Saturday 15 January 2022

اہلسنت و جماعت کا عقیدہ افضلیتِ صحابہ حصّہ اوّل

0 comments

 اہلسنت و جماعت کا عقیدہ افضلیتِ صحابہ حصّہ اوّل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : عقیدہ عقد سے ماخوذ ہے ۔ اور لغوی اعتبار سے عقیدہ ایقان لزوم ، استحکام ، وثوق" وغیرہ معانی میں مستعمل ہوتا ہے ۔ عقیدہ کی جمع عقائد ہے ۔ اور اصطلاح میں عقیدہ اس اعتقاد جازم کا نام ہے جس پر انسان کا دل اس مضبوطی سے بیٹھ جائے جو کسی بھی قسم کے شک اور گمان سے متزلزل نہ ہو ۔


اور خاص اصطلاح شرع میں عقیدہ اس اعتقاد (قلبی یقین) کو کہیں گے جو ارکان اسلام (اللہ کی وحدانیت ، انبیا ورسل کی نبوت ورسالت ، فرشتے ، کتاب ، روز قیامت ، تقدیر خیروشر اور بعث بعد الموت) پر مشتمل ہو ۔


المعجم الوسیط میں ہے : العَقِيدَةُ : الحُكْمُ الذي لا يقْبلُ الشكُّ فيه لدى معتقِدِه ۔ وفي الدِّين : ما يقصد به الاعتقاد دون العَمل ، كعقيدة وجود اللهِ وبَعْثة الرُّسُل ۔


مسلمانوں کےلیے یوں تو تمام عقائد اہم ہیں ، مگر دو قسم کے عقائد زیادہ اہم ہیں : ⬇


(1) ضروریاتِ دین ۔


(2) ضروریاتِ مذہب اہل سنت ۔


ضروریات دین


دین کے وہ احکام و مسائل جو قرآن کریم یا حدیث متواتر یا اجماع سے اس طرح ثابت ہوں کہ ان میں نہ کسی شبہ کی گنجائش ہو، نہ تاویل کی کوئی راہ ۔ اور ان کا دین سے ہونا خواص و عوام سب جانتے ہوں ۔ جیسے اللہ عزوجل کی وحدانیت ، انبیا مرسلین علیہم الصلاۃ والسلام کی نبوت ورسالت اور ان کی شان عظمت کا اعتقاد ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا آخری نبی ہونا ۔


ضروریات دین کا حکم


ضروریات دین میں سے کسی ایک کا بھی انکار ، بلکہ ان میں ادنٰی سا شک کرنا بھی کفر قطعی ہے ۔ اور اس کا منکر کافر ہے ۔ اور ایسا کافر کہ اس کے کفر پر مطلع ہوکر اس کے کافر ہونے میں جو ادنٰی سا شک کرے وہ بھی کافر ہے ۔


ضروریات اہل سنت


وہ مسائل ہیں جن کا مذہب اہل سنت وجماعت سے ہونا خواص و عوام سب کو معلوم ہو ، ساتھ ہی ان کا ثبوت دلیل قطعی سے ہو ، مگر ان کے قطعی الثبوت ہونے میں ایک نوع شبہ اور احتمال تاویل ہو ۔ جیسے عذاب قبر ، وزن اعمال ، قیامت کے دن رویت باری تعالیٰ کے ثبوت کا اعتقاد ۔


ضروریات اہل سنت کا حکم


ضروریات مذہب اہل سنت میں سے کسی بھی امر کا انکار کفر نہیں ، البتہ ضلالت و گمراہی ضرور ہے ، اس کا منکر گمراہ ، بد مذہب ، سخت فاسق و فاجر ہے ۔

(ماہنامہ اشرفیہ فروری 2015 مجلس شرعی کے فیصلے)


ان تمہیدی باتوں کے بعد اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ۔


مسلمانوں کا متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے کہ : انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے بعد سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اور یہی عقیدۂ اجماعی صحابہ کرام ، تابعین عظام رضی اللہ عنہم اور امت کے اسلافِ فخام کا ہے ۔


اس مسئلہ اجماعی کی چند تصریحات ہدیہ قارئین ہیں : ⬇


صحیح البخاری میں ہے : عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ : كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ۔ (صحیح البخاری ج:5،ص:4،كِتَابٌ : فَضَائِلُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ، بَابُ فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : ہم گروہ صحابہ زمانۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ابوبکر ،پھر عمر ، پھر عثمان کے برابر کسی کو نہ گنتے ۔


مسند الحارث میں ہے : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : كُنَّا مَعْشَرَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مُتَوَافِرُونَ نَقُولُ : أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ عُثْمَانُ ثُمَّ نَسْكُتُ ۔ (مسند الحارث ج:2،ص:888،رقم : 959، مرکزخدمۃالسنۃ والسیرۃ المدینۃ المنورۃ)


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : ہم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اکثر و بیشتر کہا کرتے : افضل امت بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ابو بکر صدیق ہیں ، پھر عمر فاروق ۔


السنۃ لابی بکر بن الخلال میں ہے :

قَالَ : قُلْتُ لِمَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ عِنْدَكَ أَفْضَلُ أَوْ عَلِيٌّ؟ قَالَ: فَارْتَعَدَ حَتَّى سَقَطَتْ عَصَاهُ مِنْ يَدِهِ، ثُمَّ قَالَ : مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنِّي أَبْقَى إِلَى زَمَانٍ يَعْدِلُ بَيْنَهُمَا، إِنَّهُمَا كَانَا رَأْسَ الْإِسْلَامِ، وَرَأْسَ الْجَمَاعَةِ ۔ (السنۃ لابی بکر بن الخلال،ج:2، ص:379،رقم:529،دارالریۃ،ریاض)


حضرت میمون بن مہران سے سوال ہوا : شیخین افضل یا علی ؟ اس کلمہ کے سنتے ہی ان کے بدن پر لرزہ پڑا ، یہاں تک کہ عصا دست مبارک سے گر گیا،اور فرمایا : مجھے گمان نہ تھا کہ اس زمانے تک زندہ رہوں گا ، جس میں لوگ لوگ ابو بکر و عمر کے برابر  کسی کو بتائیں گے ۔


ان احادیث و روایات سے ظاہر ہوا کہ : زمانہ صحابہ و تابعین میں تفضیلِ شیخین پر اجماع تھا ، اور اور اس کے خلاف سے ان کے کان بھی آشنا نہ تھے ۔


بلکہ امام شافعی علیہ الرحمہ اکابر ائمہ نے اس عقیدہ پرصحابہ کرام و تابعین عظام رضی اللہ عنہم کا اجماع نقل کیا ہے ۔


امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : ما اختلف أحد من الصحابة والتابعين في تفضيل أبي بكر وعمر و تقديمها على جميع الصحابة ۔ (الاعتقاد والھدایۃ الی سبیل الرشاد،ص:369،دارالافاق الجدیدۃ،بیروت،چشتی)

ترجمہ : صحابہ کرام اور تابعین میں سے کسی نے بھی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہم کے افضل ہونے اور باقی تمام صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے مقدم ہونے کے لحاظ سے اختلاف نہیں کیا ۔


اسی طرح عامہ کتب اصول میں اس مسئلہ پر صراحتاً اجماع  منقول ہے ، یا کم از کم  بلا ذکرِ خلاف اسے مذہب اہل سنت قرار دیا گیا ہے ۔


امام نووی علیہ الرحمہ شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں : اتفق اهل السنة على أن افضلهم ابو بكر، ثم عمر ۔ (شرح صحیح مسلم للنووی،ج:15،ص:148،کتاب فضائل الصحابہ)

ترجمہ : اہل سنت کا اتفاق ہے کہ افضل صحابہ ابوبکر ہیں پھر عمر ۔


ابو منصور بغدادی علیہ الرحمہ "اصول الدین" میں فرماتے ہیں : أصحابنا مجمعون على أن أفضلهم ، الخلفاء الاربعة على الترتيب المذكور ۔ (اصول الدین لابی منصور صفحہ 304)

ترجمہ : ہمارے اصحاب اجماع کیے ہوئے ہیں کہ افضل صحابہ خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم ہیں ترتیب مذکور پر ۔


تہذیب الاسماء واللغات للنووی میں ہے : أجمع أهل السنة على أن أفضلهم على الاطلاق أبو بكر ، ثم عمر ۔ (تہذیب الاسماء واللغات للنووی جلد 1 صفحہ 28 فصل فی حقیقۃ الصحابی،چشتی)

ترجمہ : اہل سنت نے اجماع کیا کہ مطلقاً سب صحابہ سے افضل ابوبکر ہیں ، پھر عمر ۔


امام قسطلانی علیہ الرحمہ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں : الأفضل بعد الانبياء عليهم الصلاة والسلام أبو بكر رضي الله تعالى عنه وقد اطبق السلف على أنه أفضل الأمة. حكى الشافعي وغيره إجماع الصحابة والتابعين على ذلك ۔ (ارشاد الساری جلد 6 صفحہ 430 رقم 3655،فضل أبی بکر بعد النبی)

ترجمہ : انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد افضل البشر ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور تحقیق سلف صالح  نے ان کے افضل امت ہونے پر اتفاق کیا ۔ اور امام شافعی وغیرہ اس امر پر اجماع صحابہ و تابعین نقل کرتے ہیں ۔


مواہب اللدنیہ میں ہے : أفضلهم عند أهل السنة إجماعا أبو بكر ، ثم عمر ۔ (المواہب اللدنیۃ جلد 2 صفحہ 545 الفصل الثالث،ذکر محبۃ أصحابہ،چشتی)

ترجمہ : اہل سنت کے نزدیک بالاجماع افضل الصحابہ ابو بکر ہیں ، پھر عمر ۔


الصواعق المحرقہ میں ہے : أن مالك رحمه الله سئل أي الناس أفضل بعد نبيهم ؟ فقال : ابو بكر ، ثم عمر ۔ ثم قال : أو في ذلك شك ؟ ۔ (الصواعق المحرقۃ صفحہ نمبر 86)

 ترجمہ : امام مالک سے سوال ہوا کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے بعد سب سے افضل کون ہیں ، تو آپ نے جواب دیا کہ ابوبکر صدیق اور ان کے بعد عمر فاروق ۔

پھر ارشاد فرمایا : کیا اس بارے میں کوئی شک ہے ؟


اور شرح عقائد نسفی میں ہے : أفضل البشر بعد نبينا ، أبو بكر الصديق ، ثم عمر الفاروق ۔ (شرح العقائد للنسفی صفحہ 321, 322 ، مبحث أفضل البشر بعد نبینا ابو بکر،مکتبۃ المدینۃ،دعوت اسلامی)

ترجمہ : ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء کے بعد  افضل بشر حضرت ابوبکر صدیق ، پھر  عمر فاروق ہیں ۔


حضرت شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں : جمہور ائمہ دریں باب اجماع نقل کنند ۔ (تکمیل الایمان صفحہ 104 باب فضل الصحابہ،چشتی)

ترجمہ : جمہور ائمہ اس باب (افضلیت صدیق) میں اجماع نقل کرتے ہیں ۔ 


فتاوی رضویہ میں ہے : اہل سنت وجماعت نصرہم اللہ تعالی کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکۃ و رسل و انبیائے بشر صلوات اللہ تعالی و تسلیماتہ علیہم کے بعد حضرات خلفائے اربعہ رضوان اللہ تعالی علیہم تمام مخلوق اِلہٰی سے افضل ہیں ، تمام امم اولین و آخرین میں  کوئی شخص ان کی بزرگی و عظمت و عزت و وجاہت و قبول و کرامت و قرب و ولایت کو نہیں  پہنچتا ۔ { وَ اَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ} ۔ فضل اللہ تعالی کے ہاتھ میں  ہے جسے چاہے عطا فرمائے ، اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔ پھر ان میں  باہم ترتیب یوں  ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر ، پھر فاروق اعظم ، پھر عثمان غنی ، پھر مولی علی صلی اللہ تعالی علی سیدھم ، ومولا ھم وآلہ وعلیھم وبارک وسلم ۔ (الفتاوی الرضویۃ جلد 28 صفحہ 478 رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)


بہار شریعت میں ہے : بعد انبیا و مرسلین ، تمام مخلوقاتِ الٰہی انس و جن و مَلک سے افضل صدیق اکبر ہیں  ، پھر عمر فاروقِ اعظم ، پھر  عثمٰن  غنی ، پھر مولیٰ علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہم ۔ (بہار شریعت جلد 1 صفحہ 241 امامت کا بیان مکتبۃ المدینہ)


ان تمام تصریحات سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت پر صحابہ کرام،تابعین عظام اور اکابر علما کا اجماع ہے ۔ اب اس اجماعی عقیدہ کا جو انکار کرے وہ ضرور گمراہ و بد مذہب ہوگا ، بلکہ قریب ہے کہ اس کے ایمان میں خطرہ ہو ۔


شرح قصیدہ بدء الامالی میں ہے :

من أنکر یوشک أن فی ایمانہ خطرا ۔ (شرح بدء الامالی تحت شعر : 34)


مسلمانوں کا متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے کہ انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے بعد سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ اور یہی عقیدۂ اجماعی صحابہ کرام تابعین عظام رضی اللہ عنہماور امت کے اسلاف علیہم الرحمہ کا ہے ۔ تمام صحابہ کرام اور تابعین عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم  اجمعین  کا اس بات پر اجماع  ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ  والسلام کے بعد تمام مخلوق میں افضل حضرت سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، پھرحضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں اور یہی عقیدہ مسلکِ حق اہلسنت و جماعت کا ہے اور اس عقیدے پر  بکثرت احادیث نبویہ ، آثارِ صحابہ و اقوال ائمہ ، بلکہ خود حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا فرمان موجود ہے اور جمہور اہلسنت کے نزدیک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں ۔ جو شخص مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرات ِشیخین کریمین صدیق اکبر و عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر فضیلت دے ، وہ شخص اہلسنت سے خارج ہے ۔


افضلیت ابوبکر صدیق کے متعلق آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کا اجماعی فیصلہ


حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے والد حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی انہوں نے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے انہوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے سنا ابوبکر سے بہتر کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ اس کے بعد حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے روایت میں غلط بیانی کی ہو تو مجھے شفاعت نصیب نہ ہو اور میں تو قیامت کے دین صدیق کی شفاعت کا طلب گار رہونگا ۔ اسی کے ساتھ دوسری روایت ہے کہ ساری امت سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (الرّیاض النضرہ مترجم اردو جلد اوّل صفحہ 267 ، 268 مطبوعہ مکتبہ نورِ حسینیہ لاہور) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔