شانِ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حصہ اول
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضی کہتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا کہ میں صدیق اکبر ہوں ، تو گذارش ہے کہ یہ ان کا اپنا قول ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا فرمان نہیں ہے ۔ انہوں نے اپنے بعد کا کہا ہے ، پہلے کی بات نہیں کی ۔ انہیں بھی پتہ تھا کہ مجھ سے پہلے بھی صدیق ہے ۔ اس لیے آپ کا یہ قول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد کا تھا ، نہ کہ ان کی صدیقیت کی نفی تھی ۔ اس سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ کیونکہ انہیں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے خود صدیق کا لقب عطا فرمایا ہے ۔
رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضی بھی یہ قولِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ پیش کرتے ہیں ۔ رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضی حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو صدیق اکبر قرار دیتے ہیں اور دلیل میں ایک منکر اور باطل روایت پیش کرتے ہیں روایت یہ ہے :عباد بن عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ أانَا عَبْدُ اللَّهِ و أَخُو رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأنَا الصِّدِّيقُ الأَكْبَرُ لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إلَّا کَذَّابٌ صَلَّيْتُ قَبْلَ النَّاسِ بِسَبْعِ سِنِينَ ۔
ترجمہ : عباد بن عبد اللہ سے روایت ہے جس نے کہا : علی علیہ السلام نے فرمایا : میں اللہ کا بندہ ہوں اور میں اللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا بھائی ہوں اور میں صدیق اکبر ہوں ۔ تقیہ ۔ میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی ۔ (سنن ابن ماجة ، ج1 ، ص 44)(البداية والنهاية ، ج3 ، ص 26)(المستدرک ، حاکم نيشابوري ، ج3 ، ص 112،چشتی)(تلخيص المستدرک)(تاريخ طبري ، ج2 ، ص 56)(الکامل ، ابن الاثير ، ج2 ، ص 57)(فرائد السمطين ، حمويني ، ج 1 ص 248)(الخصائص ، نسائي ، ص 46)(تذكرة الخواص ، ابن جوزي ، ص 108)
اس روایت کے متعلق امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا یہ منکر ہے ، قال عليُّ بنُ أبي طالبٍ : ( أنا عبدُ اللهِ وأخو رسولِه ، وأنا الصِّدِّيقُ الأكبرُ ، لا يقولُها بعدي إلَّا كاذبٌ ، صلَّيت قبل النَّاسِ سبعَ سنين ۔ الراوي : عباد بن عبدالله الأسدي | المحدث : ابن الجوزي المصدر : موضوعات ابن الجوزي ۔ (الصفحة أو الرقم: 2/98 | خلاصة حكم المحدث : موضوع)
قال عليُّ رضي اللهُ عنه : أنا عبدُ اللهِ ، وأخو رسولِ اللهِ ، وأنا الصِّدِّيقُ الأكبرُ, لا يقولها بعدي إلا كاذبٌ ، صليتُ قبل الناسِ سبعَ سنين . وفي روايةٍ له : ولقد أسلمتُ قبل الناسِ بسبعِ سنينَ ۔ الراوي : عباد بن عبد الله الأسدي المحدث : (منهاج السنة الصفحة أو الرقم : 7/443 | خلاصة حكم المحدث : موضوع)
عن عَلِيٍّ يقولُ أنا عَبدُ اللَّهِ وأَخو رَسولِهِ وأَنا الصِّدِّيقُ الأكْبَرُ لا يقولُها بعْدِي إلا كاذِبٌ مُفتِرٍ صَلَّيتُ قبلَ النَّاسِ بسبعِ سنينَ ۔ الراوي : عباد بن عبدالله الأسدي | المحدث : ابن كثير | المصدر : البداية والنهاية الصفحة أو الرقم: 3/25 | خلاصة حكم المحدث : منكر)
أنا عبدُ اللهِ وأخو رسولِ اللهِ, أنا الصديقُ الأكبرُ, لا يقولُها بعدي إلا كاذبٌ, صليتُ قبل الناسِ بسبعِ سنين . الراوي : - | المحدث : الشوكاني | المصدر : الفوائد المجموعة الصفحة أو الرقم: 343 | خلاصة حكم المحدث : في إسناده عباد بن عبد الله الأسدي, وهو المتهم بوضعه،چشتی)
قال عَلِيٌّ أنَا عبدُ اللهِ ، وأخو رسولِ اللهِ ، وأنا الصِّدِّيقُ الأكبرُ ، لا يقولُها بعدي إلا كاذبٌ ، آمنتُ قبل الناسِ سبعَ سِنِينَ ۔ الراوي : عباد بن عبدالله الأسدي | المحدث : الألباني | المصدر : السلسلة الضعيفة الصفحة أو الرقم: 4947 | خلاصة حكم المحدث : موضوع)
عن عليٍّ قال : أنا عبدُ اللهِ وأخو رسولِه صلى اللهُ عليه وسلم ، وأنا الصديقُ الأكبرُ ، لا يقولُها بعدي إلا كذابٌ ، صليتُ قبل الناسِ بسبعِ سنين ۔ الراوي : عباد بن عبدالله الأسدي | المحدث : الألباني | المصدر : ضعيف ابن ماجه الصفحة أو الرقم: 24 | خلاصة حكم المحدث : باطل)(الدرر السنية - الموسوعة الحديثية)
اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ :
(1) یہ باطل قول ہے اس میں عباد بن عبد اللہ کذاب راوی ہے ۔
(2) یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے حدیث رسول نہیں ہے اور ان کا اپنا قول بھ باطل اور منکر ہے ۔
افسوس کہ رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضیوں نے حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو صدیق اکبر ثابت کرنے کی کوشش ہے لیکن وہ بھی ان کے ایک باطل اور منکر غیر ثابت قول کے ساتھ ۔ اندازہ لگایا آپ نے کہ کس طرح غلط کو صحیح کہ رہے ہیں یہ رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضی حضرات ۔
بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم صدیق اکبر ہیں ، اور بزعم خویش یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ آقائے کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو *صدیق اکبر* اور *فاروق اعظم* کا لقب اپنی زبان رسالت سے عطا کیا ہے ۔ اور علمائے اہل سنت پہ یہ الزام بھی لگایا جارہا ہے کہ انہوں نے مولائے کائنات کی شان میں وارد اس فرمان کو - کہ صدیق اکبر مولا علی ہیں - چھپایا اور اپنی کتابوں میں جگہ نہ دی ۔
ان کا مذکورہ دعویٰ ہی کئی جہتوں سے قابل گرفت ہے لیکن ہم اس سے صرف نظر کرتے ہیں اور جس حدیث کے ذریعے یہ ثابت کیا گیا ہے اس کی اسنادی حیثیت کا جائزہ لیتے ہیں ۔
چوں کہ اس بات کی ضرورت اس لیے پڑی کہ اس کے ذریعے افضلیت عمرین کو ختم کرکے مولائے کائنات کو سب سے افضل قرار دینا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم افضلیت پر ہونے والے حملے کا دفاع کریں ۔
وہ حدیث یہ ہے : "[عن أبي ذر الغفاري:] سمعتُ النَّبيَّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم يقولُ لعليِّ بنِ أبي طالبٍ: أنت أوَّلُ من آمن بي، وأنت أوَّلُ من يصافحُني يومَ القيامةِ، وأنت الصِّدِّيقُ الأكبرُ، وأنت الفاروقُ، وتُفرِّقُ بين الحقِّ والباطلِ، وأنت يعسوبُ المؤمنين، والمالُ يعسوبُ الكافرين"* ۔
مذکورہ بالا حدیث پر گفتگو کرتے ہوئے ایک تفضیلیت زدہ شخص نے اس کی کل ٦/ اسناد ذکر کی ہیں ۔ ١۔ حضرت ابوذر غفاری ٢۔ حضرت سلمان فارسی ٣۔ابو لیلیٰ غفاری ٤۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ٥۔ مولائے کائنات حضرت علی ( ان کے الفاظ یہ ہیں : بعض سندیں خاص اہل بیت علیہم السلام کی سندیں ہیں اور وہ مولائے کائنات سے خود اس فرمان کو روایت کرتے ہیں اور مولا علی ان روایات کو خود نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم سے بیان کرتے ہیں) ۔ ٦۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہم ۔
مذکورہ حدیث ان چھ راویوں سے مروی ہے، ہر ایک کی روایت پر محدثین و ائمۂ جرح و تعدیل نے کہا فرمایا ہے؛ ملاحظہ فرمائیں :
*١۔ عن ابی ذر الغفاری رضی اللہ عنہ*
ابن جوزی : "موضوع" (موضوعات ابن جوزی ١٠٢/٢)
امام ذہبی : "فیہ محمد بن عبید واہ، و علی بن ھاشم شیعی و عباد رافضی" (ترتیب الموضوعات ص١٠٠)
*١/٢۔ عن ابی ذر الغفاری و سلیمان الفارسی*
امام ابن کثیر : " منکرا جدا" ( جامع المسانید و السنن ٤٣٨٦)
امام ہیثمی : " فیہ عمرو بن سعید المصری و ھو ضعیف" (مجمع الزوائد ١٠٥/٩)
امام ابن حجر عسقلانی :" اسنادہ واھی ، و محمد متھم، و عباد من کبار الروافض، و ان کان صدوقا فی الحدیث" ( مختصر البزار ٣٠١/٣)
شوکانی : " فیہ عمر بن سعید المصری و فیہ ضعف" ( در السحابۃ ١٤٠)
یہ استنادی حیثیت تھی پہلے اور دوسرے طریق کی ۔ اب تیسرے طریق کو ملاحظہ کیجیے __
*٣۔ أبو لیلیٰ الغفاری رضی اللہ عنہ*
ابن عبد البر :" فیہ اسحاق بن بشر ممن لایحتج بنقلہ اذا انفرد لضعفہ و نکارۃ حدیثہ" ( الستیعاب ٣٠٧/٤)
*٤۔ عن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما*
عقیلی : " فیہ داھر بن یحییٰ الرازی کان ممن یغلو فی الروافض لایتابع علیہ حدیثہ" ( الضعفاء الکبیر ٢/ ٤٧)
ابن عدی : " فیہ عبد اللہ بن یحییٰ بن داھر عامۃ ما یرویہ فی فضائل علی و ھو متھم" ( ٥/ ٣٧٩)
ابن جوزی : " موضوع" (موضوعات ابن جوزی ٢/ ١٠٣)
امام ذہبی : " فیہ عبد اللہ بن داھر من غلاۃ القوم و ضعفائھم "( ترتیب الموضوعات ١٠٠)
ایضا قال : قد اغنی اللہ علیاََ أن تقرر مناقبہ بالأکاذیب و الاباطیل" ( میزان الإعتدال ٢/ ٤١٦)
" باطل" ( میزان الإعتدال ٢/ ٣،چشتی)
*٥۔ عن علی کرم اللہ وجہہ الکریم*
الجورقانی :" حبۃ لایساوی حبۃ کان غالباََ فی التشیع واھیا فی الحدیث" (الأباطیل و المناکیر ١/٢٩٤)
قال ایضاََ : " باطل " ( الأباطیل و المناکیر ٢٩٣)
ابن عساکر :" لا یتابع علیہ و لا یعرف سماع سلیمان بن معاذۃ" ( تاریخ دمشق ٤٢/ ٣٣)
ابن جوزی : " لا یصح" (العلل المتناھیۃ ٢/٩٤٤)
قال ایضاََ :" موضوع " (موضوعات ابن جوزی ٩٩/٢)
ابن تیمیۃ :" موضوع" (منہاج السنۃ ٣٦٨/٢)
امام ذہبی : " کذب علیٰ علیٍ"( میزان الإعتدال ٢/ ٣٦٨)
*٦۔ عن ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ*
مذکورہ حدیث آپ سے مروی تلاش بسیار کے بعد بھی نہ ملی ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
اس پوری تفصیل کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ مذکورہ حدیث اس قابل نہیں کہ اس کو بیان کیا جائے اور یہی وجہ بنی کہ علمائے اہل سنت نے اس کو اپنی کتابوں میں جگہ نہیں دی بلکہ مولائے کائنات کی شان میں وارد صحیح اور قابل بیان احادیث خوب نقل کیں جن کو پڑھ کر مولائے کائنات کی فضیلت و عظمت اور رفعت شان کا اعتراف ہر صاحب فہم کرے گا ۔ اور کئی علما نے لکھا کہ اس حدیث کا ایک راوی غالی رافضی ہے اور یہ بات بھی علما نے لکھی ہے کہ رافضیوں نے مولائے کائنات اور اہل بیت نبوت کی شان میں تین لاکھ حدیثیں گڑھی ہیں (معاذ اللہ) ۔ کیا بعید کہ ان تین لاکھ میں سے یہ بھی ایک ہو ۔ اور اس کو ایسے ہی لوگ بیان کرتے ہیں جن کی نگاہ میں سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کی افضلیت کھٹکتی ہے ۔ اور اس کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ ہمارے علما نے مولائے کائنات کی شان بیان کرنے میں کوتاہی کی ہے (معاذ اللہ رب العالمین) اور پھر لوگ علمائے اہل سنت سے دور ہوں گے اور رافضیت کے قریب ہوں گے ۔ اللہ کی پناہ اللہ ایسے لوگوں سے سنی مسلمانوں کی حفاظت فرما ۔ آمین ۔
صدیق کسے کہتے ہیں ؟
(1) صدیق اسے کہتے ہیں جوزبان سے کہی ہوئی بات کو دل اور اپنے عمل سے مؤکد کر دے ۔ (التعریفات،ص۹۵)
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو صدیق اسی لیے کہتے ہیں کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فقط زبان کے نہیں بلکہ قلب وعمل کے بھی صدیق تھے۔
(2) صدیق اسے بھی کہتے ہیں جوتصدیق کرنے میں مبالغہ کرے،جب اس کے سامنے کوئی چیز بیان کی جائے تواوّلا ہی اس کی تصدیق کردے، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی ایسے ہی تھے کہ اوّلا ہی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی ہربات کی تصدیق کردیاکرتے تھے ۔
(3) حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : صدیق وہ کہ جیسا وہ کہہ دے بات ویسی ہی ہوجائے۔ اسی لیے تو حضرت سیدنا یوسف عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ جودوقیدی تھے ان میں سے شاہی ساقی یعنی بادشاہ کو شراب پلانے والے نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو صدیق کہا کیونکہ اس نے دیکھا کہ جو آپ نے کہا تھا وہ ہی ہوا ، عرض کیا: یُوْسُفُ اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ ۔حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے سیدنا مالک بن سنان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے متعلق جو کہا تھا وہ ہی ہوا کہ وہ شہید ہونے کے بعد زندہ ہو کر آئے ۔ (مرآۃ المناجیح، ج۸،ص۱۶۲،چشتی)
صدیقیت کسے کہتے ہیں ؟
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : صدیقیت ایک مرتبہ تلو نبوت ہے کہ اس کے اور نبوت کے بیچ میں کوئی مرتبہ نہیں مگر ایک مقام ادق واخفی کہ نصیبہ حضرت صدیق اکبر اکرم واتقی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہے تو اجناس و انواع واصناف فضائل وکمالات وبلندی درجات میں خصائص و ملزومات نبوت کے سوا صدیقین ہر عطیہ بہیہ کے لائق واہل ہیں اگرچہ باہم ان میں تفاوت و تفاضل کثیرو وافر ہو ۔ (فتاوی رضویہ، جلد ۱۵، صفحہ ۶۷۸،چشتی)
صدیق اکبر کسے کہتے ہیں ؟
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ہر معاملے میں صداقت کا عملی مظاہرہ فرمایا حتی کہ واقعہ معراج اور آسمانی خبروں وغیرہ جیسے معاملات کہ جن کو اس وقت کسی کی عقل نے تسلیم نہیں کیا ان میں بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فوراً تصدیق فرمائی ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی تمام معاملات میں جیسی تصدیق آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کی ویسی کسی نے نہ کی اس لیے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو’’ صدیق اکبر‘‘ کہا جاتا ہے ۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ، جلد۱۵، ص۶۸۰ پر ارشاد فرماتے ہیں : سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ صدیق اکبر ہیں اور سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ صدیق اصغر، صدیق اکبر کا مقام اعلی صدیقیت سے بلند و بالا ہے ۔ نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض میں ہے : سیدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی تخصیص اس لئے کہ وہ صدیق اکبر ہیں جو تمام لوگوں میں آگے ہیں کیونکہ انہوں نے جو حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تصدیق کی وہ کسی کو حاصل نہیں اور یونہی سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا نام صدیق اصغر ہے جو ہرگز کفر سے ملتبس نہ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے غیر ﷲ کو سجدہ کیا باوجود یکہ وہ نابالغ تھے ۔ (نسیم الریاض فی شرح الشفا، القسم الاول، فی ثناء اللہ۔۔۔الخ، الفصل الاول، ج۱، ص۲۳۴،چشتی)
سبھی علمائے اُمّت کے ، امام و پیشوا ہیں آپ
بِلاشک پیشوائے اَصفیا صدّیق اکبر ہیں
خدا ئے پاک کی رحمت سے انسانوں میں ہر اک سے
فُزوں تر بعد از کُل انبیا صدّیقِ اکبر ہیں
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ۔ (سورہ زمر آیت نمبر 33)
ترجمہ : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں ۔
وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے ۔ اس آیت میں صِدق سے کیا مراد ہے اوراسے لانے والے اور ا س صِدق کی تصدیق کرنے والے سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، ان میں سے 5 قول درج ذیل ہیں :
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : صدق سے مراد اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت ہے اور اسے لے کر تشریف لانے والے سے مراد رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہی ہیں کہ اسے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مخلوق تک پہنچایا ۔
صدق سے مراد قرآنِ پاک ہے،اسے لانے والے جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں ۔
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اور مفسرین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ سچ لے کر تشریف لانے والے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور ا س کی تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔ سچ لے کر تشریف لانے والے سے مراد حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور تصدیق کرنے والے سے تمام مومنین مراد ہیں ۔ سچ لے کر تشریف لانے والے اور تصدیق کرنے والے سے ایک پوری جماعت مراد ہے ، تشریف لانے والے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور تصدیق کرنے والے سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی ۔ ( خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۴/۵۵-۵۶، تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۹/۴۵۲، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۱۰۳۸،چشتی)
امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : أن المراد شخص واحد فالذی جاء بالصدق محمد ، والذی صدق بہ ہو أبو بکر ، وہذا القول مروی عن علی بن أبی طالب علیہ السلام وجماعۃ من المفسرین رضی اللہ عنہم ۔
ترجمہ : اس سے مراد ایک ہی ہستی ہیں ، تو جو سچی بات لے کر آئے وہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور جس نے آپ کی تصدیق کی وہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ اور یہ روایت حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اور مفسرین کرام رحمہم اللہ کی ایک بڑی جماعت سے منقول ہے ۔ (التفسیر الکبیر،چشتی)(الدر المنثور، روح البیان، سورۃالزمر۔ 33)
حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہاں ابو بکر رضی اللہ عنہ صدیق ہیں
عن عروة بن عبد الله قال سألت أبا جعفر محمد بن علي عليهما السلام عن حلية السيوف فقال لا بأس به قد حلى أبو بكر الصديق رضي الله عنه سيفه، قلت فتقول الصديق؟ قال: فوثب وثبة واستقبل القبلة وقال : نعم الصديق نعم الصديق نعم الصديق، فمن لم يقل له الصديق فلا صدق الله له قولا في الدنيا ولا في الآخرة ۔
ترجمہ : عروه بن عبدالله سے روایت ہے حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا گیا کہ تلواروں کو زیور لگانا جائز ہے یا نہیں ؟ آپ نے جواب دیا : اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار کو زیور لگایا ہوا تھا۔ عرض کیا : کیا آپ بھی ان کو صدیق کہتے ہیں۔ اس پر حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اچھل پڑے اور قبلہ رخ ہو کر فرمایا : ہاں وہ صدیق ہیں ، ہاں وہ صدیق ہیں ، ہاں وہ صدیق ہیں ۔ جو ان کو صدیق نہیں کہتا اللہ اس کے کسی قول کو نہ دنیا میں سچا کرے نہ آخرت میں ۔ (كشف الغمة - ابن أبي الفتح الإربلي - ج ۳ - ص ۳۶۰) ۔۔۔ (سوچ منکر رافضی سوچ تیرا انجام کیا ہوگا ؟؟؟؟؟)
آپ کے القاب مبارکہ میں صدیق بہت مشہور ہے ، کیونکہ یہ مبارک لقب آپ کو کسی مخلوق نے نہیں دیا ، بلکہ خالق کائنات نے عطا فرمایا ، جیسا کہ سنن دیلمی میں حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یَا أَبَابَکْرٍ اِنَّ اللّٰہَ سَمَّاکَ الصَّدِّیقَ ۔
ترجمہ : اے ابوبکر! اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام صدیق رکھا ہے ۔ (کنز العمال ، حرف الفاء ، فضل ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:32615،چشتی)
ابھی آپ نے امام الانبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبان حق ترجمان سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صداقت کا تذکرہ سنا ، اب آئیے امام الاولیاء کی زبان فیض ترجمان سے سماعت فرمائیے ! حضرت مولائے کائنات سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا : لَاَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اسْمَ اَبِی بَکْرٍ مِنَ السَّمَاءِ ’’ الصِّدِّیقَ‘‘۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام ’’ صدیق‘‘ آسمان سے نازل فرمایا ہے ۔ (مختصر تاریخ دمشق ، ج ،13،ص52)
آپ کو صدیق کے مبارک لقب سے اس لئے بھی یاد کیا جاتا ہے کیونکہ آپ نے بلا کسی تامل سب سے پہلے معجزۂ معراج کی برملا تصدیق کی ، جیسا کہ مستدرک علی الصحیحین اور تاریخ الخلفاء میں روایت ہے : عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت جاء المشرکون إلی أبی بکر فقالوا ہل لک إلی صاحبک یزعم أنہ أسری بہ اللیلۃ إلی بیت المقدس قال أو قال ذلک؟ قالوا نعم فقال لقد صدق إنی لأصدقہ بأبعد من ذلک بخبر السماء غدوۃ وروحۃ فلذلک سمی الصدیق ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ شب معراج کے اگلے دن مشرکین مکہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا ، اپنے صاحب کی اب بھی تصدیق کروگے ؟ ، انہوں نے دعوٰی کیا ہے "راتوں رات بیت المقدس کی سیر کرآئے ہیں "ابوبکر صدیق نے کہا : "بیشک آپ نے سچ فرمایا ہے ، میں تو صبح وشام اس سے بھی اہم امور کی تصدیق کرتا ہوں "۔ اس واقعہ سے آپ کا لقب صدیق مشہور ہوگیا ۔ (تاریخ الخلفاء ص،11،چشتی)
اسی طرح مختلف مواقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کی فضیلت کا اظہار فرمایا ، اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اتھاہ وارفتگی اور اٹوٹ وابستگی کی بنیاد پر حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اپنے درمیان حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہر اعتبار سے افضل ومقدم اور اولی وبہترجانتے اور مانتے تھے ۔
صدیق اکبر صادق وحکیم ہیں شیخ اکبرحضرت سیدنا محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ اگر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس موطن میں تشریف نہ رکھتے ہوں اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مقام پر صدیق قیام کریں گے کہ وہاں صدیق سے اعلی کوئی نہیں جو انہیں اس سے روکے۔ وہ اس وقت کے صادق و حکیم ہیں ، اور جو ان کے سوا ہیں سب ان کے زیر حکم ۔ (الفتوحات المکیۃ،الباب الثالث والسبعون ،ج۳،ص۴۴،چشتی)(فتاوی رضویہ، ج۱۵، ص۶۸۰)
قرآن مجید میں بھی صدیق کا لفظ ، انبیاء علیہم السّلام ، اولیاء اور صالحین کے لیے استعمال ہوا ہے : يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنْبُلاَتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَّعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ ۔ (سورہ يُوْسُف ، 12 : 46)
ترجمہ : (وہ قید خانہ میں پہنچ کر کہنے لگا) اے یوسف، اے صدقِ مجسّم! آپ ہمیں (اس خواب کی) تعبیر بتا دیں کہ سات فربہ گائیں ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور دوسرے سات خشک؛ تاکہ میں (یہ تعبیر لے کر) واپس لوگوں کے پاس جاؤں شاید انہیں (آپ کی قدر و منزلت) معلوم ہو جائے ۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ۔ (سورہ مَرْيَم ، 19 : 41)
ترجمہ : اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے، بیشک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے ۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ۔ (سورہ مَرْيَم ، 19 : 56)
ترجمہ : اور (اس) کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے، بیشک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے ۔
مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلاَنِ الطَّعَامَ انظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ۔ (سورہ الْمَآئِدَة ، 5 : 75)
ترجمہ : مسیح ابنِ مریم (علیھما السلام) رسول کے سوا (کچھ) نہیں ہیں (یعنی خدا یا خدا کا بیٹا اور شریک نہیں ہیں)، یقیناً ان سے پہلے (بھی) بہت سے رسول گزر چکے ہیں ، اور ان کی والدہ بڑی صاحبِ صدق (ولیّہ) تھیں، وہ دونوں (مخلوق تھے کیونکہ) کھانا بھی کھایا کرتے تھے۔ (اے حبیب!) دیکھئے ہم ان (کی رہنمائی) کے لئے کس طرح آیتوں کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں پھر ملاحظہ فرمائیے کہ (اس کے باوجود) وہ کس طرح (حق سے) پھرے جارہے ہیں ۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ۔ (سورہ الْحَدِيْد ، 57 : 19)
ترجمہ : اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ، اُن کے لئے اُن کا اجر (بھی) ہے اور ان کا نور (بھی) ہے، اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخی ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی متعدد مقامات پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام اور دیگر بھی کئی صدیق ہیں ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑے صدیق ہیں ۔ الصدیقون جمع کا صیغہ ہمیں بتا رہا ہے کہ بہت سارے صدیق ہیں تو پتہ چلا کہ صدیقین کی تعداد ایک دو نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا کہ میں صدیق اکبر ہوں اور اگر میرے بعد کسی نے اس کا دعویٰ کیا تو وہ کذاب ہے ۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے ۔ اس میں لڑائی جھگڑا والی بات بھی نہیں ہے ۔
صدیق اکبر کاگستاخ بندربن گیا
حضرت امام مستغفری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ علیہ نے ثقات سے نقل کیا ہے کہ ہم لوگ تین آدمی ایک ساتھ یمن جارہے تھے ہمارا ایک ساتھی جو کوفی تھا وہ حضرت سیدناابوبکر صدیق وحضرت سیدناعمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی شان میں بدزبانی کر رہا تھا ، ہم لوگ اس کو بار بار منع کرتے تھے مگر وہ اپنی اس حرکت سے باز نہیں آتا تھا ، جب ہم لوگ یمن کے قریب پہنچ گئے اور ہم نے اس کو نماز فجر کے لیے جگایا ،تو وہ کہنے لگا کہ میں نے ابھی ابھی یہ خواب دیکھا ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممیرے سرہانے تشریف فرما ہوئے اورمجھے فرمایا کہ’’ اے فاسق!خداوند تعالیٰ نے تجھ کو ذلیل وخوار فرمادیا اورتو اسی منزل میں مسخ ہوجائے گا۔‘‘اس کے بعد فوراً ہی اس کے دونوں پاؤں بندر جیسے ہوگئے اورتھوڑی ہی دیر میں اس کی صورت بالکل ہی بند رجیسی ہوگئی ۔ ہم لوگوں نے نماز فجر کے بعد اس کو پکڑ کر اونٹ کے پالان کے اوپر رسیوں سے جکڑ کر باندھ دیا اوروہاں سے روانہ ہوئے ۔ غروب آفتاب کے وقت جب ہم ایک جنگل میں پہنچے تو چند بندروہاں جمع تھے۔ جب اس نے بندروں کے غول کو دیکھا تو رسی تڑوا کر یہ اونٹ کے پالان سے کود پڑا اوربندروں کے غول میں شامل ہوگیا۔ ہم لوگ حیران ہوکر تھوڑی دیروہاں ٹھہر گئے تاکہ ہم یہ دیکھ سکیں کہ بندروں کا غول اس کے ساتھ کس طرح پیش آتاہے تو ہم نے یہ دیکھا کہ یہ بندروں کے پاس بیٹھا ہوا ہم لوگوں کی طرف بڑی حسرت سے دیکھتا تھا اوراس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ گھڑی بھر کے بعد جب سب بندروہاں سے دوسری طرف جانے لگے تویہ بھی ان بندروں کے ساتھ چلاگیا ۔ (شواھد النبوۃ، رکن سادس د ربیان شواھد ودلایلی...الخ، ص۲۰۳،چشتی)
صدیق اکبر کاگستاخ خنزیر بن گیا
اسی طرح حضرت امام مستغفری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ علیہ نے ایک مرد صالح سے نقل کیا ہے کہ کوفہ کا ایک شخص جو حضرات سیدناابوبکر وعمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو برا بھلا کہا کرتا تھا ہر چند ہم لوگوں نے اس کو منع کیا مگر وہ اپنی ضد پر اڑا رہا، تنگ آکر ہم لوگوں نے اس کو کہہ دیا کہ تم ہمارے قافلہ سے الگ ہوکر سفر کرو۔ چنانچہ وہ ہم لوگوں سے الگ ہوگیا جب ہم لوگ منزل مقصود پر پہنچ گئے اورکام پورا کر کے وطن کی واپسی کا قصد کیا تو اس شخص کا غلام ہم لوگوں سے ملا، جب ہم نے اس سے کہا کہ’’ کیا تم اورتمہارا مولیٰ ہمارے قافلے کے ساتھ وطن جانے کا ارادہ رکھتے ہو؟‘‘ یہ سن کر غلام نے کہا کہ ’’میرے مولیٰ کا حال تو بہت ہی برا ہے، ذراآپ لوگ میرے ساتھ چل کر اس کا حال دیکھ لیجئے ۔ ‘‘غلام ہم لوگوں کو ساتھ لے کر ایک مکان میں پہنچا وہ شخص اداس ہوکر ہم لوگوں سے کہنے لگا کہ مجھ پر تو بہت بڑی افتادپڑگئی ۔ پھر اس نے اپنی آستین سے دونوں ہاتھوں کو نکال کر دکھایا تو ہم لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کے دونوں ہاتھ خنزیر کے ہاتھوں کی طرح ہوگئے تھے ۔ آخر ہم لوگوں نے اس پر ترس کھا کر اپنے قافلہ میں شامل کرلیا لیکن دوران سفر ایک جگہ چند خنزیروں کا ایک جھنڈ نظرآیا اور یہ شخص بالکل ہی ناگاہاں مسخ ہوکر آدمی سے خنزیربن گیا اورخنزیروں کے ساتھ مل کر دوڑنے بھاگنے لگا مجبوراً ہم لوگ اس کے غلام اورسامان کو اپنے ساتھ کوفہ تک لائے ۔ (شواھد النبوۃ، رکن سادس د ربیان شواھد ودلایلی...الخ، ص۲۰۴،چشتی)
صدیق اکبر کاگستاخ کتا بن گیا
ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے منقول ہے کہ میں نے ملک شام میں ایک ایسے امام کے پیچھے نماز ادا کی جس نے نماز کے بعد حضرت سیدنا ابوبکروعمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے حق میں بددعا کی۔ جب دوسرے سال میں نے اسی مسجد میں نماز پڑھی تو نماز کے بعد امام نے حضرت سیدنا ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے حق میں بہترین دعا مانگی ، میں نے نمازیوں سے پوچھا کہ تمہارے پرانے امام کا کیا ہوا ؟ تولوگوں نے کہا کہ :’’ آپ ہمارے ساتھ چل کر اس کو دیکھ لیجئے ۔‘‘ میں جب ان لوگوں کے ساتھ ایک مکان میں پہنچا تو یہ دیکھ کر مجھے بڑی عبرت ہوئی کہ ایک کتا بیٹھا ہوا ہے اوراس کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ۔ میں نے اس سے کہا کہ تم وہی امام ہو جوحضرات شیخین کریمین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے لئے بددعا کیا کرتا تھا ؟ ‘‘تو اس نے سرہلا کر جواب دیا کہ’’ ہاں ۔ (شواھد النبوۃ، رکن سادس در بیان شواھد ودلایلی...الخ، ۲۰۶) ۔ (مزیدحصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment