Saturday, 1 January 2022

شیعہ لڑکی یا لڑکے سے شادی کرنا

 شیعہ لڑکی یا لڑکے سے شادی کرنا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : شیعہ کے ساتھ شادی بیاہ کرنا ناجائز و حرام اور گناہ ہے زنا کا دروازہ کھولنا ہے اگر انہیں مسلمان سمجھ کرتے ہیں تو کفر ہے ۔ اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ (۱۳۴۰) لکھتے ہیں :  شیعہ کہ منکر ضروریات دین ہوں ، مثلا قرآن مجید کو ناقص بتائیں ، بیاض عثمانی کہیں ، یا امیرالمومنین مولی علی کرم اللہ وجھہ الکریم خواه دیگر ائمہ اطہار کو انبیاء سابقین علیہم الصلوة و التسلیم خواہ کسی ایک نبی سے افضل جانیں یا رب العزت جل و علا پر بدع یعنی حکم دیکر پشیمان ہونا ، پچتا کر بدل دینا یا پہلے مصلحت کا علم نہ ہونا بعد کو مطلع ہوکر تبدیل کرنا مانیں ، یا حضور پر نور سید المرسلیں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر تبلیغ دین متین میں تقیہ کی تہمت رکھیں ، الى غير ذالك من الكفريات (اس کے علاوہ دیگر کفریات) پر یہ لوگ یقینا قطعا اجماعا کافر مطلق ہیں اور ان کے احکام مثل مرتد فتاوی ظہیر ی‘‘ 'فتاوی هندیہ‘‘ و ’’حدیقہ ندیہ وغیرھا میں ہے احكامهم احكام المرتدين ‘‘ ۔ (ان کے احکام مرتدین والے ہیں ۔ آج کل کے اکثر بلاد بلکہ تمام رفاض تبرائی اسی قسم کے ہیں کہ وہ عقیدہ کفریہ سابقہ میں ان کے عالم ، جاہل ، مرد عورت سب شریک ہیں ۔ الا ما شاء الله   (فتاوی رضویہ ج11ص 346/345)


صدر الشریعہ حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ : روافض زمانہ بوجوہ کثیرہ کافر مرتد ہیں سنیہ سے ہرگز نکاح نہیں ہوسکتا اگر کیا جائےگا باطل محض و زنائے خالص ہوگا ۔ (فتاوی امجد یہ ج 2 ص 57،چشتی)


مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : شیعہ لڑکے سے سنی لڑکی کا نکاح باطل ہے ۔ اس لیے کہ شیعہ آج کل عام طور پر تبرائی اور حضرت ابو بکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کے منکر ہیں اور ان ہستیوں کو سب و شتم کرنے والے ہیں ۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا پر قذف (تہمت لگانے والے ہیں تفضیلی شیعہ کا بھی یہی حکم ہے ۔ ان تمام عقائد کو عالمگیری و شامی وغیرہ کتب فقہ میں کفریات شمار کیا اور کسی کافر سے کسی مسلمان کا نکاح نہیں ہوسکتا ۔ شیعہ کے یہاں"تقیہ یعنی جھوٹ بولنا فرض ہے تفضیلی شیعہ کا ۔ بھی یہی حکم ہے ۔ یہ لوگ سنی لڑکی سے شادی کرنے کےلیے جھوٹ بول کر اپنے آپ کو تفضیلی بتاتے ہیں اس لیے ان کے قول کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ۔

ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں : ضروریات دین جن کو ماننا ایمان کےلیے ضروری ہے ان میں سے کسی کا انکار کرنا کفر ہے ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت اور ان کے صحابی ہونے کی تصدیق بھی ان ہی میں سے ہے۔شیعہ بہت سی باتوں میں اختلاف کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا بھی انکار کرتے ہیں اور انہیں خائن و غاصب مانتے ہیں اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا پر اب بھی تہمتیں لگاتے ہیں ۔ اس لیے ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انہوں نے اپنا کلمہ بھی علحیدہ کرلیا اور اذان بھی تبدیل کر لی ۔ لہذا کسی مسلمان کا نکاح کی شیعہ لڑکی سے نہیں ہوسکتا ۔ اور چونکہ شیعوں کے مذہب میں تقیہ‘‘ کرنا یعنی اپنے مذہب کو چھپالینا اور جھوٹ بولنا ان کے عقائد اور فرائض میں شامل ہے اس لیے ان کے قول پر بھی یقین کرنا مشکل ہے ۔ (وقار الفتاوی ج 3 ص 33/31)


رد المحتار میں ہے : اذ لا خلاف في كفر المخالف في ضروريات الاسلام و ان كان من اهل القبلة المواظب طول عمره على الطاعات كما فی شرح التحریر ۔ رد المحتار ج 2 ص 300)


درمختار میں ہے : لا یصلح ان ینکح مرتد او مرتدۃ احدا من الناس مطلقا ۔ (در مختار جلد 4 صفحہ نمبر 376،چشتی)


جو شیعہ ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کےمنکر ہوں ، جیسے : ⬇


(۱) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو (نعوذباللہ) خدا و معبود مانتےہوں ۔

(۲) قرآن کریم کوتحريف یا تبديل شده مانتےہوں۔

(۳) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحبتِ قرآنی کا انکار کرتےہوں ۔

(۴) اس بات کے قائل ہوں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے وحی لانے میں غلطی ہوئی ہے۔

(۵) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر لگائی گئی تہمت کوصحیح مانتےہوں یا کوئی اور ایسا عقیدہ رکھتے ہوں جو قرآن کریم کے صریح خلاف ہو تو ایسے شیعہ کافر ہیں اور ان کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح ہرگز جائز نہیں اور اگر کسی ایسے شیعہ سے کسی مسلمان عورت کا نکاح کر دیا گیا تو نکاح ہی منعقد نہیں ہوگا ۔


اور اگر کوئی شیعہ مذکورہ عقائد ميں سے كسی کفریہ عقیدہ کاتو قائل نہ ہو لیکن وہ حضرت علی کو حضرت ابوبکر صدیق پر فضیلت دیتا ہو یا نعوذباللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہتا ہو تو ایسا شخص کافر تو نہیں لیکن فاسق اور گمراہ ہےاور اہلِ سنت و جماعت سے خارج ہے اور ایسا شیعہ لڑکا بھی سنی مسلمان لڑکی کا دینی اعتبار سے کفو نہیں ہے

اور ایسے شیعہ لڑکے سے اگر کوئی سنّی لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی تو اس صورت میں بھی یہ نکاح منعقد نہیں ہوگا ۔ البتہ اگر کسی سنّی لڑکی کے اولیا ء اس کی اجازت اور رضامندی سے اس کا نکاح دوسری قسم کے شیعہ سے کرادیں تو اگرچہ نکاح ہوجاتاہے لیکن اس نکاح سے بھی احتیاط کا مشورہ دیا جاتا ہے کیونکہ عام طور سے ایسا نکاح کامیاب نہیں ہوتا ۔

لھٰذا کسی سنی مسلمان کو یہ مشورہ نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح کسی شیعہ سے کردے،کیونکہ اس میں جہاں اس لڑکی اور اولادکے عقائد خراب ہونے کا اندیشہ ہے وہاں ایسے کیے جانے والے نکاح سے جو شریعت کے مقاصد ہیں وہ بھی حاصل نہیں ہوتے اور مذہبی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے میاں بیوی میں ذہنی ہم آہنگی پیدا نہیں ہو پاتی جو لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد کا باعث بنتی ہے اس لیے مذکورہ تفصیل کی بناء پرآپ کو بھی یہی مشورہ ہے کہ اپنے ہی مسلک کے کسی لڑکے سے شادی کریں ۔(التبویب : 27/1234)


لما في قوله تعالي [البقرة : 221]

وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ ۔


حاشية ابن عابدين (رد المحتار)(4 / 237،چشتی) ۔ أَقُولُ : نَعَمْ نَقَلَ فِي الْبَزَّازِيَّةِ عَنْ الْخُلَاصَةِ أَنَّ الرَّافِضِيَّ إذَا كَانَ يَسُبُّ الشَّيْخَيْنِ وَيَلْعَنُهُمَا فَهُوَ كَافِرٌ، وَإِنْ كَانَ يُفَضِّلُ عَلِيًّا عَلَيْهِمَا فَهُوَ مُبْتَدِعٌ. اهـ ۔ وَهَذَا لَا يَسْتَلْزِمُ عَدَمَ قَبُولِ التَّوْبَةِ. عَلَى أَنَّ الْحُكْمَ عَلَيْهِ بِالْكُفْرِ مُشْكِلٌ، لِمَا فِي الِاخْتِيَارِ اتَّفَقَ الْأَئِمَّةُ عَلَى تَضْلِيلِ أَهْلِ الْبِدَعِ أَجْمَعَ وَتَخْطِئَتِهِمْ وَسَبُّ أَحَدٍ مِنْ الصَّحَابَةِ وَبُغْضُهُ لَا يَكُونُ كُفْرًا، لَكِنْ يُضَلَّلُ إلَخْ…. لَا شَكَّ فِي تَكْفِيرِ مَنْ قَذَفَ السَّيِّدَةَ عَائِشَةَ – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا – أَوْ أَنْكَرَ صُحْبَةَ الصِّدِّيقِ، أَوْ اعْتَقَدَ الْأُلُوهِيَّةَ فِي عَلِيٍّ أَوْ أَنَّ جِبْرِيلَ غَلِطَ فِي الْوَحْيِ، أَوْ نَحْوُ ذَلِكَ مِنْ الْكُفْرِ الصَّرِيحِ الْمُخَالِفِ لِلْقُرْآنِ ۔


بدائع الصنائع (2 / 270) ومنها أن لا تكون المرأة مشركة إذا كان الرجل مسلما فلا يجوز للمسلم أن ينكح المشركة لقوله تعالى { ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن } ويجوز أن ينكح الكتابية لقوله عز وجل { والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم } والفرق أن الأصل أن لا يجوز للمسلم أن ينكح الكافرة لأن ازدواج الكافرة والمخالطة معها مع قيام العداوة الدينية لا يحصل السكن والمودة الذي هو قوام مقاصد النكاح ۔


غمز عيون البصائر شرح كتاب الاشباه والنظائر الحموي (1 / 291) ۔ ذكر في الاختيار في فصل الخوارج والبغاة إن سب أحدا من الصحابة وبغضه لا يكون كفرا لكن يضلل فإن عليا رضي الله عنه لم يكفر شاتمه حتى لم يقتله ۔


فتاوی ہندیہ میں مبسوط کے حوالے سے ہے : لا یجوز للمرتد ان یتزوج مرتدۃ ولا مسلمۃ ولا کافرۃ اصلیۃ وکذا لا یجوز نکاح المرتدۃ مع احد ۔ یعنی مرتد کا نکاح مرتدۃ آیا مسلمان یا کافر اصلی یا کسی سے جائز نہیں اور ایسے ہی مرتدۃ کا نکاح کسی سے جائز نہیں ۔ (فتاوی ہندیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 282،چشتی)


 لہٰذا جب شیعہ کافر و مرتد ہیں تو کسی سنی لڑکی کو کسی شیعہ کے نکاح میں دینا یا کسی سنی لڑکے کا کسی شیعہ سے شادی کرنا حرام و گناہ اور زناکاری کا دروازہ کھولنا ہے ۔ اہلِ اسلام کو ان احادیثِ مبارکہ پر عمل کرنا چاہیے : ⬇


بد مذھبوں کی نسبت نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : و لا تجالسوھم و لا تواکلو ھم و لا تشاربوھم و لا تناکحوھم و لا تخالطوھم ولا تعودوا مرضاھم و لا تصلوا معھم و لا تصلوا علیھم ۔

ترجمہ : اور ان کے ساتھ نہ بیٹھو، ان کے ساتھ کھانا نہ کھاؤ اور پانی نہ پیو اور بیاہ شادی نہ کرو، اور میل جول نہ کرو ، اور ان کے بیماروں کی عیادت نہ کرو ، اور ان کے ساتھ نماز نہ پڑھو ، اور مرجائیں تو ان کا جنازہ نہ پڑھو ۔ (صحیح ابن حبان،۱/۲۷۷،سنن البیھقی الکبری،۱۰/۲۰۵،السنۃ لعبد اللہ بن احمد،۱/۱۲۶،اعتقاد اھل السنۃ،۱/۱۳۴،مسند الربیع،۱/۳۰۲،السنۃ لابن ابی عاصم،۱/۱۴۴،الجرح و التعدیل،۷/۵۲،میزان الاعتدال، ۲/۳۱،لسان المیزان، ۲/۵۲،المجروحین،۱/۱۸۷،تھذیب الکمال،۶/۴۹۹، العلل المتناھیۃ، ۱/۱۶۸،تغلیق التعلیق،۵/۱۲۵،الجامع لاخلاق الراوی و السامع،چشتی،۲/۱۱۸،المغنی،۹/۱۱ الضعفاء للعقیلی ۱/۱۲۶ دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،۱۴۰۴ھـ ،تاریخ بغداد ۸/۱۴۳، الکفایۃ فی علم الروایۃ ۱/۴۸ ،المکتبۃ العلمیۃ، المدینۃ المنورۃ،خلق افعال العباد۱/۳۰،دار المعارف السعودیۃ الریاض،۱۳۹۸ھ)


نیز حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایاکم و ایاھم لا یضلونکم و لا یفتنونکم ۔ گمراہوں سے دور بھاگو ، انہیں اپنے سے دور کرو ، کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمہیںفتنہ میں نہ ڈال دیں ۔ (صحیح مسلم،۱/۱۲،دار احیاء التراث العربی،بیروت)


نیز حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اصحاب البدع کلاب اھل النار ۔ بد مذھبی والے جہنمیوں کے کتے ہیں ۔ (التدوین فی اخبار قزوین ۲/۴۵۸، مطبوعہ،دار الکتب العلمیۃ،بیروت ،۱۹۸۷ء ، فیض القدیر ، ۱/۵۲۸ المکتبۃ التجاریۃ الکبری،مصر، ۱۳۵۶ھ رقم الحدیث ۱۰۸۰،کنز العمال ،رقم الحدیث ۱۰۹۴)


مذکورہ دلاٸل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ بد مذھب سے میل جول ، ان کے یہاں جانا ، انہیں بلانا ، اہل سنت و جماعت کی مسجد میں درس و تبلیغ کی اجازت دینا ، شادی کرنا جائز نہیں ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...