Sunday 23 January 2022

شیعوں کی حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخیاں

0 comments

 شیعوں کی حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخیاں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : شیعہ ایسا غلیظ گستاخ گروہ ہے جس نے تمام مقدس ہستیوں کی شانوں میں گستاخیاں کی ہیں اور کرتے رہتے ہیں ۔ یہ غلیظ گروہ اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت کی آڑ میں گستاخیاں کرتا ہے ۔ اس سے قبل ہم عرض کر چکے ہیں کہ اس غلیظ گروہ نے کس طرح حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخیاں کی ہیں اب آئیے اس مضمون میں اس غلیظ گروہ کی طرف سے سیدہ طیبہ طاہرہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی شان میں کی گئی گستاخیوں کو پڑھتے ہیں انہیں کی کتابوں سے پھر فیصلہ اہلِ ایمان پر چھوڑتے ہیں :


حضرت فاطمہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہما سے کہا تم ذلیل لوگوں کی طرح بھاگ آئے


شیعہ کا بہت بڑا مجتہد ملاّں باقر مجلسی اپنی کتاب حق الیقین میں باغ فدک پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے : پھر سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا گھر واپس آئیں حضرت علی علیہ السلام ان کی واپسی کے منتظر تھے جب گھر تشریف لائیں تو مصلحت کے تحت حضرت علی سید الاوصیاء سے نہایت دلیرانہ گفتگو کی کے تم بچہ کی طرح شکم مادر میں پردہ نشین ہو گئے اور ذلیل لوگوں کی طرح بھاگ آئے تم نے زمانہ کے بہادروں کو پچھاڑا لیکن ان نامرادوں سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔ (حق الیقین صفحہ نمبر 127 احتجاج حضرت زہرا با ابوبکر در امر فدک مطبوعہ تہران،چشتی)،(امالی طوسی جلد 2 صفحہ 296 مطبوعہ قم مجلسی یوم جمعہ)


رافضیوں اور سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضیوں سے سوال : رافضی شیعہ ملاّں باقر مجلسی مجلسی نے حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کے لئے جو الفاظ استعمال کیے ہیں یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے جو الفاظ استعمال کیے کے تم بچے کی طرح شکم مادر میں پردہ نشین ہو گئے ہو اور تم ذلیل لوگوں کی طرح بھاگ آئے اپنے دل کے مفتی سے فتوی لے کر بتائیں کیا جگر گوشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایسی زبان استعمال کرسکتی ہیں اور وہ بھی حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کے لیے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی پیاری بیٹی تو جنت کی عورتوں کی سردار ہے اس کو یہ تربیت دی تھی معاذاللہ ۔


حضرت فاطمہ الزہرا کا حضرت علی رضی اللہ عنہما سے نکاح پر رونا


قال : فقلت : أخبرني أبي، عن أبيه، عن جده، قال: كنا قعودا عند النبي (صلى الله عليه وآله)، إذا جاءت فاطمة (عليها السلام) تبكي بكاء شديدا، فقال لها رسول الله (صلى الله عليه وآله): ما يبكيك، يا فاطمة؟ قالت: يا أبه، عيرتني نساء القريش، وقلن: إن أباك زوجك من معدم لا مال له. فقال لها النبي (صلى الله عليه وآله): لا تبكي، فوالله ما زوجتك حتى زوجك الله من فوق عرشه، وأشهد بذلك جبرئيل وميكائيل، وإن الله عزوجل اطلع على أهل الدنيا فاختار من الخلائق أباك فبعثه نبيا، ثم اطلع الثانية فاختار من الخلائق عليا، فزوجك إياه ۔

ترجمہ : امالی صدوق میں ہے راوی کہتا ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک حضرت فاطمہ الزھراء سخت روتی ہوئی تشریف لائیں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فاطمہ تمہیں کس نے رلایا عرض کیا بابا جان قریشی عورتوں نے مجھے طعنہ دیا ہے کہ تمہارے والد نے تمہاری شادی ایسے شخص سے کی ہے جس کے پاس کچھ مال نہیں تو آپ نے فرمایا بیٹی مت رو اللہ کی قسم میں نے تیری شادی اس وقت کی جب اللہ نے تیری شادی عرش پر کردی تھی اور اس پر حضرت جبرائیل اور میکائیل گواہ بنے تھے ۔ (امالی صدوق صفحہ 263،چشتی)(بحار الانوار جلد 10 صفحہ 46)


حضرت فاطمہ زہرا نے حضرت علی رضی اللہ عنہما کو غصے سے مارا


قالت فاطمة : أناجائعة، وابناي جائعان، ولا أشك إلا وأنك مثلنا في الجوع، لم يكن لنا منه درهم! وأخذت بطرف ثوب علي (عليه السلام)، فقال علي: يا فاطمة، خليني. فقالت: لا والله، أو يحكم بيني وبينك أبي. فهبط جبرئيل (عليه السلام) على رسول الله (صلى الله عليه وآله) فقال: يا محمد السلام يقرئك السلام ويقول: اقرأ عليا مني السلام وقل لفاطمة: ليس لك أن تضربي على يديه ولا تلمزي بثوبه. فلما أتى رسول الله (صلى الله عليه وآله) منزل علي (عليه السلام) وجد فاطمة ملازمة لعلي (عليه السلام)، فقال لها: يا بنية، ما لك ملازمة لعلي؟ قالت: يا أبه، باع الحائط الذي غرسته له باثني عشر ألف درهم ولم يحبس لنا منه درهما نشتري به طعاما. فقال: يا بنية، إن جبرئيل يقرئني من ربي السلام، ويقول: أقرئ عليا من ربه السلام، وأمرني أن أقول لك: ليس لك أن تضربي على يديه ۔

ترجمہ : حدیث میں وارد ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے سلمان فارسی کو بلایا اور فرمایا کہ وہ باغ جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا تھا بازار میں جاکر تجار حضرات کے پاس فروخت کردو چناچہ سلمان فارسی نے بارہ ہزار درہم پر اسے فروخت کردیا اور یہ رقم حضرت علی علیہ السلام کو پیش کر دی وہاں ایک اعرابی تھا اس نے آپ سے سوال کیا تو آپ نے اس رقم میں سے چار ہزار چالیس درہم اس کو عطا کر دیے تو یہ خبر مدینہ شریف میں پھیل گئی لہذا تمام لوگ جمع ہوں گے اور ایک آدمی انصار میں سے سیدہ فاطمہ کے پاس گیا اور اس نے آپ کو مذکورہ واقعہ کی خبر دی تو آپ نے اس کو دعا دی اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے وہیں بیٹھے ہوئے بقایا تمام رقم لوگوں میں تقسیم کر دی یہاں تک کہ ایک درہم بھی باقی نہ رکھا اس کے بعد سیدہ فاطمہ نے حضرت علی سے پوچھا کہ آپ نے میرے باپ کے باغ کو فروخت کردیا تو حضرت علی نے جواب دیا ہاں میں نے فروخت کر دیا سیدہ فاطمہ نے سوال کیا رقم کہاں ہے تو آپ نے فرمایا میں نے وہ اللہ کے راستہ میں تقسیم کردی ہے اس کے جواب میں پھر حضرت فاطمہ نے فرمایا کہ میں بھوکی ہوں ہمارے بیٹے بھوکے ہیں اور آپ بھی ہماری مثل بھوکے ہیں اور ہمارے پاس ایک درہم بھی نہیں ہے اور یہ کہہ کر حضرت فاطمہ نے علی کے دامن کو پکڑ لیا حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا اے فاطمہ مجھے چھوڑ دے تو سجدہ فاطمہ نے فرمایا کہ میں خدا کی قسم ہرگز آپ کو نہیں چھوڑوں گی یہاں تک کہ میرے اور آپ کے درمیان میرے ابا جان فیصلہ فرمائیے پس جبرئیل نازل ھوئے اور فرمایا اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو اور علی کو اللہ تعالی سلام فرماتا ہے ۔ قل لفاطمتہ لیس لک ان تضربی علی یدیہ و تلزمی بثوبہ ۔ یعنی فاطمہ کو فرمادیجئے کہ تیرے لیے یہ جائز نہیں کہ تو حضرت علی کے ہاتھوں پر مارے اور ان کے دامن کو نہ چھوڑے لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ کے گھر آئے تو فاطمہ کو دیکھا کہ انہوں نے حضرت علی کا دامن پکڑا ہوا تھا تو آپ نے فرمایا کہ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کے دامن کو کیوں پکڑا ہوا ہے سیدہ فاطمہ نے مذکورہ بالا واقعہ سنایا تو اس پر آپ نے فرمایا ہے بیٹی میرے پاس جبریل تشریف لائے اور مجھے اور حضرت علی کو اللہ کا سلام پہنچایا اور فرمایا ہے کہ فاطمہ کو فرمادیجئے کہ تیرے لیے جائز نہیں ہے کہ تو حضرت علی کے ہاتھوں پر مارے لہذا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ نے چھوڑ دیا اور معافی مانگی ہے ۔ (الأمالي نویسنده : الشيخ الصدوق جلد : 1 صفحه : 555 مطبوعہ الدراسات الاسلامية - مؤسسة البعثة،چشتی)(جلاء العیون جلد 1 صفحہ 194 زندگانی فاطمہ)(انوار النعمانیہ جلد 1 صفحہ 58)


کہاں مر گئے ہیں رافضی اب اپنے بڑوں کو گالیاں کیوں نہیں دیتے کیا یہ اتنی بڑی بڑی سیدہ کائنات کی گستاخیان کو نظر نہیں آتی ۔ کہاں مر گئے ہیں یہ دو نمبر سنی تفصیلی رافضیوں کی مجلس میں پڑھنے والے شیعوں سے بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے اگر تمہارے اندر سیدہ کائنات رضی اللہ تعالی عنہا کی محبت ہوتی اگر آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تھوڑا سا بھی ادب و احترام تمہارے دل کے اندر ہوتا تو تم جا کر شیعوں کے چرنوں میں بیٹھتے ان کی مجلسیں نہ پڑتے ۔ ان کے خلاف کیوں نہیں بولتے کہاں مر گئے ہیں شیعہ سنی بھائی بھائی کا نعرہ لگانے والے جو سیدہ کائناترضی اللہ عنہا  کا اتنا بدترین گستاخ ہے کیا وہ تمہارا بھائی ہے ۔


شیعہ رافضہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی

استھزاء الشیعہ الروافض بفاطمۃ رضی اللہ عنھا والصحابۃ رضوان اللہ علیھم اجمعین


یاد رہے کہ شیعہ کتاب میں بقول حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے کہ : ہم اھل البیت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نہ تو گھروں کی چھتیں ہوتیں ہیں اور نہ ہی دروازے سوائے اس کے جو جرائد (کھجور کے پتے سے بنا ہوا) یا اس سے مشابہ کے بنے ہوئے ہوں ۔ (بحار الأنوار - العلامة المجلسي جلد ٣٨ صفحہ 175​)


شیعوں سے سوال ؟

ہمیشہ شیعہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو بزدل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھر کا دروازہ جلایا اور دروازہ وزنی تھا جس میں کیل لگے ہوئے تھے اور وہ کیل حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو لگے اور حمل بھی گر گیا تو جب دروازہ ہی لکڑی کا نہیں تھا تو یہ پھر جھوٹ کیسا ؟


حضرت فاطمہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہما کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی


امام باقر علیہ السلام سے کشف الغمہ میں روایت ہے کہ ایک دن حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضور کی خدمت میں حضرت علی کی شکایت کی کہ انہیں جو کچھ ملتا ہے وہ فقراء و مساکین میں تقسیم کر دیتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فاطمہ مجھے غصہ دلانا چاہتی ہوں وہ میرا بھائی ہے اور چچا زاد ہے اس کو ناراض کرنا مجھے ناراض کرنا اور میری ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے تو حضرت فاطمہ نے کہا میں اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ چاہتی ہیں ۔ (جلاء العیون جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 194 زندگانی فاطمہ زہراء علیہا السلام مطبوعہ تہران،چشتی)


حضرت فاطمہ حضرت علی اللہ تعالی عنہما کے ساتھ اپنے نکاح کے بارے میں ناخوش تھی


ابن يعقوب ، عن أبي مريم الأنصاري، عن أبي جعفر (عليه السلام) قال: كان صداق فاطمة (عليهاالسلام) جرد برد حبرة ودرع حطمية وكان فراشها أهاب كبش يلقيانه ويفرشانه وينامان عليه ۔ عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد بن خالد، عن علي بن أسباط، عن داود، عن يعقوب بن شعيب قال: لما زوج رسول الله (صلى الله عليه وآله) عليا فاطمة (عليهما السلام) دخل عليها وهي تبكي فقال لها: ما يبكيك فوالله لو كان في أهلي خير منه ما زوجتكه وما أنا زوجته ولكن الله زوجك وأصدق عنك الخمس ما دامت السماوات والأرض ۔

ترجمہ : یعقوب بن شعیب کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ اور حضرت علی کا رشتہ کیا تو آپ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس گئے اس وقت وہ رو رہی تھیں آپ نے فرمایا کیوں رو رہی ہو اللہ کی قسم اگر میرے خاندان میں علی سے کوئی بہتر ہوتا تو میں تیرا نکاح علی سے نہ کرتا میں نے تو اس سے تیرا نہیں کیا بلکہ یہ نکاح اللہ نے کیا ہے اور خمس کو تیرا مہر مقرر کیا ہے جب تک آسمان اور زمین قائم ہیں ۔ (الفروع من الكافي الشيخ الكليني جلد 5 صفحه 378 مطبوعہ دار الكتب الإسلامية طهران ردمك ملاحظات،چشتی)


سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا نے ایک غیر مرد کا گریبان پکڑ کر کھینچا اور انہیں برا بھلا کہا


عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ وأَبِي عَبْدِ اللهِ عليهما‌السلام ، قَالَا : « إِنَّ فَاطِمَةَ عليها‌السلام لَمَّا أَنْ كَانَ مِنْ أَمْرِهِمْ مَا كَانَ ، أَخَذَتْ بِتَلَابِيبِ عُمَرَ ، فَجَذَبَتْهُ إِلَيْهَا ، ثُمَّ قَالَتْ : أَمَا واللهِ ، يَا ابْنَ الْخَطَّابِ ، لَوْ لَا أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ يُصِيبَ الْبَلَاءُ مَنْ لَاذَنْبَ لَهُ ، لَعَلِمْتَ أَنِّي سَأُقْسِمُ عَلَى اللهِ ثُمَّ أَجِدُهُ سَرِيعَ الْإِجَابَةِ۔

ترجمہ : امام باقر اور امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ان کی طرف سے جو ہوا سو ہوا تو جناب فاطمہ نے عمر کا گریبان پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور کہا خدا کی قسم اے ابن خطاب اگر مجھے بے گناہ(شیر خوار) کا مصیبت میں پڑھنا نہ روکتا تو تو جان لیں تاکہ میں اللہ کو قسم دے دیتی اور وہ بہت جلد اسے قبول فرما لیتا ۔ (الکافی طبع دار الحدیث الشيخ الكليني جلد 2 صفحه 495 مطبوعہ دار الحديث للطباعة والنشر المطبعة دار الحديث)


حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا ایک جائز اور مشروع کام پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے غضبناک ہو کر میکے چلی گئی


کتاب علل الشرائع و بشارة مصطفی و خوازمی میں حضرت ابن عباس اور ابو ذر سے روایت ہے کہ جب جعفر طیار حبشہ میں تھے تو ان کےلیے ایک لونڈی ہدیہ کے طور پر بھیجی گئی جس کی قیمت چار ہزار درہم تھی جب جعفر مدینہ آئے تو وہی بطور ہدیہ حضرت علی کو دے دیں اس نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت کی ایک دن حضرت فاطمہ زہرا کا گھر آئی تو دیکھا کے حضرت علی کا سر اس لونڈی کے دامن میں رکھا ہوا ہے یہ حالت دیکھ کر غصہ آیا تو پوچھا کیا کچھ کام بھی کیا ہے حضرت علی نے کہا اے پیغمبر خدا کی بیٹی خدا کی قسم کچھ نہیں کیا اب تم جو کچھ کہنا چاہتی ہو کہو کہا مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے والد بزرگوار کے گھر جاؤں امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اجازت دے دی حضرت فاطمہ نے چادر کا پردہ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر روانہ ہو گئیں ان کے پہنچنے سے پہلے جبریل آئے اور اللہ کا سلام دیا اور کہا کہ ابھی فاطمہ آپ کے پاس پہنچنا ہی چاہتی ہے اور علی کی شکایت کرے گی اس کی کوئی بات نہ قبول کرنا ۔ (جلاء العیون جلد 1 صفحہ 196 زندگانی فاطمہ الزہرہ مطبوعۃ تہران)


سیدہ رضی اللہ عنہا کی شب زفاف کو ستر ہزار فرشتوں نے تکبیر کہی


جب شب زفاف آئی جبرائیل و میکائیل و اسرافیل مع ستر ہزار فرشتوں کے زمین پر آئے اور دلدل جناب فاطمہ کے لیے لائے جبرائیل نے لگام اس کی پکڑی اور اسرافیل نے رکاب تھامی اور میکائیل پہلو دال میں تھے اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جامہاے فاطمہ دست مبارک سے تھامے ہوئے تھے پس جبرائیل و میکائیل و اسرافیل و جمیع ملائکہ نے تکبیر کہی اور تکبیر کہنا سنت شب زفاف ہوا ۔ (جلاءالعیون جلد 1 صفحہ 193 شرح شب زفآف و نثار بہشتی مطبوعہ تہران)(جلاء العیون ترجمہ اردو جلد 1 صفحہ 250 مطبوعہ شیعہ جنرل بک ایجنسی)


شب زفاف حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کو اپنے آنے سے پہلے مخصوص کام کرنے سے منع کر دیا


ایضا بسند حسن جناب صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ حلال چیز بیان کرنے میں غیرت نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب زفاف حضرت علی اور حضرت فاطمہ سے فرمایا کہ جب تک میں نہ آؤں کام نہ کرنا ۔ (جلاءالعیون جلد 1 صفحہ 194 مطبوعہ تہران زندگانی فاطمہ زہراء علیہا السلام)۔(جلاءالعیون اردو ترجمہ جلد 1 صفحہ 251 مطبوعہ شیعہ جنرل بک ایجنسی،چشتی)


شیعہ محقق لکھتا ہے : پس جب ارادہ تزویج فاطمہ ہمراہ علی رضی اللہ عنہما ہوا، جناب فاطمہ سے پنہاں حضرت نے بیان کیا ، جناب فاطمہ نے کہا کہ میرا آپ کو اختیار ہے ، لیکن زنان قریش کہتی ہیں کہ علی بزرگ شکم اور بلند دست ہے اور بند ہائے استخوان پراگندہ ہیں ، آگے سر کے بال نہیں آنکھیں بڑی اور ہمیشی خندہ دہاں اور مفلس ہیں ۔ (جلال العیون صفحہ 130،چشتی)(بحار الانوار جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 131)


سوچنے کی بات یہ ہے کیا واقعی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ایسی بازاری گفتگو کر سکتی ہیں؟  کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اللہ عزوجل نے جسمانی طور پر بدنما بنایا تھا ؟ معاذاللہ ثم معاذاللہ ۔


اس سے بڑھ کر بھی حضرت سیدہ بتول اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کی توہین ہو سکتی ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ ایسی نام نہاد محبت سے خدا کی پناہ :


ترااژدھا گر بود یار غار

ازاں بہ کہ جاہل بودو غم گسار


یہ ہے شیعہ کے دعووں کی حقیقت کہ ہم لوگ محبان اہل بیت ہیں اور ثقلین ( قرآن اور اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ماننے والے ہیں ۔


آپ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حضرت علی کو جماع کرنے کی نصیحت یعنی سسر کی داماد کو جماع کرنے کی نصیحت : ⬇


1 ۔ ياعلی شب دو شنبہ کو جماع کرنا اگر بچہ پیدا ہوا تو قرآن کا حافظ اور خدا کی نعمتوں پر راضی و شاکر ہوگا ۔

2 ۔ یاعلی اگر تم شب سہ شنبہ کو جماع کیا اور جو بچہ پیدا ہوگا وہ اسلام کی سعادت حاصل کرنے کے علاوہ رتبہ شہادت بھی پائے گا منہ سے اس کے خوشبو آتی ہوگی دل اس کا رحم سے پر ہوگا ہاتھ کا وہ سخی ہوگا اور زبان اس کی غیبت وافترام و بہتان سے پاک ہوگی ۔

3 ۔ یا علی اگر تم شب پنجشنبہ جماع کرو گے تو جو بچہ پیدا ہوگا حاکم شریعت ہوگا یا عالم ۔

4 ۔ اور اگر روز پنجشنبہ ٹھیک دوپیر کے وقت جماع کرو گے تو آخری دم تک شیطان اس کے پاس نہ بھٹکے گا اور خدا اس کو دین و دنیاں کی سلامتی عطا فرمائے گا ۔

5 ۔ یاعلی اگر تم نے شب جمعہ کو جماع کیا تو بچہ پیدا ہوگا وہ فصاحت بیانی اور شیریں زبان میں مشہور ہوگا اور کوئی خطیب اس کی ہمسری نہ کر سکے گا ۔

6 ۔ اور اگر روز جمعہ بعد نماز عصر جماع کیا تو جو بچہ پیدا ہوگا وہ عقلائے زمانہ میں شمار ہوگا ۔

7 ۔ اگر شب جمعہ بعد نمازے عشاء جماع کیا تو امید ہے جو بچہ پیدا ہوا وہ ابدال میں شمار ہو ۔

8 ۔ یاعلی شب کی پہلی ساعت میں جماع نا کرنا کیونکہ اگر بچہ پیدا ہوا تو شاید جادوگر ہو اور دنیاں کو آخرت پر اختیار کرے ،

یا علی یہ وصیتیں مجھ سے سیکھ لو جس طرح میں نے جبرائیل سے سیکھی ہیں ۔ (تہذیب الاسلام ملا باقر مجلسی صفحہ نمبر 133 تا 134)


بسند حسن جناب صادق  سے روایت کی ہے کہ حلال چیز بیان کرنے میں کوئی غیرت نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شب زفاف جناب علی رض اور جناب فاطمہ رض سے فرمایا جب تک میں نہ آلوں کام نہ کرنا جب حضرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے دونوں پاؤں دونوں صاحبوں کے رخت خواب میں درانہ فرمائے ۔ (جلاء العيون العلامة المجلسي جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ٢١١،چشتی)


کیا کوئی باپ اپنی بیٹی کے ساتھ ایسے کر سکتا ہے ؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں ایسی بات کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے ؟


رافضہ کی متعدد کتب میں یہ روایت موجود ہے : نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت تک نہیں سوتے تھے جب تک سیدہ فاطمہ کے چہرے یا “نعوذ باللہ” ان کے دونوں پستانوں کے درمیان پیار نہ کر لیتے ۔ (بحار الانوار جلد 43 صفحہ 78)


یہ ہے ان لوگوں کی اہل بیت سے محبت، شیعوں کی حالت مشرکین مکہ سے کم نہیں جنہوں نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا لیکن جب اپنے گھر بیٹی ہوتی تو موت پڑ جاتی ، ایسے ہی یہ بھی ہیں متعہ کی بات اور اس کی فضیلت میں ان کی رالیں ٹپکتی ہیں لیکن کوئی ان کی بیٹی مانگے تو جو تھوڑا غیرت مند ہو گا وہ تھوڑا جھجکے گا ضرور اور ایسے ہی کوئی رافضی کوشش تو کرے اپنی بیٹی کو اس جگہ پیار کرنے کی ۔ جس طرح ان بدبختوں نے لخت جگر پیمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف اس قسم کی باتیں منسوب کر رکھی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تمام اہلِ اسلام کو شیعہ رفضہ کے گستاخانہ عقاٸد و شر سے بچاۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔