توجد هذه الخصيصۃ إلا لہ ۔ (شرح ألفيۃ العراقي : أبو الفضل زين الدين عبد الرحيم العراقي،چشتی)
ثُمَّ حَكِيمٌ مُفْرَدٌ بَأَنْ وُلِدْ … بِكَعْبَةٍ وَمَا لِغَيْرِهِ عُهِدْ ۔ (شرح أَلْفِيَّةِ السُّيوطي : الشيخ محمد ابن العلامۃ علي بن آدم ابن موسى الأثيوبي الولوي)
قال الزبير بن بكار كان مولد حكيم في جوف الكعبۃ۔ قال شيخ الإسلام ابن حجر: ولا يعرف ذلك لغيره ۔ (الوسيط في علوم ومصطلح الحديث: محمد بن محمد بن سويلم أبو شُهبة)
قَالَ الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ: كَانَ مَوْلِدُ حَكِيمٍ فِي جَوْفِ الْكَعْبَۃ۔ قَالَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ: وَلَا يُعْرَفُ ذَلِكَ لِغَيْرِهِ، وَمَا وَقَعَ فِي مُسْتَدْرَكِ الْحَاكِمِ مِنْ أَنَّ عَلِيًا وُلِدَ فِيهَا ضَعِيفٌ ۔ (تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي: عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطی،چشتی)
بحَكِيم هَذَا ولد فِي جَوف الْكَعْبَۃ وَلَا يعرف أحد ولد فِيهَا غَيره ۔ (البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعۃ في الشرح الكبير: ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري)
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ صحیح سند سے مولود کعبہ ہونا صرف حضرت سیدنا حکیم بن حزام رضی للہ عنہ کے لئے ثابت ہے ، جو کہ ام المومنین حضرت سدتنا خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے اور حالت کفر میں ہونے کے باوجود شعب بنی ہاشم میں محصوری کے دور میں مسلمانوں کو چوری چھپے غلہ وغیرہ پہنچایا کرتے تھے ۔ امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں ان حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی بابت تصریح کی ہے کہ ان کے مناقب میں سے ہے کہ وہ کعبہ میں متولد ہوئے اور بعض علماء کا ماننا ہے کہ ان کی اس فضیلت میں کوئی دوسرا صحابی ان کا شریک نہیں ہے ۔ ان کے حالات میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے طویل عمر پائی جس میں سے ساٹھ سال حالت کفر میں اور ساٹھ سال حالت اسلام میں بسر کئے اور مدینہ میں 53 ہجری میں وفات پائی۔ امام بخاری نے اپنی تاریخ میں ان کی وفات 60 ہجری کی بتائی ہے ۔ فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے لیکن کبھی مسلمانوں کے مخالف نہ آئے ۔ ابن حجر نے الاصابہ میں ان کے ترجمہ کے تحت لکھا ہے کہ یہ واقعہ فیل سے تیرہ سال قبل پیدا ہوئے اور واقعہ فیل کے وقت سمجھدار تھے ۔ ان کے والد حزام بن خویلد جو کہ سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے بھائی تھے حرب فجار میں مقتول ہوئے ۔ (اسد الغابہ 58/2) ۔ (تہذیب الکمال 173/7) ۔ (تاریخ اسلام 277/2) ۔ (الاصابہ (رقم : 1800،چشتی) ۔ (تہذیب التہذیب 447/2) ۔ (البدایہ واالنہایہ 68/8) ۔ (الاستعاب 362/1) ۔ (جمہرہ انساب العرب 121)
ان ⬆ تمام کتابوں کے مصنفین نے بھی حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے بارے میں مولود کعبہ ہونے کی بات لکھی ہے ۔
الغرض صحیح تاریخی روایات سے صرف حضرت سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ جن کا کعبہ میں متولد ہونا ثابت ہے ۔ رہا حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کا مولود کعبہ ہونا تو اس کی تصریح کسی صحیح سند سے ثابت نہیں اور اہل تشیع کے ہاں بھی یہ بات بلا دلیل ہی رائج ہے ۔ یہ سب صرف رافضیت و تفضیلیت کی خامہ فرسائی ہے کہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ کے خصائص چھین کر حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو دے دیئے جائیں کہ جیسا کہ اسد اللہ جو کہ حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا لقب بھی ہے جن کو جبرائیل علیہ السلام نے یہ لقب دیا تھا اور سیف اللہ جو کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا لقب بھی ہے ، آج کتنے ہی کم علم لوگ ان القابات کا مصداق صرف حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو باور کرواتے ہیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اسد اللہ ، ذوالقارِ الہٰی ، حیدرِ کرار اور دلیر ہیں ۔ ہمارے لیے صحیح روایات میں آنے والے حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کے خصائص و فضلیت ان کی منقبت کےلیے کافی ہونے چاہیئں کہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ ہمارے سروں کے تاج ہیں اور ان کی محبت ہمارے ایمان کا جز ہے ۔
محترم قارٸینِ کرام : مذکورہ حقائق و دلاٸل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ بتانا ایک اختراع باطل ہے جس کی کوٸی صحیح سند موجود نہیں ہے ـ اس کی کوئی حقیقت نہیں ، صحیح تاریخ جو ثابت ہے وہ یہی ہے کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ ہی کعبہ میں پیدا ہوئے ۔
حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کہاں ہوئی؟ کچھ تذکرہ ہم سابقہ مضامین میں کر آۓ ہیں ۔ اس میں سب سے زیادہ صحیح اور راجح قول یہی ہے کہ ان کی پیدائش نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جائے پیدائش سے قریب ایک گھاٹی میں ہوئی جو کہ شعب علی رضی اللہ عنہ کے نام سے معروف ہے ۔ (الجماع اللطیف : 338 ، بحواله اخبار المکرم بآخبار المسجد الحرام : 194)
لہٰذا بے اصل روایتوں کو سہار بنا کر حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو مولودِ کعبہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ، اس سے حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ اقدس میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی ذات عبقری ہے ، اور بے شمار فضائل ، مناقب و کمالات کی مالک ہے اور جھوٹے واقعات و قصص سے بلکل بے نیاز ہے ۔ اللہ عزوجل ہمیں حق و سچ بیان کرنے توفیق عطا فرماۓ اور ہر قسم کے جھوٹ و فتنہ سے محفوظ فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment