Sunday, 9 January 2022

شانِ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حصہ پانزدہم

 شانِ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حصہ پانزدہم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : رافضی و نیم رافضی اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت نہ تو شورٰی کے ذریعے تھی اور نہ اس پر مسلمانوں کا اجماع قائم ہوا بلکہ وہ تو فقط ایک شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اشارے پر قائم ہوئی ۔ اور اگر یہ بات درست ہو تو کیا تمام مسلمانوں پر ایسے شخص کی اطاعت کرنا واجب ہے جو اس وقت خلیفہ مسلمین بھی نہ تھا بلکہ اسلامی ملک کا ایک عام باشندہ اور دوسرے مسلمانوں کے مانند ایک مسلمان تھا ؟ اور اگر کوئی شخص ایسے آدمی کی اطاعت نہ کرے تو کیسے اس کا خون مباح ہو سکتا ہے ؟ کیا یہ ایک فرد قیامت تک آنے والے مسلمانوں پر حجت ہے ؟ جبکہ ہمارے بہت سے علماء جیسے ابویعلیٰ حنبلی متوفٰی ٤٥٨ھ کہتے ہیں : لاتنعقد الاّ بجمھور أھل العقد والحلّ من کلّ بلد لیکون الرّضا بہ عاما، والتّسلیم لامامتہ اجماعا .وھذا مذھب مدفوع ببیعة أبی بکر علی الخلافة باختیارمن حضرھا ولم ینتظر ببیعة قدوم غائب عنھا.( الأحکام السلطانیة : ٣٣)

قرطبی کہتے ہیں : ((فانّ عقدھا واحد من أھل الحلّ والعقد..)). جامع احکام القرآن ١: ٢٧٢)


اس اعتراض کا جواب


اول : سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم منعقد ہو چکا تھا جس کا ثبوت ہم نے اس سے پہلے کی گئی پوسٹ میں دے دیا ہے ۔


دوم : ابو یعلی ، قرطبی وغیرہ کا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بیعت وقت ضروری نہیں کہ پررے ملک کے لوگ ہیں بیعت کریں بس ہر جگہ سے اہل حال و عقد اگر بیعت میں شریک ہوں تو یہ امامت اجماع پر ہی ہے اور پھر عقلن بھی یہ محال ہے کہ پورے ملک سے سب کے سب بیعت کریں ۔ اور اجماع کےلیے بھی یہ ضروری ہے کہ امت کی غالب اکثریت جس چیز کو اپنائے وہ لازم ہوتی ہے اجماع کےلیے ضروری نہیں کہ ہر مسئلہ پر تمام امت متفق ہو کیوں کہ ایسا نا ممکن ہے ۔ چناچہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت تمام مہاجرین و انصار اور امت کی غالب اکثریت نے تسلیم کر لی تھی ۔ اس لیے ان کی خلافت کو ماننا نہ صرف ضروری ہے بلکہ اسے نہ ماننے والا شخص اس امت سے خارج ہو جاتا ہے ۔


سوم : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو امام مقرر کیا تھا و نماز پڑھاتے تھے وہ کوئی عام باشندے کیسے ہو سکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حیات ظاہری میں امام بنتے ہیں اور امام حج بھی ۔ چناچہ وہ کوئی عام باشندے نہیں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کوئی بھی خلیفہ نہیں تھا تو ابی بکر رضی اللہ عنہ کیسے ہو سکتے ہیں ہاں وہ وقتی امام ضرور تھے جب انصار اور مہاجرین رضی اللہ عنہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور آپ کو مستقل طور پر اپنا امام بنا لیا تو وہ خلیفہ بلا فصل بن گئے ۔ ان کی خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے پر نہیں قائم ہوئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صرف ان کی حمایت کی بلکہ انصار کے و مہاجرین رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکمل مشورہ کیا گیا تھا ۔ ظاہر ہے مسجد نبوی میں مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم سب نے آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تو وہ اس پر راضی تھے ۔ اکیلے سیدنا عمر آپ کو خلیفہ کسیے بنا سکتے ہیں ۔


سیدنا فاروق اعظم و سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح نے مہاجرین میں سے سیدنا صدیق اکبر کا نام خلافت کےلیے تجویز کیا جیسے انصار نے سیدنا سعد بن عبادہ کا نام تجویز کیا تھا ۔ جب انصار بھی سیدنا صدیق کی بیعت ہر راضی ہوگئے اور ان کے امیدوار نے ہاتھ اٹھا لیا پھر اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اگر امید وار تھے انہوں نے بھی ہاتھ اٹھا لیا جیسے نو بختی لکھتے ہیں انہوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو تسلیم کرلیا وہ ان کےلیے دستبردار ہوگئے اور ابو بکر سے راضی تھی ۔ تو مہاجرین نے بھی بیعت کرلی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ وہ بنی ہاشم نے بھی بیعت کرلی ۔ اس طرح سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر سب مسلمانوں نے اجماع کرلیا اس کی تفصیل ہم پہلے مضمون میں لکھ چکے ہیں جو لوگ غائب تھے یعنی اس وقت مدینہ میں نہ تھے یا دوسرے علاقوں کے تھے تو انہوں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت ان کے عمال یعنی گورنروں کے ذریعے کی ۔


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنا خلیفہ بنایا حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی مبارک گواہی حوالہ شیعوں کے گھر سے


شیعوں کا محدث و مفسر محمد بن مرتضی المعروف محسن کاشانی لکھتا ہے : حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وِصال مبارک کے بعد حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے مسجد میں کھڑے ہو کر بلند آواز سے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنایا ۔ (تفسیر الصافی الجزء السادس صفحہ نمبر 467 تفسیر سورہ محمد،چشتی)


خلفاء راشدین کی خلافت اور خلافتِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہم بر حق​ ہے


محترم قارئینِ کرام : امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مجھے اپنی زندگی کی قسم میں حق کے خلاف چلنے والوں اور گمراہی میں بھٹکنے والوں سے جنگ میں کسی قسم کی رو رعایت اور سستی نہیں کروں گا ۔ (نہج البلاغہ مترجم اردو خطبہ نمبر 25 صفحہ 136،چشتی مطبوعہ محفوظ بک ایجنسی کراچی)


خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی خلافت حق تھی ورنہ امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ ضرور ان سے جنگ کرتے کیونکہ امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ اللہ کے شیر ہیں ۔ وہ شیعہ روافض کی طرح ڈرپوک اور تقیہ کرنے والے نہ تھے ۔ امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا اور ان کا سیدنا ابو بکر ، عمر ، اور عثمان رضی اللہ عنہم کے خلاف جنگ اور قتال نہ کرنا ہی اس بات کی دلیل تھا کہ وہ لوگ حق پر ہیں ۔


حضرت سیّدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت


ثبوت شیعہ کتب سے


جب دیکھا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےکلمہ توحید کی نشر و اشاعت اور لشکروں کی تیاری میں پوری پوری کوشش کی اور انہوں نے اپنی ذات کے معاملے میں کسی کو ترجیح نہ دی اور نہ ہی کسی پر زیادتی کی تو حضرت علی رض نے ان سے مصالحت کرتے ہوئے انکی بیعت کر لی اور اپنے حق سے چشم پوشی کی.کیونکہ اس سے اسلام کے متفرق ہونے سے حفاظت بھی تانکہ لوگ پہلی جہالت کی طرف نہ لوٹ جائیں ۔ (کتاب اصل الشیعہ و اصولہا ‘الشیخ کاشف الغطا صفحہ 123’124,.193،چشتی)


سیدنا امام باقر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس آیت کریمہ( اَلَّـذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ اَضَلَّ اَعْمَالَـهُمْ ۔ وہ لوگ جو منکر ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو بھی اللہ کے راستہ سے روکا تو اللہ نے ان کے اعمال برباد کر دیے) ، کی تلاوت کے بعد اپنا مقصد فنشھدالخ سے بیان فرمایا جس میں بطور شہادت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا ثبوت اور وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا (وَمَآ اٰتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا (اور جو کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو) ، دوسری بات یہ کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اگرچہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے وصی کے الفاظ سنے تھے لیکن اتفاق و اجماع صحابہ کو دیکھتے ہوئے اسے مرجوع قرار دیا اور خلافت صدیق کے حق ہونے کی بیعت کی ۔ (تفسیر صافی الجز السادس سورہ محمد آیت ۱)(تفسیر القمی الجز الثالث صفحہ ۹۷۵)


جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی اور حالات پرسکون ہو گئے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدہ فاطمہ الزھراء رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے لئے سفارش کی اور رضا کے طلب گار ہوئے تو آپ راضی ہو گئیں ۔ (کتاب شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد 6 صفحہ 196)،(بحار الانوار ملا باقر مجلسی جلد 28 صفحہ 322)،(بیت الاحزان شیخ عباس قمی صفحہ ۱۱۳،چشتی)،(حق الیقین جلد اول صفحہ ۲۰۲)


علی رضی اللہ عنہ نے اُن (یعنی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما) کی خلافت کو تسلیم کر لیا تھا اور اُس پر راضی ھو گئے تھے ، اور بغیر کسی جبر کے اُن کی بیعت کر کے فرماںبرداری کی ، اور اُن کے حق میں دستبردار ھو گئے تھے۔ پس ھم بھی اس پر راضی ھیں جیسے وہ راضی تھے۔ اب ھمارے لئے یہ حلال نہیں کہ ھم اس کے علاوہ کچھ اور کہیں ، اور ھم میں سے کوئی اس کے سوا کچھ اور کہے۔ اور یہ کہ علی (ر) کی تسلیم (تسلیم کرنے) اور راضی ھونے کی وجہ سے ابو بکر (ر) کی ولایت ، راشدہ اور ھادیہ بن گئی ۔ (کتاب فرق الشیعہ ص 31&32 محمد بن حسن نوبختی)


حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : جب اسامہ (رضی اللہ عنہ) کو (نبی (ص) کے وصال کا) خط پہنچا تو وہ ساتھیوں سمیت مدینہ آگئے ، اور دیکھا کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے پاس (بیعت کے لئے) لوگ جمع ہیں ۔ تو وہ علی (رضی اللہ عنہ) کے پاس گئے اور اُن سے پوچھا: یہ کیا ہے ؟ علی (رضی اللہ عنہ) نے اُن سے کہا : یہ وہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو ۔ اسامہ (رضی اللہ عنہ) نے اُن سے پوچھا: کیا آپ نے بھی بیعت کر لی ہے ؟ علی (رضی اللہ عنہ) نے کہا : ہاں اسامہ (میں نے بھی بیعت کر لی ہے ۔ (شیخ طبرسی الاحتجاج جلد ۱ صفحہ ۱۱۲&۱۱۳)


حضرت سیّدنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : یہ دیکھ کر کہ کہیں فتنے یا شر پیدا نہ ہو جائے ، میں ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے پاس چل کر گیا اور اور اُن کی بیعت کرلی ۔ اور اُن حوادث کے خلاف (ابوبکر(رضی اللہ عنہ) کے ساتھ) کھڑا ہوگیا ، حتیٰ کہ باطل چلا گیا اور اللہ کا کلمہ بلند ہو گیا چاہے وہ کافروں کو برا لگے ۔ پس جب ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے نظام امارت سنبھالا اور حالات کو درست کیا اور آسانیاں پیدا کیں ، تو میں اُن کا مُصاحب شریک کار (ہم نشیں) بن گیا اور اُن کی اطاعت (فرماںبرداری) کی ، جیسے اُنہوں نے اللہ کی اطاعت کی ۔ (شیخ علی البحرانی “منار الہدی ص 685)


اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ علی (رضی اللہ عنہ) نے (ابوبکر رضی اللہ عنہ کی) بیعت کرلی تاکہ شر دفع ہو اور فتنہ پیدا نہ ہو ۔ (محمد بن حسن طوسی تلخیص شافی جلد 3 ص 42)


اور جب ان سے (حضرت سیّدنا مولا علی رضی اللہ عنہ) ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی بیعت کرنے کا سبب معلوم کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : اگر ہم ابو بکر کو خلافت کا اہل نہ سمجھتے تو ہم اسے خلیفہ نہ بننے دیتے ۔ (شرح نہج البلاغۃ: ۲/۴۵)


حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی امامت و خلافت کا منکر کافر ہے


محترم قارئینِ کرام : جو شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا منکر ہو وہ کافر ہے ۔ (درس نظامی کی مشھور ومعتبر کتاب کنزالدقائق کی معرکۃ الآراء شرح البحرالرائق لابن نجیم جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 611 ،چشتی مطبوعہ بیروت لبنان)


فتاوی عالمگیری میں ہے : من انکرامامہ ابی بکر الصدیق فہو کافر علی قول بعضہم وقال بعضہم ہو مبتدع ولیس بکافر والصحیح انہ کافر کذلک من انکر خلافۃ عمر فی اصح الاقوال ویجب اکفار الروافض فی قولہم برجہۃ الاموات الی الدنیا وتناسخ الارواح ۔

ترجمہ : جس شخص نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت کبریٰ کا انکار کیا وہ بعض حضرات کے قول کے مطابق کافر ہے جب کہ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ وہ مبتدع قرار پائے گا اس کو کافر نہیں کہیں گے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ وہ کافر ہے اسی طرح قول صحیح کے مطابق وہ شخص بھی کافر ہوجائے جو حضرت عمر کی خلافت کا انکار کرے گا نیز رافضیوں کو اس بناء پر کافر قرار دینا واجب ہے کہ وہ مردوں کے دنیا میں لوٹنے اور تناسخ ارواح کے قائل ہیں ۔ (فتاوی عالمگیری جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 286،چشتی)


من انکر امامۃ ابی بکر الصدیق رضی ﷲ تعالی عنہ فھو کافر وعلی قول بعضھم ھو مبتدع ولیس بکافر والصحیح انہ کافر و کذٰلك من انکر خلافۃ عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ فی اصح الاقوال ۔ (بر جندی شرح نقایہ کتاب الشہادۃ فصل یقبل الشہادۃ من اہل الھواء نو لکشور لکھنؤ ۴/ ۲۰،۲۱)

ترجمہ : امامت صدیق اکبر رضی ﷲ تعالی عنہ کا منکر کافر ہے ، اور بعض نے کہا بد مذہب ہے کافر نہیں ، اور صحیح یہ ہے کہ وُہ کافر ہے ، اسی طرح خلافت فاروق اعظم رضی ﷲ تعالٰی عنہ کا منکر بھی صحیح قول پر کافر ہے ۔


یکفر بانکارہ امامۃ ابی بکر رضی ﷲ تعالٰی عنہ علی الا صح کا نکارہ خلافۃ عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ علی الاصح ۔ (بحرالرائق باب احکام المرتدین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۵/ ۱۲۱)

ترجمہ : اصح یہ ہے کہ ابو بکر یا عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما کی امامت و خلافت کا منکر کافرہے ۔


مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر میں ہے : الرافضی ان فضل علیا فھو مبتدع وان انکر خلافۃ الصدیق فھو کافر ۔ (مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر کتاب الصلٰوۃ فصل الجماعۃ سنۃ موکدۃ داراحیاء التراث العربی بیروت جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 108)،چشتی

ترجمہ : رافضی اگر صرف تفضیلیہ ہو تو بد مذہب ہے اور اگر خلافتِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا منکر ہو تو کافر ہے ۔


یکفر بانکار ہ صاحبۃ ابی بکر رضی ﷲ تعالٰی عنہ وبانکارہ امامتہ علی الاصح وبانکارہ صحبۃ عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ علی الاصح ۔ (جمع الانہر شرح ملتقی الابحر باب المرتد فصل ان الفاظ الکفر انواع داراحیاء التراث العربی بیروت 1/ 692)

ترجمہ : جو شخص ابو بکر صدیق رضی ﷲ تعالٰی عنہ کی صحابیت کا منکر ہو کافر ہے ۔ یُونہی جو اُن کے امامِ برحق ہونے کا انکار کرنے مذہب اصح میں کافر ہے ، یونہی عمر فاروق رضی ﷲ تعالٰی عنہ کی صحابیت کا انکار قول اصح پرکفر ہے ۔


فتح القدیر میں علامہ کمال الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر رافضی ابوبکر صدیق و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر ہے تو وہ کافر ہے ۔ (فتح القدیر ، باب الامامت صفحہ نمبر 8،چشتی)


فتاویٰ بزازیہ میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے ۔ حضرت علی ، طلحہ ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے ۔ (فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸)


شرح فقہ اکبر میں ہے : جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے ، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (شرح فقہ اکبر:۱۹۸)


امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب رد الرافضہ میں بڑی تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں جس کا اختصار یہ ہے کہ : جو حضرات حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنہما خواہ ان میں سے ایک کی شان پاک میں گستاخی کرے اگر چہ صرف اسی قدر کہ انہیں امام و خلیفہ برحق نہ مانے ، کتاب معتبر و فقہ حنفی کی تصریحات اور عام ائمۂ ترجیح و فتویٰ کی تصحیحات سے یہ مطلقاً کافر ہیں ۔ (رد الرافضہ) ۔ (مزید حصّہ شانزدہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...