Tuesday 1 February 2022

سخاوت حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ

0 comments

 سخاوت حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : اللہ عزوجل نے جس ہستی کو اپنے محبو ب کا سب سے قریبی رفیق اور یار غار بنانا تھا اسے تمام اوصاف حسنہ کا جامع بنایا ۔ اللہ رب العزت نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جہاں دیگر اوصاف میں نمایاں مقام عطا فرمایا وہاں وصف سخاوت میں بھی اعلیٰ و ارفع مرتبے سے نوازا ۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام کے دامن سے وابستہ ہوتے ساتھ ہی اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرنا شروع کردیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ ایک مال دار تاجرتھے ۔ جس وقت آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کے پاس چالیس ہزار درہم تھے جبکہ ہجرت کے وقت صرف پانچ ہزار درہم باقی رہ گئے ۔ پانچ ہزار درہم کےعلاوہ باقی سارے پیسے آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں صرف کردیے ۔ سخاوت اورمالی قربانی میں بھی آپ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے بڑھ کرہیں ۔ جس دن آپ آغوش اسلام میں آئے آپ کے پاس چالیس ہزاردرہم کاسرمایہ تھا اُس میں سے پینتیس (35) ہزار درہم تومکہ مکرمہ میں اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت و حمایت پرخرچ کر دیا ۔ باقی پانچ ہزاردرہم کی رقم لے کر ہجرت کی اوریہ ساری رقم بھی مدینہ شریف پہنچ کر حضور احمد مختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نثار کر دی ۔ ایک مرتبہ اپناسارامال یہاں تک کہ اپنے بدن کے کپڑوں کوبھی راہِ خدامیں خیرات کر دیا اور خود ایک کملی پہن کراس میں بٹن کی جگہ ببول کا کانٹا لگائے ہوئے اپنے گھرکے اندربیٹھ رہے اُس دن حضرت جبرائیل علیہ السلام جب وحی لے کرنازل ہوئے تووہ بھی ایک کملی اُوڑھے ہوئے تھے جس میں بٹن کی جگہ ببول کے کانٹے لگے ہوئے تھے حضوررحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ جبرائیل ! آج تم اس نئے لباس میں کیوں آئے ہو ؟حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا یارسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کوحکم دے دیاہے کہ آج سب فرشتے آسمان میں وہی لباس پہن لیں ، جولباس میرے محبوب کے یارِغارنے زمین پرپہن رکھاہے ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 39)


آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد سات ایسے غلاموں کوخرید کوآزاد کیاجنھیں صرف ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاتا تھا ۔ 


ان غلاموں میں حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو ایک بھاری رقم پانچ اوقیہ (تقریبا 32 تولہ) سونےکےبدلے میں خریدا۔جب آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو اتنی بھاری رقم کے بدلے خرید کر آزاد کیا تو کفار آپ رضی اللہ عنہ کی اس سخاوت پر یہ اعتراض کرنے لگے کہ شایہ آپ رضی اللہ عنہ پر حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا پہلے کوئی احسان ہے جس کا بدلہ آپ رضی اللہ عنہ نےانہیں آزاد کر کے چکا یا ہے ۔ جب کفار نے یہ اعتراض کیا تو اللہ تعالیٰ نےآپ کے اخلاص کی گواہی میں قرآن کی آیات نازل فرمادیں ۔ ارشاد فرمایا : اور جو سب سے بڑا متقی ہے وہ اس (جہنم)سے دور رکھا جائے گا ۔جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ پاک ہو ۔اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اتارتا ہو بلکہ وہ تو اپنے بلند رب کی رضا کے حصول کے لیےدیتا ہے اور عنقریب وہ راضی ہو جائے گا ۔(سورہ الیل :17 تا 21)


ان آیات سے واضح ہے کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کارب کی راہ میں مال خرچ کرنا اور جود سخا کا مظاہرہ کرنا اللہ عزوجل کو کتنا پسند ہے ۔ آپ کی للٰہیت اور خلوص پر اعتراض کفار نے کیا اور آپ کی طرف سے جواب خود رب کریم نے دیا اور واضح فرما دیا کہ آپ رضی اللہ عنہ پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا آپ رضی اللہ عنہ نے بدلہ اتارا ہو بلکہ یہ ساری سخاوت تو آپ رضی اللہ عنہ حصول رضائے الٰہی کےلیے کرتے ہیں ۔ اس ہستی کی عظمت و مقام کا اندازہ کون لگا سکتا ہے کہ خالق کائنات جس کے اخلاص کی گواہی بھی دے اور اس کی طرف سے کفار کوجواب بھی دے ۔


جب غزوۂ تبوک کےموقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو راہ خدا میں مال پیش کرنے کا حکم دیا تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے حسبِ توفیق اسلامی لشکر کی مالی معاونت کی ۔ اس موقع حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جس طرح سے سخاوت وفیاضی کا مظاہرہ کیا اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی ۔آئیے سخاوت صدیقی کا واقعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زبانی پڑھتے ہیں ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ دینے کا حکم دیا ۔ اس حکم کی تعمیل کےلیے میرے پاس کافی مال تھا ۔ میں نے اپنے آپ سے کہاکہ اگر میں ابوبکر صدیق سےکبھی سبقت لے جا سکتا ہوں تو آج کا دن ہی وہ دن ہے جس میں میں سبقت لے جا سکتا ہوں ۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنا نصف مال لے کر حاضرخدمت ہوا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے گھر والوں کےلیے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ میں نے عرض کی : جتنا لے آیا ہوں اتنا ہی ان کےلیے چھوڑ آیا ہوں ۔ اتنے میں یار غار رسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ سب کچھ لے کر حاضرخدمت ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ اے ابوبکر ! اپنے گھر والوں کےلیے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا : میں ان کےلیے ﷲ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ آیا ہوں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے اس دن خود سے کہاکہ میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کسی معاملے میں کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا ۔(جامع ترمذی حدیث : 3675)


عن ابن عمر قال اسلم أبوبکر يوم اسلم و في منزله أربعون الف درهم فخرج إلي المدينة من مکة في الهجرة و ماله غير خمسة آلاف کل ذلک ينفق في الرقاب و العون علي الإسلام ۔

ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو اس وقت ان کے پاس گھر میں چالیس ہزار (40000) درہم موجود تھے ، لیکن جب آپ رضی اللہ عنہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے نکلے تو اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کے پاس صرف پانچ ہزار (5000) درہم رہ گئے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کثیر رقم غلاموں کو آزاد کرانے اور اسلام کی خدمت پر خرچ کر دی۔ (ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 30 : 68)(مناوي، فيض القدير، 4 : 18،چشتی)(عسقلاني، الاصابه، 4 : 171)(ابن عبدالبر نے ’الاستیعاب (3 : 966) ، میں ہشام بن عروہ سے باختلاف لفظ روایت کیا ہے ۔ نووی نے ’تہذیب الاسماء (2 : 480)‘ میں ہشام بن عروہ سے روایت کیا ہے ۔ محب طبری، الریاض النضرہ، 2 : 21 (ھشام بن عروہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے ۔


عن زيد بن اسلم قال کان ابوبکر معروفا بالتجارة لقد بعث النبي صلي الله عليه وآله وسلم و عنده أربعون ألف درهم فکان يعتق منها و يقوي المسلمين حتي قدم المدينة القدرة آلاف درهم ثم کان يفعل فيها ما کان يفعل بمکة ۔

ترجمہ : حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق مشہور تاجر تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو آپ کے پاس چالیس ہزار درہم موجود تھے آپ اس رقم سے غلاموں کو آزاد کرواتے اور مسلمانوں کو تقویت پہنچاتے تھے یہانتک کہ آپ ہجرت کرکے ہزاروں دراہم کے ساتھ مدینہ طیبہ آگئے ۔ یہاں بھی آپ مکہ معظمہ کی طرح دل کھول کر اسلام پر خرچ کرتے رہے ۔ (ابن سعد الطبقات الکبري، 3 : 172)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 30 : 68)(عسقلاني، الاصابه، 4 : 172)(الترتب الاداريه، 2 : 24)


عن أبي هريرة قال : قال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما لأحد عندنا يد إلّا وقد کافيناه ما خلا أبابکر فانّ له عندنا يدا يکافئه ﷲ به يوم القيامة ۔

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی کا بھی ہمارے اوپر کوئی ایسا احسان نہیں جس کا ہم نے بدلہ چکا نہ دیا ہو، سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق کے۔ بیشک اُن کے ہمارے اوپر احسان ہیں جن کا بدلہ ﷲ رب العزت قیامت کے دن چُکائے گا ۔ (ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 609، ابواب المناقب، رقم : 3661)(ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 4 : 104 رقم : 6328،چشتی)(نووي تهذيب الأسماء، 2 : 478)(محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 18)(عسقلاني فتح الباري، 7 : 13)


عن علي قال قال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم رحم ﷲ أبابکر زوجني ابنته و حملني إلي دارالهجرة و أعتق بلا لا من ما له ۔

ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے انہوں نے مجھ سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا ، مجھے اٹھا کر دارالہجرت (مدینہ) لے گئے اور اپنے مال سے بلال کو آزاد کروایا ۔ (ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 633، رقم : 3714)(ابويعلي، المسند، 1 : 418، رقم : 550)(بزار، المسند، 3 : 52)(طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 95، رقم : 5906،چشتی)(ابن ابي عاصم، السنة، 2 : 577، رقم : 1232)(قيسراني، تذکرة الحفاظ، 3 : 844)(ذهبي، سير أعلام النبلاء، 15 : 278)(مزي، تهذيب الکمال، 10 : 402

9. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 243)


عن ابن عمر، قال : کنت عند النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم وعنده أبوبکر الصّدّيق، وعليه عباء ة قد خلّها في صدره بخلال فنزل عليه جبريل فقال : يا محمّد مالي أرٰي أبابکر عليه عباء ة قد خلّها في صدره؟ فقال : يا جبريل أنفق ما له عليّ قبل الفتح، قال : فإنّ ﷲد يقرأ عليک السّلا م ويقول قل لّه : ’’أراض أنت عنّي في فقرک هٰذا أم ساخط؟‘‘ فقال : رسول ﷲ : يا أبابکر! إنّ ﷲ عزوجل يقرأ عليک السّلام و يقول لک ’’أراض أنت عنّي في فقرک هٰذا أم ساخط؟‘‘ فقال أبوبکر عليه السّلا م أسخط علٰي ربّي؟ أنا عن رّبّي راض، أنا عن رّبّي راض، أنا عن رّبّي راض ۔

ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنھما سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس حال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے عباء (لباس جو سامنے سے کُھلا ہوا ہو اور اُس کو کپڑوں کے اوپر پہنا جاتا ہے) پہنی ہوئی تھی جس کو اپنے سینے پر خِلال (لکڑی کا ٹکڑا، جس سے سوراخ کیا جاتا ہے) سے جوڑا ہوا تھا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا : ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عباء پہن کر اُسے اپنے سینے پر ٹانکا ہوا ہے؟‘‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے جبرئیل علیہ السلام! انہوں نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر ڈالا ہے۔‘‘ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : ’’ﷲ رب العزت آپ کو سلام فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہیں، کیا تم اپنے اِس فقر میں مجھ سے راضی ہو یا ناراض؟‘‘ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! ﷲ رب العزت تم پر سلام فرماتے ہیں اور تمہیں ارشاد فرماتے ہیں، ’’کیا تم اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہو یا ناراض؟‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی۔ ’’میں اپنے ربِ کریم پر ناراض ہوں گا ؟ میں تو اپنے رب سے (ہر حال میں) راضی ہوں میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں ۔ میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں ۔ (ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 250)(ابو نعيم، حلية الاولياء، 7 : 105،چشتی)(ابن کثير تفسيرالقرآن العظيم، 4 : 308)(محب طبري، الرياض النضره، 2 : 20)(خطيب بغدادي، موضح أدهام الجمع والتفريق، 2 : 441)


دنیا میں بڑے بڑے سخی گزرے ہیں لیکن تاریخ عالم میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسا سخی نہیں ملے گا جس نے اپنے محبوب کے ایک حکم پر اپنا متاعِ کل محبوب کے قدموں میں ڈھیر کر دیا ۔ جب زندگی کا مقصد و منشا ہی محبوب کی رضا ہو تو پھر محب صادق اپنا تن من دھن سب کچھ اپنےمحبوب پر قربان کرنا اپنی بہت بڑی سعادت اور خوش قسمتی سمجھتا ہے ۔ علامہ اقبال نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں اسی لیے کہا تھا :

پروانے کو چراغ ہے اور بلبل کو پھول بس

صدیق کےلیے ہے خدا کارسول بس


آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے مال سے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتنی خدمت کی کہ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےآپ کے مال کو اپنے لیے سب سے زیادہ منفعت بخش قراد دیا اورارشاد فرمایا : مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں دیا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیاہے ۔ (ترمذی 3661)

اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدیق اکبر ؓکے مال کو اپنے لیے سب سے زیادہ منفعت بخش قرار دے کر صدیق اکبر کی بے مثل سخاوت اور فیاضی پر مہر استناد لگادی ۔


ایک موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمام لوگوں میں سے سب سے زیادہ مجھ پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کا احسان ہے ، مال کا بھی اور رفاقت کا بھی ۔ (بخاري :3454) بھلا اس سے بڑا سخی کون ہو سکتا ہے جس کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے زیادہ مالی احسان ہے ۔


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کےلیے یہ بھی بہت بڑا اعزاز ہے کہ ان کے مال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مال کی طرح تصرف فرمایا کرتے تھے ۔الریاض النضرہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مال میں اسی طرح تصرف فرماتے تھے جس طرح اپنے ذاتی مال میں فرماتے تھے ۔ ( الرياض النضره جلد 2 صفحہ 17،چشتی)


سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سخاوت اور مالی قربانیاں رب کریم کی بارگاہ میں کتنی مقبول اور پسندیدہ ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رب کریم خود آپ رضی اللہ عنہ کے نام سلام بھیجتا ہے اور استفسار فرماتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ رب سے راضی ہیں یا نہیں ۔ حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ٹاٹ کا لباس پہنے ہوئے بیٹھے تھے ۔ اتنے میں جبرئیل امین علیہ السلام نازل ہوئے اور کہنے لگے : اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ابوبکر نے ایسا لباس کیوں پہنا ہوا ہوا ہے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے جبرئیل اس نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر ڈالا ہے ۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : ﷲ رب العزت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجتا ہے اور ارشاد فرماتا ہےکہ ابوبکر سے کہیں کہ کیا تم اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہو یا ناراض ؟ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سےفرمایا : اے ابوبکر ! ﷲ رب العزت تم پر سلام بھیجتا ہے اور تم سے پوچھتا ہےکہ کیا تم اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہو یا ناراض؟’’حضرت ابوبکر ؓیہ سن کر عرض گزار ہوئے : بھلامیں اپنے رب کریم سے کیسے ناراض ہو سکتا ہوں؟ میں تو اپنے رب سے ہر حال میں راضی ہوں ۔ میں اپنے رب سے راضی ہوں۔ میں اپنے رب سے راضی ہوں ۔ (الرياض النضره جلد 2 صفحہ 20،چشتی)


اپنے مال سے اسلام ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کی سب سے زیادہ خدمت کرنے والی ہستی اور امت مسلمہ میں سب سے بڑھ کر جود و سخا کا مظاہرہ کرنے والی شخصیت امیر المومنین ظاہری و باطنی خلیفہ بلا فصل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔