Friday 14 January 2022

قبضہ والی زمین پر مسجد بنانا

0 comments

قبضہ والی زمین پر مسجد بنانا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : واضح رہے کہ شرعی مسجد کی جگہ خالص اللہ کےلیے وقف جگہ ہوتی  ہے اور جگہ وقف کرنے کی ایک شرط اس جگہ کا مالک ہونا ہے ۔ غاصب زمین کا مالک نہیں ہوتا ، لہذا غصب شدہ زمین میں مسجد بنانے سے وہ مسجد شرعی مسجد نہیں کہلائے گی ۔ نیز زمین غصب کرنا اور اس پر مسجد بنانا گناہ ہے ۔ ایسی مسجد میں نماز پڑھنا مکروہ ہے ، البتہ نماز ادا ہو جائے گی ۔ کسی زمین کو مسجد کی تعمیر کےلیے وقف کرنے کےلیے اس جگہ کا مالک ہونا ضروری ہے ، دوسرے کی زمین پر مسجد تعمیر کرنا شرعا جائز نہیں ہے ، ایسا کرنے والوں کو ثواب کے بجائے دوسرے کی زمین غصب کرنے کا گناہ ہوگا ، جس کے بارے میں صحیح بخاری میں موجود روایت کا مفہوم ہے کہ جس نے بالشت بھر زمین پر بھی ناجائز قبضہ کیا تو قیامت کے دن اسے اتنے حصے کی سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا ، جبکہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس کے بدلے اسے قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا ۔ ⬇

عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، وكانت، بينه وبين أناس خصومة في أرض، فدخل على عائشة فذكر لها ذلك، فقالت : يا أبا سلمة، اجتنب الأرض، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : من ظلم قيد شبر طوقه من سبع أرضين ۔ (صحيح البخاري 4/ 106،چشتی)

عن سالم، عن أبيه رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : من أخذ من الأرض شيئا بغير حقه خسف به يوم القيامة إلى سبع أرضين ۔ (صحيح البخاري 3/ 130)

لو وقف الغاصب المغصوب لم يصح، وإن ملكه بعد بشراء أو صلح ۔ (رد المحتار 4/ 341)

وفي الواقعات بنى مسجدا على سور المدينة لا ينبغي أن يصلي فيه؛ لأنه من حق العامة فلم يخلص لله تعالى كالمبني في أرض مغصوبة اهـ ۔ (رد المحتار 1/ 381)

تاہم یہ بھی ملحوظ رہے کہ ہر علاقے میں لوگوں کی ضرورت کے مطابق مسجد بنانا فرضِ کفایہ ہے اور حکومت کی ذمہ داری ہے؛ لہذا اگر کسی علاقے میں مسجد کی ضرورت ہو، اور وہاں ایسی خالی زمین ہو جو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو، بلکہ مصالحِ عوام کے لیے ہو، اس جگہ مسجد بنانا جائز ہے اور ایسی مسجد میں نماز پڑھنا بھی جائز ہے، مسلمانوں کے لیے نماز اور اس کے انتظام سے بڑھ کر کوئی مصلحت نہیں ہوسکتی ۔

غصب شدہ جگہ پر مسجد تو نہیں بن سکتی ہے، جب تک مالک سے اس کی اجازت نہ لے لی جائے، گورنمنٹ کے کسی دفتر یا ادارہ پر قبضہ کرکے اسے مسجد میں شامل کرنا بھی غصب ہے، البتہ جو جگہ علاقے کے لوگوں کی ضرورتوں کےلیے خالی پڑی ہو ، وہاں مسجد بنانا جائز ہے۔ اور گورنمنٹ کا فرض ہے کہ لوگوں کی ضرورت کے مدِ نظر وہاں مسجد بنوائے ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 340) : (قوله : وشرطه شرط سائر التبرعات) أفاد أن الواقف لا بد أن يكون مالكه وقت الوقف ملكا باتا ولو بسبب فاسد ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 341) : حتى لو وقف الغاصب المغصوب لم يصح، وإن ملكه بعد بشراء أو صلح، ولو أجاز المالك وقف فضولي جاز ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 381) : وفي الواقعات: بنى مسجدًا على سور المدينة لاينبغي أن يصلي فيه؛ لأنه من حق العامة فلم يخلص لله تعالى كالمبني في أرض مغصوبة ۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (37 / 195) : يجب بناء المساجد في الأمصار والقرى والمحال - جمع محلة - ونحوها حسب الحاجة وهو من فروض الكفاية ۔

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1 / 678) : (و) ما (أخذ منهم) أي من أهل الحرب (بلا قتال) بأن أخذ بالصلح (في مصالح المسلمين) متعلق بيصرف (كسد الثغور) جمع ثغر وهو موضع مخافة البلدان (وبناء القناطر) جمع قنطرة (والجسور) جمع جسر والفرق بينهما أن الأول لا يرفع والثاني يرفع وفيه إشارة إلى أنه يصرف في بناء المساجد والبقعة عليها لأنه من المصالح فيدخل فيه الصرف على إقامة شعائرها من وظائف الإمامة والأذان ونحوهما ۔

سرکاری زمین پر بغیر سرکار کی اجازت کے مسجد تعمیرکرنا شرعی ، قانونی اور اخلاقی طور پر درست نہیں ہے ۔ اگر آپ مسجد سے متصل زمین کو مسجد میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے حکومت سے اجازت لینا ضروری ہے۔ کیونکہ سرکاری زمین پر حکومت کی اجازت کے بغیر مسجد بنانے سے زمین سرکار کی ملکیت میں ہی رہے گی اور سرکار کو اس میں تصرف کرنے اور وہاں سے مسجد ہٹانے کا اختیار باقی رہے۔ ایسا کرنے سے بعد میں تنازعات پیدا ہوتے ہیں اور بسا اوقات حکومت کی طرف سے ناجائز قبضہ ہٹانے کے لیے توڑ پھوڑ کی جاتی ہے جس سے اشتعال جنم لیتا ہے۔ اس لیے مسجد کی تعمیر صرف اس جگہ پر اور اتنی ہی جگہ پر کی جائے جتنی مسجد کے لیے خریدی گئی ہے ، یا اسے کسی نے وقف کیا ہے ۔

مغصوبہ زمین کے بقدر یا اُس کی قیمت مالکِ حقیقی یا اُس کے ورثہ کو اَدا کرے ، اس کے بعد اس جگہ مسجد بنوانا درست ہوگا ۔ و علی الغاصب ردّ العین المغصوبۃ، فإن أخذہ فلیردہ علیہ …، ورد القیمۃ مخلص خلفًا ۔ (الہدایۃ ۳؍۳۷۳)

أفاد أن الواقف لا بد أن یکون مالکہ وقت الوقف ملکًا باتًا ولو بسبب فاسدٍ، وأن لا یکون محجورًا عن التصرف، حتی لو وقف الغاصب المغصوب، لم یصح، وإن ملکہ بعد بشراء أو صلح۔ (رد المحتار، کتاب الوقف / مطلب: قد یثبت الوقف بالضرورۃ ۴؍۳۴۱-۳۴۹ کراچی، البحر الرائق / کتاب الوقف ۵؍۳۱۴،الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الوقف الباب الأول ۲؍۳۵۳،چشتی)

یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (شامي، کتاب الحدود / باب التعزیر، مطلب: في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الغصب / الباب السابع في حد القذف، فصل في التعزیر ۲؍۱۶۷ ، البحر الرائق، کتاب الحدود / باب حد القذف، فصل في التعزیر ۲؍۶۸ زکریا، النہر الفائق، کتاب الحدود / باب حد القذف ۳؍۱۶۵)

عن سالم عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : من أخذ من الأرض شیئًا بغیر حقہ خسف بہ یوم القیامۃ إلی سبع أرضین۔ (صحیح البخاري، کتاب المظالم والغصب / باب إثم من ظلم شیئًا من الأرض رقم: ۲۴۵۴ دار الفکر بیروت، مشکاۃ المصابیح، کتاب البیوع / باب الغصب والعاریۃ ۲۵۴)

وعلی الغاصب ردّ العین المغصوبۃ۔ (الہدایۃ / کتاب الغصب ۳؍۳۵۷)
وکذا تکرہ في أماکن: کفوق کعبۃ … وأرض مغصوبۃ أو للغیر لو مزروعۃً أو مکروبۃً (الدر المختار) وفي الواقعات: بنی مسجدًا في سور المدینۃ، لا ینبغي أن یصلی فیہ؛ لأنہ حق العامۃ، فلم یخلص للّٰہ تعالیٰ کالمبنی في أرض مغصوبۃ … فالصلاۃ فیہا مکروہۃ تحریمًا في قول، وغیر صحیحۃ لہ في قول آخر ۔ (رد المحتار، کتاب الصلاۃ / مطلب في الصلاۃ في الأرض المغصوبۃ ۱؍۳۸۱ کراچی)

سرکار کی اِجازت کے بغیر جو جگہ مسجد میں شامل کرلی گئی ہے وہ مسجدِ شرعی کے حکم میں نہ ہوگی، اور وہاں نماز پڑھنے سے مسجدِ شرعی کا ثواب نہ ملے گا ۔

قلت : وہو کذٰلک، فإن شرط الوقف التأبید۔ والأرض إذا کانت ملکًا لغیرہ، فللمالک استردادہا، وأمرہ بنقض البناء۔ وکذا لو کانت ملکًا لہ؛ فإنّ لورثتہ بعدہ ذٰلک، فلا یکون الوقف مؤبدًا ۔ (رد المحتار، کتاب الوقف / مطلب: مناظرۃ ابن الشحنۃ مع شیخہ العلامۃ قاسم في وقف البناء ۴؍۳۹۰ کراچی)

گورنمنٹ کی اِجازت کے بغیر سرکاری زمین ر مسجد و مدرسہ کی تعمیر ہرگز جائز نہیں ہے ۔

لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ولا ولایتہ۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب الغصب / مطلب فیما یجوز من التصرف بمال الغیر ۹؍۲۹۱ ، الأشباہ والنظائر / الفن الثاني ۲؍۴۴۴)
قلت : وہو کذٰلک، فإن شرط الوقف التابید، والأرض إذا کانت ملکًا لغیرہ، فللمالک استردادہا، وأمرہ بنقض البناء۔ (شامي، کتاب الوقف / مطلب: مناظرۃ ابن شحنۃ ۴؍۳۹۰ کراچی)
المستفاد : لأن اللّٰہ تعالیٰ لا یقبل إلا الطیب فیکرہ تلویث بیتہٖ بما لا یقبلہ۔ (فتاویٰ شامی ۲؍۴۳۱)

اس لیے اگر آپ سرکاری زمین پر مسجد بنانا چاہتے ہیں یا مسجد سے متصل سرکاری زمین کو مسجد میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو حکومت سے اس کی اجازت لیں یا زمین کی قیمت دے کر رضا مندی سے خرید لیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔