حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اکابرین اسلام علیہم الرّحمہ کی نظر میں حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : حضرت پیر سید محمد مقصود علی شاہ بخاری رحمة الله علیہ متوفٰی ١٩٨٨ء کی سوانح حیات پر مشتمل کتاب " جمال مقصود " میں درج ہے کہ : ایک مرتبہ آپ رحمة الله علیہ کی مجلس عالیہ میں جنگ جمل کا تذکرہ ہوا آپ نے فرمایا : کہ میرا گزر اس میدان سے ہوا جہاں یہ جنگ لڑی گئی ۔ دوسرے لوگوں کی طرح میرے دل میں بھی خیال آیا کہ یہ جنگ کیوں اور کیسے لڑی گئی؟ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک بڑی گرج دار آواز مجھے سنائی دی کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے " خبر دار اس بارے میں دوبارہ نہ سوچنا ورنہ ایمان کی دولت سے محروم ہو جاؤ گے ۔ (جمال مقصود ، صاحںزادہ سید محمد عبد الرزاق شاہ بخاری ، باب چھارم ، تحت " جنگ جمل ، ص 237 ، مطبوعة دار الکتب مقصودیہ غوثیہ ، کوٹ گلہ شریف تلہ گنگ ضلع چکوال ، طبع اول ۱٤٣٧ه/٢٠١٦ء)
حضرت امام ابو اسحاق ابراھیم بن علی بن یوسف بن عبد الله فیروز آبادی الشیرازی رحمة الله علیہ متوفٰی٤٧٦ه ایک سوال کا جواب دیتے ہوۓ لکھتے ہیں : ⬇
سوال : اگر کہا جائے کہ حضرت علی المرتضی اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما کے درمیان جو اختلاف و نزاع ہوا اس میں حق ان کے ساتھ تھا جو ان دونوں سے تعلق رکھتے تھے ؟
جواب : ان کو جواب دیا جائے گا کہ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے ۔ پس کچھ کہتے ہیں کہ حق حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کے ساتھ تھا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : علی حق پر ہیں اور حق علی کے ساتھ جہاں پھریں ۔ کچھ علماء فرماتے ہیں : کہ ان دونوں میں سے ہر ایک مجتہد مصیب تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ہر مجتہد مصیب ہے ۔ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما کا اختلاف اصول میں نہ تھا ۔ بلکہ ان کا اختلاف فروع میں تھا ۔جیسے امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہما الله کا اختلاف تھا ۔ لوگ اس مسئلہ میں دو قول پر ہیں ۔ کچھ کہتے ہیں کہ حق ایک جہت میں تھا ۔ اور اس جہت میں مخالف مخطئ تھا جس کیلئے ایک اجر تھا مگر اس کی خطا اسے کفرو فسق تک نہ لے جانے والی تھی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص (کسی مسئلہ میں) اجتہاد کرے اور صحیح فیصلہ تک پہنچ جائے تو اس کیلئے دو اجر ہیں اور جو اجتہاد کرے اور صحیح فیصلے تک نہ پہنچے چوک جائے تو اس کیلئے ایک اجر ہے ان ائمہ میں سے بعض کہتے ہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک خیر پر ہونے کے باعث مصیب تھا انہوں نے حضرت علی المرتضی اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما کے معاملہ کو اس پر محمول کیا اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنہ خلیفہ تھے اور وہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے چچا زاد تھے ۔ انہیں ظلم سے قتل کیا گیا ان کے بعد خلافت کی زمام کار حضرت علی کرم الله وجہہ الکریم کے ہاتھ آئی پس حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ان کے پاس خون عثمان کا مطالبہ لے کر آئے ۔ تو حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ نے پوچھا کس نے عثمان کو قتل کیا ۔ تو پیچھے رہ جانے والے تمام لوگ اٹھ کھڑے ہوئے پس ان کا اجتہاد اس وقت قاتلین کو اس وقت ترک کرنے (یعنی کچھ نہ کہنے) کا ہوا کیونکہ ان سب سے لڑنا ممکن نہ تھا حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کو خدشہ ہوا کہ خود انہیں نہ قتل کر دیں ۔جیسے انہوں نے عثمان کو قتل کیا ۔ پس جب ان سے تعرض نہ کیا تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اور ان کے ساتھیوں نے گمان کیا کہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ اور ان کے ساتھیوں نے امامت کی شرطوں میں سے ایک شرط ترک کی ۔ کیونکہ امامت کی شرط اہل حق کیلے حقوق کا کامل حصول ہے ۔ پھر جب حقوق پورے نہ لئے تو شروط امامت میں سے ایک شرط ترک کر دی اور امامت باطل ہو گئی ۔ جب کہ فی الوقت امام و حاکم کا ہونا ضروری ہے پس اس اجتہاد سے انہوں نے معاویہ کو حاکم بنایا ۔ پس ان میں سے ہر ایک مجتہد اپنے اجتہاد میں مصیب تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کے درمیان ایسا معاملہ نہ ہوا جو کفر و فسق پر منتج ہو ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی الله عنہ جب کافروں سے قتال فرماتے تو خوشی مسرت کا اظہار فرماتے ۔ جب کہ معاویہ کے ساتھ پیکار میں دکھ اورغم کا ظہور ہوا یہاں تک کہ جاں بلب ہو گئے ۔ ابو الحسن علی المرتضی رضی الله عنہ فرماتے ہیں : یہ سب ہمارے درمیان ہوا میں اپنے دکھ اور پریشانی کا شکوہ بارگاہ خداوندی میں کرتا ہوں کاش میں بیس سال پہلے جام موت پی لیتا ۔ آپ اپنے ساتھیوں سے فرماتے : پیٹھ دینے والے کا تعاقب نہ کیا جائے زخمی کو قتل نہ کیا جائے ۔ اگر محاربین سے کوئی بات کفر و فسق تک پہنچانے والی بات پاتے تو اپنے ساتھیوں کو اس کا حکم نہ دیتے ۔ ہمارے اصحاب فرماتے ہیں : حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ مجتہد مصیب تھے ان کیلئے دو اجر ہیں جب کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ مجتہد مخطئ تھے ان کیلئے ایک اجر ہے ۔ اس مسئلہ میں واجب یہ ہے کہ ان کے درمیان وقوع پذیر اختلافات میں زبان روکی جائے اور ان کےمحاسن یعنی خوبیوں کا ذکر کیا جائے ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : عنقریب میرے اصحاب کے درمیان خرابی پیدا ہوگی ۔ جسے الله تعالی ان کی سابقہ نیکیوں کے سبب معاف فرما دے گا ۔ پس تم ان کے اختلافات میں نہ پڑو ۔ بخدا تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا راہ خدا میں خرچ کرے تو ان کے ایک یا نصف مد کے برابر بھی نہیں ہو سکتا ۔ (الإشارة الى مذهب اهل الحق لامام ابى اسحاق الشيرازى تحت " ترتیب الصحابة فی الفضل صفحہ 184 تا 188 ، مطبوعة المجلس الاعلى للشئون الاسلامية وزارة الاوقاف،چشتی)
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمة الله علیہ متوفی ۱۰۵۲ھ فرماتے ہیں : تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قطعی طور پر جنتی ہیں اس (یعنی ان کو جہنمی کہنے) سے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تنقیص شان لازم آتی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پوری انسانیت کی طرف مبعوث فرمایا گیا ان کی راہنمائی فرمانا اور انہیں کفر و ضلالت سے نکالنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہے ، اس سے یہ لازم آئے گا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام میں چھ یا سات کے علاوہ سب کے سب ہدایت نہ پا سکے اور نہ ان کا ایمان ہے خاتمہ ہوا ، ایسے کلمات ادا کرنے سے ہم الله تعالی کی پناہ مانگتے ہیں ۔ اس لیے اہل سنت و جماعت کا اجماع ہے کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ تمام صحابہ کرام کا تزکیہ کرے ان کو عادل قرار دے ، ان کو برا بھلا کہنے اور ان پر طعن کرنے سے باز رہے اور ان کی مدح و ستائش کرے ، کیونکہ الله تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو عادل قرار دیا ہے ان کا تزکیہ کیا اور ان کی تعریف بیان فرمائی ۔ اور اسی کی مثل حضرت شہاب الدین عمر سہروردی رحمة الله علیہ نے اپنی کتاب " اعلام الہدی " میں فرمایا : اے خواہش نفس اور تعصب سے پاک لوگو! یہ بات ذہن نشین رکھو کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم پاکیزہ نفسی اور صاف دلی کے باوجود انسان تھے ۔ ان کے بھی نفس تھے اور نفسوں کی کچھ صفات ایسی ہیں جو ظاہر ہوتی ہیں ۔ اس لیے اگر ان کے نفسوں سے کوئی ایسی بات ظاہر ہوتی جو دلوں کےلیے ناگوار ہوتی تو وہ دلوں کی طرف رجوع کر کے ان کا فیصلہ مانتے اور نفسانی خواہشات سے کنارہ کشی کرتے ۔ (لمعات التنقیح فى شرح مشكاة المصابيح ، العلامة المحدث عبد الحق الدهلوى ، کتاب المناقب ، تحت " باب مناقب الصحابة ، ، جلد 9 صفحہ 579 ، مطبوعة دار النوادر ، طبع اول ١٤٣۵ھ/۲٠١٤ء)
حضرت امام اكمل الدين محمد بن محمد البابرتى رحمة الله عليہ متوفٰی۷۸٦ھ فرماتے ہیں : ہم رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ سے محبت کرتے ہیں اور ان میں کسی ایک کی محبت میں افراط نہیں کرتے ، نہ ہی ان میں کسی سے بیزاری کرتے ہیں ۔ ہم ان سے بغض رکھتے ہیں جو ان سے بغض رکھے اور ان کے بارے میں برا ذکر کرے ۔ ہم ان کا ذکر صرف خیر کے ساتھ کرتے ہیں ۔ ان کی محبت دین ہے ، ایمان ہے اور احسان ہے اور ان کے ساتھ بغض کفر ہے نفاق ہے اور سرکشی ہے ۔ ہم ان سے محبت اس لیے کرتے ہیں کہ الله ان سے راضی وہ الله سے راضی ہیں ۔ اور ان کی شان تورات ، انجیل اور قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمائی : محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الله کے رسول ہیں ، جو ان کے اصحاب ہیں ، کفار پر بہت سخت ہیں ، آپس میں نرم دل ہیں (اے مخاطب) تو ان کو رکوع کرتے ہوئے ، سجدہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے ، وہ الله کا فضل اور اس کی رضا طلب کرتے ہیں ، سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر نشانی ہے ، ان کی یہ صفات تورات میں ہیں ۔ صحابہ کرام نے غلبہ دین اور اعلائے کلمة الله کےلیے پوری کوششیں کیں محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں وطن چھوڑے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ٹھکانہ دیا آپ کی نصرت و حمایت کی اور آپ کے سامنے جانبازی کی پس ان کی محبت واجب ہوئی ۔ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کے معاملہ میں الله سے ڈرو میرے بعد انہیں ہدف تنقید نہ بنانا ، جس نے ان سے محبت کی ، تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے ساتھ بعض کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان ایذاء پہنچائی ، اس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، جس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، گویا اس نے الله تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی اور جس نے الله تعالی کو ایذاء پہنچائی تو وہ دوزخ کا زیادہ حق دار ہے ۔ یہ کہ ہم اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے کسی کی محبت میں افراط و غلو نہیں کرتے ۔ کیونکہ کسی چیز میں افراط فساد اور دوسروں کیلئے بغض و عداوت کا موجب ہوتا ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ روافض نے سیدنا علی رضی الله عنہ کی محبت میں افراط و غلو کیا تو حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی الله عنہم کی تنقیص و عداوت میں پڑ گئے الله تعالی ہمیں اس سے پناہ عطا فرمائے ۔ ان روافض نے حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی شان میں الوہیت و نبوت کا دعویٰ کیا ۔ جیسا کہ غالی روافض کا عقیدہ ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ سے فرمایا : تیری وجہ سے دو جماعتیں ہلاک ہوں گی ایک وہ جو بغض میں افراط سے کام لے گی دوسری جو تیری محبت میں غلو کرے گی ۔ اور جیسا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بھی فرمان ہے بیشک خوارج آپ کے بغض میں افراط سے کام لے کر ہلاک ہوں گے جیسا کہ روافض آپ کی محبت میں غلو کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے ۔ جہاں تک ان سے برآت یعنی بیزاری کا تعلق ہے تو یہ کجروی اور گمراہی ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی الله عنہم منہج قویم اور دین مستقیم (پختہ اور سیدھے راستے اور دین) پر تھے ہدایت ان کی اقتداء سے وابستہ ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سلسلہ میں فرمایا : میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں جس کی اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے ۔ لہذا ان سے تبری اور بیزاری عدم اھتداء ہے اور یہی گمراہی ہے ہم ان بدبختوں سے عداوت رکھتے ہیں جو ان سے کینہ اور بغض رکھتے ہیں ۔ دراصل صحابہ کرام سے بغض ان کے دین کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو الله تعالی نے ان کیلئے پسند فرمایا اور منتخب کیا ہے ۔ الله تعالی نے فرمایا : اور میں نے اسلام بطور دین تمہارے لئے پسند فرمایا ۔ صحابہ کرام سے بغض ، خبث عقیدہ کی دلیل ہے اور نفاق و فساد کا نتیجہ ہے پس ان لوگوں سے عداوت رکھنا اور برائی سے ان کا ذکر کرنا واجب ہے جو صحابہ کرام سے عداوت رکھتے ہیں ۔ ہم صحابہ کرام رضی الله عنہم کے باہمی اختلافات و مشاجرات میں نہیں پڑتے ان اختلافات کو ہم اجتہاد ہر محمول کرتے ہیں اور ان کاذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں ۔ کیونکہ وہ دین کے اصول یعنی جڑیں ہیں ۔ پس ان میں طعن دراصل دین میں طعن ہے اور ان کی محبت دین ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض اور کینہ کفر نفاق اور طغیان ہے اور یہ سب ضروریات شرع سے ظاہر ہے ۔ (شرح عقيدة اهل السنة و الجماعة ، لامام اكمل الدين محمد بن محمد البابرتى ، تحت " القول في حب أصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، صفحہ نمبر 141 تا 142 ، مطبوعة وزارة الاوقاف والشئون الاسلامية سلسلة الرسائل التراثية ، طبع اول ١٤٠٩ه/١٩٨٩ء،چشتی)
حضرت امام شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی رحمة الله علیہ متوفی ۷٤٨ه فرماتے : صحیحین میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : الله تعالی فرماتا ہے : جو شخص میرے کسی دوست سے دشمنی کرتا ہے میں اسے لڑائی کا چیلنج کرتا ہوں ۔ اور رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالیاں نہ دو اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان میں سے ایک مد اور اس کے نصف کو نہیں پہنچ سکتا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں الله تعالی سے ڈرو میرے بعد ان کو نشانہ نہ بنانا پس جس نے ان سے محبت کی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ، اور جس نے ان کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی ، اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے الله تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی جس نے الله تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی عنقریب اس کی گرفت فرمائے گا ۔ اس حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث میں ان لوگوں کی حالت بیان کی گئی ہے جنہوں نے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد صحابہ کرام کو نشانہ بنایا ان کو گالیاں دی ان پر جھوٹ باندھا ، ان کو عیب لگایا ان کو خلافت قرار دیا اور ان پر جرأت کا مظاہرہ کیا ۔ کلمہ " الله الله " ڈرانے کے لیے جس طرح اس شخص کو ڈرایا جاتا ہے کہا جاتا ہے " السار " یعنی آگ سے بچو اور ڈرو ۔ لا تتخذوهم غرضاً بعدي " تک یہ عبارت صحابہ کرام کے فضائل مناقب پر دلالت کرتی ہے کیونکہ صحابہ کرام سے محبت کی بنیاد یہ ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ ہیں ۔ انہوں نے آپ کی مدد کی ، آپ پر ایمان لائے ، آپ کی تعظیم کی اور جان و مال کے ذریعے آپ کی غمخواری کی ۔ پس جس نے ان سے محبت کی اس نے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت کی تو صحابہ کرام کی محبت ، رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کا عنوان ہے اور ان سے بغض رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بغض کا عنوان ہے صحیح حدیث میں ہے : انصار سے محبت ایمان ہے اور ان سے بغض منافقت سے ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے ایمان میں سبقت کی اور رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے الله تعالی کے دشمنوں سے جہاد کیا ۔ اسی طرح حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی محبت ایمان اور ان سے بغض منافقت کی علامت ہے ۔ صحابہ کرام کے فضائل کا علم اس طرح حاصل ہوگا کہ ان کے احول ، سیرتوں اور آثار کا مطالعہ کیا جائے ان میں غور و فکر کیا جائے وہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہوں یا آپ کے بعد ۔ ان لوگوں نے ایمان میں سبقت کی اسی طرح کفار سے جہاد کیا ، اشاعت اسلام ، شعائر اسلام کے اظہار ، الله تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلمہ کو بلند کرنے ، آپ کے بتائے ہوئے فرائض و سنن کی تعلیم میں سبقت کی ۔ اگر یہ نفوس قدسیہ نہ ہوتے تو ہمارے پاس دین کی اصل اور فرع کچھ بھی نہ پہنچتا ، اور ہمیں فرائض و سنن میں سے کسی فرض اور سنت کا علم نہ ہوتا اور نہ ہی ہم احادیث و اخبار علم حاصل کر سکتے ۔ پس جو شخص ان پاکیزہ ذاتوں پر طعن کرے یا ان کو گالی گلوچ کرے تو وہ دین سے نکل گیا اور مسلمانوں کی ملت سے بھی خارج ہوگیا ۔ کیونکہ طعن کی وجہ سے ان کے بارے میں بر عقیدہ رکھنا اور دل میں کینہ رکھنا ہے نیز الله تعالی نے اپنی کتب میں ان کی تعریف میں جو کچھ فرمایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے فضائل و مناقب اور ن سے محبت کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا اس کا انکار کرنا ہے ۔ علاوہ ازیں جو کچھ ہم تک منتقل ہوا ، اس کا سب سے عمدہ وسیلہ صحابہ کرام رضی الله عنہم ہیں اور وسائل میں طعن ، اصل میں طعن ہوتا ہے اور نقل کرنے والے کو حقیر جاننا منقول کو معمولی سمجھنا ہے ۔ یہ بات غور و فکر کرنے والوں کے لیے ظاہر ہے اور اس طرح منافقت اور بے دینی سے بچ سکتا ہے اور تمہارے لیے وہی بات کافی ہے جو احادیث میں آتی ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : الله تعالی نے مجھے پسند فرمایا اور میرے لیے صحابہ کرام کو پسند فرمایا پس میرے لیے ان کو وزیر ، مددگار اور سسرالی بنائے ، پس جو ان کو گالی دے اس پر الله تعالی ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ قیامت کے دن الله تعالی اس کے کسی فرض اور نفل کو قبول نہیں فرمائے گا ۔ حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام میں سے بعض نے کہا کہ ہمیں گالی دی جاتی ہے تو رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس پر الله تعالی ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ اور انہی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : بے شک الله تعالی نے مجھے پسند فرمایا اور میرے لیے میرے صحابہ کو پسند فرمایا اور میرے صحابہ ، بھائی اور سسرال والے بنائے اور عنقریب ان کے بعد کچھ لوگ آئیں گے جو ان میں عیب نکالیں گے اور ان کی توہین کریں گے ۔ نہ ان کے ساتھ کھانا اور نہ پینا اور نہ ہی ان کے ساتھ نکاح کرنا ، ان کی نماز جنازہ نہ پڑھنا اور ان کے ساتھ مل کر نماز بھی نہ پڑھنا ۔ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جب میرے صحابہ کا ذکر ہو تو خاموش رہو جب ستاروں کا ذکر ہو تو خاموش رہو اور جب تقدیر کا ذکر ہو تو خاموش رہو ۔ علماء کرام فرماتے ہیں : اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مخلوق کے بارے میں تقدیر کے راز پر بحث کو تو خاموش رہو کیونکہ یہ خاموشی ایمان کی علامت ہے اور الله تعالی کے حکم کو تسلیم کرنا ہے ۔ یہی حال ستاروں کا ہے جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ وہ خود عمل کرنے والے ہیں یا ان ستاروں میں ارادۂ خداوندی کے بغیر تاثیر ہے تو وہ مشرک ہے ۔ اسی طرح جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام کی کسی طرح برائی بیان کرے ، ان کی خامیاں تلاش کرے اور عیب بیان کرے اور ان عیبوں کو ان کی ذواتِ قدسیہ کی طرف منسوب کرے وہ منافق ہے ۔ بلکہ مسلمانوں پر الله تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت واجب ہے ۔ وہ جو کچھ لائے ہیں اور جس حکم کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے ، اس سے محبت کرنا نیز آپ کی سیرت و سنت پر عمل کرنے والے ، آپ کی آل ، صحابہ کرام ، آپ کی ازواج مطہرات ، اولاد ، غلاموں اور خادموں سے محبت کرنا بھی ضروری ہے ۔ جو لوگ ان شخصیات سے محبت کرتے ہیں ، ان سے محبت کرنا اور جو ان سے بغض رکھتے ہیں ، ان سے بغض رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ ایمان کی مضبوط رسی الله تعالی کے لیے محبت اور الله تعالی کے لیے بغض ہے ۔ حضرت ابو ایوب سختیانی رضی الله عنہ فرماتے ہیں : جس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ سے محبت کی اس نے دین کا مینار کھڑا کیا ، جس نے حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ سے محبت کی اس نے راستہ واضح کیا ، جس نے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ سے محبت کی وہ الله تعالی کے نور سے روشن ہوا اور کس نے حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ سے محبت کی اس نے مضبوط رسی کو تھاما اور جا نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کے بارے میں اچھی بات کہی ، وہ منافقت سے بری ہوگیا ۔ (الکبائر ، لامام شمس الدين محمد بن احمد بن عثمان الذهبي ، تحت " الکبیرة السبعون : سب أحد من الصحابة رضوان الله عليهم ، ص 236 تا 239 ، مطبوعة دار الندوة الجديدة،چشتی)(الکبائر ، لامام شمس الدين محمد بن احمد بن عثمان الذهبي ، تحت " الکبیرة السبعون : سب أحد من الصحابة رضوان الله عليهم ، ص 236 تا 239 ، مطبوعة دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع بيروت)
حضرت شیخ اکبر امام ابو بکر محی الدین محمد بن علی المعروف ابن عربی رحمة الله علیہ متوفٰی٦٣٨ه فرماتے ہیں : کاتبین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے (وحی و دیگر امور کی) کتابت کرنے والے اصحاب رضی الله عنہم حسب ذیل ہیں : 1 ۔ حضرت عثمان 2 ۔ حضرت علی 3 ۔ حضرت ابی بن کعب 4 ۔ حضرت زید بن ثابت 5 ۔حضرت معاویہ 6 ۔ حضرت خالد ابن سعید بن العاص 7 ۔ حضرت ابان بن سعید 8 ۔ حضرت علاء بن الحضرمی 9 ۔ حضرت حنظلہ بن الربیع 10 ۔ حضرت عبد الله بن سعید بن ابی سرح ، حضرت عثمان کے رضاعی بھائی یہ سب اصحاب رضی الله عنہم وحی کے کاتبین تھے ۔ (دیگر امور کے کاتبین کی تفصیل اس طرح ہے) حضرت زبیر بن عوام اور حضرت جہم بن صلت رضی الله عنہما صدقات کے اموال (کا ریکارڈ) تحریر فرماتے تھے ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کھجوروں کے حوض لکھ کر شمار فرماتے تھے ، حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت حصین بن نمیر رضی الله عنہما مداینات و معاملات تحریر میں لاتے تھے ۔ حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی الله عنہ بادشاہوں کے نام خطوط لکھتے تھے حضرت ابو بکر رضی الله عنہ نے سفر ہجرت میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے تحریر کی ۔ (تحت كتابه صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صفحہ 47 تا 48،چشتی)
خلافت حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما : معاویہ بن سفیان ابن صخر ابن امیہ بن عبد الشمس ابن عبد مناف یہاں رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ان کی والدہ ھند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد الشمس ابن عبد مناف سے شجرہ مل جاتا ہے ۔ صلح امام حسن رضی الله عنہ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کیلئے بیعت ٢۵ ربیع الاول سنہ اکتالیس ھجری کو ہوئی ۔ ان کی مہر و انگوٹھی کا نقش تھا " رب اغفرلی " ان کا کاتب (منشی) عبد الله بن اوس الغسانی تھا ۔ جب کہ حاجب ان کا مولی زیاد بن نوف اور قاضی فضالہ بن عبد الله الانصاری تھا ۔ رجب سنہ ساٹھ ہجری میں وفات پائی ، نماز جنازہ ان کے بیٹے یزید نے پڑھائی ۔ ایک اور قول ہے کہ ضحاک بن قیس نے پڑھائی ۔ دمشق شہر میں باب الجابیہ اور باب الصغیر کے درمیان دفن ہوئے ، بوقت وصال ان کی عمر اٹھتر سال ایک دن کم نو مہینے تھی ۔ بیعت خلافت سے پہلے بیس سال سے زائد شام کے گورنر رہے ۔ (محاضرة الابرار و مسامرة الاخيار الشيخ الاكبر محى الدين ابن عربي ذكر الخلفاء و تاريخ مدتهم خاصة تحت خلافة معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنه ، جلد 1 صفحہ 66 مطبوعة دار اليقظة العربيعة طبع عام ١٣٢٤ه،چشتی)
حضرت امام شهاب الدين احمد بن محمد بن على بن حجر الهيتمى الشافعى رحمة الله علیہ متوفی۹۷٤ھ فرماتے ہیں : حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ سے حضرت علی المرتضی و حضرت امیر معاويہ اور مقتولین صفین رضی الله عنہم کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : مجھے خوف معلوم ہوتا ہے کہ الله تعالی کے پاس ایسا جواب لے کر جاؤں جس کے بارے میں مجھ سے سوال ہو اور اگر خاموش رہتا ہوں تو اس سے سوال نہ ہوگا تو جس کیساتھ میں مکلف ہوں اس میں مشغول ہونا زیادہ بہتر ہے ۔ (الخيرات الحسان فى مناقب الامام الاعظم ابى حنيفة النعمان ، لامام شهاب الدين احمد بن محمد بن على بن حجر الهيتمى الشافعى الفصل السادس و العشرون و السابع و العشرون فى شيء من حكمه و آدابه صفحہ 140 مطبوعة دار الهدى و الرشاد طبع اول ١٤٢٨ه/٢٠٠٧ء،چشتی)
حضرت امام بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد العینی رحمة الله علیہ متوفٰی۸۵۵ھ فرماتے ہیں :
اہل سنت کا برحق موقف یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کے اختلافات سے کنارہ کشی اختیار کی جائے ، ان سے حسن ظن رکھا جائے اور ان کے لیے عذر تلاش کیا جائے ، اور یہ کہ وہ لوگ مجتہد اور تاويل کرنے والے تھے ، انہوں نے نہ ہی کسی معصیت کا قصد کیا اور نہ ہی دنیا داری کا ۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ، لامام بدر الدين ابى محمد محمود بن احمد العينى ، كتاب الإيمان ، تحت " باب " وَاِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَاۚ ، جلد 1 ، ص 335 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢١ه/٢٠٠١ء،چشتی)
درست جواب یہ ہے کہ وہ سب صحابہ مجتھد تھے اور یہ گمان کرتے تھے کہ وہ سب جنت کی طرف بلانے والے ہیں اگرچہ نفس الامر میں اس سے خلاف ہو ۔ ان کے اپنے گمان پر فیصلے میں ان پر کوئی ملامت نہیں ہے اگر توں یہ اعتراض کرے کہ مجتھد جب درست فتوی دے تو دو ثواب جب غلطی کرے تو ایک یہاں کیسے یہ ہو سکتا ہے؟ میں کہتا ہوں : یہ جواب کافی ہے اس پر گزارا کروں کہ صحابہ کے حق میں اس کے خلاف بات ذکر کرنا اچھی بات نہیں کیونکہ ان کی تعریفیں تو رب تعالیٰ نے کی ہیں اور ان کی فضیلتوں کی گواہی دی ہے ۔ فرمایا : تم لوگوں میں نکلنے والی بہترین امت ہو ۔ مفسرین کرام فرماتے : اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی الله عنہم ہیں ۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ، لامام بدر الدين ابى محمد محمود بن احمد العينى ، كتاب الصلوة ، تحت " باب التعاون فى بناء المسجد ، جلد 4 ، ص 308 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢١ه/٢٠٠١ء)
حضرت امام شمس الدین ابو عبد الله محمد بن احمد بن عثمان الشافعی رحمة الله علیہ متوفی٧٤٨ھ فرماتے ہیں : حضرت قتادہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں : اگر تم حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ جیسے کام کرنے لگو تو لوگ پکار اٹھیں گے یہ مہدی ہے ۔ احمد بن حواس کہتے ہیں ۔ مجھے ابو ہریرہ المکتب نے بتایا کہ اعمش کے ہاں حضرت عمر بن عبد العزیز رضی الله عنہ اور ان کے عدل و انصاف کا ذکر چل پڑا تو اعمش نے کہا : اگر تم حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کا عہد خلافت دیکھ لیتے تو پھر کیا ہوتا ؟ لوگوں نے عرض کیا : کیا آپ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کی بردباری کے بارے میں فرما رہے ہیں ؟ اعمش نے فرمایا : نہیں الله کی قسم! میں حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے عدل کی بات کر رہا ہوں ۔ ابو اسحاق سبعیی حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کی شان میں فرماتے ہیں ۔ اگر تم حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کو دیکھ لیتے تو کہہ اٹھتے کہ یہی امام مہدی ہیں ۔ ابو بکر بن عیاش ، ابو اسحاق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ۔ میں نے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے بعد ان کا ثانی نہیں دیکھا ۔ امام بغوی رحمة الله علیہ ، ابو قیس سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ نے ہر قبیلہ میں ایک آدمی مقرر فرما رکھا تھا جو اس کے حالات سے ان کو باخبر رکھتا تھا ، ایک شخص جس کی کنیت ابو یحیی تھی ہر صبح ہر مجلس میں جا کر پوچھتا کیا تمہارے ہاں شبِ گزشتہ کوئی بچہ پیدا ہوا یا کوئی نیا واقعہ پیش آیا ہے یا کوئی مہمان باہر سے آیا ہے ؟ لوگ بتایا کرتے کہ ہاں اہل یمن میں سے فلاں آدمی اپنے کنبہ میں آیا ہے ، وہ اس شخص اور اس کے قبیلہ کا نام ذکر کر دیا کرتے تھے ۔ قبائل سے فارغ ہو کر وہ دفتر میں آتا اور وہاں ان کے نام تحریر کیا کرتا تھا ۔ عطیہ بں قیس کہتے ہیں کہ ميں نے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : تنخواہ تقسیم کرنے کے بعد بیت المال میں کچھ مال بچ گیا ہے اب وہ تقسیم کرنا چاہتا ہوں ۔ اگر آئندہ سال بھی حسب دستور کچھ مال بچ گیا تو تمہارے درمیان تقسیم کر دوں گا ورنہ مجھے معتوب نہ کریں ۔ اس لیے کہ یہ میرا نہیں ، بلکہ یہ الله تعالی کا مال ہے جس نے تمہیں یہ عطا فرمایا ۔ سیرت و کردار اور عدل و احسان کے اعتبار سے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کا دامن ایسے فضائل و مناقب سے پر ہے ۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے عرض کیا ۔ امیر المؤمنین حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے ہیں ۔ اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ حضرت ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا : حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ نے ٹھیک کیا وہ فقیہ ہیں ۔ حضرت ابو درداء رضی الله عنہ کا فرمان ہے کہ میں نے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ سے بڑھ کر کسی شخص کو نہیں دیکھا جس کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہو ۔ یہ ہے حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کی شہادت حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے تدوین و تفقہ کے بارے میں فقاہت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے گواہ حضرت ابن عباس رضی الله عنہ ہیں ، اور حسن صلوة کی گواہی دینے والے حضرت ابو درداء رضی الله عنہ دونوں جس پایہ کے صحابی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ، اس کے مؤید آثار اور بھی بہت ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ سابقین اولین صحابہ میں شمار نہیں ہوتے ۔ بخلاف ازیں کہا گیا ہے آپ فتح مکہ کے موقع پر مشرف باسلام ہوئے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے ۔ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ خود اس بات کے معترف تھے کہ وہ فضلاء صحابہ میں شامل نہیں ہیں ، اس کے باوجود آپ کثیر اوصاف کے حامل تھے ۔ آپ کی سلطنت حدود خراسان سے لے کر مغرب میں بلاد افریقہ اور قبرص سے لیکر یمن تک پھیلی ہوئی تھی ، اس بات پر سب مسلمانوں کا اجماع ہے کہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ حضرت ابو بکر و حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما تو درکنار عظمت و فضیلت میں حضرت عثمان غنی و حضرت علی المرتضی رضی الله عنہما کے قریب بھی نہ تھے ۔ پھر کسی اور بادشاہ کو ان کے مشابہ کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے ؟ نیز مسلم سلاطین میں سے کوئی مسلم سلطان سیرت و کردار کے اعتبار سے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کا حریف کیسے ہو سکتا ہے ؟ ۔ (المنتقى من منهاج الاعتدال ، لامام ابى عبد الله محمد بن عثمان الذهبى ، تحت " ثناء الأئمة الاعلام على معاوية و حكمه و سيرته و انه خير ولاة المسلمين بعد الراشدين ، ص 402 تا 403 ، مطبوعة الرئاسة العامة لإدارة البحوث العلمية والإفتاء والدعوة والإرشاد السعودية ، طبع ثالث ١٤١٣ه،چشتی)
حضرت امام ابو اسحاق جمال الدين محمد بن ابراهيم بن يحيى الكتبى المعروف بالوطواط رحمة الله علیہ متوفٰی ۷۱۸ھ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما بہت زیادہ سخی اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے تھے حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ سے زیادہ سخی نہیں دیکھا ۔ آپ رضی الله عنہ پہلے شخص ہیں جس نے صلہ (انعام) میں لاکھوں دیے ، آپ رضی الله عنہ امام حسن مجتبی ، امام حسین اور حضرت عبد الله بن جعفر رضی الله تعالی عنہم کو عطا کرتے تھے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی اس عطا (داد و دہش) کی چمکتی حکایت ہے کہ آپ رضی الله عنہ نے حج کیا پھر جب مدینہ منورہ سے لوٹے تو حضرت امام حسین بن علی رضی الله نے اپنے بھائی حضرت امام حسن مجتبی رضی الله عنہ سے فرمایا : معاویہ (رضی الله عنہ) سے جا کر نہ ملیں اور نہ سلام پیش کریں ۔ فرمایا : میں زیر بارِ قرض ہوں ان کے پاس جانا ضروری ہے پس سوار ہو کر حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے پیچھے چلے یہاں تک ان سے جا ملے ٬ سلام کیا اور اپنے قرض سے آگاہ کیا ۔ جب دونوں باہم گفتگو میں مشغول تھے کہ ایک بختی اونٹ گزرا جو بوجھ کی گرانی سے درماندہ تھا لوگ اسے گھسیٹ کر لے جا رہے تھے تاکہ اسے باربردار اونٹوں سے ملا دیں ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے پوچھا : اس اونٹ کا کیا معاملہ ہے؟ تو حاضرین نے بتایا کہ لدے ہوئے مال کے بوجھ سے درماندہ ہے ۔ فرمایا : اس پر کتنا بوجھ ہے؟ حاضرین نے بتایا کہ (80) اسی ہزار دینار ہیں ۔ فرمایا : اسے پھیر کر ابو محمد ( امام حسن بن علی رضی الله عنہما ) کو دے دو ۔ (غرر الخصائص الواضحة و عرر النقائص الفاضحة ، لامام ابى اسحاق جمال الدين محمد بن ابراهيم بن يحيى الكتبى المعروف بالوطواط ، الباب التاسع في السخاه ، ص 313 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢٩ه/٢٠٠٨ء،چشتی)
حضرت امام محمد بن احمد بن سالم بن سليمان السفارينى الحنبلى رحمة الله عليہ متوفٰی ۱۱۸۸ھ فرماتے ہیں : ناظم رضی الله عنہ فرماتے ہیں : و خالنا معاویہ ، ہمارے ماموں حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما : حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو خال المؤمنین کے نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المومنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کے بھائی ہیں اس لیے آپ پر خال المومنین کا اطلاق کیا کیونکہ ماں کا بھائی اس کے بیٹے کےلیے ماموں ہوتا ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ حضرت ام حبیبہ رضی الله عنہا کا نام رملہ تھا ایک قول یہ ہے کہ ان کا نام ہند تھا ۔ مگر زیادہ صحیح یہی ہے کہ ان کا نام رملہ بنت ابی سفیان خواہر معاویہ تھا ابو سفیان کا نام صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف القرشی الاموی ان کا نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ عبد مناف میں مل جاتا ہے امیر المومنین حضرت امیر معاویہ اور ان کے والد ابو سفیان رضی الله عنہما فتح مکہ کے مسلمانوں میں سے تھے ۔ اور مؤلفة القلوب میں سے تھے پھر اسلام میں حسن و کمال پیدا ہو گیا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی ماں کا نام ھند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف تھا وہ بھی فتح مکہ کے بعد اپنے شوہر کے اسلام لانے کے بعد مشرف باسلام ہوئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان دونوں کو سابقہ نکاح پر باقی رکھا ۔ وہ فصاحت عقل اور رزانت وقار و سنجیدگی کی مالک تھیں ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ابو عبد الرحمن کنیت کرتے تھے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتب تھے ایک قول یہ ہے کہ صرف مکاتیب کی کتابت کرتے تھے وحی نہیں لکھتے تھے ۔ ترمذی میں بحکم تحسین مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےحضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کیلئے دعا فرمائی : اے الله معاویہ کو ہادی مہدی بنا ۔ مسند امام احمد میں حضرت عرباض رضی الله عنہ کی حدیث میں ہے وہ فرماتے ہیں میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا آپ نے دعا فرمائی : اے الله معاویہ کو حساب و کتاب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا ۔ طبرانی معجم کبیر میں عبد المک بن عمیر سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ نے فرمایا : میں نے جب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان اقدس سے سنا کہ آپ نے فرمایا : معاویہ! جب تو مالک حکومت بنو تو لطف و احسان سے کام لینا تو خلافت کا خیال دل میں رہا ۔ (لوائح الأنوار السنية ولواقع الأفكار السنية ، لامام محمد بن احمد بن سالم بن سلیمان السفارینی الحنبلی ، تحت " ترجمة معاوية رضي الله عنه ، جلد 2 ص 74 تا 75 ، مطبوعة مكتبة الرشد الرياض ، طبع اول ١٤١۵ھ/۱۹۹٤ء،چشتی)
حضرت امام جمال الدين ابو زكريا يحيى بن يوسف بن یحیی بن منصور الانصاری الصرصری الحنبلی رحمة الله علیہ متوفٰی ٦۵٦ھ فرماتے ہیں : یہ بھی فضیلت کی دلیل ہے ، کہ میرے عقیدہ کے مطابق ، حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا ردیفِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہونا بھی باعثِ فضیلت ہے اس کی فضیلت ضائع نہ جائے گی ۔ وہ کاتبِ وحی تھے صاحبِ حلم تھے اور ان کی بہن مصطفےٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ جاوداں جنت میں ثمرات جنت سے لطف ہو رہی ہیں ۔ ہر صحابی کےلیے فضیلت ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دیدار کیا اور اس کی یہ فضیلت دوسروں پر کامیابی و نعمت کے لحاظ سے ایسی ہے کہ اس کی طمع نہیں کی جاسکتی ۔ اور اصحابِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان ہونے والے اختلافات و مشاجرات کی تفتیش کا خواہش مند وہی ہوگا جو نامراد گمراہ اور طعنہ باز ہے ۔ (منظومة فى مدح النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و بيان عقيدة أهل السنة و الجماعة ، لامام ابى زكريا يحيى بن يوسف الأنصاري الصرصري ، ص 61 تا 62 ، نثر : 211 تا 214 ، مطبوعة بيت الأفكار الدولة ، طبع اول ١٤٢٧ه/٢٠٠٦ء)
حضرت امام ابو القاسم محمد بن احمد بن جُزَیّ الكلبى الغرناطی المالکی رحمة الله علیہ متوفٰی ۷٤١ھ فرماتے ہیں : جہاں تک حضرت علی المرتضی و حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما اور دونوں میں سے ہر ایک کا ساتھ دینے والے اصحاب رضی الله عنہم کے درمیان مشاجرت و اختلاف کا تعلق ہے تو زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس نزاع کے ذکر سے زبان کو روکا جائے اور ان صحابہ کرام رضی الله عنہم کا ذکر کلمات خیر سے کیا جائے اور ان کیلئے عمدہ تاویل تلاش کی جائے کیونکہ یہ معاملہ اجتہادی تھا اس میں حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ اور ان کے ساتھی حق پر تھے کیونکہ انہوں نے اجتہاد کیا اور صحیح فیصلے پر پہنچے اور ماجور ہوئے ۔ جہاں تک حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اور ان کے ساتھیوں کا تعلق ہے انہوں نے اجتہاد کیا اور اجتہاد میں خطا کی پس وہ اس میں معذور ٹھہرے ۔ ان کی عزت و توقیر ضروری ہے نیز دیگر تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم کی بھی توقیر و محبت لازم ہے کیونکہ قرآن حکیم میں ان کی مدح و ثناء آئی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہم نشینی اور صحبت کی وجہ سے بھی ان کی تعظیم و توقیر واجب ہے ۔ پس تحقیق رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کے معاملہ میں الله سے ڈرو میرے بعد انہیں ہدف تنقید نہ بنانا ، جس نے ان سے محبت کی ، تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے ساتھ بعض کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو ایذاء پہنچائی ، اس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، جس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، تحقیق اس نے الله تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی ۔ (القوانين الفقهية ، لامام محمد بن احمد بن جُزَيّ الغرناطى المالكى ، تحت " الباب الثامن في الإمامة ، ص 39 تا 40 ، مطبوعة دار ابن حزم ، طبع اول ١٤٣٤ه/٢٠١٣ء)
اس میں روافض کا رد ہے وہ اپنی بدگمانی و بد اعتقادی کے سبب اہل سنت کے بارے میں یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ اہل بیت سے بغض رکھتے ہیں ۔ یہ اُن کی بد گمانی ہے اہل حق (یعنی اہل سنت و جماعت) تمام صحابہ اور تمام اہل بیت رضی اللہ عنہم کی عزت و ناموس کی حفاظت کرتے ہیں ۔ خوارج کی طرح نہیں ہیں جو اہل بیتِ نبوت کے دشمن ہیں اور روافض کی طرح بھی نہیں جو جمہور صحابہ کرام اور اکابر امت سے عداوت رکھتے ہیں ۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، لامام ابى الحسن على بن سلطان محمد القاري الحنفي ، كتاب المناقب ، تحت " باب مناقب القريش و ذكر القبائل ، جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 135 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢٢ه/٢٠٠١ء،چشتی)
حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ عادل ، فاضل اور بہترین صحابہ میں سے تھے وہ جنگیں جو ان کے درمیان ہوئیں ان میں سے ہر ایک گروہ شبہہ پر تھا جس کے سبب وہ اپنے آپ کو صواب پر ہونے کا اعتقاد رکھتا تھا ۔ اور یہ تمام اپنی جنگوں میں تاویل کرنے والے تھے اس سبب ان میں سے کوئی عدالت سے خارج نہیں ہوا اس لیے کہ یہ تمام مجتہد تھے ۔ اور انہوں نے مسائل میں اختلاف کیا جیسا کہ ان کے بعد آنے والے مجتہدین نے مسائل میں اختلاف کیا ۔ اور ان میں سے کسی کے حق میں بھی اس سبب سے تنقیص کرنا لازم نہیں آتا ۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، لامام ابى الحسن على بن سلطان محمد القاري الحنفي ، كتاب المناقب ، تحت " باب مناقب الصحابة رضي الله عنهم جلد 11 صفحہ 151 مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢٢ه/٢٠٠١ء)
بہر حال صحابہ کرام رضی الله عنہم کی ایک جماعت کا حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی مدد نہ کرنا آپ کے ساتھ جنگ پر نکلنے سے رکنا اور ان میں سے ایک گروہ کا آپ رضی الله عنہ کے ساتھ جنگ کرنے کا جو واقعہ پیش آیا ۔ جیسا کہ جنگ جمل و صفین تو یہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی خلافت کی عدم صحت پر دلالت نہیں کرتا اور نہ ہی آپ کی حکومت میں آپ سے مخالفت کرنے والوں کی گمراہی پر دلالت کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ نزاع حقیقتاً حکومت کے لیے نہیں تھا بلکہ ان کے اجتہاد کی وجہ سے تھا جیسا کہ انہوں نے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کے قاتلوں سے قصاص نہ لینے پر حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ پر انکار کیا ۔ بلکہ ان میں سے بعض نے تو یہ گمان کیا کہ آپ رضی الله عنہ قتلِ عثمان کی طرف مائل تھے ۔ اور معتمد قول کے مطابق اجتہاد میں خطا کرنے والے کی نہ تضلیل کی جاتی ہے نہ تسفیق کی جاتی ہے ۔ (منح الروض الازھر فى شرح فقه الاكبر ، للملا علی بن سلطان محمد القاری ، أفضل الناس بعده عليه الصلاة السلام الخلفاء الأربعة على ترتيب خلافتهم صفحہ 191 تا 192 ، مطبوعة دار البشائر الاسلامية ، طبع اول ١٤١٩ه/١٩٩٨ء،چشتی)
ہم رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہر ایک صحابی کا ذکر خیر کیساتھ ہی کرتے ہیں ۔ یعنی اگرچہ ان میں سے بعض سے بعض سے وہ کام صادر ہوئے جو صورتا شر ہیں ، کیونکہ یہ امور ان سے اجتہاد کی بنیاد پر صادر ہوئے نہ کہ اصرار و عناد کے سبب فساد کی وجہ سے ۔ ان سے حسن ظن کی بنیاد پر ان تمام کا مقصود بہترین انجام کی طرف تھا ۔ (منح الروض الازھر فى شرح فقه الاكبر ، للملا علی بن سلطان محمد القاری ، أفضل الناس بعده عليه الصلاة السلام الخلفاء الأربعة على ترتيب خلافتهم ، ص 209 ، مطبوعة دار البشائر الاسلامية ، طبع اول ١٤١٩ه/١٩٩٨ء،چشتی)
جو صحابہ کرام رضی الله عنہم میں کسی کو بھی برا کہتے وہ بلاجماع فاسق ، بدعتی ہے جب کہ اس کا اعتقاد یہ ہو کہ برا کہنا مباح ہے ۔ (شم العوارض فى ذم الروافض ، للملا على بن سلطان بن القارى ، تحت " مسألة من اعتقد ان سب الصحابة مباح فهو كافر ، ص 28 ، مطبوعة مركز الفرقان ، طبع اول ١٤٢۵ھ/٢٠٠٤ء)
وہ احادیث بھی جن میں حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ ، حضرت عمرو بن عاص رضی الله عنہ اور بنی امیہ کی مزمت اور منصور و سفاح کی تعریف پائی جاتی ہے اور اسی طرح یزید ، ولید اور مروان بن حکم کی مزمت پائی جاتی ہے وہ بھی موضوعات میں سے ہیں ۔ (الاسرار المرفوعة و اخبار الموضوعة ، للملا على بن سلطان بن القارى ، فصول في الأدلة على وضع الحديث ، تحت " أحاديث الفضائل و المثالب صفحہ 455 ، مطبوعة المكتب الاسلامي ، طبع ثانى ١٤٠٦ه/١٩٨٦ء)
حضرت امام ابو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور اللالكائی الطبری الشافعى رحمة الله علیہ متوفٰی ٤١٨ه فرماتے ہیں : انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ام حرام بنت ملحان رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے یہاں آئے اور سو گئے پھر ہنستے ہوئے اٹھے ۔ میں نے کہا : یا رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، کس چیز نے آپ کو ہنسایا ؟ آپ نے فرمایا : میں نے اپنی امت میں سے ایک جماعت دیکھی جو اس سمندری (جہاز) پر سوار تھے ، ایسے لگ رہے تھے جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھے ہوئے ہوں ، میں نے کہا : الله تعالی سے دعا فرما دیجیے کہ الله تعالی مجھے بھی انہیں لوگوں میں سے کر دے ، آپ نے فرمایا : تم اپنے کو انہیں میں سے سمجھو ، پھر آپ سو گئے پھر ہنستے ہوئے اٹھے ، پھر میں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے اپنی پہلی ہی بات دہرائی ، میں نے پھر دعا کی درخواست کی کہ آپ دعا فرما دیں کہ الله تعالیٰ مجھے انہیں لوگوں میں کر دے تو ۔ آپ نے فرمایا : تم (سوار ہونے والوں کے) پہلے دستے میں ہو گی ۔ پھر ان سے عبادہ بن صامت رضی الله عنہ نے شادی کی اور وہ سمندری جہاد پر نکلے تو وہ بھی انہیں کے ساتھ سمندری سفر پر نکلیں، پھر جب وہ جہاز سے نکلیں تو سواری کے لیے انہیں ایک خچر پیش کیا گیا ، وہ اس پر سوار ہوئیں تو اس نے انہیں گرا دیا جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی (اور ان کا انتقال ہو گیا) ۔ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا سعید بن عمرو بن سعید بن عاص کو بیان کرتے سنا کہ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ پانی کا برتن لے کر رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ساتھ جایا کرتے تھے ، جب وہ بیمار پڑے تو ان کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اس برتن کو اٹھاتے اور رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کی طرف دیکھا ، پھر فرمایا : اے معاویہ! اگر تو والئ حکومت بنا تو الله سے ڈرنا اور عدل و انصاف سے کام لینا ۔ فرماتے ہیں کہ میں جان گیا کہ میں آزمایا جاؤں گا رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے ۔ عبد الله بن بسر سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میرے گھر میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما سے مشورہ طلب کیا ۔ تو انہوں نے عرض کیا الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زیادہ جانتے ہیں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : معاویہ (رضی الله عنہ) کو میرے پاس بلا لاؤ ۔ اس سے حضرت ابو بکر و حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما کو خفگی ہوئی ۔ انہوں نے عرض کیا : یہ لوگ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جو حکم پاتے ہیں کیا رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قریش کے ان بزرگوں میں اس کا نمونہ نہیں پاتے ۔ تو رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : معاویہ کو بلا لاؤ ۔ چنانچہ جب معاویہ آئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے کھڑے ہوئے ۔ فرمایا : اپنا معاملہ معاویہ (رضی الله عنہ) کے سپرد کرو کیونکہ وہ قوی اور امین ہے ۔
حضرت حارث بن زیاد رضی الله عنہ جو کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی ہیں ان سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا : اے الله! اس کو کتاب و حساب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا ۔
حضرت عبد الرحمن بن ابی عمیرہ المزنی رضی الله عنہ سے روایت ہے سعید کہتے ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا : اے الله! اس کو ہادی (یعنی ہدایت والا) اور مہدی (یعنی ہدایت یافتہ بنا) اس کو ہدایت عطا فرما اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت عطا فرما ۔
جبلہ بن سحیم روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی الله عنہ نے فرمایا : میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ جیسا سردار کوئی نہیں دیکھا ۔
امام جعفر صادق بن امام محمد باقر اپنے والد گرامی رضی الله عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی الله عنہما حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے عطیے قبول فرماتے تھے ۔
مصعب زبیری سے مروی ہے ۔ دراوردی نے ہم سے بیان کیا کہ جعفر بن محمد رحمة الله علیہ آئے اور بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام پیش کیا پھر تعریف کرنے کرنے کے بعد حضرت ابو بکر و حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما پر سلام کیا پھر مجھے حالت تعجب میں دیکھ کر فرمایا : مجھے اچھا لگا (یعنی مجھے اس سے خوشی ہوئی) راوی بیان کرتے ہیں پھر فرمایا : بخدا یہ دین ہے جس پر میں عمل پیرا ہوں بخدا مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کےلیے بددعا کرتے ہوئے کہوں کہ الله اسے رسوا کرے یا اس کے ساتھ ایسا ایسا کرے ۔ اور (مجھے اس کے بدلے) دنیا ملے ۔
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تم قریش سے محبت کرو بیشک جس نے ان سے محبت رکھی الله تعالی اس سے محبت فرمائے گا ۔
ریاح بن جراح الموصلی سے روایت ہے کہ میں نے ایک شخص کو حضرت معافی بن عمران رحمة الله عليہ سے سوال کرتے ہوئے سنا عرض کیا : اے ابو مسعود! امیر معاویہ رضی الله عنہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة الله عليہ کے مقابلے میں کیسے ہیں؟ اس کی یہ بات سن کر آپ رحمة الله عليہ کو اتنہائی شدید غصہ آیا اور فرمایا : رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کسی صحابی پر کسی (غیر صحابی) کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی ، سسرالی رشتہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتب اور وحی الہی پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امین ہیں بے شک رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے اصحاب اور میرے سسرال والوں سے درگزر کرو ۔ جس نے ان میں سے کسی کی بھی بدگوئی کی اس پر الله تعالی اس کے فرشتوں اور تمام دنیا کے انسانوں کی لعنت ہو ۔
عبد الملک بن عبد الحمید المیمونی رحمة الله عليہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل رحمة الله عليہ سے عرض کی کہ : کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا : ہر سسرالی و نسبی رشتہ قیامت کے دن منقطع ہو جاۓ گا مگر میرا سسرالی و نسبی رشتہ (منقطع نہیں ہوگا) ؟ حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ نے فرمایا : کیوں نہیں ، ایسا ہی ہے . عبد الملک بن عبد الحمید فرماتے ہیں میں نے عرض کی : کیا یہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے بھی ہے ؟ آپ رحمة الله عليہ نے فرمایا : ہاں ، (حضور کے سسرال و نسب کے لیے ہے)
ابو علی الحسین بن خلیل العنزی سے مروی ہے میں لکھاریوں کی ایک جماعت کے پاس بیٹھا تھا ۔ انہوں معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہ پر تنقید کی تو میں غصے سے کھڑا ہو گیا جب رات ہوئی تو خواب میں سرکارٍ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا ۔ آپ فرما رہے تھے : تم ام حبیبہ! کا مقام میرے ہاں جانتے ہو ؟ میں نے عرض کیا : ہاں یا رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ فرمایا : جس نے ام حبیبہ ( رضی الله عنہا ) کو اسکے بھائی کے بارے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ۔
حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کو خط لکھا اور اس میں عرض کرتے ہیں کہ مجھے وصیت کریں اور زیادہ نہ کریں ۔ آپ نے انہیں لکھا کہ تم پر سلام ہو بعد اس کے کہتی ہوں کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا : کہ جو الله تعالی کی خوشنودی لوگوں کی ناراضی سے کفایت کرے گا الله اسے لوگوں کی مصیبت سے بچائے گا ۔ اور جو کوئی خوشنودی الله کی ناراضی سے تلاش کرے گا تو الله اسے لوگوں کے حوالے کر دے گا ، و السلام ۔
جعفر بن برقان سے مروی ہے کہ حضرت عمرو بن عاص رضی الله عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو دیر کرنے پر عتاب کرتے ہوئے لکھا ۔ تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا : بھلائی کے کام میں غور و فکر سے کام لینا زیادتی اور راست روی کا باعث ہے ۔ دراصل راشد اور راست رو وہی ہے جو عجلت کی بجائے معاملہ فہمی اختیار کرتا ہے اور مضبوطی سے قدم رکھنے والا حق تک پہنچ جاتا ہے یا اس کے قریب پہنچ جاتا ہے ۔ اور عجلت باز خطا کرتا ہے یا قریب ہے کہ خطا میں مبتلا ہو ۔ جس شخص کو نرمی فائدہ نہ دے اسے بے عقلی نقصان دیتی ہے جسے تجربات فائدہ نہ دیں وہ مقاصد حاصل نہیں کر پاتا ۔ اور نصب العین تک نہیں پہنچتا ۔ یہاں تک کہ اس کی جہالت اس کے علم پر اور اس کی شہوت پر غالب آ جاتی ہے وہ مقاصد تک صرف حلم سے پہنچ سکتا ہے ۔
امام شعبی رحمة الله علیہ کا ارشاد مروی ہے کہ زیرک مدبر چار آدمی ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے اور حلم میں ، حضرت عمرو بن العاص رضی الله عنہ مدبر ہونے اور جنگی حکمت عملی میں ۔ حضرت مغیرہ رضی الله عنہ سخت اور پیچیدہ معاملات کے حل میں ۔ (كاشف الغمة فى شرح اعتقاد أهل السنة و الجماعة ، لامام ابى القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور اللالكائي الطبري ، تحت باب ذكر فضائل ابى عبد الرحمن معاوية بن ابى سفيان رضي الله عنه ، ص 453 تا 457 ، مطبوعة مكتبة الطبري للنشر و التوزيع ، طبع اول ١٤٣٠ه/٢٠٠٩ء)(شرح اصول اعتقاد اھل السنة و الجماعة ، لامام ابى القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور اللالكائي الطبري ، تحت " ما روي عن النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم في فضائل ابى عبد الرحمن معاوية بن ابى سفيان رضي الله عنه ، جلد 8 صفحہ 1524 تا 1534 ، مطبوعة دار الطيبة)
حضرت امام ابو طالب محمد بن علی بن عطیہ المکی الحارثی رحمة الله علیہ متوفٰی ۳٨٦ھ فرماتے ہیں : حضرت امام احمد بن حنبل رحمة الله علیہ کا عبید الله بن موسی عبسی کے ہاں بہت زیادہ آنا جانا تھا پھر آپ کو اس کا بدعتی ہونا معلوم ہوا مثلاً آپ سے عرض کی گئی کہ وہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کو حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ سے افضل مانتا ہے اور یہ بھی عرض کیا گیا کہ اس نے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کا تذکرہ غیر موزوں الفاظ میں کیا تو امام احمد بن حنبل رحمة الله علیہ نے اس کے پاس نہ صرف آنا جانا چھوڑ دیا بلکہ اس سے جتنی احادیث حاصل کی تھیں سارہ مسوّدہ چاک کر دیا اور اس سے کوئی حدیث روایت نہ کی ۔ (قوت القلوب فى معاملة المحبوب ، لامام ابى طالب محمد بن على بن عطية المکی الحارثی ، الفصل الحادي و الثلاثون : فيه كتاب العلم و تفضيله ، و أوصاف العلماء ، تحت " ذكر تفصيل العلوم : معروفها و منكرها ، قديمها و محدثها ، جلد 1 صفحہ 463 تا 464 ، مطبوعة مكتبة دار التراث ، طبع اول ١٤٢٢ه/٢٠٠١ء) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment