Saturday 8 January 2022

شانِ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حصہ سیزدہم

0 comments

 شانِ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حصہ سیزدہم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : اسلام ایک پاکیز دستور اور مذہب مہذب ہےاور کیوں نہ ہو کہ اس کے بانی نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں جو رب ذوالجلال کے سب سے محبوب ومقرب اور نائب پروردگار ہیں ۔ جن کے لائےہوئے مذہب وملت کو رب تعالیٰ نے اپنے اس قول"ان الدین عنداللہ الاسلام" سےسند قبولیت عطا فرمائی اور اسلام کےسوا دیگر ادیان و ملل کو مردود و مہمل قرار دےکر ان کے متبعین کےلیے خسران و نقصان کی وعید عطافرمائی چناں چہ ارشاد ربانی ہے : ومن یبتغ غیر الإسلام دینا فلن یقبل منہ ۔ (آل عمران:٨٥)

ترجمہ : اور جو اسلام کےسواکوئی دین چاہے گا وہ اسے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں زیاں کاروں سے ہے ۔


اسی دین متین کی تبلیغ و اشاعت نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کی اور گم گشتہ لوگوں کے دلوں میں رشد وہدایت کا چراغ روشن کرکے راہ راست پر گامزن فرمایاجس کے نتیجے میں اپنے عہد کےنامور اور بڑی بڑی شخصیتوں کے ساتھ بےشمار لوگوں نے اپنے آپ کو مشرف بہ اسلام کیا اور محبت نبوی کی بنیاد پر دنیاے اسلام میں مشہور و مقبول ہوئے ۔ ان عظیم شخصیتوں میں سے خلفاۓ اربعہ یعنی حضرت ابو بكر صدیق ، حضرت عمر فاروق اعظم ، حضرت عثمان غنی اور حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے اسماۓ گرامی بھی سنہرے قلموں سے لکھے جانے کے قابل ہیں اور پھر ان چاروں میں سب سے افضل و اعلی و برتر و بالا حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات مبارکہ ہے جنہیں یار غار مصطفیٰ اور خلیفہ اول ہونے کا شرف حاصل ہے اور خلافت ایسی نہیں کہ چند معمولی لوگوں نے اجتماعی طور پر خلیفہ منتخب کردیا بلکہ خلافت ایسی کہ جس کی گواہی قرآنی آیات نے دیں ، جس کی شاہد احادیث مبارکہ ہوں اور جس کی خلافت کی حقانیت پر قول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ناطق ہو ۔ آئیے خلافت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالہ سے چند آیات قرآنیہ اور احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں جن سے خلافت صدیقی روز روشن کی طرح عیاں اور مثل نیم آفتاب ظاہر و باہر ہوجائے گی اور مخالفین کےلیے دندان شکن جواب بھی ۔


علامہ ابن ابی حاتم علیہ الرحمہ نے حضرت عبد الرحمن بن عبد الحمید علیہ الرحمہ سے روایت کی ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق و عمر فاروق اعظم رَضی اللہ عنہما کی خلافت کا ذکر کتاب اللہ میں مرقوم ہے ۔ پھر انہوں نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی : وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۪ وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًاؕ-یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْــٴًـاؕ-وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ۔ (سورہ النور:۵۵)

ترجمہ : اللہ نے وعدہ دیا ان کو جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ ضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا جیسی ان سے پہلوں کو دی اور ضرور ان کے لئے جما دے گا ان کا وہ دین جو ان کےلیے پسند فرمایا ہے اور ضرور ان کے اگلے خوف کو امن سے بدل دے گا میری عبادت کریں میرا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں اور جو اس کے بعد ناشکری کرے تو وہی لوگ بے حکم ہیں ۔

 

تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر صادق آتی ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر، تحت سورۃ النور،الآیۃ :۵۵ جلد نمبر ٤ صفحہ نمبر ۷۱،چشتی)


حضرت سیدنا ابوبکر بن عیاش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بلاشبہ قرآن پاک کی روسے رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خلیفہ ہیں ۔ پھر آپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی : لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓئِكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَۚ ۔ (۸)

ترجمہ : ان فقیر ہجرت کرنے والوں کے لئے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے اللہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے اور اللہ و رسول کی مدد کرتے وہی سچے ہیں ۔‘‘

پھر فرمایا : ’’جسے   اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے صادق فرمایا ہو وہ جھوٹ نہیں بول سکتا ۔

 

قُلْ لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَۚ-فَاِنْ تُطِیْعُوْا یُؤْتِكُمُ اللّٰهُ اَجْرًا حَسَنًاۚ-وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّیْتُمْ مِّنْ قَبْلُ یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ۔ (سورہ الفتح :١٤)     

 ترجمہ : ان پیچھے رہ گئے ہوئے گنواروں سے فرماؤ عنقریب تم ایک سخت لڑائی والی قوم کی طرف بلائے جاؤ گے کہ ان سے لڑو یا وہ مسلمان ہو جائیں پھر اگر تم فرمان مانو گے اللہ تمہیں اچھا ثواب دے گا اور اگر پھر جاؤ گے جیسے پھر گئے تو تمہیں دردناک عذاب دے گا ۔


حضرت ابن ابی حاتم اور ابن قتیبہ رحمۃ اللہ علیہما فرماتے ہیں کہ ’’یہ آیت مبارکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہ کی خلافت پر واضح حجت ہے ، کیونکہ آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ نے ہی انہیں لڑائی کی طرف بلایا ۔‘‘


حضرت شیخ ابو الحسن الاشعری فرماتے ہیں کہ’’ میں نے ابو العباس ابن شریح کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قرآن پاک کی اس آیت میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی خلافت کاواضح اعلان ہے ۔‘‘ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا : ’’کیونکہ اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس کی طرف اوروں نے بلایا ہو سوائے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہ کے بلانے کے کہ آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ نے لوگوں کو مرتدین اور مانعین زکوٰۃ سے لڑائی کی دعوت عام دی ۔ لہٰذا یہ آیت مقدسہ آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ کی خلافت کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے یہ فرمایا ہے کہ جو اس سے روگردانی کرے گا اسے سخت عذاب میں جھونک دیا جائے گا ۔‘‘


تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ جو ’’القوم‘‘ کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد اہل فارس اور اہل روم ہیں تب بھی اس آیت کا مصداق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہ ہی ٹھہرتے ہیں کیونکہ آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ نے ان کی طرف لشکر کشی فرمائی اور آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ کے بعد اس امر کی تکمیل حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم وحضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ عَنْہُما کے ہاتھ مبارک پر ہوئی ۔ یہ دونوں حضرات حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہ کی فرع ہیں ۔ (تاریخ الخلفاء، ص:٦٩)


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنا خلیفہ بنایا حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی مبارک گواہی حوالہ شیعوں کے گھر سے


شیعوں کا محدث و مفسر محمد بن مرتضی المعروف محسن کاشانی لکھتا ہے : حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وِصال مبارک کے بعد حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے مسجد میں کھڑے ہو کر بلند آواز سے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنایا ۔ (تفسیر الصافی الجزء السادس صفحہ نمبر 467 تفسیر سورہ محمد،چشتی)


امام ترمذی اور امام حاکم رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِمَا نے حضرت سیدنا حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہ عَنْہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : میرے بعد ابوبکر اور عمر کی پیروی کرنا ۔ (سنن الترمذی، کتاب المناقب ، فی مناقب ابی بکر،ج:٢،ص:٢٠٧، مجلس برکات مبارک پور،چشتی)


حضرت سیدنا ابوسعید خدری رَضِیَ اللہ عَنْہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : لَا يَبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ بَابٌ اِلَّا سُدَّاِلَّا بَابُ أَبِي بَكْرٍ ۔ یعنی مسجد میں ابوبکر صدیق کے دروازے کے علاوہ سارے دروازے بند کردو ۔ (صحیح البخاری، کتاب الصلوۃ ، باب الخوخۃ والممر فی المسجد، ج:۱،ص:٦٧)


علماء کرام فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مبارکہ آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ کی خلافت کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ اس دروازے سے تشریف لا کر مسلمانوں کو نماز پڑھایا کریں گے ۔ (تاریخ الخلفا، ص:٤٦)


اُمّ المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ عَنْہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایامِ مرض میں مجھے ارشادفرمایا :  ابوبکر اور ان کے بیٹے کو بلا لاؤ تاکہ میں انہیں پروانہ (خلافت) لکھ دوں ، مجھے خو ف ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے یہ نہ کہہ دےکہ میں زیادہ حقدار ہوں کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور مسلمان ابوبکر کے سوا کسی سے راضی نہ ہوں گے ۔ (صحیح مسلم ، فضائل الصحابہ، من فضائل ابی بکر الصدیق،ج:٢،ص:٢٧٣،مجلس برکات ،مبارک پور،چشتی)


حضرت سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ ایک عورت اپنی کسی حاجت کے پیش نظر بارگہ نبوی میں حاضر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاسے دوبارہ آنے کا حکم ارشاد فرمایا ۔ وہ کہنے لگی : یا رسول اللہ!صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں دوبارہ آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو ؟ گویا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے فردہ فرمانے کا ذکر کررہی تھی ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس چلی جانا ۔ (صحیح مسلم،فضائل الصحابہ، من فضائل ابی بکر، ج:٢،ص:٢٧٣،مجلس برکات ،مبارک پور)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظاہری وصال مبارک کے بعد مہاجرین و انصار رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اختلاف پیدا ہوا ۔ یہ اختلاف کا واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ کے مقام پر رونما ہوا ۔ اس مجلس میں جلدی سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے ۔ جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں مہاجرین و انصار کی فضیلت کو بیان کیا اور آخر میں فرمایا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ : الائمۃ من قریش ۔ خلیفہ قریش سے ہو گا ۔ (مسند احمد ، تاریخ الخلفاءسیوطی صفحہ 14)


چنانچہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت میں کوئی شک نہیں ہے فوراً اختلاف ختم ہو گیا ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہیں ان میں سے کسی ایک کے ہاتھ پر بیعت کرو ۔ لیکن تمام مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم نے بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی ۔ آپ بالاتفاق خلیفہ منتخب ہو گئے ۔ (تاریخ اسلام صفحہ 328 جلد 1 ، تاریخ الخلفا صفحہ 52)(اسد الغابہ صفحہ 222 جلد 3)(البدایہ و النہایہ صفحہ 248 جلد 5)

 

 حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت شیعہ کتب سے


اول  : جب دیکھا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےکلمہ توحید کی نشر و اشاعت اور لشکروں کی تیاری میں پوری پوری کوشش کی اور انہوں نے اپنی ذات کے معاملے میں کسی کو ترجیح نہ دی اور نہ ہی کسی پر زیادتی کی تو حضرت علی رض نے ان سے مصالحت کرتے ہوئے انکی بیعت کر لی اور اپنے حق سے چشم پوشی کی ۔ کیونکہ اس سے اسلام کے متفرق ہونے سے حفاظت بھی تانکہ لوگ پہلی جہالت کی طرف نہ لوٹ جائیں ۔ (کتاب اصل الشیعہ و اصولہا ‘الشیخ کاشف الغطا صفحہ 123’124,.193)


حضر سیدنا امام باقر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس آیت کریمہ ۔ (اَلَّـذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعْمَالَـهُمْ) ۔ وہ لوگ جو منکر ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو بھی اللہ کے راستہ سے روکا تو اللہ نے ان کے اعمال برباد کر دیے)

کی تلاوت کے بعد اپنا مقصد فنشھد الخ سے بیان فرمایا جس میں بطور شہادت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا ثبوت اور وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ذکر کیا ۔ (وَمَآ اٰتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۔ (اور جو کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو)

دوسری بات یہ کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان اقدس سے وصی کے الفاظ سنے تھے لیکن اتفاق و اجماع صحابہ کو دیکھتے ہوئے اسے مرجوع قرار دیا اور خلافت صدیق کے حق ہونے کی بیعت کی ۔ (تفسیر صافی الجز السادس سورہ محمد آیت ۱)(تفسیر القمی الجز الثالث صفحہ ۹۷۵)


جب حضرت علی رضی اللہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی اور حالات پرسکون ہو گئے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدہ فاطمہ الزھراء رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے لئے سفارش کی اور رضا کے طلب گار ہوئے تو آپ راضی ہو گئیں ۔ (کتاب شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد 6 صفحہ 196)

(بحار الانوار ملا باقر مجلسی جلد 28 صفحہ 322)(بیت الاحزان شیخ عباس قمی صفحہ ۱۱۳)(حق الیقین جلد اول صفحہ ۲۰۲)


علی رضی اللہ عنہ نے اُن (یعنی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہمس) کی خلافت کو تسلیم کر لیا تھا اور اُس پر راضی ھو گئے تھے ، اور بغیر کسی جبر کے اُن کی بیعت کر کے فرماںبرداری کی ، اور اُن کے حق میں دستبردار ھو گئے تھے۔ پس ھم بھی اس پر راضی ھیں جیسے وہ راضی تھے۔ اب ھمارے لئے یہ حلال نہیں کہ ھم اس کے علاوہ کچھ اور کہیں ، اور ھم میں سے کوئی اس کے سوا کچھ اور کہے۔ اور یہ کہ علی (ر) کی تسلیم (تسلیم کرنے) اور راضی ھونے کی وجہ سے ابو بکر (ر) کی ولایت ، راشدہ اور ھادیہ بن گئی ۔ (کتاب فرق الشیعہ صفحہ 31&32 محمد بن حسن نوبختی)


حضرت باقر رضی اللہ عنہ سے روایت ھے: جب اسامہ رضی اللہ عنہ کو (نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کا) خط پہنچا تو وہ ساتھیوں سمیت مدینہ آگئے ، اور دیکھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس (بیعت کےلیے) لوگ جمع ہیں ۔ تو وہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور اُن سے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ علی رضی اللہ عنہ نے اُن سے کہا : یہ وہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو ۔ اسامہ رضی اللہ عنہ نے اُن سے پوچھا : کیا آپ نے بھی بیعت کر لی ہے ؟ علی رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں اسامہ (میں نے بھی بیعت کر لی ہے ۔ (شیخ طبرسی الاحتجاج جلد ۱ صفحہ ۱۱۲&۱۱۳)


یہ دیکھ کر کہ کہیں فتنے یا شر پیدا نہ ہو جائے ، میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس چل کر گیا اور اور اُن کی بیعت کرلی ۔ اور اُن حوادث کے خلاف ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑا ہوگیا ، حتیٰ کہ باطل چلا گیا اور اللہ کا کلمہ بلند ہو گیا چاہے وہ کافروں کو برا لگے ۔ پس جب ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے نظام امارت سنبھالا اور حالات کو درست کیا اور آسانیاں پیدا کیں ، تو میں اُن کا مُصاحب شریک کار (ہم نشیں) بن گیا اور اُن کی اطاعت (فرماںبرداری) کی ، جیسے اُنہوں نے اللہ کی اطاعت کی ۔ (شیخ علی البحرانی “منار الہدی صفحہ 685،چشتی)


اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ علی (رضی اللہ عنہ) نے (ابوبکر رضی اللہ عنہ کی) بیعت کرلی تاکہ شر دفع ھو اور فتنہ پیدا نہ ہو ۔ (محمد بن حسن طوسی تلخیص شافی جلد 3 ص 42)


اور جب ان سے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی بیعت کرنے کا سبب معلوم کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : ’’اگر ہم ابو بکر کو خلافت کا اہل نہ سمجھتے تو ہم اسے خلیفہ نہ بننے دیتے ۔ (شرح نہج البلاغۃ: ۲/۴۵)


حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی امامت و خلافت کا منکر کافر ہے


محترم قارئینِ کرام : جو شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا منکر ہو وہ کافر ہے ۔ (درس نظامی کی مشھور ومعتبر کتاب کنزالدقائق کی معرکۃ الآراء شرح البحرالرائق لابن نجیم جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 611 مطبوعہ بیروت لبنان)


فتاوی عالمگیری میں ہے : من انکرامامہ ابی بکر الصدیق فہو کافر علی قول بعضہم وقال بعضہم ہو مبتدع ولیس بکافر والصحیح انہ کافر کذلک من انکر خلافۃ عمر فی اصح الاقوال ویجب اکفار الروافض فی قولہم برجہۃ الاموات الی الدنیا وتناسخ الارواح ۔

ترجمہ : جس شخص نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت کبریٰ کا انکار کیا وہ بعض حضرات کے قول کے مطابق کافر ہے جب کہ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ وہ مبتدع قرار پائے گا اس کو کافر نہیں کہیں گے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ وہ کافر ہے اسی طرح قول صحیح کے مطابق وہ شخص بھی کافر ہوجائے جو حضرت عمر کی خلافت کا انکار کرے گا نیز رافضیوں کو اس بناء پر کافر قرار دینا واجب ہے کہ وہ مردوں کے دنیا میں لوٹنے اور تناسخ ارواح کے قائل ہیں ۔ (فتاوی عالمگیری جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 286،چشتی)


من انکر امامۃ ابی بکر الصدیق رضی ﷲ تعالی عنہ فھو کافر وعلی قول بعضھم ھو مبتدع ولیس بکافر والصحیح انہ کافر و کذٰلك من انکر خلافۃ عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ فی اصح الاقوال ۔ (بر جندی شرح نقایہ کتاب الشہادۃ فصل یقبل الشہادۃ من اہل الھواء نو لکشور لکھنؤ ۴/ ۲۰،۲۱)

ترجمہ : امامت صدیق اکبر رضی ﷲ تعالی عنہ کا منکر کافر ہے ، اور بعض نے کہا بد مذہب ہے کافر نہیں ، اور صحیح یہ ہے کہ وُہ کافر ہے ، اسی طرح خلافت فاروق اعظم رضی ﷲ تعالٰی عنہ کا منکر بھی صحیح قول پر کافر ہے ۔


یکفر بانکارہ امامۃ ابی بکر رضی ﷲ تعالٰی عنہ علی الا صح کا نکارہ خلافۃ عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ علی الاصح ۔ (بحرالرائق باب احکام المرتدین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۵/ ۱۲۱)

ترجمہ : اصح یہ ہے کہ ابو بکر یا عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما کی امامت و خلافت کا منکر کافرہے ۔


مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر میں ہے : الرافضی ان فضل علیا فھو مبتدع وان انکر خلافۃ الصدیق فھو کافر ۔ (مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر کتاب الصلٰوۃ فصل الجماعۃ سنۃ موکدۃ داراحیاء التراث العربی بیروت جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 108)،چشتی

ترجمہ : رافضی اگر صرف تفضیلیہ ہو تو بد مذہب ہے اور اگر خلافتِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا منکر ہو تو کافر ہے ۔


یکفر بانکار ہ صاحبۃ ابی بکر رضی ﷲ تعالٰی عنہ وبانکارہ امامتہ علی الاصح وبانکارہ صحبۃ عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ علی الاصح ۔ (جمع الانہر شرح ملتقی الابحر باب المرتد فصل ان الفاظ الکفر انواع داراحیاء التراث العربی بیروت 1/ 692)

ترجمہ : جو شخص ابو بکر صدیق رضی ﷲ تعالٰی عنہ کی صحابیت کا منکر ہو کافر ہے ۔ یُونہی جو اُن کے امامِ برحق ہونے کا انکار کرنے مذہب اصح میں کافر ہے ، یونہی عمر فاروق رضی ﷲ تعالٰی عنہ کی صحابیت کا انکار قول اصح پرکفر ہے ۔


فتح القدیر میں علامہ کمال الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر رافضی ابوبکر صدیق و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر ہے تو وہ کافر ہے ۔ (فتح القدیر ، باب الامامت صفحہ نمبر 8،چشتی)


فتاویٰ بزازیہ میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے ۔ حضرت علی ، طلحہ ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے ۔ (فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸)


شرح فقہ اکبر میں ہے : جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے ، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (شرح فقہ اکبر:۱۹۸)


امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب رد الرافضہ میں بڑی تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں جس کا اختصار یہ ہے کہ : جو حضرات حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنہما خواہ ان میں سے ایک کی شان پاک میں گستاخی کرے اگر چہ صرف اسی قدر کہ انہیں امام و خلیفہ برحق نہ مانے ، کتاب معتبر و فقہ حنفی کی تصریحات اور عام ائمۂ ترجیح و فتویٰ کی تصحیحات سے یہ مطلقاً کافر ہیں ۔ (رد الرافضہ) ۔ (مزید حصّہ چہاردہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔