حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : ماہِ رجب کو کئی بزرگانِ دین سے نِسبت حاصل ہے ، اِنہی میں سے ایک ہستی ایسی بھی ہے جس نے بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھائی ، حُسْنِ اَخلاق کی چاشنی سے بداَخْلاقی کی کڑواہٹ دور کی ، عمدہ کِردار کی خوشبو سے پریشان حالوں کی داد رَسی فرمائی اور عِلم کے نور سے جَہالت کی تاریکی کا خاتمہ فرمایاوہ عظیمُ المَرتَبَت شخصیت حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ ہیں ۔
آپ کانام ”جعفر“ اور کُنیّت ”ابو عبداللہ“ ہے ۔ آپ کی ولادت 80 ہجری میں ہوئی ، آپ کے دادا شہزاد ۂ امام حسین حضرت سیّدناامام زَیْنُ الْعَابِدِین علی اَوسط اور والد امام محمد باقِر ہیں جبکہ والدہ حضرت سیّدتنا اُمِّ فَرْوَہ بنتِ قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق ہیں رضی اللہ عنہم اَجْمَعِیْن ۔ یوں والد کی جانب سے آپ ”حسینی سَیِّد“ اوروالدہ کی جانب سے”صدیقی“ ہیں ۔ سچ گوئی کی وجہ سےآپ کو ”صادِق کے لقب سے جانا جاتا ہے ۔ (سیر اعلام النبلا جلد 6 صفحہ 438)
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا نام جعفر ، کنیت ابو عبد اللہ اور لقب صادق تھا ۔ آپ امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کے بیٹے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے پوتے اور شہید کربلا سید الشہداء حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے پڑپوتے تھے ۔
آپ کی والدہ ام فروہ محمد ابن ابو بکر کی پوتی تھیں جن کے والد قاسم ابن محمد مدینہ کے سات فقہاء میں سے تھے ۔ آپ خود فرمایا کرتے ولدنی ابوبکر مرتین یعنی میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے دو مرتبہ پیدا ہوا ۔
آپ نےمدینۂ مُنَوَّرہ کی مشکبار عِلمی فضا میں آنکھ کھولی اور اپنے والدِ گرامی حضرت سیّدنا امام ابوجعفر محمد باقِر ، حضرت سیّدنا عُبَيۡد الله بن ابی رافع ، نواسۂ صدیقِ اکبر حضرت سیّدنا عُروہ بن زُبَير ، حضرت سیّدنا عطاء اور حضرت سیّدنا نافع رضی اللہ عنہم کے چَشْمۂ عِلْم سے سیراب ہوئے ۔ (تذکرۃ الحفاظ جلد 1 صفحہ 126،چشتی)
دو جَلیلُ القدر صحابۂ کِرام حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک اور حضرت سیّدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہما کی زیارت سے مُشَرَّف ہونے کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ تابعی ہیں ۔ (سیر اعلام النبلا جلد 6 صفحہ 438)
کتاب کی تصنیف سے زیادہ مشکل افراد کی علمی ، اَخلاقی اور شخصی تعمیر ہے اور اُستاد کا اِس میں سب سے زیادہ بُنیادی کِردار ہوتا ہے ۔ حضرت سیّدنا امام جعفرصادِق رضی اللہ عنہ کی صحبت میں رَہ کرکئی تَلامِذہ (شاگرد) اُمّت کےلیے مَنارۂ نور بنے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے عِلمی فیضان سے فیض یاب ہونے والوں میں آپ کے فرزند امام موسیٰ کاظم ، امامِ اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک ، حضرت سفیان ثَوری ، حضرت سفیان بن عُیَیْنَہ رضی اللہ عنہم کے نام سرِفَہرِست ہیں ۔(تذکرۃ الحفاظ جلد 1 صفحہ 125،چشتی)(سیر اعلام النبلا جلد 6 صفحہ 439)
خوش اَخلاقی آپ رضی اللہ عنہ کی طبیعت کا حصہ تھی جس کی وجہ سے مبارک لبوں پر مسکراہٹ سجی رہتی مگر جب کبھی ذکرِ مصطفےٰ ہوتا تو نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہیبت و تعظیم کے سبب رنگ زَرد ہو جاتا ، کبھی بھی بے وضو حدیث بیان نہ فرماتے ، نماز اور تلاوت میں مشغول رہتے یا خاموش رہتے ، آپ کی گفتگو ”فضول گوئی“ سے پاک ہوتی ۔ (الشفا مع نسیم الریاض جلد 4 صفحہ 488)
آپ رضی اللہ عنہ کے معمولات ِزندگی سے آباء و اجداد کے اَوصاف جھلکتے تھے ، آپ کے رویّے میں نانا جان نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی معاف کر دینے والی کریمانہ شان دیکھنے میں آتی ، گُفتار سے صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی حق گوئی کا اظہار ہوتا اور کردار میں شجاعتِ حیدری نظر آتی ۔
ایک مرتبہ غلام نے ہاتھ دُھلوانے کےلیے پانی ڈالا مگر پانی ہاتھ پر گرنے کے بجائے کپڑوں پر گر گیا ، آپ رضی اللہ عنہ نے اسے نہ تو جھاڑا ، نہ ہی سزا دی بلکہ اسے معاف کیا اور شفقت فرماتے ہوئے اسے آزاد بھی کردیا ۔ (بحر الدموع صفحہ 202،چشتی)
حضر ت سیدنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ کا نسب صوری اور نسب معنوی صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس واسطے آپ نے فرمایا ہے کہ علم باطن میں آپ کا انتساب اپنے نانا قاسم بن محمد بن ابوبکر سے ہے ۔ (تذکرہ مشائخ نقشبندیہ)
امام علی زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے دادا ہیں ۔ نیز آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تبع تابعین میں سے ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔ اکابرین امت اما اعظم ابوحنیفہ ، امام مالک ، حضرت سفیان ثوری، سفیان بن عینیہ رحمہم اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے آپ سے احادیث روایت کی ہیں ۔
آپ کی والدہ محترمہ سیدہ ام فروہ خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی پڑپوتی بھی تھیں اور پڑنواسی بھی ۔ اس لیے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے ”ولدنی ابوبکر مرتین“ کہ مجھے ابوبکر سے دوہری ولادت ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ نیکی تین اوصاف کے بغیر کامل نہیں ہوسکتی :
(1) اپنی ہر نیکی کو معمولی سمجھے ۔ (2) اس کو چھپائے ۔ (3) اس میں جلدی کرے ۔
ولادت با سعادت
18 ربیع الاول 82 ہجری کو آپ کی ولادت مدینہ منورہ میں ہوئی اور وفات 15 رجب المرجب 149ہجری مدینہ منورہ میں ہوئی ۔ اس وقت آپ کے دادا امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی زندہ تھے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر اس وقت چھبیس برس تھی ۔
علامہ ابن خلکان کا کہنا ہے کہ صدق مقال کی وجہ سے آپ کے نام نامی کا جزو”صادق“ قرارپایا ہے ۔ (وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۱۰۵)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بڑے بیٹے حضرت عبدالرحمان بن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کی ایک بیٹی تھی جس کا نام اسماء بنت عبدالرحمٰن بن حضرت ابوبکر صدیق تھا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دوسرے بیٹے حضرت محمد بن ابوبکر صدیق تھے ان کا ایک بیٹا تھا قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق تھا ۔ ۔ ۔ یہ دونوں اسماء بنت عبدالرحمٰن اور قاسم بن محمد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے اور پوتی کہلائے ۔ پھر ان دونوں پوتی اسماء بنت عبدالرحمٰن اور پوتے قاسم بن محمد کا آپس میں نکاح ہوا پھر اسماء بنت عبدالرحمٰن کے بطن سے قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق کی ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام ام فروہ رضی اللہ عنہا ہے ۔ اس ام فروہ کا نکاح سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے سیدنا حضرت امام محمد باقر بن امام زین العابدین رضی اللہ عنہما سے ہوا ۔ پھر اسی ام فروہ کے بطن سے سیدنا امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام سیدنا حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ ہے ۔ یعنی سیدنا امام جعفر صادق کے نانا قاسم بن محمد بن ابوبکر اور نانی حضرت اسماء بنت عبدالرحمٰن دونوں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہم کے پوتے اور پوتی ہیں سیدنا امام جعفر صادق اسماء بنت عبدالحمٰن کی طرف سے حضرت ابوبکر صدیق کے پڑنواسے اور قاسم بن محمد بن ابوبکر کے طرف سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہم کے پڑپوتے کہلاتے ہیں ۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے نانا اور نانی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے اور پوتی ہیں ۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسبت دونوں کی طرف سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے ۔
یہی وجہ ہے جب کسی نے سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ سنا ہے کہ آپ سیدنا صدیق اکبر کو برا بھلا کہتے ہیں؟ آپ ارشاد فرمایا : ابوبکرن الصدیق جدی ھل یسب احد اباءہ ۔ (احقاق الحق جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 30)
ترجمہ : حضرت ابوبکر میرے نانا ہیں کیا کوئی اپنے آباواجداد کو گالی دینا پسند کرے گا۔اللہ مجھے کوئی مرتبہ اور عزت نہ بخشے اگر میں ابوبکر صدیق کو (عزت اور عظمت میں) مقدم نہ رکھوں ۔
قال ابو جعفر محمد الباقر لست بمنكر فضل ابي بكر ولست بمنكر فضل عمر ولكن ابابكر افضل من عمر ۔ (احتجاج طبرسي ص 204)
ترجمہ : امام ابو جعفر صادق محمد باقر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ"میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت کا منکر نہیں اور نہ ہی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت کا منکر ہوں ۔ ہاں لیکن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں ۔
سال رجل من المخالفين عن الامام الصادق عليه السلام وقال يا من رسول الله ما تقول في ابي بكر ومر فقال عليه السلام هما امامان عادلاان قاسطان كانا علي الحق وماتا عليه رحمهما الله يوم القيامة ) ۔ (احقاق الحق صفحہ 1 مطبوعه 1203،چشتی)
ترجمہ : مخالف گروہ کے ایک شخص نے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے خلافت صدیق وعمر رضی اللہ عنھما کے متعلق سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔"وہ دونوں امام عادل تھے،مصنف تھے،حق پر تھے اور حق پر انہوں نے وفات پائی ان دونوں پر قیامت تک اللہ کی رحمت نازل ہو۔(رضی اللہ عنہم اجمعین)
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ابوبكر ن الصديق جدي هل يسب احد اباه لاقد مني الله ان لا اقدمه ) (احقاق الحق ص ،7،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابو صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پڑ نانا ہیں ۔ کیا کوئی شخص اپنے آباؤ اجداد کو سب وشتم کرنا پسند کرتا ہے ؟ اگر میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں گستاخی کروں توخدا مجھے کوئی شان اور عزت نہ دے ۔ (احقاق الحق ص7)
اسی کتاب احقاق الحق میں ہے کہ : ولدني الصديق مرتين ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں دو طرح داخل ہوں ۔ (ص7)(مزید تفصیل کے لئے جلال العیون ص248،کشف الغمہ ص215،222،احتجاج طبرسی ص 205 دیکھیں) ۔ (کشف الغمہ جلد 2 صفحہ373 شیعہ عالم)
صافی شرح اصول کافی ص 214 پر امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا گیا ہےکہ : ومادرش ام فروہ اسماء دخت قاسم بن محمد بن ابی بکر بود ومادرام فروہ اسماء دختر عبدالرحمٰن بن ابی بکر بود ۔
ترجمہ : حضرت امام جعفر رضی اللہ عنہ کی والدہ ام فروہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پڑ پوتی (پوتے کی بیٹی) تھیں اور امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی نانی حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پوتی تھیں ۔
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : برئ اللہ ممن تبرأ من أبی بکر و عمر ۔
ترجمہ : اللہ اس شخص سے بَری ہے جو شخص ابو بکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) سے بَری ہے ۔ (فضائل صحابۃ امام احمد بن حنبل علیہ الرّحمہ ۱؍۱۶۰ ح ۱۴۳)
امام ابو جعفر محمد بن علی بن حسین باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے فرمایا : من جھل فضل أبی بکر و عمر رضی اللہ عنھما فقد جھل السنۃ ۔
ترجمہ : جس شخص کو ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل معلوم نہیں ہیں وہ شخص سنت سے جاہل ہے ۔ (کتاب الشریعۃ للآجری صفحہ نمبر ۸۵۱ حدیث نمبر ۸۰۳،چشتی)
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللھم إنی أحب أبا بکر و عمر و أتو لاھما ، اللھم إن کان لی خلاف ھذا فلا نالتنی شفاعۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یوم القیامۃ ۔
ترجمہ : اے اللہ میں ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت کرتا ہوں ، میں انہیں اپنا ولی مانتا ہوں ۔ اے اللہ ۱گر مجھ میں (یعنی میرے دل میں) اس کے خلاف کوئی بات ہو تٍو قیامت کے دن مجھے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شفاعت نصیب نہ ہو ۔ (السنۃ للالکائی حدیث نمبر ۲۴۶۶)
آپ رضی اللہ عنہ کا وصال 15 رَجَبُ الْمُرَجَّب 148 ہجری کو 68 سال کی عمر میں ہوا اور تدفین جَنَّتُ الْبَقِیْع آپ کے دادا امام زین العابدین اور والد امام محمد باقِر رضی اللہ عنہما کی قبورِ مبارَکہ کے پاس ہوئی ۔ (الثقات لابن حبان جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 251)(وفیات الاعیان جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 168) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment