Sunday 2 January 2022

علما اور سیاست حصّہ اوّل

0 comments

 علما اور سیاست حصّہ اوّل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : شرعی احکامات پر عمل پیرا رہتے ہوئے عملی سیاست میں حصہ لینا ہر کسی کےلیے جائز ہے خواہ عالم ہو یا غیرعالم ۔ کیونکہ سیاست بذات خود کوئی ناجائز کام نہیں ہے ۔ یہ خیال آج کا نہیں بہت پرانا خیال ہے ، بعض لوگ پہلے بھی کہا کرتے تھے کہ  علماء کا سیاست سے کیا تعلق ؟ بات یہ ہے کہ جس عالم کے اندر صلاحیت ہو وہ صحیح طور پر سیاست  میں شریک ہو کر دوسروں کو اپنا ہم خیال بنالے گا ، غلط بات پر نکیر کرے گا ، صحیح راہ عمل پیش کرے گا ، اس کا  سیاست  میں شریک ہونا درست ومفید ہے ۔


آج کل ایک گمراہ کن غلطی عام طور پر ہمارے معاشرہ میں پائی جاتی ہے کہ علماء اسلام کو ملکی سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے بلکہ مساجد میں بھی صرف نماز ، روزہ اور حج وغیرہ عبادات و اخلاقیات ہی کی بات کرنی چاہیے ۔ اس کے علاوہ ملکی معاملات پر گفتگو کرنا اور عام لوگوں کے سیاسی مسائل میں دلچسپی لینا علماء کےلیے غیر ضروری بلکہ نامناسب ہے۔ یہ غلط فہمی سامراج اور اس کے آلۂ کار افراد نے اتنے منظم طریقہ سے پھیلائی ہے کہ آج سامراجی نظام اس غلط فہمی کے سہارے مساجد و مدارس دینیہ میں سیاسیات کے تذکرہ کو روکنے کےلیے قانونی اقدامات کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔


کیا علما کو عملی سیاست میں حصہ لینا چاہیے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے وقت دو باتیں پیش نظر رہنا چاہییں ۔ ایک تو یہ ہے کہ یہ شریعت کا نہیں ، حکمت وتدبر کا معاملہ ہے ۔ یہ جائز اور ناجائز کی بحث نہیں ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ شریعت نے علما کو سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا ہے یا انہیں اس کے لیے حکم دیا ہے ۔ جب ہم اس سوال کو موضوع بناتے ہیں تو ہمارے پیش نظر محض یہ ہے کہ اس سے دین اور علما کو کوئی فائدہ پہنچا ہے یا نقصان ؟ دوسری بات یہ کہ عملی سیاست سے ہماری مراد اقتدار کی سیاست (Power Politics) ہے یعنی اقتدار کے حصول کےلیے جدوجہد کرنا یا کسی کے عزل ونصب کے لیے کوئی عملی کردار ادا کرنا ۔


قرآن مجید کی راہنمائی یہ ہے کہ ایک عالم دین کا اصل کام انذار کرنا ہے ۔ (توبہ :۱۲۲) انذار یہ ہے کہ لوگوں کو خبردار کیا جائے کہ انہیں ایک روز اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہونا ہے اور ان اعمال کےلیے جواب دہ ہونا ہے جو وہ اس دنیا میں سرانجام دیں گے۔ اس جواب دہی کا تعلق اس کردار کے ساتھ ہے جو وہ اس دنیا میں ادا کریں گے ۔ اگر کوئی حکمران ہے تو اس کی جواب دہی کی نوعیت اور ہے ، اور اگر ایک عامی ہے تو اس کےلیے اور اسی انذار کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ علما دین کو اس طرح بیان کریں جیسے کہ وہ ہے۔ اگر دین کو کوئی فکری چیلنج درپیش ہے تو وہ دین کا مقدمہ لڑیں ۔ اگر مسلمان معاشرے میں کوئی علمی یا عملی خرابی در آئی ہے تو وہ اسے اصل دین کی طرف بلائیں۔ اس معاملے میں ان کی حیثیت ایک داروغہ کی نہیں ہے ۔ انہیں دین کا ابلاغ کرنا اور اسے دوسروں تک پہنچا دینا ہے ۔ اس کی ایک صورت ایسے مبلغین کی تیاری ہے جو اس کام کو لے کر معاشرے میں پھیل جائیں اور ایسے ادارے اور دار العلوم آباد کرنا ہے جہاں دین کے جید عالم تیار ہوں ۔ اس انذار کی ایک شکل عامۃ الناس کا تزکیہ بھی ہے ۔ یہ تزکیہ علم کا بھی ہوگا اور عمل کا بھی ۔ یہ وہ کام ہے جو ہمارے صوفیا کرتے رہے ہیں ۔ اس وقت تصوف ایک فلسفہ حیات کے طور پر زیر بحث نہیں ہے ۔ میں جس پہلو کی تحسین کر رہا ہوں ، وہ صوفیانہ حکمت عملی ہے جو خانقاہوں اور صوفیا کے حلقوں میں اختیار کی گئی ہے ۔


لہٰذا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ علماء کا کام نہیں ہے یا تو لاعلمی میں ایسا کہتے ہیں یا پھر ان کا ذاتی مفاد اس سے وابستہ ہے ۔ نیز جو لوگ بغیر کسی شرعی وجہ کے عملی سیاست میں حصہ لینے والے علماء سے بدگمان رہتے ہیں ان کا عمل بھی درست نہیں ہے ۔ البتہ یہ بھی ملحوظ رہے کہ موجودہ حالات میں سیاست کو انتہائی گندا کردیا گیا ہے ، لہٰذا اس میں رہتے ہوئے شرعی احکامات کی پاسداری کرنا اگرچہ ناممکن نہیں ہے، لیکن انتہائی مشکل ضرور ہے ۔ اس لیے اکثر علماء عملی سیاست میں حصہ نہ لینے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں ۔ الأمور بمقاصدہا ۔ (الأشباہ والنظاٸر ۵۳،چشتی)


علماء کیوں سیاست میں حصہ نہ لیں جب کہ سیاست شرعیہ ہی دین کی بنیادی روح ہے ، و اعدو لھم ماستطعتم من قوہ ۔ کے مقصد کے حصول کا واحد ذریعہ سیاست ہے کہ امت مسلمہ کو دین کے زریں اصولوں پر جمع کر ایک مضبوط قوت میں تبدیل کیا جائے ، یاد رکھیں وہ قوم ذلت و پستی کی گہری کھائیوں میں گر جاتی ہے جس کے علماء سیاست سے لاتعلق ہوجاتے ہیں ، احادیث مبارکہ اور ان کی تشریح میں اس نکتہ کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سیاست انبیاء علیہم السلام کا وظیفہ ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے : کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء ۔

بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کیا کرتے تھے ، اور دوسری جگہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : علماء امتي كأنبياء بني اسرائيل ۔ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں گے ، اب سوچنے کی بات ہے کہ جب سیاست انبیاء کا وظیفہ ہے تو اس کے معانی یہ ہوئے کہ جتنی بھی امتیں گزری ہیں رب کائنات نے ان امتوں کی  قیادت اور سیاست ان کے انبیاء کے ہاتھوں دے دی تھی ، جب نبوت کا دروازہ آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر  بند ہو گیا ، اور آپ نے یہ  ارشاد بھی فرما دیا کہ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہوں گے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ امت مسلمہ کو اگر صحیح سمت میں چلانے کی قدرت اور وسعت کوئی رکھتا ہے تو وہ علماء دین ہیں اس لیے کہ علماء ہی ۔ انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء ۔ کے مصداق ہیں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ سیاست جھوٹ کا نام ہے سیاست دغا اور دھوکے کا پلندہ ہے سیاست کی یہ بھونڈی تصویر بھی عوام کے ذہنوں میں ایک مقصد کے تحت پیدا کی گئی تاکہ عوام سیاست کو دین سے جدا سمجھ کو علماء کو مساجد اور منبروں تک محدود کردیں اور نااہل قسم کے ظالم حکمران ان پر مسلط رہیں اب اگر کوئی بھی ذی شعور شخص تھوڑا سا غور کرلے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ آخر عبادات تو دین اسلام کے آنے سے قبل بھی ہوتی تھیں رب ذوالجلال کے سامنے جھکنے والے تو پہلے بھی موجود تھے، بیت اللہ شریف کا طواف اور حج تو پہلے بھی جاری تھا ۔ پھر وہ کیا چیز تھی جو کہ اس معاشرے میں موجود نہیں تھی ۔ دین اسلام نے وہ نئی چیز "اسلامی نظام مساوات" کی شکل میں دی عدل و انصاف کی شکل میں دی انسانوں کے برابری کے حقوق کی شکل میں دی یہ تاریخ انسانیت میں پہلا موقع تھا کہ اسلام کے آنے کے بعد حبشہ کے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو جوتوں سمیت کعبہ پر چڑھا کر اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے کا کہا گیا یہ اسلام ہی تھا کہ جس نے عربی اور عجمی کی تفریق کو ختم کرکے تمام انسانوں کو ایک دوسرے کی نگاہوں میں برابر کردیا ۔


اگر شرعی اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاست تدبیر و انتظام کا نام ہے ۔ تدبیر و انتظام کرنا ایک ایسے معاشرے کا کہ جس کا نظام  معیشت و امن ان بنیادی اصولوں پر استوار ہو جو کہ ریاست مدینہ کے اصول تھے ، وہ معاشرہ کہ جس میں انسانوں کی طبعی ضرورتیں "کھانا پینا" کپڑا لتہ" مکان " تعلیم اور صحت " کے انتظامات تمام لوگوں کے لیے ایک جیسے ہوں اسلامی سیاست کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکے کہ ۔ جس میں کوئی انسان اپنی طاقت مال اور رعب کے نشے میں کسی کمزور پر ظلم نہ کرسکے ، ایک ایسا نظام جہاں کوئی شخص تعلیم سے بے بہرہ نہ رہ سکے - جہاں کوئی ذی آدم دواؤں کی عدم دستیابی یا مہنگا ہونے کے سبب ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہ مرے  - جہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہو - جہاں انسانی مساوات میں ذات پات کی تقسیم کو ختم کر دیا جائے ۔


سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں اور بادشاہوں نے ہر دور میں ہمیشہ یہ کوشش کی کہ سیاست کو دین سے جدا کر دیا جائے لہٰذا ایک مذموم سازش کے تحت یہ باتیں عام کی گئیں کہ دین صرف عبادات کا نام ہے ، سیاسی معاملات جیسا کہ ٹیکس وصول کرنا ، مخالفین سے جنگ یا صلح کرنا فوجداری اور دیوانی انتظامات یہ سب دین سے الگ ہیں جب کہ اگر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی مبارک پر غور کیا جائے تو بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ساری زندگی "جہاد اور عدل " کے قیام میں مصروف رہے ، نماز روزہ حج " فرض عبادات کے بعد جتنا بھی وقت ملتا وہ اسی طرح کے دنیاوی امور میں گزرتا ۔


قرآن کریم کی اشاعت ، باہر سے آنے والے وفود سے ملاقاتیں ، بادشاہوں کو قرآن کی دعوت دینا،مقدموں کے فیصلے لشکروں کی تیاری، مالیانے کی جمع  " تعلیم کا انتظام ، غریبوں اور بے کسوں کی خبر گیری ، ان کے قرضوں کی ادائیگی کا اہتمام ، یتیموں کے لیے رھائش کا انتظام" بیواؤں کی نگرانی ، غرض ہر وہ کام جسے بعد میں سیاسی قرار دے کر دین سے جدا کردیا گیا، جس سے علماء نے ہاتھ اٹھا لیا ، اسلامی تاریخ کا حصہ ہے پس اگر سیاست "مذہب" یا دین سے الگ کوئی چیز ہے اور سیاست کا تعلق صرف دنیاداری سے ہے تو کہنا پڑتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پاکیزہ اور برکت والی زندگی "دینی" سے زیادہ "دنیاوی" تھی، لہٰذا اس وقت علماۓ دین ، اور اکابرین امت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام الناس میں اسلامی نظام حکومت و سیاست کے حوالے سے شعور بیدار کریں تاکہ عوام انتخابات میں دینی سمجھ اور سلامی طرز نظام حیات کو سمجھنے والے علماء کےلیے اقتدار کی راہ ہموار کریں اور صحیح معنوں میں مملکت اسلامیہ پاکستان میں  امن آشتی ، انسانی حقوق و مساوات ، کا بول بالا ہو ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیاسی زندگی یا ان کے نظامِ سیاست پر گفتگو کی جاتی ہے تولوگوں کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم توایک روحانی پیشوا اور رسولِؐ خداتھے۔ عبادت اور تعلق باللہ کے داعی تھے۔ ان سے پہلے جو رسول دنیا میں تشریف لائے، وہ بھی روحانی پیشوا تھے۔ سیاست سے ان کاکیا تعلق ہے اور ان کی سیاسی زندگی کا مطلب کیاہے؟یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ آج کے زمانے میں سیاست کی جو شکل وصورت ہمارے سامنے موجود ہے، وہ ظلم وزیادتی، جھوٹ، فریب، دھوکا اور وعدہ شکنی پر قائم ہے۔ اس میں بدعنوانی اور انسانوں کا استحصال بھی شامل ہے۔ اس سیاست میں جولوگ شامل ہیں خواہ انتخابی سیاست ہو یا آمرانہ سیاست، ان کے بارے میں لوگوں کی رائے اچھی نہیں ہے۔ لہٰذا، ایسی سیاست سے نبی اور رسول کا تعلق کیسے ہوسکتاہے!

’سیاست‘ عربی زبان کی ایک اصطلاح ہے، جس کے معنی اصلاحِ ذات، اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ حکومت کے ہیں: اَلْقِیَامُ عَلَی الشَّیْ ءِ بِـمَا یَصْلُحُہٗ ۔ (الزبیدی، تاج العروس، ج۱۶،ص ۱۵۷،چشتی)


سیاست کا مطلب ایسی تدبیر کرنا ہے جس سے کسی چیز کو استحکام مل جائے ، اس کی اصلاح ہوجائے اور وہ اپنی اصلی حالت پر قائم ہوجائے ۔ معروف معنی میں سیاست کا مفہوم ملک اور عوام کی اصلاح ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمْ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ھَلَکَ  نَبِیٌّ خَلَفَہٗ  نَبِیٌّ وَ اِنَّہٗ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ ۔ (صحیح البخاری، کتاب الانبیاء: ۳۲۸۶) ۔ نبی اسرائیل کی سیاست ، یعنی قیادت انبیاء کرام فرماتے تھے ۔ جب کوئی نبی انتقال کر جاتے تو ان کی جگہ دوسرے نبی آتے ، اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا البتہ خلفاء ہوں گے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے دنیا میں دو طرح کے مذاہب اور نظریے تھے ۔ ایک تو یہ تھا کہ اگر آپ روحانیت چاہتے ہیں تو ’رہبانیت‘ اختیارکریں، یعنی دنیاسے کنارہ کشی کریں ۔ اور اگر آپ سیاست کو دیکھناچاہتے ہیں تو ملوکیت کی طرف دیکھیں ۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ جملہ منسوب ہے کہ جو ’’خدا کاہے وہ خدا کو دو اور جو قیصر کا ہے وہ قیصر کودو‘‘ ۔ یعنی خدا کے حقوق الگ تھے اور قیصر کے حقوق الگ تھے ۔ یہ تقسیم خدا اور قیصر کے حقوق کے درمیان تھی، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس تفریق کو مٹایا اور دنیا کو یہ نظریۂ حکومت دیا کہ انسان زمین کا’مالک‘ نہیں بلکہ ’امین‘ ہے۔کوئی چیز انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہے بلکہ ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے۔ انسان اس کا امانت دار ہے ۔


اقتداراعلیٰ اور حاکمیت مطلقہ صرف اللہ کےلیے ہے ، باقی سارے انسان اس کے بندے اورغلام ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کا یہ پیغام انسانوں تک پہنچایا : وَہُوَ الَّذِيْ  فِي السَّمَاۗءِ اِلٰہٌ  وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰہٌ ۝۰ۭ وَہُوَالْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ۝۸۴ ۔ (الزخرف ۴۳ : ۸۴) وہی اللہ جو آسمان میں معبود ہے وہی زمین میں بھی معبود ہے او روہ حکمت اور علم والا ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انسانوں کو حکومت سازی کایہ نظریہ دیا:اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۝۰ۭ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ۝۵۴ (الاعراف ۷: ۵۴) ۔ جس نے پیدا کیا ہے ، اس کی مخلوق پر حکم اسی کا چلے گا ۔بابرکت ہے اللہ تمام جہانوں کا ربّ ۔

چوں کہ انسانوں کو پیدا اللہ تبارک وتعالیٰ نے کیاہے، اس لیے اس کی مخلوق پر کسی اورکا حکم نہیں چلے گا بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہی حکم چلے گا۔


مستشرقین کی غلط فہمی : بیسویں صدی میں مشہور برطانوی مستشرق منٹگمری واٹ نے دو کتابیں لکھیں : Mohammad at Mecca  اور Mohammad at Madeena  پھر ان دونوں کتب کو ایک مجموعے Mohammad Prophet and Statesman کے نام سے شائع کیا۔ موصوف نے یہ فتنہ پھیلایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نعوذباللہ مکہ مکرمہ میں تو ایک داعی ، ایک روحانی پیشوا اور ایک پیغامبر تھے، لیکن جب وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں نعوذباللہ وہ ایک حکمران تھے، ایک آمر تھے ۔ (محمد پرافٹ اینڈ سٹیٹسمین، ۲۰۱۰ء) ۔ یہ فتنہ انھوں نے اس لیے پھیلایا کہ ان کی تعلیم و تربیت میں مذہب اور سیاست کی دوئی شامل ہے۔ ان کے سامنے عیسائیت کی تاریخ ہے ۔ وہاں خدا کا اقتدار اور اختیار الگ ہے اور قیصر کا اقتدار واختیار الگ ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت نہیں کر سکتے ۔ اسی تناظر میں واٹ نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کو دیکھا ۔

اسی طرح ٹائن بی (۱۸۸۹ء- ۱۹۷۵ء) بھی معروف عیسائی تاریخ نویس نے ریاست مدینہ کے قیام کی تعبیر کرتے ہوئے لکھا : ’’اس میں شک نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب مدینہ میں حکومت قائم کرنے کی دعوت قبول کی تو انہوں نے اپنے ضمیر کو یہ کہہ کر مطمئن کرلیا کہ وہ اللہ کی راہ میں پوری دلجمعی کے ساتھ گامزن ہیں ۔ [حالانکہ] وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے تھے ۔ (A Study of History ،ج۳، ص ۴۷۱،  ۱۹۶۱ء) ۔ اس طرح ٹائن بی کم فہمی اور بدترین تعصب کا شکار ہوکر ، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور قرآنِ عظیم کے پیغام کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے میں ٹھوکر کھاتا ہے ۔

اس ڈگر میں استثناء مائیکل ، ایچ ہارٹ کا ہے کہ جب اس نے انسانی ’تاریخ کے سو عظیم رہنماؤں‘ کے حالات لکھے ، تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سرفہرست رکھا اور وجہ یہ بیان کی کہ ’’وہ واحد انسان ہیں جو مذہب اور سیاست دونوں سطح پر یکساں طور پر کامیاب قائد ہیں ۔ (The 100، صفحہ ۳۳)۔(مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔