اسلام اور جمہوریت حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : جمہو ریت کا لفظی تر جمہ انگریزی ڈکشنری میں درج ہے “ ایسا سیاسی نظام جس میں لوگ اپنے نما ئندوں کو اپنی را ئے سے منتخب کر تے ہیں ” مغرب میں رائج نظام کی تعریف جو زیا دہ جا مع قرار دی گئی ہے وہ یوں ہے “ عوام پر،عوام کی حکومت،عوام کی مرضی سے ” یعنی مغرب میں جس چیز کو جمہوری حکومت یا جمہوریت کہتے ہیں وہ دو بنیا دی تصورات کا مجموع ہے ۔ عوام کی قانونی اور سیاسی حاکمیت جو عوام کی اکژیت یا ان کے منتخب کئے ہو ئے نما ئندوں کی کثرت کے ذریعے عملا وجود میں آئے اور ریاست کا انتظا م کرنے والی حکومت کا عوام کی آزادانہ خواہش سے بننا اور بدل سکنا ۔
اسلامی جمہو ریت قانونی حاکمیت کو اللہ تعالیٰ کےلیے مخصوص کر تی ہے ، جس کے احکام (خواہ وہ کتاب اللہ میں ہوں یا سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں) ریا ست کےلیے ناقابل تفیر و تبدیل قانون کی حیثیت رکھتے ہیں ، اور سیاسی حاکمیت کو ”حاکمیت” کے بجا ئے “خلا فت” (یعنی اللہ حاکم حقیقی کی نیا بت) قرار دے کر ریا ست کے عام مسلمان با شندوں کے حوالے کر دیتا ہے ۔ یہ خلا فت مسلم عوام کی اکثریت یا ان کے متعمد علیہ نما ئندوں کی اکثریت کے ذریعے سے عملاً ظہور میں آتی ہے ۔
لبرل جمہوریت میں ریاست کے تمام باشندے جنسی ، مذہبی ، سیاسی اور معاشرتی ہر اعتبار سے مساوی سمجھے جاتے ہیں اور ہر ایک کو ہر قسم کے افعال ، اعمال اور نظریات اختیار کرنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے ، بشرطیکہ یہ آزادی امنِ عامہ اور ریاست کے نظم و نسق میں رکاوٹ نہ بنے ۔
1 ۔ اسلام کی بنیاد ﷲ کی وحدانیت کے تصور پر ہے۔
جمہوریت کی بنیاد عوام پر ہے ‘ ﷲ کا کوئی تصور نہیں ۔
2 ۔ اسلام ﷲ کا نظام ہے جو ساری کائنات میں جاری و ساری ہے ‘ جس کی روح یہ ہے کہ ہر جگہ ﷲ کا حکم چلتا ہے۔ کیا جمادات‘ کیا نباتات‘ کیا حیوانات۔
جمہوریت صرف کافروں کا ایک سیاسی نظام ہے۔
3 ۔ اسلام انسانوں کا بنایا ہوا نہیں‘ جمہوریت انسانوں میں سے کافروں کا بنایا ہوا نظام ہے۔
4 ۔ اسلام مکمل نظام حیات ہے‘ سیاست صرف اس کا ایک شعبہ ہے اس لیے اسلامی سیاست کا باقی نظاموں کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ اسی لیے اسلامی سیاست اسلام کے اخلاقی اور روحانی ضابطوں کی پابند ہے۔ جمہوریت صرف ایک نظام سیاست ہے ‘ مکمل نظام حیات نہیں ۔ اس لیے یہ اخلاقی اور روحانی ضابطوں سے بے نیا ز ہے۔
5 ۔ عرف عام میں اسلام ﷲ کا حکم ماننے کو کہتے ہیں‘ جمہوریت اکثریت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کو۔
6 ۔ ﷲ کو تسلیم نہ کرنے سے اسلام کا تصور ختم ہو جاتا ہے‘ آدمی مسلمان نہیں رہتا۔ ﷲ کو تسلیم کرے یا نہ جمہوریت میں کوئی فرق پڑتا ۔
7 ۔ اسلام میں ﷲ کا ماننے والا مسلمان‘ نہ ماننے والا کافر ۔جمہوریت میں جب ﷲ کا کوئی تصور ہی نہیں تو مسلمان اور کافر کا فرق بھی کوئی چیز نہیں۔
8 ۔ اسلام میں مسلمان اور کافرکبھی برابر نہیں ہو سکتے۔جمہوریت میں کوئی فرق نہیں مسلمان اورکافر سب برابر ہیں۔
9 ۔ اسلام میں حاکم اعلیٰ ﷲ ہے‘ اصل حاکمیت اسی کی ہے‘ جمہوریت میں اصل حاکمیت عوام کی ہوتی ہے ۔ ﷲ کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔
10 ۔ اسلام میں حاکمیت اور اطاعت ﷲ کا حق ہے‘ جمہوریت میں یہ عوام کا حق ہوتا ہے۔
11 ۔ اسلام میں اقلیت اور اکثریت کوئی چیز نہیں‘ بالادستی صرف حق کو حاصل ہوتی ہے‘ جمہوریت میں حق کوئی چیز نہیں ‘ بالادستی اکثریت کو حاصل ہوتی ہے۔
12 ۔ اسلام میں ﷲ ہی سب کچھ ہے‘ جمہوریت میں عوام ہی سب کچھ ہے۔جمہوریت کا خدا عوام ہیں۔
13 ۔ اسلام میں حق وہ ہے جو ﷲ کہے‘ باقی سب باطل‘ خواہ وہ اکثریت کا ہی فیصلہ ہو۔ جمہوریت میں حق و باطل کوئی چیز نہیں‘ جو اکثریت کہے وہی حق ہے۔
14 ۔ اسلام میں امیر و حاکم وہ صحیح ہے جو ﷲ کے معیار پر پوراترے ‘ جو خود اسلام کا پابند ہو اور لوگوں کو اسلام کا پابند بنائے‘ خواہ منتخب ہو یا نہ۔جمہوریت میں جو عوام کے ووٹ زیادہ حاصل کرے ‘ خواہ وہ بدترین خلائق ہی ہو ۔
15 ۔ اسلام میں کافر امیر اور حاکم نہیں بن سکتا‘ جمہوریت میں ہر کوئی حاکم بن سکتا ہے‘ کافر ہو یا مسلمان۔
16 ۔ اسلام میں دستور قانون بنانے کا اصولاً سوائے ﷲ کے کسی کو حق نہیں‘ جمہوریت میں یہ کام عوام کے نمائندوں کا ہے۔
17 ۔ اسلام میں حاکم ﷲ کی مقرر کردہ حدوں کے اندر ہی قانون بنا سکتا ہے ‘ جمہوریت میں عوام کی منتخب کردہ اسمبلی جیسے چاہے قانون بنا سکتی ہے‘ اس پر کوئی پابندی نہیں۔
18 ۔ اسلام کا نظام ہمیشہ نیک لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ اقلیت میں ہوتے ہیں۔
جمہوریت کا نظام ہمیشہ اکثریت کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اکثریت ہمیشہ برے لوگوں کی ہوتی ہے۔اس لیے جمہوری طریقوں سے نہ اسلام آ سکتا ہے ‘ نہ اسلام رہ سکتا ہے ۔ اسلام صرف اس صورت میں رہ سکتا ہے جب معاشرے کی باگ ڈور نیک لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔ جونہی باگ ڈور عوام کے ہاتھ میں آئی اسلام گیا۔ کیوں کہ عوام میں اکثریت بدوں کی ہوتی ہے۔
19 ۔ اسلام میں جو ایک دفعہ خلیفہ بن جائے منتخب ہو یا غیر منتخب اس کا ہٹانا جائز نہیں‘ الا یہ کہ وہ کفر کا ارتکاب کرے۔ایک خلیفہ کی وفات کے بعد ہی دوسرا خلیفہ بن سکتا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر ‘ حضرت عثمان حضرت علی رضی اللہ عنہم کی خلافت میں اس کے بعد خیر القرون میں ہمیشہ اسی پر عمل رہا۔
جمہوریت میں تین یا پانچ سال بعد انتخابات ضروری ہیں۔ منتخب شدہ صدر یا وزیر اعظم کیسا ہی اچھا اور کامیاب کیوں نہ ہو الیکشن ضروری ہیں۔ جمہوریے اپنی لڑکی کو تو خاوند بار بار نہیں کرواتے جمہوریت کو ہر تین یا پانچ سال بعد نیا خاوند ضرور کر وا دیتے ہیں۔
20 ۔ اسلام میں حکومت انسانوں کا حق نہیں ‘ کہ ہر ووٹر امید وار بن کر الیکشن لڑنے کےلیے کھڑا ہو جائے ۔ اسلام میں حکومت ﷲ کے احکام کو نافذ کرنے کی ذمہ داری کا م ہے ۔ اس ذمہ داری کا اہل ہر کوئی نہیں ہو سکتا۔ نہ اس ذمہ داری کے اہل کا ہر کوئی انتخاب لڑ سکتا ہے۔ اس لیے اسلام میں جمہوری الیکشنوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جمہوریت میں حکومت عوام کا حق ہے۔ اس لیے ہر کوئی ووٹر بن سکتا ہے اور ہر کوئی امید وار بن کر الیکشن لڑسکتا ہے ۔ اہل ہو یا نااہل‘ مسلمان ہو یا کافر۔
21 ۔ اسلام میں سب انسان برابر ہیں‘ کیوں کہ جب ﷲ کی مخلوق ہیں‘ اسی لیے کسی انسان کو کسی انسان پر حکومت کرنے کا حق نہیں۔حکومت کرنے کا حق صرف ﷲ کو حاصل ہے جو خالق ہے اور ساری مخلوق کا واحد مالک ہے۔ وہ جس کو جتناحکومت کا حق دے وہ اس حق کے اندر رہ کر حکومت کر سکتا ہے۔ مثلا خاوند بیوی پر ‘ راعی رعایا پر ‘ مالک نوکر پر‘ آقا غلام پر‘ بڑا چھوٹے پر ۔ استاد شاگرد پر ۔
جمہوریت میں انسان انسانوں پر حکومت کرتے ہیں۔ جس کو اکثریت حاصل ہو جائے وہ اکثریت کے زور سے اقلیت پر حکومت کرتا ہے۔
22 ۔ اسلام ایک دین ہے جو ﷲ کا ہے‘ جمہوریت میں مذہب اور دین کوئی چیز نہیں۔ مذہب ہر آدمی کا اپنا ذاتی اور پرائیویٹ مسئلہ ہے۔ جمہوری ریاست کو مذہب سے کوئی غرض نہیں۔
23 ۔ اسلام باطل کو برداشت نہیں کرتا‘ بلکہ اسے مختلف طریقوں سے مٹاتا ہے (جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ)[17:الاسراء:81] جو اسلام سے پھر جائے ‘یعنی مرتد ہو جائے ‘ اسلام اسے قتل کرتا ہے۔
جمہوریت میں مذہب سے آزادی ہے‘ ہر کوئی جو چاہے مذہب رکھے۔ کوئی پابندی نہیں‘ جس طرح چاہے مذہب بدلے‘ کوئی رکاوٹ نہیں‘ کوئی سزا نہیں۔ اس لیے جمہوریت میں لوگ پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں۔
24 ۔ باطل کو مٹانا اسلا م کا فرض ہے اور یہی جہاد ہے‘ جو قیامت تک فرض ہے ‘جمہوریت میں باطل سے جہاد کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جمہوریت جہاد کو ختم کرتی ہے۔
25 ۔ اسلام کہتا ہے اگر تو اکثریت کی پیروی کرے گا یعنی جمہوری راہ پر چلے گا تو جمہوریت تجھے گمراہ کر دے گی ۔ (واِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ ﷲِ )[6:الانعام:116] جمہوریت اکثریت کی پیروی کرتی ہے اس کے بغیراس کا گزارا نہیں۔
26 ۔ اسلام میں نہ حز ب اقتدار کا تصور ہے ‘نہ حزب اختلاف کا۔ اسلام پارٹیوں کے سخت خلاف ہے۔ خاص طور پر سیاسی پارٹیوں کی تو قطعاً اجازت نہیں۔
جمہوریت پارٹیاں بنانا سکھاتی ہے اور پارٹیوں کے بل بوتے پر چلتی ہے۔ پارٹیوں کے بغیر جمہوریت چل ہی نہیں سکتی۔ حزب اقتدا ر اور حزب اختلا ف کا ہونا لازمی ہے۔
27 ۔ اسلام میں عورت حاکم نہیں ہو سکتی ‘ سربراہ مملکت ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جمہوریت میں عورت بھی سربراہ مملکت ہو سکتی ہے‘ کوئی پابندی نہیں۔
28 ۔ اسلام میں طاقت کا سر چشمہ ﷲ ہے ۔
جمہورت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔
29 ۔ اسلام میں عالم اور جاہل کی رائے برابر نہیں ہو سکتی ۔
جمہوریت میں عالم اور جاہل کا ووٹ برابر کا درجہ رکھتا ہے ۔
30 ۔ اسلام میں ایک حق والا لاکھوں کی اکثریت پر بھاری ہے۔
جمہوریت میں جدھر زیادہ ووٹ ہوں گے وہی طرف بھاری ہے۔ حق ‘ ناحق کا کوئی معیار نہیں۔
31 ۔ اسلام میں مرد اور عورت کا درجہ برابر نہیں۔
جمہوریت میں عورت کا ووٹ مرد کے برابر ہے۔
32 ۔ اسلام اور جمہوریت میں ایک بڑا فرق یہ بھی ہے کہ وطن اور قوم جمہوری دور کے خدا ہیں ۔ ان کے بغیر جمہوریت چل ہی نہیں سکتی ۔
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اسلام میں ایسے خداؤں کا کوئی تصور نہیں ۔ جب ﷲ رب العالمین [1:الفاتحہ:1] ہے ۔ رسول (رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ )[21:الانبیاء:107]ہے۔ مرکز ملی (ھُدًی لِّلْعَالَمِیْنَ ) ہے۔ جب ﷲ نے اپنے رسول کو (کَافَّۃً لِّلنَّاسِ)[34:السباء:28]کہہ کر تمام دنیا کی طرف بھیجا ہے۔ قرآن کو (بَلاَغٌ لِّلنَّاسِ)[14:ابراہیم:52] اور ( بَصَائرُ لِلنَّاسِ )[28:القصص:43] کہہ کر تمام دنیا کےلیے پیغام ہدایت بنایا ہے۔ بیت ﷲ کو (وُضِعَ لِلنَّاسِ) [3:آل عمران:46] کہہ کر تمام دنیا کے لیے مرکز ہدایت بنایا ہے۔ امت مسلمہ کو (اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ) [3:آل عمران:110] اور (شُہَدَاءُ عَلَی النَّاسِ) [2:البقرہ:143] کہہ کر تمام دنیا پر نگران مقرر کیا ہے تو اسلام اور مسلمان کسی خاص علاقے یا مخصوص وطن میں محدود کیسے رہ سکتے ہیں اور قومیت کا محدود جمہوری تصور اسلام میں کیسے ہو سکتا ہے ۔ جو صحیح مسلمان ہوگا جمہوری نہ ہوگا۔ اس کا ایمان تو یہی ہوگا ۔
ہر ملک ملک ماست
کہ ملک خدائے ماست
یا دوسرے لفظوں میں
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
جمہوریت کی اسلام کاری میں اس اصول میں درج ذیل ترامیم کرنی ہوں گی : ⬇
1۔اسلامی تعلیمات کی رو سے بھی علاقہ،رنگ و نسل اور زبان کے اعتبار سے انسان مساوی حیثیت رکھتے ہیں،البتہ اسلام انسانوں کو مومن اور کافر دو بڑے گروہوں میں تقسیم کرتا ہے ۔اسلامی ریاست میں کفاراور غیر مسلموں کو بنیادی حقوق ملتے ہیں اور دنیا کا کوئی نظام اقلیتوں کو اس طرح کے حقوق فراہم نہیں کرتا ،جیسا کہ اسلام نے فراہم کیے۔البتہ اسلامی ریاست کے بنیادی مقاصد میں سے دین اسلام کی حفاظت،اشاعت اور اس کا دفاع ہے ، اس لیے جمہوریت کی اسلام کاری میں ریاست کی نظر میں تمام مذاہب برابر نہیں ہوں گے ،بلکہ اسلامی اقدارکازیادہ سے زیادہ فروغ اور غیر اسلامی تہذیب و ثقافت سے اسلامی معاشرے کو پاک کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ دریوں میں شامل ہوگا۔
2۔دوسرے مذاہب والوں کو تو انفرادی طور پر اپنے مذہب پر عمل کی مکمل اجازت ہو گی ،لیکن اپنے مذہب کی تشہیر،تبلیغ اور معاشرے میں اپنی ثقافت کی ترویج ممنوع ہوگی۔اسلامی ریاست میں مذاہبِ باطلہ کی ترویج کا کوئی تصور نہیں ہے اور نہ ہی اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک مسلم معاشرے میں مذاہبِ باطلہ کو تبلیغ کی اجازت ہے۔
3۔لبرل مغربی جمہوریت میں جنسی مساوات یعنی مرد و زن کو ہر طرح سے مساوی درجہ دیا گیا ہے ،جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عورت ووٹ دینے ،رکنِ پارلیمنٹ بننے ،کرسی اقتدار پر بیٹھنے اور سیاسی جماعت کی سربراہ بننے میں مر د کے بالکل مساوی ہے ،اسی طرح زندگی کے دوسرے شعبوں اور کاموں میں عورت اور مرد برابر ہیں ،جو کام مرد کر سکتاہے، جمہوری نظام میں مساوات کی خاطر عورت بھی اسے سرانجام دے سکتی ہے ۔جبکہ اسلام مردو زن میں مساوات کی بجائے حفظِ مراتب اور دائرہ کار کی تقسیم پر زور دیتا ہے اس لیے اسلامی جمہوریت میں عورتوں کےلیے ایسا مناصب قطعاً ممنوع ہوں گے ،جو شریعت کی رو سے صرف مرد کے ساتھ خاص ہیں ۔اسی طرح عورت کو ایسے کاموں کی بھی اجازت نہیں ہو گی جو اسلامی تعلیمات اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ نہ ہوں ۔
4۔لبرل مغربی جمہوریت میں ملکی باشندے ہر فعل،قول،نظریہ اور رائے کے اظہار میں مکمل آزاد ہوتے ہیں ،لہذا جمہوریت کی اسلام کاری کرتے وقت مطلق آزادی کے حدود طے کرنے ہوں گے۔حدود و قیود کی تعیین قابلِ بحث ہو سکتی ہے ،لیکن مکمل آزادی اسلامی تعلیمات سے کسی طرح سے بھی ہم آہنگ نہیں ہے ۔
اختیارات کی تقسیم اور حکومت کی مدت
اسلامی نظامِ خلافت میں اگرچہ اختیارات کا منبع اور مرکز خلیفہ کی ذات ہوتی ہے ،لیکن اختیارات کی تقسیم کے خلاف بھی نص نہیں ہے ،اس لیے اباحتِ اصلیہ کے اصول پر اس کے جواز کی گنجائش نکل سکتی ہے کہ اختیارات انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ میں تقسیم ہوں ،کیونکہ اختیارات کا منبع ایک ذات ہو یا الگ الگ ،مقاصدِ شریعت پر خاص فرق نہیں پڑتا ،اس میں اصل مسئلہ اختیارات کا شریعت کی روشنی میں صحیح استعمال ہے ،خواہ سارے اختیارات ایک شخص کے پاس ہوں یا اشخاص اور اداروں میں تقسیم ہوں۔
البتہ حکومت کی خاص مدت مقرر کرنا قابلِ بحث ہے ۔ اس سلسلہ میں درجہ ذیل گزارشات پیشِ خدمت ہیں ۔
1۔ سیاستِ شرعیہ اور اسلامی ریاست پر لکھنے والے فقھاء اور سیاسی مفکرین مثلاً علامہ ماوردی ،قاضی ابو یعلیٰ ،امام جوینی،امام ابن تیمیہ،شاہ ولی اللہ اور دیگر فقھاء نے عزل الامام کے ممکنہ طریقوں پرتفصیل سے بحث کی،لیکن کسی ایک مفکر اور فقیہ نے اختتامِ مدت کوعزل کے طرق میں شمار نہیں کیا۔اور نہ ہی پوری اسلامی تاریخ میں کبھی خلیفہ کی مدتِ حکومت مقرر ہوئی ہے ،کہ اس کے بعد امام خود بخود معزول ہو،گویا حکومت کی مدت کا تقرر ایسا مسئلہ ہے ،جس کی نظیر ہماری علمی،فکری اور سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔اس لیے اس کے جواز کے لیے شاید محض اتنی بات کا فی نہ ہو کہ نصوص اس بارے میں ساکت ہیں،کیونکہ پوری اسلامی تاریخ اور قدیم فقہی ذخیرے کو یکسر نظر انداز کرنا دقیق غور وفکر اور طویل سوچ بچار کا متقاضی ہے۔اگر مقاصدِ شریعت کی روشنی میں اس مسئلہ کا جائز لیا جائے تو درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں۔
۱۔جب ایک امیر اصولوں کے مطابق نظامِ حکومت چلا رہا ہے، تو صرف مخصوص مدت کے گزرنے پر اسے معزول کرنا محلِ نظر ہے ،خصوصاً جب اس کے عزل کی صورت میں اثارتِ فتنہ اور نا اہل افراد کی امارت کا خدشہ ہو۔
2۔حکومت کی مدت مقرر کرنے کی صورت میں ریاست میں ایک قسم کا اضطراب سا رہتا ہے ،کیونکہ سازشی عناصر، کرپٹ طبقہ اور غیروں کے آلہ کار کسی نہ کسی طریقے سے اگلی مدت میں برسرِ اقتدار آنا چاہتے ہیں جس کے لیے خفیہ منصوبے اور موجودہ حکومت کے خلاف رائے عامہ کی ہمواری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔لیکن جب حکومت کی باقاعدہ مدت مقرر نہیں ہو گی تو یہ طبقہ مایوس ہو گا اور اسلامی ریاست میں حصولِ حکومت کی خاطر انارکی پھیلانے سے گریز کرے گا۔
3۔حکومت کی مدت مقرر کرنے میں یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے سرکردہ افراد اور کسی نہ کسی حوالے سے حکومت کے اہل اشخاص کے دوران اندرونِ خانہ رسہ کشی اور سرد جنگ جاری رہتی ہے اور ہر کوئی اگلی مدت میں حکومت کے حصول کے لیے سرگرم رہتا ہے اور معاشرے کے بگاڑ کی صورت میں رسہ کشی کھلم کھلا نفرت اور عداوت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ لہٰذا حکومت کی مدت کا تقرر ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا موجودہ حالات ،عالمی تناظر، اسلامی ریاست کی مخصوص ساخت اور مقاصدِ شریعت کی روشنی میں دقت اور باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا۔ جمہوریت کی اسلام کاری میں لبرل مغربی جمہوریت کی اتباع میں تمام خدشات و عواقب سے بے پرواہ ہو کر حکومت کی چاریا پانچ سال کی مدت کا تقرر نہیں ہوگا،بلکہ نفسِ مدت کے تقرر اور تحدیدِ مدت دونوں مسئلوں کے بارے میں مقاصدِ شریعت کو سامنے رکھ کر کوئی نیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment