Tuesday, 4 January 2022

نعرہ تحقیق حق چار پر اعتراض کا جواب

 نعرہ تحقیق حق چار پر اعتراض کا جواب

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : جس طرح پنجتن پاک نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ، حضرت علی ، حضرت سیدہ فاطمہ ، حضرات امام حسن و حسین رضی اللہ عنہم احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں کہا جاتا ہے جبکہ باقی سب آل و ازواج رضی اللہ عنہم پاک ہیں حدیث مبارکہ کو لے کر پنجتن پاک کہتے ہیں تو اسی طرح نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سارے صحابہ رضی اللہ عنہم حق ہیں مگر اُن سب میں خلفاۓ راشدین رضی اللہ عنہم کے فضاٸل سب سے زیادہ ہیں اس لیے حق چار یار کا نعرہ لگایا جاتا ہے ۔ جب پنجتن کہنے پر کوٸی اعتراض نہیں تو تفضیلی نیم رافضی مفتیو ، پیرو ، خطیبو اور اجہل نقیبوں پھر نعرہ تحقیق حق چار یار پر تمہیں تکلیف کیوں ہے ؟


فقیر ڈاکٹر فٕض احمد چشتی کے متبی و مشفق استاذ ملک المدرسین ، استاذ الکل ، جامع المعقول والمنقول ، موجودہ دور کے کئی شیوخ الحدیث کے استاد علامہ حافظ عطاء محمد بندیالوی چشتی گولڑوی علیہ الرحمہ اپنی مشہور زمانہ تصنیف سیف العطا میں نعرہ تحقیق حق چار یار کے متعلق رقم فرما ہیں کہ : نعرہ تحقیق حق چار یار سے منع کرنے والا رافضی ہے اور منافق ہے بلکہ اس نعرہ کا مرتبہ نعرہ حیدری اور نعرہ غوثیہ سے مقدم تر اور بلند تر  ہے ۔ کوئی صحیح العقیدہ سنی اس نعرہ سے نہیں روک سکتا کیونکہ حق چار یار قدیماً اہلسنت کا شعار اور اہلسنت کی علامت ہے ۔ اور جو خود کو سنی کہلوانے والا اگر اس نعرہ سے روکے تو وہ باطناً رافضی ہے اور تقیہ کے طور پر بظاہر اہلسنت ہے ۔ (سیف العطا صفحہ نمبر 141,, 142،چشتی)


حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے ، انہوں نے اپنی بیٹی میری زوجیت میں دی ، مجھے اپنی اونٹنی پر سوار کرکے مدینہ پاک لے گئے اور بلال کو اپنے مال سے آزاد کیا ۔ اللہ تعالی عمر پر رحم فرمائے ، وہ حق بولتے ہیں اگرچہ کڑوا ہو ۔ اللہ تعالی عثمان غنی پر رحم فرمائے ، ملائکہ ان سے حیا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی علی پر رحم فرمائے ، یا اللہ علی جہاں چلے حق کو اس کے ساتھ چلا دے ۔ (سنن التر مذی، کتاب المناقب، باب مناقب علی ۔۔۔ الخ ، الحدیث : ۳۷۳۴، ج۵، ص۳۹۷)


لفظ یار کا معنی خلیل سے کرنا اور اردو میں صحابہ کیلئے اس کے استعمال کو غلط قرار دینا کسی بھی لغت کے اعتبار سے درست نہیں ۔


خلیل کے لغوی اور اصطلاحی معنی


خَلِیۡلًا : گہرا دوست۔ خُلَّت کے معنی ہیں غیر سے مُنقطع ہوجانا، یہ اس گہری دوستی کو کہا جاتا ہے جس میں دوست کے غیر سے اِنقِطاع ہو جائے ۔


ایک معنیٰ یہ بھی ہے کہ خلیل اس محب کو کہتے ہیں جس کی محبت کامل ہو اور اس میں کسی قسم کا خَلَل اور نقصان نہ ہو. یہ معنیٰ حضرت ابراہیم عَلَیْه الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں پائے جاتے ہیں ۔


نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خلیل بھی ہیں جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : بےشک اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضرت ابراہیم عَلَیْه الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنا خلیل بنایا اسی طرح مجھے بھی اپنا خلیل بنایا ہے ۔ (مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب النهى عن بناء المساجد علی القبور ۔ الخ ، صفحہ ۲۷۰ الحدیث : ٢٣،چشتی)


تعريف الخُلَّة


ابن اثیر علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ خلیل اس دوست کو کہتے ہیں جس کی دوستی اور محبت دلوں میں پیوست ہوگئی ہو ۔

قال ابن الأ‌ثير: الخُلة بالضم: الصداقة والمحبة التي تخللت القلب، فصارت خلا‌له؛ أي: في باطنه ۔

گویا خلیل کا معنی اردو میں یار سے کیا جاسکتا ہے ، لیکن نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے اس محبت کو اللہ تبارک و تعالی کیلئے خاص کردیا تھا ۔


لفظ یار کیلئے قرآن مجید میں مستعمَل لفظ :

خِدْنُ [عام] (اسم) = دوست ، یار ، ساتھی ۔


ہم راز ، یارِ غار ، گہرا دوست (مذکر و مؤنث دونوں کے لئے) ج : أخدان ۔


قرآن پاک میں ہے : وآتوھن اجورھن بالمعروف محصنات غیر مسافحات ولا متخذات اخدان ۔


دوسری جگہ ہے : ولا متخذی اخدان ۔ کہ یہ عورتیں یار نہ بنائیں ۔


هو خِلْصِيْ (عام)


(اسم) : وہ میرا یارِ غار ہے ۔


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کےلیے لفظ “خلیل” استعمال کرنا


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : مجھے میرے خلیل نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی کہ مرتے دم تک انکو نہ چھوڑوں: ہر مہینے کے تین روزے ، چاشت کی نماز ، اور سونے سے پہلے وتر ۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: أوصاني خليلي بثلاث لا أدعهن حتى أموت: صوم ثلاثة أيام من كل شهر، وصلاة الضحى، ونوم على وتر ۔ (رواه البخاري:1124، ومسلم:721)


حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل نے سات چیزوں کا حکم دیا…الخ ۔

أمَرَني خَليلي صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بسَبعٍ: أمَرَني بحُبِّ المَساكينِ، والدُّنُوِّ منهم، وأمَرَني أنْ أنظُرَ إلى مَن هو دوني، ولا أنظُرَ إلى مَن هو فَوْقي، وأمَرَني أنْ أصِلَ الرحِمَ وإنْ أدبَرَتْ، وأمَرَني ألَّا أسأَلَ أحَدًا شيئًا، وأمَرَني أنْ أقولَ بالحقِّ، وإنْ كان مُرًّا، وأمَرَني ألَّا أخافَ في اللهِ لَومةَ لائمٍ، وأمَرَني أنْ أُكثِرَ من قولِ: لا حَولَ ولا قُوَّةَ إلَّا باللهِ؛ فإنَّهُنَّ من كَنزٍ تحتَ العَرشِ ۔ (الراوي: أبوذر الغفاري ۔ المحدث شعيب الأرناؤوط ۔ المصدر : تخريج المسند ۔ الصفحة أو الرقم: 21415 ۔ خلاصة حكم المحدث: صحيح)


صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کو خلیل اس لیے کہا کہ وہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ سے اپنی محبت کی شدت کو بیان کرنا چاہتے تھے ۔

قولَه : “خليلي” مكانَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ؛ إظهارًا لغايةِ تعطُّفِه وحبِّه الشديدِ للنبيِّ صلَّى اللہ علیه وسلم ۔


حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ :  صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کو خلیل کہا کیونکہ وہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ اپنے تعلق پر فخر کرنا چاہتے تھے اور اہل اللہ کی صحبت واقعی باعث افتخار ہے بشرطیکہ اس میں خود کی بڑائی مقصود نہ ہو ۔

وقوله : “خليلي”. قال الحافظ ابن حجر في فتح الباري: ويؤخذ منه الافتخار بصحبة الأكابر، إذا كان ذلك على معنى التحدث بالنعمة والشكر لله لا على وجه المباهاة ۔


حدیث اور صحابی رضی اللہ عنہ کے قول میں تعارض کا جواب


حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ :  صحابی رضی اللہ عنہ کا خلیل کہنا نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کی حدیث سے متعارض نہیں کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے خود کسی کو خلیل بنانے سے منع فرمایا (یعنی کہ میں دنیا میں کسی کو خلیل نہیں بناؤنگا) لیکن کوئی مجھے خلیل بنائے اس سے منع نہیں فرمایا ۔ گویا ابوہریرہ اور ابوذر رضی اللہ عنہما یہ بتارہے ہیں کہ ہمارے دل میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کی محبت پیوست ہوچکی اور آپ علیہ السلام ہمارے خلیل بن چکے ۔

وليس في قول أبي هريرة رضي الله عنه تعارض مع قوله عليه الصلاة والسلام : لو كنت متخذا من أمتي خليلا لاتخذت أبابكر خليلا، ولكن صاحبكم خليل الله ۔ (متفق عليه) لأن أباهريرة لم يُخبر أن النبي صلى الله عليه وسلم اتَّخَذه خليلا، ولكنه يُخبر عن نفسه أن النبي صلى الله عليه وسلم خليله، أي أن الْخُلّة مِن جِهة أبي هريرة رضي الله عنه ۔


اردو زبان میں لفظ “یار” کا استعمال


اردو لغات میں یار کا معنی دوست ، ساتھی کے کیا گیا ہے ۔ مطلب کا آشنا ، دوست ، ساتھی ، یار ۔


معترضین کا یہ کہنا کہ لفظ یار اور خلیل کا معنیٰ ایک ہے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے کسی انسان کےلیے اس لفظ کو استعمال نہیں فرمایا لہٰذا ہم بھی کسی کو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کا یار نہ کہیں ۔ اس بات سے بلکل بھی اتفاق نہیں کیونکہ ہر زبان کی اپنی اصطلاحات ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر کچھ الفاظ کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ اردو زبان میں یار کا استعمال بہت قریبی ساتھی اور جگری دوست کیلئے ہوتا ہے اور چاروں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کے قریبی ساتھی تھے ، لہٰذا چار یار کا لفظ استعمال کرنا کسی صورت بھی غلط نہیں ۔


چار یار با صفا حق کی کتابیں چار ہیں 

آپ جن کو منشیٔ تقدیر نے انشا کیا


یعنی بوبکر و عمر عثمان و حیدر بالیقیں

جن کو چار ارکان دین پاک ہے مولیٰ کیا


صورت اربع عناصر تھا بہم چاروں میں ربط

ربع مسکوں میں انہوں نے دین کو احیا کیا


حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا : ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ان چاروں کی محبت صرف قلب مومن میں ہی جمع ہو سکتی ہے ۔ (رضی اللہ عنہم) ۔ (کنز العمال، کتاب الفضائل، الخلفاء مجتمعۃ، الحدیث :  ۳۳۱۰۱، ج۶، الجزء :  ۱۱، صفحہ ۲۹۳،چشتی)


نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  ارشاد فرماتے ہیں : بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے صحابۂ کرام کو تمام مخلوق پر فضیلت دی سوائے انبیاء و مرسلین کے ، پھر میرے صحابہ میں سے چار ابو بکر ، عمر، عثمان اور علی کو چن لیا ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (المجروحین لابن حبان، عبد اللہ بن صالح کاتب اللیث المصری، الرقم : ۵۶۸، ج۱، ص۵۳۵)


حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : ’’میرے ان چاروں صحابہ ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی رضی اللہ عنہم سے محبت کرنے والے اللہ کے دوست ہیں اور ان سے بغض اور نفرت رکھنے والے اللہ کے دشمن ہیں ۔ (الریا ض النضرۃ ، جلد ۱ صفحہ ۴۸،چشتی)


نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :  بے شک  اللہ تعالیٰ نے تم پر ابوبکر ، عمر ، عثمان اور علی (رضی اللہ عنہم) کی محبت کو فرض کر دیا ہے ، جیسے نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج کو تم پر فرض کیا ہے تو جو ان میں سے کسی ایک سے بھی بغض رکھے   اللہ تعالیٰ اس کی نمازقبول فرمائے گا ، نہ زکوٰۃ ، نہ روزہ اور نہ ہی حج ۔ اور اسے قبر سے جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔ (مسند الفردوس ، باب الالف، الحدیث۶۱۹، ج ۱، ص۱۰۱)


حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن عرش کے نیچے منادی نداکرے گا : اصحاب مُحَمَّد کہاں ہیں ، پھر ابو بکر وعمر ، اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم آئیں گے ۔


حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کےلیے کہا جائے گا جنت کے دروازے پر ٹھہر جائیں اور جسے چاہیں اللہ کی رحمت سے داخل کریں اور جسے چاہیں اللہ کے علم کے ساتھ بلائیں ۔ اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کےلیے کہا جائے گا میزان کے پاس ٹھہر جائیں جسے چاہیں اللہ کی رحمت کے ساتھ بھاری کریں اور جسے چاہیں اللہ تعالیٰ کے علم کے ساتھ ہلکا کریں ۔ اور حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کےلیے دوحلے آئیں گے اور انہیں کہا جائے گا دونوں پہن لیں اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گاکہ میں نے دونوں کو تیرے لیے اس وقت بنایا جب آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا ۔ اور حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو عصائے مزین عطا کیا جائے گا ، جو اس درخت سے بنایا گیا ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے دست قدرت سے جنت میں لگایا ۔ (تاريخ مدينۃ دمشق ، ج۴۴، ص ۱۹۱،  الریا ض النضرۃ،  ج۱، ص۵۴)


حضرت ایوب سختیانی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جس شخص نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سےمحبت کی اس نے دین کو قائم کیا اور جس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے محبت کی اس نے اپنا راستہ روشن کرلیا اور جس نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے محبت کی وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے چمک گیا اور جس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی اس نے مضبوط گرہ کو تھام لیا اور جو شخص نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اصحاب کےلیے اچھا عقیدہ رکھتا ہے اور ان کےلیے اچھی بات ہی کہتا ہے وہ نفاق سے محفوظ ہے ۔ (تاریخ مدینۃ دمشق ، جلد ۴۲ صفحہ ۵۳۰)


چند دنوں سے بعض حضرات کہ جن میں سے کچھ کے نام کے ساتھ لفظ سید استعمال ہوتا ہے اور کچھ کے نام کے ساتھ لفظ شاہ اور بعض کے نام کے ساتھ مختلف نسبتیں ۔ یہ اعتراض کرتے نظر آتے ہیں کہ نعرہ تحقیق حق چار یار نہ لگایا جائے ، اس سے باقی صحابہ کی توہین ہوتی ہے ، بلکہ حق چار یار کی جگہ حق سب یار لگایا جائے ۔ جبکہ حقیقت میں حق چار یار کی جگہ ان کا حق سب یار کہنا یہ بھی ایک طرح کا ان کا طریقہ واردات ہے ، ان کو پریشانی محافل میں صرف ذکر شیخین کریمین رضی اللہ عنہما سے ہے ۔ وہ حضرات اپنی محافل میں یہ نعرہ نہیں لگنے دیتے ، دوسروں کو کھلے عام اس نعرہ سے روکتے ہیں ، ان میں سے بعض تو اس موضوع پہ مناظرہ بھی کرتے رہے کہ نعرہ حق چار یار غلط ہے ، اور بعض تو ایسے ہیں کہ اگر انطکے سامنے حق چار یار کا بورڈ نظر آیا تو انہوں نے تقریر بعد میں شروع کی ، حق چار یار کا بورڈ پہلے نظروں سے اوجھل کروایا ۔ وہ بیرون پرور حضرات حق چار یار کی نفی اور حق سب یار کے اثبات پر دلیل یہ دیتے ہیں کہ حق چار یار کے نعرہ سے یہ لازم آتا ھے کہ چار یار کے سوا کوئی صحابی حق پر نہیں ، ایسے عقائد اہلسنت سے انحراف کرنے والے حضرات کو یہ پتہ نہیں کہ یہ اعتراض تب لازم آتا جب اس نعرہ میں کوئی کلمہ حصر ہوتا ، مثلا یوں ہوتا کہ ، نہیں حق مگر چار یار ، یا  یہ ہوتا کہ حق پر صرف چار یار ہیں ، حالانکہ اس نعرہ میں دیدہ کور کو بھی نظر آرہا ہے کہ کلمہ حصر نہیں ہے ۔ علم اصول میں ھے کہ محض کسی کے ذکر سے دوسرے کی نفی نہیں ہوتی ۔ اس نعرہ کا تو صرف یہ معنی ہے کہ مختلف آیات کے مصداق اور کثیر مروی احادیث میں ان چار یاروں کے اکٹھے ذکر ہونے کی خصوصیت کے ساتھ یہ حق پر ہیں ، جیسا کہ کئی احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے ان چار یاروں کی شان کو یکے بعد دیگرے ایک ہی حدیث میں بیان فرمایا ۔

دوسرے اصحاب کے حق پر ہونے کی نفی تو نہیں ہے ۔ اگر ان دانشمندان حضرات کی یہ منطق تسلیم کرلی جائے تو جب یہ کلمہ پڑھتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تو لازم آئے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سوا کوئی رسول اللہ نہیں ہے تو اب یہ حضرات اپنی منطق کے بقول دوسرے رسل علیہم السلام کے انکار کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے ، تو اب ان کی اپنی منطق کے تحت ان کے ایمان کا کیا بنے گا ؟


ان سب خرابیوں کا سبب رافضیوں کے ساتھ یارانہ اور بیرون پروری ہے ، اللہ کریم عقائد اہلسنت پر خاتمہ عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی خلیفہ مجاز پاکپتن شریف)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...