سیرت و خصاٸل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عبدالرحمن بن ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہ رسالت کے تین مہمانوں کو اپنے گھر لائے اورخودحضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوگئے اور گفتگو میں مصروف رہے یہاں تک کہ رات کا کھانا آپ نے دسترخوان نبوت پر کھالیا اور بہت زیادہ رات گزر جانے کے بعد مکان پر واپس تشریف لائے ۔ ان کی بیوی نے عرض کیا کہ آپ اپنے گھر پر مہمانوں کو بلا کر کہاں غائب رہے ؟حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کیا اب تک تم نے مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا؟بیوی صا حبہ نے کہا کہ میں نے کھانا پیش کیا مگر ان لوگوں نے صاحب خانہ کی غیر موجودگی میں کھانا کھانے سے انکارکر دیا۔یہ سن کر آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بہت زیادہ خفا ہوئے اور وہ خوف ودہشت کی و جہ سے چھپ گئے اورآپ کے سامنے نہیں آئے پھر جب آپ کا غصہ فروہوگیا توآپ مہمانوں کے ساتھ کھانے کے لیے بیٹھ گئے اورسب مہمانوں نے خوب شکم سیر ہوکر کھانا کھالیا۔ ان مہمانوں کا بیان ہے کہ جب ہم کھانے کے برتن میں سے لقمہ اٹھاتے تھے تو جتنا کھانا ہاتھ میں آتا تھا اس سے کہیں زیادہ کھانا برتن میں نیچے سے ابھر کر بڑھ جاتا تھا اورجب ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو کھانا بجائے کم ہونے کے برتن میں پہلے سے زیادہ ہوگیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے متعجب ہوکر اپنی بیوی صا حبہ سے فرمایا کہ یہ کیا معاملہ ہے کہ برتن میں کھانا پہلے سے کچھ زائد نظر آتاہے ۔ بیوی صا حبہ نے قسم کھاکر کہا: واقعی یہ کھانا تو پہلے سے تین گنا بڑھ گیا ہے ۔ پھرآپ اس کھانے کو اٹھا کر بارگاہ رسالت میں لے گئے ۔ جب صبح ہوئی تو ناگہاں مہمانوں کا ایک قافلہ درباررسالت میں اتراجس میں بارہ قبیلوں کے بارہ سردار تھے او رہر سردار کے ساتھ بہت سے دوسرے شتر سوار بھی تھے ۔ ان سب لوگوں نے یہی کھانا کھایااورقافلہ کے تمام سرداراورتمام مہمانوں کا گروہ اس کھانے کو شکم سیر کھاکر آسودہ ہوگیا لیکن پھر بھی اس برتن میں کھانا ختم نہیں ہوا ۔ (بخاری شریف ج۱،ص۵۰۶،چشتی)
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مرض وفات میں اپنی صاحبزادی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو وصیت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ میری پیاری بیٹی! آج تک میرے پاس جو میرا مال تھا وہ آج وارثوں کا مال ہوچکا ہے اورمیر ی اولاد میں تمہارے دونوں بھائی عبدالرحمن و محمد اور تمہاری دونوں بہنیں ہیں لہٰذا تم لوگ میرے مال کو قرآن مجید کے حکم کے مطابق تقسیم کر کے اپنا اپنا حصہ لے لینا۔ یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا کہ ابا جان! میری تو ایک ہی بہن ”بی بی اسماء”ہیں۔ یہ میری دوسری بہن کون ہے ؟آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میری بیوی ”بنت خارجہ” جو حاملہ ہے اس کے شکم میں لڑکی ہے وہ تمہاری دوسری بہن ہے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ لڑکی پیدا ہوئی جن کا نام ”ام کلثوم”رکھا گیا ۔ (تاریخ الخلفاء،ص۵۷)
اس حدیث کے بارے میں حضرت علامہ تاج الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا کہ اس حدیث سے امیرالمؤمنین حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو کرامتیں ثابت ہوتی ہیں ۔
اول : یہ کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قبل وفات یہ علم ہوگیا تھا کہ میں اسی مرض میں دنیا سے رحلت کروں گا اس لئے بوقت وصیت آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فرمایاکہ ”میرا مال آج میرے وارثوں کا مال ہوچکا ہے ۔”
دوم : یہ کہ حاملہ کے شکم میں لڑکا ہے یا لڑکی، اورظاہرہے کہ ان دونوں باتوں کا علم یقینا غیب کا علم ہے جو بلا شبہ وبالیقین پیغمبر کے جانشین حضرت امیر المؤمنین ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو عظیم الشان کرامتیں ہیں ۔ (ازالۃ الخفاء مقصد ۲،ص۲۱وحجۃ اللہ ج۲،ص۸۶۰)
حدیث مذکورہ بالا اورعلامہ تاج الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر سے معلوم ہوا کہ مَا فِی الْاَرْحَامِ (جو کچھ ماں کے پیٹ میں ہے اس) کا علم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حاصل ہو گیا تھا ۔ لہٰذا یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ قرآن مجید کی سورۂ لقمان میں جو یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ ۔ آیا ہے یعنی خدا کے سواکوئی اس بات کو نہیں جانتا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے ؟اس آیت کایہ مطلب ہے کہ بغیر خدا کے بتائے ہوئے کوئی اپنی عقل وفہم سے نہیں جان سکتا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے ؟لیکن خداوند تعالیٰ کے بتادینے سے دوسروں کو بھی اس کا علم ہوجاتاہے ۔ چنانچہ حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام وحی کے ذریعے اوراولیائے امت کشف وکرامت کے طور پر خداوند قدوس کے بتا دینے سے یہ جان لیتے ہیں کہ ماں کے شکم میں لڑکا ہے یا لڑکی؟مگر اللہ تعالیٰ کا علم ذاتی ، ازلی وابدی اورقدیم ہے اورانبیاء علیہم الصلوۃ السلام و اولیاء رحمۃ اللہ علیہم کا علم عطائی وفانی اورحادث ہے ۔ اللہ اکبر ! کہاں خداوند قدوس کا علم اور کہاں بندوں کا علم ؟ دونوں میں بے انتہا فرق ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعد جو قبائل عرب مرتد ہوکر اسلام سے پھر گئے تھے ان میں قبیلہ کندہ بھی تھا۔ چنانچہ امیر المؤمنین حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس قبیلہ والوں سے بھی جہاد فرمایا اورمجاہدین اسلام نے اس قبیلہ کے سردار اعظم یعنی اشعث بن قیس کو گرفتار کرلیا اورلوہے کی زنجیروں میں جکڑ کر اس کو دربارِ خلافت میں پیش کیا۔ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے آتے ہی اشعث بن قیس نے بآواز بلند اپنے جرمِ ارتداد کا اقرارکرلیا اور پھر فوراً ہی توبہ کرکے صدق دل سے اسلام قبول کرلیا۔ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوش ہوکر اس کا قصور معاف کردیا اوراپنی بہن حضرت ”ام فروہ”رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس کا نکاح کر کے اس کو اپنی قسم قسم کی عنایتوں اورنوازشوں سے سرفراز کردیا۔ تمام حاضرین دربارحیران رہ گئے کہ مرتدین کا سردارجس نے مرتد ہوکر امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بغاوت اور جنگ کی اوربہت سے مجاہدین اسلام کا خون ناحق کیا ۔ ایسے خونخوار باغی اوراتنے بڑے خطرناک مجرم کو امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس قدر کیوں نوازا؟لیکن جب حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صادق الاسلام ہوکر عراق کے جہادوں میں اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر ایسے ایسے مجاہدانہ کارنامے انجام دیئے کہ عراق کی فتح کا سہرا انہیں کے سر رہا اورپھر حضر ت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں جنگ قادسیہ اور قلعہ مدائن و جلولاء و نہاوند کی لڑائیوں میں انہوں نے سرفروشی وجانبازی کے جوحیر تناک مناظر پیش کئے انہیں دیکھ کر سب کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ واقعی امیر المؤمنین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نگاہ کرامت نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات میں چھپے ہوئے کمالات کے جن انمول جوہروں کو برسوں پہلے دیکھ لیا تھا وہ کسی اور کو نظر نہیں آئے تھے ۔ یقینا یہ امیرالمؤمنین حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک بہت بڑی کرامت ہے ۔ (ازالۃ الخفاء مقصد ۲،صفحہ ۳۹)
اسی لیے مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ عام طور پر یہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے علم میں تین ہستیاں ایسی گزری ہیں جو فراست کے بلند ترین مقام پر پہنچی ہوئی تھیں ۔
اول : امیرالمؤمنین حضرت ابو بکرصدیق رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کہ ان کی نگاہ کرامت کی نوری فراست نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات کو تاڑلیا اورآپ نے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے بعد خلافت کے ليے منتخب فرمایا جس کو تمام دنیا کے مؤرخین اور دانشوروں نے بہترین قراردیا ۔
دوم : حضر ت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی بیوی حضرت صفوراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے روشن مستقبل کو اپنی فراست سے بھانپ لیا اوراپنے والد حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا کہ آپ اس جوان کو بطور اجیر کے اپنے گھر پر رکھ لیں۔ جبکہ انتہائی کسمپرسی کے عالم میں فرعون کے ظلم سے بچنے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام اکیلے ہجرت کر کے مصر سے ”مدین” پہنچ گئے تھے ۔ چنانچہ حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو اپنے گھر پر رکھ لیا اوران کی خوبیوں کو دیکھ کر اور ان کے کمالات سے متأثر ہوکر اپنی صاحبزادی حضرت بی بی صفوراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ان سے نکاح کردیا اوراس کے بعد خداوند قدوس نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو نبوت ورسالت کے شرف سے سرفراز فرمادیا۔
سوم : عزیز مصر کہ انہوں نے اپنی بیوی حضرت زلیخا کو حکم دیا کہ اگرچہ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے زرخرید غلام بن کر ہمارے گھر میں آئے ہیں مگر خبردار ! تم ان کے اعزاز و اکرام کا خاص طو رپر اہتمام و انتظام رکھنا کیونکہ عزیز مصر نے اپنی نگاہِ فراست سے حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کے شاندارمستقبل کو سمجھ لیا تھا کہ گویا آج غلام ہیں مگر یہ ایک دن مصرکے بادشاہ ہوں گے ۔ (تاریخ الخلفاء ،ص۵۷وازالۃ الخفاء مقصد۲،ص۳۳)
امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِخلافت میں قیصر روم سے جنگ کے لیے مجاہدین اسلام کی ایک فوج روانہ فرمائی اورحضرت ابو عبید ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس فوج کا سپہ سالارمقرر فرمایا ۔ یہ اسلامی فوج قیصرروم کی لشکر ی طاقت کے مقابلہ میں صفر کے برابر تھی مگر جب اس فوج نے رومی قلعہ کا محاصرہ کیا اور لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کا نعرہ ماراتو کلمہ طیبہ کی آواز سے قیصر روم کے قلعہ میں ایسا زلزلہ آگیا کہ پورا قلعہ مسمار ہوکر اس کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور دم زدن میں قلعہ فتح ہوگیا ۔ بلا شبہ یہ امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہت ہی شاندار کرامت ہے کیونکہ آپ نے اپنے دستِ مبارک سے جھنڈا باندھ کر اورفتح کی بشارت دے کر اس فوج کو جہاد کےلیے روانہ فرمایا تھا۔ (ازالۃ الخفاء، مقصد ۲،ص۴۰)
ایک شخص نے امیرالمؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اے امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ میں نے یہ خواب دیکھا ہے کہ میں خون میں پیشاب کر رہا ہوں ۔آپ نے انتہائی غیظ وغضب اورجلا ل میں تڑپ کر فرمایا کہ تو اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں صحبت کرتاہے لہٰذا اس گناہ سے توبہ کر اورخبردار!آئندہ ہرگز ہرگز
کبھی بھی ایسا مت کرنا ۔ وہ شخص اس اپنے چھپے ہوئے گناہ پر ناد م وشرمندہ ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تائب ہوگیا۔ (تاریخ الخلفاء،ص۷۲)
جب حضرت امیرالمؤمنین ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقدس جنازہ لے کر لوگ حجرہ منورہ کے پاس پہنچے تو لوگوں نے عرض کیا کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ ھٰذَا اَبُوْ بَکْرٍ یہ عرض کرتے ہی روضہ منورہ کا بنددروازہ یک دم خود بخود کھل گیا اور تمام حاضرین نے قبر انور سے یہ غیبی آواز سنی : اَدْخِلُوا الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ (یعنی حبیب کو حبیب کے دربار میں داخل کردو) ۔ (تفسیر کبیر،ج۵،ص۴۷۸)
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی وفات اقدس سے صرف چند دن پہلے رومیوں سے جنگ کے لئے ایک لشکر کی روانگی کا حکم فرمایا اوراپنی علالت ہی کے دوران اپنے دست مبارک سے جنگ کا جھنڈا باندھااورحضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ہاتھ میں یہ نشان اسلام دے کر انہیں اس لشکر کا سپہ سالار بنایا۔ ابھی یہ لشکر مقام ”جرف ”میں خیمہ زن تھا اور عساکرِ اسلامیہ کااجتماع ہوہی رہا تھا کہ وصال کی خبر پھیل گئی اور یہ لشکرمقام ”جرف” سے مدینہ منورہ واپس آگیا ۔ وصال کے بعد ہی بہت سے قبائل عرب مرتد اوراسلام سے منحرف ہوکر کافر ہوگئے نیز مسیلمہ الکذاب نے اپنی نبوت کا دعویٰ کر کے قبائل عرب میں ارتداد کی آگ بھڑکادی اور بہت سے قبائل مرتد ہوگئے۔
اس انتشار کے دور میں امیر المؤمنین ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تخت خلافت پر قدم رکھتے ہی سب سے پہلے یہ حکم فرمایا کہ ”جیش اسامہ ”یعنی اسلام کا وہ لشکر جس کو حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیر قیادت روانہ فرمایا اوروہ واپس آگیا ہے دوبارہ اس کو جہاد کےلیے روانہ کیا جائے ۔ حضرات صحابہ کرام بارگاہ خلافت کے اس اعلان سے انتہائی متوحش ہوگئے اورکسی طرح بھی یہ معاملہ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسی خطرناک صورتحال میں جبکہ بہت سے قبائل اسلام سے منحرف ہوکر مدینہ منورہ پر حملوں کی تیاریاں کر رہے ہیں اور جھوٹے مدعیان نبوت نے جزیرۃ العرب میں لوٹ ماراوربغاوت کی آگ بھڑکا رکھی ہے۔ اتنی بڑی اسلامی فوج کا جس میں بڑے بڑے نامور اورجنگ آزما صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم موجود ہیں ملک سے باہر بھیج دینا اورمدینہ منورہ کو بالکل عساکر اسلامیہ سے خالی چھوڑکر خطرات مول لینا کسی طرح بھی عقل سلیم کے نزدیک قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک منتخب جماعت جس کے ایک فرد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں ، بارگاہ خلافت میں حاضر ہوئی اورعرض کیا کہ اے جانشین پیغمبر!ایسے مخدوش اور پر خطر ماحول میں جبکہ مدینہ منورہ کے چاروں طرف مرتدین نے شورش پھیلا رکھی ہے یہاں تک کہ مدینہ منورہ پر حملہ کے خطرات درپیش ہیں ۔ آپ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر کو روانگی سے روک دیں تاکہ اس فوج کی مدد سے مرتدین کا مقابلہ کیا جائے اوران کا قلع قمع کردیا جائے ۔ یہ سن کر آپ نے جوش غضب میں تڑپ کر فرمایا کہ خدا کی قسم ! مجھے پرندے اچک لے جائیں یہ مجھے گوارا ہے لیکن میں اس فوج کو روانگی سے روک دوں جس کو اپنے دست مبارک سے جھنڈا باندھ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے روانہ فرمایا تھا یہ ہرگز ہرگز کسی حال میں بھی میرے نزدیک قابل قبول نہیں ہو سکتا میں اس لشکر کو ضرور روانہ کروں گا اوراس میں ایک دن کی بھی تاخیر برداشت نہیں کروں گا ۔ چنانچہ آپ نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے منع کرنے کے باوجود اس لشکر کو روانہ کردیا ۔ خدا کی شان کہ جب جوش جہاد میں بھرا ہوا عساکر اسلامیہ کا یہ سمندر موجیں مارتا ہوا روانہ ہوا تو اطراف وجوانب کے تمام قبائل میں شوکت اسلام کا سکہ بیٹھ گیا اورمرتد ہوجانے والے قبائل یا وہ قبیلے جو مرتد ہونے کا ارادہ رکھتے تھے، مسلمانوں کا یہ دل بادل لشکر دیکھ کر خوف ودہشت سے لزرہ براندام ہوگئے اورکہنے لگے کہ اگر خلیفہ وقت کے پاس بہت بڑی فوج ریزروموجود نہ ہوتی تو وہ بھلا اتنا بڑالشکر ملک کے باہر کس طرح بھیج سکتے تھے؟اس خیال کے آتے ہی ان جنگجو قبائل نے جنہوں نے مرتد ہوکر مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کا پلان بنایا تھا خوف ودہشت سے سہم کر اپنا پروگرام ختم کردیا بلکہ بہت سے پھر تائب ہوکر آغوش اسلام میں آگئے اورمدینہ منورہ مرتدین کے حملوں سے محفوظ رہا اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لشکر مقام ”اُبنی” میں پہنچ کر رومیوں کے لشکرسے مصروف پیکار ہوگیا اور وہاں بہت ہی خوں ریزجنگ کے بعد لشکر اسلام فتح یاب ہوگیا اور حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے شمار مال غنیمت لے کر چالیس دن کے بعد فاتحانہ شان وشوکت کے ساتھ مدینہ منورہ واپس تشریف لائے اوراب تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم انصار و مہاجرین پر اس راز کا انکشاف ہوگیا کہ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر کو روانہ کرنا عین مصلحت کے مطابق تھا کیونکہ اس لشکر نے ایک طرف تورومیوں کی عسکری طاقت کوتہس نہس کردیا اوردوسری طرف مرتدین کے حوصلوں کو بھی پست کردیا ۔
یہ امیرالمؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک عظیم کرامت ہے کہ مستقبل میں پیش آنے والے واقعات آپ پر قبل از وقت منکشف ہوگئے اورآپ نے اس فوج کشی کے مبارک اقدام کو اس وقت اپنی نگاہ کرامت سے نتیجہ خیز دیکھ لیا تھا جبکہ وہاں تک دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا وہم وگمان بھی نہیں پہنچ سکتا تھا ۔ (تاریخ الخلفاء ، ص۵۱ومدارج النبوۃ ،ج۲،ص۴۰۹تا۴۱۱وغیرہ)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعدصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف پیدا ہوگیا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے ؟ بعض لوگوں نے کہا کہ ان کو شہدائے کرام کے قبرستان میں دفن کرناچاہیے اوربعض حضرات چاہتے تھے کہ آپ کی قبر شریف جنت البقیع میں بنائی جائے، لیکن میری دلی خواہش یہی تھی کہ آپ میرے اسی حجرہ میں سپردخاک کئے جائیں جس میں حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی قبرمنور ہے یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ اچانک مجھ پر نیند کا غلبہ ہوگیا اورخواب میں یہ آوازمیں نے سنی کہ کوئی کہنے والا یہ کہہ رہا ہے کہ ضُمُّوا الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْب (یعنی حبیب کو حبیب سے ملادو) خواب سے بیدارہوکر میں نے لوگوں سے اس آوازکا ذکر کیا تو بہت سے لوگوں نے کہا کہ یہ آوازہم لوگوں نے بھی سنی ہے اورمسجد نبوی علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام کے اندر بہت سے لوگوں کے کانوں میں یہ آواز آئی ہے ۔ اس کے بعد تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ آپ کی قبراطہر روضہ منورہ کے اندربنائی جائے۔ اس طرح آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پہلوئے اقدس میں مدفون ہوکر اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے قرب
خاص سے سرفراز ہوگئے ۔ (شواہد النبوۃ صفحہ ۱۵۰)
حضرت امام مستغفری رحمۃ اللہ علیہ نے ثقات سے نقل کیا ہے کہ ہم لوگ تین آدمی ایک ساتھ یمن جارہے تھے ہمارا ایک ساتھی جو کوفی تھا وہ حضرت ابوبکر صدیق وحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی شان میں بدزبانی کر رہا تھا ، ہم لوگ اس کو بار بار منع کرتے تھے مگر وہ اپنی اس حرکت سے باز نہیں آتا تھا ، جب ہم لوگ یمن کے قریب پہنچ گئے اور ہم نے اس کو نماز فجر کے لیے جگایا ،تو وہ کہنے لگا کہ میں نے ابھی ابھی یہ خواب دیکھا ہے کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ علیہ والہ وسلم میرے سرہانے تشریف فرما ہوئے اورمجھے فرمایا کہ ”اے فاسق!خداوند تعالیٰ نے تجھ کو ذلیل وخوار فرمادیا اورتو اسی منزل میں مسخ ہوجائے گا۔” اس کے بعد فوراً ہی اس کے دونوں پاؤں بندر جیسے ہوگئے اور تھوڑی دیر میں اس کی صورت بالکل ہی بندر جیسی ہوگئی ۔ ہم لوگوں نے نماز فجر کے بعد اس کو پکڑ کر اونٹ کے پالان کے اوپر رسیوں سے جکڑ کر باندھ دیا اوروہاں سے روانہ ہوئے ۔ غروب آفتاب کے وقت جب ہم ایک جنگل میں پہنچے تو چند بندروہاں جمع تھے۔ جب اس نے بندروں کے غول کو دیکھا تو رسی تڑوا کر یہ اونٹ کے پالان سے کود پڑا اوربندروں کے غول میں شامل ہوگیا۔ ہم لوگ حیران ہوکر تھوڑی دیروہاں ٹھہر گئے تاکہ ہم یہ دیکھ سکیں کہ بندروں کا غول اس کے ساتھ کس طرح پیش آتاہے تو ہم نے یہ دیکھا کہ یہ بندروں کے پاس بیٹھا ہوا ہم لوگوں کی طرف بڑی حسرت سے دیکھتا تھا اوراس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ گھڑی بھر کے بعد جب سب بندروہاں سے دوسری طرف جانے لگے تویہ بھی ان بندروں کے ساتھ چلا گیا ۔ (شواہد النبوۃ صفحہ ۱۵۳)
اسی طرح حضرت امام مستغفری رحمۃاللہ علیہ نے ایک مرد صالح سے نقل کیا ہے کہ کوفہ کا ایک شخص جو حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو برا بھلا کہا کرتا تھا ہر چند ہم لوگوں نے اس کو منع کیا مگر وہ اپنی ضد پر اڑا رہا، تنگ آکر ہم لوگوں نے اس کو کہہ دیا کہ تم ہمارے قافلہ سے الگ ہوکر سفر کرو۔ چنانچہ وہ ہم لوگوں سے الگ ہوگیا جب ہم لوگ منزل مقصود پر پہنچ گئے اورکام پورا کر کے وطن کی واپسی کا قصد کیا تو اس شخص کا غلام ہم لوگوں سے ملا، جب ہم نے اس سے کہا کہ کیا تم اورتمہارا مولیٰ ہمارے قافلہ کے ساتھ وطن جانے کا ارادہ رکھتے ہو ؟ یہ سن کر غلام نے کہا کہ میرے مولیٰ کا حال تو بہت ہی برا ہے، ذراآپ لوگ میرے ساتھ چل کر اس کا حال دیکھ لیجئے ۔ غلام ہم لوگوں کو ساتھ لے کر ایک مکان میں پہنچا وہ شخص اداس ہوکر ہم لوگوں سے کہنے لگا کہ مجھ پر تو بہت بڑی افتادپڑگئی ۔ پھر اس نے اپنی آستین سے دونوں ہاتھوں کو نکال کر دکھایا تو ہم لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کے دونوں ہاتھ خنزیر کے ہاتھوں کی طرح ہوگئے تھے ۔ آخر ہم لوگوں نے اس پر ترس کھا کر اپنے قافلہ میں شامل کرلیا لیکن دوران سفر ایک جگہ چند خنزیروں کا ایک جھنڈ نظر آیا اور یہ شخص بالکل ہی ناگہاں مسخ ہوکر آدمی سے خنزیر بن گیا اورخنزیروں کے ساتھ مل کر دوڑنے بھاگنے لگا مجبوراً ہم لوگ اس کے غلام اورسامان کو اپنے ساتھ کوفہ تک لائے ۔ (شواہد النبوۃ صفحہ ۱۵۴)
کام الفت کے تھے وہ جن کو صحابہ نے کیا
کیا نہیں یاد تمہیں ”غار” میں جانے والا
کسی کام کے انجام اور مستقبل کے حالات کو جان لینا ، ہر شخص جانتا ہے کہ یقینایہ غیب کا علم ہے ۔ امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ بالا کرامات سے روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو جاتا ہے کہ امیرالمؤمنین رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے کشف والہام کے طور پر ان غیبوں کا علم عطافرما دیا تھا ۔ ِلله انصاف کیجئے کہ جب خلیفہ پیغمبر کو اللہ تعالیٰ نے الہام و کشف کے ذریعہ علم غیب کی کرامت عطافرمائی تو کیا اس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنی مقدس وحی کے ذریعہ علم غیب کا معجزہ نہ عطا فرمایا ہوگا ؟ کیا معاذ اللہ ۔ اللہ تعالیٰ کو علم غیب بتانے کی قدرت نہیں یا نعوذباللہ ! نبی علیہ الصلوۃ والسلام میں علم غیب حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں ۔ بتائيے دنیا میں کو ن ایسا احمق ہے جو اللہ عزوجل کی قدرت اور اس کے نبی علیہ الصلوۃ و السلام کی صلاحیت سے انکار کر سکتا ہے جب اللہ عزوجل کی قدرت مسلم اور نبی علیہ الصلوۃ و السلام کی صلاحیت تسلیم ہے تو پھر بھلا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم غیب کا انکار کس طرح ممکن ہو سکتا ہے ؟
مگر افسوس صد ہزار افسوس کہ وہابی علماء جو عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو گھٹانے کےلیے لنگر لنگوٹ کس کر بلکہ برہنہ ہوکر میدان میں اتر پڑے ہیں یہ سب کچھ جانتے ہوئے اور سینکڑوں آیات بینات اور دلائل و شواہد کو دیکھتے ہوئے بھی آنکھ میچ کر حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے علم غیب کا چلا چلا کر انکار کرتے رہتے ہیں اور اپنے
شیخین کا دشمن کتا بن گیا اسی طرح حضرت امام مستغفری رحمۃ اللہ علیہ ایک بزرگ سے ناقل ہیں کہ میں نے ملک شام میں ایک ایسے امام کے پیچھے نماز ادا کی جس نے نماز کے بعد حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے حق میں بددعا کی ۔ جب دوسرے سال میں نے اسی مسجد میں نماز پڑھی تو نماز کے بعد امام نے حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے حق میں بہترین دعا مانگی ، میں نے مصلیوں سے پوچھا کہ تمہارا پرانا امام کیا ہوا ؟ تو لوگوں نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ چل کر اس کو دیکھ لیجئے ! میں جب ان لوگوں کے ساتھ ایک مکان میں پہنچا تو یہ دیکھ کر مجھ کو بڑی عبرت ہوئی کہ ایک کتا بیٹھا ہوا ہے اوراس کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ۔ میں نے اس سے کہا کہ تم وہی امام ہو جوحضرات شیخین کےلیے بددعا کیا کرتا تھا ؟تو اس نے سرہلا کر جواب دیا کہ ہاں ۔ (شواہد النبوۃ صفحہ ۱۵۶) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment