حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں وضع کردہ روایات
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : محبت کے پیمانے بیشتر چھلکتے ہوئے دیکھے گئے ہیں ۔ جب تک عقیدت پر بصیرت غالب نہ ہو محبت کا رشتہ سنبھلتا نہیں ہے ”حبک الشئ یعمی ویعصم” تیرا کسی چیز کو محبت کرنا تجھے اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے ۔ رافضیوں و نیم رافضیوں نے بغیر بصیرت کے بغیر سوچے سمجھے حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے نام نہاد محبت کے جوش میں کئی جھوٹے فضائل گھڑ لیے ہیں ۔ محبت کو تسکین اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک رافضی و نیم رافضی کوئی نئی سے نئی بات گھڑ کر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں مبالغہ نہ کریں ۔
اگر لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پہ جمع ہو جاتے تو اللہ جہنم کو بناتا ہی نا ۔ یہ روایت اکثر روافض و نیم روافض تفضیلیوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے اور بعض اہلسنت کے لبادے میں چھپے ہوئے نیم رافضی بھی بیان کرتے ہیں مولا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کی فضیلت میں جو غُلُو پر مبنی ہے ۔ اس روایت کی تحقیق پیشِ خدمت ہے ۔
امام دیلمی علیہ الرحمہ (متوفی 509ھ) رحمہ اللہ نے فرمایا : عن ابْن عَبَّاس لَو اجْتمع النَّاس على حب عَليّ بن أبي طَالب لما خلق الله تَعَالَى النَّار ۔ (الفردوس بمأثور الخطاب 3/373،چشتی)
مسند الفردوس کے نسخہ میں اسناد حذف ہیں اس کو امام دیلمی سے باسند امام جلال الدین سیوطی علیہما الرحمہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا اسی طرح خوارزمی نے بھی اس کو باسند نقل کیا ہے ۔
الديلمي أخبرنا أبي أخبرنا أبو طالب الحسيني حدثنا أحمد بن محمد بن عمر الفقيه الطبري حدثنا أبو المفضل محمد بن عبد الله الشيباني حدثنا ناصر بن الحسن بن علي حدثنا محمد بن منصور عن عيسى بن طاهر اليربوعي حدثنا أبو معاوية عن ليث عن طاوس عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لو اجتمع الناس على حب علي بن أبي طالب لما خلق الله النار ۔
ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اگر لوگ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی محبت پر جمع ہوجاتے تو اللہ تعالیٰ جہنم کو پیدا نہ کرتا ۔ (الزيادات على الموضوعات 1/260،چشتی)(المناقب للخوارزمي 1/68 :- 39)
یہ روایت عندالتحقیق منگھڑت ہے اس کی سند میں درج ذیل علتیں ہیں ۔
شهردار بن شيرويه بن فناخسرو مجہول ہے ۔
أبو طالب الحسيني المحسن بن الحسين بن أبي عبد الله محمد المعروف بابن النصيبي یہ مجہول الحال ہے ۔
أبو المفضل محمد بن عبد الله الشيباني یہ احادیث گھڑنے والا راوی ہے اور اس سند میں آفت یہی راوی ہے ۔
اس راوی کـے حـوالـے سـے ائـمـہ کا کـلام : ⬇
① امام جرح و تعدیل حافظ شمس الدین ذہبی علیہ الرحمہ امام خطیب بغدادی علیہ الرحمہ کا کلام اس کے حوالے سے نقل کرتے ہیں : محدثین نے امام الدارقطنی علیہ الرحمہ کو منتخب کرکے اس کی روایات کو لکھا پھر جب اس کا جھوٹا ہونا واضح ہوگیا تو انہوں نے اس کی روایات کو پھاڑ دیا اور ان کو باطل کرار دیا اور کہا کہ یہ روافض کے لیے احادیث گھڑتا ہے ۔
قال الخطيب : كتبوا عنه بانتخاب الدارقطني، ثم بأن كذبه فمزقوا حديثه، وكان يعد يضع الأحاديث للرافضة ۔ (ميزان الاعتدال رقم : 7802،چشتی)
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے عبيد الله بن أحمد الأزهري کا قول اس کے حوالے سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا یہ دجال اور کذاب راوی ہے ۔ اور حمزة بن محمد بن طاهر کا قول نقل کیا کہ انہوں نے کہا یہ احادیث گھڑنے والا ہے ۔ (لسان الميزان 5/231،چشتی)
امام ابن عراقی علیہ الرحمہ اس کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ یہ احادیث گھڑنے والا دجال ہے ۔
محمد بن عبد الله بن المطلب أبو الفضل الشيباني الكوفي عن البغوي وابن جرير دجال يضع الحديث ۔ (تنزيه الشريعة المرفوعة رقم 166)
کیونکہ یہ واضح ہو گیا کہ اس نے سند کو گڑھا ہے لہٰذا اور علتیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ورنہ اور علتیں بھی ہیں سند میں باقی شیعہ حضرات کی کتب میں یہ روایت کثرت سے موجود ہے ہم نے ثابت کیا کہ یہ روایت اہلسنت کے نزدیک من گھڑت ہے ۔
روافض کا ایک کذب : جہاں حضرت علی ہونگے وہاں قرآن ہوگا اور جہاں قرآن ہوگا وہاں مولا علی رضی اللہ عنہ ہونگے ۔ ایک کذب اور باطل روایت ہے : امام حاکم رحمہ اللہ مستدرک میں ایک روایت لاتے ہیں : أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الله الحفيد، ثنا أحمد بن محمد بن نصر، ثنا عمرو بن طلحة القناد، الثقة المأمون، ثنا علي بن هاشم بن البريد، عن أبيه قال: حدثني أبو سعيد التيمي، عن أبي ثابت، مولى أبي ذر قال:كنت مع علي رضي الله عنه يوم الجمل، فلما رأيت عائشة واقفة دخلني بعض ما يدخل الناس، فكشف الله عني ذلك عند صلاة الظهر، فقاتلت مع أمير المؤمنين، فلما فرغ ذهبت إلى المدينة فأتيت أم سلمة فقلت: إني والله ما جئت أسأل طعاما ولا شرابا ولكني مولى لأبي ذر، فقالت: مرحبا فقصصت عليها قصتي، فقالت: أين كنت حين طارت القلوب مطائرها؟ قلت: إلى حيث كشف الله ذلك عني عند زوال الشمس، قال: أحسنت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : علي مع القرآن والقرآن مع علي لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض ۔ هذا حديث صحيح الإسناد وأبو سعيد التيمي هو عقيصاء ثقة مأمون، ولم يخرجاه “
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 4628 – صحيح
امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور امام ذھبی بھی موافقت کرتے ہیں
(نوٹ: امام ذھبی کے منہج پر بھی یہ روایت باطل ثابت کرینگے )
اس روایت کو امام طبرانی بھی اپنی معجم میں روایتے کرتے ہیں : حدثنا عباد بن عيسى الجعفي الكوفي، حدثنا محمد بن عثمان بن أبي البهلول الكوفي، حدثنا صالح بن أبي الأسود، عن هاشم بن بريد، عن أبي سعيد التيمي بلخ۔۔
اس روایت کا مرکزی راوی ھاشم بن برید ہے جس سے امام حاکم اور امام طبرانی یہ روایت نقل کرتے ہیں ۔ اور ہاشم بن برید سے اسکا بیٹا بیان کرتا ہے جسکی سند مستدرک اور تاریخ بغداد میں ہے مگر یہی رافضی کی روایت تاریخ بغداد میں یوں ہے کہ جدھر علی ہونگے حق ادھر ہوگا اور جہاں حق ہوگا وہاں علی ہوگا ۔
(یہ رافضی کبھی مولا علی کو قرآن کے ساتھ کبھی حق کے الفاظ کے ساتھ بیان کرتا ہے)
اور دوسری سند میں ہاشم بن برید سے صالح بن الاوسود بیان کرتا ہے
ھاشم بن برید کے بارے محدثین کی آراء درج ذیل ہے :
۱۔ امام بخاری سے : هاشم بن البريد كوفي. سمعت ابن حماد يقول: قال البخاري هاشم بن البريد وابنه علي بن هاشم غاليان في سوء مذهبهما.
امام بخاری فرماتے ہیں کہ ھاشم بن بریدہ اور اسکا بیٹا دونوں غالی اور برے مذہب والے(رافضی) تھے
۔ (تاریخ الکبیر)
۲ ۔ امام ابن عدی کہتے ہیں : وَقَالَ ابْن عدي: لَيْسَ لَهُ كثير حَدِيث، إِنَّمَا يذكر بالغلو فِي التَّشَيُّع وكذاك ابْنه عَليّ، وَأما هَاشم فمقدار مَا يرويهِ لم أر فِي حَدِيثه شَيْئا مُنْكرا، والمناكير تقع فِي حَدِيث ابْنه.
اس کی روایت زیادہ نہیں ہیں اسکو شیعت میں غالی بیان کیا گیا ہے اور اسکے بیٹے کو بھی اور میں اس کی کوئی منکر روایت پر مطلع نہین ہو سکا لیکن اس کی روایات میں جو نکارت ہے وہ اس کے بیٹے کی وجہ سے ہے ۔(الکامل فی الضعفاء)
۳ ۔ امام الجوزجانی سے
88 – هاشم بن البريد
89 – وابنه علي بن هاشم غاليان في سوء مذهبهما
ھاشم بن برید اور اسکا بیٹا علی بن شاہم یہ غالی اور برے مذہب والے(رافضی) تھے
(أحوال الرجال الجوزجاني، أبو إسحاق )
۴۔ امام عجلی
کہتے ہیں ثقہ تھا لیکن شیعہ تھا
1713- هاشم بن البريد5: “كوفي”، ثقة، وكان يتشيع.(العجلی ثقات)
۵۔ امام احمد بن حنبل
نا عبد الرحمن انا محمد ابن حمويه [بن الحسن – 1] قال سمعت أبا طالب أحمد بن حميد قال قال احمد ابن حنبل: هاشم بن البريد لا بأس به.
ھاشم بن برید میں کوئی حرج نہیں
نا عبد الرحمن قال ذكره أبي عن إسحاق بن منصور عن يحيى بن معين انه قال: هاشم بن البريد ثقة.
امام ابن معین فرماتے ہیں کہ ھاشم بن برید ثقہ ہے
(الجرح والتعدیل )
۶۔ امام ذھبی
6710 – د س ق / هَاشم بن الْبَرِيد صَدُوق يترفض
ھاشم بن بریدہ سچا تھا لیکن رافضی تھا
(المغنی فی الضعفٓاء امام ذھبی)
اور میزان الاعتدال میں فرماتے
9181 – هاشم بن البريد [د، س، ق] أبو على.
عن زيد بن علي، ومسلم البطين.
وعنه ابنه، والخريبي، وجماعة.
وثقه ابن معين وغيره، إلا أنه يترفض.
وقال أحمد: لا بأس به.
ثقہ ہے ابن معین کہتے ہیں لیکن یہ رافضی تھا ۔ (میزان الاعتدال )
اور دیون میں فرماتے ہیں کہ سچا تھا مگر شیعت میں غالی تھا
4440 – هاشم بن البريد الكوفي: صدوق غال في التشيع. -د، س، ق-
(دیوان الضعفاء، الذھبی)
امام دارقطنی
266 – سَمِعت أَبَا الْحسن يَقُول هَاشم بن الْبَرِيد ثِقَة مَأْمُون
267 – وَهُوَ أَبُو عَليّ بن هَاشم بن الشَّهِيد كَذَّاب
ھاشم بن برید ثقہ مامون ہیں
یہ والد ہے علی بن ہاشم کے جو کذاب تھا
(سؤالات الحاكم النيسابوري للدارقطني)
اسکے بیٹے علی بن ھاشم کے بارے محدثین کی رائے
امام احمد :
3225 – علي بن هاشم ما به بأس
اس میں کوئی حرج نہیں
(العلل ومعرفة الرجال)
امام بخاری
علي بن هاشم غاليان في سوء مذهبهما.
امام بخاری فرماتے ہیں علی بن ھاشم غالی اور برے مذہب والا(رافضی) تھا
امام ابن عدی :
۲ ۔ امام ابن عدی کہتے ہیں :
وَقَالَ ابْن عدي: لَيْسَ لَهُ كثير حَدِيث، إِنَّمَا يذكر بالغلو فِي التَّشَيُّع وكذاك ابْنه عَليّ، وَأما هَاشم فمقدار مَا يرويهِ لم أر فِي حَدِيثه شَيْئا مُنْكرا، والمناكير تقع فِي حَدِيث ابْنه.
اس کی(علی بن ھاشم کے باپ) روایت زیادہ نہیں ہیں اسکو شیعت میں غالی بیان کیا گیا ہے اور اس کے بیتے کو بھی اور میں اس کی کوئی منکر روایت پر مطلع نہین ہو سکتا لیکن اسکی روایات میں جو نکارت ہے وہ اس کے بیٹے کی وجہ سے ہے ۔ (الکامل فی الضعفاء)
امام دارقطنی :
267 – وَهُوَ أَبُو عَليّ بن هَاشم بن الشَّهِيد كَذَّاب
جو والد ہے ابو علی بن ھاشم جو کذاب ہے ۔ (سؤالات الحاكم النيسابوري للدارقطني)
علی بن مدینی ، ابن معین اور ابو زرعہ کہتے ہیں ثقہ و صدوق ہے اور ابی حاتم کہتے ہیں شیعہ ہے اسکی روایت لکھی جائے گی (شواہد میں ) ہے
سمعت يحيى بن معين يقول علي بن هاشم بن البريد ثقة،.
نا عبد الرحمن نا محمد بن أحمد بن البراء قال قال علي بن المديني علي بن هاشم بن البريد كان صدوقا
، نا عبد الرحمن قال سألت ابى عن علي بن هاشم بن البريد فقال كان يتشيع يكتب حديثه،
نا عبد الرحمن قال سئل أبو زرعة عن على ابن هاشم بن البريد فقال صدوق.(الجرح والتعدیل )
ابن حبان : علی بن ھاشم كان غاليا في التشيع وروى المناكير عن المشاهير
علی بن ھاشم غالی شیعہ تھا یعنی رافضی اور یہ مشاہیر سے مناکیر بیان کرتا تھا ۔ (المجروحین بن حبان )
امام ذھبی میزان میں اس راوی کے بارے میں تفصیل لکھتے ہیں :
5960 – على بن هاشم [م، عو] بن البريد، أبو الحسن الكوفي الخزاز، مولى قريش.
عن هشام بن عروة، وجماعة.
وعنه أحمد، وابنا أبي شيبة، وخلق.
وثقة ابن معين، وغيره.
وقال أبو داود: ثبت يتشيع.
وقال البخاري: كان هو وأبوه غاليين في مذهبهما.
وقال ابن حبان: غال في التشيع.
روى المناكير عن المشاهير.
قلت: ولغلوه ترك البخاري إخراج حديثه، فإنه يتجنب الرافضة كثيرا، كأنه يخاف من تدينهم بالتقية ولانراه يتجنب القدرية ولا الخوارج ولا الجهمية، فإنهم على بدعهم يلزمون الصدق، وعلى بن هاشم، قال أحمد: سمعت منه مجلسا واحدا.
قلت: ومات قديما في سنة إحدى وثمانين ومائة (1) ، فلعله أقدم مشيخة الامام أحمد وفاة.
قال جعفر بن ابان: سمعت ابن نمير يقول: على بن هاشم كان مفرطا في التشيع منكر الحديث.
قال ابن حبان: حدثنا مكحول، سمعت جعفرا بهذا.
قال أبو زرعة: صدوق.
وقال النسائي: ليس به بأس.
یہ قریش کا آزاد کردہ غلام تھا اس نے ہشام بن عرہ اور ایک جماعت سے روایت بیان کی ہیں جبکہ اس سے امام احمد ، ابو شیبہ کے دونوں بیٹوں اور ایک مخلوق نے روایت کیا ہے
یحییٰ بن معنی اور دیگر حضرات نے اسکو ثقہ قرار دیا ہے امام ابی داود کہتے ہیں یہ ثبت ہے اور اس میں تشیع پایا جاتا تھا
امام بخاری کہتے ہیں یہ اور اسکا والد اپنے مسلک میں غالی (یعنی رافضی اور داعی) تھے ابن حبان کہتے ہیں یہ شیعت میں غالی (یعنی رافضی و داعی) تھے
اس نے مشہور راویوں کے حوالے سے منکر روایات بیان کی ہیں
امام ذھبی پھر اپنا تبصرہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؛
میں کہتاہوں : اس غلو کی وجہ سے امام بخاری نے اس سے حدیث نقل کرنا پسند نہیں کیا
(اس کی وجہ کیا ہے امام ذھبی اہل سنت کا منہج بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں)
کیونکہ امام بخاری رافضیوں سے بہت زیادہ اجتناب کرتے تھے ، انہین انکے مسلک میں تقیہ (جھوٹ کو عبادت سمجھ کے بولنا ) کا بہت اندیشہ ہوتا تھا
ہم نے انہیں (امام بخاری) کو نہیں دیکھا کہ انہوں نے قدریوں ، یا خارجیوں یا جہمیوں سے اجتناب کیا ہو ، لیکن انکی بدعت کے باجوود یہ سچ بولتے ہیں اور اسکو اختیار کرتے ہیں
(یہ وہ اہلسنت کا منہج ہے کہ رافضی راوی جتنہ بھی ثقہ ہو صدوق ہو چونکہ رافضی جھوٹ بولنے اور کذب بیانی کرنے میں کوئی غلط محسوس نہین کرتے تو انکے تفرد کو انکے مذہب کے موافق روایت میں ہمیشہ کبھی قبول نہیں کیا جائے گا)
علی بن ہاشم کے بارے امام احمد کہتے ہیں میں نے ان سے ایک محفل میں سماع کیا
میں (ذھبی) کہتا ہوں اسکا انتقال بہت پہلے 181ھ میں ہو گیا تھا ، شاید یہ وفات کے اعتبار سے امام احمد کا سب سے مقدم شیخ ہے
جعبر بن ابان ار ابن نمیر کہتے ہیں سنا ہے علی بن ہاشم نامی راوی تشیع میں افارق کا شکار تھا منکر الھدیث تھا ،
ابن حبان کہتے ہیں : مکحول نے ہمیں حدیث بیان کی ہے میں نے جعتکر کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے
امام ابو زرعہ کہتے ہیں یہ صدوق ہے ، نسائی کہتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ۔ (میزان الاعتدال)
یہ ہے وہ اہلسنت کا منہج جس سے عام لوگ نہ واقف ہوتے ہیں اور شعیہ یا رافضی کی فقط توثیق دیکھ کر اسکی ہر روایت اندھا دھند قبول کرنے لگ جاتے ہیں جبکہ چونکہ رافضی بدعت کبریٰ کے مرتکب ہوتے ہیں اور رافضی ہمیشہ سچ بولے ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ امام اس کی حدیث میں توثیق کر بھی دیتےہیں تو یہ روافض ایسی روایات مشہور محدثین سے بیان کر دیتے ہیں جو منکرات میں سے ہوتی ہین جس کو کذب پر محمول کیا جاتا ہے
اس لیے امام ذھبی میزان الاعتدال میں شیعہ اور رافضی کا فرق اور اور کے بارے میں اہلسنت کا منہج واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : آخر بدعتی کی توثیق ہی کیوں جائز ہوئی ؟ حالانکہ توثیق کی تعریف میں عدات اور اتفاق آتا ہے تو کوئی بدعتی عادل کیس ہو سکتا ہے ؟
امام ذھبی یہ اعتراض نقل کرکے اسکا جواب یوں دیتے ہیں ؛
بدعت کی دو قسمیں ہوتی ہے
۱۔بدعت صغریٰ
۲۔ بدعت کبریٰ
بدعت صغریٰ جیسے غالی شیعہ ہونا یا غلو اور تحریکے کے شیعہ ہونا یہ قسم میں تو بہت سے تابعین اور تابع تابعین میں تھی باجود یہ کہ وہ دیندار متقی اور صادت تھے لہذا ایسوں کی حدیث بھی رد کر دی جائے تو حدیث کا ذخیرہ احادیث کا ایک برا حصہ ضائع ہو جائے گا
۲۔ بدعت کبریٰ
جسیے کہ رافضی ہونا اور رفض میں غالی ہونا ہے
حضرت شیخین کی شان میں گستاخی کرنا اور اس پر دوسروں کو ابھارنا (یعنی داعی ہونا ) اس قسم والے کی روایت قابل احتجاج نہیں نہ ہی اس کی وئی عزت و تکریم ہے اس قسم میں اب مجھے کوئی نہیں یاد ہو صادق اور مومون ہو (جس کی روایت اسکے مذہب کی تائید میں بھی قبول کر لی جائے) کیونکہ انکا شعار جھوٹ بولنا تقیہ کرنا اور معاملات میں نفاق کا مظاہرہ کرنا ہے لہذا جس کا یہ حال ہو ایسے کی روایت بھلا قبول کیسے کی جائے گی ہرگز قبول نہیں کی جائے گی (میزان الاعتدال صفحہ 6،چشتی)
اور امام ابن حجر عسقلانی مذید تصریح کرتے ہوئے تہذیب التہذیب میں اس بات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : عرف میں متقدمین میں تشیع سے مراد شیخین کو دیگر صحابہ پر فضیلت دینے کے ساتھ مولا علی کو حضرت عثمان غنی پر فضیلت ماننے کو کہا جاتا ہے اگرچہ حجرت علی اپنی جنگوں میں مصیب اورانکا مخلاف خطا پر تھا بعض کا نظریہ بھی ہے کہ حضرت علی رسول کے بعد سب سے افضل ہے اس طرح کا اعتقاد رکھنے والا متقی دیندار ہو اور سچا ہو تو محض اس وجہ سے اسکی روایت ترک نہیں ہوگی جبکہ وہ اپے اعتقاد کاداعی (یعنی غالی رافضی ) نہ ہو ، جبکہ عرف متاخرین میں تشیع سے مراد محض رفض ہے لہذا غالی رافضی ک روایت قبول نہیں نہ ہی اسکے لیے کسی کرامت ہے ۔ (تہذیب التہذیب جلد ۱ صفحہ ۹۳)
یعنی جو روایات میں رافضی و غالی اور داعی ہو اسکی روایت قبول نہیں ہوگی جس میں شیعت کی تقویت ہو یا اہل بیت کے فضائل میں روایت ہو
اور شیعہ کی روایت جو اسکے مذہب کے علاوہ ہوگی وہ قبول ہوگی ۔
اس منہج کو لوگ سمجھ نہیں سکتے اسی طرح امام ذھبی سے تلخیص میں بہت جگہوں پر تسامح ہوئے ہیں جن روایت کی تصحیح کی ہے بعد والی کتب میں انہی روایا ت جرح کی ہے یا ان روایات کے راویان پر جرح شدید کی ہے تو تسامح کو دلیل بناناکم علموں کا شیوہ ہے روایات کو رجال کی معرفت پر ہی پرکھا جاتا ہے جو کہ انہی محدثین کا منہج ہے اور لوگ کنفیوز رہتے ہیں کہ ایسی راویوں کا کیا فیصلہ ہوگا تو یہ راویان عمومی روایتوں میں تو حجت ہو سکتے ہیں لیکن اہل بیت کی شان میں شیعہ کو چھوڑ کر رافضی اور دااعی اور خاص کر صاحب منکرات رافضی راویان کی روایت کذب ہوتی ہیں اور جیسا کہ
امام ابن عدی
امام بن نمیر
امام ابن حبان
علی بن ھاشم منکر الحدیث اور مشہور راویان سے منکرات بیان کرتا تھا
تو ایسے راوی کی تفرد پر روایت جو اہل بیت کی شان میں ہو وہ ضرور گھڑھی ہوئی ہوتی ہے کیونکہ یہ باقی معملات میں تو ثقہ ہوتے ہیں لیکن اہل بیت کی شان میں غلو کرنا اور کذب بیانی کو تقیہ سمجھتے ہوئے جائز سمجھتے ہیں جو کہ انکا مذہب ہے
یہی وجہ ہے امام بخاری ایسوں کی روایت سے اجتناب کرتے اور قدریوں خارجیوں کی روایت لے لیتے کیونکہ وہ جھوٹ کو ہر حال میں گناہ سمجھتے تھے
اور اسی طرح امام اہل سنت شاہ امام احمد رضاء بریلوی محدث ہند فتاویٰ رضویہ میں حدیث موضوع کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؛
(١٢) یا ناقل رافضی حضرات اہلبیت کرام علٰی سیدہموعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اُس کے غیر سے ثابت نہہوں،جیسے حدیث:لحمك لحمی ودمك دمی (تیرا گوشت میرا گوشت،تیرا خُون میرا خُون۔ت)
اقول : انصافًا یوں ہی وہ مناقبِ امیر معاویہ وعمروبنالعاص رضی الله تعالٰی عنہما کہ صرف نواصب کی روایت سے آئیں کہ جس طرح روافض نےفضائل امیرالمومنین واہل بیت طاہرین رضی الله تعالٰی عنہم میں قریب تین لاکھحدیثوں کے وضع کیں”کمانص علیہ الحافظ ابویعلی والحافظ الخلیلی فی الارشاد”(جیسا کہ اس پر حافظ ابویعلی اور حافظخلیلی نے ارشاد میں تصریح کی ہے۔ت)
یونہی نواصب نے مناقب امیر معٰویہ رضی الله تعالٰیعنہ میں حدیثیں گھڑیں کماارشد الیہ الامام الذاب عن السنۃ احمد بن حنبل رحمہ الله تعالٰی (جیسا کہ اس کی طرف امام احمد بن حنبل رحمہ الله تعالٰی نے رہنمائی فرمائی جو سنّت کا دفاع کرنے والے ہیں۔ت)
تو یہ روایت منہج محدثین اور امام احمد رضاء کی تصریح کے مطابق کذب پر محمول ہے
علی بن ھاشم منکر الحدیث ، اور کثرت سے مناکیر مشاہیر سے بیان کرنے والا تھا
اور جو طبرانی کی روایت ہے اس میں ہاشم بن برید رافضی سے یہی روایت
صالح بن الاسود الکوفی منکر الحدیث ہے
2815 – صَالح بن ابي الاسود الْكُوفِي الحناط
عَن الاعمش مُنكر الحَدِيث
(میزان الاعتدال)
اس روایت کے کذب پر دوسری دلیل صریح یہ ہے کہ کبھی یہ بیان کرتا ہے کہ جہاں علی ہوگا وہاں حق ہوگا اور کبھی بیان کرتا ہے جہاں علی ہوگا وہی قرآن ہوگا
قرآن تو ہر صحابی کے ساتھ ہوتا ہے ۔۔۔۔ البتہ حق کسی صحابی کے ساتھ صحیح اجتیہاد میں ہوتا ہے کسی کے ساتھ نہیں ہوتا عرفی طور پر تو اجتیہادی خطاء ہوتی ہے ۔۔۔۔ یہ فرق ہے اہلسنت اور روافض میں اس روایت سے صاف پتہ چلتا ہے جس طرف علی ہونگے قرآن اس طرف مڑج جائے گا ۔۔ معاذاللہ اور پھر ہے کہ چونکہ قرآن اس طرف ہو چکا ہے یعنی مولا علی کی طرف تو قرآن وہی ہے جہاں مولا علی ہیں یہ ہے اس روایت کا لب لباب ۔ تو یہ رافضی کے کذب کی صریح دلیل ہے ۔ اس روایت کو بیان کرنا جائز نہیں اور یہ روافض کا تیار کردہ تحفہ ہے ۔ (ماخوذ فتاویٰ رضویہ جلد پنجم)
شیعہ “کتب احادیث” عام کتب احادیث سے مختلف ہیں ۔عام مسلمانوں میں سیاست اور ان سے ملحق چند اور کتابیں ہیں جو شارحین حدیث کے ہاں اپنی جگہ مستند سمجھی جاتی ہیں ، جیسے المصنف عبد الرزاق المصنف لابن ابی شیبہ، موطا امام مالک، موطا امام محمد، مسند امام دارمی، مسند امام احمد، مسند ابی داود ، مسند ابی یعلی، مسند ابی عوانہ، شرح مشکل الآثار شرح معنی الاثار، سنن کبریٰ ، معجم طبرانی ، مستدرک امام حاکم کو جمہور اہل اسلام کے نزدیک اسلام کا دوسرا علمی ماخذ سمجھتے ہیں ۔
وہ کئی احادیث و سنت انہیں کتب حدیث سے کشید کرتے ہیں لیکن ۔ کسی بھی حدیث کو قبول کرنے سے پہلے صحیح، ضعیف، ناسخ ومنسوخ اور خاص و عام کے تمام فاصلے دیکھے جاتے ہیں ۔
موضوع روایات کو سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہاں اہل علم کے معیار و ثبوت کے سارے پیمانے آزمائے جاتے ہیں اور جھوٹ سورج کی طرح نمایاں ہوجاتا ہے ۔ ان کے برعکس ۔ شیعہ کی کتب حدیث ان کے اصول اربعہ ہیں ان کتابوں کے جمہور اہل اسلام کسی طرح ذمہ دار نہیں ہیں اور نہ وہ انہیں کسی درجہ میں مستند سمجھتے ہیں ۔
شیعہ کی کتب مدتوں معرض خفا میں رہیں یہ اپنے مصنفین تک متواتر نہیں پہنچتیں ۔ لیکن اہل سنت کی کتب وہ ہیں جو مصنفین سے لے کر اب تک پوری شہرت سے مروی ہوتی آرہی ہیں ۔ گو ان میں بھی ہر درجہ کی احادیث روایات ہوئی ہیں لیکن ان کے وسیع علم رجال نے اس باب میں امت کی بہت رہنمائی کی ہے ۔
اہلسنت اپنی ابتدائی تاریخ میں بہت روادار رہے ان کا ذھن کسی طور پر فرقہ وارانہ نہ تھا ۔ شیعہ ابتدا سے ہی اپنے آپ کو عام مسلمانوں سے کٹا ہوا یا ہٹا ہوا سمجھتے تھے اور ان میں سے بعض اپنے آپ کو اہل سنت میں ملا کر رکھتے تھے اور ایسا بھی بہت ہوا کہ بعض اہلسنت روایات کو ان کی روایات کردہ حدیثوں میں ملا کر اسی سند سے آگے بھی روایت کر دیتے تھے ۔
ان کی ایسی روایات ہمارے ہاں بھی نچلے درجے کی کتب حدیث میں اور کتب تاریخ میں ملتی ہیں جنہیں یہ مؤلفین از راه تساہل یا بناء تغافل ذکر کر گئے ۔
موضوع حدیث کو جانتے ہوئے آگے بیان کرنا شرعا حرام ہے اور ایسے شخص کے ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے جو جان بوجھ کر پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر افتراء باندھے ہاں اس کے موضوع ہونے کے اظہار کی غرض سے اسے کوئی روایت کرے تو یہ بے شک پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اس طرح نہ ہوگا صرف ایک غیر دانشمندانہ تساہل ہوگا جن حضرات سے یہ غیر دانستہ غلطی ہوئی ہم ان کے لئے اللہ رب العزت کے حضور معافی کی درخواست کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں ۔
اہل سنت کی بلند پایاں کتب حدیث میں جس طرح حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل و مناقب کے ابواب باندھے ہیں حضرت عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کے فضائل بھی اسی طرح ان میں مروی ہیں ان میں فضائل صحابہ اور فضائل اہلبیت دونوں ، موجود ہیں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت مذکور ہے تو حضرت سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کی منقبت بھی ان میں مروی ہے ۔
خلقت انا وعلی من نور وکنا علی یمین العرش ان یخلق آدم بالفی عام ۔
ترجمہ : میں اور علی ایک نور سے پیدا کیے گیے اور ہم آدم کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے عرش کے دائیں جانب نشین تھے ۔
رافضی عقیدہ : اس حدیث سے شیعہ رافضی نے یہ عقیدہ بنایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نور ہونے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیضان کا کوئی دخل نہیں ہے حضرت علی پہلے سے نوری ہیں آپ نے تعلیم وتزکیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نہیں پایا بلکہ پہلے سے ہی برابر کے نور چلے آ رہے ہیں ۔دنیا علم میں یہ آفت جعفر بن احمد بن علی المعروف بابن علی العلاء سے آئی ۔ ابن عدی کہتے ہیں یہ حدیثیں گھڑتا تھا ۔
کنا نتھمہ بوضعھا بل نتیقن ذلک رافضیا وذکرہ ابن یونس ۔ فقل کان رافضیا یضع الحدیث ۔
ترجمہ : ہم اس پر وضع حدیث کا الزام رکھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ رافضی تھا ابن یونس نے بھی اس کو رافضی کہا ہے اور حدیث گھڑنے والا دیکھا آپ نے اس نے ایک ہی حدیث ایسی گھڑی کے اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مرید اور شاگرد کے بجائے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے برابر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو منبع نور قرار دیا ۔ (میزان الاعتدال ج٢/١٢۴)
استغفراللہ العظیم
ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : وعامة حدیثة موضوعة کان قلیل الحیاء دعاویہ علی قوم لم یلحقھم ۔ فی وضع مثل ھذا الحدیث الرکیکہ وفیہ مالا یشبہ کلام رسول اللہ عندہ عن یحیی بن بکیر احادیث مستقیمة ولکن یشبہ بھا بتلک الاباطیل ۔
ترجمہ : اور اس کی روایات زیادہ تر موضوع ہوتی ہیں جن لوگوں سے اس کی ملاقات تک نہ تھی ان سے روایت کرتے ہیں اور اس قسم کی کمزور احادیث وضع کرنے میں اور وہ روایات لانے میں جو کلام نبوت سے ہرگز دکھائی نہ دیتی ، یہ شخص کم حیا کرتا تھا اس کے پاس درست احادیث بھی موجود تھیں لیکن ان میں بھی وہ اس طرح کے جھوٹ ملا دیتا تھا ۔ (لسان المیزان جلد 2 صفحہ 109)
نور کے بعد ایک مٹی سے پیدا ہونے کی روایت بھی ملاحظہ کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : خلقت انا ہارون عمران یحی بن زکریا و علی بن ابی طالب من طینة واحدة ۔
ترجمہ : میں حضرت ہارون حضرت عمران حضرت یحیی بن زکریا اور حضرت علی بن ابی طالب ایک ہی مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں ۔
رافضی عقیدہ : پنجتن ایک ہی مٹی سے بنے اور مٹی نے نور کا نام پایا ۔
اہلسنت کے لٹریچر میں یہ آفت محمد بن خلف المروزی سے آئی ہے ۔ امام ذہبی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ہذا موضوع ۔ (میزان الاعتدال جلد 6 صفحہ 135 موضوعات ابن جوزی جلد 1 صفحہ 229)
حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ اسے ان الفاظ میں لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ موضوع ہے : خلافت انا وہارون و یحیی وعلی مین طنة واحدة ھذا موضوع ۔
ترجمہ : میں اور ہارون اور یحییٰ اور علی ایک ہی مٹی سے پیدا کیے گئے یہاں حضرت عمران کو نکال دیا گیا ہے دروغ گورا حافظ نباشد ۔ وقال دارالقطنی متروک ۔ (لسان المیزان جلد 5 صفحہ 157)
من لم یقل علی خیر الناس فقد کفر ۔
ترجمہ : جو شخص یہ نہ کہے کہ علی رضی اللہ عنہ تمام لوگوں سے اچھے ہیں وہ کفر کر چکا ۔
یہ آفت محمد ابن کثیر سے آئی ہے ۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں یہ شیعہ تھا ۔ (میزان الاعتدال جلد 6 صفحہ 310،چشتی)
قاضی نور اللہ شوستری کہتا ہے شیعی بودن اہل کوفہ حاجت باقامت دلیل ندار ۔
امام بخاری علیہ الرحمہ کہتے ہیں کوفی منکرالحدیث تھا اور امام علی ابن مدینی کہتے ہیں کتبنا عنہ عجائب وخططت علی حدیثہ وکذبہ یحیی بن معین ۔
ترجمہ : ہم نے اس سے عجیب عجیب روایات لکھیں اور اس کی روایات کو نشان ضد کرتے رہے اسے یحیی ابن معین میں جھوٹا ٹھہرایا ہے ۔ (لسان المیزان جلد ٣/ ٣۵٢،چشتی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بارے میں کہا میں صدیق اکبر ہوں معاذاللہ کیا آپ ایسی بات کہہ سکتے تھے ہرگز نہیں اپنے آپ کو بڑا کہنا اللہ والوں کے عادت نہیں ہے بہرحال روایت یہ ہے : انا عبداللہ واخو رسول اللہ و وانا الصدیق الاکبر لایقولھا بعدی الا کاذب صلیت قبل الناس سبع سنین ۔
ترجمہ : میں اللہ کا بندہ ہوں میں رسول اللہ کا بھائی ہوں میں صدیق اکبر ہوں میرے بعد جو شخص بھی اپنے آپ کو صدیق اکبر کہے وہ جھوٹا ہوگا میں دوسرے لوگوں سے سات سال پہلے اسلام لایا ۔
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ کے اسلام لانے کے بعد سات سال تک کوئی مسلمان نہ ہوا سات سال صرف آپ اکیلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت پر ہیں ۔ سوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بواتعجبیت ۔
اس کے دو راوی قابل نظر ہیں
عباد بن عبداللہ الاسدی الکوفی ۔
زید بن وہاب الجہنی ابو سلیمان الکوفی ۔
عن زازان عن سلمان قال رائت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرب فخذ علی ابن ابی طالب وصدرہ سمعتہ یقول محبک محبی ومحبی محب اللہ و مبغضک مبغضی و مبغضی مبغضب اللہ ۔
ترجمہ : حضرت سلمان کہتے ہیں میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ران اور سینے پر ایک ضرب سی لگائی اور میں نے آپ کو انہیں یہ کہتے ہوئے سنا تیرا محب میرا محب ہے اور میرا محب اللہ کا محب ہے اور تجھ سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے اور مجھ سے بغض رکھنے والا اللہ سے بغض رکھنے والا ہے ۔
احادیث میں یہ آفت عمرو بن خالد سے آئی ہے ۔
امام احمد علیہ الرحمہ کہتے ہیں یہ کذاب ہے ۔
یحیی بن معین بھی کہتے ہیں کہ یہ کذاب ہے ۔
ابو حاتم کہتے ہیں متروک الحدیث اور زاہب الحدیث ہے ۔
اسحاق بن راھویہ اور ابو ذرعہ کہتے ہیں کان یضع الحدیث ۔
قال وکیع کان جارنا فطہرنا منہ علی کزب فانتقل ورماہ ابن العرقی بالکزب ۔ وہ احادیث وضع کرتا تھا وکیع کہتے ہیں وہ ہمارے پڑوس میں رہتا تھا پھر ہم اس کے کذب کو پا گئے تو وہاں سے چلا گیا ۔ (تہذیب جلد 8 صفحہ 37)
ابن العراقی نے اس کے کذب ہونے کی نشاندہی کی ہے ۔
عن انس مرفوعا ان اخی و وزیری وخلیفتی فی اہل و خیر من اترک من بعدی علی ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میرا بھائی میرا وزیر اور میرا میرے گھر میں جانشین اور میرے بعد سب سے بہتر آدمی علی ہے اس نے خلیفتی فی اھلی کہہ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھروں تک جانشین رکھا اور آپ سے امت کے خلافت کی یکسر نفی کر دی ۔
احادیث میں یہ عافت مطر بن میمون اسکاف سے آئی ہے ۔
امام ذہبی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ یہ روایت موضوع ہے ۔ (میزان الاعتدال جلد 6 صفحہ 442)
امام بخاری ابو حاتم اور امام نسائی علیہم الرحمہ کہتے ہیں یہ شخص منکر حدیث تھا کرنل جوزی نے اس روایت کو موضوعات میں لکھا ہے ۔
عن انس قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم النظر الی وجہ علی عبادہ ۔
ترجمہ : انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہ علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے ۔ (المستدرک ج ١/ ١۴١۔ ۴٢)
راوی حدیث یہاں یہ واضح نہیں کر سکا کہ عبادت کس کی ہو گی ۔ اللہ تعالی کی یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ۔ یہ روایت مطر ابن میمون کی خدمت کا نتیجہ اور فکر ہے ۔ امام ذہبی رحمة اللہ علیہ اس حدیث اور محدث کے بارے میں لکھتے ہیں : کلاہما موضوعان ۔ حدیث بھی اور بیان کرنے والا بھی ۔ دونوں ہی موضوع ہیں ۔ (میزان الاعتدال ج6/442)
مطربن میمون نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے یہ روایت بھی گھڑی ہے : قال کنت عنہ النی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرای علیا مقبلا فقل انس ھذا حجتی علی امتی یوم القیامة ۔
ترجمہ : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آتے ہوئے دیکھا اور فرمایا اے انس رضی اللہ عنہ میری امت پر یہ شخص اللہ کی طرف سے حجت ہوگا قیامت کے دن ۔
حافظ عباس کی اس روایت کو بھی باطل ٹھہراتے ہیں ۔ (میزان الاعتدال ج6/442)
مطر بن میمون کی ایک اور کارروائی : عن انس قال کنت جالس مع النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم من ھذا قلت ھذا علی ابن ابی طالب یا انس انا وھذا حجة علی خلقہ اخرجہ ابن عدی الکامل ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ ادھر آۓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اے انس یہ کون ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ علی بن ابی طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انس میں اور یہ مخلوق پر اللہ کی حجت ہیں
مطر ابن میمون کی ایک اور واردات
عن انس مرفوعا علی اخی وصاحبی وابن عمی وخیر من اترک بعدی یقضی دینی وینجز موعدی میزان الاعتدال ج6۔446
ترجمہ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا علی میرا بھائی ہے علی میرا صحابی ہے علی میرے چچا کا بیٹا ہے اور جو بھی میرے بعد رہیں گے ان میں خیر الناس ہے میرے قرض یہی اتارے گا اور میرے عہد یہی پورا کرے گا ۔
عن ابن عباس عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال یا ام سلمة ان علیا لحمہ لحمی وھو بمنزلة ھارون بن موسی منی غیر انی لانبی بعدی اخرجہ عقیلی فی الضعفاء ۔
ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ سے روایت کی کہ اے ام سلمہ علی رضی اللہ عنہ کا چمڑہ میرا چمڑا ہے وہ بمنزلہ ھارون کے موسی کے لیےتھا میرے لیے میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے عقیلی نے اس کو کتاب الضعفاء میں زکر کیا ہے ۔
اس میں آفت داہر بن یحیی الزاری کی طرف سے آئی ہے ۔
امام زہبی علیہ الرحمہ اس کے بارے لکھتے ہیں : رافضی بغیض لایتابع علی بلایاہ ۔ (میزان الاعتدال ج٣ حرف دال)
لیکن اس روایت کا دوسرا حصہ
ھو بمنزلة ھارون من موسی
یہ صحیح ہے اخرجہ البخاری
اکثر شیعہ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت اول بھی ثابت کرتے ہیں تو ہم پوچھتے ہیں حضرت ہارون علیہ السلام تو حضرت موسی علیہ السلام کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ہارون علیہ السلام کی طرح کیسے ہوئے ؟
اولکم وردا علی الحوض اولکم اسلاماعلی ابن ابی طالب
رواہ ابن عدی الکامل ۔
ترجمہ : تم میں سب سے پہلے حوض پر وہ وارد ہو گا جو سب سے پہلے اسلام لایا اور وہ علی ابن ابی طالب ہے ۔
اس روایت میں عبدالرحمن ابن قیس الزعفرانی صاحبِ سازش ہے ۔ امام ذہبی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : کذبہ ابن مھدی وابو زرعة قال البخاری ذہب حدیثہ وقال احمد لم یکن شئی واخرجہ الحاکم حدیثا منکراً ۔ (میزان الاعتدال جلد ۴/ ٣٠٩،چشتی)
عبدالرحمان ابن مھدی اور ابو زرعہ کہتے ہیں کہ وہ چھوٹا تھا اس کی حدیث قبول کے لائق نہیں ۔
احمد کہتے ہیں وہ کوئی شئی ما تھا حاکم کہتے ہیں وہ منکر الحدیث تھا حاکم نے سہل انگاری سے اسے صحیح کہ دیا تو امام ذہبی نے اس کا تعاقب کیا ہے اور فرمایا ۔
لیس بصیحح قال ابو زرعة عبدالرحمان بن قیس کزاب ۔
یہ روایت صحیح نہیں ہے اس کا راوی عبدالرحمان ابن قیس کذاب ہے ۔
وصی وموضع سری وخلیفتی فی اھلی خیر من اخلف بعدی علی ۔
تجمہ : میرا وصی میرا رازدان میرا خلیفہ مرے اہل میں جن لوگوں کو میں پیچھے چھوڑ رہا ہوں ان میں سب سے بہتر علی ہے ۔
عبداللہ ابن داہر شعبی کی سند سے ایک روایت یہ بھی ملتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا
ھذا اول من آمن بی واول من یصافخی یوم القیامۃ وھو فاروق والباطل وھو یعسوب ھذہ الامۃ بین الحق و الباطل وھو یعسوب المومنین المال یعسوب الظلمة وھو الصدیق الاکبروھو خلیفتی من بعدی ۔
ترجمہ : یہ پہلا شخص ہے جو مجھ پر ایمان لایا اور یہ پہلا شخص ہے جو مجھ سے قیامت کے دن مصافحہ کرے گا یہ فاروق ہے جو میری امت میں حق اور باطل میں فیصلہ کرنے والا ہے یہ مومنین کا سردار ہیں یعنی صدیق اکبر ہے جو میرے بعد خلیفہ ہوگا ۔
اس پر امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : فھذا باطل لم اراحدا ذکرا داھراً ولاابن ابی حاتم وانما البلاء من ابنہ عبداللہ فانہ متروک ۔
ترجمہ : یہ روایت باطل ہے اور میں نے نہیں دیکھا کہ کسی نے داہر کا نام لیا ہو ابی حاتم کہتے ہیں کہ اس کا بیٹا متروک ہے ۔ (میزان الاعتدال جلد ٣/ ۴۴)
روی ابو داود الرھاوی انہ سمع شریکا یقول علی خیر البشرفمن ابی فقد کفر ۔ (اخرجہ الخطیب فی التاریخ ج۴/ ۴٢١)(ابن جوزی موضوعات ج١/ ٣٧٨)
امام ذہبی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : قلت بعض الکذابین یرویہ مرفوعا ۔ میں کہتا ہوں بعض کذاب اس کو مرفوع بھی روایت کرتے ہیں ۔ (میزان الاعتدال ج ٣/ ٣٧۴،چشتی)
No comments:
Post a Comment