شانِ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حصہ ہفتم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَالَّذِی جَٓاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہ اُ ولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُونَ۔صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْمْ ۔ (سورۃ الزمر۔33)
ترجمہ : اورجونبی سچی بات لیکر آئے اور جس نے ان کی تصدیق کی ، وہی لوگ پرہیزگار ہیں ۔ (سورۃ الزمر:33)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشاد فرمایا : عُرِجَ بِيْ إِلَى السَّمَاءِ فَمَا مَرَرْتُ بِسَمَاءٍ إِلَّا وَجَدْتُّ اِسْمِيْ مَكْتُوْباً:مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ وَأَبُوْ بَكْر الصِّدِّيْقُ خَلْفِي ۔ یعنی شب معراج میں نے ہر آسمان پر اپنا نام یوں لکھا ہوا دیکھا : محمد اللہ کے رسول ہیں اور ابوبکر صدیق میرے خلیفہ ہیں ۔ (کنز العمال، کتاب الفضائل،الفصل الثانی، فضل ابی بکر، الحدیث: ۳۲۵۷۷، ج۶، الجزء:۱۱،ص۲۵۱)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور مفسرین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ سچ لے کر تشریف لانے والے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور ا س کی تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (تفسیر خازن ، الزّمر الآیۃ: ۳۳، ۴/۵۵-۵۶)(تفسیرکبیر، الزّمر الآیۃ: ۳۳، ۹/۴۵۲)(تفسیر مدارک، الزّمر الآیۃ: ۳۳، ص۱۰۳۸،چشتی)،(جامع البیان جز ٢٤ ص ٦۔ ٥، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
حضرت مولائے کائنات سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : لَاَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اسْمَ اَبِی بَکْرٍ مِنَ السَّمَاءِ الصِّدِّیقَ ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام ’’ صدیق‘‘ آسمان سے نازل فرمایا ہے ۔ (مختصر تاریخ دمشق ، ج ،13،ص52)
حضرت سیدنا ابو یحییٰ حکیم بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کو اللہ کی قسم اُٹھا کر کہتے ہوئے سُنا کہ : أُنْزِلَ اِسْمُ أَبِيْ بَكْرٍ مِنَ السَّمَاءِ الصِّدِّيْق ، یعنی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا لقب صِدِّیْق آسمان سے اُتارا گیا ۔ (المعجم الکبیر،نسبۃ ابی بکر الصدیق واسمہ،الحدیث:۱۴،ج۱، ص۵۵)
حضرت سیدنا نزال بن سبرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم لوگ امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے ساتھ کھڑے تھے اور آپ خوش طبعی فرمارہے تھے ، ہم نے ان سے عرض کیا : اپنے دوستوں کے بارے میں کچھ ارشادفرمائیے ؟ ‘ ‘فرمایا : ’’ رسولاللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تمام اصحاب میرے دوست ہیں ۔ ‘‘ ہم نے عرض کی : حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے بارے میں بتائیے ؟ ‘‘ فرمایا : ’’ ذَاكَ اِمْرُءٌ سَمَّاهُ اللہُ صِدِّيْقاً عَلٰى لِسَانِ جِبْرِيْل وَمُحَمَّدٍ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِمَا ، یعنی ان کے تو کیا کہنے ! یہ تو وہ شخصیت ہیں جن کا نام اللہ تعالٰی نے جبریل امین اور پیارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زبان سے صِدِّیْق رکھا ہے ۔ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ، باب الاحادیث المشعرۃ بتسمیۃ ابی بکر صدیقا، الحدیث: ۴۴۶۲، ج۴،ص۴)
امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : أن المراد شخص واحد فالذی جاء بالصدق محمد ، والذی صدق بہ ہو أبو بکر ، وہذا القول مروی عن علی بن أبی طالب علیہ السلام وجماعۃ من المفسرین رضی اللہ عنہم ۔
ترجمہ : اس سے مراد ایک ہی ہستی ہیں ، تو جو سچی بات لے کر آئے وہ سیدنامحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور جس نے آپ کی تصدیق کی وہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ اور یہ روایت حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اور مفسرین کرام رحمہم اللہ کی ایک بڑی جماعت سے منقول ہے ۔ (التفسیر الکبیر،الدر المنثور، روح البیان، سورۃالزمر۔ 33)
عن عروة بن عبد الله قال سألت أبا جعفر محمد بن علي عليهما السلام عن حلية السيوف فقال لا بأس به قد حلى أبو بكر الصديق رضي الله عنه سيفه، قلت فتقول الصديق؟ قال: فوثب وثبة واستقبل القبلة وقال : نعم الصديق نعم الصديق نعم الصديق، فمن لم يقل له الصديق فلا صدق الله له قولا في الدنيا ولا في الآخرة ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا عروہ بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیدنا امام باقر ابوجعفر محمد بن علی بن حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے استفسار کیا : مَا قَوْلُكَ فِيْ حُلْيَةِ ۔ السُّيُوْف؟یعنی تلوار کو آراستہ کرنے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟‘‘ فرمایا: ’’لَا بَأْسَ قَدْ حُلِىَ أَبُوْ بَكْر الصِّدِّيْقْ سَيْفَه یعنی اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ خود حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہنے بھی اپنی تلوار کو آراستہ کیا۔‘‘میں نے کہا: ’’آپ نے انہیں صدیق کہا؟‘‘یہ سننا تھا کہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ جلال فرماتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور قبلے کی طرف منہ کر کے ارشاد فرمایا : ہاں وہ صدیق ہیں، ہاں وہ صدیق ہیں ، ہاں وہ صدیق ہیں ۔ اور جو انہیں صدیق نہ کہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے قول کی تصدیق نہیں فرماتانہ دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں ۔ (فضائل الصحابۃ ومن فضائل عمر بن الخطاب من حديث أبي بكر بن مالك ، الرقم: ۶۵۵، ج۱، ص۴۱۹،چشتی)،(کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ جلد 2 صفحہ 360 شیعہ مذہب کی کتاب)
شیعہ عالم الاربلی (متوفی سنہ ٦٩٣ ھ) نے حضرت امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ کا نسب بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ کی ماں کا نام ام فروہ رضی ﷲ عنہا ہے جو بیٹی ہیں حضرت قاسم رضی اللہ عنہ کی اور حضرت قاسم بیٹے ہیں حضرت محمد رضی اللہ عنہ کے اور محمد بیٹے ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ۔ " ام فروہ بنت القاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ " ۔ (کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ الجزء الثانی صفحہ ٣٦ تالیف : ابی الحسن علی بن عیسیٰ بن ابی الفتح الاربلی (٦٩٣ھ) مطبوعہ دارالاضواء بیروت لبنان)
حضرت ابوبکر کے نام کے ساتھ لفظ """صدیق""" واضح طور پر لکھا ہے
شیعہ عالم الاربلی نے اور بھی کئی مقامات پر ایسا لکھا ہے ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بڑے بیٹے حضرت عبدالرحمان بن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کی ایک بیٹی تھی جس کا نام اسماء بنت عبدالرحمٰن بن حضرت ابوبکر صدیق تھا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دوسرے بیٹے حضرت محمد بن ابوبکر صدیق تھے ان کا ایک بیٹا تھا قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق تھا ۔ ۔ ۔ یہ دونوں اسماء بنت عبدالرحمٰن اور قاسم بن محمد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے اور پوتی کہلائے ۔ پھر ان دونوں پوتی اسماء بنت عبدالرحمٰن اور پوتے قاسم بن محمد کا آپس میں نکاح ہوا پھر اسماء بنت عبدالرحمٰن کے بطن سے قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق کی ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام ام فروہ رضی اللہ عنہا ہے ۔ اس ام فروہ کا نکاح سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے سیدنا حضرت امام محمد باقر بن امام زین العابدین رضی اللہ عنہما سے ہوا ۔ پھر اسی ام فروہ کے بطن سے سیدنا امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام سیدنا حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ ہے ۔ یعنی سیدنا امام جعفر صادق کے نانا قاسم بن محمد بن ابوبکر اور نانی حضرت اسماء بنت عبدالرحمٰن دونوں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہم کے پوتے اور پوتی ہیں سیدنا امام جعفر صادق اسماء بنت عبدالحمٰن کی طرف سے حضرت ابوبکر صدیق کے پڑنواسے اور قاسم بن محمد بن ابوبکر کے طرف سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہم کے پڑپوتے کہلاتے ہیں ۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے نانا اور نانی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے اور پوتی ہیں ۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسبت دونوں کی طرف سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے ۔
یہی وجہ ہے جب کسی نے سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ سنا ہے کہ آپ سیدنا صدیق اکبر کو برا بھلا کہتے ہیں؟ آپ ارشاد فرمایا : ابوبکرن الصدیق جدی ھل یسب احد اباءہ ۔ (احقاق الحق جلد1 صفحہ 30،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابوبکر میرے نانا ہیں کیا کوئی اپنے آباواجداد کو گالی دینا پسند کرے گا۔اللہ مجھے کوئی مرتبہ اور عزت نہ بخشے اگر میں ابوبکر صدیق کو (عزت اور عظمت میں) مقدم نہ رکھوں ۔
قال ابو جعفر محمد الباقر لست بمنكر فضل ابي بكر ولست بمنكر فضل عمر ولكن ابابكر افضل من عمر ۔ (احتجاج طبرسي ص 204)
ترجمہ : امام ابو جعفر صادق محمد باقر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ"میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت کا منکر نہیں اور نہ ہی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت کا منکر ہوں ۔ ہاں لیکن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں ۔
سال رجل من المخالفين عن الامام الصادق عليه السلام وقال يا من رسول الله ما تقول في ابي بكر ومر فقال عليه السلام هما امامان عادلاان قاسطان كانا علي الحق وماتا عليه رحمهما الله يوم القيامة ) ( احقاق الحق ص 1 مطبوعه 1203)
ترجمہ : مخالف گروہ کے ایک شخص نے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے خلافت صدیق وعمر رضی اللہ عنھما کے متعلق سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔"وہ دونوں امام عادل تھے،مصنف تھے،حق پر تھے اور حق پر انہوں نے وفات پائی ان دونوں پر قیامت تک اللہ کی رحمت نازل ہو۔(رضوان اللہ عنھم اجمعین)
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ابوبكر ن الصديق جدي هل يسب احد اباه لاقد مني الله ان لا اقدمه ۔ (احقاق الحق ص ،7،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابو صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پڑ نانا ہیں ۔ کیا کوئی شخص اپنے آباؤ اجداد کو سب وشتم کرنا پسند کرتا ہے ؟ اگر میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں گستاخی کروں توخدا مجھے کوئی شان اور عزت نہ دے ۔ (احقاق الحق ص7)
اسی کتاب احقاق الحق میں ہے کہ : ولدني الصديق مرتين ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں دو طرح داخل ہوں ۔ (ص7)(مزید تفصیل کے لئے جلال العیون صفحہ 248 ، کشف الغمہ ص215،222،احتجاج طبرسی ص 205 دیکھیں) ۔ (کشف الغمہ جلد 2 صفحہ373 شیعہ عالم)
صافی شرح اصول کافی ص 214 پر امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا گیا ہےکہ : ومادرش ام فروہ اسماء دخت قاسم بن محمد بن ابی بکر بود ومادرام فروہ اسماء دختر عبدالرحمٰن بن ابی بکر بود ۔
ترجمہ : حضرت امام جعفر رضی اللہ عنہ کی والدہ ام فروہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پڑ پوتی (پوتے کی بیٹی) تھیں اور امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی نانی حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پوتی تھیں ۔
باقی رہا یہ سوال کہ اگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اتنی شان اور افضلیت کے مالک تھے تو سید فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فدک سے محروم کیوں رکھا ؟ تو یہ سوال بالکل بے بنیاد ہے ۔ کیونکہ خلیفہ اول بلا فصل سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتاب وسنت کے مطابق عمل کیا ۔ جیسا کہ صحیح بخاری مطبوعہ نظامی کان پور کے ص575ج2) ص576ج2،چشتی) پر زمانہ نبوت کا عمل درآمد بیان کیا گیا ہے ۔ علاوہ ازیں بلازری نے فتوح البلدان ص37 پر اشارہ کیا ہے ۔ نیز عون المعبود شرح ابی داؤد ج3ص104 ،ج3 ص105 پر بھی تذکرہ ہے اور امام نووی نے شرح مسلم میں زیر حدیث مالک بن اوس ص90 پر ذکر کیا ہے۔کہ قاضی عیاض نے کہا ہے،حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نزاع کے ترک کردینے اورحدیث کے اجماع کو تسلیم کرنے کا ثبوت موجود ہے ۔ جس وقت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ حدیث پہنچی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی رائے چھوڑ دی ۔ بعد ازیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اولاد سے کسی نے بھی میراث کا مطالبہ نہیں کیا ۔ ثم ولي علي ن الخلافة فلم يعدل بها عما فعله ابوبكر و عمر ۔
ترجمہ : پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند خلافت پر جلوہ گر ہوئے تو انہوں نے بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف عمل نہیں کیا ۔
مگر افسوس کہ شیعہ کی کتاب کافی کلینی ج1 ص 355 پر صاحب کتاب نے ایک روایت نقل کی ہے جو افراط وتفریط سے پُر ہے ۔ اور اس کی حقیقت محض افسانہ گوئی ہے ۔ اس کے برعکس شیعہ کی معتبر کتاب شرح نہج البلاغہ لعلامہ ابن ہثیم بحرانی ص543) جز نمبر 35 "(عربی) اور در نجفیہ شرح نہج البلاغۃ مطبوعہ طہران ص332 پر مرقوم ہے : كان رسول الله صلي الله عليه وسلم ياخذ من فلك فوتكم ويقسم الباقي ويحمل منه في سبيل الله ان اصنع بها كما كان يصنع فرضيت واخدت العهد عليه به وكان ياخذ غلتها فيدفع اليهم منها ما يكفيهم ثم فعلت الخلفاء بعده كذلك الي ان ولي معاويه ۔
ترجمہ : حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فدک کی پیدا وار سے تمہارا خرچ لے لیا کرتے تھے ۔ اور باقی ماندہ کو تقسیم فرماتے اور فی سبیل اللہ جہاد میں سواریاں لے لیتے تھے ۔ اللہ کی قسم اٹھا کر میں عہد کرتا ہوں کہ میں فدک میں اسی طرح کروں گا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے تو سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فدک کے اس فیصلہ پر رضا مند ہوگئیں ۔ اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس بات کا عہد لیا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فدک کی پیداوار وصول کرکے اس سے اہل بیت کو کافی وافی خرچ دے دیتے تھے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکومت آنے تک تمام خلفاء رضوان اللہ عنھم اجمعین نے یہ عمل کیا ۔
اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا۔اسی طرح حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا ۔ اور بعینہ یہ عمل تمام خلفائے راشدین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ حضرت حسن مجتبیٰ ۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) کا رہا ۔ حتیٰ کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی سلطنت آگئی ۔ اور اس عرصہ میں کوئی تغیر وتبدل نہ ہوا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا اور خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس حکم کی پابندی کی ۔ تو اب حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ناراضگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
کتب تاریخ وسیر کی ورق گردانی سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ سید فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی کے وقت بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فراخ دلی کا ثبوت دیا اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے سامان شادی خریدتے وقت حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موافقت کی (جلالعیون ص 55) اور مرض الموت میں بھی صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہلیہ محترمہ حضرت اسماء بن عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تیمارداری کے فرائض سر انجام دیئے اور وفات کے بعد غسل بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہلیہ ہی نے دیا (جلالعیون ص3) تو ان امور سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ناراض نہ تھیں بلکہ خوش تھیں ۔
شرح نہج البلاغۃ لابن ابی الحدید: 4؍113، الفصل الاول بحث فدک ؛ و رحماء بينهم: 1؍ 102 : وأیم الله لو رَجع الأمر إلىٰ لقضیتُ فیه بقضاء أبي بکر ۔
ترجمہ : یعنی امام زیدشہید فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! اگر فدک کی تقسیم کا مقدمہ میری طرف لوٹ کر آتا تو میں بھی اس کا وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےفیصلہ کیا تھا ۔ (شرح نہج البلاغۃ لابن ابی الحدید : 4؍113، الفصل الاول بحث فدک،چشتی)
آپ کے القاب مبارکہ میں صدیق بہت مشہور ہے ، کیونکہ یہ مبارک لقب آپ کو کسی مخلوق نے نہیں دیا ، بلکہ خالق کائنات نے عطا فرمایا ، جیسا کہ سنن دیلمی میں حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یَا أَبَابَکْرٍ اِنَّ اللّٰہَ سَمَّاکَ الصَّدِّیقَ ۔
ترجمہ : اے ابوبکر! اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام صدیق رکھا ہے ۔ (کنز العمال ، حرف الفاء ، فضل ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:32615)
اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں:جب حضورنبیٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کومسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کرائی گئی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دوسری صبح لوگوں کے سامنے اس مکمل واقعے کو بیان فرمایا ، مشرکین وغیرہ دوڑتے ہوئے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے : ’’هَلْ لَكَ إِلٰى صَاحِبِكَ يَزْعُمُ أَسْرٰى بِهٖ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدَس ؟ یعنی کیا آپ اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں جو آپ کے دوست نے کہی ہے کہ انہوں نے راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی کی سیر کی ؟ ‘‘ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا : ’’أَوَ قَالَ ذٰلِكَ ؟ کیا آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے واقعی یہ بیان فرمایا ہے ؟ ‘‘ انہوں نے کہا : ’’ جی ہاں ۔ ‘‘آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : ’’لَئِنْ كَانَ قَالَ ذٰلِكَ لَقَدْ صَدَق یعنی اگر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ ارشاد فرمایا ہے تو یقیناً سچ فرمایا ہے ۔ اور میں ان کی اس بات کی بلا جھجک تصدیق کرتا ہوں ۔ ‘‘ انہوں نے کہا : ’’ أَوَ تُصَدِّقُهُ أَ نَّهُ ذَهَبَ اللَّيْلَةَ إِلٰى بَيْتِ الْمَقْدَس وَ جَاءَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ ؟ یعنی کیا آپ اس حیران کن بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ آج رات بیت المقدس گئے ، اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے ؟ ‘‘ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : نَعَمْ ! إِنِّيْ لَأُصَدِّقُهُ فِيْمَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ ذٰلِكَ أُصَدِّقُهُ بِخَبْرِ السَّمَاءِ فِيْ غَدْوَةٍ أَوْ رَوْحَة ، جی ہاں ! میں تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آسمانی خبروں کی بھی صبح و شام تصدیق کرتا ہوں ۔ اوریقینا وہ تو اس بات سے بھی زیادہ حیران کن اور تعجب والی بات ہے ۔ ‘‘ پس اس واقعے کے بعد آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ صدیق مشہور ہوگئے ۔ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ، ذکر الاختلاف۔۔۔الخ،الحدیث: ۴۵۱۵، ج۴، ص۲۵،چشتی)
جمہور مفسرین کا مختار یہ ہے کہ صدق کو لانے والے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔ چھٹی صدی کے مشہور شیعہ مفسر ابوعلی الفضل بن الحسن الطبرسی لکھتے ہیں : قوی قول یہ ہے کہ صدق کو لانے والے اور تصدیق کرنے والے دونوں سے مراد سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور ابوالعالیہ اور کلبی سے یہ قول منقول ہے کہ صدق کو لانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ہیں اور مجاہد ، ضحاک اور ئمہ اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مروی ہے کہ صدق کو لانے والے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور تصدیق کرنے والے حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام) ہیں ۔ (مجمع البیان جز ٨ ص ٧٧٧، دارالمعرفۃ، بیروت، ١٤٠٦ ھ)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مفسرین کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ صدق کو لانے والے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس سے حضرت ابوبکر کا مراد ہونا بالکل واضح ہے کیونکہ انہوں نے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعویٰ نبوت کی تصدیق کی تھی اور جو سب سے پہلے تصدیق کرنے والا ہو وہی سب سے افضل ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہ نسبت حضرت ابوبکر کو اس آیت سے مراد لینا زیادہ راجح ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت حضرت علی کمسن تھے جیسے گھر میں کوئی بچہ ہوتا ہے اور حضرت علی کے اسلام لانے سے اسلام کو ، کوئی زیادہ قوت اور شوکت حاصل نہیں ہوئی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑی عمر کے تھے اور معاشرہ میں ان کی بہت عزت اور وجاہت تھی اور جب انہوں نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی تو اس سے اسلام کو بہت زیادہ قوت اور شوکت حاصل ہوئی، اس وجہ سے اس آیت میں ” وصدق بہ “ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مراد لینا زیادہ راجح ہے ۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٤٥٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ) ۔ (مزید حصّہ ہشتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment