Monday 3 January 2022

تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عادل اور جنتی ہیں

0 comments

 تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عادل اور جنتی ہیں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام اللہ عزوجل قرآنِ کریم میں فرماتا ہے : وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ ۔ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔

 ترجمہ : اور بیشک مہاجرین اور انصار میں سے سابقینِ اولین اوردوسرے وہ جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے ۔


اس آیت کی ابتداء میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دو گروہوں کا ذکر ہوا ۔


(1) ۔ سابقین مہاجرین یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے مہاجرین ۔ ان کے بارے میں بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں  جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نمازیں پڑھیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بدر مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بیت ِرضوان مراد ہیں ۔


(2) ۔ سابقین انصار یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے انصار ۔ ان سے مراد وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں کہ جو بیعتِ عَقَبۂ اُولیٰ میں شریک تھے جن کی تعداد چھ تھی ، یونہی بیعتِ عقبۂ ثانیہ میں شریک بارہ صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم اور بیعتِ عقبۂ ثالثہ میں شریک ستر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی سابقین انصار کہلاتے ہیں ۔ پھر سابقین کے گروہ میں بھی جو ایمان قبول کرنے میں سب سے سابق ہیں وہ یہ حضرات ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا یعنی مردوں میں سب پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ، عورتوں میں سب سے پہلے اُمّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے ، بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے ایمان قبول کیا ۔ (تفسیر خازن التوبۃ الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۲۷۴)


وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ : اور جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان سے باقی مہاجرین و انصار مراد ہیں ، اس قول کے مطابق تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس آیت میں داخل ہوگئے اور ایک قول یہ ہے کہ پیرو ی کرنے والوں سے قیامت تک کے وہ ایماندار مراد ہیں جو ایمان ، طاعت اور نیکی میں انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم کے راستے پر چلیں ۔ ان سب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہوا کہ اسے  ان کے نیک عمل قبول ہیں اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے راضی ہیں کہ اس کے ثواب و عطا سے خوش ہیں ۔ اور اس نے ان کےلیے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور یہ حضرات ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔ (تفسیر خازن التوبۃ الآیۃ: ۱۰۰، ۲ / ۲۷۵،چشتی)


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت پر اُمت کا اتفاق


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت پر اُمت اسلامیہ کا نسل درنسل سے اتفاق چلا آرہا ہے ۔ تاہم ہر دور میں چند ایسے گروہ ضرور پائے جاتے ہیں جو جمہور اہل اسلام کے عقیدہ کے خلاف بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے متعلق مثبت رائے نہیں رکھتے ہیں ۔ کسی کو حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہما سے شکوے ہیں ، کوئی ان کی عظمت کے قائل ہیں لیکن ان کے تمام صحابہ میں افضل ہونے کے منکر ہیں ۔ کسی کو اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے بغض ہے اور کوئی حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ اور حضرت عمرو بن عاص رضی ﷲ عنہ سے بیر رکھتے ہیں ۔ اہلسنت و جماعت کے محقق علماء نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی عظمت اور مدحت پر سو آیات قرآنی سے استشھاد کیا ہے اور جب ﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا تزکیہ فرمایا (ان کی پاکیزگی کا ذکر کیا) اور ان کی تعدیل کی (ان کے عادل ہونے کو ثابت یا) نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کی تعدیل و تزکیہ فرمایا اور ان کے فضائل اور عظمت کو کثرت سے بیان فرمایا تو مخالفین کی نہ تعدیل کی ضرورت ہے اور نہ ہی ان کی تنقید اور جرح کا اعتبار ہے ۔ اور نہ ہی ان کی مخالفت اجماع اُمت پر اثرانداز ہوتی ہے ۔ واضح رہے کہ اہلسنت و جماعت کے نزدیک تمام صحابہ کرام عادل ہیں ۔ ان میں سابقین اولین ، مہاجرین و انصار فتح مکہ سے قبل اور فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے والے اور جو فتنوں سے پہلے وفات پائے اور جو فتنوں کے وقت شریک رہے نیز جنہوں نے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے جنگ کی اور جو حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے ساتھ رہے سب شامل ہے ۔ اصول حدیث کی معتبر و مستند کتاب ’’مقدمۃ ابن صلاح‘‘ میں ہے ’’اُمت تمام صحابہ کرام کی تعدیل پر متفق ہے اور ان صحابہ کی تعدیل پر جو فتنوں میں شریک رہے اسی پر علماء اُمت کا اجماع ہے جن کا اجماع میں اعتبار ہے ۔ (مقدمہ ابن صلاح : ۴۲۸)


علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں : اہل سنت و جماعت کا اتفاق ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں سوائے چند اصحابِ بدعت کے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ۔ (الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد اول ص : ۱۷۔۱۸)


امام عراقی علیہ الرحمہ شرح الفیۃ العراقی میں رقمطراز ہیں : تمام اُمت صحابہ کرام کی عدالت پر متفق ہے جو فتنوں میں شریک رہے اور جو نہیں رہے سب عادل ہیں۔ فتنوں کا آغاز حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کی شہادت سے ہوا ان کی عدالت پر علماء اُمت کا اجماع ہے ۔ جن کا اجماع میں اعتبار ہے یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حسنِ ظن کی بنا روا ہے اور ان کے مابین ہوئے اختلافات کو ان کے اجتہاد پر محمول کیا جاتا ہے ۔ (شرح الفیۃ العراقی جزء : ۱۳ ص : ۱۳۔۱۴،چشتی) ۔ حافظ ابن حمز فرماتے ہیں : تمام صحابہ بلاشبہ جنتی ہیں ۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب ۔۱؍۸)


اہلسنت و جماعت کے برخلاف معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں مگر جنہوں نے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے جنگ کی وہ عادل نہیں ہے ۔ (ابن رجب ، مختصر الاصول ۱؍۲) ۔ جبکہ اہلسنت و جماعت کے نزدیک وہ خطاء اجتہادی پر محمول ہے اس سے ان کی عدالت مجروم نہیں ہوتی ۔ (الابانۃ ابوالحسن الاشعری صفحہ نمبر ۷۸)


خطیب بغدادی علیہ الرحمہ نے فرمایا : ہر وہ حدیث جس کی سند نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تک پہنچتی ہے وہ اس وقت تک واجب العمل نہیں جب تک کہ اس کے رجال (راوی) کی عدالت ثابت نہ ہو جائے اور ان کے احوال پر غور و خوض نہ کیا جائے ۔ البتہ جب کوئی صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف نسبت کرتے ہیں تو ان کی عدالت کی ثبوت یا ان کے احوال پر غور و خوض کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی عدالت نص قرآنی سے ثابت ہے ۔ ﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کو عادل قرار دیا اور ان کی پاکیزگی اور چنندہ ہونے کو بیان فرمایا ۔ بعد آزاں خطیب بغدادی صحابہ کرام کی عدالت و پاکیزگی پر آیات قرآنی اور احادیث شریفہ نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : اگر آیات قرآنیہ اور احادیث شریفہ سے کچھ وارد نہ بھی ہوتا جو ہم نے نقل کیا ہے تب بھی صحابہ کرام کا ہجرت کرنا ، ﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا ، دین اسلام کی نصرت و حمایت کرنا ، اپنی لخت جگر اور مال و دولت کو خرچ کرنا ، اپنے اہل و عیال کو قربان کرنا ، دین کے معاملہ میں خیر حواہی کرنا نیز ان کا قوتِ ایمانی اور قوتِ یقین ان کی عدالت و پاکیزگی کےلیے قطعی الثبوت دلائل ہیں اور وہ ان کے بعد آنے والوں کی تعدیل و تزکیہ سے تاقیامت بلند تر اور افضل ہیں ۔ (الکفایۃ فی علم الروایۃ صفحہ ۱۵)


عقیدۂ اہلسنت و جماعت کا خلاصہ وہی ہے جس کو امام طحاوی نے اپنی معروف کتاب ’’عقیدۂ طحاویۃ ‘‘ میں بیان فرمایا ہے کہ : ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے ہیں کسی صحابی کی محبت میں غلو نہیں کرتے اور نہ کسی صحابی سے برأت کا اظہار کرتے ہیں اور ہم ہر اُس شخص سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ سے بغض رکھتا ہے اور ان کا خیر کے علاوہ ذکر کرتا ہے ، صحابہ کی محبت ہی دین ہے ، ایمان ہے اور احسان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ، نفاق ہے ، اور سرکشی ہے اور ہم رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد خلافت کو حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کےلیے ثابت کرتے ہیں ان کو تمام اُمت میں سب سے افضل اور سب سے مقدم جانتے ہیں ، پھر آپ کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ کےلیے پھر حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کے لئے پھر حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کےلیے وہی خلفاء راشدین اور ہدایت یافتہ امام ہیں ۔


ایک شخص امام ابوزرعۃ رازی علیہ الرحمہ کی خدمت میں کہنے لگا : اے ابوزرعۃ ! میں معاویہ (رضی اللہ عنہ) سے بغض رکھتا ہوں ۔ انہوں نے دریافت کیا : کیا وجہ ہے ؟ اس نے کہا کہ انہوں نے علی رضی ﷲ عنہ سے جنگ کی ۔ ابوزرعۃ نے جواب دیا بلاشبہ معاویہ رضی ﷲ عنہ کا پروردگار رحیم ہے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے فریق (یعنی حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ) کریم ہیں ، تمہارا کیا تعلق کہ تم ان دونوں کے معاملہ میں مداخلت کرو ۔ (تاریخ ابن عساکر ، تذکرہ سیدنا امیر معاویۃ رضی اللہ عنہ)


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان وہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے ان کو ’’ رَضِيَ للّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ‘‘ (یعنی ﷲ ان سے راضی ہے اور وہ ﷲ سے راضی ہیں) کے لقب سے یاد فرمایا اور ’’وَالَّذِیْنَ آمَنُوْ مَعَہٗ ‘‘ (یعنی وہ جو نبی اکرم صلی ﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی معیشت میں ایمان لائے سے ان کی تعریف کی ۔ نیز اعلان فرمایا : (یعنی قیامت کے دن ﷲ تعالیٰ نبی مکرم اور وہ لوگ جو ان کی معیت میں ایمان لے آئے (یعنی صحابہ) ان کو ہرگز رسوا نہیں فرماۓ گا ۔ اس قدر واضح اور قطعی براءت کے بعد اگر کسی کو کسی صحابی رسول سے بغض ، نفرت یا کراہیت ہو تو یہ محرومی اور گمراہی ہے ۔


معلوم ہوا کہ سارے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عادل ہیں اور جنتی ہیں ان میں کوئی گنہگار اور فاسق نہیں لہٰذا جوبد بخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے ، وہ مردود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے اور ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ درج ذیل حدیث پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے ، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ’’میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو ۔ میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو ، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو ۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی پکڑ فرما لے ۔ (ترمذی، کتاب المناقب باب فی من سبّ اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۵/۴۶۳، الحدیث: ۳۸۸۸،چشتی)


حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : لَاتَسُبُّوْااَصْحَابِیْ فَلَوْ اَنَّاَ حَدَکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍذَھَبًامَابَلَغَ مُدًّااَحَدِھِمْ وَلَانَصِیْفَہُ ۔ (متفق علیہ)

ترجمہ : تم میرے صحابہ کو گالی نہ دو اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑکی مثل سونا خرچ کرے وہ ان میں سے کسی ایک کے مد اورنہ ہی آدھے مد (خرچ کرنے کے ثواب) کو پہنچ سکتا ہے ۔


حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اَکْرِمُوْا اَصْحَابِیْ فَاَنَّھُمْ خِیَارُکُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ۔

ترجمہ : تم میرے صحابہ کی تکریم کرو پس وہ بے شک تم میں سے بہترلوگ ہیں پھر وہ جوان سے متصل ہوں گے پھروہ جوان سے متصل ہوں گے ۔ (مشکوٰۃ المصابیح باب مناقب الصحابہ رضی اللہ عنھم اجمٰعین)


محترم قارئینِ کرام : مندرجہ بالا قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت کا اقرار ‘عزت کی حفاظت اوران کی پیروی کرنا ایمان کا حصہ ہے اور جو کوئی شخص کسی ایک صحابی رسول کے بارے میں بھی غلط عقیدہ رکھے اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معاذ اللہ غبی یا احمق وغیرہ قرار دے تو وہ مسلمان اور مومن کہلانے کا حقدار نہیں ہو سکتا ۔


طبرانی میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ، اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو‘‘ ایک اور حدیث میں ہے ’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ،اس نے مجھے گالیاں دیں اور جس نے مجھے گالیاں دیں، اس نے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں ‘‘ غرض مذکورہ آیات ِ قرآنیہ اور اِن احادیـث ِ نبویہ کے پیشِ نظر اہلِ علم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینا اور لعن طعن کرنا کفر قرار دیا ہے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان ہے : اََلَاوَ اِنَّ اَصْحَابِیْ خِیَارُکُمْ فَاَکْرِمُوْہُمْ ۔

ترجمہ : خبر دار! میرے صحابہ تم سب میں بہترین ہیں ان کی عزت کرو ۔ (المعجم الأوسط،۵/۶حدیث نمبر ۶۴۰۵)


حضرت صدر الشریعہ مفتی امجد علی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تمام صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم اہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل ، ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے ۔ کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت بدمذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے کہ وہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ بغض ہے ۔ تمام صحابہ کرام اعلیٰ و ادنیٰ (اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں) سب جنتی ہیں ، وہ جہنم کی بِھنک (ہلکی سی آواز بھی) نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے ۔ (بہار شریعت ،۱/۲۵۴)


ان نفوسِ قدسیہ کی فضیلت و مدح ، ان کے حسنِ عمل، حسنِ اخلاق اور حسنِ ایمان کے تذکرے سے کتابیں مالا مال ہیں اور انہیں دنیا ہی میں مغفرت ، انعاماتِ اخروی اورباری تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کا مثردہ سنا یا گیا ۔ چنانچہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اِرشاد باری تعالیٰ ہے : رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوۡا عَنْہُ ۔ (پ۱۱، التوبہ : ۱۰۰)

ترجمہ : اللّٰہ ان سے راضی اور وہ اللّٰہ سے راضی ہیں ۔


صَحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نہایت ادب کیجئے


صدرُ الافاضِل حضرتِ علامہ سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی علیہ رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں : مسلمان کو چاہیے کہ صَحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نہایت ادب رکھے اور دل میں ان کی عقیدت ومحبت کو جگہ دے ۔ ان کی محبت حُضُور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت ہے اور جو بد نصیب صَحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں بے ادَبی کے ساتھ زَبان کھولے وہ دشمنِ خدا و رسول ہے۔مسلمان ایسے شخص کے پاس نہ بیٹھے ۔ (سوانح کربلا صفحہ نبر ۳۱،چشتی)


اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں : ⬇


اہلسنّت کا ہے بَیڑا پار اَصحابِ حُضُور

نَجم ہیں اور ناؤ ہے عِترَت رسولُ اللّٰہ کی


یعنی اہلسنَّت کا بیڑا پار ہے کیوں کہ صَحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کےلیے ستاروں کی مانند اور اہلبیتِ اَطہار رضی اللہ عنہم کشتی کی طرح ہیں


صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اِیذا دینے والے کی سزا


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی اور جس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اسے پکڑے ۔ (ترمذی،کتاب المناقب،باب فی من سب اَصحاب النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، ۵/۴۶۳، حدیث:۳۸۸۸،چشتی)


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخ کا انجام


منقول ہے کہ حجا ج کا ایک قافلہ مدینہ منورہ پہنچا ۔ تمام اہلِ قافلہ امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مزارِ مبارک پر زیارت کرنے اور فاتحہ خوانی کےلیے گئے لیکن ایک شخص جو آپ سے بُغض و عناد رکھتا تھا توہین و اِہانت کے طور پر آپ کے مزار کی زیارت کےلیے نہیں گیا اورلوگوں سے کہنے لگا کہ بہت دور ہے اس لیے میں نہیں جاؤں گا ۔ جب یہ قافلہ اپنے وطن کو واپس آنے لگا تو قافلہ کے تمام افراد خیر وعافیت اورسلامتی کے ساتھ اپنے اپنے وطن پہنچ گئے لیکن وہ شخص جو آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی قبر انورکی زیارت کےلیے نہیں گیا تھا اس کا یہ انجام ہوا کہ درمیان راہ میں بیچ قافلہ کے اندر ایک درندہ غراتا ہوا آیا اوراس شخص کو اپنے دانتوں سے دبوچ کر اور پنجوں سے پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۔ یہ منظر دیکھ کر تمام اہل قافلہ نے یک زبان ہوکر کہا یہ حضرت ِسیدنا عثمانِ غنی رضی اللّٰہ عنہ کی بے ادبی وبے حرمتی کا انجام ہے ۔ (شواہدالنبوۃ صفحہ ۲۱۰)


صَحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخوں کے ساتھ برتاؤ


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان ہے : میرے صحابہ کو گالی مت دو ، کیونکہ آخِر زمانے میں ایک قوم آئے گی ، جو میرے صَحابہ کو گالی دے گی ، پس اگر وہ (گالیاں دینے والے) بیمار ہو جائیں تو ان کی عِیادت نہ کرنا ، اگر مر جائیں تو ان کی نَمازِ جنازہ نہ پڑھنا ، ان سے ایک دوسرے کا نِکاح نہ کرنا ، نہ انہیں وِراثت میں سے حصّہ دینا، نہ انہیں سلام کرنا اور نہ ہی ان کے لئے رَحمت کی دُعا کرنا ۔ (تاریخ بغداد،۸/۱۳۸رقم:۴۲۴۰،چشتی)


اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اللّٰہ والوں کی بے ادبی وگستاخی کی لعنت سے محفوظ رکھے اوراپنے محبوبوں کی تعظیم وتوقیر اوران کے ادب واحترام کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔


فتاویٰ بزازیہ میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے ۔ حضرت علی ، طلحہ ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے ۔ (فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸)


امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں : جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (شرح فقہ اکبر صفحہ نمبر ۱۹۸)


حضرت مجدِّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : مختلف مکتوبات میں روافض کو کافر فرماتے ہیں، ایک رسالہ مستقل ان پر لکھا ہے جس کا نام رد روافض ہے، اس میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اس میں شک نہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ میں سب سے افضل ہیں، پس یہ بات ظاہر ہے کہ ان کو کافر کہنا ان کی کمی بیان کرنا کفر و زندیقیت اور گمراہی کا باعث ہے ۔ (ردّ روافض صفحہ ۳۱)


فتاویٰ عالمگیری میں ہے : روافض اگر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کریں اور ان پر لعنت کریں تو کافر کافر ہیں، روافض دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور کافر ہیں اور ان کے احکام وہ ہیں جو شریعت میں مرتدین کے ہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری صفحہ ۲/۲۶۸،چشتی)


حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ اپنی کتاب مسویٰ شرح مؤطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی خود کو مسلمان کہتا ہے لیکن بعض ایسی دینی حقیقتوں کی جن کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے قطعی ہے ایسی تشریح و تاویل کرتا ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین رضی اللہ عنہم اور اجماعِ امت کے خلاف ہے تو اس زندیق کہا جائے گا اور وہ لوگ زندیق ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اہل جنت میں سے نہیں ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کسی کو نبی نہ کہا جائے گا ، لیکن نبوت کی جو حقیقت کسی انسان کا اللہ کی طرف سے مبعوث ہونا ، اس کی اطاعت کا فرض ہونا اور اس کا معصوم ہونا ، یہ سب ہمارے اماموں کو حاصل ہے ، تو یہ عقیدہ رکھنے والے زندیق ہیں اور جمہور متأخرین حنفیہ، شافعیہ کا اتفاق ہے کہ یہ واجب القتل ہیں ۔ (مسویٰ شرح مؤطا محمد)


درّ مختار میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کو برا بھلا کہنے والا یا ان میں سے کسی ایک پر طعن کرنے والا کافر ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔ (درمختار)


علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائے یا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرے تو اس کے کفر میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔ (شامی:۲/۲۹۴)


علامہ سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل حق کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام امور میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ حق پر تھے اور فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین عادل ہیں اور ساری جنگیں اور اختلافات تاویل پر مبنی ہیں ان کے سبب کوئی بھی عدالت سے خارج نہیں اس لیے کہ وہ مجتہد ہیں ۔ (الشرف المؤبد صفحہ 104)


حدیث میں ہے کہ جس نے میرے صحابہ کرام کو گالی دی اس پر اللہ اور رسول اور فرشتے اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ۔ (برکات آل رسول صفحہ 383) ۔ (طالبِ دعا و دعاگو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔