درسِ قرآن موضوع آیت : وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ ۔ (سورہ الانفال آیت نمبر 33)
ترجمہ : اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب آپ ان میں تشریف فرما ہیں ۔
ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ جس عذاب کا کفار نے سوال کیا وہ عذاب انہیں دے جب تک اے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ ان میں تشریف فرما ہیں ، کیونکہ آپ رحمۃٌ لِلعالَمین بنا کر بھیجے گئے ہیں اور سنتِ اِلٰہیہ یہ ہے کہ جب تک کسی قوم میں اس کے نبی موجود ہوں ان پر عام بربادی کا عذاب نہیں بھیجتا کہ جس سے سب کے سب ہلاک ہوجائیں اور کوئی نہ بچے ۔ (تفسیر جلالین الانفال الآیۃ ۳۳، صفحہ ۱۵۰)(تفسیر مدارک الانفال الآیۃ ۳۳ صفحہ ۴۱۲)
مفسرین کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ آیت نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ مکہ مکرمہ میں مقیم تھے ۔ پھر جب آپ نے ہجرت فرمائی اور کچھ مسلمان رہ گئے جو اِستغفار کیا کرتے تھے تو ’’وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ‘‘ جب تک استغفار کرنے والے ایماندار موجود ہیں اس وقت تک بھی عذاب نہ آئے گا ۔ نازل ہوئی ۔ پھر جب وہ حضرات بھی مدینہ طیبہ کو روانہ ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے فتحِ مکہ کا اذن دیا اور یہ عذابِ مَوعود آگیا جس کی نسبت اگلی آیت میں فرمایا ’’وَ مَا لَهُمْ اَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ‘‘۔ حضرت محمد بن اسحاق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے فرمایا کہ ’’وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ‘‘ بھی کفار کا مقولہ ہے جو ان سے حکایۃً ذکرکیا گیا ،اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُن کی جہالت کا ذکر فرمایا کہ اس قدر احمق ہیں کہ آپ ہی تو یہ کہتے ہیں کہ یارب اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر نازل کر اور آپ ہی یہ کہتے ہیں کہ اے محمد (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) جب تک آپ ہیں عذاب نازل نہ ہوگا کیونکہ کوئی اُمت اپنے نبی کی موجودگی میں ہلاک نہیں کی جاتی۔ (تفسیر خازن الانفال الآیۃ ۳۳، ۲ / ۱۹۳)
امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ اسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ⬇
اَنْتَ فِیْهِمْ نے عَدُوْ کو بھی لیا دامن میں
عیشِ جاوید مبارک تجھے شیدائی دوست
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے اس شبہ کا جواب دیا ہے کہ اگر قرآن حق ہے اور وہ اس کے منکر ہیں تو ان پر آسمان سے پتھر کیوں نہیں برستے اور کوئی عذاب کیوں نہیں آتا ۔ اس کا اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا ہے کہ جب تک (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے درمیان موجود ہیں ان پر عذاب نہیں آئے گا اور یہ آپ کی تعظیم کی وجہ سے ہے اور تمام انبیاء سابقین (علیہم السلام) کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی یہی عادت جاریہ رہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کسی بستی والوں پر اس وقت تک عذاب نہیں بھیجا جب تک کہ اپنے نبی کو وہاں سے نکال نہیں لیا ۔ جیسا کہ حضرت ھود ، حضرت صالح اور حضرت لوط (علیہم السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ان کی بستیوں سے باہر بھیج دیا ، اس کے بعد ان کی بستیوں پر عذاب نازل فرمایا ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جب انبیاء (علیہم السلام) کا ان کے درمیان موجود ہونا نزول عذاب سے مانع ہے تو پھر انبیاء (علیہم السلام) کے ہوتے ہوئے ان کے خلاف جہاد اور قتال کیوں مشروع کیا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مسلسل کفر اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اہانت کی بناء پر آسمان سے عذاب کا نزول اور چیز ہے جس سے کافروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے ، اور ایمان کی دعوت کو مسترد کرنے کے نتیجہ میں ان سے قتال اور جہاد کرنا اور چیز ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی تفسیر میں فرمایا اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس وقت عذاب نہیں دیتا جب اس کے نبی اس قوم میں موجود ہوں ، وہ اپنے نبیوں کو ان کے درمیان سے نکال لاتا ہے پھر ان پر عذاب نازل فرماتا ہے اور جو ان میں سے پہلے ایمان لا چکے ہوں ان پر بھی عذاب نازل نہیں فرماتا ، اور مجاہد نے کہا جب وہ نماز پڑھ رہے ہوں تو ان پر عذاب نازل نہیں فرماتا ۔ امام ابن جریر نے کہا ان اقوال میں اولیٰ یہ ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ ان کو عذاب دے جب کہ آپ ان میں موجود ہیں ، حتیٰ کہ اللہ آپ کو ان کے درمیان سے باہر لے آئے کیونکہ وہ کسی بستی کو اس وقت ہلاک نہیں کرتا جب ان میں ان کا نبی موجود ہو ۔ اور نہ اللہ اس وقت ان پر عذاب نازل فرماتا ہے جب وہ اپنے کفر اور گناہوں پر استغفار کر رہے ہوں ۔ لیکن وہ اپنے کفر سے توبہ نہیں کرتے بلکہ وہ اس پر اصرار کرتے ہیں پھر فرمایا اور اللہ انہیں کیوں عذاب نہیں دے گا حالانکہ وہ لوگوں کو مسجد حرام سے روکتے ہیں اور وہ اس (مسجد حرام) کے متولی نہیں ہیں اور اس کے متولی تو متقی مسلمان ہی ہوتے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے ، اور اللہ تعالیٰ نے مکہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے بعد ان کو میدان بدر میں تلوار کے عذاب سے دوچار کیا ۔ بعض علماء نے کہا یہ دوسری آیت پہلی آیت کے لیے ناسخ ہے ، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ ان دونوں ایوں میں خبر دی گئی ہے اور نسخ خبر میں نہیں امر اور نہی میں واقع ہوتا ہے ۔
اس آیت میں جو فرمایا ہے مسجد حرام کے ولی تو صرف متقی مسلمان ہیں یعنی جو مسلمان اللہ کے فرائض کو ادا کرتے ہیں اور گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ مجاہد نے کہا اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (جامع البیان جز 9 صفحہ 309 ۔ 316 مطبوعہ دار الفکر بیروت 1415 ھ،چشتی)
حضرت موسیٰ کَلیمُ اللّٰہ عَلَیْہِ وَالسَّلام کی قوم میں ایک شخص اِنْتہائی گُنہگار تھا اس نے اپنی ساری زِندگی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانیوں میں بَسر کی ، جب وہ مرگیا تو بنی اسرئیل نے اسے یُونہی بے گور و کَفَن گَندگی کے ڈھیر پر ڈال دیا ۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کی طرف وَحْی بھیجی کہ ہمارا ایک دوست فوت ہوگیا ہے اور لوگوں نے اسے گَندگی پر پھینک دیا ۔ تم اُس کو اُٹھاؤ اور عِزَّت واِحْتِرام کے ساتھ اس کی تَجْہِیْز و تَکْفِیْن کرو اور اس کا جَنازہ پڑھادو ۔ یہ سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام اس جگہ پہنچے تو دیکھا کہ وہ تو ایک گُنہگار شخص تھا ، آپ کو حیر ت تو بہت ہوئی لیکن اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے حُکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ عَلَیْہِ السَّلام نے نہایت اِعزاز و اِکرام کیساتھ اس شخص کی تَجْہِیْز و تَکْفِیْن کی اور نمازِ جنازہ پڑھا کر دَفنا دیا ۔ بعد میں آپ عَلَیْہِ السَّلام نے دَربارِالہٰی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی : ، یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! یہ شخص تو بڑا مُجرم و خَطا کار تھا ، ایسے اِعزاز کا حَقْدار کیسے ہو گیا ؟ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا : اے موسیٰ ! تھا تو یہ واقعی بہت گُنہگار اور سخت سزا کا حَقْدار مگر اس کی یہ عادت تھی کہ جب کبھی توریت کھولتا : وَنَظَرَاِلٰی اِسْمِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَبَّلَہٗ وَوَضَعَہٗ عَلٰی عَیْنَیْہِ وَ صَلّٰی عَلَیْہ ، اور محمدِ عربی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نامِ پاک کو دیکھتا تو فرطِ مَحَبَّت سے اس نامِ پاک کو چومتا ، اسے آنکھوں سے لگاتا اور آپ کی ذاتِ طیبہ پر دُرُودِ پاک کے پھول نچھاور کرتا تھا ، ’’فَشَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہٗ وَغَفَرْتُ ذُنُوْبَہٗ وَزَوَّجْتُہٗ سَبْعِیْنَ حَوْرَاءَ ، پس میں نے (اسی عمل کی وجہ سے) اسے قدر و منزلت عطا کی اس کے گُناہوں کومُعاف کردیا اور ستَّر حُوریں اس کے نِکاح میں دیں ۔ (حلیۃ الاولیاء وہب بن منبہ ۴/۴۵ حدیث : ۴۶۹۵ )
جو شخص اِنتہائی گُنہگار اور لوگوں کی نظر میں حَقیر تھا ، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نامِ نامی اسمِ گرامی کی تَعْظِیم و تَوقِیر کرنے ، اس کو چوم کر آنکھوں سے لگانے اور آپ کی ذاتِ اَقدس پر دُرُودِپاک پڑھنے کی بَرَکت سے اس کے تمام گُناہ مُعاف فرمادئیے اور اس کایہ عمل اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو اس قَدر پسند آیا کہ اسے مقبولِ بارگاہ بنا لیا ۔ ہمیں بھی چاہیے کہ جب بھی نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلَّم کا مُبارک نام پڑھیں یا سنیں تو تَعْظِیم کی نِیَّت سے انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگا ئیں اور آپ کی ذاتِ پاک پر دُرُودِپاک پڑھیں اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی بَرَکت سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مَعیَّت میں داخلِ جَنَّت ہونگے ۔
حضرت ابو لبابہ بن عبدا لمنذر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پر ایک خطا سرزد ہو گئی تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اس قدر نادم ہوئے کہ خود کو ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور کہا : جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہیں فرمائے گا تب تک نہ میں کچھ کھاؤں گا ، نہ پیوں گا ،نہ کوئی چیز چکھوں گا ، یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جب ان کے بارے میں پتا چلا تو ارشاد فرمایا : اگر یہ میرے پاس آ جاتا تو میں اس کے لئے مغفرت طلب کرتا لیکن اب اس نے خود کو باندھ لیا ہے تو جب تک اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہ فرمائے گا ، میں نہیں کھولوں گا ۔ سات دن تک حضرت ابو لبابہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے نہ کوئی چیز کھائی ، نہ پی ، نہ چکھی ، حتّٰی کہ ان پر غشی طاری ہو گئی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی ، جب انہیں توبہ کی قبولیت کے بارے میں بتایا گیا تو فرمایا : خدا کی قسم! میں اس وقت تک خود کو نہیں کھولوں گا جب تک کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لا کر اپنے دستِ اقدس سے مجھے نہیں کھولتے ۔ چنانچہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے اور اپنے پیارے صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو بندشوں سے آزاد فرما دیا ۔ (دلائل النبوہ للبیہقی باب مرجع النبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ من الاحزاب ومخرجہ الی بنی قریظۃ ۔ الخ، ۴ / ۱۳-۱۴،چشتی)(تفسیر خازن الانفال الآیۃ: ۲۷، ۲ / ۱۹۰)
بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں توبہ و رُجوع کی ایک دوسری روایت ملاحظہ فرمائیں ، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ عَنْہا فرماتی ہیں : میں نے ایک ایسا بستر خریدا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں جب نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور گھر میں داخل نہ ہوئے ، میں نے آپ کے روئے انور پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو عرض گزار ہوئی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، مجھ سے جو نافرمانی ہوئی میں اس سے اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں ۔ ارشاد فرمایا: یہ گدا یہاں کیوں ہے ؟ عرض کی : میں نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےلیے خریدا تھا تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس پر تشریف فرما ہوں اور اس سے ٹیک لگائیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ان تصویروں (کو بنانے) والے قیامت کے دن عذاب دئیے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا : جو تم نے بنایا انہیں زندہ کرو۔‘‘ اور ارشاد فرمایا : ’’جس گھر میں تصویریں ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔ (صحیح بخاری کتاب البیوع باب التجارۃ فیما یکرہ لبسہ للرجال والنساء، ۲ / ۲۱، الحدیث: ۲۱۰۵)
حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ چالیس صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم جن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا بھی تھے جمع ہوکر جَبر و قَدر میں بحث کرنے لگے تو روحُ الْاَمین حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی : یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ باہر اپنی امت کے پاس تشریف لے جائیں انہوں نے ایک نیا کام شروع کر دیا ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس حال میں باہر تشریف لائے کہ غصہ سے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہرہ مبارک سرخی میں اس طرح نمایاں تھا جیسے سرخ انار کا دانہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رخسار مبارک پر نچوڑا گیا ہو ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اس کیفیت کو دیکھ کر کھلے بازو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے استقبال کےلیے آگے بڑھے اور ان کا حال یہ تھا کہ ان کے ہاتھ اور بازو کانپ رہے تھے اور عرض کی ’’ تُبْنَا اِلَی اللہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘ ہم نے اللہ تعالیٰ اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں توبہ پیش کی ۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ قریب تھا کہ تم اپنے اوپر جہنم کو واجب کر لیتے ، میرے پاس جبرائیل امین عَلَیْہِ السَّلَام تشریف لائے اور عرض کی کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ باہر امت کے پاس تشریف لے جائیں ، انہوں نے نیا کام شروع کردیا ہے ۔ (معجم الکبیر ثوبان مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲ / ۵۹، الحدیث: ۱۴۲۳،چشتی)
نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضری کا یہ طریقہ صرف آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں نہ تھا بلکہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ مبارک کے بعد بھی یہ عرض و معروض باقی رہی اور آج تک ساری امت میں چلتی آرہی ہے ۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے دورِ خلافت میں قحط پڑ گیا تو صحابی رسول حضرت بلال بن حارث المزنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور پر حاضر ہو کر عرض کی : یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی امت کےلیے بارش کی دعا فرما دیجئے وہ ہلاک ہو رہی ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خواب میں ان سے ارشاد فرمایا : تم حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے پاس جا کر میرا سلام کہو اور بشارت دے دو کہ بارش ہو گی اور یہ بھی کہہ دو کہ وہ نرمی اختیار کریں ۔ حضرت بلال بن حارث رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوئے اور خبر دے دی ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ یہ سن کر رونے لگے ، پھر فرمایا : یا رب عَزَّوَجَلَّ ، میں کوتاہی نہیں کرتا مگر اسی چیز میں کہ جس سے میں عاجز ہوں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، ما ذکر فی فضل عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ۷ / ۴۸۲، الحدیث: ۳۵)(وفاء الوفا الباب الثامن فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، الفصل الثالث، ۲ / ۱۳۷۴، الجزء الرابع)
ایک مرتبہ مدینۂ منورہ میں شدید قحط پڑا اہلِ مدینہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ عَنْہا کی بارگاہ میں اس کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا : نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور دیکھو اور چھت میں ایک روشندان بناؤ حتّٰی کہ روضۂ منور اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ رہے ، اہلِ مدینہ نے جیسے ہی روشندان بنایا تو اتنی کثیر بارش ہوئی کہ سبز گھاس اُگ آئی اور اونٹ موٹے ہو گئے یہاں تک کہ گوشت سے بھر گئے ۔ (سنن دارمی، باب ما اکرم اللہ تعالی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد موتہ، ۱ / ۵۶، الحدیث: ۹۲،چشتی)
بادشاہ ابو جعفر منصور نے حضرت امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ سے مسجدِ نبوی شریف میں مناظرہ کیا ، دورانِ مناظرہ ابو جعفر کی آواز کچھ بلند ہوئی تو امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے اسے ( ڈانٹتے ہوئے) کہا : اے امیرُ المؤمنین ! اس مسجد میں اپنی آواز اونچی نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک جماعت کو ادب سکھایا کہ ’’ تم اپنی آوازوں کو نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آواز سے بلند مت کرو ۔ ‘‘اور دوسری جماعت کی تعریف فرمائی کہ’’ بے شک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پَست کرتے ہیں ۔‘‘ اور ایک قوم کی مذمت بیان کی کہ’’ بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ۔‘‘ بے شک آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت و حرمت اب بھی اسی طرح ہے جس طرح آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات میں تھی ۔ یہ سن کر ابو جعفر خاموش ہو گیا ، پھر دریافت کیا : اے ابو عبداللہ! میں قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگوں یا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف متوجہ ہو کر ؟ فرمایا : تم کیوں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے منہ پھیرتے ہو حالانکہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہارے اور تمہارے والد حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے بروز قیامت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں وسیلہ ہیں بلکہ تم حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کی طرف متوجہ ہو کر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے شفاعت مانگو پھر اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت قبول فرمائے گا ۔ (شفا شریف القسم الثانی الباب الثالث فصل واعلم انّ حرمۃ النبی ۔ الخ، صفحہ ۴۱، الجزء الثانی،چشتی)
مروان نے اپنے زمانۂ تَسَلُّط میں ایک صاحب کو دیکھا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبر انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہیں ، مروان نے (ان کی گردن مبارک پکڑ کر) کہا : جانتے ہو کیا کر رہے ہو ؟ (جیسے آج کل آلِ سعود نجدی وہابی کہتے ہیں) اس پر ان صاحب نے اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : ہاں ، میں کسی اینٹ پتھر کے پاس نہیں آیا ہوں ، میں تو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حضور حاضر ہوا ہوں ۔ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : دین پر نہ روؤ جب اس کا اہل اس پر والی ہو ، ہاں اس وقت دین پر روؤ جبکہ نا اہل والی ہو۔ یہ صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ ا للہُ عَنْہُ تھے ۔ (مسند امام احمد، حدیث ابی ایوب الانصاری، ۹ / ۱۴۸، الحدیث: ۲۳۶۴۶،چشتی)
نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وفات شریف کے بعد ایک اعرابی روضۂ اقدس پر حاضر ہوا اور روضۂ انور کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا : یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، جو آپ نے فرمایا ، ہم نے سنا اور جو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل ہوا ، اس میں یہ آیت بھی ہے’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا‘‘ میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا ہوں تو میرے رب عَزَّوَجَلَّ سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے ۔ اس پر قبر شریف سے ندا آئی کہ تجھے بخش دیا گیا ۔ (تفسیر مدارک النساء الآیۃ ۶۴ صفحہ ۲۳۶)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment