بریلوی اہل سنت و جماعت کی پہچان (پنجم)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارٸینِ کرام : جنوبی ایشیا میں عقیدے کے لحاظ سے ابتدائی اہل سنت و جماعت سنی مسلمانوں کو جدید دور میں بریلوی کہا جاتا ہے ۔
انگریزی وکیپیڈیا کے مطابق ان کی تعداد 200 ملین سے زائد ہے ۔
انگریزی وکیپیڈیا کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق انڈیا ٹائم کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہے ۔
اسی طرح ہیریٹیج فاؤنڈیشن ، ٹائم اور واشنگٹن پوسٹ کے اندازے کے مطابق اسی طرح کی اکثریت پاکستان میں ہے ۔
سیاسیات کے ماہر روہن بیدی کے تخمینہ کے مطابق پاکستان کے مسلمانوں میں سے 60 فیصد بریلوی ہیں ۔
برطانیہ میں پاکستانی اور کشمیری تارکین وطن (مسلمانوں) کی اکثریت بریلوی ہے ، جو دیہات سے آئے ہیں ۔
لفظ بریلوی اہل سنت و جماعت کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کےلیے ایک اصطلاح (پہچان) ہے جیسا کہ ہم سابقہ حصّوں میں لکھ چکے ہیں ۔ اس کی وجہ 1856ء مطابق 1272 ہجری میں پیدا ہونے والے ایک عالم دین کا علمی کام ہے ۔ ان کا نام مولانا احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ ہے ۔ وہ بھارت (برطانوی ہند) کے شمالی علاقہ جات میں واقع ایک شہر بریلی کے رہنے والے تھے 1921ء مطابق 1340 ہجری میں ان کا انتقال ہوا ۔ بریلی ان کا آبائی شہر ہے ۔ انہیں امامِ اہل سنت اور اعلیٰ حضرت کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے ۔
دنیا بھر کے اکثریتی مسلم علماء کی نظر میں وہ چودھویں صدی کے ابتدائی دور کے مجدد تھے انہیں مجدد دین و ملت کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ آج کے دور میں میڈیا اور تعلیمی ادارے مسلمانوں کی بین الاقوامی اکثریت اہل سنت وجماعت کو بریلوی کے عنوان سے جانتے ہیں ۔ یہ وہی جماعت ہے جو پورانے اسلامی عقائد پر سختی سے قائم ہے اور مغربی مستشرقین کے بنائے ہوئے جدید شرپسند اور فتنہ پرور فرقوں کے خلاف برسرِ پیکار رہتی ہے ۔
اہل سنت و جماعت بریلوی پورانے دور کے بزرگ صوفیاء اور اولیاء کے طور طریقے اپنائے ہوئے ہے اور جنوبی ایشیا میں صدیوں پہلے سے موجود سنی اکثریت کی نمائندہ ہے ۔ البتہ پچھلے چند برسوں سے چند جدید فرقوں کے پروپیگنڈے سے اہل سنت و جماعت کو بریلوی جماعت یا بریلوی مسلک کہا جاتا ہے حالانکہ اپنے عقائد اور طرز عمل میں یہ قدیم اہل سنت و جماعت کی نمائندہ ہے ۔ ان کے عقائد قرآن مجید اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے واضح (ثابت) ہیں ۔
ان کے عقائد کی بنیاد
توحید باری تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت پر کامل ایمان ، تمام نبیوں اور رسولوں پر یقین ، فرشتوں پر ، عالَم برزخ پر ، آخرت پر ، جنت اور دوزخ پر ، حیات بعد از موت پر ، تقدیر من جانب اللہ پر اور عالَم امر اور عالَم خلق پر ہے ۔ وہ ان تمام ضروریات دین اور بنیادی عقائد پر ایمان رکھتے ہیں جن پر شروع سے اہل اسلام ، اہل سنت و جماعت کا اجماع چلا آرہا ہے ۔
فقہی لحاظ سے وہ چاروں اٸمہ علہم الرحمہ کے ماننے والوں کو اہل سنت و جماعت ہی سمجھتے ہیں ۔ وہ ائمہ اربعہ امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ۔ کے باہمی علمی تحقیقی اجتہادی اختلاف کو باعث برکت اور رحمت سمجھتے ہیں ۔ اور چاروں فقہی مذاہب حنفی ،
شافعی ، مالکی ، حنبلی کے ماننے والے راسخ العقیدہ لوگوں کو اہل سنت و جماعت سمجھتے ہیں چاہے ان میں سے کوئی اشعری ہو یا ماتریدی مسلک کا قائل ہو ۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ تصوف کے چاروں سلسلوں کے تمام بزرگوں کا احترام کرتے ہیں اور ان کے معتقد ہیں ۔
صدیوں سے اہل سنت و جماعت کے لوگ قادری ، چشتی ، سہروردی ، نقشبندی ، سلسلوں سے وابستہ رہے ہیں اور ان سلسلوں میں اپنے پیروں کے ہاتھ پر بیعت کرتے رہے ہیں ۔
اس جماعت کے حق پر ہونے کی اک یہ بھی دلیل ہے کہ تمام اولیاء کرام اسی جماعت اہلسنت سے وابستہ تھے یعنی یہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ، اولیاءاللہ کے طور طریقے پر عمل پیرا ہیں ۔ اب بیسویں صدی کے اختتام سے منہ زور میڈیا کے بل بوتے پر ان سب سلاسل کو بریلوی مکتبہ فکر کی شاخیں بتایا جا رہا ہے ۔ شاید مغربی میڈیا اور اس کے پروردہ لوگ پاک و ہند سے باہر دنیائے اسلام کو کوئی غلط تاثر دینا چاہتے ہیں اور اہلسنت و جماعت کے نام پر چھوٹی چھوٹی فرقہ ورانہ دہشت گرد جماعتیں بنا کر فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں ۔ افریقہ کے مسلم ممالک بھی اس قسم کی سازشوں کی زد میں ہیں جیسا کہ صومالیہ وغیرہ ۔
مسلمان ہمیشہ سے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتے آئے ہیں اور آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی تک یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے ، سن 2012 ء میں جب عالم مغرب خصوصاً امریکی انتظامیہ کی درپردہ حمایت میں ایک گستاخانہ فلم منظر عام پر آئی تو ملک مصر سے شروع ہونے والا احتجاج پوری دنیا میں پھیل گیا خصوصاً مسلم ممالک نے اس کا شدت سے رد کیا ۔
پاکستان چالیس سے زائد اہل سنت و جماعت بریلوی تحریکوں کے ایک اتحاد نے ایک ہی وقت میں فلم کے خلاف احتجاج کیا اور اس فلم کی شدید مذمت کی ۔ اسی جذبہ حبِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تحت اہل سنت بریلوی کثرت سے درود پاک پڑھتے ہیں ۔ ان کی ایک پہچان یہ ھے کہ وہ یہ سلام کثرت سے پڑھتے ہیں ۔
اَلصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلَیْكَ یَارَسُوْلَ اللّٰه
اپنے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں وہ کسی قسم کے نازیبا الفاظ سننے یا کہنے کے قائل نہیں ہیں اس معاملے میں وہ انتہائی حساس پائے گئے ہیں ۔ ان کے عقیدہ کے مطابق اللہ عزوجل نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے پہلے اپنے نور سے پیدا فرمایا اس کے لیے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک مستند حدیث کا علمی حوالہ بھی دیتے ہیں ۔ وہ اپنے نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہر لحاظ سے آخری نبی اور آخری رسول مانتے ہیں ۔ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے ایک امتی کے طور پر لوٹ آنے پر ایمان رکھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح ظاہری موت کے بعد پہلے سے برتر مقام پر ہیں اور وہ ان کوعام لوگوں سے افضل مانتے ہوئے زندہ سمجھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک ان مقدس ہستیوں کو اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم عطا فرمایا ہوا ہے اور وہ نزدیک و دور سے دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں ۔
اہل سنت و جماعت بریلوی کے نزدیک اللہ عزوجل نے انبیاء کرام علیہم السلام کو بہت سے اختیارات دے رکھے ہیں جیسے عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کر دینا وغیرہ ۔
اہل سنت و جماعت بریلوی اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سالگرہ بارہ ربیع الاول کے دن کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عوامی جشن کے طور پر مناتے ہیں ۔
وہ اللہ کے نیک بندوں کی تعظیم کرتے ہیں اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری دیتے ہیں ان کےلیے ایصال ثواب کرنے کو جاٸز سمجھتے ہیں ۔
ان کے نزدیک اللہ عزو جل جسے اپنا محبوب بنالے اسے دین اسلام کا خادم بنا دیتا ہے ۔ وہ لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اللہ کےلیے قربانی کرتے ہیں اللہ کےلیے جیتے ہیں اور اللہ کےلیے ہی مرتے ہیں ایسے لوگ جب یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے تو پھر اس پر قائم بھی رہتے ہیں ان پر اللہ کی طرف سے فرشتے اترتے ہیں ان کےلیے نہ دنیا میں کوئی ڈر ہے اور نہ آخرت میں وہ غمگین ہوں گے ۔ اور ان کے لیے اللہ کے ہاں ایک بہترین مقام جنت ہے جس کا ان کے لیے وعدہ ہے ۔ اس دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ عز وجل ان کا دوست ہے ۔ اور ان کےلیے آخرت میں جو مانگیں اس کا ان کے رب کی طرف سے وعدہ ہے ۔
چونکہ وہ اللہ کے دوست اور اللہ ان کا دوست ہے لہٰذا ان کے نیک کاموں کا صلہ انہیں ظاہری زندگی ختم ہو جانے کے بعد ملتا ہے ۔ کیونکہ اللہ نے ان کے ساتھ اپنی دوستی کا وعدہ دونوں جہانوں میں فرمایا ہے ۔ انہیں انبیاء کرام علیہم السلام ، صدیقین ، شہیدوں اور صالحین کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا اور یہ اللہ کا فضل ہی تو ہے کہ نیک لوگ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب اور کامران ہیں ۔ جب ایسے لوگوں کے لیے اللہ کے انعامات اس قدر ہیں تو وہ بخشش و مغفرت کے بھی ضرور حق دار ہیں ۔
اہل سنت و جماعت ان بزرگوں سے دعا کرانے کے قائل ہیں اور ظاہری زندگی ختم ہو جانے کے بعد ان کی عظمت کے قائل ہیں اور ان کے توسل سے اللہ تعالیٰ سے مانگنے کو جائز سمجھتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک اگر اللہ چاہے تو یہ مقدس ہستیاں مدد بھی فرما سکتی ہیں ۔
ان کے نزدیک اپنے آقا کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، آپ کے اصحاب ، اہل بیت کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور نیک مسلمانوں کے مزارات پر حاضری دینا کتاب و سنت کی تعلیمات کےعین مطابق ہے ۔ لیکن وہ ان میں سے کسی بھی مزار ، دربار یا قبر کی عبادت کفر سمجھتے ہیں اور ان کو تعظیمی سجدہ کرنا حرام جانتے ہیں ۔
اہل سنت و جماعت بریلوی کے نزدیک مرد حضرات کا ایک مٹھی تک داڑھی رکھنا ضروری ہے اس کا تارک گنہگار ہے ۔
امام اہل سنت مولانا احمد رضا خان قادری محدث بریلوی علیہ الرحمہ نے 1904 میں جامعہ منظر اسلام بریلی شریف قائم کیا ان کے علمی کام کا دنیا بھر میں بہت چرچا ہے ۔ ان کی تحریک پاکستان کے قیام عمل میں آنے سے قبل کام کر رہی تھی بنیادی طور پر یہ تحریک جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے بنیادی عقائد کے دفاع کےلیے قائم کی گئی تھی عقائد کے دفاع کےلیےاہل سنت و جماعت بریلوی نے مختلف باطل مکاتب فکر اور تحریکوں کا تعاقب کیا اور ان کے ڈھول کا پول کھول دیا ۔
دیگر تحریکوں کے برعکس خطے میں سب سے زیادہ اہل سنت و جماعت بریلوی نے موہن داس کرم چند گاندھی کا ساتھ نہ دیا اور اس ہندو لیڈر کی سربراہی میں تحریک خلافت ، تحریک ترک موالات اور تحریک ہجرت کا مقاطعہ (بائیکاٹ) کیا وہ تمام ہر قسم کے کافر و مشرک کو مسلمانوں کا دشمن سمجھتے رہے ۔
اہل سنت و جماعت بریلوی تحریک پاکستان کے بنیادی حامی تھے اس کے قیام کےلیے انہوں نے بہت جد و جہد کی ۔
وہ بھی سُنی ہم بھی سُنی تو پہچان کیسے ؟
محترم قارئین کرام : جب داڑھی والوں نے گستاخی کرنا شروع کی ، جب ٹوپی والوں نے گستاخی کرنا شروع کی ، جب نماز پڑھنے والوں نے گستاخی شروع کی ، جب روزہ رکھنے والوں نے گستاخی شروع کی ، جب پیروں نے گستاخی شروع کی ، جب خطیبوں نے گستاخی شروع کی ، جب مریدوں نے گستاخی شروع کی ، جب نقیبوں نے گستاخی شروع کی ، جب قادری ، چشتی ، نقشبندی اور سہروردی کہلانے والوں نے گستاخی کرنا شروع کی ، تو پہچان کیسے کی جائے ؟
داڑھی سنیوں کی بھی ہے ، داڑھی اُن کی بھی ہے ، ٹوپی سنی بھی لگاتا ہے ، ٹوپی وہ بھی لگاتے ہیں ، نماز وہ بھی پڑھتے ہیں ۔ بظاہر ہم سے زیادہ پڑھتے ہیں ۔ اب شناخت کیسے کی جائے کہ وفادارِ رسول کون ہیں ؟ وہ بھی اہلسنت کہتے ہیں ، ہم بھی اہلسنت کہتے ہیں ، وہ بھی سُنی کہتے ہیں ، ہم بھی اپنے آپ کو سُنی کہتے ہیں ، تو بزرگوں نے کہا کہ اس کی شناخت ایسے کی جائے گی کہ نعرہ لگایا جائے گا ، مسلک اعلیٰ حضرت کا نعرہ لگایا جائے گا ، مسلک اعلیٰ حضرت (زندہ باد) مسلک اعلیٰ حضرت (زندہ باد) ۔ مسلک اعلیٰ حضرت کا نعرہ لگایا جائے گا تو شناخت ہوجائے گی کہ یہ وفادارِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ، یہ غدار رسول نہیں ہیں ۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ کے غدار نہیں ہیں ۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ کے وفادار ہیں ۔ اللہ سے یہی دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ! جب ہمارا خاتمہ ہو، جب ہم دنیا سے جائیں تو ہم مسلک اعلیٰ حضرت پر جائیں ۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے مسلک کا دامن چُھوٹا تو جنت کا راستہ چُھوٹا ۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے جو مسلکِ اعلیٰ حضرت کا نعرہ لگانے سے منع کرتے ہیں آمین ۔
عرف ناس شاہد ہے کہ اعلی حضرت کا لفظ اس زمانے میں” اہل سنت و جماعت” سے کنایہ ہوتا ہے ، جیسے حاتم کا لفظ سخاوت سے ،موسی کا لفظ حق، اور فرعون کا لفظ مبطل سے کنایہ ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ لفظ اہل سنت و جماعت کی شناخت اور پہچان بن چکا ہے ۔کسی بھی مقام پر کوئی شخص اگر لفظ "اعلی حضرت بول دیتا ہے تو سننے والے بلاتامل یقین کر لیتے ہیں اور ہر شخص سمجھ جاتا ہے یہ اہل سنت و جماعت سے ہے ۔
اجل علمائے مکہ معظمہ حضرت مولانا سید محمد مغربی رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث حرم مکہ فرماتے ہیں : جب ہندوستان سے کوئی آتا ہے تو ہم اس سے مولانا شاہ احمد رضا خان صاحب کے بارے میں پوچھتے ہیں اگر وہ ان کی تعریف کرتا ہے تو ہم جان لیتے ہیں کہ اہل سنت سے ہے اور اگر ان کی برائی کرتا ہے تو ہم جان لیتے ہیں کہ بدمذہب ہے ۔ یہی ہماری کسوٹی ہے پہچاننے کا ۔
حضرت علامہ سید محمد علوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ قاضی القضاۃمکہ معظمہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں فرماتے ہیں :کہ ہم اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب کو ان کی تصنیفات و تالیفات سے پہچانتے ہیں ان کی محبت سنیت کی علامت ہے اور بغض رکھنا بد مذہبی کی پہچان ہے ۔
الحاصل اعلی حضرت کا لفظ سنیت کی شناخت اور پہچان ہے ۔ عرف عام میں اہلسنت کا مترادف ہے اس لیے مسلک اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا معنی ہے مسلک اہل سنت جس کا اطلاق بلاشبہ جائز ہے ۔ ممکن ہے کسی کے دل میں یہ شبہ گزرے کہ جب اس کا معنی مسلک اہل سنت ہے تو پھر لفظ اعلی حضرت کے ذکر سے کیا فائدہ ہے ؟
اس کا جواب کسی ذی ہوش سے پوشیدہ نہیں آج حالت یہ ہے کہ سنی کا لفظ شیعہ کے مقابلے میں بولا جاتا ہے ۔ اس لیے سنی کا لفظ آج وہابیوں دیوبندیوں ، ندویوں وغیرہ سے امتیاز کےلیے کافی نہ رہا ، یہی حال آج لفظ اہل سنت کا بھی ہے ۔ وہابی اپنےکو وہابی اور دیوبندی اپنے کو دیوبندی نہیں کہتے بلکہ وہ بھی اپنے آپ کو اہل سنت ہی کہتے ہیں اور اپنے علماء کو حامی سنت اور امام اہل سنت کا خطاب دیتے ہیں ۔ اس لیے یہ لفظ بھی آج اہل سنت اور اہل بدعات وہابیہ و دیابنہ غیروں کے درمیان امتیاز کےلیے کافی نہ رہا ۔
اب وہ احباب جو کسی ذاتی رنجش اور باہمی چپقلش کی وجہ سے اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی شان گھٹانے میں لگے ہوئے ہیں تھوڑی دیر کےلیے خالی الذہن ہوکر ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ بدمذہبوں سے امتیاز کےلیے کونسا جامع مختصر لفظ انتخاب کیا جائے ، ہمیں یقین ہے کہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ مسلکِ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے لفظ سے زیادہ موضوع کوئی لفظ نہیں ، کیونکہ سنیت کا شعار یہی لفظ ہے ۔ اہل سنت کی شناخت یہی کلمہ ہے ، بدمذہبوں سے امتیاز اسی کا خاصہ ہے ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ باہمی اختلاف کے نتیجے میں کچھ کرم فرماؤں نے اسے سوالیہ نشان بنانے کی کوشش کی جو بے دلیل ہونے کی وجہ سے سابقہ اتفاق میں رخنہ انداز نہیں ہو سکتا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جسے مسلمان اچھا جانے وہ اللہ تعالی کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ مسند احمد بن حنبل ۔
صحابی رسول حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ قبر میں دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر یہ سوال کرتے ہیں کہ مادینک یعنی تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ کہتا ہے دینی الاسلام یعنی میرا دین اسلام ہے ۔ (مشکوۃ شریف صفحہ 25،چشتی)
اس حدیث میں ایک فردخاص کی طرف دین کی نسبت ہے تو اعلی حضرت کی طرف مسلک کی نسبت میں کیا قباحت ہے ، جبکہ لفظ اعلی حضرت معیار حق ہے ۔ اس تمہید کو ذہن میں رکھنے کے بعد ترتیب وار ہر سوال کا جواب ملاحظہ فرمائیے ۔
(1) مسلک اعلی حضرت ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ کا انعام ہوا ۔ قرآن شریف کی پہلی سورہ ،سورہ فاتحہ میں ہے صراط الذین انعمت علیہم” ان لوگوں کا راستہ جن پر اللہ تبارک و تعالی نے انعام فرمایا ۔
صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صراط مستقیم طریقہ اہل سنت ہے جو اہل بیت و اصحاب اور سنت و قرآن و سوادِ اعظم سب کو مانتے ہیں ۔
یہ وہ مسلک ہے جس پر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم رہے ۔ حدیث میں ہے صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ملت ناجیہ کون ہے ؟ سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں ۔بعض روایتوں میں ہے یعنی جماعت اہلسنت ہے ۔ (مشکوۃشریف صفحہ30)
یہ مسلک سوادِ اعظم ہے ۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : سواد اعظم کی پیروی کرو ۔
مبلغ اسلام حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ نے آخری وقت مدینہ منورہ میں یہ وصیت تحریر فرمائی تھی ۔” الحمدللہ میں مسلک اہل سنت پر زندہ رہا اور مسلک حق اہلسنت وہی ہے جو اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں میں مرقوم ہیں ، اور الحمداللہ آخری وقت اسی مسلک پر حضور پر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قدم مبارک میں خاتمہ بالخیر ہو رہا ہے ۔ (ماہنامہ رضائے مصطفی گوجرانوالہ شمارہ صفر 1416ھجری صفحہ 10 بحوالہ ماہنامہ ترجمان اہلسنت کراچی شمارہ ذی الحجہ 1397 ہجر ی،چشتی)
مسلک اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا ابھی جو تعارف کرایا گیا اس کے ثبوت کےلیے کھلے ذہن سے آپ کی تصانیف مبارکہ جیسے : ⬇
حسام الحرمین ،فتاوی الحرمین الدولۃ المکيہ، الکوکبۃالشہابيۃ، سبحان الصبوح، النہی الاکيد ،ازالۃ الاثار،اطائب الصیب، رسالہ في علم العقائد والکلام ،تمہيدايمان، الامن والعلا ،تجلی اليقين ،الصمصام ،رد الرفضہ ،جزاء الله يعجبه ،خالص الاعتقاء، انباء المصطفى، الزبده الزكيه،شمائم العنبر، دوام العيش، انفس الفكر،الفضل الموہبی ۔ ان ساری کتابوں کا مطالعہ کرنا کافی ہے ۔
جب یہ حقیقت بخوبی واضح اور عیاں ہوگئی کہ مسلک اعلی حضرت کا معنی مسلک حق اہلسنت و جماعت ہے ، تو ان امور میں جو موقف اور جو حکم اہل سنت کے نزدیک لفظ” اہل سنت و جماعت کا ہے وہی حکم مسلک اعلی حضرت کا بھی ہے ۔ اب ہر شخص اپنے طور پر انصاف اور دیانت کے ساتھ خود فیصلہ کرے اور عناد سے باز رہے ۔
ہم ان احباب سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ذرا یہ بھی سوچیں کہ وہ کس روش پرچل رہے ہیں ؟ کیا ٹھیک اس طرح کی باتیں ایک بدبودار غیر مقلد نہیں کرتا ہے ، کہ مسلمانوں کا مذہب تو صرف ایک اسلام ہے یہ چار مذاہب کہاں سے پیدا کیے گئے ۔ کیا حنفی ، مالکی ، شافعی ، حنبلی مذاہب اسلام کے زمانے میں تھے وغیرہ وغیرہ ۔ ٹھیک اسی طرح کی باتیں کیا تصوف کے دشمن مشرب قادری ، چشتی ، نقشبندی ، سہروردی پھر ان کے گوناگوں شاخوں کے بارے میں نہیں کرتے ؟ ذرا اور قریب آئیے کیا رضوی ، بریلوی اور اشرفی کہنا شدت پسندی ہے ؟ کیا اسلاف نے اپنے آپ کو رضوی کہا ہے ؟ یہ سب عامیانہ باتیں ہیں جو جاہل عوام کو فقہا ، صوفیا ، علماسے برگشتہ کرنے کےلیے ان کے معاند کہا کرتے ہیں ۔ تو ہمارے بعض احباب کو تو کم از کم ان کی روش پر نہ چلنا چاہیے جو لوگ عرف و عادت اور حالتِ زمانہ سے آنکھیں بند رکھتے ہیں ، انہیں یہی سب سوجھتا رہتا ہے ۔ فقہا فرماتے ہیں : جو زمانہ کے حالات سے واقف نہیں ہے تو وہ جاہل ہے ۔
اللّٰه عزوجل اہل سنت و جماعت بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے عاشقان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دنیا و آخرت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قرب نصیب فرمائے آمین ثم آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment