Tuesday 18 January 2022

سیرت و شانِ حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا حصّہ اوّل

0 comments

 سیرت و شانِ حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا حصّہ اوّل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چار دخترانِ ذیشان ہیں جو سبھی کی سبھی خاتون اوّل اُمّْ الموٴمنین حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطنِ پاک سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پاک بیٹیاں ہیں ۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اللہ تبارک وتعالیٰ جل مجدہْ الکریم نے سورة الاحزاب کی آیت نمبر 95 میں وضاحت فرمائی ہے : یْٰاَیُّھَا النَّبِیّْ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاْءِ الْمُوْمِنِیْنَ ۔

ترجمہ : اے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے فرما دیں ۔


اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اپنی صرف ایک بیٹی پاک ہوتی تو اللہ تبارک وتعالیٰ جل مجدہْ الکریم قرآنِ مجید میں اُس کا ذکر خیر بیٹیاں فرما کر نہ کرتا ۔ ربِّ ذوالجلال والاکرام کے فرمان سے یہ بات واضح ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اپنی ہی چار بیٹیاں ہیں جن کے نام ترتیب وار اِس طرح ہیں (1) حضرت سیّدہ زینب (1) حضرت سیّدہ رقیہ (3) حضرت سیّدہ اُمّ کلثوم اور (4) حضرت سیّدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہن ۔


قرآنِ مجید کے اِرشادِ عظیم کے مطابق اَیسی لڑکی جو بیوہ عورت کے پہلے شوہر سے ہواور وہ عورت کسی دوسرے شخص سے شادی کرے تو بیوہ عورت کی پہلے شوہر سے لڑکی دوسرے شوہر کی بیٹی نہیں کہلاتی بلکہ ”ربیبہ“ کہلاتی ہے ۔ وَرَبَاْئِبْکْمْ الّٰتِیْ فِیْ حْجْوْرِکْمْ مِّنْ نِّسَاْءِ کْمْ الّٰتِیْ دَخَلْتْمْ بِھِنَّ ۔ (النساء:۳۲) ، اور اُن کی بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں اُن بیویوں سے جن سے تم صحبت کر چکے ہو ۔


حضرت سیّدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پاک بیٹیوں میں سے سب سے چھوٹی شہزادی ہیں ۔


آپ کا اِسم مبارک ”فاطمہ“ ہے ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ آپ کا لقب بتول اور زہرا ہے ۔ بتول کا معنی ہے منقطع ہونا‘ کٹ جانا چونکہ آپ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا سے اَلگ تھیں۔ لہٰذا بتول لقب ہوا۔ زہرا بمعنی کلی ‘آپ جنت کی کلی تھیں ۔


آپ کے جسم پاک سے جنت کی خوشبو آتی تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سونگھا کرتے تھے۔ اِس لئے آپ کا لقب زہرا ہوا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ مختلف روایات کے مطابق آپ اِعلانِ نبوت سے ایک سال یا پانچ سال پہلے پیدا ہوئیں ۔


حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : فاطمه بضعة منی، فمن اغضبها اغضبنی ۔


ترجمہ : فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ۔ (بخاری، الصحيح، 3: 1361، رقم: 3510)،(مشکوٰة حدیث نمبر ۹۳۱۶‘ بخاری حدیث نمبر ۷۶۷۳‘چشتی)


آپ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سب سے چھوٹی بیٹی، حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ اور مولائے کائنات حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں۔ حضرت سیدہ کائنات فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا اسم گرامی فاطمہ ہے۔ کنیت بنت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور القاب بتول، زہرا اور سیدہ ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری بیٹی کا نام فاطمہ اسلئے رکھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس سے محبت رکھنے والوں کو دوزخ سے الگ تھلگ کردیا ہے ۔ (ديلمی، الفردوس بما ثور الخطاب، رقم: 1385،چشتی)


ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ رضی اللہ عنہا کے بارے میں خود بیان کیا ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سوا کائنات میں کسی کو افضل نہیں دیکھا ۔ (مجمع الزوائد، 9: 201)


اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک اور روایت ہے کہ جب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتیں تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کو خوش آمدید کہتے اور کھڑے ہوکر ان کا استقبال کرتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بوسہ دیتے اور انہیں اپنی نشست پر بٹھالیتے ۔ (حاکم، المستدرک، 3: 167، رقم: 4732)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو فرماکر سفر پر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہوتیں ۔ (ابوداؤد، السنن، 4: 87، رقم: 4213،چشتی)


حضرت بریدہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو عورتوںمیں سب سے زیادہ محبت حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے تھی اور مردوں میں سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ محبوب تھے ۔ (ترمذی، الجامع الصحيح، 5: 698، رقم: 3868)


اللہ تعالیٰ اپنے پیارے محبوب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیاری بیٹی کی سیرت پر ہماری ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کو بھی عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو وصال مبارک کے بعد آپ اکثر بیمار رہنے لگ گئیں اور بالآخر 3 رمضان المبارک کو اپنے خالق حقیقی سے ملیں ۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور رات کو جنت البقیع میں دفن کی گئیں ۔ (رياض النضره فی مناقب العشره مبشره، ج1، ص152،چشتی)


حضرت سیّدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں ۔ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ۔


حضرت سیّدہ اُمّ کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا جن کی شادی امیر الموٴمنین حضرت سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا جن کا نکاح حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے ہوا ۔ حضرت سیّدنا محسن اور حضرت سیّدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بچپن میں اِنتقال کر گئے ۔ آپ کی اَولادِ پاک میں سے سوائے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے کسی کی نسل پاک جاری نہیں ہوئی ۔


حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا سرکارِ دوعالم کی سب سے چھوٹی، مگر سب سے پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں، آپ کا نام"فاطمہ" اور لقب" زہرا بتول، ام السادات، طیبہ، طاہرہ، سیدہ، عابدہ، ذاکیہ، محدثہ، خاتونِ جنت، دخترِمصطفی، بانوئے مرتضی، ام الحسنین وغیرہ ہیں، یہ عظیم کنیتیں اور کثیر القابات آپ کی شخصیت کو ہی موزوں ہو سکتے ہیں ۔


حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے الفاظ کے ذریعے اظہار کیا مولا علی رضی اللہ عنہ سے کہ "آپ تو میری رضا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں"، اس سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ ہمارے دل میں اپنے" بچوں کے ابو" کا احترام ہونا چاہیے اور ان کی رضا کےلیے کوشش کرنی چاہیے ۔


ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کےلیے زیادہ سے زیادہ دعا کرنی چاہئے کہ مسلمان کی دعا اُس کی غیر موجودگی میں بہت جلد قبول ہوتی ہے ۔ (شانِ خاتون جنت صفحہ نمبر 91)


سیّدہ زہرا رضی اللہ عنہا کھانا پکانے کی حالت میں بھی قرآن پاک کی تلاوت کرتی تھیں، ہمیں بھی تلاوت کرتے رہنا چاہئے ۔ (شانِ خاتون جنت صفحہ نمبر 92)


خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی سیرت سے ایک مدنی پھول یہ بھی چننے کو ملا کہ آپ ہمسایوں کے لئے زیادہ دُعا فرماتیں ۔ (شانِ خاتون جنت صفحہ 101،چشتی)


سیّدہ کا ئنات رضی اللہ عنہا خود سچی اور سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہزادی ہیں، ہمیں بھی ان کی اس عادت کو اپنا کر اپنی دنیا و آخرت سنوار نی چاہئے ۔ (شانِ خاتون جنت صفحہ نمبر 131،چشتی)


جب آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شہزادی سیّدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ ان کی تعظیم کے لئے کھڑی ہو جاتیں، ان کے ہاتھ مبارک کا بوسہ لیتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں، ہمیں بھی اپنے والدین کا ادب کرنا چاہئے ۔


مخدومہ کائنات رضی اللہ عنہا کی سیرت سے ہمیں مزید بھی بہت سے مدنی پھول سیکھنے کو ملتے ہیں ، جیسے : ⬇


(1) نذر


(2) سخاوت


(3) ایثار


(4) کھانا کھلانا


(5) سادگی


(6) عاجزی وغیرھا


آپ رضی اللہ عنہا غربت پر صبر کرتیں ، فاقے کرتیں اور پھر بھی ہر حال میں ربّ تعالیٰ کا شکر ادا کرتیں ۔ (شانِ خاتون جنت صفحہ نمبر 148،چشتی)


آپ رضی اللہ عنہا دنیا سے بے رغبت تھیں، جس کی وجہ سے آپ کا ایک لقب "زاہدہ" دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والی" بھی ہے ۔


حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا پردے کا اس قدر اہتمام فرماتیں کہ ان کے مبارک جنازہ کا بھی پردہ تھا کہ انہوں نے وصیت فرمائی تھی کہ رات کو ان کا جنازہ پڑھاجائے تو اس سے ہمیں بھی پردہ کرنے کا درس ملتا ہے کہ جو آج کل اسلامی بہنیں بے پردہ پھر رہی ہوتی ہیں، انہیں اس سے درس حاصل کرنا چاہیے ۔


حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی ندا کرے گا، اے اہلِ مجمع!اپنی نگاہیں جھکا لو تا کہ حضرت فاطمہ بنتِ محمد مصطفی رضی اللہ عنہا پل صراط سے گزریں۔


وہ ردا جس کی تطہیر اللہ دے

آسمان کی نظر بھی نہ جس پر پڑے


جس کا دامن نہ سہواً ہو اسکے چھو سکے

جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے


اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام


اللہ ربّ العزت نے آپ کو پردہ دار رہنے کا ایک صلہ یہ دیا کہ روزِ محشر آپ رضی اللہ عنہا کی خاطر اہلِ محشر کو نگاہیں جھکانے کا حکم صادر کیا جائے گا تو ہمیں بھی پردہ کرنا چاہئے اور اپنی عزت کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم گھر سے نہ نکلیں اور اگر حاجت ہو تو ایسا برقع پہن کر نکلیں، جس سے ہمارا پورا بدن چھپ جائے اور کوئی ہمیں پہچان نہ سکے اور کسی کو یہ معلوم بھی نہ ہو سکے کہ یہ بوڑھی ہے یا کوئی جوان، ہمیں بھی حضرت فاطمۃ الزہرا کی سیرت عمل کرنا چاہئے ۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں حضرت فاطمۃ الزہرا کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے صدقے ہماری ماٶں بہنوں اور بیٹیوں کو شرم و حیاء کی چادر نصیب فرمائے ، اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم ۔


کسی نے کیا ہی پیارا شعر کہا ہے :


چُو زھراباش از مخلوق رُوپوش

کہ در آغوش شبیر بہ بینی

"یعنی فاطمہ کی طرح پرہیزگار، پردہ دار بنو تا کہ گود میں شبّیرِ نامدار اِمامِ حسین رضی اللہ عنہ جیسی اولاد دیکھو۔"


حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ خانہ داری کے امور میں کسی رشتے داریا ہمسائی کو مدد کے لئے نہ بلا تیں، نہ کام کی کثرت اور کسی قسم کی مشقت سے گھبرا تیں، چاہے خود فاقے سے ہوں جب تک شوہر اور بچوں کو نہ کھلا لیتیں، خود ایک لقمہ بھی منہ میں نہ ڈالتیں ۔ (شانِ خاتون جنت صفحہ 273)


حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ مدارج النبوۃ میں نقل فرماتے ہیں : حضرت سیدنا اِمام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسا اوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی ۔" (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔