مولا علی کے امام ہیں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میرے مرتبے اور ابوبکر کے مرتبے کو خوب سمجھ کر فیصلہ دیا اور فرمایا : ابوبکر کھڑے ہوجاؤ اور لوگوں کونماز پڑھاؤ آپ نے مجھے نماز پڑھا نے کا حکم نہیں دیا ۔ لہٰذا رسول اللہ صلی الله عليه و آلہ وسلم جس شخص کو ہمارا دینی پیشوا بنانے پر راضی ہیں ہم اسے اپنا دنیاوی پیشوا بنانے پر کیوں نہ راضی ہوں ۔ (اسنی المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حدیث:۴٣)(الریاض النضرۃ جلد ١ صفحہ ٨١)
حضرت سیدنا علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر باقاعدہ مسجد میں لوگوں کے سامنے بیعت کی تھی ۔ بخاری شریف میں آتا ہے : فقال علی لابی بکر موعدک العشية للبيعة فلما صلی ابو بکر الظهر رقی المنبر فتشهد فسر بذالک المسلمون وقالوا اصبت ۔ (شرح، بخاری، 906)
تجمہ : حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا میں پچھلے پہر آپ کے پاس بیعت کے لیے حاضر ہوں گا ، پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز ظہر ادا کی اور منبر پر تشریف فرما ہوئے ، توحید و رسالت کی گواہی دی ، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حال، بیعت میں تاخیر اور آپ کی معذرت تاخیر بیان فرمائی ۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے توحید و رسالت کی گواہی دی اور سارا ماجرا بیان کیا ۔ اس پر سارے مسلمان خوش ہوئے اور کہا اے علی (رضی اللہ عنہ) آپ نے بہت اچھا کیا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نمازیں پڑھتے تھے اور وہ ان کی امامت پر راضی تھے ۔
شیعہ عالم سلیم بن قیس لکھتا ہے : علی علیہ السلام نے فرمایا حضرت ابو بکر نے نماز پڑھائی تو خالد بن ولید نے میرے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز ادا کی جبکہ وہ تلوار لٹکائے ہوئے تھے ۔ (کتاب سلیم بن قیس: ۲۲۸،چشتی)
شیعہ عالم طبرسی لکھتا ہے: پھر علی علیہ السلام نماز کے لیے تیار ہوئے اور مسجد میں آئے اور ابو بکر کے پیچھے نماز پڑھی اور خالد بن ولید نے ان کے پہلو میں نماز ادا کی ۔ (الاحتجاج: ۱/۱۲۶)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے پیچھے پانچوں نمازیں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ادا کیا کرتے تھے تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ علی رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر راضی و متفق اور ان سے محبت و الفت رکھتے ہیں ۔ (الاحتجاج للطبرسی صفحہ نمبر ۵۳)(کتاب سلیم بن قیس صفحہ نمبر ۲۵۳،چشتی)(مرآۃ العقول للمجلسی صفحہ ۲۸۸ ط ایران)
شیعہ عالم طوسی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی نماز کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے : بظاہر وہ (یعنی صدیق رضی اللہ عنہ) مسلمان ہی لگتے تھے ۔ (تلخیص الشافی صفحہ نمبر ۳۵۴ مطبوعہ ایران)
شیخ طوسی لکھتا ہے : یہ بات تسلیم شدہ ہے کیونکہ یہی ظاہری بات ہے ۔ (تلخیص الشافی: ۳۵۴، طبع ایران)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پیچھے نماز ادا فرمائی ۔ (شیعہ حضرات کی کتاب : جلاء العیون صفحہ 150)
نہج البلاغۃ میں لکھا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے خلیفہ بننے کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو خط لکھا کہ جن لوگوں نے حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کی بیعت کی ۔ انہیں لوگوں نے میری بیعت کی ہے ۔ اب کسی حاضر یا غائب کویہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کی مخالفت کرے ۔ بے شک شوری مہاجرین و انصار کا حق ہے اور جس شخص پر جمع ہوکر یہ لوگ اپنا امام بنالیں ، ﷲ تعالیٰ کی رضامندی اسی میں ہے ۔ (کتاب نہج البلاغۃ دوسری جلد صفحہ 8 مطبوعہ مصر،چشتی)
حضرت علی نے ہرگز حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہما) کی بیعت نہ کی کا جواب
شیعہ حضرات کا اعتراض : ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہرگز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی اور اپنی مٹھی بند رکھی لیکن جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ صورت حال دیکھی تو خود اپنا ہاتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر رکھ دیا اور اسی کو اپنی بیعت قرار دے دیا ؟ جیسا کہ مسعودی لکھتے ہیں : فقالوا لہ : مدّ یدک فبایع ، فأبٰی علیہم فمدّوا یدہ کرھا فقبض علی أناملہفراموا بأجمعھم فتحھا فلم یقدروا فمسح علیھا أبوبکر وھی مضمونة ۔ (اثبات الوصیة: ١٤٦؛ الشّافی ٣: ٢٤٤)
اس کے باوجو د بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کی بیعت اہل حل و عقد کے اجماع سے واقع ہوئی .کیا اسی کو اجماع واتفاق کہتے ہیں ؟ اور پھر اس حدیث : علیّ مع الحقّ وا لحقّ مع علیّ یدور معہ حیث مادار ۔ ( مستدرک حاکم ٣: ١٢٥؛ جامع ترمذی ٥: ٥٩٢ ،ح٣٧١٤؛مناقب خوارزمی :١٧٦،ح ٢١٤؛فرائد السّمطین ١: ١٧٧،ح ١٤٠؛ شرح المواہب اللدنیة ٧: ١٣) علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے .حق اسی طرف پھرتا ہے جہاں علی پھرجائیں .(رضی اللہ عنہم)
اس اعتراض کا جواب : یہ حوالے شیعہ کتب سے ہیں جو کہ ہمارے لئے حجت نہیں ہیں لیکن پھر کچھ عرض کردیتے ہیں ۔
بیعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مکمل احوال از شیعہ و سنی کتب سے مضمون نمبر 1 میں ہم دے چکے ہیں لیکن یہ بلکل ہی سفید جہوٹ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنا ہاتھ نہیں کھولا تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرتے وقت ہاتھ بند نہیں کیا تھا بلکہ خود سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ ہاتھ دیں تو انہوں آگے کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرلی اس کا صحیح روایت سے ثبوت :
امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سنن ص 554 میں نقل کرتے ہیں : فقال علي رضي الله عنه لا تثريب يا خليفة رسول الله ابسط يدك فبسط يده فبايعه ۔
ترجمہ : تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا اے رسول اللہ کے خلیفہ آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں اپنا ہاتھ بڑہائے آپ نے ہاتھ بڑہایا اور علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرلی ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے لئے بھاگتے ہوئے آئے تھے حتی کہ وہ ٹھیک سے قمیص بھی نہیں پہن سکے تھے تاکہ بیعت میں دیر نہ ہو جن کا حال یہ ہے اور آپ کہتے ہیں کہ انہوں ہاتھ بند رکہا تھا ۔
عن حبيب ابن أبي ثابت قال كان علي في بيته إذ أتى فقيل له قد جلس أبو بكر للبيعة فخرج في قميص ما عليه إزار ولا رداء عجلا كراهية أن يبطئ عنها حتى بايعه ثم جلس إليه وبعث إلى ثوبه فأتاه فتخلله ولزم مجلس ۔
ترجمہ : حبیب بن ابی ثابت سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں تھے کہ کسی نے آکر کہا کہ ابوبکر رضہ مسجد میں بیعت لے رہے ہیں تو آپ فورن اتھے اور قمیص پہنے بغیر اس خوف سے کہ کہیں دیر نہ ہوجائے گھر سے مسجد آئے بیعت کی اور پھر ابی بکر رضہ کے ساتھ بیٹھے رہے اور کسی کو بھیج کر قمیص منگوا کر پہنی اور پھر وہیں بیٹھے رہے ۔ (تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ نمبر 448،چشتی)
اس سے ظاہر ہوا کہ یہ روایت کہ انہوں ہاتھ بند رکہا تھا جھوٹ ہے ۔
باقی مستدرک وغیرہ کی روایات کہ حق علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے اور علی رضی اللہ عنہ حق کے ساتھ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ حق گو تھے اگر آپ دیکھتے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حق پر نہیں ہیں تو ان کی بیعت کبھی نہیں کرتے بلکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرح قربانی دیتے ۔ یہ بات شیعوں کو جاننی چاہئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی مطلب وہ حق (یعنی صدیق رضی اللہ عنہ) کے ساتھ تھے اور حق (صدیق رضی اللہ عنہ) بھی ان کے ساتھ تھے وہ آپس میں شیر و شکر تھے ۔
شیعو اپنے گریبان میں جھانکو : اب یہ شیعہ ہین کہ ایک طرف تو کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ حق ہیں اور دوسری طرف پھر صدیق رضی اللہ عنہ کوحق نہیں مانتے جسے علی رضی اللہ عنہ حق مانتے ہیں ۔ اور ہم الحمداللہ ہمیشہ کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں ۔ لیکن شیعہ کہتے ہیں کہ نہیں وہ حق پرست نہیں تھے وہ اپنی جان بچانے کے خاطر اسلام اور اس کے اصولوں کو پیچھے ڈال دیتے تھے ۔ اور حق سے دستبردار ہوجاتے تھے حق چھپاتے تھے ۔ اندر میں ایک اور باہر میں دوسرے ہوتے تھے ۔۔۔۔ معاذاللہ اللہ کی لعنت ہو ایسے سوچ رکہنے والوں پر ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment